مسلمان معاشرہ اور سودی نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ دونوں بیک وقت چل نہیں سکتے۔ ایک کا وجود دوسرے کی نفی ہے، ایک کا غلبہ دوسرے کے لیے موت کا پیغام ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ جن افراد اور جن معاشروں پر سودی نظام کا غلبہ ہو وہ حقیقی خوش حالی سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ وہ معاشرے ھل من مزید کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور انسان انسان کا غم خوار اور دم ساز ہونے کے بجائے ایک دوسرے کا خون چُوسنے اور حق مارنے میں مشغول رہتا ہے، جب کہ قرآن ایسے افراد اور معاشرے کی مثال اس شخص سے دیتا ہے جسے شیطان نے چھوکر مخبوط الحواس کردیا ہو:كَـمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۰ۭ (البقرہ ۲: ۲۷۵)، اور جن کے خلاف خود اللہ نے اپنے اور اپنے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا ہو: فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۷۹)، وہ فرد اور معاشرہ کیسے چین کی زندگی گزار سکتا ہے جو مسلسل اللہ اور اس کے رسولؐ سے برسرِ جنگ ہو؟
سود کی قباحت اور ہولناکی کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو اندازِ بیان اختیار فرمایا ہے، اس کے بعد کسی صاحب ِ ایمان کے لیے یہ گنجایش نہیں رہتی کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس قاتلِ ایمان و ضمیر و اخوت کو گوارا کرسکے:
اگر آج ہم بصیرت کی نظرخود اپنے اردگرد ڈالیں اور اپنے ملک کی حالت کو دیکھیں تو مخبرصادق کی پیش گوئی ہمیں سو فی صد درست نظر آتی ہے اور اہلِ ایمان کو توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دیتی ہے کہ صرف یہی نجات کی راہ ہے۔
سود کے بارے میں پاکستانی قوم کے جذبات اور اس کی قیادتوں کے رویے میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ قائداعظمؒ نے پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح (جولائی ۱۹۴۸ء) کے موقع پر جو تقریر کی تھی، اس میں سود سے پاک مالیاتی نظام کو قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک ہرایک میں سودی نظام سے نجات کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل ۶۵-۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۹ء نے بار بار اس امر کا اظہار کیا کہ سود کو اس کی ہرشکل میں ختم کیا جائےاور متبادل نظام قائم کیا جائے لیکن برسرِاقتدار طبقوں نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے ۲۹ستمبر ۱۹۷۷ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو سود سے پاک نظام مرتب کرنے کا کام سونپا اور کونسل نے ۱۵ماہرین معاشیات و بنکاری کے تعاون سے نومبر ۱۹۷۸ء میں اپنی عبوری رپورٹ اور جون ۱۹۸۰ء میں مکمل رپورٹ پیش کی۔ انھی رپورٹوں کی روشنی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۰فروری ۱۹۷۹ء (۱۲ ربیع الاوّل) کو تین مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کا پہلا عملی اقدام کیا جس پر یکم جولائی ۱۹۷۹ء کو عمل ہوا۔ ۱۹۸۰ء سے دوسری اصلاحات کا آغاز کیا گیا جو لشتم پشتم ۱۹۸۴ء تک جاری رہیں۔
اس زمانے میں سودی نظام کے علَم بردار (ملکی اور غیرملکی دونوں) اور دوسرے مفاد پرست عناصر ان اصلاحات کا حلیہ بگاڑنے اور گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے اور بالآخر ۱۹۸۵ء سے عملاً ان تمام اقدامات کو غیرمؤثر کر دیا گیا جن کا آغاز ۱۹۷۹ء سے ہوا تھا۔ اس جوابی تحریک کو ۱۹۹۰ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے برسرِاقتدار آنے پر چیلنج کیا گیا اور شریعت کی بالادستی کے مطالبے نے زور پکڑا۔ تب وزیراعظم نوازشریف صاحب نے خودانحصاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی اور اس نے راقم کی سربراہی میں کام کیا تھا۔ اس نے اپریل ۱۹۹۱ء میں ایک رپورٹ پیش کی اور ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی تعلقات کو سود سے پاک کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی اور نقشۂ عمل پیش کیا۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے دس سال کی بے اختیاری کے بعد اختیارات بحال ہونے پر دسمبر ۱۹۹۱ء میں ایک تاریخی فیصلہ دیا جس کے تحت سود پر مبنی ۲۰قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا اور حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی کہ متبادل قانون سازی کرے، لیکن حکومت نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور دوسری طرف خودانحصاری رپورٹ کو طاق نسیاں کی نذر کر دیا۔
ہمارے ہاں یہ عجیب منطق ہے کہ پالیسی سازی اور متبادل راستوں کے لیے حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سارے ضابطوں کو معطل کرکے چند گھنٹے میں لائحہ عمل تجویز کرلیتی ہے۔ لیکن سود سے نجات ہی ایک ایسا معاملہ ہے جس میں حکومت یہ بہانے تراشتی ہے کہ اس کی اصل ذمہ داری حکومت کی نہیں بلکہ قوم کی ہے کہ وہ حکومت کو بنا بنایا کوئی متبادل نظام لا کر دے تاکہ وہ حرکت کے لائق ہوسکے!
دراصل بیماری کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ حکومت اور اختیار رکھنے والے سارے ادارے اس اہم معاملے پر اپنی ذمہ داری کو نہ صرف یہ کہ محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ بڑی چابک دستی سے ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ملک کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجوں کے بارے میں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائیں، وسائل حاصل کریں اور ضروری عملی اقدامات کریں، اسی طرح سود کے مسئلے کے بارے میں بھی اصل ذمہ داری اربابِ اقتدار ہی کی ہے اور اس بارے میں کسی راہِ فرار کی گنجایش نہیں۔
ہمیں عدالت کے اس فیصلے پر سخت حیرت ہوئی، جس میں ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کو یہ قرار دیا گیا کہ پانچ سال کی مدت میں سود کے خاتمے پر مبنی معیشت کھڑی کی جائے، یعنی فاضل جج یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ کام اس طرح کرنے جارہے ہیں جیسے کسی نئے کام کا آغاز کیا جارہا ہو اور سادہ کاغذ پر کسی نئی تحریر کا مرحلہ درپیش ہو۔ بلاشبہہ یہ کام بہت اہم ہے اور ہمہ پہلو بھی، لیکن یہ تاثر کہ کوئی متبادل موجود نہیں ہے اور اسلامی نظامِ معیشت کے قیام کا مطالبہ کسی خلا میں کیا جارہا ہے محض کم علمی ہے، یا صریح دھوکا دہی۔
آج بلاسود متبادل محض کوئی خیالی شے نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۷۰برسوں میں اس سلسلے میں اتنا کام ہوا ہے کہ اگر کوئی مخلص اور اہل قیادت نئے نظام کے قیام کا عزم اور ارادہ رکھتی ہو تو ایک دن کی تاخیر کیے بغیر مؤثر اقدام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ بلاشبہہ نیا نظام قائم کرنے میں وقت لگے گا اور تبدیلی کا عمل تدریج اور مناسب حکمت عملی ہی سے انجام دیا جائے گا مگر آج اصل رکاوٹ فکری کام کی کمی یا متبادل نقشۂ کار کی عدم موجودگی نہیں، قیادت میں ایمان اور سیاسی عزم و ارادے کی کمی ہے۔ ہم یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے (اللہ تعالیٰ ہمیں ہر تعصب اور جانب داری سے محفوظ رکھے)۔
راقم پچھلے ۶۰برسوں سے ذاتی طور پر ان کوششوں سے وابستہ رہا ہے جو اس سلسلے میں ہوئی ہیں اور اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بناپر یہ بات کہہ رہا ہوں، کہ اصل رکاوٹ کسی متبادل ماڈل کی کمی نہیں ہے۔ راستہ صاف ہے اور اب تو دوسروں کے عملی نقوش بھی موجود ہیں۔ اصل ضرورت منزل کے شعور اور چلنے کے ارادے اور ہمت کی ہے اور ہماری قیادتوں کا اصل مرض بھی یہی ہے کہ نہ فکرونظر کے اسلامی اسلوب کو انھوں نے شعوری طور پر اپنایا ہے اور نہ ان میں وہ جرأت اورعزم ہے جس کی بنا پر انسان دُنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر اپنےاصل اہداف کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف ذہنوں پر مغرب کے افکار کا غلبہ ہے تو دوسری طرف مفاد پرست عناصر اور عالمی ساہوکاری نظام کے کارپردازوں کا گھیرائو ہے جو ذہنوں کو مسموم کرنے اور کمزور ارادہ لوگوں کے قدموں کو متزلزل کرنے میں مصروف ہے اور ہمارے اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے:
ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
ضرورت اس امر کی ہے کہ دماغ میں جو بُت خانے آباد ہیں ان کو توڑا جائے اور دل و نگاہ کی مسلمانی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
ایک مغالطہ جو مختلف انداز میں بار بار دیا جاتا ہے وہ سود کے تصور کے بارے میں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے بھی سرکاری وکیلوں نے اس مسئلے کو اُٹھایا اور سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی اس میں بھی اس بات کو شامل کیا گیا، یعنی یہ کہ کیا بنک کا سود ربا کی تعریف میں آتا ہے؟
ہم اس بات کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں عرب دُنیا، برعظیم اور جنوب مشرقی ایشیا میں دورِ غلامی میں جو بحثیں اُٹھائی گئی تھیں آج وہ قصۂ پارینہ ہیں۔ الحمدللہ گذشتہ ۷۰برسوں میں اس موضوع پر ایسی سیرحاصل بحث ہوئی ہے کہ براہین قاطع کی بنیاد پر یہ بحث ایک اجماع پر منتج ہوچکی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرض کے مالی معاملات پر اصل سرمائے پر جو بھی متعین اضافہ پہلے سے طے ہو اور شرط معاہدے کا حصہ ہو وہ سود ہے، خواہ یہ قرض صرفی ضروریات کے لیے ہو، یا پیداواری مقصد کے لیے، فرد لے رہا ہو یا ادارہ، نجی ہو یا سرکاری، مہاجن ہو یا بنک اورانشورنس کمپنیوں کے ذریعے۔
اس پر پاکستان میں بھی اورعالمِ اسلام میں بھی مکمل اتفاق رائے ہے اورعلما اور ماہرین معاشیات دونوں اس پر متفق ہیں۔ اس لیے اس بحث کو اَزسرنو شروع کرنا علم اور خلوص پر مبنی نہیں بلکہ مسئلے کو اُلجھانے، تعویق میں ڈالنے یا دھوکا دینے کے مترادف ہے اور انسان اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا: يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۹ۭ (البقر ہ ۲:۹) ’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کےساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اِس کا شعور نہیں ہے‘‘۔
’اسلامی مشاورتی کونسل‘ نے اپنے ۳دسمبر ۱۹۶۹ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ:
اسلامی مشاورتی کونسل اس امر پر متفق ہے کہ ربا اپنی ہرصورت میں حرام ہے اور شرحِ سود کی بیشی اور کمی سود کی حُرمت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ افراد اور اداروں کے لین دین کی مندرجہ ذیل صورتوں پر مکمل غوروفکر کرنے کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ:
(الف) موجودہ بنکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان کاروباری لین دین اور قرضہ جات میں اصل رقم پر جو بڑھوتری لی یادی جاتی ہے وہ داخل ربا ہے۔
(ب) خزانے کی طرف سے مقداری مدت کے قرضے پر جو چھوٹ دی جاتی ہے وہ بھی داخلِ ربا ہے۔
(ج) سیونگ سرٹیفکیٹ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ ربا میں شامل ہے۔
(د) انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے ، وہ ربا میں شامل ہے۔
(ھ) پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے۔
(و) صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے جانے والے قرضوں پر بڑھوتری ربا میں شامل ہے۔ (Report on Consolidated Recommendations
on the "Islamic Economic System" Council of Islamic Ideology,
1983, pp 9-10)
بالکل یہی وہ پوزیشن ہے، جو اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے ماہرین معاشیات اور بنکاروں نے اپنی آخری رپورٹ میں اختیار کی ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر کی صدارت میں بنکاروں کی جس کمیٹی نےکام کیا اور ۱۹۸۰ء میں اپنی رپورٹ دی اس نے بھی یہی پوزیشن اختیار کی ہے۔ اس طرح ملک کے علما اور معاشی ماہرین اور بنکار اس پر متفق ہیں۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے اپنے دسمبر ۱۹۹۱ء کے تاریخی فیصلے میں اس پوزیشن پر مہرتصدیق ثبت کی جو حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔
یہی پوزیشن عالمی اداروں کی ہے۔ بھارت کے ’مجمع الفقہ الاسلامی‘ نے وہاں کے چوٹی کے علما کے سیمی نار میں جس آخری متفقہ رائے کا اظہار کیا، وہ یہ ہے:
سود خواہ ذاتی مصارف کے قرضوں پر لیا جائے یا تجارتی و کاروباری قرضوں پر، شریعت اسلامیہ کی نظر میں بہرحال حرام ہے۔ قرآن و سنت، اجماع و قیاس اور اُمت محمدیہ کا عملِ متوارث سب یہی بتاتے ہیں کہ حُرمت ربا کے بارے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ قرض لینے کا مقصد اور محرک کیا ہے؟ سود کی حُرمت پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا کہ شرح سود کم ہے یا زیادہ، مناسب حد تک کم ہے یا نامناسب حد تک زیادہ۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں صورتیں بہرحال حرام ہیں۔ (سہ ماہی بحث و نظر، پھلواری شریف، پٹنہ، شمارہ ۸جنوری تا مارچ ۱۹۹۰ء، ص ۱۳)
سرکاری سطح پر وزرائے خارجہ کی تنظیم کی قائم کردہ ’اسلامی فقہ اکیڈمی‘ نے بھی اس مسئلے پر دسمبر ۱۹۸۵ء میں غور کیا اور وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچی۔ فقہ اکیڈمی کی قرارداد نمبر۳ میں طے کیا گیا کہ بنکوں اور نظام بنکاری میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کے بارے میں:
۱- ان تمام قرضوں پر، جنھیں ایک مدت کے بعد ادا کیا جاتاہے، کوئی اضافہ (خواہ اس کا نام نفع ہی کیوں نہ ہو) اگر قرض دار اسے وقت پر ادا نہ کرسکے، یا کسی بھی قرض پر اضافہ یا نفع جسے قرض دینے کے وقت معاہدے کے حصے کے طور پر رکھا گیا ہو، دونوں ربا کی تعریف میں آتے ہیں اور شریعت میں حرام ہیں۔
۲- (سود کے بغیر) متبادل بنیادوں پر بنک قائم ہونے چاہییں، جو اسلامی احکام کے مطابق کام کریں اور معاشی سہولتیں فراہم کریں۔
۳- اکیڈمی تمام مسلم ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کام کرنے والے بنک قائم کریں تاکہ مسلمانوں کی تمام ضروریات ان کے ایمان کے مطابق پوری کی جاسکیں اور ان کے عمل اور دین میں عدم مطابقت نہ رہے۔
یہی وجہ ہے کہ خود آئی ایم ایف کے سرکاری کاغذات میں مسلمان اُمت کی جو پوزیشن اس مسئلے کے بارے میں بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے:’’مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری نظام کے مطالعے کا آغاز اس کی بنیادی اصطلاحات کی تعریف سے کیا جائے۔ ’ربا‘ ایک شرعی اصطلاح ہے جو زر کے استعمال پر پہلے سے طے شدہ اضافے سے عبارت ہے۔ ماضی میں اس امر پر نزاع ملتا ہے کہ ’ربا‘ سے مراد سود ہے یا یوژوری (Usury)، لیکن اب مسلمان اہلِ علم کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق سود کی ہرشکل پر ہوتا ہے اور اس کا مصداق محض مناسب سے زیادہ سود (excessive interest) نہیں۔ پس آگے کے مباحث میں ’ربا‘ اور ’سود‘ بطور مترادف استعمال کیے جائیں گے اور اسلامی نظام بنکاری کے معنی وہ نظام ہوگا جس میں سود کی ادائیگی یا وصولی ممنوع ہوگی، جب کہ ایک سودی یا روایتی بنک سے مراد وہ ادارہ ہوگا جس میں مالی فنڈ کے استعمال پر سود وصول کیا جاتا ہے، یا دیا جاتا ہے‘‘۔ (International Monetary Fund
Staff Papers, Vol xxxiii, No.1, March 1986, Islamic Interest-free Banking,
a Theoretical Analysis by Mohsin S. Khan, p 4-5(
ان علمی مباحث کا بے لاگ جائزہ اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ سود کے بارے میں جو سوالات اور شبہات اُٹھائے جاتے ہیں وہ غیرحقیقی ہیں اور قرآن و سنت نے سود کو اس کی ہرشکل میں حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ قدیم ساہوکاری کی شکل میں ہو یا جدید بنکاری کی، ضرورت مندوں کے صرفی قرضوں سے متعلق ہو یا تجارتی اور پیداآوری قرضوں سے، نجی دائرے میں ہو یا سرکاری، نیم سرکاری دائرے میں ، کم شرح پر ہو یا زیادہ شرح پر۔ یہ اتفاق رائے اُمت کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اور اب گڑے مُردے اُکھاڑنے کے بجائے سیدھے سبھائو ساری کوششیں اس امرپر مرکوز کرنی چاہییں کہ سود سے کیسے نجات پائی جائے اور متبادل نظام کے خدوخال کیا ہیں؟
علمی اور نظری میدان میں اس کامیابی کے ساتھ دوسری بڑی کامیابی جو پچھلے ۵۰ سال میں حاصل ہوئی ہے وہ بلاسود بنکاری کے اصول و ضوابط، نظامِ کار، مالیاتی آلات (Financial Instruments) اور سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں کی تجویز و تسوید ہے۔ اس سلسلے میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیقات کی گئی ہیں اور بڑی دِقّت نظر سے متبادل نظام کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں تو ۱۹۳۰ء اور ۴۰ کے عشروں میں ہوئی تھیں اور اس میں سب سے زیادہ راہ کشا کام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور باقرالصدر شہید نے کیا تھا۔ پھر جدید معاشیات کے ماہرین میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد عزیر، ڈاکٹر محمود ابوسعود نے ابتدائی کام کیا، جسے گذشتہ ۵۰برسوں میں محققین کی ایک ٹیم نے سنوارنے اور مزید آگے بڑھانے میں قابلِ قدر حصہ لیاہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمدنجار، ڈاکٹر ساحی محمود، ڈاکٹر عمرچھاپرا، ڈاکٹر صدیق ضریر، ڈاکٹر معبد جرحی، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر محمد انور، ڈاکٹر محمد فہیم خان، ڈاکٹر محمد عارف اور درجنوں اہلِ علم نے بڑی مفید خدمات انجام دیں۔ کم از کم چار درجن ایسی تحقیقی کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن میں نئے نظام کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے مصنّفین کو ’اسلامی ترقیاتی بنک کا ایوارڈ‘ اور ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ، جو معاشیات اور بنکاری کے ماہرین کی رپورٹ پر مبنی ہے، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں جو ۱۹۸۰ء میں پیش کی گئی تھی، پاکستان ہی نہیں کسی بھی جدید ملک کی داخلی معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا بڑا حقیقت پسندانہ ’نقشۂ کار‘ پیش کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے گورنر کی صدارت میں مرکزی بنک کی ایک کمیٹی نے بھی اسی موضوع پر ۱۹۸۱ء میں کام کیا اور اس کا دیا ہوا نقشہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے نقشے سے بہت قریب ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر مارچ ۱۹۸۱ء ہی میں ایک عالمی سیمی نار میں بحث ہوئی اور اس کی سفارشات کی بحیثیت مجموعی توثیق کی گئی، نیز مزید کچھ سفارشات کی گئیں جو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کی طرف سے Money and Banking in Islam کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس نے ایک ورکشاپ اس موضوع پر منعقد کی کہ سرکاری لین دین سے سود کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس ورکشاپ کی رپورٹ (Report of the Workshop on Elimination of Interest on Govt. Transactions) شائع ہوچکی ہے۔
اس کے بعد جون ۱۹۹۲ء میں ’کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی‘ نے اپنی عبوری رپورٹ بنکاری کو سود سے پاک کرنے کے بارے میں دی جسے ابھی تک شائع نہیں کیا گیا بلکہ قانون کے مطابق سینیٹ اور اسمبلی تک میں پیش نہیں کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ایک سیمی نار معیشت سے سود کو ختم کرنے کے بارے میں منعقد کیا، جس میں معاشیات اور بنکاری کے تقریباً ایک سو ماہرین نے شرکت کی۔ اس کی رُوداد کے بھی متعدد ایڈیشن ۱۹۹۴ء کے بعد Elimination of Riba from the Economy کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔
یہ سارا کام پاکستان کے حالات کی روشنی میں متبادل نظام کا ایک واضح خاکہ پیش کرتا ہے اور ہرشعبے کے لیے متبادل تجویز کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کے بارے میں بھی کام ہوا ہے۔ اس کے لیے مندرجہ بالا رپورٹ اور خودانحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں واضح رہنمائی موجود ہے، بلکہ ’خودانحصاری کمیٹی‘ کی رپورٹ میں تو ایک طرف اس قانون کا خاکہ موجود ہے جو اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار ہے اور دوسری طرف باقاعدہ Econometric Model کی مدد سے تین سال میں معیشت سے سود کو ختم کرنے کا پورا پروگرام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ متبادل نظام کا مطالبہ کرنے والے نہ ان چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر ان کے ذہنوں میں ان پیش کردہ خطوط کے بارے میں کوئی اعتراضات اور خدشات ہیں تو ان پر گفتگو نہیں کرتے جس سے ان کی عدم توجہی اور غیرسنجیدگی کا پتا چلتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس تمام کام میں جو سفارشات کی گئی ہیں وہ ان کے ذوق یا خواہش کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے وہ ان باتوں کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں اور رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ متبادل کہاں ہے؟
ہم نے اُوپر صرف اس کام کی طرف اشارہ کیا ہے جو پاکستان میں ہوا ہے، باقی مسلم ممالک میں بھی خصوصیت سے عرب دُنیا، ملایشیا، ترکیہ اور خود مغرب کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں جو کام اس وقت ان موضوعات پر ہوچکا ہے اور جسے مغرب کی جامعات نے بھی اعلیٰ تحقیقاتی کام شمار کیا ہے، اس کی فہرست اور تعارف ایک الگ مقالے کا محتاج ہے۔
بات صرف علمی کام اور نظری طور پر متبادل نظام کی نقشہ گری تک محدود نہیں ہے، الحمدللہ، پچھلے ۶۰برسوں میں بلاسود بنکاری محض ایک نظریہ نہیں رہی ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ ابھی بہت سا کام کرنا ہے اور بڑے مراحل طے کرنا ہیں، مگرجو کچھ حاصل کیا جاچکا ہے وہ اسلامی اصول بنکاری کا لوہا منوانے کے لیے کافی ہے۔ بالکل نچلی اور عوامی سطح پر تو بلاسودی انداز میں بچتوں کو جمع کرنے اور وسائل کی فراہمی کا کام ہمیشہ سے ہوتارہا ہے، انفرادی سطح ہی پر نہیں اداروں کی سطح پر بھی ہوتا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب نے حیدرآباد دکن میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کے تجربات پر تحقیقی کام کیا تھا اور دکھایا تھا کہ کس طرح کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری اس نظام کے ذریعے ہورہی تھی۔
پچھلے ۶۰برسوں میں جو تجربات ہوئے ہیں، ذیل میں ان کی چند مثالیں پیش کرتے ہوئے، ہمیں یہ دعویٰ نہیں کہ یہ بنک ہراعتبار سے معیاری اسلامی اپروچ پر استوارہیں، لیکن یہ بات بھی ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود ان بنکوں نے دُنیا کے سامنے یہ مثال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ بلاسودی بنکاری ممکن ہے۔ ان مثالوں میں چند کا تذکرہ یہ ہے:
lمصر کا ’مت غمر بنک‘ (Mit Ghamr Bank) ہے، جو ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۷ء تک شرعی اصولوں کے تحت اسلامی بنکاری کے ابتدائی تجربے کے طور پر کام کرتا رہا۔ دراصل صدرناصر نے سیاسی خطرات محسوس کرتے ہوئے اسے بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد ’ناصر سوشل بنک‘ (۱۹۷۱ء) کی شکل میں اس پروگرام کو نیا رُوپ دیا گیا۔ یہ ادارے نہایت کامیابی سے دس بارہ سال چلتے رہے جس پر مغرب کے محققین نے تحقیق کی اور انھیں کامیاب ابتدائی تجربات قرار دیا۔ (ملاحظہ ہو: T. Wholus Seharf: Arab of Islamic Banks: New Business Partners for Developing Countries، مطبوعہ پیرس، OECD، ۱۹۸۳ء)
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک بنکس کے سیکرٹری جنرل کی ایک رپورٹ (نومبر ۱۹۹۶ء، The Present State of Islamic Banks) کے مطابق اس وقت خلیجی کونسل کے ممالک میں ۱۷، بقیہ مشرق وسطیٰ میں ۲۲، افریقا میں ۳۰، جنوبی ایشیا میں ۴۷ اور یورپ اور امریکا میں چار بلاسودی بنک یا مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان بنکوں کا کُل سرمایہ ۶ بلین ڈالر ہے، ان میں موجود امانات (deposits) ۷۷ بلین ڈالر اور ان کے کُل اثاثے (assets ) ۱۶۶بلین ڈالر ہیں۔ سرمائے کی تقسیم کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کے بنکوں کا حصہ ۵۵ فی صد، خلیجی کونسل کے ممالک کا حصہ ۲۳ فی صد اور جنوب ایشیا کا ۱۵ فی صد ہے۔ ان بنکوں کی کُل شاخیں اس وقت ۲۱ہزار ہیں اور ان میں دو لاکھ ۷۱ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے operations کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے وسائل کا ۳۰ فی صد اندرونی تجارت، ۱۹ فی صد صنعت، ۱۳فی صد سروس سیکٹر، ۱۲ فی صد اراضی اور املاک، اور ۸ء۵ فی صد زراعت کی مالی ضروریات پورا کرنے پر صرف ہورہا ہے۔
ایوان ٹریور (Evan Traver) نے ۱۵مارچ ۲۰۲۲ء کو لکھا: ’’اس وقت ۵۲۰ بنک اور ۱۷ہزار میوچل فنڈز، اسلامی معاشی اصولوں کے تحت کسی نہ کسی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۹ء کےدرمیان ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر ان کا حجم ۲ء۸ ٹریلین ہوگیا۔ اور اندازہ ہے کہ ۲۰۲۴ء میں یہ ۳ء۷ ٹریلین تک پہنچ جائیں گے‘‘۔ (Investopedia)
کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان تجربات کی موجودگی میں ہمارے اربابِ سیاست متبادل نقشہ طلب کر رہے ہیں۔
تینوں اہم میدان:
تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن مختصراً سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو حکمت عملی ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور دوسرے اسلامی معاشیات کےماہرین نے پیش کی تھی، اس پر پہلے قدم (فروری ۱۹۷۹ء) کے بعد کوئی حقیقی پیش رفت نہ ہوسکی۔ ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور ہم سب کی تجویز یہ تھی کہ ایک متعین تدریج کے ساتھ بنکاری ہی نہیں، پوری معیشت کو سود سے پاک کیا جائے۔ سب سے پہلے ان اداروں سے آغاز ہو جن کے نظام کوفوراً تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ (NIT)، آئی سی پی کا میوچل فنڈ اور ’ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ (HBFC) کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے صنعت کے لیے Banker's Equityکے قیام کا منصوبہ دیا اور زرعی بنک، سمال انڈسٹریز کارپوریشن، کوآپریٹوز اور ان اداروں کو پابند کیا کہ چھوٹے کاشتکار، چھوٹے تاجر اور چھوٹی صنعت کو سرمایہ فراہم کریں، تاکہ بنیادی سطح (grass-root ) پر عام آدمی کو سب سے پہلے بلاسود سرمایہ کاری کی سہولت میسر ہوسکے، جس سے روزگار کے مواقع بھی عام آدمی کو میسر آسکیں گے اور غربت وافلاس کو دُور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
دوسرے مرحلے پر جسے ایک سال کے اندر شروع کرنے کا ہم نے منصوبہ پیش کیا تھا، اس میں سرکاری شعبے سےسود کو ختم کرنے کا لائحہ عمل دیا تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہماری رائے میں اصل ساہوکار مرکزی حکومت اور ایک حد تک صوبائی حکومتیں بن گئی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے جس سیکٹر کو سود سے پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ یہی سرکاری سیکٹر ہے۔ یہی بات اسلامی نظریاتی کونسل نے کہی تھی اور یہی موقف خودانحصاری کمیٹی کا تھا۔ لیکن اس سیکٹر کو نہ صرف یہ کہ اس پورے زمانے میں ہاتھ تک نہیں لگایا گیا بلکہ اس میں سودی کاروبار گذشتہ ۱۵سال میں دگنا اور تین گنا ہوگیا ہے۔
ہماری تجویز تھی کہ پہلے تجارتی بنکوں کی اصلاح ہو اور اس میں اصل توجہ اثاثہ جات (Bank Assets) کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے کی ہو، تاکہ سرمائے کے استعمال کی راہیں کھلیں اور سود سے پاک ہوکر کھلیں، جب کہ ڈیپازٹس کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا نسبتاً آسان تھا۔ حکومت نے ترتیب اُلٹ دی اور ساری توجہ ڈیپازٹس کے نظام کو بدلنے پر صرف کی اور اثاثہ جات کی اصلاح اور اس کے لیے جس قانونی ڈھانچے کی ضرورت تھی وہ نہ بنایا۔
ہماری تجویز تھی کہ کمپنی لا، ٹیکس کے نظام، کارپوریٹ لا اتھارٹی،اسٹاک ایکسچینج ان سب کو اس طرح تبدیل کیا جائے کہ نیا معاشی انفراسٹرکچر وجود میں آسکے۔ اس کے ساتھ ہی قانونی طور پر سود کو ختم کیا جائے۔ تمام تحفظات اور محرکات جو سود کو حاصل ہیں وہ نفع و نقصان پر مبنی سرمایہ کاری کو دیئے جائیں۔ بنک اور مالیاتی اداروں کے عاملین کی تربیت کے لیے مناسب ادارے قائم کیے جائیں اور مؤثر انتظامات کیے جائیں۔ نیز عوام کی تعلیم کا انتظام ہو، تاکہ حلال و حرام سے واقفیت ہو اور نئے نظام کے لیے عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔اسی طرح وطن عزیز میں اسلامی بنکاری کے عنوان سے جو اور جتنی پیش رفت ہورہی ہے، اس کو شریعت کی روشنی میں پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ اس کے اطلاقی پہلو کو شریعت کی بنیاد پر پختگی سے استوار کیا جائے، نہ کہ رسمی طور پر تذکرہ کیا جائے۔
اسٹیٹ بنک کو اس پورے کام میں ایک مرکزی کردارادا کرنا تھا لیکن حکومت نے ان میں سے کوئی اقدام نہ کیا۔ اصل اسکیم کو گڈمڈ کرکے تجارتی بنکوں میں PLS اکائونٹ کھولے اور مارک اَپ کے نام پر سود کو نئی زندگی عطا کردی۔ نیز حکومت پاکستان خود اس زمانے میں مسلسل سودی بانڈ اور سرٹیفکیٹ جاری کرتی رہی، ملک میں بھی اور زرمبادلہ کے لیے بھی، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، حتیٰ کہ ۱۹۹۷ء میں ’’قرض اُتارو، ملک سنوارو‘‘ اسکیم کے تحت حکومت نے جو قرضے حاصل کیے، ان کا ۹۰ فی صد بھی سودی بنیاد ہی پر تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل رکاوٹ اربابِ اقتدار کے فکرونظر کا بگاڑ اور ارادہ و عزم کی کمی ہے اور جب تک یہ درست نہ ہوں محض تجاویز اور متبادل صورتوں کے انبار لگانے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ سرکاری رپورٹوں، کمیشنوں اور کمیٹیوں کا تو یہ حال ہے کہ رپورٹیں موجود ہیں جن پر کوئی عمل نہیں ہوتا اور نئی کمیٹیاں قائم کر دی جاتی ہیں، اور اس بڑھیا کی طرح اپنی محنت ضائع کی جاتی ہے جو سوت کاتتی ہے اور پھراسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے: وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْكَاثًا۰ۭ (النحل ۱۶:۹۲)۔ بلاشبہہ تحقیقی کام کی بھی ضروت ہے اور عوام کی تعلیم و تربیت کی بھی، مردانِ کار کی ٹریننگ کا بھی انتظام ہونا چاہیے لیکن سب سے پہلے دل و نگاہ کی اصلاح اور مؤثر سیاسی عزم (Political Will) کی ضرورت ہے جن کے بغیر کوئی منزل سر نہیں کی جاسکتی۔
صرف عبرت کے لیے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے جو متبادل کا گلا کرتے ہیں اور حقائق سے صرفِ نظر، ایک اقتباس ورلڈ بنک کے ایک برادر ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی رپورٹ سے دے دوں جو میں نے خود انحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں بھی دیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک اسٹیج پر یہ عالمی مالیاتی ادارے اس امر پر غور کر رہے تھے کہ اگر پاکستان سود کو ختم کر دیتا ہے اور حقیقی اسلامی بنکاری اور سرمایہ کاری سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں، تو پھر وہ کس طرح اپنے معاملات کو اس سے ہم آہنگ کریں؟ لیکن داد دیں ہماری قیادت کو کہ اس نے ان کو یقین دلا دیا کہ اسلام کی باتیں صرف دل بہلانے کے لیے ہیں، عمل کے لیے نہیں، اس لیے ان کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو IFC کی رپورٹ نمبر IFC/P-587، مؤرخہ دسمبر ۱۹۸۷ء:
A change to Islamic modes of financing has been considered by IFC but this would be contrary to the Government (of Pakistan) intentions for foreign loans. Adoption by a foreign lender of Islamic instruments could be construed as undermining Governments policy to exempt foreign lender from this requisit.
انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے اسلامی سرمایہ کاری کے طریقوں کو اپنانے کے بارے میں غور کیا، لیکن یہ بیرونی قرضوں کے بارے میں حکومت (پاکستان) کے منشا کے خلاف ہوتا۔ اگر بیرونی قرضہ دینے والے اسلامی طریقے اور ذرائع اختیار کرتے ہیں تو اسے اس سرکاری پالیسی کو غتربود کرنے کی کوشش سمجھا جائے جس کے تحت بیرونی قرض دینے والوں کو ان (اسلامی) مطالبات سے مستثنیٰ رکھا جارہا ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے بورڈ آف گورنرز تو پاکستان کے دستور کی اسلامی دفعات خصوصیت سے، وفاقی شرعی عدالت سے، سود کے بارے میں اختیارات کی تحدید کے ختم ہونے کے امکان کی روشنی میں اپنے رویے میں تبدیلی کے لیے فکرمند ہے، مگر ہمارے سرکاری حکام ان کو تسلی دیتے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں، ہم دستور کو بھی بدل دیں گے:
We have been advised by senior Government officials that steps will be taken to rectify this situation in all probability.
ہمیں سینیرسرکاری افسروں کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ پورا امکان ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا ذہن اور کردار۔ ہمیں ہوّا دکھایا جاتا ہے کہ بیرونی مالیاتی ادارے ہمارا حقّہ پانی بند کردیں گے اور ملک تباہ ہوجائے گا اور اگر وہ اسلامی بنکاری کے اصولوں کو اختیار کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو روک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دستور میں بھی ترمیم کرڈالی جائے گی مگر سود کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دیں گے، وہ شیرمادر کی طرح حلال اور رواں رہے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ، اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو اور اس جنگ کے نتیجے میں صرف یہی تباہ نہیں ہورہے، پورا ملک اور پوری قوم عذاب میں مبتلا ہے۔
ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ پہلے خلوصِ دل سےاللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اس جنگ کو بند کرنے کااعلان کرو۔ سیزفائر کے بغیر کسی اور اقدام کا کیا سوال؟ ایک محفوظ اور مستقل راستہ تو دستور میں ترمیم ہے، مگر دستوری ترمیم تو نہ کی جاسکی، البتہ اس کے بالکل اُلٹ وفاقی شرعی عدالت کےفیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی گئی۔ طویل عرصے بعد وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ سنایا تو پھردوبارہ بنکوں کی جانب سے اپیل کرا دی گئی۔
یہ ایک بڑا ہی سفاکانہ کھیل ہے، جسے حکمران اور دولت مند طبقے کھیل رہے ہیں۔ انھیں آخرت کی جواب دہی کا خیال کرنا چاہیے اور ہم وطنوں پر معاشی ظلم و ستم کی حکمرانی کو ترک کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ غلطی اورفروگزاشت کو معاف کرنے میں بڑا غفور و رحیم ہے لیکن بغاوت اور سرکشی کے باب میں اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہے: اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ۱۲ۭ (البروج ۸۵:۱۲)۔ آیئے، بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں، پھر ہرمشکل آسان ہوجائے گی اورہربند دروازہ کھل جائے گا۔