اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے___ یہ ہمارا ایمان ہے اور دعویٰ بھی۔ ضابطۂ حیات کا مطلب ’زندگی گزارنے کے طریقوں کا جامع قانون اور دستورالعمل‘ ہے۔ اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب جب اور جہاں جہاں حیات ہوگی وہاں وہاں ا سلام کے احکام ہوں گے۔
انسانی حیات کی ابتدا اس کی پیدائش سے ہوتی ہے، اور ایک بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا دورانیہ شروع ہوجاتا ہے۔ پھر اس وقت سے لے کر موت تک دُنیا کی زندگی جاری رہتی ہے اور اس پورے دورانیے میں اسلام کی رہنمائی قدم بقدم ساتھ رہتی ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ پہلو خواہ محض کسی ایک شخص کی ذات سے متعلق ہوں یا دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے، اس کے جسم و جان کے بارے میں ہوں یا مال کے متعلق ، گھریلو زندگی ہو یا سماجی و معاشی، ہر پہلو کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات موجود ہیں۔ یہی امر اس بات کی کامل دلیل ہے کہ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ کثیر جزوی اُمور پر صریح ہدایات کے ساتھ اسلام نے ایسے جامع قواعد و ضوابط اور قوانین عطا کیے ہیں کہ لاتعداد معاملاتِ حیات میں اسلامی ضابطۂ حیات کی جامعیت واضح طور پر کھل کر سامنے آ جاتی ہے ،جن کی روشنی میں نئے پیش آمدہ معاملات میں مقصودِ شریعت اور روحِ دین کو سمجھ کر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے۔
دنیا کے تمام معاشروں میں گھر اور اجتماعیت میں اخلاق، رہن سہن، حیا، لباس اور انداز و گفتار کے ضابطے طے کیے جاتے ہیں۔ اسلام کیونکہ خود مکمل ضابطۂ حیات ہے تو یہ ضابطے اسلام کی بنیادی تعلیمات، عبادات اور اخلاقی نظام میں ہی موجود ہیں۔ اسلام کا نظامِ اخلاق نہ صرف انفرادی طور پر میزانِ اعمال میں ایک مسلمان کی خوش بختی کا ذریعہ ہے بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری پر مبنی ایک پُر امن اور عادل معاشرے کے قیام کا بھی ضامن ہے اور اسلام کا نظامِ عفت و عصمت بھی درحقیقت اسلام کے مجموعی نظامِ اخلاق کا حصہ ہے۔ معاشرے کی عفت و عصمت کی حفاظت اور حجاب کے احکامات محض چند کپڑوں کے استعمال یا مخصوص اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حیا کے وصف پر قائم کی گئی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے‘‘ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)۔ ایک اور حدیث میں جس میں ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اُٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ (مستدرک للحاکم، صحیح الجامع للألبانی)
درحقیقت حیا کا تصور بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے جس میں نہ صرف فواحش و منکرات سے اجتناب بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رُک جانا مقصود ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا : ’’اللہ سے حیا کرو، جیساکہ حیا کا حق ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے ،اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتاہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی، جس طرح حیا کا حق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
اسلام میں عفت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لیے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف احادیث کے ذریعے وضاحت کی گئی۔ حضرت ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔ (بخاری)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی و احمد)۔
آپ ؐنے فرمایا: ’’حیا تو بس خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
نیز فرمایا:’ ’ہر دین کا ایک خاص وصف ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات پر تزکیۂ نفس کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ ایک جگہ فرمایا: ’’بے شک وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی‘‘۔ (الاعلٰی۸۷: ۱۴-۱۵ )
اسی طرح ارشاد فرمایا گیا: ’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی اور برا راستہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۲ )
مزید ارشاد ہوا کہ ’’اور بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں‘‘۔ (الانعام۶: ۱۵۱)
ان آیاتِ مبارکہ پر غور و خوض کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فحاشی اور منکرات کے کاموں کو انتہائی ناپسند فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں اُن تمام اقدامات کا ذکر کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکرمعاشرے میں فحاشی‘ بے حیائی اور بدکرداری کو روکا جا سکتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے‘‘۔(النور۲۴:۳۰-۳۱ )
سورۂ احزاب میں مومن عورتوں سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا : ’’تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دورِ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں‘‘۔(الاحزاب۳۳: ۳۳)
اﷲ تعالیٰ نے برائی اور بے حیائی کے فروغ کی انتہائی سخت الفاظ سے مذمت فرمائی: ’’بے شک وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘ ‘۔ (النور۲۴: ۱۹ )
حیا کو بنیاد بناتے ہوئے انسانی معاشرے میں عفت کا جو نظام ترتیب دیا گیا ہے، اس میں ایک انسان سے مطلوب انفرادی طرزِ زندگی اور پھر بتدریج خاندانی اور معاشرتی زندگی کے تمام دائروں کے لیے واضح اور تفصیلی ہدایات قرآن و احادیث مبارکہ کے ذریعے جاری کر دی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں لباس کو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قرار دیتے ہوئے انسان کے لیے ستر پوشی، موسمی اثرات سے حفاظت اور زینت کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور احادیثِ مبارکہ کے ذریعے مرد و خواتین کے لیے ستر کی حدود واضح کی گئی ہیں۔
سورۂ نور میں مرد و خواتین کے لیے نگاہوں اور عفت و عصمت کی حفاظت کا حکم دیا گیا تو پہلے مرد کو مخاطب کیا گیا، البتہ عورت کو اپنی اوڑھنیوں کے ذریعے اپنی نسوانیت کی حفاظت کا اضافی حکم دیا گیا۔ مزید یہ کہ نامحرم مردوں کے سامنے اپنی زینت کے اظہار کی ممانعت کر دی گئی۔ سورۂ احزاب میں خواتین کو دورِ جاہلیت کی طرز پر بن سنور کر گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت کر دی گئی اور یوں اسے اپنی معاشرتی زندگی میں ایک وقار کے ساتھ شمولیت کی ضمانت دی گئی۔ یہی وہ تمام احکام ہیں جنھیں ہم احکاماتِ حجاب کے حوالے سے جانتے ہیں۔
گذشتہ گفتگو کے تناظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ حجاب کے احکام اس دائرے سے آگے بہت وسیع معنوں میں ہیں ، جن میں محرم اور نامحرم رشتوں کی تفریق، ان کے ساتھ تعلقات کی حدود، نکاح کے حوالے سے حرمت کے رشتے، افکار کی پاکیزگی، نگاہوں کی حفاظت ،زنا اور اس کے مقدمات کا سدباب، گفتگو میں شائستگی، فحش کلمات پر مبنی گانے، شاعری، لطائف اور گالم گلوچ کی ممانعت، تفریح کے نام پر اخلاق سوز اشتہارات اور مذہبی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنے والی فلموں اور ڈراموں کی مذمت، معاشرتی زندگی کے دائروں میں بڑھتی ہوئی مخلوط محافل سے پرہیز، اور مرد و خواتین کے لباس میں بے حیائی کے بارے تشویش و دیگر امور شامل ہیں۔
مغربی معاشروں میں الہامی ہدایت سے محرومی کے اثرات اخلاقی و خاندانی اقدار کی پامالی اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے بے سمت جدوجہد کے نتائج، عریانیت، حدود و قیود سے ماورا جنسی آزادی، آزادانہ جنسی تعلقات، عورت کے لیے کلی تولیدی اختیارات، اسقاط حمل کا حق، ہم جنس پرستی، ہم جنس شادی اور تبدیلیٔ جنس کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ گلوبلائزیشن کے زیر اثر مسلم معاشرے بھی اخلاقی بے راہ روی میں اسی سمت بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ جس نظام کے تحت خاندان کو اپنے مکینوں کے لیے ایک حفاظتی قلعہ سے تعبیر کیا گیا تھا وہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے گھر سے باہر آزادانہ گھومنے پھرنے کو آزادی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جس نظام میں عورت کے لیے حجاب کو تحفظ، وقار اور رحمت کا ذریعہ بنایا گیا تھا وہاں اسے ایک بوجھ تصور کیا اور باور کرایا جا رہا ہے۔
جس معاشرے میں ایک مسلمان کی جان و مال اور آبرو کو دوسرے مسلمان کے لیے حرام قرار دیا گیا تھا، وہاں نوجوان اور کمزور معصوم بچیوں اور بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد درندگی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں؟ ہمیں اپنے معاشرے کو اس تباہ کن راستے سے بچانے کے لیے حیا اور حجاب پر مبنی نظامِ حیات کو لوگوں کے سامنے واضح کرنا، اس کی ترویج کرنا اور اسے قابلِ عمل بنانا ہو گا۔ یہ انفرادی سطح پر مرد و خواتین، اجتماعی طور پرخاندان، معاشرتی اور ریاستی اداروں، سب کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہم سب اللہ ربّ العالمین کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
چنانچہ اوّلین سطح پر ہمیں نظام عفت و حجاب کو انفرادی اور خاندانی سطح پر اپنے مزاج اور کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔ ابتدائی طور پر نسلِ نو کو بچپن سے ہی اخلاقی اقدار کی پاسداری کے لیے احتیاطی تدابیراورعملی ترغیبات دینے سے مستقبل میں ممکنہ مفاسد کا سد باب ہو سکتا ہے۔ بچپن سے ہی مہذب اور مکمل لباس پہنانا، تبدیلیٔ لباس اور رفع حاجت کے وقت تنہائی کا ماحول میسر کرنا، دس سال کی عمر کے بعد بچوں کے بستر علیحدہ کر دینا، کزنز وغیرہ کے درمیان بے تکلفانہ اور خلوت والے ماحول کی حوصلہ شکنی کرنا، انداز گفتگو میں شائستہ الفاظ کا استعمال سکھانا، گالی گلوچ اور جھوٹ و غیبت سے بچانا، بڑے ہونے پر محرم اور غیر محرم رشتہ داروں سے میل ملاقات کے آداب اور حدود و قیود سے آگاہ کرنا، انٹرنیٹ اور دیگر سوشل میڈیا کے استعمال پر بلا حدود و قیود آزادی سے عمل کی اجازت نہ دینا، اس حوالے سے حکیمانہ طور پر رہنمائی فراہم کرنا اور نگرانی کرنا، بچوں کے گھر سے باہر جانے اور آنے کے دوران ان کے تحفظ کو یقینی بنانا، رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر اپنی معیت کے بغیر رات گزارنے کی اجازت نہ دینا، ان تمام امور کے حوالے سے نوجوان اولاد کے ساتھ خصوصاً پیار اور حکمت کے ساتھ تمام معاملات کو لے کر چلنا انتہائی ضروری ہے۔
انفرادی اور خاندانی سطح پر ہم سب کو ان اصول و ضوابط کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کے ساتھ معاشرے کی مجموعی اصلاح کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔ تعلیمی اور تربیتی اداروں، اسکول، کالج، یونی ورسٹی، مساجد اور دیگر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور ریاست کے ذمہ داروں کو اپنی آئینی ذمہ داری کے تحت ریاستی قوانین اور ریاستی طاقت کے ساتھ ان مفاسد کو روکنے اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جو کہ معاشرے کو خوش حالی، امن و سکون اور تحفظ کی آماجگاہ بناسکیں، تاکہ معاشرے کے تمام افراد یکسوئی کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ اپنے فریضۂ حیات کو بہ احسن انجام دے سکیں۔