اسلام میں بندگیِ رب کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ خدمت خلق کا ہی دوسرا نام حقوق العباد ہے۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی، مؤمنانہ وصف ہے:
اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ۲۲ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ۲۳۠ۙ وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۲۴۠ۙ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۲۵ (المعارج ۷۰: ۲۲-۲۵﴾) مگر لوگ (اس عیب سے بچے ہوئے ہیں) ﴾ جو نماز پڑھنے والے ہیں، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں، جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔
حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یا خدمت خلق کے انکار کو قرآن کافرانہ عمل کے مشابہ قرار دیتا ہے:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۳ۭ (الماعون۱۰۷: ۱-۳) کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانے دینے پر نہیں اُکساتا۔
دکھاوے کی نماز پڑھنے والوں اور خسیس طبیعت لوگوں کو جو دوسروں کی معمولی سی خدمت بھی نہیں کرتے، قرآن تباہی کی دھمکی دیتا ہے:
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۴-۷) تو پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حقوق العباد میں خیانت کرنے والوں کے ایمان کی نفی فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، ﴿یہ تین بار فرمایا: ﴾ جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا سوجائے‘‘۔ اس نوعیت کی اور بھی کئی حدیثیں ہیں۔
درج بالا تمام آیات مکی ہیں۔ مکے میں مسلمانوں کو خدمت خلق کرنے کی بڑی تاکید کی گئی تھی۔ مکے میں عبادات اور حلال و حرام کی فہرست نازل فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حقوق العباد، خدمت خلق اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اہمیت سے واقف کرایا اور انھیں داعی کے کردار کا لازمی وصف قرار دیا۔ اس بات کو اُن دو پڑوسیوں کی مثال سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے جو ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ایک بیمار پڑ جائے تو وہ دوسرے کی پیش کردہ دوا بدگمانی اور شکوک کی بنا پر ہرگز استعمال نہیں کرے گا۔ البتہ اُن دونوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوں تو دونوں آنکھ بند کرکے ایک دوسرے پر اعتماد کریں گے۔ پس داعی کے اخلاق و کردار، صداقت و دیانت اور انسانیت نوازی سے مدعو اگر واقف اور متاثر ہو تو پھر جلد ہی وہ اس کی دعوت سے بھی متاثر ہوکر رہے گا۔
قرآن نے سابق انبیائے کرامؑ کی دعوتی جدوجہد کا جو نقشہ مسلمانوں کے سامنے بطور اُسوہ پیش کیا ہے، اس میں اَن تھک اور مسلسل دعوت، مشکلات اور ابتلائوں میں پہاڑ کی سی ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ خدمت خلق، انسانوں کو مختلف تکالیف اور پریشانیوں سے نجات دلانے اور سماجی مسائل کو حل کرنے کے اقدامات کا تذکرہ بہت زیادہ نمایاں ہے۔ مثلاً:
۱- حضرت ہودؑ قوم عاد کی طرف مبعوث کیے گئے تھے، جس میں شرک و بت پرستی کے علاوہ اُونچی اُونچی عمارتیں بنا کر اسراف اور فضول خرچی کے ذریعے اپنی شان و شوکت جتانے کی بڑی اخلاقی برائی تھی۔ حضرت ھودؑ نے ان دونوں بیماریوں کا علاج کرنے کی کوششیں بیک وقت کیں جن کا تذکرہ قرآن پاک کی سورۃ الشعراء کی آیات ۳۲ ۱ تا ۱۴۰میں تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے۔
۲- حضرت صالح ؑ کو قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا تھا جو پہاڑوں کی چٹانیں تراش کر ان میں بڑے بڑے محلات بناتی اور اُونچی اُونچی عمارتیں تعمیر کرتی تھی۔ حضرت صالح ؑنے اُس کے شرک و کفر کے علاوہ اُس فضول اور بے فیض کام پر بھی گرفت کی تھی۔ ملاحظہ ہو سورۃ الاعراف، آیات ۷۳ تا۷۹، سورۂ الشعراء آیات ۱۴۱ تا ۱۵۹۔
۳- حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو ہم جنسی کی بدترین اخلاقی پستی سے نکالنے کی بھرپور کوششیں کی تھیں۔ قرآن میں جہاں جہاں آپؑ کی دعوتی کوششوں کا تذکرہ ہے وہاں وہاں سماج کو اُس قبیح عادت سے چھٹکارا دلانے کی جدوجہد کا ذکر بھی لازماً کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے سورۂ اعراف آیات :۷۹ تا ۸۴،سورۂ ھود آیات :۷۷ تا ۸۳، سورۂ حجر آیات:۵۸ تا۷۷، سورۂ انبیاء آیات: ۷۳ تا۷۵،سورۂ شعراءآیات:۱۶۰ تا۱۷۵ ، سورۂ نمل آیات:۵۴ تا۵۸، سورۂ عنکبوت آیات:۲۸تا ۳۵۔
۴-حضرت شعیبؑ کی قوم میں ناپ تول میں بے ایمانی اور سنسان راستوں پر لوٹ مار کرنے کی بیماریاں تھیں۔بعض مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت شعیبؑ دو قوموں کی طرف بھیجے گئے تھے: اہل مدین اور اصحاب الایکہ ﴿ (تفہیم القرآن جلد ۵، تفسیر سورۂ شعراء آیت :۱۷۶ )۔آپؑ نے اپنی دعوتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اُن سماجی بیماریوں کی اصلاح کی بھی کوششیں فرمائی تھیں، جن کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو: سورۂ اعراف آیات:۸۵تا۸۷ ، سورۂ ھود آیات:۸۴تا ۹۵، سورۂ شعراء آیات:۱۷۶تا ۱۹۱ ، سورۂ عنکبوت آیات :۳۶، ۳۷۔
۵- حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ کو مصر کے قبطیوں اور ان کے بادشاہ فرعون کے کفر و شرک اور ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کراکے ان کی اصلاح کا کام بھی انھیں انجام دینا تھا۔ حضرات موسیؑ و ہارونؑ کی جدوجہد قرآن میں بہت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔
۶- حضرت یوسفؑ نے خدمت خلق کا بڑا جامع منصوبہ بنایا۔ آپؑ کی تدبیر سے مصر و عراق اور آس پاس کے ملکوں کی ایک بہت بڑی آبادی سات سالہ قحط کی ہلاکت سے محفوظ رہی تھی۔ قحط سے قبل آپ نے سات سالوں تک غلے کی بچت کرکے اس کا بڑا ذخیرہ محفوظ کرلیا تھا۔
۷-حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمانؑ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی تھے، جن کے ذمے اپنی رعایا اور اطراف میں رہنے والے انسانوں کے لیے ایک رفاہی سلطنت کا قیام بھی تھا۔
قرآن کریم کی اِن تعلیمات اور آنحضورؐ کی اخلاقی تربیت سے صحابہ کرامؓ پر زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ آپؐ کی رہنمائی میں انھوںؓ نے دعوت دین، خدمت خلق اور حقوق اللہ کی ادائیگی کا زبردست کام انجام دیا اور اپنے معاشرے کے مسائل کو حل کیا۔ غلام آزاد کرائے، لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا، یتیموں ، کمزوروں، غلاموں ، خواتین ، مسافروں وغیرہ کے حقوق کا تحفظ کیا، عورتوں کا وقار بحال کرایا۔ شراب، جوا، فحاشی، عریانی، زناکاری، فریب دہی، چوری، لوٹ مار، قتل و غارت گری وغیرہ جرائم کا کُلّی استیصال کیاگیا۔ غریبوں ، بے سہاروں، یتیموں، بیوائوں، مطلقاؤں، مریضوں، مسافروں، غلاموں وغیرہ کے لیے مالی امداد کا زبردست ادارہ بیت المال اور دیگر رفاہی ادارے قائم کیے گئے۔
اسی انبیائی نمونے کااتباع موجودہ تحریکات اسلامی کررہی ہیں۔ پاکستان کے علاوہ مصر اور دیگر عرب و افریقی ممالک میں اخوان المسلمون ، فلسطین میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، ترکی میں مختلف پارٹیاں اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی، الجزائر میں الجمیعت الاسلامیہ وغیرہ نے دعوتِ دین کے ساتھ خدمت خلق کو اساس بنایاہے۔تحریکات اسلامی اپنے ممالک میں متبادل حکمراں طاقت کے طور پر سامنے آئی ہیں۔جماعت اسلامی ہند ابتدا ہی سے اپنی پالیسی میں خدمتِ خلق کو نمایاں اہمیت دیتی رہی ہے اور سنجیدگی سے اس پرعمل پیرا ہے۔ مزید بہتری اور تیزی لانے کے لیے وہ اپنے متوسلین کی مسلسل تربیت بھی کررہی ہے۔
دعوتِ دین کا کام کرنے والی تمام تنظیموں اور افراد کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ مسائل کے شکار عوام کو محض وعظ ونصیحت کرنا مفید ثابت نہ ہوگا۔ ضرورت ہے کہ انبیائے کرامؑ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ہم عوام کے مسائل کو بھی حل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کریں۔ انھیں پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات دلانے کی جدوجہد کریں۔ ہمارا عمل گواہ ہوکہ ہم انسانیت کے حقیقی خیرخواہ ہیں۔ ایسی صورت میں ان شاء اللہ حالات بڑی تیزی سے اسلام کی دعوت کے حق میں تبدیل ہوجائیں گے۔