انسانی حقوق کا بنیادی تصور یہ ہے کہ تمام انسان آزادی، تحفظ، عزّت اور یکساں سلوک کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہ حقوق کسی بھی قسم کے مذہبی، نسلی، لسانی، جغرافیائی حدود، عمر، جنس، معاشی و سماجی مرتبہ کی تفریق کے بغیر سب کو حاصل ہوں۔ انسانی حقوق ہرفرد کو پیدائشی طور پر حاصل ہیں اور کسی سے بغیر کسی وجہ کے چھینے نہیں جاسکتے۔
عصرحاضر میں انسانی حقوق کے تصورات، تفصیلات اور معاہدات اقوامِ متحدہ کے تحت طے کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۵ء میں اپنے قیام کے بعد اپنے دستور (یواین چارٹر ۱۹۴۶ء) میں ایسے بنیادی اُصول وضع کیے جن کی بنیاد گذشتہ چند صدیوں میں مغرب میں پیش کردہ انسانی حقوق کے تصورات اور ان کی بنیادوں پر انقلابات، نئی ریاستوں کا قیام اور ان کےدساتیر کا ترتیب پانا تھا، جن میں انگلستان کا ’میگناکارٹا‘ (۱۲۱۵ء)، انقلاب فرانس کا ’منشور حقوق انسانی‘ (۱۷۸۹ء)، امریکا کا ’منشور انسانی حقوق‘ (۱۷۷۶ء) اور امریکا کا ’معاہدہ انسانی حقوق و فرائض‘ (۱۹۴۸ء) شامل تھے۔
جمہوری فلسفہ کے تحت اقوام متحدہ نے بہت سی مثبت اور تحفظاتی حقوق سے متعلق قراردادیں منظور کیں اور آخرکار ۱۰دسمبر ۱۹۴۸ء کو ’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘ (The Universal Declaration of Human Rights) منظرعام پر آیا۔ دُنیا کے بیش تر ممالک نے اس کی تائید کی اور جنھوں نے تائید نہیں کی انھوں نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ صرف عام اصولوں کا اعلان و اظہار تھا، معاہدہ نہیں تھا کہ کسی نوعیت کی قانونی پابندی دستخط کرنے والی حکومتوں پر لازم ہو۔ البتہ اس کے ذریعے واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ وہ معیار ہے جس تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس منشور کو حقوق انسانی کی تاریخ میں ایک انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے۔
حقوقِ انسانی کے اس عالمی منشور (UDHR 1948) میں ۳۰ آرٹیکلز کے ذریعے فرد کے بنیادی حق زندگی، عدل و انصاف اور مساوات کے ساتھ معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے۔ منشور میں تمام حقوق کو عالم گیر اور ناقابلِ تنسیخ قراردیا گیا ہے۔ ہرفرد کا حق تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کے ساتھ مساوات ہو، کسی کو اس سے برتر یا اسے کسی سے کم تر نہ سمجھا جائے۔ اسے جان اور مال کا تحفظ حاصل ہو۔ اس پر کسی قسم کا جبروتشدد روا نہ رکھا جائے۔ اسی طرح عقیدہ اور مذہب، اظہارِخیال ، تنظیم اور جماعت سازی، سفر اور نقل مکانی، شادی اور خاندان بسانے کے حق کو مانا گیا ہے۔ تعلیم، حکومت میں شرکت، ملازمت، راحت اور آرام، خلوت اور نجی زندگی میں عدم مداخلت کو بھی اس کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دستور اور انسانی حقوق کے چارٹر نے تمام دُنیا میں، تمام مرد و خواتین کے لیے جو حقوق لازم قرار دیئے ہیں، انھیں اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے اپنے ریاستی دساتیر اور قوانین کا حصہ بنایا۔ آئین پاکستان ۱۹۷۳ء میں بھی ان تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے اس اہم حقیقت کا تذکرہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور اور اس کے بعد آنے والے انسانی حقوق کے مختلف معاہدات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR 1966)، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICESCR 1966)،نسلی امتیازات کے خاتمے کا بین الاقوامی معاہدہ (ICERD 1965)، خواتین کے خلاف ہرقسم کے امتیازات کے خاتمے کا سمجھوتہ (CEDAW 1979)، تشدد کے خلاف سمجھوتہ (CAT 1984)، بچوں کے حقوق کے تحفظ کا سمجھوتہ (CRC 1989) اور دیگر معاہدات ، قراردادوں میں کسی بھی سطح پر ہم جنسیت کو انسانی حقوق کا درجہ حاصل نہیں ہے۔
’ہم جنسیت‘ کو انسانی حقوق سے منسلک کرنے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے میں ہم جنسیت کو ’جبلت‘ اور ’طبیعت کا میلان‘ قرار دیتے ہوئے، اسے ایک عمل کے بجائے ایک رویہ قرار دیا گیا اور اس کے لیے ’جنسی رجحان‘ (Sexual Orientation) کی اصطلاح وضع کی گئی۔ ہم جنس زدہ افراد جو پہلے صرف Homosexualsکہلاتے تھے، ان کی وسیع نمایندگی کے لیے پہلے LGB ، پھر LGBT ، LGBTI، اور LGBTIQ کی اصطلاحات استعمال کی جانے لگیں۔
اقوام متحدہ کے تحت پہلی دفعہ ’جنسی رجحان‘ کی اصطلاح خواتین کی ’چوتھی عالمی کانفرنس‘ کے لیے بننے والی دستاویز ’بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن‘ (BPA 1995)کے دوران زیربحث آئی، جہاں اسے خواتین کے حق کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ بعدازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) اور انسانی حقوق کی کونسل (UNHCR) کے تحت مختلف فورمز پر جنسی رجحان، صنفی شناخت اور LGBTحقوق کی تائید میں قراردادیں ، اعلامیے اور بیانات پیش اور منظور ہوتے رہے۔
اس سلسلے کی اہم قراردادیں ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۵ء میں منظور ہوئیں۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کے ۱۲ بین الاقوامی اداروں: ILO، OHCHR، UNAIDS، UNDP، UNESCO، UNFPA، UNHCR، UNICEF، UNODC، UN WOMEN، WFP اور WHO نے LGBT افراد کے خلاف امتیاز اور تشدد ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ قرارداد منظور کی، جس پر ممبر ممالک سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔ ۹۶ ممبر ممالک نے LGBTحقوق کے تحفظ کے لیے اس قرارداد کی تائید کی۔ ان تمام پیش قدمیوں کے دوران ۲۰۰۸ء کی منظور شدہ ایک قرارداد کی مخالفت میں ویٹی کن کے نمایندے، ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ (OIC) اور پاکستان کی طرف سے بھی مخالفت میں بیان دیئے گئے اور ان اقدامات کو ’’بین الاقوامی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو کمزور کرنے اور معاشرے میں جنسی بے راہ روی کی اثرپذیری‘‘ اور ان کے قانونی جواز پر تحفظات کا اظہار کہا گیا۔
اقوام متحدہ نے LGBT حقوق کے ضمن میں اپنی اس تمام پیش رفت کے دوران ۲۰۱۱ء میں انسانی حقوق کی کونسل میں حتمی طور پر LGBT حقوق کو بطورِ انسانی حقوق تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے فوراً ہی ایک رپورٹ جاری کردی، جس میں دُنیا کے مختلف ممالک میں LGBT افراد کے حقوق کی خلاف ورزی، ان کے خلاف ہونے والے مبنی بر نفرت جرائم، امتیازات اور ہم جنس پرستوں کے لیے قانونی سزائوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے تمام ممبر ممالک پر زور دیا کہ ’’وہ LGBT حقوق کی حفاظت و ضمانت کے لیے قوانین کی تشکیل کریں‘‘۔ اقوام متحدہ کے تحت LGBT حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیے جانے کے نتائج میں، عالمی اداروں کی حمایت کے ساتھ ’جنسی رجحان‘ (Sexual Orientation) ، صنفی شناخت (اپنے خود ساختہ احساسات کی بنیاد پر) رویوں کی ترویج، ہم جنسیت کو ممنوع یا ناروا رویے کے بجائے سماجی قبولیت کا درجہ حاصل ہونا، ہم جنسیت کے خلاف خواتین کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ان کی تنسیخ کا مطالبہ، ہم جنس زدگان کی علانیہ فخریہ پریڈ اور ہم جنس شادیوں کو قانونی تحفظ دینا شامل ہیں۔
LGBTکے انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد ہم جنس شادیوں سے متعلق بہت سے اُمور پر بھی قوانین سازی کی کوششیں جاری ہیں، جن میں اسے جوڑنے کے لیے اولاد کا حصول بذریعہ Adoption یا Surrogacy (کرائے پر رحمِ مادر کا حصول) اور IVF کے ذریعے تولیدی عمل، تبدیلیٔ جنس کے لیے سرجری، ہارمونز کی تبدیلی اور دیگر اُمور کی اجازت اور سہولیات کی فراہمی، تولیدی صلاحیتوں میں تبدیلیوں کی سرجری کی سہولیات کی فراہمی پر مبنی قوانین شامل ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی تعلیم، ملازمت، طبّی سہولیات، فوجی خدمات میں بلاامتیاز شمولیت کے قوانین اور امتیازی سلوک یا ہراساں کیے جانے کے خلاف قوانین کی تشکیل بھی مطلوب ہے۔
ہم جنس شادی کی صورت حال دیکھی جائے تو ۲۰۰۱ء میں ہالینڈ سے آغاز کے بعد سے ۲۰۲۲ء تک اسے برطانیہ، ویلز، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، مالٹا، کینیڈا، اسپین، ڈنمارک، برازیل سمیت ۳۲ ممالک میں (مکمل طور پر یا کچھ حصوں میں) قانونی تحفظ حاصل ہوچکا ہے، جب کہ مزید ۳۴ ممالک میں ہم جنس جوڑوں کو تحفظ حاصل ہے۔ تقریباً ۷۰ممالک میں جن کا تعلق ایشیا، افریقا اور مشرق وسطیٰ سے ہے، ہم جنسیت غیرقانونی ہے۔ البتہ ۲۰۱۹ء میں بھارت میں بھی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں ہم جنسیت کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔
عالمی اداروں کے دبائو پر قوانین میں گنجایش پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انھی میں ایسے ممالک ہیں، جہاں ہم جنسیت کی قانونی سزا ’سزائے موت‘ ہے۔ ان میں ایران، سوڈان، سعودی عرب، یمن، صومالیہ، نائیجیریا کے کچھ علاقے، شام اور عراق شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان، افغانستان، موریطانیہ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی شریعہ لا کے تحت سزائے موت دی جاسکتی ہے، لیکن اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی متعدد بار تمام ممالک کو ہدایت ہے کہ وہ ’’ہم جنسیت کے خلا ف موجود ریاستی قوانین کو منسوخ کر دیں اور ہم جنسیت اور ہم جنس شادی کے حق میں قانون سازی کریں اور پالیسی اقدامات اُٹھائیں‘‘۔ پاکستان میں بھی گذشتہ عشرے سے نسبتاً مربوط کوششوں کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں ۔ ۲۰۱۸ء میں خواجہ سرا افراد کے حق میں منظور ہونے والے قانون میں ’ٹرانس جینڈر‘ کی اصطلاح میں وسعت پیدا کرتے ہوئے، جنسی رجحان اور شخصی صنفی شناخت کو قانونی تحفظ فراہم کرکے LGBT حقوق اور ہم جنس شادی کا راستہ کھولنے کی کوشش کی گئی۔
آئین پاکستان ۱۹۷۳ء کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بنیادی تشخص اسلام ہے۔ ریاست کی حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کے لیے ہے اور ملک میں قرآن و سنت کے قانون کی بالادستی ہے۔ جس سے متصادم کوئی قانون سازی ملک عزیز میں نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے قانون ساز اداروں پر لازم ہے کہ ہم جنسیت سے متعلق کسی قسم کے قوانین کو ملکی قوانین کا حصہ نہ بنائیں کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور ریاست کے آئین کی نفی ہے۔
’انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین‘ (IMWU- امیو) دنیا کے ۷۰ممالک کے وفود کے سوڈان میں اجتماع میں ۱۹۹۶ء میں قائم ہوئی۔ تاسیسی اجلاس میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر کوثر فردوس اور سمیحہ راحیل قاضی نے شرکت کی تھی۔ یونین کا ہیڈ کوارٹر سوڈان میں ہے اور جنرل سیکرٹری کا تقرر سوڈان سے ہی ہوتا ہے۔ یونین کی شوریٰ، یعنی کونسل آف ٹرسٹیز کی تعداد ۳۲ہے۔ اس کا اجلاس ہر سال کسی نہ کسی ملک میں منعقد ہوتا ہے،جب کہ جنرل کانگریس کا انعقاد ہر تین سال بعد ہوتا ہے، جس میں چیئرمین بورڈ آف ٹرسٹیز اور ریجن کے انچارجوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ پاکستان میں تین بار سالانہ کانفرنسیں (۲۰۰۳ء، ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۸ء) منعقد ہوئیں۔
۲۰۱۹ء کے لیے ملائیشیا کی ریاست کلنتان سے یونین کی رکن محترمہ ممتاز محمد نووی حسین نے کانفرنس کی میزبانی کی پیش کش کی۔ ۲۳ سے ۲۹ جون ۲۰۱۹ء کے دوران اس کانفرنس کا انعقاد نہایت حُسن و خوبی سے ہوا۔یاد رہے محترمہ ممتاز محمد نووی حسین ریاست کلنتان کی حکومت میں ’اُمورِ خواتین، خاندان اور سماجی ترقی‘ کی وزیر ہیں۔
کانفرنس میں ۱۸ ممالک:سوڈان، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، عراق، ملاوی، نائیجیریا، صومالیہ، کیمرون، ٹوگو، آئیوری کوسٹ، یوگنڈا، عمان، ہانگ کانگ اور کوریا سے ۵۵نمایندگان شریک ہوئیں۔ تنظیم کے تمام مندوبین کو اپنے جملہ سفری وانتظامی اخراجات کا ذاتی طور پر انتظام کرنا ہوتا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد کوٹابھارو (کلنتان، ملائیشیا) میں ہوا
پاکستانی وفد میں یونین کی چیئر پرسن ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، قیمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی، دردانہ صدیقی، انچارج شعبہ ویمن اینڈ فیملی، ڈاکٹررخسانہ جبین، انچارج ایشین ریجن ’امیو‘، شگفتہ عمر، یونین کی مجلس عالمات کی رکن ڈاکٹر زیتون بیگم اور پاکستان میں یونین یوتھ فورم کی انچارج عائشہ عمرمرغوب شامل تھیں۔ پاکستانی وفد ۲۲ جون کی رات کوالالمپور پہنچا۔ رات کو ڈاکٹر ہاجرہ شکور صاحبہ نے میزبانی کی۔ اگلے روز ۲۳جون کو گیارہ بجے کوٹابھارو پہنچے۔
۲۴ جون ۲۰۱۹ء کو ’امیو‘ کی کونسل آف ٹرسٹیز کا اجلاس شروع ہوا۔ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عفاف احمد محمد احمد حسین نے ہیڈکوارٹر کے تحت ہونے والی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی۔ پھر ایشین اور افریقین ریجنوں کی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ ایشین ریجن کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے راقمہ نے پاکستان، کشمیر اور سری لنکا کی رپورٹ پیش کی۔افریقن ریجن کی رپورٹ ڈاکٹر اسماء جمیلہ نبلا مبا (یوگنڈا) نے پیش کی۔ پھر قدرے مستحکم کام والے ممالک ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی، تھائی لینڈ، عراق، صومالیہ، نائیجیریا، اور یوگنڈا کی نمایندگان نے رپورٹیں پیش کیں۔ کیمرون، ٹوگو اور آئیوری کوسٹ میں کام ابتدائی مراحل میں ہے، وہاں کی صورتِ حال بھی سامنے آئی۔ شام، اُردن، فلسطین، لبنان، سری لنکا اور کشمیر میں تنظیم مستحکم ہے، مگر وہاں سے نمایندے شرکت نہ کرسکے۔ ڈاکٹر زیتون بیگم نے مجلس عالمات اور ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے اقوامِ متحدہ کے تحت خواتین کانفرنس میں شرکت (دیکھیے: عالمی ترجمان القرآن جولائی ۲۰۱۹ء)اور عائشہ مرغوب نے ’امیو‘ یوتھ فورم پاکستان کی رپورٹ پیش کی۔ محترمہ دردانہ صدیقی صاحبہ نے مستقبل کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔ دوسرے سیشن میں برانچوں کی مشکلات کے جائزے اور آیندہ کی منصوبہ بندی پر بات ہوئی۔ بعدازاں اس سلسلے کی دو مزید تفصیلی نشستیں ۲۶اور ۲۸جون کو بھی منعقد ہوئیں۔
۲۴جون ہی کو ایک ملحق ہال میں الیوم انٹرنیشنل ینگ مسلمۃ فورم ملائیشیا کے تحت طالبات کے لیے کانفرنس کا اہتمام تھا، جس کا عنوان:’سیّدنا خدیجۃ الکبریٰؓ بہ حیثیت نمونۂ عمل‘ تھا۔ کانفرنس میں ۵۰۰سے زائد طالبات شریک ہوئیں۔ملائشیا سے نوجوان مقررات کے ساتھ فلسطین اور ہانگ کانگ سے بھی نمایندگی ہوئی اور پاکستان کی نمایندگی عائشہ عمر مرغوب نے کی۔
اس روز ریاست کے وزیر اعلیٰ کی اہلیہ کی طرف سے سادگی اور وقار کی علامت عشائیے کا اہتمام تھا، جس میں مندوبین کے علاوہ شہر کے معززین بھی شامل تھے۔ عشائیے میں مقامی کلچرل شوز کا اہتمام بھی تھا۔
۲۵جون کو ’مسلم انٹرنیشنل سمٹ ، کلنتان‘ (MISK)کے تحت کانفرنس ہوئی جس کا موضوع ’تحقیق و تالیف کانفرنس‘ تھا۔ ایک ماہ قبل حاصل کردہ ۷۸تحقیقی مقالہ جات انگریزی، عربی اور ملے (مقامی) زبان میں تین کتب کی صورت میں شائع کیے گئے۔ یہ ایک قابل ستایش اور غیرمعمولی کام تھا۔ راقمہ نے ’ماوراے صنف افراد اور ہم جنسی رویے‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ کانفرنس کا انعقاد تین متوازی سیشنوں میں ہوا۔
۲۵جون کی شام کلنتان ریاست کی اسمبلی کا دورہ تھا۔سپیکر کلنتان نے وفد کو خوش آمدید کہا۔محترمہ ممتازاحمد نے کلنتان کی اسلامی پالیسیاں بیان کیں، جن میں: ’سود‘ سے پاک معیشت، شراب پر پابندی، حجاب کا اہتمام، مردوں کی بحیثیت قوام تعلیم و تربیت کا انتظام، خواتین کی معاشی خودانحصاری کے مؤثر مراکز کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے، نوجوان نسلوں کے لیے صحابہؓ اور صحابیاتؓ کو بطور ماڈل پیش کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور یہ تقریبات بھی اسی کا حصہ ہیں۔
حضرت خدیجہ ؓ کے حوالے سے منعقدہ ان تقریبات کا مرکزی پروگرام ۲۵ جون کے روز عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ریاست بھر سے اہلِ علم اور معززین شامل تھے۔ مہمان خصوصی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور دیگر اعلیٰ عہدے داران اور ان کی بیگمات بھی شریکِ کانفرنس تھے۔ یہ پروگرام عمائدین، کارکنان اور رضاکاروں میں برابری اور یک جہتی کا مظہر تھا۔ ان تقریبات کو کامیاب بنانے میں تقریباً ۳۰۰؍ انتہائی مستعد، مہذب اور سہولت کار رضاکاروں کا بھی بڑا حصہ تھا، جو اپنے کاموں کو تقسیمِ کار کے ساتھ احسن انداز سے نبھا رہے تھے۔
تقریبات کی میزبان ممتاز احمد نووی نے افتتاحی کلمات کے ساتھ ریاست میں خواتین کے حوالے سے اعداد و شمار، دائرہ کار اور پیش نظر منصوبوں پر مفصل تقریر کی۔یہ تقریر ان کی قومی زبان میں تھی، البتہ غیرملکی وفود کے لیے ترجمے کی سہولت موجود تھی۔ اس تقریب میں مختلف میدانوں میں عمدہ کارکردگی پر خواتین کو ایوارڈز دیے گئے، جن میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل بھی شامل تھیں ۔
اگلے روز دوسرا سیشن غیر ملکی وفود کی تقاریر اور سوالات و جوابات پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر نورافلاح موسیٰ کی میزبانی میں ملائشیا کی زیلا محمد یوسف، سوڈان سے ڈاکٹر عفاف احمد محمد احمد حسین، تھائی لینڈ سے ناتبا کونتھو تھونگ(خدیجۃ الکبریٰ)، ترکی سے ڈاکٹر رابعہ یلماز، عراق سے ڈاکٹر سحر مولود جابر، صومالیہ سے ڈاکٹر فاطمہ ابوبکر احمد، کیمرون سے ممبالہ انتا گانہ مابا حمادو، یوگنڈا سے ڈاکٹر حلیمہ وکابی اکبر، اور ڈاکٹر عصمت جمیلہ نبلامبا، ٹوگو سے ڈارو عالیہ، کلنتان سے یعقوب روحانی ابراہیم اور پاکستان سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے خطاب کیا۔
انتہائی مصروف دن کے بعد عشائیے کا اہتمام وزیر اعلیٰ کی رہایش گاہ پر تھا۔ہیڈ آف سٹیٹ کے گھر کھانے کا مینو اور سادگی بیان سے باہر تھا۔ ملائیشیا میں کھانا ٹھنڈا کھایا جاتا ہے، اس لیے پہلے سے ہی میز پر رکھ دیا گیا تھا۔
کوٹا بھارو، کلنتان میں ہمارا آخری دن شہر کی سیر کے لیے مخصوص تھا۔ہمارے ہوٹل کے ساتھ بہتا دریاے کلنتان اتنے دنوں سے خاموشی سے ہماری سرگرمیاں دیکھ رہا تھا۔ آج ہم اس دریا کے پار اُترے تو کنارے پر مختلف قصبوں کے کچھ کلچرل اور صنعتی مناظر سے مستفید ہوئے۔ وہاں ہم نے ناریل سے بننے والے بسکٹ کے کارخانے دیکھے۔ چھوٹے فریموں میں بوتیک پینٹنگ اور قدرتی مناظر کے نمونے خرید وفروخت کے لیے رکھے تھے۔ ریاست میں خواتین کے لیے قائم انڈسٹریل ہوم دیکھا، جہاں کی مصنوعات قابلِ قدر تھیں۔ ان کا مارکیٹنگ کا نظام بھی فعال تھا۔ اس طرح کے ڈیڑھ سو ادارے اس ایک ریاست کے اندر حکومتی سطح پر کام کر رہے ہیں۔
کوٹا بھارو میں آخری روز، رات گئے تک’امیو‘ کی تمام ذمہ داران کے اجلاس جاری رہے۔ اگلے سال کی میٹنگ تک طے کرنے والے تمام اہم اقدامات، ذیلی شاخوں کے لیے منصوبہ بندی، مسائل کے حل کی کوششیں اور ۲۰۲۰ء میں کونسل آف ٹرسٹیز میٹنگ کے انعقاد کے لیے تجاویز، زیرغور آئیں۔زبانی اور تحریری تفصیلی آرا پر طے ہوا کہ بعد میں آگاہ کردیا جائے گا۔
اگلے روز پتراجایا روانہ ہوئے اور پھر اس سے اگلے روز کوالالمپور ایئرپورٹ سے اسلام آباد پہنچے۔ان تقریبات میں طے شدہ امور، ان شاء اللہ امت مسلمہ کی خواتین کو اسلامی تعلیمات کے دائرہ کار میں اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔یوں مسلم خاندان ہرمعاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ دینے اور امن و استحکام قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
مسلمانوں کو دعوت الی اﷲ کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے ۔ایک مسلم اورمسلمہ تمام عالم انسانی کے سامنے خدا کے دین کے داعی ہیں ۔سچا داعی وہ ہے جو لوگوں کو بلا تخضیص مذہب ،رنگ و نسل اور جغرافیائی حدود کے اﷲ کی طرف دعوت دے اور اس کار خیر میں مدعو کی خیرخواہی اور بھلائی کی چاہت میں لوگوں کی بھلائی کا حر یص بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ داعی کے لیے قرآن میں ناصح، خیرخواہ اور امین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ داعی اور داعیہ دو احساسات کے تحت یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ اول: انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ خدا کے دین کے امانت دار ہیں اور اس امانت کی ادایگی کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی سے لرزاں رہتے ہیں۔ دوم: انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ ان کو محبور کرتا ہے کہ تما م مخالفتوں کو سہتے ہوئے اور تمام مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے وہ مدعو کو اﷲکی رحمتوں کے سایے میں لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ دعوت کو قرآن میںانذار اور تبشیر(ڈرانا اور خوش خبری دینا ) کہا گیا ہے جو درحقیقت خود اﷲ رب العالمین کا کام ہے،مگر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے چاہا کہ یہ کام کسی معجزاتی اسلوب میں انجام نہ پائے بلکہ امتحان کے نقطۂ نظر سے انسانوں کے درمیان اُس کے پیغام کی پیغام رسانی خود انسان انجام دے۔ اس مشیت الٰہی نے انسان کے لیے عظیم ترین عمل کا دروازہ کھول دیا ۔
ایک بندے کا مقام اﷲ کی بندگی کرنا ہے ۔وہ نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج و عمرہ کی ادایگی کے ذریعے ، اخلاقی صفات کامظاہرہ کرنے کے ذریعے ، بندوں سے اپنے معاملات ہدایت ربانی کی روشنی میں طے کرنے کے ذریعے ،خدا کے آگے اپنی عبودیت ، بندگی اور عجز کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ دعوت الی اﷲ کا فریضہ انجام دینے کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کا اعزاز یہ ہوتا ہے کہ ـــوہ انصارُ اﷲ (اﷲ کا مدد گار )کا رتبہ حاصل کرلیتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ (الصف۶۱: ۱۴)، مومنو! اللہ کے مدد گار ہو جائو۔ جیسے عیسٰی ؑ ابن مریمؑ نے حواریوں سے کہا کہ(بھلا) کون ہیں جو اللہ کی طرف(بلانے میں) میرے مدد گار ہوں؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
اﷲسبحانہ و تعالیٰ کے ایک عاجز بندے کے لیے اس سے زیادہ معزز اورپُرکیف تجربہ کوئی اور نہیں کہ وہ یہ محسوس کرے کہ میں اپنے رب کے کام میں مصروف، اس کے ایک منصوبے کی تکمیل کررہا ہوں ۔دعوت الی اﷲ ایک پیغمبرانہ مشن ہے جو حضرت آدمؑ سے شروع ہوا اور اس کی تکمیل رسولؐ اﷲکی آمد پر ہوئی ۔اﷲکا دین ،اسلام ابتداے آفرنیش سے خدا کا دین ہے اور ہر قوم میں ہرنبی کو اﷲ نے اسی دین کے ساتھ بھیجا ۔قومیں اﷲ کے بھیجے ہوئے دین میں خرابیاں پیدا کرتی رہیں اور اﷲتعالیٰ اپنے ابنیا کے ذریعے ان خرابیوں کی اصلاح کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں کے اس دین کو بالکل صحیح اور تکمیلی صورت میں نازل فرما کر اس کو ہمیشہ کے لیے تبدیلی و تحریف کے خطرے سے محفوظ کردیا ۔یہ دین جو کسی خاص قوم کا نہیں بلکہ تمام بنی نوع آدم کا دین ہے قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے۔ جو اس دین کو تسلیم کرے وہ مسلم ہے اور جو نہ مانے وہ غیر مسلم ہے ۔یہ دین، اسلام نہ تو خدا کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق کرتا ہے ،نہ اس کی کسی کتاب کا انکا ر کرتا ہے اور نہ کسی پر اپنی مطلق فضیلت کا مدعی ہے۔ اس کا دعوی صرف یہ ہے کہ یہ تمام نبیوں کی تعلیم کا قابلِ اعتبار مجموعہ اور ان کی تعلیمات کو مکمل کرنے والا ہے ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہہ ساری دنیا کے لیے خداکے آخری پیغمبر ہیں ۔رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد اس ذمہ داری کواداکرنے کی کیا صورت ہے ؟یقینا آپؐ کے بعد آپؐ کی امت اس کارِ نبوت کی ذمہ دار ہے۔ آپ ؐ نے اپنی زندگی میں براہ راست اس فریضے کو سر انجام دیا۔ آپؐ کے بعد یہ کام بالواسطہ طور پر آپ ؐ کی امت کے ذریعے انجا م پائے گا۔ اس امت کی یہ لازمی ذ مہ داری ہے کہ وہ نسل در نسل ہر زمانے کے لوگوں کے سامنے اس دین کا پیغام پہنچاتی رہے جو آپؐ کو اﷲ رب العالمین کی طرف سے موصول ہوا تھا ۔ یہ پیغام قیامت تک کے انسانوں کے لیے راہِ ہدایت ہے جس کی حفاطت کا ذمہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے خود اٹھایا ہے ۔قرآنِ حکیم فرقانِ حمید میں اﷲتعالیٰ نے مذکورہ بالا حقیقت کی خود نشان دہی فرمائی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط (المائدہ ۵:۶۷)، اے پیغمبرؐ! جوارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو۔اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا)۔
بلاشبہہ اﷲرب العالمین نے پیغمبروں کے انتخاب میں مردوں کو ذمہ دار اورمسئول کی حیثیت سے نامزد کیا ،لیکن اس پیغمبر انہ مشن کو آگے لے کر چلنے میں کسی صنفی امتیاز کی نشان دہی نہیں کی۔ قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فریضے کے ذمہ دار مرد اور خواتین دونوں ہیں:
اورمومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے، اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،(وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہاے جاودانی [یا،ابد کے باغوں] میں نفیس مکانات کا (وعدہ کیا ہے)۔ اور اللہ کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے، یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ۹: ۷۱- ۷۲)
خواتین کو دعوت دین کی ذمہ داری تفویض کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے بزبانِ قرآن ارشاد فرمایا : وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا (الاحزاب۳۳: ۳۴)، ’’اور تمھارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت(کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بے شک اللہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔
آپؐ سے دین کی تعلیمات سننے، انھیں محفوظ کرنے، ان سے احکامات مستنبط کرنے اورانھیںدوسروں تک پہنچانے میں آپؐ کی ازواج مطہراتؓ اور دیگر صحابیات ؓ نے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ حضرت عا ئشہؓ آیاتِ قرآنی کی تفسیر کرتیں اور احادیث مبارکہ سے احکامات اخذ فرماتی تھیں۔ جلیل القدر صحابہ ؓ ان کی محفلِ درس میں شامل ہوتے تھے اور اپنے مابین اختلاف راے کی صورت میں انھیںحَکم اور اُن کی راے کو فیصلہ کن سمجھتے تھے ۔حضرت عائشہؓسے۲ہزار۲سو۱۰، حضرت اُم سلمہؓ سے ۳۷۸ اور دیگر صحابیات سے بھی بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ بعد کے اَدوار میں بھی خواتین قرآن اور حدیث کے علم کے حصول اور تحصیل میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ داعی دین اور داعیاتِ دین دونوں کو یہ فریضہ سر انجام دینا ہے ۔
داعیاتِ دین کو دعوت الی اللہ میں ان تمام اصولوں ، ترجیحات اور لائحہ عمل کوملحوظ رکھنا ہوگا جو انبیاے کرام ؑکی دعوت کا حصہ ہیں۔ نیز ان تمام علمی اور عملی اغلاط سے بچنے کا شعوری طور پر اہتمام کرنا ہوگا جس میں ہمارے مبلغین اور واعظین اکثر اوقات مبتلا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر میںدین کا مفہوم ادھورا اور دین کی تبلیغ کا مفہوم بھی محدود ہے۔
ایک داعیہ دین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو دین کا مکمل اور جامع تصور فراہم کرے ۔ اسلام کی بطور نظام حیات اور بطور نظام زندگی کی پہچان کرائے، کیونکہ دین اپنی تکمیلی شکل میں نازل ہو چکا۔ حکم رباّنی ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ۵: ۳)،(اور) آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
دین کے جامع تصور میں زندگی کے تمام دائروں میں اسلام پر عمل درآمد کا مطالبہ ہے۔ اسلام کو بطور روحانی نظام، بطور عائلی و معاشرتی نظام ، قانونی نظام، معاشی نظام، سیاسی نظام اور بین الاقوامی نظام سمجھنا اور سمجھانا ایک داعیہ کی اہم ذمہ داری ہے۔چنانچہ ایک داعیہ کو اپنے مخاطبین دعوت کے لیے ترتیب وار اور حکمت پر مبنی طریقے سے ان تمام پہلوئوں سے دین کی تعلیمات کو موضوع گفتگو بنانا ہو گا۔ ایمانیات اور عبادات پر کماحقہ راہنمائی کے ساتھ ساتھ عائلی اور معاشرتی دائروں میں___ گھریلو اور خاندانی زندگی کے حُسن انتظام، رشتہ داروں کے حقوق کی ادایگی، قوانین نکاح و طلاق اور وراثت، معاشرتی زندگی میں مسلموں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کا نبھائو، مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کے حوالے سے تعلیمات وقوانین، اسلامی معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، مسلم معاشروں میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ۔ ماحولیات کے ساتھ انسان کا تعلق، حیوانات ، نباتات، جمادات اور آبی ذخائر کے حوالے سے ہدایات، گھر کے ساتھ محلّہ ، سڑکوں ، باغات اور دیگر عوامی جگہوں پر صفائی کا خیال ۔ شہری املاک کی حفاظت، قانون کی پاسداری، مساجد کا احترام اور دیکھ بھال، رواداری، دہشت گردی___ ان تمام اُمور کو اسلام کے تحت موضوعِ گفتگو ہونا چاہیے۔ معاشی دائرے میں حلا ل وحرام، آمدنی کا فرق، کسب مال کی ترغیب، زائد از ضرورت مال اور محروم طبقات کے حقوق، زکوٰۃ اور صدقات، ریاست کے ذرائع آمدن، سود، اسلامی بنکاری، کاروبار کے اصول و ضوابط تمام موضوعات پر انسان الہامی ہدایت کا محتاج ہے۔ قانونی دائرے میں اسلام کے عائلی، دیوانی اور فوجداری قوانین، قانون سازی کے اختیارات، اسلامی قانون کے ذرائع، قوانین کے نفاذ کی شکلیں، ان تمام اہم موضوعات کی تفاصیل قرآن وحدیث اور فقہ میں موجود ہیں جو عوام الناس تک منتقل ہونا از حد ضروری ہے۔
سیاسی نظام کے دائرے میں حاکمیت اعلیٰ، یعنی حاکمیت الٰہی کا تصور ، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نیابت،خلیفۃ اللہ فی الارض کی حیثیت میں اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے ذمہ دار کی حیثیت میں سیاسی نظام کی بنیادیں، منصب خلافت یا امارت، شورائیت، مقتدر طبقے کے فرائض، اقتدار کے ذریعے دین الٰہی کا نفاذ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ، فلاحی ریاست کا قیام، ان تمام اُمور کی تفاصیل کو سمجھے بغیر ایک انسان کس طرح اسلام کو بطور نظام حیات سمجھ اور مان سکتا ہے۔
بین الاقوامی نظام کے تحت ایک مسلم ریاست کا دیگر ممالک سے روابط و تعلقات کی بنیادیں، غیر جانب دار اور بر سرِپیکار قوتوں کے ساتھ تعلق، بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق کی پاس داری، عالمی قوانین کے اختیار کرنے میں امکانات اور رکاوٹیں، جنگ اور جنگی قیدیوں کے حوالے سے تعلیمات___ یہ تمام وہ موضوعات ہیں جو اکیسویں صدی میں اسلامی ریاست کے خدوخال سمجھنے اور اس کے قابل عمل ہونے پر اعتماد عطا کریں گے۔
دعوت الی اللہ انسانوں کی فکری وعملی اصلاح کا وسیع کام ہے۔ یہ اہل خانہ کے اندرونی دائرے سے شروع ہو کر ، خاندان ، محلّہ ، شہر، ملک، تمام عالم اور نوع انسانی تک پھیلنے کا عمل ہے۔ دعوت کے مخاطب وہ لوگ بھی ہیں جو اسلام کو ماننے کے باوجو د اس کی تعلیمات سے بے خبر ہیں یا جانتے بوجھتے اس پر عمل کے لیے تیار نہیں ہیں، اور وہ لوگ بھی جو اسلام کے دائرے میں داخل نہیں ہیں اور اسے قبو ل کرنا بھی نہیں چاہتے۔ اس وسیع میدان میں اپنے حصے کی ادایگی میں داعیات کو ایک خاص ترتیب ملحوظ رکھنا ہو گی جو اس کام میںحسن اوراستحکام پیدا کرے گی۔ بصورت دیگر انسان بعد میں پہنچنے والے میدان میں پہلے سے محنت کر رہا ہو گا اور ابتدائی دائرہ اس کی نگاہوں سے اوجھل رہ جائے گا ۔ یہ بے تربیتی دعوت کے کام میں عدم توازن کے ساتھ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے گی۔
یقینا ہمارے اہل خانہ سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں دین کی حقیقت سمجھائی جائے، اللہ سے محبت اور اس کے تقاضے واضح کیے جائیں۔ داعیہ کو گھر اور بچوں کے حوالے سے ایک راعی، یعنی نگران کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور وہ اس بارے میں مسئول ہوگی۔ البتہ شوہر قوام کی ذمہ داری کی بنا پر تمام اہل خانہ بشمول بیوی اور بچوں کے لیے مسئول ہے، جب کہ خاتونِ خانہ کی مسئولیت میں شوہر کی ذمہ داری شامل نہیں ہے۔ تاہم شوہر سے محبت اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر وہ دین کی بنیادوں اور جزئیات سے ناواقف ہے تو پیار و محبت اور حکمت سے اس تک بھی دین کی دعوت پہنچائی جائے اور اصلاح طلب امور میں اصلاح کا راستہ سمجھایا جائے۔ فرمان الٰہی ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (التحریم ۶۶:۶)،مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش(جہنم) سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں۔ جوارشاد اللہ ان کو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
اس ارشاد میں قطع نظر مردوعورت کے اپنے گھر والوں کو اللہ کی ناراضگی اور اس کے انجام سے بچانے کی فکر کرنے کو کہا گیا ہے۔ ایک داعیہ اگر اپنے گھر کو اپنی دعوت کا پہلا میدان قرار دیتے ہوئے اس منزل کو سر کرے گی تو شوہر ، بچوں اور دیگر اہل خانہ کا تعاون اس کے لیے اگلی منزلوں کو حاصل کرنے میں ممدومعاون بن جائے گا۔ جو داعیات اپنے گھر کی اصلاح کو اہمیت نہیں دیتیں یا بوجوہ نظر انداز کرتی ہیں تو ان کے لیے شوہر اور بچے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
اپنے گھر کی اصلاح کے ساتھ داعیات کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اس دائرے کو وسیع کرتے ہوئے خاندان اور برادری کے بڑے دائرے تک اپنی دعوت کو پھیلا ئیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، خالہ پھوپھی، چچا ماموں، بھانجے بھانجیاں، یہ سب عزیز رشتے تمام انسانوں کی بہ نسبت ہماری توجہ کے زیادہ حقدار ہیں ۔ حکم ربانی ہے :وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(الشعرا ۲۶: ۲۱۴)، اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو [یعنی، ڈرائو]۔
خاندانی زندگی میں تانے بانے یوں جڑے رہتے ہیں کہ قدم قدم پر دوسرے کے محتاج اور تعاون کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ اس میل ملاپ میں ہمیں خوشیاں بھی حا صل ہوتی ہیں اور یہی تعلقات ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ داعیات کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے کہ خاندان میں دینی اقدار کے فروغ سے خاندانی تعلقات کو استوار رکھنا بھی آسان ہو گا اور دعوت دین کی راہ میں ان کی حمایت اور تعاون بھی حاصل ہو سکتا ہے۔خاندان میں دعوت کے کام سے غفلت ہمیں دوسروں کی نگاہ میں بھی غیر معتبر بنانے کا باعث ہو گی اور اللہ کے ہاں گرفت کی بھی۔
گھر اور خاندان کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے اس علاقے یا محلے میں دعوت دین کا کام آپ کی ذمہ داری ہے جہاں آ پ رہتی ہیں ۔یہ ذمہ داری والدین کے گھر ر ہتے ہوئے بھی ادا ہوسکتی ہے جہاں آپ پلی بڑھی ہیں اور شادی کے بعد سسرال میں یا جہاں شوہر رہایش پذیر ہیں ۔
اسلام میں ہمسایوں کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی ہے ۔پڑوس کوچار اطراف۴۰ گھروں تک محیط قرار دیا گیا ہے۔ دیوار برابر پڑوسی کے اور بھی زیادہ حقوق بتائے گئے ہیں ۔منجملہ حقوق کی ادایگی یا حسن سلوک میں اﷲکے راستے کی طرف دعو ت دینا ،قرآن سے تعلق جوڑنا، اﷲاور اس کے رسول کی اطاعت کی طرف راہنمائی کرنا دیگر دینی و دنیاوی معاملات میں اﷲکی رضا کا راستہ واضح کرنے کے لیے انھی کے درمیان رہنے والافرد بہت مؤثر ہو سکتا ہے ۔ ایک داعیہ کو اپنے ہمسایوںکے درمیان محبت سے میل ملاقات،ان کی خوشیوں اورغموں میں شرکت ،تحفہ و تحائف کا لین دین دعوت کے بے شمار مواقع فراہم کرتاہے۔ اپنے سماجی تعلقات کے دوران موقع کی مناسبت سے قرآن کے احکامات پہنچانا ،دینی کتب کی فراہمی ،دعا کا اہتمام یا باہم گفتگو میں دین کے مبادیات و جزئیات کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے اہل محلہ کو اﷲ کے قریب لانے کی کوشش ضروربار آور ہوں گی ۔
ایسی داعیات جو کسی ادارے میں ملازمت کرتی ہوں ان کے رفقاے کار بھی ان کے لیے کسی قدر اہل خاندان اور اہل محّلہ کے زمرے میں شا مل ہوں گے ۔ملازمت کے میدان میں ماتحت خواتین اسی طرح آپ کی رعیت میں شمار ہوں گی جس طرح گھرپر بچے اور ماتحت افراد ہوتے ہیں۔ ان پر ایک درجہ احکامی فوقیت ہونے کے ناطے آپ پر لازم ہے کہ دیگر دفتری احکام کے ساتھ ان کی توجہ اسلام کے تقاضے پورے کرنے پر بھی دلوائیں دیگر ساتھیوں کو بھی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ اﷲکی طرف دعوت دین کی متبادل تعلیمات کے ساتھ ساتھ ملازمت کے دوران مطلوب رویوں پر توجہ دلوانا بھی دعوت کے کام کا حصہ ہے ۔مثلاً رزق حلال کی اہمیت ، وقت کی پابندی اور ادارے میں ملازمت کے اوقات کار کی پابندی کارزق حلال کے حصول سے تعلق ،دفتری امور کی ذمہ داری سے ادایگی ،ادارے کے وسائل کو امانت سمجھتے ہوئے استعمال کرنا ،دفتری رفقا کے ساتھ حسن سلوک اور خیرخواہی کی تاکید ،دفتری سیاست اور توڑ جوڑ کی کوششوں سے اجتناب وغیرہ۔
اب تک جن معاشرتی دائروں میں دعوت واصلاح کے کام کا ذکر کیاگیا ہے وہاں آپ سب کو براہ راست جانتی اور پہچانتی ہیں اور آپ کے مخاطین بھی آپ کو ذاتی حیثیت میں جانتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر آپ کے شہر و وطن کی وسیع اجتماعیت اس بات کی متقاضی ہے کہ آپ اپنے فہم و ادراک اور علم کے بقدر اپنے ملک کی وسعتوں تک اﷲ کا پیغام پہنچائیں ۔آپ کے مخاطبین کا دائرہ جتنا وسیع ہوتاجائے گا آپ کو دعوت کے اسلوب میں بھی اسی مناسبت سے وسعت پیدا کرنا ہوگی۔ گفتگو اورتقریر سے آگے بڑھ کے تحریری اور تحقیقی اسلوب کا بھی سہارا لینا ہوگا ۔دوسروں کی لکھی ہوئی تحاریر کو استعمال کریں یا خود لکھیں اور لٹریچر تقسیم کر یں ۔
انفرادی اور اجتماعی سطح پر افراد اور اداروں نے جو دعوتی مواد ترتیب دیا ہے اس سے فائد ہ اٹھائیں۔ مذہبی اعتبار سے اہم مواقع، مثلاً رمضان المبارک ،قربانی ،عیدین ،محرم الحرام ،ربیع الاوّل، رجب ،شعبان صحابہ کرامؓ کی شہادت کی تواریخ ، امہات المومنینؓ اور بنات مطہراتؓ کی تاریخ پیدایش و و فات و دیگر اہم دنوں کو اپنی دعوت کے لیے اہم مواقع تصور کریں۔ان مواقع کے حسا ب سے خصوصی طور پر لٹریچر اکٹھا کر کے ایک فائل بنائیں ،اپنے گذشتہ دروس کو ایک جگہ جمع رکھیں تاکہ برمحل کام آسکیں۔اسی طرح ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے اہم ایاّم مثلاً یومِ آزادی، یومِ قراردادِ پاکستان ،یوم قائد اعظم ،یوم اقبال ،۶ ستمبر ،یوم تکبیر ،یوم مزدور ،یوم خواتین، یومِ اطفال و دیگر مواقع پر موقع کی مناسبت سے اسلام کا پیغام ،وسیع تراجتماعیت میں پہنچائیے۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے اخبارات ،جرائد و رسائل ،ریڈیو اور ٹی وی کو عوام الناس تک پیغامِ حق پہنچانے اور منکرات کی اصلاح کے لیے ذریعہ بنائیے ۔
مسلمانوںکے درمیاں تبلیغ و دعوت اور اصلاح معاشرہ کی کوشش ایک داعی اور داعیہ کے لیے اگر ایک جہت ہے تو دوسری جہت غیر مسلم دنیا کے سامنے اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔اس حوالے سے آپ کے مخاطبین دنیا کے تین سے چار ارب غیر مسلم افراد ہوں گے اور ان میں سے اگر خواتین کو مرکزو محور بنایا جائے تو نصف تعداد۔آپ اس میدان میں قدم رکھیں گی تو یہ اتنا وسیع میدان ہے کہ جب تک آپ میں قوت عمل اور آپ کی مہلت عمل باقی ہے، آپ کام کے نہ ہونے کی شکایت نہیں کر سکتیں۔
دعوت کے اس میدان میں اترنے کے لیے ایک داعیہ کو اپنے علم اور فہم کو بے انتہا وسعت دینا ہو گی۔قدیم وجدیدنظریات سے واقفیت ، مختلف مذاہب کا تعارف اور ان کے مابین انسانوں کے مختلف گروہوں کے مقام و مرتبہ کا تعین، انسانی حقوق کے نظریات اور ان کی پاس داری، اسلام مخالف افکار اور رویوں کی پہچان اور ان کا رد، مستشر قین اور ان کی فکر و تحریر سے واقفیت ، اسلام مخالف پروپیگنڈے کے طریقوں اور ذرائع کا استحضار اس میدان عمل کے لوازم ہیں۔ سوچ لیجیے کہ اس ضروری مہم کے لیے کیسے سرمایے کی ضرورت ہو گی؟
غیر مسلموں کو دعوت حق کے خوشگوار نتیجے کے طور پرایک اور میدان آپ کے سامنے آئے گا جو کہ راہ حق کو قبول کر کے آزمایشوں میں کود جانے والے افراد کی صورت میں ہوگا۔ آپ کے لیے ان نو مسلم خواتین کو دین کی بنیادی تعلیمات سمجھانے، احکامات پر عمل سکھانے، قرآنی دعائوں کے پڑھنے اور یاد کروانے کے ساتھ انھیں اپنے ماضی سے کٹ کر نئی اجتماعیت میں ضم ہونے کا حوصلہ بھی دینا ہو گا۔ انھیں ایک خاندان اور معاشرت میں اجنبیت کے احساس سے بچانے اور زندگی کے عملی مسائل میں تعاون پیش کرنے کا فریضہ بھی ایک داعیہ کی ذمہ داری ہو گا۔ اسلام آباد میں ایک ایسی ہی با ہمت نو مسلم داعیہ نے ’نیومسلمات کلب‘ کے عنوان سے نو مسلم خواتین کے لیے فورم قائم کررکھا ہے جو نو مسلمات کی دینی و دنیوی ضروریا ت کو پورا کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔
lمؤثر طبقات:داعیات دین کے لیے ایک اہم سوچ یہ ہونی چاہیے کہ تبلیغ میں اوّل مخاطب و ہ طبقات ہوں جن کے افکار ونظریات کی قیادت میں معاشرے کا نظام چل رہا ہے۔ درحقیقت معاشرے کے ذہین ، مقتدراور مؤثر طبقے ہی عوام الناس کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہی معاشرے کے طرزِ فکروعمل کی تشکیل کرتے ہیں۔ان کی اصلاح ہو جائے تو سارا نظام خود بخود راہ راست پر آجاتا ہے اور بصورت دیگر نیچے کے طبقات میں ہونے والی اصلاح بھی عارضی ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال قلب اور اعضا و جوارح کے مابین تعلق سے سمجھی جا سکتی ہے۔ اگر دل کمزور ہو تو اعضا وجوارح پر کوئی عمل جسم کو طاقت نہیں پہنچا سکتا۔
انبیاے کرام کی دعوت میں بھی ہمیں اس پہلو سے راہنمائی ملتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ پہلے سوسائٹی کے مقتدر ، باحیثیت اور فرماںروائی کے حامل طبقات کو مخاطب کیا۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ آزر کو ، جو کہ مذہبی رہنماتھے ، وحدانیت کی دعوت دی ۔ حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کی طرف بھیجا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے معزز افراد کو اپنی اولین دعوت کا ہدف بنایا۔
جامعات سے وابستہ مدرسات اور دیگر داعیات کا دائرہ کار ، عموماً معاشرے کی کم پڑھی لکھی اور معاشرتی طور پر غیر مؤثر خواتین اور بچیوں تک محدود رہتا ہے۔ سیاسی طور پر مؤثر سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں موجود خواتین ، اہم حکومتی مناصب پر فائز خواتین ، ججوں، وکلا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ خواتین ، ڈاکٹر وں، غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) سے وابستہ خواتین، تعلیمی میدان میں یونی ورسٹی، کالج اور سکول کی منتظم اعلیٰ، انتظامیہ اور خواتین اساتذہ ، فوجی اور سول اعلیٰ افسران کی بیگمات تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچانا اگر داعیات دین کی فہرست اور توجہ سے خارج ہے تو حقیقتاً معاشرے میں تبدیلی کے خواب دیکھنا محض شیخ چلیّ کے خواب ثابت ہوں گے۔
داعیاتِ دین کے لیے انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ وہ مائوں میں شعور بیدار کریں کہ ان کے ذمے بچوں کو محض لذیذ اور انواع و اقسام کے کھانے کھلانا، خوش نما لباس پہنانا اور مروّجہ تعلیمی نظام کے تحت تعلیم کے مراحل مکمل کروانا نہیں ہے، بلکہ بچوں کی جسمانی، ذہنی، فکری ، جذباتی، نفسیاتی ، روحانی اور دینی تربیت کی مکمل ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تربیت کے ان مراحل میں والدین کی مسلمہ حیثیت کے حوالے سے والدکے کردار کو روشناس کروانا بھی بالواسطہ داعیات کی ذمہ داری ہے۔
بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو جاں گزیں کرنا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے متعارف کروانا، آپؐ کی محبت اور ا تباع سکھانا ، نماز اور روزے کا عادی بنانا، اخلاقِ حسنہ، مثلاً سچائی ، غنا، بہادری ، حیا کو ان کے کردار کا حصہ بنانا، نیز اخلاقِ سیئہ، مثلاً: جھوٹ ، چوری ، بزدلی،بے حیائی، خودغرضی، غیبت وغیرہ سے بیزاری پیدا کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا حصہ نہ بننے دینا۔ اسی طرح ماں باپ کے ادب و محبت کے ساتھ اساتذہ کی عزت اور محبت سکھانا، بہن بھائیوں سے محبت کے رویوں کو سکول کے دوستوں اور پھر معاشرے کے دیگر روابط میں بروے کار لانا، جنت کا واضح نقشہ اور چاہت دل میں رکھتے ہوئے زندگی بھر اس کے حصول کے لیے کوشاں رہنے کی خواہش پیدا کرنا، ان تمام پہلوئوں سے واعیات دین کو گھروں میں رہنے والی یا ملازمت کرنے والی مائوں کو متوجہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ بچوں کو نقصان پہنچانے والے مادی ، جذباتی، روحانی ، نفسیاتی اور فکری افکار و اعمال سے ممکنہ حد تک بچانے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔
عصر حاضر میں خواتین سے متعلق مباحث خصوصی اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ مشرق ومغرب میں عورت کے حوالے سے صنفی امتیاز ، ناروا سلوک اور رسوم و رواج پر مبنی رویوں کے خلاف قانون سازی اور حکومتی اصلاحی اقدامات رُ وبہ عمل ہیں ۔ اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ اور حقوق اور فرائض واضح ہیں ۔ مرد وخواتین کے بحیثیت انسان ایک جیسے معاشرتی اور قانونی حقوق ہیں۔ البتہ اسلام میں فرائض کا دائرہ کار مرد اور خواتین کے لیے قدرے مختلف ہے ۔ دو ایک جیسے انسانی حقوق کی حامل اصناف مرد اور خواتین جب نکاح کے ذریعے ازدواجی بندھن میں بندھتے ہیں تو دونوں کے وجود سے ایک ادارہ ( خاندان ) وجود میں آتا ہے، جس کے تحت دونوں ذمہ دار ہستیاں اپنے ذمے متعین فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔اسی طرح معاشی زندگی میں بھی جدوجہد کا بنیادی میدان مردوں کے ذمے لگایا گیا تھا کیونکہ گھریلو ادارے کے حوالے سے کمانے کی ذمہ داری اور بیرونی کام اس کے ذمے تھے ۔البتہ خواتین کو علمی اور تہذیبی اعتبار سے اپنی نشوونما اور معاشرے کی تعمیر واصلاح میں اپنا حصہ ڈالنے پر کوئی پا بندی نہیں لگائی گئی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدلتے ہوئے عصری تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے معاشرے کے مختلف میدانوں،مثلاً تعلیم، طب، سماجی بہبود اور دیگر میںخواتین کی موجودگی لازمی ٹھیری۔
داعیات دین کو عورت اور خاندان کے حوالے سے اسلام کا بنیادی فلسفہ اور تعلیمات کا بہت واضح طور پر اِدراک اور استحضار ہونا چاہیے ۔اس حوالے سے مدلّل راہنمائی فراہم کرنے کے لیے ایک داعیہ کو مغرب کی عورت کا اپنے حقوق ومقام کے حصول کے لیے جدوجہد، اور اس راہ میں گمراہی، فکری کجی اور مغالطوں کا بھی علم ہونا چاہیے اور اسلام میں عورت کے مقام و مرتبہ اور حقوق و فرائض سے بھی کما حقہ آگاہی ہونی چاہیے ۔
بعینہٖ مغربی دنیامیںاقوام متحدہ کے زیر نگرانی خواتین کے حقوق کی عالمی جدوجہد کے آغاز ، اُتار چڑھائو ، امکانات، کامیابیوں ، مسائل، مسلم فلسفہ و فکر اور قانون سے تصادم ودیگر کا علم ہونا بھی ازحد ضروری ہے۔ اس طرح ایک مسلم داعیہ مسلم معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے اسلام کے تناظر میں جدوجہد جاری رکھ سکے گی اور عالمی ایجنڈے کے تحت ہونے والے اقدامات میں سے مثبت کو اپنانے اور منفی یا اسلامی فکر اور قانون سے متصادم کو رد کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہوگی اور اس حوالے سے طالبات ، خو اتین اور عوام الناس کی راہنمائی مؤثر طور پر کر سکے گی۔ مزیدبرآں عالمی سطح پر خواتین کے حقوق اور دیگر انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہد کے چند ایسے منفی پہلو ہیں جن کے آگے بند باندھنے کی کوشش وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ ان کا سیلاب تہذیبی ورثے کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ ان میں بنیادی طور پر نکاح کے بغیر ازدواجی اور خاندانی تعلقات کا فروغ ، ہم جنس پرستی اور ہم جنس افراد کی شادی، برہنگی کا حق، سیکس ورکر کے نام پر طوائفیت کو تحفظ اور فروغ، اسقاط حمل کا قانونی حق وغیرہ شامل ہیں۔ ان مباحث کے بارے میں بنیادی معلومات کا حصول، اسلام کا نقطہ نظر، علما کی راے، بین الاقوامی اور ملکی قوانین کا علم ایک داعیہ کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہر انسان کاامتحان اور میدانِ امتحان دنیا میں اس کی مہلت عمل کے ساتھ منسلک ہے ۔دنیا کے ا سٹیج ڈرامے میں ہر کردار اپنے متعین وقت پر داخل ہوتا اور ایک متعین وقت پر پردۂ اسکرین سے اوجھل ہوجاتاہے ۔ابتداے آفرینش سے تاحال دنیا جغرافیائی،طبعی، تاریخی ،سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے ۔ایک داعی دین مختلف پہلووں سے اپنے عصری تقاضوں سے غافل اور بے پرواہ رہتے ہوئے مؤثر نتائج حاصل نہیں کرسکتا۔یقینا آج کی داعیہ کے لیے بھی یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
آج کا دور زمانی اعتبار سے اکیسویں صدی ،مکانی اعتبار سے گلوبل ویلج ،تکینکی اعتبار سے انفارمیشن اور پوسٹ انفارمیشن دور ، تعلیمی اعتبار سے تحضّص،معاشی اعتبار سے صنعت سازی اور مادّیت پسندی، سیاسی اعتبار سے جمہوریت اور تہذبیی اعتبار سے عالمی یلغار اور استعمار کا دور ہے۔ چنانچہ داعیات دین کو زندگی کی حقیقت اور فلسفہ ، عقائد و نظریات، توحید ،آخرت کی جواب دہی، اخلاقیات کی بار آوری ، مفسدات کی بیخ کنی کے لیے ان تمام پہلوئوں سے امکانات ،مسائل، اور رکاوٹوں کو ذہن میں رکھتے ہوے دعوت الی اﷲکا فریضہ سر انجام دینا ہوگا ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا اِدراک بھی بہت ضروری ہے کہ مسلم دنیا کی حقیقت اس حوالے سے کیا ہے؟ یعنی اسلام کی تعلیمات اور مسلم معاشروں کی صورت حال کی خلیج کے بارے جاننا اور ماننا بہت ضروری ہے۔ معاشرے اور گھر میں خواتین کو ان کا جائز مقام نہ دینا ، مردوں کی طرف سے کفالت کی ذمہ داری کی عدم ادایگی، گھریلو تشدد اور ناروا سلوک، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، قرآن سے شادی ، وراثت کی عدم ادایگی، جنسی سراسیمگی اور زنا بالجبر وغیرہ مسلم معاشروں میں منفی رویوں اور رواج کی واضح صورتیں ہیں۔
دین کی دعوت دینے والے دیگر افراد جن کا تعلق خواہ کسی کی اپنی اختیار کردہ اجتماعیت سے ہو یا دوسرے گروہ سے، ان سے اخوت ومحبت کا تعلق رکھنا، دعوت دین کے لیے اپنے منصوبوں اور کاموں کی مناسب منصوبہ بندی کرنا، ان کا جائزہ لینا، کاموں کو نظم وترتیب سے انجام دینا، مشاورت کا اہتمام کرنا، صبر و استقامت کا رویّہ اختیار کرنا، دعوت کے مراحل اور تخاطب میں حکمت کا لحاظ رکھنا، مخاطبین کے ساتھ تخاطب اور معاملات میں حسن اخلاق کا پیش نظر رکھنا، تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا، مخاطبین کی تذلیل واہانت سے حتی الامکان بچنا، دعوت کے کام میں نمود و نمایش ، کبر و غروراور ریا سے بچنے کا خصوصی اہتمام کرنا، ضعفِ ارادہ کا شکار نہ ہونا اور شیطان کی اُکساہٹوں سے چوکنا رہنا، نیت کو بار بار اللہ کے لیے خالص کرنا اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائوں کا طلب گار رہنا___ یہ تمام وہ بنیادی اوصاف ہیں جو داعیات دین کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گے۔
مقالہ نگار انچارج دعوۃ مرکز براے خواتین ، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد - جنرل سیکرٹری ویمن ایڈ ٹرسٹ پاکستان ، صدر پاکستان برانچ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ہیں