ڈاکٹر ظفرالاسلام خان


عالم اسلام کا بحران گیارھویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگوں سے شروع ہوا۔ اس وقت تک ان ممالک میں، جن کو پہلے ’اسلامی مشرق‘ کہا جاتا تھا اور اب ’مشرق وسطیٰ ‘کہا جاتا ہے، مسلمان اکثریت حاصل کر چکے تھے، یعنی افغانستان، ماوراء النہر، وسطی ایشیا ، ایران ، شام ، فلسطین، جزیرہ نما عرب، یمن، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں میں مسلمانوں کی اس وقت اکثریت ہو چکی تھی۔

یہ جنونی صلیبی جنگیں گیارھویں صدی سے لے کر چودھویں صدی عیسوی تک (۱۰۹۹- ۱۳۶۹ء) تک چلیں۔ ان کی آڑ میں پورا یورپ، عالم اسلام کے مرکزی علاقوں پر پل پڑا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبرکو ’کافروں ‘سے بچانے کےنام پر پورے یورپ نے عالم اسلام کے مرکزی علاقوں پر مذہبی اور جذباتی نعرے لگاتے ہوئے دھاوا بول دیا حالانکہ ان کا اصل مقصد مزید زمینوں پر قبضہ کرنا تھا (جسے Lebensraum کا نام دیا جاتا ہے) کیونکہ امراء کے لیے یورپ میں زمین کم پڑ رہی تھی۔

ان جنونی حملوں کے دوران ترکیہ سے لے کر مغرب (مراکش) تک کو تا راج کیا گیا، جب کہ سب سے زیادہ نقصان فلسطین، شام اور مصر کو ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی (م:۱۱۹۳ء) نے ’معرکۂ حطین‘ (جولائی ۱۱۸۷ ء) میں صلیبیوں کی کمر توڑ دی، تاہم یہ بے معنی جنگیں شاہ قبرص پیٹر کی موت (۱۳۶۹ ء)تک جاری رہیں۔

اسی دوران مسلمانوں کی کمزوری دیکھ کر تیرھویں صدی عیسوی میں مشرق سے منگولوں اور تاتاریوں نے عالم اسلام پر حملے شروع کردیئے ۔ جہاں جہاں صلیبی، منگول اور تا تاری گئے وہاں وہاں انھوں نے نہ صرف بے شمار لوگوں کا خون بہایا، بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اور تجارتی اداروں کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔تاتاری یلغار کو مملوکی قائد سیف الدین قطز نے عین جالوت میں ۳ستمبر ۱۲۶۰ء کو شکست دے کر ناکام بنایا۔

جب صلیبی جنون دھیرے دھیرے ٹھنڈا پڑا تو پرتگال اور اسپین نے مسلم ممالک پر سامراجی قبضے کی مہم چلائی اور مسلم ممالک کے ارد گرد بحری راستوں پر قبضہ کر کے وہ مسلم تجارت تہ وبالا کر ڈالی، جو اٹلی میں بندقیہ (وینس) سے لے کر چین کے کینٹن تک پھیلی ہوئی تھی، اور جس پر عالم اسلام کی اقتصادی خوش حالی کا بڑی حد تک انحصار تھا۔ پھر جلد ہی دوسری یوروپین اقوام جیسے انگریز، فرانسیسی ، ولندیزی، اطالوی اور بلجیئن وغیرہ نے مسلم دُنیا کے مختلف حصوں پر قبضے شروع کردیئے۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط تک جاری رہا۔

بالواسطہ سامراج کے سمٹ جانے کی وجہ تسلط کی سوچ کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کے نتیجے میں یوروپین طاقتیں بہت کمزور ہو گئی تھیں، اور اسی دوران ایک نئی طاقت – امریکا – ان کی جگہ لے رہی تھی۔ اس نئی طاقت کو مسلم ممالک پر براہ راست سامراجی قبضے کی زیادہ فکر نہیں تھی بلکہ وہ وہاں کے بازاروں، حکومتوں، فوجی و سول قیادتوں اور میڈیا و اخبارات پر قبضہ چاہتی تھی۔ مزید بر آں ان ممالک کے خام مال کو کم سے کم دام پر خریدنا اس کا بنیادی مطمح نظر تھا ۔

مسلم دُنیا کے زوال کا یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال سے جاری ہے اور اب تک تھما نہیں ہے۔ اس کا اثر علمی، ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے ہر گوشے پر پڑا۔ پرانے مدارس بند ہوئے، علمی کام کے لیے علما کی مدد و ہمت افزائی کم سے کم تر ہوتی چلی گئی اور ہر میدان میں مغر ب کی نقالی کا بول بالا ہوگیا۔ دین دار حلقوں میں اصل اسلامی علوم (علومِ قرآن و حدیث وغیرہ) کے بجائے فقہ اور جامد تقلید نے لے لی، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں مسلکی تعصب اور گروہ بندی کو فروغ ملا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور امت واحدہ آج بہت سے فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ ان حالات میں ابن رشد (م: ۱۱۹۸ء) کے بعد عالم اسلام میں کوئی بڑا اجتہادی شان رکھنے والا عالم نہیں پیدا ہوا، بلکہ فقہی نصوص حفظ کرنے والے ’عالم‘ کہلائے۔

اس صورت حال کا اثر صرف خواص پر ہی نہیں بلکہ عوام پر بھی پڑا۔ ان کے سامنے کوئی رول ماڈل نہیں رہ گیا۔ علم کے لیے پیاس ختم ہوئی اور دولت و دنیاوی جاہ کے لیے ہوڑ لگ گئی۔   علما کا احترام ختم ہوا، نئے حاکم اپنے ملک اور عوام سے طاقت حاصل کرنے کے بجائے غیر ملکی حکمرانوں سے طاقت حاصل کرنے لگے بلکہ انھوں نے اپنے ملکوں میں غیر ملکی طاقتوں کو فوجی اڈے تک بنانے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ غیر ملکی طاقتوں کی شہ پاکر بہت سے مسلم ممالک میں فوجی انقلابات برپا ہوئے، جنھوں نے معاشرے کی سیاسی اور اخلاقی صورتِ حال کو اور بھی تہ وبالا کیا اور ہرسطح پر آمریت ( ڈکٹیٹرشپ) کو قابلِ قبول بنایا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ ، عوام کی دینی اور اسلامی تربیت اور علم کے فروغ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ہر مسلم ملک میں آمریت کا دور دورہ ہے کہ جہاں حاکم کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے۔ تقریباً ساری حکومتیں مغربی طاقتوں کے بل پر قائم ہیں۔ بعض عرب ممالک میں آسانی سے آنے والی دولت نے بھی حکام اورعوام دونوں کا مزاج بگاڑدیا ہے۔اب محنت کرنے کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ دفتر، دکان اور گھر، ہر جگہ غیر ملکی نوکروں، خادموں اور خادماؤں نے کام سنبھال لیا ہے۔ اس سے نہ صرف اخلاقی بگاڑ آیا ہے بلکہ عربی زبان پر بھی نئی نسل کا عبور کم ہو رہا ہے۔

اس اثناء میں، بالخصوص سامراج کے آنے کی وجہ سے ،مسلمان غیر مسلم ممالک میں پڑھنے اور کام کرنے جانے لگے اور ان میں سے بہت سوں نے وہاں رہنا، بسنا بھی شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے تقریباً ہر غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کی اقلیتیں وجود میں آ گئیں۔ کہیں کہیں، جیسے جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا میں ،مسلمانوں کی معتدبہ تعداد آباد ہو گئی ہےاوراب اس کا کوئی امکان نہیں ہےکہ یہ لوگ اپنے اصل ملکوں کو کبھی واپس جائیں گے۔

ان زمینی حقائق کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو مسلم اکثریتی ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک میں لکھنے، پڑھنے، بولنے اور چھاپنے کی آزادیاں حاصل ہیں اور وہاں ان کے جان و مال بھی زیادہ محفوظ ہیں ۔ اس کی وجہ سے آج ایسے کئی ممالک میں مسلم اقلیتیں ایک غیر معمولی رول ادا کرنے کے لائق ہوگئی ہیں۔

آج مسلم اقلیتوں کے لیے ممکن ہے، اور یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے، کہ وہ اپنی نئی آبادیوں میں ملی ہوئی آزادیوں کو استعمال کرکے نہ صرف اپنی زندگیوں میں اسلام پر عمل پیرا ہوں بلکہ اسلام کا وہ عملی ماڈل بھی پیش کریں، جس کے بغیر اسلام محض ایک نظریہ رہتا ہے ۔ غیر مسلم ممالک کی آزادیاں وہاں کے مسلمانوں کو یہ سب کرنے دیں گی، مثلاً وہ ایسا تعلیمی، اقتصادی اور اخلاقی اور عملی ماڈل پیش کریں، جس سے دنیا صحیح معنوں میں اسلام کی حقیقت سمجھ سکے۔

 فروری ۱۹۷۶ء میں طرابلس (لیبیا) میں ’مسلم عیسائی ڈائیلاگ‘ منعقد ہوا تھا۔ اس میں میرے والد (مولانا وحید الدین خاں) بھی مدعو تھے۔ اس ڈائیلاگ میں آسٹرین نو مسلم محمداسد بھی موجود تھے۔ میں اس وقت لیبیا کی وزارت خارجہ میں کام کرتا تھا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے چند لوگوں کو اپنے گھر پر مدعو کیا تاکہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مسائل کے بارے میں بات ہو۔ محمد اسد اور والد صاحب کے علاوہ اس میں معروف مصری عالم اورقاہرہ یونی ورسٹی میں میرے استاد ڈاکٹر عبد الصبور شاہین اور لیبیا کے مفکر محمد سلیمان القائد وغیرہ موجود تھے۔

اس گفتگو کےدوران یہ سوال آیا کہ ’’کس طرح اسلام نظامِ عالم کی تشکیل کرسکتا ہے؟‘‘ سب نے کچھ نہ کچھ رائے دی۔محمد اسد کی رائے تھی کہ ’’جب تک ہم اسلام کا کوئی ورکنگ ماڈل دنیا کے سامنے نہیں پیش کریں گے، کوئی ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لےگا‘‘۔ جناب اسد کی یہ بات میرے دل میں گھر کر گئی ۔ تب سے میں نے اس بات کو متعدد بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں دُہرایا ہے۔ میں اس تجزیے سے پوری طرح متفق ہوں اور یہ سوچ سمجھ کر اعتراف کرتا ہوں کہ آج کی معاصر دنیا میں ہم کسی بھی میدان میں اسلام کا ورکنگ ماڈل نہیں پیش کرپائے ہیں، چاہے وہ سیاسی نظام کاہو یا سماجی، معاشی نظام، تعلیمی و سائنسی نظاموں کا۔ ہر میدان میں ہم دوسروں سے پیچھے ہیں اور کچھ پیوند کاری کے ساتھ دوسروں کی محض نقالی کررہے ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرے اور اسلام ایک عالمی طاقت بنے، تو ہمیں اسلام کا ایک عملی ماڈل پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں عملی طور پر دکھانا ہوگا کہ اسلام جب کسی سوسائٹی پر حاکم ہوتا ہے تو وہاں ایسا ہوتا ہے۔ افسوس کہ اسلام کے نام پر آج ۵۸ حکومتوں کے پائے جانے کے با وجود آج تک مسلمان اسلام کا کسی بھی میدان میں ماڈل نہیں پیش کر پائے ہیں۔ یہ ایک ایسا اذیت ناک خلا ہے جسے آج بھی پُر کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ایک اسلامی ورکنگ ماڈل نہ پیش کرلیں گے ہمیں اسلام کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ کوئی ہمارے دعوؤں کو سنجیدگی سے لے گا۔

فلسطین مغرب میں صحرائے سینا و بحر ابیض متوسط اورمشرق میں نہر اردن کے درمیان میں ایک چھوٹا سا خطہ ہے، جہاں قدیم ترین زمانے سے ’کنعانی‘ یا ’اموری‘ قوم رہتی آئی ہے۔ یہ تاجر اور کسان لوگ تھے۔ مصر سے آنے والے یہودیوں کی انھی سے لڑائی ہوئی تھی ۔ یہودیوں نے ان کو ’فلستینی ‘ کہا اور اس کے معنی ’شرابی،کبابی‘ کے رکھ دیئے۔ یہودیوں کے نزدیک اس علاقے کے قدیم باشندوں کی غلطی صرف یہ تھی کہ انھوں نے یہودیوں کے مصر سے نکلنے کے بعد ان کا استقبال ’’پانی اور روٹی سے نہیں کیا‘‘ (توریت، تثنیہ ۲۳)۔ اس لیے وہ گردن زدنی کے مستحق ہوئے۔

  • تاریخی پس منظر:یہودی تقریباً ۱۲۲۰ قبل مسیح میں حضرت یوشع (Jushua)کی قیادت میں صحرائے سیناء سے نکلنے کے بعد فلسطین میں داخل ہوئے۔ توریت (سفر یشوع) کے مطابق انھوں نے انتہائی درندگی کے ساتھ فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

 کنعانی یبوسی قبیلہ (Jebusites) بیت المقدس کے ارد گرد رہتا تھا۔ یہ لوگ ۱۴۰ سال تک یہودیوں کا مقابلہ کرتے رہے اور صرف ۱۰۴۹ قبل مسیح میں حضرت داؤدؑ اس علاقے پر قبضہ کرپائے۔ شاؤل ۱۰۲۰ قبل مسیح میں پہلا حاکم ہوا، جس نے سب یہودیوں کو ایک جھنڈے کے تحت جمع کیا۔ اس کے بعد حضرت داؤد ؑ آئے، جن کا زمانہ ۱۰۰۰ -۹۶۱قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے ۹۹۰ قبل مسیح میں فلسطینی قبائل پر قابو پایا اور دمشق کو خراج دینے پر مجبور کیا۔صرف حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کے ایک بڑےخطے پر حکومت کی۔

حضرت داؤدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ آئے، جن کا زمانہ ۹۶۱– تا ۹۲۲ قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے بیت المقدس میں ایک یہودی معبد بنایا جو ’ہیکل‘ (Temple)کے نام سے جانا جاتا ہے۔  کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک دیوار آج بھی موجود ہے۔ اس دیوار کو مسلمان مسجد اقصیٰ کی ’مغربی دیوار‘ (الحائط الغربی) کہتے ہیں،جب کہ یہودی اس کو’دیوار گریہ‘ (Wailing Wall) کا نام دیتے ہیں۔ اس سلطنت کے تعلقات یمن تک سے تھے۔ حضرت سلیمانؑ کے۹۲۲ قبل مسیح میں وفات پاتے ہی ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ جنوب میں ’یہودا‘ اور شمال میں ’اسرائیل‘ نامی دو ملک وجود میں آئے، جو آپس میں دوسو سال تک لڑتے رہے۔

حضرت داؤد اور سلیمان علیہم السلام دونوں نے ۴۰،۴۰ سال حکومت کی، اس کے بعد سب ختم ہوگیا۔ لڑائیوں وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو فلسطین پر صرف ۷۰ سال پورے طور پر یہودی حکومت رہی (انگریز مؤرخ جفریز [JMN Jafferies Palestine- The Reality] ۔

مراد یہ ہے کہ بہترین حالات میں بھی یہودیوں نے پورے فلسطین پر کبھی قبضہ نہیں کیا۔ مؤرخ بیلوک کے مطابق اس زمانے میں بھی اس مملکت کی لمبائی ۱۸۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۹۰کلومیٹر تھی (یعنی موجودہ غزہ سے ملتی جلتی)۔انھوں نے زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا، جب کہ وادی کے علاقے فلسطینیوں کے پاس رہے۔

آشوریوں نے ۷۲۱ قبل مسیح میں پہلی بارـ ’اسرائیل‘ کو ختم کرکے یہودیوں کو مشرق کی طرف کھدیڑ دیا اور دوسرے لوگ ان کی آبادیوں میں بسادیئے۔ یوںان کا تاریخ سے نام ونشان مٹ گیا۔ البتہ دوسری یہودی حکومت’یہودا‘ بچ گئی تھی، جس کا صدر مقام ’اورشلیم‘ تھا۔ ۵۹۷ قبل مسیح میں نبوخدنصر (بخت نصر) نے اس دوسری یہودی حکومت کا بھی خاتمہ کردیا اور اس کے بادشاہ یواقیم (Joacqim) سمیت ۱۰ہزار یہودیوں کو یرغمال بناکر بابل لے گیا۔ ان میںنبی حضرت حزقیال شامل تھے۔ جلد ہی باقی ماندہ یہودیوں نے بغاوت کی،جس کی وجہ سے نبوخدنصر ۵۸۷ق م میںدوبارہ فلسطین آیا، اورشلیم کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ مزید بہت سے یہودیوں کو غلام بناکر بابل لے گیا اورباقی ماندہ یہودیوں کو اس علاقےسے نکال دیا۔ یوںسلطنت ’ــاسرائیل‘ کے ختم ہونے کے ۱۳۰سال بعد سلطنت ’یہودا‘ کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔

۵۳۹ قبل مسیح میں یہودیوں کی بابل کی غلامی ختم ہونے پر واپسی ہوئی ۔ ایران کے بادشاہ کور ش دوم نے فلسطین کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں دو بارہ بسنے کی اجازت دی۔ یوں ۵۱۵ قبل مسیح میںدوبارہ ہیکل سلیمانی بنا۔

۶۳ ق م - ۷۰ء میں فلسطین پر رومن قبضہ ہوا۔ قبضہ پورا ہونے پر یہودیوں کی بغاوت کی وجہ سے ۷۰ء میں رومن جنرل ٹائٹس (Titus) فلسطین آیا اور پوری طرح اورشلیم اور ہیکل کو تباہ کر کے اس کی جگہ ایک رومن شہر بنام ایلیا کاپیتولینابنا کرواپس گیا اور یہودیوں کو وہاں سے پوری طرح سے جلاوطن کر دیا۔

۲۷۳ء میں ’انباط‘ (عربوں) نے اس علاقےپرقبضہ کرلیا۔

۶۳۹ء ( ۱۵ھ) میں بیت المقدس حضرت عمرؓ بن الخطاب کے ہاتھوںفتح ہوا، جب وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسجداقصیٰ کی جگہ اس وقت کوڑا پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس جگہ کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے صاف کیا اور وہاں نماز پڑھی۔ بعد میں اس جگہ پرایک مسجد بنی۔حضرت عمرؓ کے ہاتھوں ’العہد العمری‘ نامی وثیقہ لکھا گیا، جس میں یہودیوںکا بیت المقدس میں داخل ہونا منع کیا گیا اور یہ وہاں کے عیسائیوں کی درخواست پر ہوا۔

۱۰۹۹ء سے ۱۳۶۹ء تک صلیبی جنگیں جاری رہیں، جو فلسطین پر یورپی عیسائی قوموں کے قبضے کی کوشش تھی، کیونکہ ان کے خیال میں ’’حضرت مسیحـؑ کی جائے پیدائش کو غیر عیسائیوں کے قبضے میں نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ کل ۹ صلیبی جنگیں ہوئیں۔ آخرکار اکتوبر ۱۱۸۷ءمیں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ۹۹ سال قبضے کے بعدواپس لیا اور یہودیوں کو دوبارہ بیت المقدس آنے کی اجازت دی۔ انھوں نے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے مراکش سے جفاکش مسلمانوں کو بلاکر مسجد اقصیٰ کے پاس بسایا۔ ان کا محلہ ’حی المغاربۃ‘ ۱۹۶۷ء تک باقی تھا۔ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضے کے بعد چھ گھنٹے کے نوٹس پر ان کو باہر کر دیا اور ان کے گھرمسمار کرکے ’دیوار گریہ‘ کے سامنے ایک بڑا میدان بنا دیا، جہاں یہودی اب عبادت کرتے ہیں۔

یورپ میں مستقل بُرے سلوک اور ابھرتی ہوئی نئی قومیتوں کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں میں ’یہودی وطن‘ کی بات شروع ہوئی، حالانکہ نہ ان کا اپنا کوئی ملک تھا اور نہ کسی علاقے ہی میں ان کی اکثریت تھی ۔ آسٹرین صحافی ہرتزل (Herzl) نے صہیونی تحریک شروع کی۔ ۱۸۶۰ء میں دوبارہ یہودیوں نے فلسطین میں بسنا شروع کیا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی ۵ہزار تھی۔ فرانس کے بارون ہرش(Baron Hirsh) نے اس کام کے لیے پیسے دیئے۔ بعد میں برطانیہ کے لارڈ روچائلڈ (Lord Rothchild)نے بھی اس مقصد کے لیے کافی پیسے دیئے تاکہ یہودی فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں بسنا شروع کریں۔

  • اعلان بالفور :پہلی جنگ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ء)کے دوران برطانیہ نے ’اعلان بالفور‘ جاری کرکے فلسطین میں ’یہودی وطن‘ بنانے کا وعدہ کیا، جب کہ اسی وقت انگریزوں نے سائکس پیکو ( Sykes Picot) معاہدے کے ذریعے فرانس کے ساتھ اس علاقے کو آپس میں بانٹنے اور ’شریف مکہ‘ [حسین بن علی ہاشمی، م:جون ۱۹۳۱ء] سے معاہدہ کرکے اس پورے علاقے میں ’عرب حکومت‘ قائم کرنے کا جھوٹاوعدہ کیا۔ جس وقت یہ وعدے کیے گئے، تب برطانیہ یا فرانس کا اس پورے علاقے کے کسی حصے پر قبضہ نہیں تھا۔

 اکتوبر۱۹۱۸ء میں فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوگیا، جس کے بعد ’اعلان بالفور‘ کے تحت فلسطین کو یہودی ہجرت کے لیے کھول دیا گیا۔ ۶۰ سال سے مسلسل ہجرت کے باوجود اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۶ہزار تھی۔

 برطانیہ نےفلسطین میں یہودیوں کوہر سہولت کے ساتھ نیم فوجی دہشت گرد مسلح تنظیم ہاگاناہ (Haganah) بنانے کی اجازت دی، جس کی وجہ سے عملًافلسطین میں ہر طرح سے مسلح یہودی فوج تیار ہوئی، جب کہ عربوں کے اسلحے چھینےگئے اوریہودیوں کے برعکس عربوں کے اسلحہ رکھنے پر جیل اور جلاوطنی کی سزا مقرر ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد یہودی دہشت گرد تنظیموں کا قیا م عمل میں آیا، جن میں ارگون ، شترن،لیہی اور اتزیل شامل ہیں۔ جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں عربوں کو اپنے وطن سے بندوق کے ذریعے کھدیڑنے کا کام کیا۔ ان کو بعد میں اسرائیلی فوج میں ضم کر دیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔برطانیہ کو فلسطین سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے اب یہودی دہشت گردوں نے انگریز فوج اور انتظامیہ پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ فلسطین میں یہودی دہشت گردی کا سامنا کرنا کمزور برطانیہ کے بس میںنہیں تھا، اس لیے اس نے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ عرب اکثریت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کا۴۴ فی صد عربوں کو اور یہودی اقلیت کو ۵۶ فی صد دے دیا۔ عربوں نے اس ظالمانہ فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا، جب کہ یہودیوں نے مارچ ۱۹۴۸ء سے ہی ’آپریشن دالیت‘ کے تحت فلسطین میں اسرائیل بنانے کے لیے عربوں پر حملے اور قتل عام شروع کر دیا، تاکہ وہ یہودی سلطنت سے بھاگ جائیں۔ اس کے رد عمل کے طور پر عرب ممالک (مصر، اردن اور عراق وغیرہ) نے فلسطین میں اپنی فوجیں بھیجیں، جن کو واضح حکم تھا کہ تقسیم پلان کے تحت یہودیوں کو دیئے گئے حصے پر قبضہ نہ کریں۔ یوں عرب فوجیں آگے نہیں بڑھیں، جب کہ یہودی دہشت گرد تنظیمیں حملے کرکے عربوں کوقتل اور مختلف علاقوں سے نکالتی رہیں۔ یہاں تک کہ فلسطین کے ۷۰ فی صد عرب اپنے علاقوں سے بھاگ کر قریبی علاقوں اور ملکوں میںپناہ گزیں ہوگئے اور پھر اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں کے باوجود آج تک اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے۔

  • اسرائیل کا قیام : ۱۵مئی ۱۹۴۸ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا اورفلسطین میںخانہ جنگی چھڑ گئی۔امریکا اور اشتراکی روس نے چند گھنٹوں کے اندر اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ ۱۹۴۹ء میں جنگ بندی تک فلسطین میں ۷۸فی صد زمینوں پر یہودی قبضہ ہو گیا یعنی فلسطینی عربوں کے لیے ان کے ملک کا صرف ۲۲ فی صد حصہ بچا۔ اس باقی ماندہ فلسطین کے ایک حصے (مغربی کنارہ بشمول بیت المقدس) پر اردن نے قبضہ کر لیا اور دوسرے حصے (غزہ) پر مصر نے قبضہ کر لیا۔

۵جون ۱۹۶۷ءکو اسرائیل نےحملہ کرکے باقی ماندہ ۲۲ فی صد فلسطین کے ساتھ مصر کے صحراء سیناء اورشام کی جولان پہاڑیوں(Golan Heights) پر بھی قبضہ کرلیا۔

  • کیمپ ڈیوڈ معاہدہ: اکتوبر ۱۹۷۳ء میں مصر اور شام نےا پنے علاقے آزاد کرانے کے لیے جنگ کی ۔ مصر نے صحرائے سیناء کا ایک تہائی علاقہ واپس لیا، جب کہ شام ناکام رہا۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ءمیں مصری صدر انورسادات نے اسرائیل کے ساتھ ’کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ کرکے  صلح کرلی، جس سے اسرائیل پر دباؤ بہت کم ہو گیا اور دوسرے عرب و غیرعرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے شروع کر دیئے۔ اس سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیںکرتے تھے جس میں ہندستان بھی شامل تھا۔

باقی ماندہ فلسطین پر مسلسل اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کا پہلا ’انتفاضہ‘ دسمبر ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۱ء کی میڈرڈ کانفرنس تک چلا ۔

  • اوسلو معاہدہ: تھک ہار کر یاسر عرفات (م: ۲۰۰۴ء)کی سربراہی میں فلسطینی قیادت نے ۱۳ستمبر۱۹۹۳ء میںاسرائیل کے ساتھ ’اوسلو معاہدہ‘ کیا، جس کی رُو سے پانچ سال میں خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہونا قرار پایا، لیکن فلسطین کے بنیادی مسئلوں (بیت المقدس /پناہ گزینوں/ سرحد/ داخلی وسائل) کو بعد کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ پانچ سال کے اندر فلسطینی ریاست وجود میں آنی تھی، لیکن ۳۰سال کے بعد بھی یہ ریاست آج تک وجود میں نہیں آئی ہے۔ ’فلسطینی اتھارٹی‘ (فلسطینی مقتدرہ) کے نام پر جو علاقہ موجود ہے، اس کی حیثیت صرف ایک میونسپلٹی کی ہے اور وہ اسرائیل کے مخبر کے طور پر کام کرتی ہے،یعنی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیل کو باخبر کرتی ہے اور اسی وجہ سے وہ فلسطینی عوام میں مقبول نہیں ہے۔

’اوسلو معاہدہ‘ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو یہودی شدت پسندوں نے ۴ نومبر ۱۹۹۵ء کو قتل کر دیا۔ اسرائیل میں فلسطینیوں سے کسی بھی سمجھوتے کی مخالف لیکوڈ پارٹی نے کلین بریک (Clean Break ) نامی پلان امریکی نیوکون کی مدد سے بنوایا، تاکہ ’اوسلو معاہدے‘ کو عملاً کالعدم کیا جاسکے۔ ۱۹۹۷ء میں لیکوڈ پارٹی کے برسراقتدار آتے ہی اس پلان پر عمل شروع ہوگیا اور دھیرے دھیرے فلسطینی مقتدرہ کو بے اختیار بنانےکے عمل کا آغازہوگیا اور فلسطینی حکومت کو دیئے جانے والےعلاقوں میں یہودی نوآباد بستیاں بنانےکا کام تیزی سے شروع ہوگیا۔ سارا الزام عربوں پر رکھا گیا، جب کہ معاہدے کو اسرائیل نے ناکام بنایا۔ اس کےنتیجے میں ۲۰۰۰ء میں ’دوسراانتفاضہ‘ شروع ہوا، جو پانچ سال چلا۔

مئی۲۰۱۲ء میں یوسی بیلین(Yossi Beilin) نے، جو ’اوسلو معاہدہ‘ کا اسرائیل کی جانب سے موجد تھا، فلسطین اتھارٹی کو مشورہ دیا کہ اتھارٹی کے وجود کو ختم کر دو تاکہ دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب ہوجائے۔ یہودی نوآبادیا ں فلسطینی عربوں کی ان زمینوںپر مستقل قائم ہو رہی ہیں، جنھیں اسرائیل بھی مانتا ہے کہ انھیں فلسطینیوں کو واپس کرنا ہے۔

  • حماس کی مزاحمت: اگست-ستمبر ۲۰۰۵ء میں اسرائیل غزہ سے حماس کی مزاحمت کی وجہ سے نکل گیا، لیکن علاقے پر بری، بحری اور ہوائی کنٹرول قائم رکھا ۔

جنوری ۲۰۰۶ء میں حماس کی منتخب حکومت کو اسرائیل ، امریکا اور یورپ وغیرہ نے چندمہینوں کے اندر مل کر توڑدیا اور ۲۰۰۷ء سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ شروع کیا، جو اَب تک جاری ہے۔

غزہ پر اسرئیلی حملے ۲۰۰۶ء ، ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء ، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ء میں ہوئے۔ ۲۰۱۴ء میں رمضان کے دوران اسرائیل نے حملہ کر کے غزہ کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن مزاحمت کو شکست نہ دے سکا۔ حماس نے ۲۰۱۴ء کی جنگ کا ۵۱ دن تک مقابلہ کیا اور دنیا کی پانچویں سب سے طاقت ور فوج کو جنگ بندی پر مجبور کردیا اور بڑی حدتک اپنے مطالبات منوالیے۔ اسرائیل اپنے مطالبات، یعنی راکٹ کے حملے بند کرانے ، غزہ کو اسلحے سے خالی کرانے اورسرنگوں کا خاتمہ کرانے میں ناکام رہا۔

۲۰۱۸ء میں غزہ کے لوگوں نےمحاصرے کے خلاف سرحد پر احتجاج شروع کیا، جس پر اسرائیل نے فائرنگ کر کےسات فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔

مارچ۲۰۱۹ء میں اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کیا۔اس کے بعد مئی۲۰۱۹ء، نومبر۲۰۱۹ء، ۲۰۲۱ء، ۲۰۲۲ء اور مئی۲۰۲۳ء میں بھی غزہ پر اسرائیلی حملے ہوئے۔ مئی۲۰۲۱ء میں اسرائیلی حملہ پہلے کی طرح نہ صرف ناکام رہا بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حماس اور الجہاد الاسلامی، اسرائیل کے مقابلے میں فوجی برابری (deterrence) کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلی دفعہ ۲۰۲۱ء میں اسرائیل کا بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل کے اندر فلسطینیوں نے انتقامی کارروائی کی اور اسرائیل کو یک طرفہ جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے دوران ۲۴۲ فلسطینی شہید ہوئے، غزہ کے ۸۰ہزار لوگ بے گھر ہوئے اور ۱۷ہزار رہائشی اور تجارتی مراکز تباہ ہوئے۔

  • غزہ کی حالیہ جنگ: ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ءکو حماس نےاسرائیل پر اچانک بڑا حملہ کیا، جو اسرائیل کے لیے بالکل غیر متوقع تھا۔یہ حملہ ۱۹۶۷ء سے اسرائیلی قبضے اور ۲۰۰۶ء سے جاری اسرائیلی محاصرے کے خلاف تھا ۔ یہ حملہ پوری طرح سے بین الاقوامی قانون کےتحت مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کے حقِ مزاحمت کا استعمال تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو پوری طرح تباہ کرنا شروع کردیا۔ جنگ اب ساتویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک مختصر اورنہتی آبادی دنیاکی پانچویں بڑی فوجی طاقت کے خلاف اتنے لمبے عرصے تک اتنی بہادری سے لڑتی رہے۔اس سے پہلے عرب ملکوں کی فوجوں کی اسرائیل سے لڑائی صرف چند دن چلتی تھی۔ا س جنگ میں اسرائیل نے بےدریغ بمباری کی۔ اب تک غزہ کے تقریباً ۷۰ فی صد گھر، تمام بڑی عمارتیں، اور رہائشی فلیٹس اس اندھا دھند بمباری سے منہدم ہوچکے ہیں ۔پانی، بجلی، سیوریج سسٹم اور ٹیلی فون و انٹرنیٹ کا نظام پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔یہ بمباری دنیا بھر میں پچھلے ایک سو سال میں شدید ترین تھی ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی کسی علاقے پر اتنی شدید بمباری نہیں ہوئی۔الجزیرہ کے مطابق جنگ کے ۲۰۱ویں دن یعنی ۲۵ ؍اپریل۲۰۲۴ء تک ۳۴ہزار ۳ سو۳ فلسطینی شہید ہوئے (جن میں ۱۴ہزار ۵ سو بچے اور ۱۰ہزار عورتیں شامل ہیں) اور ۷۷ہزار ۲سو۹۳ زخمی ہوئے (جن میں۱۲ہزار بچے اور ۶ ہزار ۳سو۲۷ عورتیں شامل ہیں)۔ تقریباً  ۱۹ہزار بچے یتیم ہوئے ہیں اور ۸ہزار سے زیادہ لوگوں کی لاشیں اب بھی ان کے تباہ شدہ گھروں کے ملبوں میں دبی ہوئی ہیں۔ اس لیے ان کے نام شہیدوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ مسلسل اسرائیلی فائرنگ کی وجہ سے جاں بحق ہونے والی میتیں ملبوں میں تلاش کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔

اسرائیل اور امریکا کا اندازہ اور منصوبہ یہ تھا کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو بالکل روکنے سے غزہ کےلوگ مصر کے صحرائے سیناء کی طرف بھاگ جائیں گےاور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا۔ لیکن غزہ کے لوگوں نے جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔

غزہ میں مکمل اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور دواؤں کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سےوہاں درجنوں لوگ خاص طور سے بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ تمام ہسپتال تقریباً تباہ اور اکثر بند ہیں۔ اسرائیل نےغزہ کے تقریباً ۱۳؍لاکھ لوگوں کو اپنے اپنےعلاقوں سے نکل کر صحرائے سیناء سے ملے ہوئے غزہ کے جنوب مغربی شہر رفح میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے، لیکن وہ وہاں بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔جہاں موجودہ جنگ سے پہلے غزہ میں روزانہ ۵۰۰ٹرک کھانے اور ادویات وغیرہ کے داخل ہوتے تھے، اب وہاں صرف ۸۰ ٹرک روزانہ داخل ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں۱۵مارچ تک ۱۴۱ صحافی قتل ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر فلسطینی ہیں۔

  • عالمی ردعمل: جنوبی افریقہ نے ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ وہ غزہ میںنسل کشی (Genocide)کا ارتکاب کررہا ہے۔ بین الاقوامی عدالت کا آخری فیصلہ ابھی نہیں آیا، لیکن اس نے اسرائیل کی سرزنش کی ہے اور اس کو نسل کشی روکنے کے لیے کہا ہے، لیکن اس کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے، کیونکہ اس کو امریکا اور مغربی ممالک خصوصاً جرمنی اور برطانیہ کی پوری تائید حاصل ہے۔ اسی جنگ کے دوران اسرائیل کو بچانے کے لیے امریکا چار بار اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد کے خلاف ویٹو کرچکا ہے، نیز جنگ کے دوران اسرائیل کی بھر پور جنگی اور مالی مدد کررہا ہے۔ جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکا نے اپنے دو بحری بیڑے علاقے میں بھیج دیئے تاکہ کوئی ملک اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوسکے۔ جنگ کے دوران امریکا نے ہوائی اور بحری جہازوں کے ذریعے مسلسل اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔ امریکا ۲۰۲۳ء تک اسرائیل کو ۲۶۰بلین ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔

نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ ،دنیا کے ۵۲ ممالک نےبین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائر کیا ہے کہ غزہ ، مغربی پٹی اور بیت المقدس پر ۱۹۶۷ء سے جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔ ابھی اس مقدمے کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ افسوس ہے کہ مقدمہ زیادہ تر غیرعرب اور غیر مسلم ملکوں ہی نے دائر کیا ہے۔ یہ توفیق کسی مسلم ملک کو حاصل نہیں ہوسکی۔ غزہ کی جارحیت کی وجہ سےمتعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں، لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ کچھ درپردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔

اس جنگ کے دوران حزب اللہ اور لبنان کی الجماعۃ الاسلامیۃ نے شمالی اسرائیل پر حملے کیے ہیں ۔ عراق کی کچھ ملیشیا نے بھی اسرائیلی اور امریکی ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ یمن کی انصاراللہ حکومت نےباب المندب اور بحر احمر سے اسرائیلی بحری جہازوں یا اسرائیل سامان لے جانے والے بحری جہازوں پر پابندی لگا دی ہے اور اس طرح کے کچھ جہازوں پر حملہ بھی کیا ہے، جب کہ یمن پر اسی وجہ سے امریکا اور برطانیہ مستقل حملے کر رہے ہیں۔

سارے نقصانات کے با وجود موجودہ جنگ نے اسرائیل کے خلاف پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اسرائیل کی فوجی برتری کا دعویٰ اور اس کی بنیاد پر عربوں کا بلیک میل اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ سفارتی طور پر اسرائیل کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی گاڑی رک چکی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب دو بارہ عرب اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکزی مسئلہ بن چکا ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمت کو اب کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ غزہ اور حماس نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ کیا ہے، جو عینِ جالوت اور حطین کی طرح صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

قرآن پاک میں سور ۂ بنی اسرائیل کی آیات۴ تا ۸ میں بتایا گیاہے کہ یہودی فلسطین میں تین بار سرکشی کریں گے اور تینوں بار اللہ پاک ان کو سخت سزا دیں گے۔ اب تک دوبار ہو چکا ہے (۵۸۷قبل مسیح اور ۷۰عیسوی)، ایک سرکشی ابھی باقی ہے۔ اس سرکشی پر بھی ان کی پہلے کی طرح سرکوبی کی جائے گی۔ شاید اس کا وقت آگیا ہے۔ آج پہلی بار دنیا اور بالخصوص ایشیا ، افریقہ اور جنوبی امریکا کے اکثر ممالک اسرائیل کے خلاف ہیں۔مغربی ممالک کے بہت سے باشندے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی تاریخ میں آج پہلی دفعہ اسرائیل تنہا کھڑاہے۔اس کے جھوٹوں کا گھڑا پھوٹ چکا ہے۔

ذرائع ابلاغ اور اہم ٹی وی چینلوں پر تقریباً مکمل کنٹرول اورسوشل میڈیا پلیٹ فارم میں زبردست دراندازی کے بعد اب ’ہندوتوا تحریک‘ ہندستانی مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اپنے نسل پرستانہ سیاسی مقاصد کے لیے ہندستانی فلم اور سنیما کو استعمال کر رہی ہے۔ چنانچہ گذشتہ چند برسوں کے دوران مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے متعدد فلمیں منظر عام پر آئی ہیں۔ اس نئی سرگرمی کے پس پشت یقینی بات ہے کہ ہندستان کے موجودہ حکام ہی ہیں، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ حکمران پارٹی کے لیڈران اور ان کی ریاستی حکومتیں بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان کوششوں کی تائید کر رہی ہیں۔ ان فلموں کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔ان فلموں کے مفت خصوصی شو چلانے کا اہتمام  کیا جاتا ہے، اور جن ریاستوں میں بی جے پی حاکم ہے وہاں تفریحی (انٹرٹینمنٹ) ٹیکس بھی معاف کیا جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں منظر عام پر آنے والی فلموں میں یہ شامل ہیں:

  • کشمیر فائلز:اس سلسلے کی ایک اہم فلم ’کشمیر فائلز‘ ہے۔ اس فلم میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’کشمیر کے مسلمانوں نے ہندوؤں پر مظالم ڈھائے اور انھیں کشمیر سے نکل جانے پر مجبور کیا‘۔ فلم کا اشارہ اس واقعے کی طرف ہے جس میں مبینہ طور پر ۱۹۹۰ء میں پنڈتوں کی ایک تعداد کشمیر سے اس وقت نقل مکانی کر گئی تھی، جب کہ وہاں مسلح تحریک چل رہی تھی۔ اس مسلح تحریک میں بعض ہندو جانیں بھی گئی تھیں ، لیکن اس دوران مسلح علیحدگی پسندوں یا فوج کی گولیوں سے جن مسلمانوں کی جانیں گئی تھیں، وہ ہندوؤں کو پہنچنے والے نقصانات سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر سے اچانک ان ہندوؤں کی نقل مکانی کا اصل سبب آج تک متعین کرنے کے لیے کوئی تحقیقاتی کارروائی نہیں کی گئی، حالانکہ اس کے لیے کشمیر کی مسلم تنظیموں نے بارہا مطالبہ کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں کشمیر کے گورنر جگ موہن نے، جو کہ مسلم دشمنی کے لیے معروف تھا، وادیٔ کشمیر کے ہندوؤں سے کہا کہ وہ چند ہفتوں کے لیے کشمیر سے چلے جائیں تاکہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جا سکے اور کشمیر کی سڑکوں پر آزادی کے ساتھ گولیاں چلائی جاسکیں۔  پھر وادیٔ کشمیر سے ہندوؤں کے نکل جانے کے فوراً بعد جگ موہن نے یہی کیا بھی۔ اس نے ایک جنازے پر گولیاں برسانے کا حکم بھی دیا ، جس کے نتیجے میں چند منٹوں کے اندر ہی ۴۰ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ وہی گورنر ہے جس نے ان ہندوؤں کو ہندو اکثریت والے علاقے ’جموں‘ میں منتقل کرنے کے لیے آدھی رات کو فوجی گاڑیاں فراہم کی تھیں۔ جموں میں ان ہندوؤں کے لیے گھر بنائے گئے اور انھیں وظیفے، ملازمتیں اور دوسری بہت سی سہولتیں آج بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مگر ایسی سہولتیں نقل مکانی کرنےو الے متاثر مسلمانوں کو کبھی نہیں فراہم کی گئیں۔

حکومتِ کشمیر یا حکومتِ ہند نے کشمیر سے ہندوؤں کی نقل مکانی کے اصل حقائق کا پتہ لگانے کے لیے آج تک عدالتی کمیشن مقرر نہیں کیا۔ لیکن یہ چیز بھی انتہا پسند ہندوؤں کو مسلمانوں پر یہ الزام عائد کرنے سے نہیں روک پائی کہ انھوں نے ہی ہندؤوں کو کشمیر سے نکالا ہے ، جب کہ کشمیر کے مسلمان تو خود ا ٓج تک مغلوب و شکست خوردہ ہیں، اور اس فوج کا قہر برداشت کر رہے ہیں جو کشمیر کے اندر بڑی تعداد میں موجود ہے ۔ کشمیریوں کے خلاف فوج کی ظلم وزیادتی کو قانون کی حمایت حاصل ہے۔فلم ’کشمیر فائلز‘ انھی جھوٹی باتوں کو دُہراتی ہے، تاکہ عام ہندوؤں میں یہ پیغام پہنچایا جا سکے کہ ’’ہندستان کے واحد مسلم اکثریتی خطے کشمیر میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا ہے اور جہاں بھی یہ اکثریت میں ہوتے ہیں یہی کرتے ہیں‘‘۔

  • کیرالا اسٹوری :فلم ’کشمیر فائلز‘ کے بعد ’کیرالا اسٹوری‘ فلم آئی۔ اس فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’۳۲ ہزار ہندو لڑکیوں کو لالچ دے کر مسلمان بنا لیا گیا اور پھر انھیں شام میں داعش کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔ یہ ایک حددرجہ بے بنیاد اور گھنائونا جھوٹ ہے ۔ اس لیے کہ ا ن تمام برسوں کے دوران بھارتی حکومت نے جن ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے داعش کے کیمپ میں شامل ہونے کے لیے ملک کو خیر باد کہا ہے، ان کی تعداد ایک سو کے اندر ہی ہے، اور ان میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

ہم نے ذاتی طور پر ہندستان کی وزارت داخلہ سے (ہندستان کے آر ٹی آئی قانون کے تحت) داعش کیمپ میں شامل ہونے والی تعداد کے متعلق معلوم کیا تو وزارت داخلہ کا جواب یہ تھا کہ اس کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہے۔ پھر جب ہم نے ریاست کیرالا کے ڈائرکٹر جنرل پولیس سے بھی یہی سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ خفیہ معلومات ہیں، انھیں بیان نہیں کیا جا سکتا‘۔ پھر فلم بنانے والوں کو یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں؟ اس پر ہنگامہ ہوا تو بعض مسلمان عدالت چلے گئے۔ نتیجہ یہ کہ فلم پروڈیوسر بھی پلٹ گئے اور کہنے لگے کہ ’’تین ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد داعش کیمپ میں شامل ہو گئی تھیں‘‘۔ لیکن وہ لڑکیاں کون تھیں،ان کی متعین نشان دہی آج تک نہیں کی گئی۔

گذشتہ نومبر۲۰۲۳ء کے دوران جب ہندستان کے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ’دی کیرالا اسٹوری‘ کو پیش کیا گیا تو حیرت کی بات یہ ہوئی کہ سلیکشن کمیٹی کے صدر اسرائیلی فلم پروڈیوسر نداف لبید نے سلیکشن کمیٹی کے ارکان کی طرف سے یہ بیان دیا کہ یہ ’’ایک پروپیگنڈا فلم ، معیار سے فروتر اور بے ہودہ فلم ہے اور فیسٹیول میں پیش کیے جانے کے لائق نہیں ہے‘‘۔ مذکورہ بالا اسرائیلی پروڈیوسر کو ہندستان سے نکالنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اس بیان کے خلاف فوراً بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ، کیوں کہ انتہاپسند نسل پرست ہندوؤں کے نزدیک اسرائیل تو ہندستان کا جگری دوست سمجھا جاتا ہے۔ آخرکار مجبور ہو کرہندستان میں اسرائیل کے سفیر کو معذرت کرنا پڑی کہ’’وہ بیان اسرائیلی فلم پروڈیوسر کی ذاتی رائے پر مبنی ہے‘‘۔

جھوٹ کا پردہ فاش ہوجانے کے باوجود یہ فلم ہندستان بھر کے سنیما ہالوں میں دکھائی جارہی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کر رہی ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے لیڈر، جن میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں، نے اس فلم کی تعریف کی اور بی جے پی کے لیڈروں نے بعض مقامات پر اس فلم کو مفت میں دکھانے کا بندوبست بھی کیا، بلکہ سینما کے ٹکٹ خرید کر انھیں ہندوؤں میں تقسیم کیا تاکہ وہ فلم دیکھ سکیں۔

  • ۷۲ حوریں :اسی سلسلے کی تیسری فلم ’۷۲ حوریں‘ ہیں۔ اس فلم کا پلاٹ یہ ہے کہ مسلمان دہشت گردی کرتے ہیں ۔ انھیں شہادت سے پیار ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مذہب کہتا ہے کہ شہادت کی موت مرنے والے کو جنت میں ۷۲ حوریں ملیں گی۔

ان فلموں کے پرڈیوسروں کا کہنا ہے کہ ’’یہ آرٹ فلمیں ہیں، جن کی بنیاد ایسے قصے کہانیاں ہیں جن کا درست ہونا ضروری نہیں ہے‘‘۔ تاہم، یہ بات تو طے شدہ ہے کہ سادہ لوح ہندو اِن فلموں کو دیکھ کر یہ تاثر لیں گے کہ اسلام ظلم و تشدد اور دہشت گردی کا مذہب ہے اور اس مذہب پر ایمان رکھنے والے دہشت گرد ہوتے ہیں جو دہشت گردی کے ذریعے سے اپنے مذہب پر عامل ہیں۔

  • ہندوؤں کو اُکسانے والی فلم :اس سلسلے کی چوتھی فلم کچھ عرصہ پہلے ’ہندوتوا تحریک‘ کے لیڈران کی تائید و حمایت کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے ۔ اس فلم کا نام ’’آدی پُرُش‘ ہے۔ یہ فلم راماین کی دیومالائی کہانی پیش کرتی ہے جس میں ہندوؤں کے افسانوی دیوتا ’رام‘ ، ان کی بیوی ’سیتا‘ اور ان دونوں کے وفادار ساتھی ’بجرنگ‘ (بندر) کی زندگی کو فلمایا گیا ہے۔

فلم کے اندر ’رام‘ کو ایک جنگ جُو اور انتہاپسند کے رُوپ میں دکھایا گیا ہے، جو ان کی اس تصویر سے مختلف ہے جس میں انھیں ایک نرم خُو،فیاض اور انسانیت نواز شخصیت کے طور پر دکھایا جاتا ہے، اور ہندو آج بھی انھیں انسانیت کے اعلیٰ نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن ’ہندوتوا‘ کی سیاسی تحریک افسانوی کرداروں کے ہاتھوں میں اسلحہ دے کر ہندو نوجوانوں کو مشتعل کرنا اور انھیں انتہا پسندی و دہشت گردی پر اُبھارنا چاہتی ہے۔اس فلم کی وجہ سے ہند کے اندر ایک بحران کی صورت نے جنم لیا ۔ حزب مخالف کے لیڈروں نے فلم اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر شدید تنقید شروع کردی، کیوں کہ فلم میں ہندو دھرم کی مذہبی علامتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔نیپال کے اندر تو معاملہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ اس نے اپنی سرزمین پر اس فلم کی نمایش کو ممنوع کر دیا۔

  • دوسری فلمیں: مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ بھی اسی قسم کی بہت ساری فلمیں پچھلے چند برسوں میں ’ہندوتوا‘ کے پروپیگنڈا کے طور پر نمایش کے لیے مارکیٹ میں پیش کی چکی ہیں،جن کے ذریعے جھوٹ یا مسخ شدہ سچ کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے تاکہ سیاسی پولرائزیشن ہو سکے اور اس کا فائدہ موجودہ حکمران پارٹی (بی جے پی) کو مل سکے۔ ان میں یہ فلمیں شامل ہیں: ’ہر ہر مہادیو‘ (۲۰۲۲)، ’پانی پت‘ (۲۰۱۹)، ’ہندوتوا‘ (۲۰۲۲)، ’مجیب‘ (۲۰۲۳)، ’تنہا جی‘ (۲۰۲۰)، ’باجی راؤ مستانی‘ (۲۰۱۵)، ’      پدماوت‘ (۲۰۱۸)، ’سوریا ونشی‘ (۲۰۲۱)، ’لپسٹک انڈر مائی برقعہ‘ (۲۰۱۶)، ’رام سیتو‘ (۲۰۱۹)، ’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ (۲۰۱۹)،’ٹھاکرے‘ (۲۰۱۹)، ’یوری‘ (۲۰۱۹)، ’نریندر مودی‘ (۲۰۱۹)، ’رومیو اکبر و الٹر‘ (۲۰۱۹)، ’سمراٹ پرتھوی راج‘ (۲۰۲۲)، ’کیسری‘ (۲۰۱۹)، ’غنڈے‘ (۲۰۱۴)، ’بیل باٹم‘ (۲۰۲۱)، ’کمانڈو ۳ ‘(۲۰۱۹)، ’فراز‘ (۲۰۲۲)، ’مشن مجنوں‘ (۲۰۲۳) وغیرہ۔ ان سب کا مقصد ایک نئی خود ساختہ تاریخ بنانا، اشتعال پھیلانا اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔

کچھ اور فلمیں اگلے چند ہفتوں میں ریلیز ہونے والی ہیں تاکہ آنے والے انتخابات میں حکمران پارٹی کو فائدہ پہنچ سکے۔ ان آنے والی فلموں میں چند یہ ہیں: ’فائٹر‘ (پلواما کے بارے میں)، ’آرٹیکل ۳۷۰ ‘(کشمیر کی خود مختاری کے بارے میں)، ’نکسل اسٹوری، جے این یو‘ (دہلی کی لیفٹ نوازیونی ورسٹی کے بارے میں)، ’سابر متی رپورٹ‘ (گودھرا ٹرین کے حادثے کے بارے میں جس کو گجرات فسادات ۲۰۰۲ بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا)، ’رضاکار‘ (حیدر آباد دکن کی ملیشیا کے بارے میں)، ’گاندھی گوڈسے، میں اٹل ہوں‘ (اٹل بیہاری کے بارے میں)، ’سواتنتر ویر ساورکر‘ (ہندوتوا کے نظریہ ساز کے بارے میں)۔ یہ سب فلمیں واقعات کو ایسا رُخ دیں گی، جو ’ہندوتوا‘ کے نظریے سے میل کھاتا ہے تاکہ الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکے ۔

  • مشکوک فنڈنگ :آخر میں ایک سوال باقی رہ جاتا ہےکہ یہ اور اس طرح کی مزید فلمیں جو آچکی ہیں یا عن قریب منظر عام پر آنے والی ہیں ، ان کی فنڈنگ اور سرمایہ کاری کون کرتاہے؟ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ فلم سازی مالی اعتبار سے بڑے پیمانے پر اخراجات کا عمل ہے۔ پھر ممبئی فلم انڈسٹری کی عام فلموں کے برعکس اس قسم کی فلموں کے بارے میں یہ توقع بھی نہیں ہوتی کہ واقعی بڑی نفع بخش ہوں گی۔ اس لیے لازمی طور پر کچھ خفیہ ہاتھ ہیں، جو ان فلموں کی فنڈنگ اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان سے سیاسی فائدے حاصل کیے جائیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی ، جو کہ دنیا کی سب سے مال دار سیاسی جماعت ہے یا اس جماعت کی حمایت کرنےو الے تاجر اوربزنس مین وہی لوگ ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس پروپیگنڈا مہم کی فنڈنگ کرتے ہیں، تاکہ حکمران جماعت کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے ان فلموں سے سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے ۔موجودہ حکومت ِ ہند کی پالیسی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مسلسل ہوا دینے کی ہے، تاکہ شدید قسم کی گروہی پولرائزیشن ہو اور انتخابات میں وہ اس کا فائدہ اُٹھا سکے۔ ’اسلامک کونسل آف وکٹوریہ‘ آسٹریلیا (ICV)کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹ء- ۲۰۲۱ء کے دوران دنیا بھر میں مسلم مخالف (Islamophobic)سوشل میڈیا پوسٹ سب سے زیادہ ہندستان سے نکلے، جب کہ دُنیا بھر سے مسلم مخالف سوشل میڈیا مہم کا ۸۵ فی صد زہریلا لوازمہ تین ملکوں (انڈیا، امریکا، برطانیہ) سے پھیلایا جارہا ہے:

نفرت کی آگ بھڑکانے والی اس پست درجے کی سیاست کاری کو روکنے کے لیے ابلاغی، صحافتی، ادبی ، علمی، فکری اور ثقافتی حلقوں کی جانب سے افسوس کہ کوئی قابلِ ذکر کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔ خوف کی اس فضا میں مجموعی طور پر نقصان ہوگا، کاش کوئی اس پر سوچے!

اعجاز القرآن کے بارے میں مفسرین وادبا و علما کی متعدد آراء ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجاز بیانی ہے یعنی قرآن پاک اپنے معانی اور پیغام کو اتنے واضح اور بلیغ انداز میں پیش کرتا ہے جو انس و جن کے بس میں نہیں ہے۔ یہی وہ اعجاز ہے جو حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر کفار و مشرکین کے لیے چیلنج تھا۔ الفاظ، جملے اور ترکیبیں سب وہی تھیں جن کو عرب جانتے تھے لیکن ان کو قرآن میں جس طریقے سے جوڑا گیا تھا کہ وہ فصاحت و بلاغت کا نمونہ بن جائیں، وہ انسانوں کے بس میں نہیں تھا۔

قرآن کے اعجاز بیان کی ایک مثال یہ ہے کہ عربی زبان میں ’سنة‘ اور ’عام‘ دونوں سال کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ’سنۃ‘ وہ سال ہوتا ہے جس میں مصائب اور مصیبتیں ہوتی ہیں اور ’عام‘وہ سال ہے، جس میں آرام و آسایش ہو۔ قرآن پاک میں حضرت نوحؑ کے بیان میں ’سنۃ‘ (العنکبوت۲۹:۱۴)، اور مصری بادشاہ کے خواب کی تعبیر میں بھی لفظ ’سنة‘ اور ’عام‘ استعمال ہوا ہے  (یوسف۱۲: ۴۶-۴۹)۔ دونوں آیتوں میں مشکل برسوں (Years)کے لیے’ سنۃ‘ اور آسان برسوں کے لیے ’عام‘ استعمال ہوا ہے۔

اسی طرح حضرت یوسفؑ کے زمانے میں مصر کے حاکم کے لیے ’ملک‘ (بادشاہ) کا لفظ قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے،جب کہ دوسری جگہوں پر مصر کے حاکموں کے لیے ’فرعون ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ کے زمانے میں مصر کا بادشاہ ہکسوس قوم سے تھا۔ یہ لوگ غیرمصری تھے اور اپنے بادشاہوں کے لیے ’فرعون‘ کا لقب استعمال نہیں کرتے تھے ۔

تشريعی اعجاز

تشريعی یا قانون سازی کے اعجاز کا مطلب ہے قانون سے متعلق امور کوبہت آسان اور جامع بنانا، نیز اسے مختصر ترین الفاظ میں ایسے بیان کر دینا جو آج بھی انسان کے لیے ناممکن ہے۔ قرآن پاک نے جو قوانین ہمارے لیے بنائےہیں، ان میں بہت حکمت ہے۔ ان میں عقل مند اور کم عقل، صحت مند اور بیمار، عالی ہمت اور کم ہمت سب کی رعایت کی گئی ہے۔ اس میں تدریج کابھی خیال رکھا گیا ہے جیسے شراب اور جوے کو دھیرے دھیرے حرام کیاگیا۔ قرض (دَین) اور مالی معاملات کے بارے میں بہت تفصیل سے بتا دیا گیا کہ جب قرض لو تو اسے لکھ لو، لکھنے والے کی صفت بھی بتائی اور لکھنے کی حکمت بھی بتا دی (البقرہ ۲: ۲۸۲)۔ اسلامی تشریع میں سفر و حضر کے لیے بھی الگ الگ قوانین ہیں، کمزور اور طاقت ور مسلمان کے لیے بھی رخصت اور عزیمت کا اصول ہے اور انتہائی مجبوری میں حرام اشیا کو کھانے کی بھی اجازت ہے۔

یہاں میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے بیرونی پالیسی کے مشیر رابرٹ ڈکسن کرین (م:۲۰۲۱ء) کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو قرآن پاک کی صرف ایک آیت دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔ وہ پبلک لا اور انٹرنیشنل لا میں پی ایچ ڈی تھے اور ہارورڈ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کے صدر رہ چکے تھے۔ انھوں نے بتایاکہ اسلامی مبادی کے بارے میں صدر نکسن نے جاننا چاہا تو سی آئی اے سے کہا گیاکہ اس کے بارے میں ایک نوٹ تیار کرے۔ سی آئی اے نے جو نوٹ تیار کیا وہ کافی طویل تھا چنانچہ صدر نکسن نے رابرٹ کرین سے کہا کہ وہ اس کو مختصر کر دیں۔ رابرٹ کرین نے یہ کام کر دیا، لیکن جو معلومات اس نوٹ کے ذریعے ان کے علم میں آئیں اس نے ان کو مجبور کیا کہ اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور بالآخر ۱۹۸۱ء میں وہ مسلمان ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ قانون انھوں نے ہارورڈ لا اسکول میں پڑھا تھا وہ سب انھوں نے قرآن میں پایا لیکن قرآن میں ایک بنیادی اصول عدل و انصاف (Justice) کاہے جس کا ذکر قرآن میں باربار آتا ہے لیکن جو قانون انھوں نے ہارورڈ لا اسکول میں پڑھا تھا وہاں یہ تصور کبھی نظر نہیں آتا ۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ایک بار ایک یہودی ان کے ساتھ تھا جو قانون کا پروفیسر تھا۔ اس سے انھوں نے پوچھا کہ میراث کے بارےمیں امریکی قانون کتنا مفصل ہے؟ اس پروفیسر نے بتایا کہ میراث کے بارے میں امریکی قانون آٹھ جلدوں میں ہے۔ رابرٹ کرین نے اس پروفیسر سے کہا کہ اگر میں ایک میراث کا قانون دکھاؤں جو صرف دس سطروں میں ہو تو کیا تم مانو گے کہ اسلام دینِ حق ہے؟ اس پروفیسر نے ماننے سے انکار کر دیا کہ میراث کے قانون کو دس سطروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس پر رابرٹ کرین نے قرآن پاک کی وہ آیت (النساء ۴ : ۱۱-۱۲) اس پروفیسر کو پیش کر دی۔ وہ پروفیسر اس وقت خاموشی سے چلا گیا لیکن چند دن بعد وہ رابرٹ کرین کے پاس آیا اور کہا کہ ’’انسانی دماغ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ تمام اقرباء کا خیال رکھتے ہوئے اتنی عمدگی اور عدل سے میراث کو تقسیم کرے کہ کسی بھی رشتہ دار کو چھوڑے بھی نہ اور نہ کسی کے ساتھ نا انصافی کرے‘‘۔ رابرٹ کرین کے مطابق وہ یہودی پروفیسر بھی کچھ دنوں بعد مسلمان ہو گیا ۔ ۳۴

اسلامی تشریعات سب کے لیے ہیں، افراد، اجتماعیت، حکومتیں، مرد، عورت، امیر و غریب، حاکم و محکوم، سیاسی، اقتصادی، دینی، اجتماعی سب امور کے لیے ہیں۔ اسلام نے نکاح کو ضروری قرار دیا، طلاق، میراث وغیرہ کے احکام بتائے، اور سب میں عدل وانصاف کا لحاظ کیا: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۝۰۠ (البقرہ ۲: ۲۲۸)۔ شادی (زواج )کو مرد و عورت کے درمیان تعلق کو منظم کرنے کے لیے واجب قرار دیا تاکہ زندگی اور نسلیں چل سکیں۔ اسلام میں مرد و عورت دونوں پر ایک ہی طرح کی ذمہ داریاں ہیں: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۝۰۠ (البقرہ ۲: ۲۲۸)۔

قرآن کے تشریعی اعجاز میں بنیادی مقام عقیدۂ توحید کا ہے جو پورے عقیدے کی بنیاد ہے۔ اس سے فرد، خاندان اور قوم کے سلوک کی بنیاد بنتی ہے اور اللہ کی بندگی کا حکم ہے:

  • قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚ لَمْ يَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ (الاخلاص۱۱۱: ۱-۴)
  • ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۳ (الحديد۵۷: ۳)
  •  لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ۝۰ۚ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝۱۱(شورٰی۴۲: ۱۱)
  • لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۣ كُلُّ شَيْءٍ  ہَالِكٌ  اِلَّا وَجْہَہٗ۝۰ۭ (القصص۲۸: ۸۸)
  • ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۚ (الانعام۶: ۱۰۲)

اسلام نے اپنی بنیاد بہت مضبوط ارکان پر رکھی: صلوٰۃ،صيام،زکوٰۃ،حج، شوریٰ (وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠ الشوریٰ۴۲: ۳۸)، مساوات،عدل (كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡ (المائدہ۵: ۸)۔ اسلام میں شریعت کا دخل فرد، سوسائٹی اور اسٹیٹ کے ہرچھوٹے بڑے معاملات میں ہے۔ ہر ذمہ داری ایک امانت ہے جو ہر فرد کو پوری طرح ادا کرنی ہے ( اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ… النساء۴: ۵۸)۔شریعت کا ربانی ہونا، اس کی قوت کا راز ہے۔ اسلامی قوانین سخت ہیں لیکن ان میں لچک بھی ہے۔ اس نے زمان و مکان کے لحاظ سے اجتہاد کی گنجایش بھی چھوڑی ہے۔ اسلام نے ان ارکان کے ذریعےایک مضبوط جماعت کی بنیاد رکھی۔

سائنسی اعجاز

قرآن کے اعجاز کا ایک اہم پہلو ان سائنسی حقائق سے متعلق ہے جو کہ انسانی وجود، زمین، آسمان، فضا، سمندر، پہاڑوں وغیرہ کے بارے میں قرآن پاک میں مذکور ہیں ۔ یہ حقائق قدیم انسان کو تو کیا رسول اکرمؐ کے معاصر لوگوں کو بھی نہیں معلوم تھے۔ ان کا ادراک پچھلی دو تین صدیوں سے سائنسی ترقی اور نت نئے آلات کی ایجاد کی وجہ سے ہونا شروع ہوا ہے۔ لیکن سائنس حقائق کی بہت سی باتیں قرآن پاک نے پندرہ صدیوں پہلے بتا دی تھیں اور یہ پیشین گوئی بھی کردی تھی کہ اللہ پاک انسان کو کائنات میں اور خود اس کو اپنے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ اس کو معلوم ہوجائے کہ قرآن پاک برحق ہے (سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ حم السجدہ ۴۱ : ۵۳)۔

قرآنی اعجاز کا یہ پہلوپرانے زمانے میں اتنا واضح نہیں تھا لیکن پچھلی چند صدیوں کے سائنسی انقلاب کی وجہ سے انسان خو د اپنے اندر، دنیا میں اور کائنات میں اللہ پاک کی نشانیاں دیکھتا ہے۔ اس کی بہت سی تفصیلات لوگوں نے کتابوں ، مضامین اور ویڈیوز میں بیان کی ہیں۔ خود میں نے اپنے ترجمۂ قرآن میں قرآن پاک کے تعارف کے ضمن میں ۲۰ ایسی سائنسی حقیقتوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کو چند صدیوں پہلے معلوم نہیں تھیں ۔  ۳۵

اس فہرست میں سیکڑوں اضافے کیے جا سکتے ہیں اور یقینی طور پر آنے والی صدیوں میں جب انسان خود اپنے بارے میں، دنیا اور کائنات کے بارے میں مزید جانے گا تو یہ حقیقت اس کے سامنے اور واضح ہو جائے گی کہ یہ پوری کائنات اللہ پاک کے محکم قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو اس سارے نظم و ضبط کی جگہ ، جو کائنات کو اتنے منظم طور سے چلانے کا سبب ہے، لاقانونیت اور افراتفری ہوتی جس کے ہوتے ہوئے کوئی معنی خیز زندگی یا ترقی نا ممکن ہوتی۔

مسلمانوں کا ایمان ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق ہے اور قرآن پاک اسی کا کلام ہے، اس لیے قرآن میں بیان کردہ باتیں سائنسی حقائق کے خلاف نہیں ہو سکتی ہیں۔ قرآن پاک سائنس کی کتاب نہیں ہے لیکن وہ علم حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے (العلق۹۶: ۳-۴) اور انسان کو دعوت دیتا ہے کہ اللہ کی کائنات کو دیکھے اور اس پر غور کرے (اٰل عمرٰن۳ : ۱۳۷؛ الانعام۶: ۱۱؛ الرعد۱۳: ۱۰۹؛ النحل۱۶: ۳۶؛ الحج۲۲: ۴۶؛ النمل۲۷: ۶۹؛ العنکبوت۲۹: ۲۰؛ الروم۳۰: ۹، ۴۲؛ الفاطر۳۵: ۴۴ وغیرہ)۔

جن کتابوں نے قرآن پاک میں مذکور بیانات کو سائنسی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ان میں سرفہرست فرانسیسی ڈاکٹر موریس بوکای(م: ۱۹۹۸ء) کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس‘ شامل ہے۔ ۳۶  انھی حقائق کی وجہ سے موریس بوکای اسلام لائے تھے۔ مسلمانوں میں قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کے پرجوش مبلغ مصری پروفیسر زغلول النجار شامل ہیں جنھوں نے اپنے مقالات، لیکچروں اور ٹیلیویژن پر پروگراموں سے قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ سورۃ الانعام کی آیت ۶۷(لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْـتَقَرٌّ۝۰ۡوَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝۶۷) کا بطورِ خاص ذکر کرتے ہیں کہ قرآن پاک نے پیشین گوئی کی ہے کہ اس کے سائنسی بیانات مستقبل میں پہچانے جائیں گے۔ انھوں نے جن بہت سے سائنسی حقائق کا ذکر کیا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ کائنات ایک عظیم انفجار(Big Bang) سے پیدا ہوئی ہے اور کرۂ ارضی میں سب سے زیادہ منخفض علاقہ بحر مُردار کا ہے (فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ الروم ۳۰ : ۳)۔ اسی طرح انھوں نے بتایا کہ قرآن پاک نے ایسی بعض باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو نزول آیت کے چند سال بعد وقوع پذیر ہوئیں جیسے رومیوں کے ہاتھ ایرانیوں کی شکست ( الۗمّۗ۝۱ۚ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۝۲ۙ …الروم ۳۰ : ۱-۵)۔ یہ آیت ایرانیوں کی شکست سے چھ سات سال قبل نازل ہوئی ۔  ۳۷

قرآن پاک میں دوسرے بہت سے سائنسی اشارات ہیں، مثلاً:

∎ سورج کا اپنے مقررہ دائرے میں گھومنا: وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ۝۳۸ۭ (يٰسٓ ۳۶ : ۳۸)

∎ لوہا: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحديد ۵۷ : ۲۵)

مُردار کا گوشت اور خون اور خنزیر کے گوشت وغیرہ کی تحریم (البقرۃ ۲ : ۱۷۳ ، المائدۃ ۵: ۳، الانعام ۶ : ۱۴۵)۔ صدیوں بعد اس تحریم کی حکمت معلوم ہوئی۔

∎ انفجار ِعظیم (Big Bang )کی خبر کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے اور ہم نے جدا کیا: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا۝۰ۭ (الانبیاء ۲۱ : ۳۰)

∎ کائنات پہلے دخان (دھواں یا اسٹیم)تھی، یعنی اپنی موجودہ شکل لینے سے پہلے کائنات کا مادہ دخان کی صورت میں تھا: ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَہِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا۝۰ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ۝۱۱ (حم السجدہ۴۱: ۱۱)

∎ پانی سے ہر چیز بنائی گئی؛ پانی سے زندگی ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ …(الانبیاء ۲۱: ۳۰)

∎ کائنات مستقل پھیل رہی ہے: وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰہَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۝۴۷ (الذاريات ۵۱: ۴۷)

∎ ایک دن کائنات کو سمیٹ لیا جائے گا:يَـوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۝۰ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۝۰ۭ …… (الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)

∎ جنین مختلف مراحل سے گزر کر پیدا ہوتا ہے، ولادت: خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۝۶ۙ يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۝۷ۭ  (الطارق۸۶: ۶ -۷)؛

∎ جنین کو مختلف مراحل میں پیداکیا گیا ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍ۝۱۲ۚ  ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ۝۱۳۠  ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ (المؤمنون ۲۳: ۱۲-۱۴)۔ جنین میں ہڈیاں پہلے بنتی ہیں، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت یعنی عضلات بنتے ہیں جیسا کہ المؤمنون کی آیت میں آیا ہے۔

∎ کائنات ازلی نہیں بلکہ اسے اللہ نے پیدا کیا ہے: بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝۱۱۷ (البقرہ۲ : ۱۱۷)

∎ ایک دن کائنات بکھر جائے گی (Big Crunch) : يَـوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۝۰ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۝۰ۭ …… (الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)

∎ جانوروں کے پیٹ میں دودھ بننا: وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً۝۰ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّـمَّافِيْ بُطُوْنِہٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ۝۶۶(النحل۱۶: ۶۶)

∎ بلند فضاؤں میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے، اس لیے وہاں سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے:  وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۭ ……(الانعام۶: ۱۲۵)

∎ سمندروں کی نچلی سطحوں میں اندھیرا اور ایک کے اوپر ایک موجیں ہوتی ہیں: اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشٰـىہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ۝۰ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ۝۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَہٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىہَا۝۰ۭ ……(النور۲۴: ۴۰)

∎ پہاڑ زمین کی میخ ہیں جو زمین کی حرکت کو متوازن رکھتے ہیں: وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۝۷ (النبا۷۸: ۷)؛ وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ ……(النحل۱۶: ۱۵)

∎ ہواؤں سے پولینیشن (بار آوری)ہوتا ہے: وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِـحَ…(الحجر۱۵: ۲۲)

زمین اور پہاڑ گھومتے ہیں: وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۝۰ۭ ……(النمل۲۷: ۸۸)

∎ النجم الطارق (Pulsating Star) جیسے نیوٹرون ستارہ (Neutron star) جن سے نبض یا خفقان کی آواز آتی ہے:وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ۝۱ۙ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ۝۲ۙ النَّجْمُ الثَّاقِبُ۝۳ۙ  (الطارق۸۶: ۱-۳ )

∎ ماحولیات میں خرابی انسانی اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱ (الروم۳۰: ۴۱)

∎ مکڑی کا گھر سب سے کمزور ہوتا ہے: مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۝۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۝۰ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۝۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝۴۱ (العنکبوت۲۹: ۴۱)

کوّا بہت ذہین ہوتا ہے: فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَہٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَۃَ اَخِيْہِ۝۰ۭ قَالَ يٰوَيْلَــتٰٓى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِيَ سَوْءَۃَ اَخِيْ۝۰ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِيْنَ۝۳۱(المائدہ۵: ۳۱)

                     (۱)نباتات میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں: سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّہَا مِـمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِہِمْ وَمِـمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ۝۳۶ (يٰسٓ۳۶: ۳۶)

                     (۲) نباتات زمین سے مقررہ مقدار میں غذائیت کھینچتے ہیں: وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَيْنَا فِيْہَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِيْجٍ۝۷ۙ (قٓ۵۰: ۷)

∎ ستاروں کی منزلیں اور مقامات:  فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ۝۷۵ۙ  وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِيْمٌ۝۷۶ (الواقعہ۵۶:۷۵-۷۶)

ستاروں اور کواکب کے درمیان قوت جاذبیت: اَللہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ……(الرعد۱۳: ۲)

∎ اللہ پاک نے زمین کو انسان کے رہنے کے قابل بنایا : وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا۝۳۰ۭ (النازعات۷۹: ۳۰)

∎ اللہ پاک نے زمین و آسمان کو کنٹرول میں رکھا ہے: وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ ……(الحج۲۲: ۶۵)

∎ چاند کے مراحل: وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ۝۳۹(یٰسٓ۳۶: ۳۹)

∎ چاند کی روشنی انعکاس ہے اور سورج کی روشنی براہِ راست: وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۝۱۶ (نوح۷۱: ۱۶)

∎ قرآن پاک نے یہ بھی بتایا ہےکہ دنیا میں ایسے سمندر اور دریا ہیں جن میں دو طرح کے پانی ہوتے ہیں اور وہ آپس میں ملتے نہیں ہیں۔مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ۝۱۹ۙ بَيْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ۝۲۰(الرحمٰن۵۵: ۱۹-۲۰)

∎ قرآن پاک نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں اللہ پاک انسان کو خود اپنےجسم اور کائنات میں چھپی ہوئی نشانیوں سے باخبر کریں گے: سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ …… (حم السجدہ۴۱: ۵۳)

∎ ہر انسان کی انگلیوں کے بصمات (نشان)الگ ہوتے ہیں ۔ اللہ پاک نےبتایا کہ وہ ان کو بھی واپس لانے پر قادر ہیں:بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَہٗ۝۴  (القيامة۷۵: ۴)

∎ اللہ تعالیٰ رات میں سے دن نکالتا ہے: وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الَّيْلُ۝۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ۝۳۷ۙ (يٰس۳۶: ۳۷)

آسمان محفوظ چھت ہے: وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۝۰ۚۖ وَّہُمْ عَنْ اٰيٰـتِہَا مُعْرِضُوْنَ۝۳۲ (الانبیاء ۲۱: ۳۲)

∎ انسان کو تکلیف جلد یا کھال سے ہوتی ہے: كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۝۰ۭ……(النساء۴: ۵۶)

∎ انسان مکھی سے بھی کمزور ہے:وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝۷۳ (الحج۲۲: ۷۳)

∎ انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے: وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا۝۰ۭ ……(فاطر۳۵: ۱۱)

عرب قمری کیلنڈر استعمال کرتے تھے جو ۳۵۶ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ اہل کتاب شمسی کیلنڈر استعمال کرتے تھے جو کہ ۳۶۵ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس وجہ سے قمری سال شمسی سال سے ہر صدی میں تین سال کم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے جب قرآن پاک نے اصحابِ کہف کے غار میں رہنے کی مدت بیان کی تو قمری سال کے لحاظ سے تین صدی کے لیے نو برسوں کا اضافہ کردیا، وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۝۲۵ (الکہف۱۸: ۲۵)

سائنسی اعجاز کا انکار

معاصر علما اور اسکالرز میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں سائنسی اعجاز ہے کیونکہ ان کے نزدیک قرآن ایک دینی کتابِ ہدایت ہے، سائنسی کتاب نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قرآن پاک کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے اور نہ اس نقطۂ نظر سے اس میں سائنسی حقائق بیان کئے گئے ہیں بلکہ اس میں دوسری باتوں کے ضمن میں سائنسی اشارے ہیں اور وہ ایسی باتوں کے بارے میں ہیں جن کو جزیرۂ عرب تو کیا ساری دنیا میں اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا۔ شیخ الازھر محمودشلتوت(م: ۱۹۶۳ء) اور ادیبہ ومفسرہ عائشہ عبدالرحمٰن (بنت الشاطئ، م: ۱۹۹۸ء) نے قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کا انکار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ  قرآنی اعجاز لسانی (لغوی) ہے، علمی نہیں ہے۔ خالد منتصر (مصنف: الاعجاز العلمی) کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجازلسانی (لغوی) ہے، علمی نہیں ہے۔ یہی رائے پرویز ہود بھائی (مصنف اسلام اور سائنس: دینی آرتھوڈکسی اور عقلی لڑائی) کی ہے ۔ ۳۸ یمنی عالم شیخ عبدالمجید الزندانی سائنسی اعجاز کے پرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے الهيئة العالمية للإعجاز العلمي في القرآن والسنة کے نام سے ایک بڑی تنظیم بنائی جس کا صدر مقام مکہ مکرمہ میں ہے۔

قرآن پاک کا علمی اعجاز برحق ہے لیکن اس میں مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہیے اور اس میں صرف ان چیزوں کو داخل کرنا چاہیے جو بالکل واضح ہیں۔ یہاں یہ بات بھی کہنی ضروری ہے کہ ہم قرآن پاک کے سائنسی معجزوں کی بہت بات کرتے ہیں لیکن خود سائنس میں بہت پیچھے ہیں۔ قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ہم انھی حقائق کو استعمال کرتے ہیں جن کا اکتشاف مغربی دنیا کے اسکالرز اور ریسرچ سنٹرز نے کیا ہے۔  ۳۹

غیبـیات

غيبی اعجاز کا مطلب ہے قرآن کا ماضی، حال اور مستقبل کے تعلق سے ایسے امور کے بارے میں بتانا جسے جاننا نزول وحی کے وقت کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ قرآن نے ماضی کی ایسی بہت سی باتیں بتائی ہیں جن کو اس وقت کا عرب اور غیرعرب نہیں جانتا تھا: تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہَآ اِلَيْكَ۝۰ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۝۰ۭۛ …… (ھود ۱۱ : ۴۹)۔

قرآن پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے لوگوں، بالخصوص منافقین کے دلوں کی باتیں یا ان کے آپس کے راز و نیاز کے بارے میں بھی بتایا: وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۝۰ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُوْنَ۝۱۴(البقرہ ۲ : ۱۴)۔

مکہ اور فتح مکہ سے پہلے کے مدینہ میں ایک عام آنکھ کو لگتا تھا کہ یہ چراغ اب بجھا کہ تب بجھا لیکن ان حالات میں بھی قرآن پاک بار بار رسول اکرمؐ سے کہتا ہے کہ کفار کے خلاف اللہ پاک اپنے پیغمبر ؐکا دفاع کریں گے (المائدہ۵ : ۶۷) ، کفار مغلوب ہوں گے (۳:۱۲)، قریش کو شکست ہو گی (۸:۳۶ ؛ ۹ : ۲-۳) ، اگر یہودی مدینہ چھوڑ کر جائیں گے تو منافقین قطعاً ان کے ساتھ نہیں جائیں گے(۵۹ : ۱۱-۱۲) ۔ صلح حدیبیہ کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ مسلمان مکہ میں داخل ہوں گے اور شعائر ادا کریں گے (۴۸ : ۲۷)۔ اللہ پاک نے اپنے نبی سے کہا کہ اللہ کی مدد ان کو ضرور آئے گی اور جب آئے گی تو لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے (النصر۱۱۰: ۱-۳) ۔ اللہ پاک اپنے نبی کی حفاظت کریں گے (المائدہ۵ : ۶۷، ۹۹)۔ کفار ذلیل و خوار ہوں گے (المجادلۃ ۵۸ : ۵)۔ مشرکین قریش کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ دکھائیں گے (القمر۵۴: ۴۳-۴۵)

قرآن نے بتایا کہ حضور پاکؐ کے چچا ابولہب اور چچی کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور وہ کفر پر مریں گے (اللّھب) ۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا،جب کہ ابولہب کے دونوں بیٹے عتبہ اور متعب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔

قرآن پاک نے ماضی کی ایسی بہت سی باتیں بتائی ہیں جن کو جاننے کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا اور اسی لیے قرآن پاک ان کو واقعات بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اے پیغمبرؐ! جب یہ بات ہوئی تو تم وہاں نہیں تھے:ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ۝۰ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَہُمْ وَہُمْ يَمْكُرُوْنَ۝۱۰۲ (یوسف۱۲: ۱۰۲)

کچھ عیسائی اور یہودی اسکالرز اور مستشرقین نے دعویٰ کیا ہےکہ حضور پاکؐ نے قرآن پاک یہودی اور عیسائی مقدس کتابوں سے معلومات چُرا کر تیار کیاہے۔ یہ بات پوری طرح بوگس ثابت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں ایسی باتوں یا ایسی تفصیلات کا ذکر ہے جو توریت یا انجیل میں موجود نہیں ہیں ، یا جن کا توریت و انجیل میں دوسرے طریقے سے ذکر ہوا ہے۔  ۴۰

قرآن پاک کی غیب کی اطلاع دینے کی ایک اہم مثال ایرانیوں پر رومن (بیزنطیوں) کی ’چند سال‘ میں فتح کی پیشین گوئی ہے (الروم۳۰:۱-۵)۔ چند سال کے لیے یہاں جو عربی لفظ استعمال کیاگیاہے وہ ’بضع‘ ہے جو عربی میں ۳ سے ۱۰ تک کے لیے استعمال ہوتا ہے اور واقعتاً رومیوں کی فتح اسی مدت کے اندر واقع ہوئی ۔

قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ’زوجہ‘ اور ’امرأۃ‘ کا استعمال ہوا ہے، جیسے امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنْ نَّفْسِہٖ۝۰ۚ (یوسف۱۲: ۳۰)؛ امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۝۰ۭ (التحريم۶۶: ۱۰) اور دوسری جگہوں پر زوج/زوجہ/ازواج کا استعمال ہوا:وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا …… (الروم۳۰: ۲۱)؛ وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۝۰ۭ (الانبیاء۲۱: ۹۰)۔ اس میں بیانی اعجاز یہ ہے کہ ’امرأۃ‘ کا استعمال ان جگہوں پر ہوا ہے جہاں بیویوں نے خیانت کی جیسے نوحؑ اور لوطؑ کی بیویاں اور عزیز مصر کی بیوی۔ اس کے بالمقابل ’زوجہ‘ کا استعمال وہاں ہوا ہے جہاں بیوی کی تعریف مقصود ہے۔ ’زوجۃ‘ کا معنی یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے کثرت اولاد ہو۔ اس لیےجب حضرت زکریا نے اپنی لاولد بیوی کا ذکر کیا تو کہا: وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا(مريم۱۹: ۵،۸ اور جب اللہ نے ان کی بیوی کو اولاد کے قابل بنا دیا تو کہا : وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۝۰ۭ (الانبیاء۲۱: ۹۰)

∎ متکبرین کے جنت میں داخلے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے قرآن پاک نے انتہائی بلاغت سے کہاکہ اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا:

وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّۃَ حَتّٰي يَـلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ۝۰ۭ ……(الاعراف۷: ۴۰)

∎ جہنم کی بے پناہ وسعت کو یوں بیان کیا’’یاد کرووہ دن جب ہم جہنم سے پوچھیں گے تو بھرگئی؟ اور وہ کہے گی:کیا اور کچھ ہے؟‘‘: يَـوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ۝۳۰ …قٓ۵۰: ۳۰)

∎ قرآن کریم نے پیشین گوئی کی کہ مستضعف مسلمانوں کی بالآخر فتح ہوگی:سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۝۴۵(القمر۵۴: ۴۵)

∎ قرآن کریم نے یہ بھی پیشین گوئی کی کہ مدینے کے کمزور مسلمان مسجد حرام (خانۂ کعبہ) میں داخل ہوںگے :لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۝۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۝۰ۙ ……(الفتح۴۸: ۲۷)

∎ اللہ پاک مستضعف مسلمانوں کو تمکین (اقتدار) سے سرفراز کریں گے (… لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ  فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ ……(النور۲۴: ۵۵)۔ حضورپاکؐ کی زندگی میں یہ وعدہ پورا ہو گیا۔

∎ اللہ پاک نے اپنے نبی کو زمانۂ حاضر میں ہونے والی باتوں سے باخبر کیا جن کے بارے میں نبی کچھ نہیں جانتے تھے جیسے منافقین کی دسیسہ کاریاں(التوبہ ۹:۷۵-۷۸)۔

∎ اسی طرح اللہ پاک نے اپنے نبی کو عبداللہ بن أبیّ سلول کے قول کے بارے میں اطلاع دی کہ جب وہ مدینہ پہنچے گا تو وہاں کے طاقت ور وہاں کے کمزوروں کو نکال باہر کریں گے: يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ۝۰ۭ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۸ (المنافقون۶۳: ۸)۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے انکار کیا لیکن اللہ پاک نے اس کی تصدیق کی۔

∎ بالآخر اسلام کی کامیابی اور اس کا پھیلنا:يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۳۲ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۳۳(التوبہ۹: ۳۲-۳۳)

غیب کی باتیں جو اللہ پاک نے اپنےنبی کو بتائی ان میں کچھ ماضی بعید سے تعلق رکھتی ہیں جیسے عمران کی بیوی (اٰل عمرٰن۳: ۳۵) اور حضرت مریم (اٰل عمرٰن ۳: ۴۴) کا قصہ؛ بنی اسرائیل اور حضرت موسٰی کے واقعات اور گائے کا قصہ (البقرہ۲: ۶۷-)، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کا خانۂ کعبہ کی تعمیر (البقرہ۲: ۱۲۷)، طالوت اورجالوت کا قصہ (البقرہ ۲: ۲۴۷)، بنی اسرائیل کا اپنے دشمنوں پر غلبہ (البقرہ۲: ۲۴۹-۲۵۲)، حضرت داؤد کی شہنشاہیت کا قیام (صٓ ۳۸ : ۲۳-۲۶)، عاد (ابراہیم۱۴ : ۹ ، ۲۵ :۳۸)، ثمود (اعراف۷ : ۷۳ ۔ ۷۹، التوبہ ۹ : ۷۰ ، ۶۱ : ۶۸) ، حضرت آدمؑ کی پیدائش (البقرہ۲: ۳۰)، حضرت آدمؑ کا ابلیس کے ساتھ معاملہ (البقرہ۲: ۳۴)، حضرت آدمؑ اور حواؑ کا جنت سے نکلنا (البقرہ۲: ۳۶)، موسٰی اور بنی اسرائیل کی مدد (الدخان۴۴ : ۳۰ ، ۳۲ -۳۳)، حضرت یوسفؑ کا قصہ (۶ : ۸۴ ، ۱۲ : ۴ - ۱۰۱ ، ۴۰ : ۳۴) ، حضرت موسٰی کا ولادت سے لے کر مصر سے بھاگنے، واپس آنے اور دعوت حق دینے کا قصہ (۲۰ : ۳۸۔ ۴۰ ، ۲۸ : ۱۴ ۔ ۲۲ ، ۲۸ : ۳۰ -۳۲)، قارون کا قصہ جس کے گھمنڈ اور جبروت کی وجہ سے اللہ پاک نے اسے زمین میں گاڑ دیا (۲۸ : ۷۶۔۸۲) وغیرہ۔

مختلف جگہوں پر اللہ پاک اس حقیقت کا ذکر کرتے ہیں کہ محمدؐ وہاں موجود نہیں تھے جب وہ واقعات ہو رہے تھے (اٰل عمرٰن ۳:۴۴؛ یوسف۱۲:۱۰۲؛ القصص۲۸: ۴۴-۴۶) وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ(یوسف ۱۲: ۴۴، ۱۲ : ۱۰۲) ، وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَہْلِ مَدْيَنَ  …… وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ (القصص ۲۸ : ۴۵-۴۶)

قرآن آج بھی تر وتازہ ہـے!

قرآن پاک کے معجزہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پندرہ صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی اس کا کلام آج بھی تروتازہ ہے۔ بار بار اس کو دُہرانے سے وہ باسی نہیں ہوتا۔ مسلمان ساری زندگی روز اس کی چھوٹی سورتیں اور بالخصوص سورۂ فاتحہ کو دن میں بار بار دُہراتے ہیں لیکن کبھی اُکتاتے نہیں اور نہ یہ کلام ان کو باسی لگتاہے، جب کہ کوئی انسانی کلام ہوتا تو انسان چند بار دُہرانے کے بعد ہی اس سے اُکتا جاتا ہے ۔ مستشرق لیون نے کہا ہے ’’قرآن کے جلال و عظمت کے لیے یہ کافی ہے کہ چودہ صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی اس کے اسلوب میں کوئی تخفیف نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ آج بھی تروتازہ ہے جیسے کہ وہ ابھی کل ہی وجود میں آیا ہو‘‘ ۔ ۴۱

قرآن پاک کے معجزہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ کا یہ کلام انسانی کلام سے ہمیشہ الگ نظر آتا ہے۔ اگر آپ اسے انسانی کلام کے بیچ میں کہیں نقل کر دیں تو یہ بالکل الگ دکھائی دے گا۔ قرآن پاک کا معجزہ یہ بھی ہے کہ آغازِ اسلام سے آج تک ہر نسل میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اس کا اگر پورا نہیں تو ایک بڑا حصہ حفظ کرتے ہیں۔ یوں ہر نسل میں لاکھوں لوگ حافظ قرآن ہوتے ہیں۔

  • لسانی اعجاز:اعجاز کا بیانی و ابلاغی و فصاحتی پہلو اعجاز کے پہلوؤں میں سب سے زیادہ واضح ہے۔قرآن پاک ، جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، وہ وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترا تھا، اور وہ اسی اصلی زبان میں ہے جس میں وہ اترا تھا۔وہ آج بھی اسی زبان میں لکھا ، پڑھا اورسمجھا جاتا ہے، جب کہ دوسرے تمام صحف سماویہ اپنی اصلی زبانوں میں آج محفوظ نہیں ہیں بلکہ ہمارے پاس ان کے ترجمے ہیں بلکہ ترجموں کے ترجمے ہیں۔ قرآن پاک کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ اس نے عربی زبان کو محفوظ کر دیا اور آج بھی اتنی تبدیلیوں کے باوجود عربی زبان اسی طرح سے لکھی، پڑھی اور بولی جاتی ہے جیسے صدیوں پہلے، جب کہ اس عرصے میں دنیا کی ہر زبان بدل چکی ہے۔
  • عددی اعجاز: رشاد خلیفہ (م: ۱۹۹۰) نے ارقام کی بنیاد پر قرآن پاک کا اعجاز ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو قبول عام نہیں ملا۔ ان کا دعوی تھا کہ ’’۱۹‘‘وہ سحری نمبر ہے جس کے گرد قرآن پاک کی ساری آیات گھومتی ہیں اور اس کی وجہ سے قرآن پاک میں تحریف نہیں کی جاسکتی ہے۔ اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جیسے:

Miracle of the Quran: Significance of Mysterious Alphabets (1973)

The Computer Speaks: God’s Message to the World (1981)

Visual Presentation of the Miracle (1982

یہ قرآن پاک کے اعجاز کا ایک مختصر جائزہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مختصر مضمون سے اس عظیم موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس سیمینار میں مختلف زاویوں سے اعجاز قرآن پر بحث کر کے اس کا ایک حد تک حق ادا کیا جائے گا۔

 _______________

حواشی

۳۴-      ڈاکٹر حق ، Nixon’s Counselor Robert Dixon Crane's interesting true story، ۱۳جنوری ۲۰۲۲ء

 ۳۵-       The Glorious Quran ،ظفر الاسلام خان، Pharos ،نئی دہلی، ۲۰۲۳، ص ۳۱-۳۳

۳۶-      The Bible, The Quran  and Science، Alaistair D Phannel ۔یہ کتاب پہلی بار ۱۹۷۶ء میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی۔ بعد میں اس کے بہت سی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔

۳۷-      دیکھئے: میرا ترجمۂ قرآن پاک (عربی متن کے ساتھ) حاشیہ بر آیت ۳۰ : ۲-۶ (ص: ۶۰۶-۶۰۷)

              دیکھئے میرے انگریزی ترجمۂ قرآن میں حاشیہ برائے آیت نمبر ۲۵ : ۵۳ (ص: ۵۴۸ -۵۴۹ )

۳۸-      پرویز ہودبھائی، Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality ، لندن، ۱۹۹۱ء

۳۹-        المبالغة في تصوير الإعجاز القرآني ، إسلام أون لاين۔

۴۰-        ہم نے اپنے ترجمۂ قرآن (ص۳۳-۴۱) میں ایسے ۳۵ واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں قرآن پاک کی روایت توریت و انجیل سے مختلف ہے۔ اس فہرست میں اور بہت اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۱-        عبدالمجيد الزندانی ، توحيدالخالق ، ص۱۳۲

مسلمانوں کا روزِ اوّل سے اعتقاد ہے کہ قرآن پاک شکلاً اور مضمونا ً دونوں طور سے اعجاز کا حامل ہے اور کوئی بشری کلام اس کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔ قرآن پاک کو اللہ پاک نے ہمیشہ کے لیے انسانوں کی ہدایت اور رسول اکرمؐ کی رسالت کی دلیل کے طور سے نازل کیا۔ قرآن پاک کے نزول سے دو باتیں ثابت ہوئیں: پہلا یہ کہ وہ کلام اللہ ہے، دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول و نبی ہیں۔

رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے بہت سے معجزے بھی صادر ہوئے جیسے شق القمر، کنکریوں (حصی) کا تسبیح پڑھنا، حضورپاک کی انگلیوں سے پانی جاری ہونا لیکن وہ سب وقتی تھے اور ختم ہوگئے، جب کہ قرآن پاک ہمیشہ کے لیے معجزہ ہے اور آخرت تک باقی رہے گا۔

مشرکین قریش نے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے حسی معجزہ مانگا تھا جیسے:

  • انھوں نے کہا کہ حضور پاکؐ پر فرشتہ نازل ہو جسے مشرکین دیکھیں: وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ مَلَكٌ۝۰ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ۝۸ (الانعام ۶ : ۸)۔
  •  انھوں نے حضور پاکؐ سے مطالبہ کیا کہ وہ ویسے ہی معجزے لائیں جو دوسرے نبیوں کو ملے تھے: وَاِذَا جَاۗءَتْہُمْ اٰيَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللہِ۝۰ۭۘؔ (الانعام ۶ : ۱۲۴)۔
  • انھوں نےمعجزوں کا انکار کرتے ہوئے نئے معجزوں کا مطالبہ کیا: وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ (الانعام ۶: ۳۷)۔
  • انھوں نے کہا کہ ایک چشمہ جاری کردیجئے: وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙ (بنی اسرائیل ۱۷: ۹۰)۔
  • انھوں نے کہا کہ اس پیغمبر کی مدد کے لیے ایک فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا جاتا، اس کے لیے ایک خزانہ کیوں نہیں اتارا جاتا، اسے ایک باغ کیوں نہیں دیا جاتا؟: وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ۝۰ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَہٗ نَذِيْرًا۝۷ۙ اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْہِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ يَّاْكُلُ مِنْہَا۝۰ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝۸ (الفرقان۲۵: ۷-۸)۔
  • انھوں نے کہا کہ اس نبی کے پاس سونے کا گھر ہونا چاہیے: اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ (بنی اسرائیل ۱۷: ۹۳)۔
  • انھوں نے کہا کہ اس نبی کو وہی معجزے کیوں نہیں ملتے جو حضرت موسٰی کو دیے گئے تھے:  قَالُوْا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي۝۰ۭ  (القصص۲۸: ۴۸)۔
  • انھوں نے کہا کہ نبی پر معجزے کیوں نہیں نازل ہوتے؟: وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ (العنکبوت۲۹: ۵۰)۔
  • انھوں نے کہا کہ یہ قرآن دونوں شہروں (مکہ و طائف) کے کسی عظیم شخص پر کیوں نازل نہیں ہوا؟: وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ۝۳۱ (الزخرف۴۳: ۳۱)۔

انبیا علیہم السلام کو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے معجزے ملے۔ جادوگری کے زمانے میں حضرت موسٰی کو عصا اور یدِبیضاء ملا۔ طب کے فروغ کی وجہ سے حضرت عیسٰیؑ کو مریضوں کو شفایاب کرنے کا معجزہ ملا۔عربوں کو اپنی فصاحت و بلاغت اور شعر و خطابت پر ناز تھا، اس لیے ان کے لیے معجزۂ قرآن آیا۔ اللہ پاک نے حسی معجزے کے بجائے اپنے آخری نبی کو عقلی معجزہ دیا۔ عقلی معجزہ زمان ومکان کی حدود سے آزاد ہے، جب کہ حسی معجزہ زمان و مکان میں ہی واقع ہو سکتا ہے۔

اعجاز قرآن

قرآن پاک کے اعجاز پر گفتگو عباسی دور میں شروع ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد قرآن پاک کا دفاع کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ معتزلی عالم اور لیڈر ابراہیم بن سیار النظّام (م: ۲۲۴ھ) نے پیدا کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ قرآن پاک میں بذاتہِ اعجاز نہیں ہے بلکہ اللہ پاک نے لوگوں کی توجہ اس بات سے ہٹا دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا خیال تھا کہ قرآن پاک کے چیلنج کا جواب دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اللہ پاک نے لوگوں کی توجہ اس طرف سے ہٹا دی ہے، اس لیے یہ نہیں ہو رہا ہے۔ اس نظریہ کا نام ’صرفۃة‘ہے یعنی توجہ پھیر دینا یا ہٹا دینا ۔ اس نظریے کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ قرآن کی نقل کی جا سکتی ہے لیکن اللہ پاک نے عربوں کو اس صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ لیکن اس رائے کو عام مقبولیت نہیں ملی۔

اسی زمانے میں زنادقہ نے بھی سر اٹھایا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ قرآن پاک میں استعمال شدہ بعض کلمات مناسب نہیں ہیں اور قرآن کے بعض فقروں میں بلاغت و فصاحت نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلام پاک معجزہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ سوسائٹی کے بعض لوگوں کو قرآن پاک کے بعض مبادی جیسے مساوات و عدل سے پریشانی ہوئی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سب لوگ برابرہوں۔  اس وجہ سے انھوں نے قرآن پاک کے بارے میں شک و شبہہ اور تشکیک شروع کر دی ۔ ۱

یہی وجہ ہے کہ اس زمانے سے قرآن پاک کے اعجاز کے بارے میں علما نے کثرت سے لکھنا شروع کیا۔ بعض نے اپنی کتابوں میں اس مسئلے کا تذکرہ کیا اور بعض نے الگ سے کتابیں تصنیف کیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

اعجاز اور معجزہ

قرآن پاک نے لفظ ’معجزہ‘ یا ’اعجاز‘ استعمال نہیں کیا ہے۔ یہ اصطلاحیں بعد کے علما نے وضع کی ہیں۔ اسلام آنے کے بعد شروع کی دو صدیوں میں مسلمانوں نے قرآن پاک میں ’اعجاز‘ کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایک اسکالر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ (۱)اس وقت تک اسلامی عقل بہت باریک مسائل کے بارے میں سوچنے کی عادی نہیں ہوئی تھی، (۲)مسلمان نص قرآنی کو بہت تقدس کی نظر سے دیکھتے تھے، اس لیے اس جیسے مسائل کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ۔ ۲  اس میں یہ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ شروع کی دو صدیاں آپس میں سیاسی خلفشار کی تھیں اور مسلمان جنگوں اور فتوحات میں بہت مشغول تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن پاک کا لسانی، بیانی اور تشریعی اعجاز قرنِ اول کے مسلمانوں کے سامنے ایک حقیقت تھا، اس لیے اس کے دفاع کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

 پہلی دو ہجری صدیوں کے دوران ہمیں اعجاز القرآن کے بارے میں کوئی تصنیف نظر نہیں آتی۔ دوسری صدی ہجری کے آخر میں ابوعبیدہ معمر بن مثنی (م: ۲۰۹ھ)نے کتاب اعجاز القرآن لکھی جو اس موضوع پر پہلی کتاب تھی، لیکن وہ ان کی دوسری کتابوں کی طرح ناپید ہے۔اسی زمانے میں قرآن پاک کے اعلیٰ عربی، ابلاغی اور بیانی اسلوب کے بارے میں بات شروع ہوئی اور تیسری صدی ہجری سے اعجاز القرآن کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں تصنیف کی جانے لگیں، مثلاً:

  • ابوعثمان عمرو بن بحر الجاحظ(م: ۲۵۵ھ) نے نظم القرآن  نامی کتاب لکھی جس میں قرآن پاک کے نظم اور تالیف کے اعجاز کا تذکرہ کیا اور اپنے استاذ ابراہیم بن سیار النظّام (م: ۲۲۶ھ) کے نظریۂ صرفہ کو رَد کیا۔
  • محمد بن يزید الواسطی (م: ۳۰۶ھ) : اعجاز القرآن
  • عبدالله بن ابی داؤد السجستانی (م: ۳۱۶ ھ) : نظم القرآن
  • ابو زید البلخی(م: ۳۲۲ھ) : نظم القرآن
  • احمد بن علی’ابن الاخشيد‘ (م: ۳۲۶ھ) : نظم القرآن
  • ابوالحسن علی بن عيسٰی الرمانی (م: ۳۸۶ھ) نے النکت فی الاعجاز القرآنی لکھی۔ انھوں نے قرآنی اعجاز کے سات امور کا ذکر کیا۔ ۳
  • ابوسلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم الخطابی(م: ۳۸۸ھ) نے بیان إعجاز القرآن کے نام سے کتاب لکھی۔ وہ کہتے ہیں: قرآن کا اعجاز ان فصیح ترین الفاظ کی وجہ سے ہے جو صحیح ترین معانی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ دوسرا اعجاز اس کا سننے والوں کے دلوں میں اثر کرنا ہے، کہ کتنے ہی دشمن عرب اس کو سن کر دشمنی ترک کر کے مسلمان ہو گئے ۔ ۴
  • ابوبکر محمد بن الطيب الباقلانی (م: ۴۰۳ھ) نے کتاب اعجاز القرآن میں قرآنی اعجاز کے تین امور کا تذکرہ کیا: قرآن نے غیبی امور کی اطلاع دی، گزرے ہوئے لوگوں اور پچھلی نسلوں کے بارے اطلاع دی، اور اس میں غیرمعمولی نظم پایا جاتا ہے ۔ ۵
  • ابوبکر عبدالقاھربن عبدالرحمٰن الجرجانی (م: ۴۷۱ھ) نے الرسالة الشافية  ۶ لکھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دلائل الاعجاز کے نام سے بھی کتاب لکھی ۔ ۷ اسی موضوع پر ان کی ایک اور کتاب أسرار البلاغة ہے۔
  • القاضی عياض بن موسیٰ(م: ۵۴۴ھ) نے کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفٰی  میں قرآنی اعجاز کے چار امور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ غیبی امور کی اطلاع دیتا ہے اور پچھلی نسلوں کے بارے بتاتا ہے ۔ ۸
  • علی بن محمد السخاوی(م: ۶۴۳ھ) نے کہا کہ اعجاز قرآنی اس کے نظم اور اسلوب میں ہے۔ غیبی امور اور پرانی قوموں کے واقعات رسولؐ اللہ کی سچائی کی دلیل ہیں۔ ۹
  • ابوعبدالله محمد بن احمد القرطبی(م: ۶۸۴ھ) نے اعجاز قرآنی کے دس امور کا ذکر کیا ہے ۔ ۱۰
  • بدرالدین زرکشی(م: ۷۹۴ھ) نے اعجاز کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا ہے۔ ۱۱
  • جلال الدین السيوطی(م: ۹۱۱ھ) نے اپنی دو کتابوں الاتقان فی علوم القرآن  ۱۲ اور معترک الاقرآن فی إعجاز القرآن ۱۳  میں اعجاز قرآنی کی متعدد صورتوں کا ذکر کیا۔
  • مفتی محمد عبدہٗ (م: ۱۹۰۵ء) نے رسالة التوحيد ۱۴ میں اعجاز القرآن پر روشنی ڈالی ہے۔ اسی موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں مصطفےٰ صادق الرافعی (م:۱۹۳۷ء) کی کتاب إعجاز القرآن والبلاغة النبوية  ۱۵  بھی شامل ہے۔عبدالمتعال الصعیدی (م:۱۹۶۶ء) نے النظم الفنی فی القرآن لکھی اور قرآنی آیات کے ایک دوسرے سے مربوط ہونے کے اعجاز پر زور دیا۔ سید قطب (م: ۱۹۶۶ء) نے اپنی تفسیر فی ظلال القرآن ۱۶ کے علاوہ التصوير الفنی فی القرآن ۱۷ اور مشاهد القيامة فی القرآن ۱۸ میں قرآن پاک کے ابلاغی اور ادبی اعجاز پر گفتگو کی۔

معجزہ کیا ہـے ؟

’اعجاز‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو مادہ یا جذر ( ع-ج-ز) سے مشتق ہے۔اس کے ثلاثی مصدر کے معنی ہیں عاجز ہونا، قادر نہ ہونا، کمزور ہونا۔ اسی جذر سے عاجز، عجوز، معجزہ اور اعجاز جیسے الفاظ بنتے ہیں۔ عجز کے معنی کمزوری بھی ہے اور انسان کا پچھواڑہ بھی۔ اعجاز کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرنے یا پکڑنے کو ناممکن بنانا ۔ اصطلاح کے طور سے ’اعجاز‘کے معنی عاجز اور کمزور کردینا ہے۔ الاعجاز القرآنیکے معنی ہیں قرآن پاک کے ذریعے رسول اکرمؐ کے پیغام کے صدق کا معجزاتی اظہار اور منکروں کو چیلنج کہ اس جیسا کلام لائیں۔ 

عجز سے معجزہ بھی مشتق ہے، جو زندگی اور موجودہ دنیا کے فطری قوانین کے خلاف واقع ہوتا ہے۔ ایک اسلامی اصطلاح کے طور پر معجزہ وہ عمل ہے جو پیغمبرؑ اپنی پیغمبری کے اعلان کے بعد اور پیغمبری کی تائید واثبات میں اپنے انکار کرنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ شیخ ابو زہرہ نے اس کی تعریف یوں کی ہے: ’’وہ عادت کے مخالف امر ہےجسے نبوت کا دعویٰ کرنے والا یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ وہ اللہ کا رسولؐ ہے اور (اپنے منکرین) کو چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسا عمل لا کر دکھائیں‘‘ ۔ ۱۹  یہ دلیل حسی ہوسکتی ہے جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیا علیہم السلام نے پیش کی مثلاً مُردوں کو زندہ کرنا، عصا کو چلتا ہوا سانپ بنا دینا وغیرہ۔ حضور پاکؐ سے بھی ایسے معجزے صادر ہوئے جیسے شق قمر اور انگلیوں سے پانی نکلنا۔معجزہ فطری قوانین کے خلاف واقعہ ہوتا ہے اور نصرت الٰہی کے بغیر کوئی معجزہ نہیں لا سکتا۔ اسی طرح اللہ پاک کسی جھوٹے مدعی کو معجزہ نہیں دیتے ہیں۔

قرآن پاک کا اعجاز بہت متنوع ہے۔ اس میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ تاریخی اعجاز (ماضی ، حال اور مستقبل کی خبروں کو بتانا)، نفسیاتی اعجاز (انسانی نفس کے اسرار کو بتانا)، تشریعی اعجاز (ایسے قوانین انسان کے لیے بنانا جو اس کے لیے بالکل مناسب ہوں)، علمی اعجاز (ایسے سائنسی اسرار کو بتانا جن کو حضورپاکؐ کے زمانے کے لوگ نہیں جانتے تھے یا جن کا انسان نے ابھی انکشاف نہیں کیا تھا)۔

اس وقت کے اور بعد کے عرب قرآن پاک کے اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ عربوں کے پورے شعری اور نثری کلام میں فصاحت، لطیف معانی، حکمت وبلاغت کی قرآن جیسی مثال نہیں ملتی ہے۔ عرب حکما وشعرا کا جو کلام ملتا ہے وہ چند الفاظ یا مختصر قصائد پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ۲۰

عربی زبان کے ممتاز ترین ادیب ابن المقفع (م:۱۴۲ھ/۷۵۹ء)نے اس چیلنج کوقبول کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہا۔آخر میں اس نے اپنے لکھے ہوئے سارے صفحات پھاڑ دیے اور شرم کے مارے اس مسئلے پر خاموش رہا ۔ ۲۱

 قرآن کا یہ اعجاز وقتی نہیں تھا بلکہ وہ تاقیامت جاری رہے گا۔ اس لحاظ سے اپنی تعلیمات کے علاوہ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے۔ قرآن ہی رسولؐ اللہ کا اصلی معجزہ ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام انبیاؑ کومعجزے دیے گئے، جن کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لائے۔ مجھے جو دیا گیا ہے وہ ’وحی‘ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی‘‘(ما من الانبیاء نبی إلا أعطی من الآیات ما مثلہ آمن علیہ البشر، إنما کان الذی أوتیت أنا وحیا أوحاہ اللہ إليّ ۔ ۲۲

’اعجاز‘ یا ’معجزہ‘ کا لفظ قرآن پاک میں نہیں آیا ہے بلکہ اس کا استعمال دوسری صدی ہجری کے اواخر سے شروع ہوا۔ خود قرآن پاک میں اس کے لیے لفظ – ’آيۃ ‘ استعمال ہوا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۳۹، ۹۹؛ آل عمران۳:۴، ۷؛النساء۴: ۵۶، ۱۴۰؛ المائدہ۵:۱۰، ۴۴؛ الانعام ۶: ۴، ۲۱ وغیرہ میں ہے۔ اسی طرح اس کے لیے –’بيّنة ‘کا لفظ آیا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۲۱۱؛ الانعام ۶:۵۷، ۱۵۷؛ الاعراف ۷: ۷۳، ۸۵، ۱۰۵؛ الانفال۸: ۴۲؛ ہود۱۱:۱۷، ۲۸، ۵۳، ۶۳، ۸۸؛ طٰہٰ ۲۰:۱۳۳؛ العنکبوت ۲۹: ۳۵؛ فاطر۳۵:۴۰؛ محمد۴۷: ۴۷؛ البینۃ ۹۸: ۱،۴۔

اسی طرح – ’برہان ‘ کا لفظ آیا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۱۱۱؛ النساء۴: ۱۷۴؛ يوسف۱۲: ۲۴؛ الانبیاء۲۱:۲۴؛ المؤمنون ۲۳:۱۱۷؛ النمل۲۷: ۶۴؛ القصص ۲۸: ۳۲، ۷۵۔ ایک لفظ ’سلطان ‘ استعمال ہوا ہے، جیسے: آل عمران۳: ۱۵۱، النساء۴:۹۱، ۱۴۴، ۱۵۳؛ الانعام ۶:۸۱۔

معجزےکی شرائط

  • معجز ہ اللہ کی طرف سے ہونا چاہیے۔ کوئی جادو یا کرتب معجزہ نہیں ہوگا۔
  • اسے خارق العادت ہونا چاہیے یعنی دنیا میں جو واقعات ہو رہے ہیں اس کے برخلاف ہو۔
  • اس عمل کو کوئی توڑ نہ سکے ، نہ غلط ثابت کر سکے۔
  • اس کا ظہور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے ہاتھوں ہو۔
  • عمل حسب دعویٰ ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ دعویٰ کسی اور بات کا ہو اور عمل کچھ اور ہو۔
  • جس عمل کا معجزہ لانے والا دعویٰ کرے وہی عمل اس کی تکذیب نہ کرے۔
  • مذکورہ عمل دعوائے نبوت سے پہلے نہ ظاہر ہوا ہو بلکہ نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد واقع ہو۔  ۲۳
  • اعجاز اور کرامت میں فرق:کرامت کے ذریعے اللہ پاک اپنے کسی پاک بندے کی فضیلت واضح کرتے ہیں، جیسے حضرت مریم ؑ کو سردی کا پھل گرمی میں ملنا اور گرمی کا پھل سردی میں۔ اسی طرح اولیا و صالحین کے ہاتھوں کرامات ظاہر ہوتی ہیں، جو معجزہ نہیں ہوتی ہیں۔

معجزہ اور جادو میں فرق

  • معجزہ اور جادو میں فرق:معجزہ خارق عادت ہے اور دنیاوی قوانین کے برخلاف وجود میں آتا ہے، جب کہ جادو سیکھاجاسکتا ہے اور وہ ساحر کے عمل سے وجود میں آتا ہے، اللہ پاک کے حکم سے نہیں۔ اس کی مثال حضرت موسٰی کا عصا ہے جو معجزہ سے حقیقی سانپ بن گیا اور جادوگروں کے سانپوں کو کھا لیا، جب کہ جادوگروں کے سانپ محض آنکھوں کا دھوکا تھے۔
  • قرآنی اعجاز کن پہلوؤں میں ہـے؟: علما نے قرآنی اعجاز کے جن پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے ان کو مندرجہ ذیل وجوہ میں بیان کیا جاسکتا ہے:لسانی، ادبی، بیانی، ابلاغی، نظمی، لفظی، دلیلی، عقيدی (اعتقادی) ، تعبدی (عبادی) ،تشريعی (قانون سازی)، تاريخی ،تربوی (تعلیمی)، نفسی (نفسیاتی)، اقتصادی ، اداری (ایڈمنسٹریٹیو)، تنبوؤی (پیشین گوئی) ، علمی (سائنسی) طبی ، فلکی، موسيقی ، عددی اور اجتماعی۔ اور اعجاز کا یہ چیلنج انسانوں اور جنوں سب کے لیے ہے۔
  • قرآنی اعجاز قیامت تک قائم رہـے گا:علما کی رائے ہے کہ قرآن پاک کا اعجاز اپنی تمام صورتوں میں قیامت تک قائم ہے۔ اس بات کو مصطفےٰ صادق الرافعی (م: ۱۹۳۷ء) نے یوں بیان کیا ہے: ’’قرآن واحد کتاب ہے جو معجزہ ہے ۔ اس میں مذکور حقائق معجزہ ہیں ۔ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو انسانی فطرت سے ٹکرائے، اس لیے یہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک انسان اور دنیا باقی ہیں‘‘ ۔ ۲۴

کچھ متاخرین کا خیال ہے کہ اعجاز قرآنی صرف اعجاز بیانی ہے۔ معروف مصری محقق محمودمحمدشاکر (م: ۱۹۹۷ء)نے مالک بن نبی (م: ۱۹۷۳ء)کی کتاب الظاهرة القرآنية کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’اعجاز ، قرآن میں الفاظ کی ترتیب، بیان اور ان تمام خصوصیات کے استعمال میں ہے جو عربوں کے کلام میں نظم وبیان کے نام سے جانی جاتی تھی‘‘ ۔  ۲۵ لیکن ہمارا خیال ہے کہ قرآنی اعجاز صرف بیان و بلاغت میں نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اس کے نازل ہونے کے وقت عربوں کو نہیں معلوم تھیں یا جن کا انکشاف بعد میں ہوا۔

قرآن پاک اپنی جگہ دائمی معجزہ بھی ہے اور ہدایت کی کتاب بھی،جب کہ حضور پاکؐ سے پہلے آنے والے انبیاؑ کے معجزات وقتی ہوتے تھے۔ ابن خلدون کی رائے ہے کہ ’’معجزات عموماً وحی کے علاوہ واقع ہوتے تھے جو نبی پر نازل ہوتی تھی پھر نبی معجزے کو گواہ کے طور پر پیش کرتا تھا۔ لیکن قرآن بنفس نفیس دعویٰ بھی ہے اور معجزہ بھی‘‘ ۔  ۲۶

  • قرآنی چیلنج کے مراحل:قرآن پاک کے معجزہ ہونے اور کفار و مشرکین کو اس جیسا کلام لانے کے چیلنج کو تین مراحل میں بیان کیا گیا:

            ۱-         پہلے مرحلے میں کہا گیاکہ قرآن جیسا کلام لاؤ : قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۝۸۸ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۸) ؛ فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۝۳۴ۭ (الطور ۵۲: ۳۴)۔

            ۲-         دوسرے مرحلے میں کفار و مشرکین کو چیلنج کیا گیا کہ قرآن کی طرح کی دس سورتیں بنا کر لاؤ: اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۳ (ھود ۱۱:۱۳)۔

            ۳-         تیسرے مرحلے میں کفار و مشرکین سے کہا گیا کہ قرآن پاک جیسی ایک ہی سورہ بنا کر لاؤ: اَمْ يَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۳۸ (يونس ۱۰: ۳۸) ؛ وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ  مِّنْ   مِّثْلِہٖ۝۰۠ وَادْعُوْا شُہَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۲۳  (البقرہ ۲: ۲۳)؛  فَلْيَاْتُوْا  بِحَدِيْثٍ    مِّثْلِہٖٓ    اِنْ  كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۝۳۴ۭ  (الطور ۵۲: ۳۴)

لیکن ان تینوں چیلنجوں کو قبول کرنے سے کفار و مشرکین ومنکرین اس زمانے سے لے کر موجودہ زمانے تک عاجز رہے۔

  • عربوں کا ردّعمل:عربوں کو اپنی عربی دانی اور فصاحت و بلاغت پر بڑا فخر تھا۔ وہ دوسروں کو ’عجم‘یعنی بےزبان یا گونگا سمجھتے تھے۔ عربوں میں قریش کی عربی زبان سب سے معیاری سمجھی جاتی تھی۔ جب قرآن ان کے سامنے پہلی بار پڑھا گیا تو وہ ان کو انسانی کلام نہیں لگا، اس لیے انھوں نے اس کو شعر یا سحر یا قدماء کے قصوں (اساطیر) سے تعبیر کیا۔ قرآن پاک نے اس سب کا انکار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر ہونے کے دعوے کے بارےمیں قرآن نےکہا: وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہٗ۝۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ۝۶۹ۙ (یٰسٓ  ۳۶ : ۶۹) ’’ہم نے اس (نبیؐ) کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب‘‘۔ ساحر کا کلام ہونےکے بارےمیں قرآن نے کہا:اَكَانَ لِلنَّاسِ عَـجَــبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭؔ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ۝۲ (يونس ۱۰ : ۲) ’’کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خود اُنھی میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں اُن کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اُن کے ربّ کے پاس سچی عزّت و سرفرازی ہے؟ (اس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے‘‘۔قدماء کے قصوں کے بارے میں قرآن نے کہا: وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِيَ تُمْلٰى عَلَيْہِ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝۵ (الفرقان ۲۵ : ۵) ’’کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنھیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘۔

عربوں کا شروع سے ردّعمل، قرآنی اعجاز کا انکار کرتے ہوئے تلوار کے ذریعے آخر تک اس کی مخالفت تھا حالانکہ ان کا دعویٰ تھا کہ اگر ہم چاہتے تو ہم بھی قرآن جیسا کلام کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ۝۰ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۱  –الانفال ۸ : ۳۱)۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قرآن انسان کا کلام ہے اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۝۲۵ۭ  (المدثر ۷۴ : ۲۵)، وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ۝۰ۭ  (النحل۱۶ : ۱۰۳)، قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ۝۰ۭ (الانعام ۶ : ۹۱)۔ لیکن وہ اس طرح کا کلام پیدا نہیں کر سکے۔

قریشی سردار الولید بن المغیرہ قرآن پاک کے بارے میں کہتا ہے: فَوَاللهِ مَا فِيکُمْ رَجُلٌ أَعْلَمُ بِالشِّعْرِ مِنِّي  وَلَا بِرَجَزِهِ  وَلَا بِقَصِيدِهِ وَلَا بِأَشْعَارِ الْجِنِّ وَاللّهِ مَا يُشْبِهُ الَّذِي يَقُولُ شَيْئًا مِنْ هٰذَا وَوَاللهِ اِنَّ لِقَوْلِهِ الَّذِي يَقُولُ حَلَاوَةً وَاِنَّ عَلَيْهِ لَطَلَاوَةً وَاِنَّهُ لِمُثْمِرٌ أَعْلَاهُ مُغْدِقٌ أَسْفَلُهُ وَاِنَّهُ لَيَعْلُو وَلَا يُعْلَی عَلَيْهِ   ۲۷(خداکی قسم، تم میں سے کوئی نہیں جو شعر کو، رجز کو، قصیدے کو اور جنات کے شعر کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ خدا کی قسم! یہ جو کہتا ہے وہ ان چیزوں میں سے کسی کی طرح نہیں ہے۔ خدا کی قسم! جو یہ کہتا ہے اس میں شیرینی ہے، اس میں تازگی ہے، اس کا اوپری حصہ پھل دار ہے اور نچلا حصہ پیاس بجھانے والا ہے۔ وہ اوپر کی طرف اٹھتا ہے اور کوئی اس کے اُوپر نہیں اٹھ سکتا ہے)۔[جاری]

حواشی

۱-         فلاح عبدالحسن ہاشم،محاضرات فى مادة الاعجاز القرآنى، جامعة البصرة، ص۱۷

۲-         احمد جمالی العمری، مفہوم الاعجاز القرآنی، ص۴۲-۴۳ نقلا عن   السيد نذير الحسني،المراحل والأدوار التي مر بها بحث الاعجاز ،  مستل من كتاب دروس فی علوم القرآن ، ص  ۲۳۷- ۲۴۳

۳-         الرمانى ، النكت فى الاعجاز القرآنى ، دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة ۱۹۵۵م، ص۷۵ ، بحوالہ ثلاث رسائل فى إعجاز القرآن: الخطابى والرمانى والجرجانى

۴-         الخطابى،بيان إعجازالقرآن ،  دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة، ۱۹۵۵م ، ص۲۷   ، بحوالہ ثلاث رسائل فى إعجاز القرآن: الخطابى والرمانى والجرجانى 

۵-         الباقلانى، إعجاز القرآن، دار المعارف بمصر، ص ۴۹- ۵۱

۶-            دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة ۱۹۵۵م

۷-         تعليق محمود محمد شاكر ، مطبعة المدنى، القاهرة، ۱۹۸۴ء

۸-         القاضى عياض بن موسى ، الشفا بتعريف حقوق المصطفٰى،دبي ۱۹۹۹م،  ص ۳۱۷- ۳۳۳

۹-         السخاوى، جمال القراء وكمال الإقراء ، تحقيق مروان العطية و محسن خرابة ، دارالمأمون للتراث، دمشق وبيروت  ۱۹۹۷، ص  ۱۰۱- ۱۰۹

۱۰-         القرطبى ، الجامع لأحكام القرآن،  دارالكتب المصرية، القاھرۃ، ۱۹۳۵م، ص ۶۹- ۷۵۔

۱۱-      البرهان فى علوم القرآن، تحقيق ابوالفضل الدمياطى،  طبع دارالحديث ۲۰۰۶م، ص۳۸۳ وما بعدھا

۱۲-      الإتقان فى علوم القرآن ، مركز الدراسات القرآنية،  المملکۃ العربیۃ السعودية، ج5، ص ۱۸۷۹ ومابعدھا۔

۱۳-      معترك الأقران فى إعجاز القرآن ، دارالكتب العلمية، بيروت، ۱۹۸۸۔

۱۴-      دارالشروق، بيروت والقاهرة ،  ۱۹۹۴م

۱۵-      دار الكتاب العربي، بيروت ۱۹۷۳م

۱۶-      دارالشروق القاهرة بيروت، الطبعة۳۲، ۲۰۰۳م

۱۷-         دار الشروق القاهرة، الطبعة ۱۷، ۲۰۰۴م

۱۸-        دارالشروق القاهرة، الطبعة ۱۶، ۲۰۰۶م

۱۹-        محمد ابوزهرۃ، المعجزة الكبرى للقرآن، دار الفکر العربی (نحو ۱۹۷۰) ، ص: ۷ 

۲۰-        علي الصلابي، مطارحات في وجوه الاعجاز القرآني، الجزیرۃ،  ۲۴ اگست ۲۰۱۳

۲۱-      مصطفٰى صادق الرافعى ، تارخ آداب العرب ، ۲/۱۱۸

۲۲-      صحیح الخا ری، کتاب فضائل القرآن ۴۹۸۱، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ۷۲۷۴۔

  ۲۳-    فلاح عبدالحسن هاشم،محاضرات فى مادة الاعجاز القرآنى ،ص: ۱۰-۱۱۔

۲۴-        مصطفٰى صادق الرافعى ، تارخ آداب العرب ، ۲/ ۱۰۴

  ۲۵-    مقدمة كتاب الظاهرة القرآنية لمالك بن نبى، دار الفکر، دمشق، ۲۰۰۰، ص۳۰

۲۶-      مقدمة بن خلدون ص: ۱۰۶- ۱۰۷ ،  نقلا عن نورالدين عتر، علوم القرآن الكريم

۲۷-        ابن كثير، البداية والنهاية ص ۷۵۵۔