انسانی حقوق کا بنیادی تصور یہ ہے کہ تمام انسان آزادی، تحفظ، عزّت اور یکساں سلوک کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہ حقوق کسی بھی قسم کے مذہبی، نسلی، لسانی، جغرافیائی حدود، عمر، جنس، معاشی و سماجی مرتبہ کی تفریق کے بغیر سب کو حاصل ہوں۔ انسانی حقوق ہرفرد کو پیدائشی طور پر حاصل ہیں اور کسی سے بغیر کسی وجہ کے چھینے نہیں جاسکتے۔
عصرحاضر میں انسانی حقوق کے تصورات، تفصیلات اور معاہدات اقوامِ متحدہ کے تحت طے کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۵ء میں اپنے قیام کے بعد اپنے دستور (یواین چارٹر ۱۹۴۶ء) میں ایسے بنیادی اُصول وضع کیے جن کی بنیاد گذشتہ چند صدیوں میں مغرب میں پیش کردہ انسانی حقوق کے تصورات اور ان کی بنیادوں پر انقلابات، نئی ریاستوں کا قیام اور ان کےدساتیر کا ترتیب پانا تھا، جن میں انگلستان کا ’میگناکارٹا‘ (۱۲۱۵ء)، انقلاب فرانس کا ’منشور حقوق انسانی‘ (۱۷۸۹ء)، امریکا کا ’منشور انسانی حقوق‘ (۱۷۷۶ء) اور امریکا کا ’معاہدہ انسانی حقوق و فرائض‘ (۱۹۴۸ء) شامل تھے۔
جمہوری فلسفہ کے تحت اقوام متحدہ نے بہت سی مثبت اور تحفظاتی حقوق سے متعلق قراردادیں منظور کیں اور آخرکار ۱۰دسمبر ۱۹۴۸ء کو ’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘ (The Universal Declaration of Human Rights) منظرعام پر آیا۔ دُنیا کے بیش تر ممالک نے اس کی تائید کی اور جنھوں نے تائید نہیں کی انھوں نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ صرف عام اصولوں کا اعلان و اظہار تھا، معاہدہ نہیں تھا کہ کسی نوعیت کی قانونی پابندی دستخط کرنے والی حکومتوں پر لازم ہو۔ البتہ اس کے ذریعے واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ وہ معیار ہے جس تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس منشور کو حقوق انسانی کی تاریخ میں ایک انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے۔
حقوقِ انسانی کے اس عالمی منشور (UDHR 1948) میں ۳۰ آرٹیکلز کے ذریعے فرد کے بنیادی حق زندگی، عدل و انصاف اور مساوات کے ساتھ معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے۔ منشور میں تمام حقوق کو عالم گیر اور ناقابلِ تنسیخ قراردیا گیا ہے۔ ہرفرد کا حق تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کے ساتھ مساوات ہو، کسی کو اس سے برتر یا اسے کسی سے کم تر نہ سمجھا جائے۔ اسے جان اور مال کا تحفظ حاصل ہو۔ اس پر کسی قسم کا جبروتشدد روا نہ رکھا جائے۔ اسی طرح عقیدہ اور مذہب، اظہارِخیال ، تنظیم اور جماعت سازی، سفر اور نقل مکانی، شادی اور خاندان بسانے کے حق کو مانا گیا ہے۔ تعلیم، حکومت میں شرکت، ملازمت، راحت اور آرام، خلوت اور نجی زندگی میں عدم مداخلت کو بھی اس کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دستور اور انسانی حقوق کے چارٹر نے تمام دُنیا میں، تمام مرد و خواتین کے لیے جو حقوق لازم قرار دیئے ہیں، انھیں اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے اپنے ریاستی دساتیر اور قوانین کا حصہ بنایا۔ آئین پاکستان ۱۹۷۳ء میں بھی ان تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے اس اہم حقیقت کا تذکرہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور اور اس کے بعد آنے والے انسانی حقوق کے مختلف معاہدات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR 1966)، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICESCR 1966)،نسلی امتیازات کے خاتمے کا بین الاقوامی معاہدہ (ICERD 1965)، خواتین کے خلاف ہرقسم کے امتیازات کے خاتمے کا سمجھوتہ (CEDAW 1979)، تشدد کے خلاف سمجھوتہ (CAT 1984)، بچوں کے حقوق کے تحفظ کا سمجھوتہ (CRC 1989) اور دیگر معاہدات ، قراردادوں میں کسی بھی سطح پر ہم جنسیت کو انسانی حقوق کا درجہ حاصل نہیں ہے۔
’ہم جنسیت‘ کو انسانی حقوق سے منسلک کرنے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے میں ہم جنسیت کو ’جبلت‘ اور ’طبیعت کا میلان‘ قرار دیتے ہوئے، اسے ایک عمل کے بجائے ایک رویہ قرار دیا گیا اور اس کے لیے ’جنسی رجحان‘ (Sexual Orientation) کی اصطلاح وضع کی گئی۔ ہم جنس زدہ افراد جو پہلے صرف Homosexualsکہلاتے تھے، ان کی وسیع نمایندگی کے لیے پہلے LGB ، پھر LGBT ، LGBTI، اور LGBTIQ کی اصطلاحات استعمال کی جانے لگیں۔
اقوام متحدہ کے تحت پہلی دفعہ ’جنسی رجحان‘ کی اصطلاح خواتین کی ’چوتھی عالمی کانفرنس‘ کے لیے بننے والی دستاویز ’بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن‘ (BPA 1995)کے دوران زیربحث آئی، جہاں اسے خواتین کے حق کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ بعدازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) اور انسانی حقوق کی کونسل (UNHCR) کے تحت مختلف فورمز پر جنسی رجحان، صنفی شناخت اور LGBTحقوق کی تائید میں قراردادیں ، اعلامیے اور بیانات پیش اور منظور ہوتے رہے۔
اس سلسلے کی اہم قراردادیں ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۵ء میں منظور ہوئیں۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کے ۱۲ بین الاقوامی اداروں: ILO، OHCHR، UNAIDS، UNDP، UNESCO، UNFPA، UNHCR، UNICEF، UNODC، UN WOMEN، WFP اور WHO نے LGBT افراد کے خلاف امتیاز اور تشدد ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ قرارداد منظور کی، جس پر ممبر ممالک سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔ ۹۶ ممبر ممالک نے LGBTحقوق کے تحفظ کے لیے اس قرارداد کی تائید کی۔ ان تمام پیش قدمیوں کے دوران ۲۰۰۸ء کی منظور شدہ ایک قرارداد کی مخالفت میں ویٹی کن کے نمایندے، ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ (OIC) اور پاکستان کی طرف سے بھی مخالفت میں بیان دیئے گئے اور ان اقدامات کو ’’بین الاقوامی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو کمزور کرنے اور معاشرے میں جنسی بے راہ روی کی اثرپذیری‘‘ اور ان کے قانونی جواز پر تحفظات کا اظہار کہا گیا۔
اقوام متحدہ نے LGBT حقوق کے ضمن میں اپنی اس تمام پیش رفت کے دوران ۲۰۱۱ء میں انسانی حقوق کی کونسل میں حتمی طور پر LGBT حقوق کو بطورِ انسانی حقوق تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے فوراً ہی ایک رپورٹ جاری کردی، جس میں دُنیا کے مختلف ممالک میں LGBT افراد کے حقوق کی خلاف ورزی، ان کے خلاف ہونے والے مبنی بر نفرت جرائم، امتیازات اور ہم جنس پرستوں کے لیے قانونی سزائوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے تمام ممبر ممالک پر زور دیا کہ ’’وہ LGBT حقوق کی حفاظت و ضمانت کے لیے قوانین کی تشکیل کریں‘‘۔ اقوام متحدہ کے تحت LGBT حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیے جانے کے نتائج میں، عالمی اداروں کی حمایت کے ساتھ ’جنسی رجحان‘ (Sexual Orientation) ، صنفی شناخت (اپنے خود ساختہ احساسات کی بنیاد پر) رویوں کی ترویج، ہم جنسیت کو ممنوع یا ناروا رویے کے بجائے سماجی قبولیت کا درجہ حاصل ہونا، ہم جنسیت کے خلاف خواتین کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ان کی تنسیخ کا مطالبہ، ہم جنس زدگان کی علانیہ فخریہ پریڈ اور ہم جنس شادیوں کو قانونی تحفظ دینا شامل ہیں۔
LGBTکے انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد ہم جنس شادیوں سے متعلق بہت سے اُمور پر بھی قوانین سازی کی کوششیں جاری ہیں، جن میں اسے جوڑنے کے لیے اولاد کا حصول بذریعہ Adoption یا Surrogacy (کرائے پر رحمِ مادر کا حصول) اور IVF کے ذریعے تولیدی عمل، تبدیلیٔ جنس کے لیے سرجری، ہارمونز کی تبدیلی اور دیگر اُمور کی اجازت اور سہولیات کی فراہمی، تولیدی صلاحیتوں میں تبدیلیوں کی سرجری کی سہولیات کی فراہمی پر مبنی قوانین شامل ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی تعلیم، ملازمت، طبّی سہولیات، فوجی خدمات میں بلاامتیاز شمولیت کے قوانین اور امتیازی سلوک یا ہراساں کیے جانے کے خلاف قوانین کی تشکیل بھی مطلوب ہے۔
ہم جنس شادی کی صورت حال دیکھی جائے تو ۲۰۰۱ء میں ہالینڈ سے آغاز کے بعد سے ۲۰۲۲ء تک اسے برطانیہ، ویلز، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، مالٹا، کینیڈا، اسپین، ڈنمارک، برازیل سمیت ۳۲ ممالک میں (مکمل طور پر یا کچھ حصوں میں) قانونی تحفظ حاصل ہوچکا ہے، جب کہ مزید ۳۴ ممالک میں ہم جنس جوڑوں کو تحفظ حاصل ہے۔ تقریباً ۷۰ممالک میں جن کا تعلق ایشیا، افریقا اور مشرق وسطیٰ سے ہے، ہم جنسیت غیرقانونی ہے۔ البتہ ۲۰۱۹ء میں بھارت میں بھی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں ہم جنسیت کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔
عالمی اداروں کے دبائو پر قوانین میں گنجایش پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انھی میں ایسے ممالک ہیں، جہاں ہم جنسیت کی قانونی سزا ’سزائے موت‘ ہے۔ ان میں ایران، سوڈان، سعودی عرب، یمن، صومالیہ، نائیجیریا کے کچھ علاقے، شام اور عراق شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان، افغانستان، موریطانیہ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی شریعہ لا کے تحت سزائے موت دی جاسکتی ہے، لیکن اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی متعدد بار تمام ممالک کو ہدایت ہے کہ وہ ’’ہم جنسیت کے خلا ف موجود ریاستی قوانین کو منسوخ کر دیں اور ہم جنسیت اور ہم جنس شادی کے حق میں قانون سازی کریں اور پالیسی اقدامات اُٹھائیں‘‘۔ پاکستان میں بھی گذشتہ عشرے سے نسبتاً مربوط کوششوں کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں ۔ ۲۰۱۸ء میں خواجہ سرا افراد کے حق میں منظور ہونے والے قانون میں ’ٹرانس جینڈر‘ کی اصطلاح میں وسعت پیدا کرتے ہوئے، جنسی رجحان اور شخصی صنفی شناخت کو قانونی تحفظ فراہم کرکے LGBT حقوق اور ہم جنس شادی کا راستہ کھولنے کی کوشش کی گئی۔
آئین پاکستان ۱۹۷۳ء کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بنیادی تشخص اسلام ہے۔ ریاست کی حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کے لیے ہے اور ملک میں قرآن و سنت کے قانون کی بالادستی ہے۔ جس سے متصادم کوئی قانون سازی ملک عزیز میں نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے قانون ساز اداروں پر لازم ہے کہ ہم جنسیت سے متعلق کسی قسم کے قوانین کو ملکی قوانین کا حصہ نہ بنائیں کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور ریاست کے آئین کی نفی ہے۔