شام ،جسے ’سوریا’ یا ’سوریہ‘ بھی کہتے ہیں، زمین پر قدیم ترین آباد علاقہ ہے بلکہ بعض ماہرینِ بشریات کہتے ہیں: ’’شام اور اس کے پڑوسی ملک عراق میں ہی انسانی تہذیب پیدا ہوئی‘‘۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ شام میں عصر حجری سے لے کر آرامی، سلوقی، رومانی، بازنطینی، اُموی اور عثمانی وغیرہ ادوار کے آثار موجود ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں اس علاقے کو ۶۳۶ء میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں فتح کیا۔ خلافت راشدہ کے بعد اُموی خلافت قائم ہوئی جو ۱۳۲ سال چلی۔ اس نے دمشق کو اپنا دارالحکومت بنایا۔صلیبی جنگوں کے دور میں اس علاقے کو بہت نقصان پہنچا یہاں تک کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبی فوجوں کو ’حطین‘ کے مقام پر ۱۱۸۷ ء میں شکستِ فاش دی۔ سلطان صلاح الدینؒ کا دارالسلطنت بھی دمشق تھا۔عثمانی دورِحکومت میں شام کی بڑی ترقی ہوئی اور استنبول سے حجاز تک جانے والی ریلوے لائن بچھائی گئی، جو شام سے گزرتی تھی ۔ شام کے اندر وہ ریلوے لائن اب بھی کام کرتی ہے۔
دمشق پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد فرانسیسی کمانڈر جنرل گورو (Gouraud) شہر میں واقع سلطان صلاح الدینؒ کے مقبرے پر گیا اور ان کی قبر پر اپنا فوجی بوٹ رکھ کر کہا: ’’صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں‘‘۔ واضح تھا کہ فرانسیسی صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ؒکے ہاتھوں مکمل شکست کو صدیوں بعد بھی نہیں بھولے تھے۔ اسی طرح اکتوبر ۱۹۱۸ء میں برطانوی قائد جنرل النبی نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد شہر کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا:’’آج صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں‘‘۔ یورپ کو تو وہ سب یاد ہے، جب کہ مسلمان بڑی تیزی سے سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم [۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء] میں معاشی طور پر تباہ ہونے کے بعد فرانس نے شام کو آزادی دے دی اور ۷؍اپریل۱۹۴۶ء کو نیا شام وجود میں آیا۔ لیکن فرانس نے اسی کے ساتھ اپنا انتقام بھی لےلیا، جو آج تک شام اور علاقے کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، یعنی شام سے ایک حصہ کاٹ کر اسے ’جمہوریہ لبنان ‘ کا نام دیتے ہوئے اسے عیسائیوں کی آئینی بالادستی میں دے دیا، اور جو آئین فرانس نے لبنان پر آزادی دیتے ہوئے تھوپا تھا، اس میں لکھا ہوا ہے کہ لبنان کا صدر جمہوریہ، مارونی عیسائی ہو گا۔ لبنانی صدر جمہوریہ کے پاس فرانس اور امریکا کی طرح مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔
شام میں متعدد قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ یہاں کی غالب آبادی (۶۳فی صد) سُنّی مسلمانوں کی ہے۔ یہاں کے ایک گاؤں معلولہ میں آرامی زبان بولی جاتی ہے، جو حضرت عیسٰی علیہ السلام بولتے تھے۔ دوسرے گروپ یہ ہیں: علوی (۱۰فی صد)، عیسائی (۱۰فی صد)، کرد (۹ فی صد)، دروز (۳ فی صد)، اسماعیلی (۱ فی صد)، دوسری اقلیتیں (۲ فی صد)۔ شام کے ۷۴ فی صد مسلمان حنفی مسلک کے تابع ہیں۔
اس علاقے کو بعد میں منگول و تاتار وحشی حملہ آوروں نے بہت نقصان پہنچایا۔ مملوک فوجوں نے ان کو عین جالوت میں ۱۲۸۰ء میں شکست دی۔ پھر تیمورلنگ نے بھی ۱۴۰۰ء-۱۴۰۱ء میں اس علاقے کو تاراج کر کے بہت نقصان پہنچایا۔ عثمانیوں نے اس علاقے پر مملوک فوجوں کو ہزیمت سے دوچار کرکے اگست۱۵۱۶ء میں قبضہ کیا، جو اگلی چار صدیوں تک چلا اور پہلی جنگ عظیم میں عرب بغاوت کی وجہ سے ختم ہوا۔ اسی دوران فرانس اور برطانیہ گٹھ جوڑ نے اس پورے علاقے کو آپس میں تقسیم کرلیا۔
آج جو علاقے شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ سب پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ عثمانی دورحکومت میں سیاسی استحکام کی وجہ سے اس پورے علاقے کی معاشی اور تجارتی ترقی ہوئی۔ عثمانی عہد کے آخری حصے میں یعنی ۱۸۴۰ء سے لے کر۱۹۱۴ء تک اس علاقے میں بڑی تعلیمی ترقی ہوئی، چھاپے خانے لگائے گئے، کتابوں، مجلات اور اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی، جدید مدارس، کالج اور یونی ورسٹیاں قائم ہوئیں جس کی وجہ سے ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے شام کو پوری عرب دنیا میں برتری حاصل ہوگئی۔
باقاعدہ آزادی سے پہلے شام میں متعدد حکومتیں فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت قائم ہوئیں جیسے: هاشم الاتاسی کی حکومت(دسمبر۱۹۳۶ء) اور شکری القوتلی کی حکومت(۱۹۴۳ء)۔ ۱۹۴۶ء میں آزادی کے بعد شام میں اُوپر تلے فوجی انقلاب آئے، جیسے حسنی الزعیم کا انقلاب (مارچ۱۹۴۹ء)، شامی الحناوی کا انقلاب(۱۹۴۹ء)، شیشکلی کے دو انقلاب (دسمبر۱۹۴۹ء /۱۹۵۱ء) اور جنرل فیصل الاتاسی کا انقلاب(۱۹۵۴)۔ غرض اس عرصے میں شام میں آٹھ فوجی انقلاب ہوئے، جس کا نتیجہ واضح ہے کہ سیاسی اور اقتصادی افراتفری پھیل گئی۔
شام میں ۱۹۷۹ء میں الاخوان المسلمون کی قیادت میں اسد کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے بعد اسد حکومت کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ الاخوان المسلمون کے ممبران کو صرف ممبرشپ کی بنیاد پر سزائے موت دینے کا قانون بنا، جو بشار الاسد کے فرار تک جاری رہا۔
حافظ الاسد اور اس کے بعد اس کے بیٹے نے مظالم کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ صدام حسین کے مظالم کے علاوہ ایسی سفاکیت کسی اور عرب ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ اسد کا شام مخبروں، بےلگام مسلح ملیشیا گروہوں اور سیکیوریٹی کے نام پر ہزاروں تعذیب خانوں اور جیلوں کا نام تھا۔ حافظ الاسد کے غیرمعمولی مظالم میں جون ۱۹۸۰ میں واقع تدمر جیل کا قتل عام شامل ہے، جب ۱۲۰۰جیل بندسیاسی مخالفین کو آدھے گھنٹے میں مشین گن سے قتل کر دیا گیا تھا۔ فروری ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد نے حماہ شہر میں قتل عام کیا، جس کے دوران۲۰ ہزار سے ۴۰ ہزار لوگ طیاروں سے گولہ باری کرکے قتل کیے گئے اور حماہ کے قدیم تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا گیا، کیونکہ وہاں کے عوام نے کھل کر اسد حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔
اپنے مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے، پٹوانے اور قتل کرانے کے لیے حافظ الاسد نے سابق نازی افسروں کی مدد سے بڑا خطرناک سیکیورٹی سسٹم بنایا تھا، جو جاسوسی اور مشکوک لوگوں کی تعذیب میں بے مثال تھا۔اس مقصد کے لیے درجنوں ملیشیا بنائی گئی تھیں۔ جن میں سب سے خطرناک ’شِبّیحہ ‘ تھی، جو چھٹے ہوئے غنڈوں پر مشتمل تھی اور اسد کے مخالفیں کو مارنے، پیٹنے، ان کے گھر جلانے وغیرہ کا کام کرتی تھی۔ ان ساری ملیشیا تنظیموں کا قائد حافظ الاسد کا بھائی اور بشار کا چچا رفعت الاسد تھا، جو موجودہ انقلاب کے بعد سے غائب ہے۔
اس طاقت ور عوامی تحریک کے باوجودایران، حزب اللہ اور روس کی مدد سے بشارالاسد کی فاشسٹ حکومت قائم رہی۔ اس دوران آستانہ (قزاخستان)میں کئی میٹنگیں ہوئیں، جن میں طے کیا گیا کہ شام میں جمہوری حکومت بنے، جس میں تمام شہریوں اور علاقوں کی نمائندگی ہو۔ وعدہ کرنے کے باوجود بشارالاسد نے اندرونی طور پر کوئی تبدیلی نہیں کی اور آخر تک یہ سمجھتا رہا کہ روس، ایران اور حزب اللہ اس کو بچا لیں گے۔
اس صورتِ حال میں ملک کے مختلف حصوں پر مختلف طاقتیں قابض ہو گئیں۔ شمال میں ترکی اور ترکی نواز شامی فوج، مشرق میں امریکا اور اس کا حلیف ’کردی اتحاد‘، شمال مغرب میں ادلب کے آس پاس ’ھیئۃ تحریر الشام‘ (پرانا نام ’جبہۃ تحریر الشام‘) نیز بیسیوں چھوٹی مسلح تنظیمیں چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قابض ہوگئیں اور اب بھی ہیں۔ شام میں ۲۰۱۶ سے باغیوں اور اسد حکومت میں سے کوئی گروپ دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
موجودہ تحریک ۲۷نومبر کو شمال میں ادلب سے شروع ہوئی، جہاں ایک بڑے علاقے پر ’ہیئۃ تحریر الشام‘ کئی سال سے قابض تھی اور ایک حکومت چلارہی تھی۔اس نے ۲۱ دوسری چھوٹی تنظیموں کو ساتھ ملایا۔ ایک قیادت اور ایک جھنڈے کے تحت اسد کے علاقوں پر حملہ کرنے پر سب کو راضی کیا۔یوں سب سے پہلے انھوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کیا اور بالآخر تیزی سے حماہ اور حمص پر قبضہ کرتے ہوئے ۸دسمبرکی صبح کو دمشق پر قبضہ کر لیا۔ یہ جدوجہد اسی رات بشارالاسد کے روس فرار ہونے پر ختم ہوگئی۔
حالات میں تبدیلی مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظرنامے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بشارالاسد کے تینوں مؤیدین اب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ کسی بڑے پیمانے پر اس کی مدد کر سکیں۔ حزب اللہ، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بہت کمزور ہو گیا تھا۔ ایران اپنے مسائل اور امریکی اور اسرائیلی حملوں کی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا تھا،اور روس یوکرین میں پھنسنے کی وجہ سے کوئی بڑی مدد دینے سے قاصر تھا۔ان حالات میں ۲۸نومبر۲۰۲۴ء کو بشارالاسد، روسی صدر پوٹین سے ملنے اور فوجی مدد کی درخواست کرنے ماسکو گیا، لیکن اس کو ٹکا سا جواب ملا۔ بالآخر بشارالاسد ۸دسمبرکی رات کو ہوائی جہاز سے دو ٹن ڈالر اور یورو وغیرہ لے کر بھاگ گیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں تک کو آخر وقت تک بھنک نہیں لگنے دی بلکہ سب سے یہی کہتا رہا کہ روسی فوجی مدد آ رہی ہے۔
موجودہ تحریک کی ابتدا ایک سال قبل شروع ہوئی، جب دھیرے دھیرے بشارالاسد اور ان کی حکومت کو دوبارہ عرب اور اسلامی دنیا میں قبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ برسوں سے بشار کی حکومت کو عرب لیگ اور او آئی سی سے باہر کر دیا گیا تھا۔اب ایسا لگا کہ جلد ہی عرب حکمران اپنی پالیسی بدل کر بشارالاسد کو پوری طرح قبول کرلیں گے اور اس کی مدد کرنا بھی شروع کر دیں گے۔ اسی وقت سے ’ھیئۃ تحریر الشام‘ نے تقریباً ۲۲ چھوٹے چھوٹےمسلح گروہوں سے بات چیت شروع کی، جن میں سے کچھ شمال میں بعض علاقوں پر قابض تھے اور کچھ جنوب میں۔ ان سب کی ایک مشترکہ فوجی قیادت بنائی گئی۔ جنگجو عناصر کی ایک جگہ ٹریننگ ہوئی، ایک جھنڈے کے تحت لڑائی کا آغاز کیا گیا جس میں ’ھیئۃ تحریر الشام‘ اور ان کے حلیفوں نے شمال سے اور ان کے دوسرے حلیفوں نے جنوب سے شامی فوج کے خلاف نومبر کے اواخر میں تحریک شروع کی۔ اس کام میں کم سے کم خون بہایا گیا۔ اسد کی فوج نے ہر جگہ ہتھیار ڈال دیئے یا بھاگ گئی۔ ہر شہر میں سب سے پہلے جیل میں بند ہزاروں قیدیوں کو آزاد کرایا گیا۔
اسرائیل نے پہلے دن سے شام کے اسٹرے ٹیجک علاقے جولان کے باہر بفر زون اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا، نیز شام کی فوجی طاقت، اسلحے، راکٹ، جنگی ہوائی جہاز، بحری بیڑہ پر حملہ کر کے تقریباً ۸۰ فی صد شامی فوجی طاقت کو ختم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف نئی حکومت کمزور ہو گئی ہے بلکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی ردّعمل دینے کے لائق نہیں رہ گئی، اور نہ شام کے دوسرے علاقوں کو واپس لینے کی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس رہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پڑوسی ملک بشمول اسرائیل لشکر کشی کرتا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں۔
نئی حکومت کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں: ایک طرف تو دو درجن کے قریب مسلح تنظیموں کے تضادات دوبارہ اُبھر کر سامنے آسکتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے تسلط سے باہر دوسرے علاقوں کو واپس لینا بھa اس کے لیے بڑا مشکل کام رہے گا۔ اسی کے ساتھ ایک تباہ حال اور معاشی طور پر غربت زدہ ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ پھر سابق نظام کے لوگ، جن کے پاس دولت اور اسلحے کی کمی نہیں ہو گی، ملک کے اندر دہشت گردی شروع کرا سکتے ہیں۔ امریکا اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ شام کے سارے سیاسی اور مذہبی گروہوں یعنی بشمول بعث پارٹی ، بشارالاسد کے لوگوں اور علویوں، سب کو حکومت میں شریک کیا جائے۔ یہ ممالک یہ شرط لگا رہے ہیں کہ اگر نئی حکومت نے ایسا کیا تبھی’ ہیئۃ تحریر الشام‘ کو ’ دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست سے نکالا جاسکتا ہے۔ ان شرطوں کو ماننے سے نئی حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔
ساری عرب حکومتیں اس نئی حکومت میں مذہبی عناصر کے غلبے سے خوف زدہ ہیں۔ اسی لیے وہ شام میں نئی حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں گی، جیسے کہ وہ پہلے تیونس اور مصر میں کر چکی ہیں ۔ شام کے نئے حاکموں کے سامنے چیلنج بہت ہیں، لیکن ان کی کامیابی امت مسلمہ کے لیے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا تحفہ بھی ہو گی۔