اسلامی علوم وفنون کی تدوینِ نو کا کام ایک ہمہ پہلو تعلیمی اور فکری جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جدوجہد میں بعض نئے مسائل پر اجتہادی نقطۂ نظر سے غور وخوض بھی شامل ہے اور بعض اجتہادی آراء پر اَزسرنو ناقدانہ نظر ثانی بھی ناگزیر ہے۔ دور جدید نے بعض ایسے مسائل ومعاملات ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں، جو سلف کے سامنے نہیں تھے۔ اس لیے ماضی میں مجتہدین اُمت اور مفکرین اسلام کو ان پر کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
آج دنیا کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہو، جہاں مسلم تنظیمیں فعال نہ ہوں، جہاں مسجدیں اور اسلامی مراکز ترقی نہ کر رہے ہوں، جہاں قدیم اور جدید مسلمانوں کے مابین ربط و ضبط [Interaction] نہ ہو رہا ہو۔ ان شہروں میں تیزی سے پھیلنے والی مسلم آبادیاں اپنے آپ کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر منظم کر رہی ہیں۔ مشرق ومغرب کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلم نوجوان اپنے تشخص کا تحفظ اور اپنی شخصیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ان کو نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسلامی شریعت کی رُو سے ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ان سب سوالات کا شافی جواب آج کے اہل علم کے ذمے ایک قرض اور فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں یہ صورت حال اتنی شدید اور وسیع نہیں تھی جتنی آج ہو چکی ہے۔ اس کی شدت اور وسعت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہرآنے والا دن ایک نیا مسئلہ لے کر طلوع ہوتا ہے۔
ہماری قدیم فقہی کتابیں، مسلمانوں کے دور عروج میں مرتب ہوئیں۔ مجتہدینِ اسلام نے اسلامی ریاست، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت، اسلامی معاشرہ اور اسلامی زندگی کے ایسے مسائل اور ان کے ممکنہ حل تو نہایت باریک بینی اور توجہ کا موضوع بنانے سے مرتب کر دیے، جو مسلمانوں کو اپنے دور عروج میں پیش آئے، یا جن سے مسلمانوں کو مسلم ماحول میں واسطہ پڑتا ہے۔ رہے وہ مسائل جو ایک مسلم اقلیت کو پیش آسکتے تھے، یا غلامی کی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو پیش آسکتے تھے، انھیں فقہائے اسلام کو زیادہ توجہ کا موضوع بنانے کا نہ موقع ملا، اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی۔
اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مسلمانوں کو سیاسی زوال کا سامنا کرنا پڑا تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی فقہ بھی ایک طرح کے تعطل کا شکار ہوکر جمود کے دورِ انحطاط سے گزر رہی تھی۔ اجتہاد کا سلسلہ تقریباً بند ہو چکا تھا اور علمائے اسلام عام طور سے دورِ انحطاط میں لکھی ہوئی فقہی کتابوں اور متون کی شرحوں اور حاشیوں کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مغربی ممالک میں جا کر بسنے والے مسلمانوں کی رہنمائی کا کوئی خاص سامان فراہم نہ ہوا، جس کے نتیجے میں یہ لوگ مختلف مغربی معاشروں میں جا جا کر گم ہوتے رہے۔ آج نئی تحقیقات اور تاریخی اکتشافات سے ان لاتعداد مسلم آبادیوں کا پتہ چل رہا ہے جو امریکا، آسٹریلیا، برازیل اور ارجنٹائن جیسے بڑے ممالک کے سمندروں میں گم ہو گئیں۔ اگر اٹھارھویں صدی کے اوائل ہی سے کسی ’فقہ الاقلیات‘ پر غور وخوض کی داغ بیل ڈال دی جاتی، اور ایسے غیر موافقانہ ماحول میں مسلم وجود کے احکام پہلے سے مرتب شدہ موجود ہوتے، تو شاید یہ مسلمان آبادیاں یوں آسانی اور تیزی سے وہاں گم نہ ہوتیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ آج فقہائے اسلام اور علمائے اُمت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں پیش آنے والے سوالات اور نت نئی مشکلات کا ایسا قابل عمل حل پیش کریں، جو غیر مسلم ماحول میں مسلم وجود کے تحفظ اور بقا کا ضامن ہو۔
اس بات کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ فقہائے اسلام نے آج سے کم وبیش ایک ہزار دو سو سال قبل ’دار الاسلام‘، ’دار الحرب‘ اور ’دار الصلح‘ وغیرہ کی جو حد بندیاں تجویز کی تھیں، وہ آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ خود فقہائے اسلام کو ابتدائی دو تین صدیوں میں ہی ان تقسیمات پر کئی بار اَزسرنو غور وخوض کرنا پڑا۔ دوسری صدی ہجری کے نصف اول کے زمینی حقائق کی روشنی میں امام ابو حنیفہؒ (م: ۱۵۰ھ) کے فہم اسلام کی رُو سے روئے زمین کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تھے، یعنی دار الحرب اور دار الاسلام۔ لیکن جلد ہی امام شافعیؒ (م: ۲۰۴ھ) بلکہ خود امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں کو اس تقسیم پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انھوں نے ’دارالاسلام‘ اور ’دار الحرب‘ کی دوگانہ تقسیم کے مابین ’دار العہد‘ اور ’دار الصلح‘ کی درمیانی تقسیمیں تجویز کرنا ضروری سمجھا۔ کچھ اور بعد کے فقہا نے ’دار العدل‘، ’دار البغی‘ اور ایسی ہی دوسری تقسیموں کی ضرورت محسوس کی۔
آج کے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جدید زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام تقسیموں پر اَزسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کوئی ایک ملک نہ دنیا سے بالکلیہ لاتعلق ہو کر رہ سکتا ہے اور نہ کسی ملک سے تعلق کی وہ نوعیت ہو سکتی ہے جو فقہائے اسلام نے ’دار الحرب‘ کے حوالے سے سوچی تھی۔ یہاں تک کہ جن ممالک سے مسلمان عملاً برسرِ جنگ ہیں [مثال کے طور پر ہندستان، اسرائیل، روس اور امریکا] ان کو بھی کلی طور پر ’دارالحرب‘ قرار دینا اس لیے مشکل ہے کہ فقہائے اسلام نے اس وقت ’دار الحرب‘ کی جو شرائط بیان کی تھیں، ان میں سے کئی شرائط ان ممالک میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، جہاں مسلمانوں کی خود مختار حکومتیں بھی ہیں، جہاں انھیں مذہبی مراسم اور مذہبی تعلیم کی آزادی بھی حاصل ہے، لیکن وہ خود کو آئینی طور پر سیکولر ریاست قرار دیتے ہیں۔ ان کو شاید نہ دارالاسلام کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ غالباً ان کو ’دار الحرب‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ اور ا س طرح کے بہت سے مسائل ایسے ہیں، جن کے پیش نظر ایک نئی تقسیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور نصوص اور فقہائے اسلام کے متفق علیہ اجتہادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان حدود کا آسانی سے تعین کیا جا سکتا ہے، جن کے ذریعے سے جدید بین الاقوامی تعلقات اور میل جول کے معاملات کو نئے انداز سے منظم کیا جاسکے۔
۱- تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کا رویہ کیا ہوگا؟ پھر جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کے تحفظ اور بقا کے لیے مسلمانوں کو کس حد تک جانا چاہیے؟
۲- کیا اسلامی تہذیب کے مادی اور فنی مظاہر (تاج محل اور الحمرا وغیرہ) اسی طرح دفاع کے مستحق ہیں جس طرح اسلامی تہذیب کے فکری اور تعلیمی امتیازات (مثلاً اسلامی علوم اور اصول فقہ وغیرہ)؟
۳- تہذیبوں کی ممکنہ کشمکش میں مذاہب کی روایتی تقسیم (مذاہب اہل کتاب، شبہہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب) کی حیثیت کیا ہوگی اور اس تصادم کے دوران مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہوگی؟
۴- اس باب میں کیا مسلم حکومتوں، مسلم عوام اور مسلم اقلیتوں کی ذمہ داریوں کے مابین فرق کیا جائے گا؟
۵- اگر تہذیبی تصادم شروع ہوا تو دنیائے اسلام میں اس وقت قائم قومی ریاستوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور ان مسلم قومی ریاستوں اور تصور امت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کیا صورت ہوگی؟
۶- دنیائے اسلام کے وہ علاقے جہاں بہت سے لوگ خود کو مغربی تہذیب کا تسلسل قرار دیتے ہیں، ان کا طرز عمل اس تصادم کے دوران میں کیا ہونا چاہیے؟
۷- اور بڑا بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا ہمارے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں اس کی گنجایش ہے کہ ایسے اصحاب بصیرت پیدا ہو سکیں، جو اس طرح کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کر سکیں؟ بہرحال اس اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا کم از کم ایک بنیادی ہدف ایسے افراد کار کی تیاری بھی ہونا چاہیے۔
یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہیں، جو اجتہادی بصیرت کے متقاضی ہیں۔ ان سوالات کا جواب نہ محض فقہی اسلوبِ استدلال سے کام لے کر دیا جا سکتا ہے، اور نہ محض متکلمین اسلام کی تحریروں سے۔ اس کام کے لیے نہ صرف قرآن مجید پر گہری نظر اور پیغام قرآن میں گہری بصیرت کی ضرورت ہے بلکہ فکر اسلامی میں مہارت، تصوف اور کلام سے واقفیت اور تاریخِ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ جدید مغربی افکار بالخصوص فلسفہ، تاریخ اور معرکۂ مذہب وسائنس کی تاریخ اور نشیب وفراز سے ناقدانہ واقفیت بھی ضروری ہے۔
اس احساس نے، جس کی بنیادیں اخلاص اور دردمندی کے خمیر سے اٹھی تھیں، متعدد طاقت ور اسلامی تحریکات کو جنم دیا۔ ان تحریکوں کی صفوں سے بہت سے ایسے اہل قلم اور اربابِ صحافت سامنے آئے جنھوں نے ملت اسلامیہ کی نشاتِ ثانیہ کی لازمی شرط اور خشت اول کے طور پر اسلامی ریاست کے وجود کو لازمی قرار دیا اور یوں بیسویں صدی کے وسط سے لے کر آیندہ کم وبیش پچاس سال کے دوران میں یہ بحث معاصر اسلامی فکر کی شاید سب سے اہم بحث بن گئی، جس نے دنیائے اسلام میں مغربی تعلیم یافتہ نوجوانو ں کی ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا، اور اس طرح ’احیائے اسلام‘ اور ’اقامت دین‘ کی اصطلاحیں تاسیس ریاست کے مترادف بن گئیں۔
ان مباحث میں ’جہاد‘ اور’ دعوت‘ کی اصطلاحات بڑے پیمانے پر کلام و بیان کا حصہ بنیں، اور اکثر وبیشتر ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئیں حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں کے دو مختلف مراحل کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیم کی بنیادی روح ایمانِ کامل، تعلق مع اللہ اور اُخروی کامیابی کا حصول ہے۔ اسلام کا مزاج داعیانہ ہے، فاتحانہ نہیں۔ وہ سنگ وخشت کو فتح کرنے سے نہیں، قلب وروح کو فتح کرنے سے غرض رکھتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاصر حکمرانوں کو جتنے بھی دعوتی خطوط تحریر فرمائے، ان میں بہت سے مکتوبات میں یہ بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھی کہ ’’اگر تم اس پیغام کو قبول کر لو تو تمھاری حکومت برقرار رہے گی اور تمھارا اقتدار قائم رہے گا‘‘۔ اسلامی دعوت کی تاریخ میں یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ آغاز وحی سے لے کر ریاست مدینہ کے قیام اور سنہ ۲ ہجری میں ’میثاق مدینہ‘ کی تحریر وتدوین تک کا یہ سارا پندرہ سالہ عمل ایک انتہائی پُرامن تبدیلی کے مرحلے سے عبارت تھا۔ بغیر ایک قطرۂ خون بہائے اور تلوار ہاتھ میں لیے ایک مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست وجود میں آ گئی۔ جہاد بالسیف کی اجازت اس وقت دی گئی، جب اس ریاست پر بیرونی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعوت اور جہاد کے مابین اس نہایت اہم تاریخی ترتیب کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اصل، دعوت ہے اور جہاد بالسیف اس کا ایک ناگزیر مرحلہ۔ یوں بھی قرآن مجید کی متعلقہ نصوص کی رُو سے جہاد کی بہت سی قسموں: جہاد بالمال، جہاد بالقرآن، جہاد بالنفس کے ساتھ جہاد بالسیف بھی ایک مرحلہ ہے، اگرچہ وہ اپنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے بقیہ تمام مراحل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات میں جو مزاج تیار ہوا اور جو ادب سامنے آیا، اس میں دعوت اور جہاد کے ان مراحل اور ترتیب کا لحاظ رکھنے کی، کوئی شعوری کوشش نہ کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دعوت کا خالص نبویؐ اسلوب پس منظر میں چلا گیا اور سیاسی کشاکش اور سیاسی تنظیم نے اس کی جگہ لے لی۔ سیاسی سرگرمیوں کا یہ انداز خالص دعوتی انداز سے چونکہ خاصا مختلف تھا، اس لیے جب ان سرگرمیوں کو دینی مکالمے اور دینی محاورے میں بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، تو اس میں جہاد کی اصطلاح زیادہ موزوں اور قریب الفہم محسوس ہوئی۔ اس لیے اس کو بلاتکلف استعمال کیا جانے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کے وہ لازمی شرائط جو جہاد بالسیف کے ساتھ خاص ہیں، روزہ مرہ کے سیاسی عمل کا لازمی حصہ سمجھی جانے لگیں اور یوں بعض جگہ دینی تحریکات کے پُرجوش کارکنوں کے ذہنوں میں مغربی انداز کا سیاسی عمل ایک مجاہدانہ سرگرمی بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس میں شدت پیدا ہوتی گئی تو اس کا اظہار شدت پسندانہ انداز میں ہونے لگا۔
ان حالات میں مسلمان اہل علم اور مفکرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاد اور دعوت کے گرد گھومنے والے اس علم کلام کا ازسرنو جائزہ لیں اور یہ واضح کریں کہ دعوت اور جہاد کا رشتہ کیا ہے؟ اور یہ کہ دور جدید کے مغربی انداز کے عام سیاسی عمل کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ اور یہ کہ اس عمل کو کب اور کس طرح دعوتی رنگ دیا جانا چاہیے؟ اور کب اور کن حالات میں اس عمل کو جہاد بالسیف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
جہاد کے سیاق وسباق میں جہاں دعوت وجہاد کے رشتۂ شکستہ کی بحالی ضروری ہے… وہاں عدل، ایفائے عہد، احساس ذمہ داری، نظم، سمع وطاعت اور اس طرح کے بہت سے احکام جہاد کے لازمی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان عناصر کے بغیر اگر تلوار اٹھائی جائے گی تو وہ فتنہ اور افراتفری پیدا کرے گی۔ اس سے پہلے دعوت اور اس کے مراحل، تالیف قلب اور اس کے مراحل اور دشمن پر پُرامن دباؤ کے مراحل کا گزرنا ضروری ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جدید اسلامی فکر کے بعض انتہائی محترم اسلامی مفکرین کی تحریروں سے جو یک طرفہ رجحان جنم لے رہا ہے، اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے نئے معاملات ہیں جو سنجیدہ اور گہرے غور وخوض کے متقاضی ہیں۔