گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے ’غیر ریاستی عناصر‘ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) جانے آنے کی اُوپر تلے اطلاعات، بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اگر مختلف ممالک کے ’ریاستی عناصر‘ متحرک ہوچکے ہیں، تو دوسری طرف ’غیر ریاستی عناصر‘ بھی میدان میں اتارے جا چکے ہیں۔
ماضی میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی اصطلاح صرف مسلح جنگجوؤں کے لیے استعمال ہوتی تھی جنھیں جنگی نوعیت کی ’پراکسیز‘ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب ان کی جگہ ’غیر جنگی پراکسیز‘ کے لیے غیر مسلح ’غیر ریاستی عناصر‘ کو متحرک کیے جانے کا رجحان غالب آ رہا ہے۔ یقیناً یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ بعض ریاستوں کے لیے وہ کام کر دکھاتے ہیں جو ریاستیں خود کریں تو انھیں کئی طرح کے رد عمل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں کافی زیادہ تعداد میں انسانی وسائل اور افرادی قوت کے علاوہ غیر حکومتی تنظیموں (NGO's)کی دستیابی ممکن ہو گئی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سرگرم ہونے والے یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ کون ہیں؟ انھیں کون متحرک کرتا ہے؟ اس بارے میں ذکر ذرا بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے اس غیر معمولی پیش رفت کا تذکرہ ضروری ہے جو مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے پس منظر میں ۲۰ برس کے بعد سعودی عرب نے اَز سر نو بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز [م:۲۳جنوری ۲۰۱۵ء] نے مشرق وسطیٰ میں ’امن‘ کی غرض سے ۲۰۰۲ء میں جو منصوبہ پیش کیا تھا، اس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے تمام عرب دنیا اور مسلم دنیا سمیت فلسطینیوں نے بھی اسی وقت تسلیم کیا تھا۔ جس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس سے مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی مداخلت کا امکان کم کیا جاسکتا تھا۔
یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے ہم نوا دیگر یورپی ممالک ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ (مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر) ہیں، بلکہ خود اسرائیل بھی ایسا ایک عنصر ہے، جس نے اس علاقے ہی کو نہیں، بلکہ پوری دُنیا کے امن کو دائو پر لگارکھا ہے۔ اس منظرنامے میں اسرائیل ایک اجنبی کاشت شدہ پودا ہے۔ اسے یورپی ممالک کی تلچھٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی قبضے کو یقینی بنانے کے لیے یہودی تنظیمیں، جنھیں آج کی اصطلاحات میں ’دہشت گرد‘ سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا، ان سے لے کر ناجائز قابض اسرائیلی ریاست کے حکمران بننے والے ابتدائی برسوں کے تقریباً سارے لوگ نہ صرف دہشت گرد یہودی تنظیموں کے عہدے دار تھے بلکہ سارے مشرق وسطیٰ کے لیے اجنبی بھی تھے۔
اسرائیل کی موجودہ آبادی میں ایک بڑی تعداد انھی یہودیوں پر مبنی ہے، جن کا آبائی علاقہ تو کوئی اور ہے، مگر قابض اسرائیلی اتھارٹی نے انھیں محض اس لیے لا کر فلسطین کی زمین میں بسا دیا کہ فلسطینی آبادی کا تناسب تبدیل کر سکے۔ نہ صرف یہ بلکہ فلسطینیوں کی شناخت بھی بدل سکے۔ رہی بات امریکا اور یورپی ممالک کی، تو وہ بھی اسرائیلی یہودیوں کی طرح ہی ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ ہیں۔ اس منظر نامے میں سعودی مملکت کا پیش کردہ ۲۰۰۲ء کا عرب امن منصوبہ ایک بہتر راستہ تلاش کرنے کی طرف لے جاسکتا ہے۔
مذکورہ سعودی امن فارمولے پر ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ کے علاوہ دوسرے تقریباً سبھی متعلقہ حلقوں کا کسی نہ کسی درجے میں اتفاق ہے، حتیٰ کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے رکن ممالک کا بھی اس پر اتفاق ہے۔ صرف امریکا، یورپ اور اسرائیل کا اس پر اتفاق نہیں تھا، اس لیے امریکا نے اپنا منصوبہ پیش کیا، جسے آج ’معاہدہ ابراہم‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ کیا وجہ ہوئی کہ امریکا نے سعودی عرب کا پیش کردہ ایک قسم کا امن منصوبہ اختیار کرنے یا اس کو آگے بڑھانے کے بجائے اپنا فارمولا پیش کر دیا، تو فطری سی بات ہے، اسے مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی عزائم اور اسرائیل نوازی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکے گا۔
اس کی ایک وجہ اس سے پہلے امریکی نگرانی میں ہونے والے ’کیمپ ڈیوڈ‘ اور ’اوسلو معاہدے‘ بھی ہیں کہ دونوں میں پیش نظر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل یا مشرق وسطیٰ میں پائے دار امن ہرگز نہ تھا بلکہ اسرائیل کا بچاؤ اور تحفظ تھا اور اسرائیلی بالادستی قائم کرنا تھی۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی سرگرمیاں دیکھ کر ہر ذی شعور کا ماتھا ضرور ٹھنکتا ہے۔سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کر اور ناراض کر کے خطے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جسے امریکا اور اسرائیل ’نارملائزیشن‘ کا نام دے رہے ہیں، اس سے کوئی بڑا تنازع اس خطے کے لیے جنم لے سکتا ہے۔
خطے کے ممالک کی غالب آبادی بشمول فلسطینی، جنھوں نے ۷۵ برس مشکلات ومصائب دیکھے ہیں، وہ بھی نارمل زندگی کی طرف آنے کا راستہ دیکھتے ہیں، جسے امریکی پشت پناہ نسل پرست صہیونیت حکومت باربار برباد کردیتی ہے۔ بلاشبہہ نارملائزیشن کی اگر کسی کے لیے ضرورت ہے تو وہ فلسطینی عوام ہیں، جنھیں ان کی سرزمین پر معمول کی زندگی کا حق ملنا چاہیے۔
صرف عربوں کو نہیں بلکہ پوری دُنیا کے دیگر ممالک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فلسطینی اگر مضطرب اور پریشان ہیں تو اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں اضطرابی ماحول کو جنم دیں گے۔ دُنیا بھر کے نقشے پر اسرائیل ایک ’ابنارمل‘ شناخت کا غاصب ملک ہے۔ اس کی آبادی کا بڑا حصہ غیرفطری طریقے سے جبری طور پر آباد کیا گیا ہے، جس سے نارملائزیشن کا مطالبہ تعجب انگیز ہے۔
اس دوران الجزائر نے بھی فلسطینی تنظیموں کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اکتوبر کے شروع میں ایک بار پھر فلسطینی باہمی اختلاف کے خاتمے کے لیے بیٹھیں گے۔
پھر دلچسپ یا حیران کن پیش رفت اور بھی منظر عام پر آئی ہے، جس میں پاکستان اور انڈونیشیا کا ذکر ہے اور اس اطلاع یا پیش رفت کا انکشاف اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے جن امور، واقعات یا اقدامات کا تعلق پاکستان کے حوالے سے ہوتا ہے، وہ خبریں عام طور پر غیر ملکی میڈیا میں پہلے آتی ہیں۔ بعدازاں پاکستان کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ان خبروں کی جگالی کرتا ہے۔
پاکستان کا دفتر خارجہ اور حکومت ہمیشہ اس کی گول مول سی روایتی تردید کرتے نظر آتے ہیں، ایک رٹی رٹائی طوطا کہانی کی طرح۔ جس پر اعتبار کریں تو نقصان، نہ کریں تو نقصان۔ اگرچہ حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی اسرائیلیوں سے ملاقاتوں کا فیض پا چکے ہیں۔
یروشلم پوسٹ کا انکشاف انڈونیشیا اور پاکستان کے شہریوں کے وفود کے حوالے سے ہے، جنھوں نے ستمبر ۲۰۲۲ء میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ انڈونیشیا اور پاکستان میں کئی شعبوں میں مماثلت ہے اور کئی باتیں مختلف ہیں۔ دونوں مسلم آبادی کے اعتبار سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر جکارتہ اور اسلام آباد، سعودی عرب کے علاوہ امریکا کے بھی بہت قریب ہیں۔ دونوں کے ہاں اپنے اپنے معاشی و دیگر مسائل رہتے ہیں۔ دونوں کے عوام سڑکوں پر قبلہ اوّل سے محبت کا اظہار فلک شگاف نعرے لگا کر کرتے ہیں۔
اس لیے ان دونوں کے ’وفود‘ کا ایک ہی وقت میں اسرائیل میں موجود ہونا اہم ہے۔ انڈونیشیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کس حد تک جا سکتا ہے؟ اس سوال سے زیادہ اہم پاکستان کا معاملہ ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان اور اس کے رہنے والوں کی سوچ کئی پہلوؤں سے اہم تر ہے۔ اور یہ ایک جوہری مسلم ملک بھی ہے۔ کیا یہ بھی فلسطینیوں کے لیے ’بروٹس‘ بننے جا رہا ہے؟
بار بار پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر ریاستی عناصر کے اسرائیل جانے آنے کی اطلاعات اور نت نئی باتیں اس معاملے میں مسلسل بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا محمد اجمل قادری صاحب سے لے کر میڈیا سے تعلق رکھنے والے احمد قریشی اور اب مشرف دور کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ اور نائب وزیر کے عہدے پر فائز رہنے والے نسیم اشرف کے ایک بڑے وفد کے ساتھ اسرائیل جانے کی خبر اہم ہے۔ افراد کے علاوہ ’بین المذاہب مکالمے‘ اور ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ جیسے فورم بھی مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے غیر ریاستی عناصر کے طور پر کُود چکے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سب کی کوششوں کا انتساب امریکا سے شروع ہو کر اسرائیل پر ختم ہوتا ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ سب براستہ امریکا ہی کیوں اسرائیل پہنچتے ہیں؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اسرائیل میں انھیں کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ خود پاکستان کی حکومت، ریاست اور ادارے ان کے بارے میں کبھی تشویش میں مبتلا نظر نہیں آتے ہیں، اور نہ کسی شک و شبہے میں پڑتے ہیں۔ کبھی کسی سے بازپُرس کی گئی اور نہ ڈی بریفنگ کے عمل سے گزارا گیا۔
سچ پوچھیں تو بدلے ہوئے زمانے میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی صورت میں یہ لوگ سفارتی رابطہ کاری اور برف پگھلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کا میڈیا بھی ایک بڑے ’نان سٹیٹ ایکٹر‘ کے طور پر اپنا ہوش ربا کام کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اہم ترین میڈیا ہاوسز پاکستانی عوام کے اعتقادات، نظریات، تصورات، رجحانات، معاملات اور مفادات سے الگ راستے پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی ان ’مین سٹریم‘ میڈیا ہاوسز کے خیالات اور معاملات کو اپنے سے دور سمجھنے لگے ہیں۔ یہ ابلاغی ادارے اور ان میں اہم قرار پانے والی کئی شخصیات سب غیر ریاستی عناصر کا رُوپ دھار چکے ہیں۔اس لیے یہ اسرائیل جائیں یا بھارت کے ساتھ ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کی چھاؤں میں کردار ادا کریں۔ مقصد اور منزل ان کی ایک ہی ہے کہ جو کام حکومت اور اس کے ادارے نہ کر سکیں، اس کام کے لیے یہ لوگ دستیاب ہیں۔