اپریل ۲۰۲۴

فہرست مضامین

فلم کا ہتھیار اور ہندستانی مسلمان نشانہ

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان | اپریل ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ذرائع ابلاغ اور اہم ٹی وی چینلوں پر تقریباً مکمل کنٹرول اورسوشل میڈیا پلیٹ فارم میں زبردست دراندازی کے بعد اب ’ہندوتوا تحریک‘ ہندستانی مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اپنے نسل پرستانہ سیاسی مقاصد کے لیے ہندستانی فلم اور سنیما کو استعمال کر رہی ہے۔ چنانچہ گذشتہ چند برسوں کے دوران مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے متعدد فلمیں منظر عام پر آئی ہیں۔ اس نئی سرگرمی کے پس پشت یقینی بات ہے کہ ہندستان کے موجودہ حکام ہی ہیں، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ حکمران پارٹی کے لیڈران اور ان کی ریاستی حکومتیں بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان کوششوں کی تائید کر رہی ہیں۔ ان فلموں کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔ان فلموں کے مفت خصوصی شو چلانے کا اہتمام  کیا جاتا ہے، اور جن ریاستوں میں بی جے پی حاکم ہے وہاں تفریحی (انٹرٹینمنٹ) ٹیکس بھی معاف کیا جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں منظر عام پر آنے والی فلموں میں یہ شامل ہیں:

  • کشمیر فائلز:اس سلسلے کی ایک اہم فلم ’کشمیر فائلز‘ ہے۔ اس فلم میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’کشمیر کے مسلمانوں نے ہندوؤں پر مظالم ڈھائے اور انھیں کشمیر سے نکل جانے پر مجبور کیا‘۔ فلم کا اشارہ اس واقعے کی طرف ہے جس میں مبینہ طور پر ۱۹۹۰ء میں پنڈتوں کی ایک تعداد کشمیر سے اس وقت نقل مکانی کر گئی تھی، جب کہ وہاں مسلح تحریک چل رہی تھی۔ اس مسلح تحریک میں بعض ہندو جانیں بھی گئی تھیں ، لیکن اس دوران مسلح علیحدگی پسندوں یا فوج کی گولیوں سے جن مسلمانوں کی جانیں گئی تھیں، وہ ہندوؤں کو پہنچنے والے نقصانات سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر سے اچانک ان ہندوؤں کی نقل مکانی کا اصل سبب آج تک متعین کرنے کے لیے کوئی تحقیقاتی کارروائی نہیں کی گئی، حالانکہ اس کے لیے کشمیر کی مسلم تنظیموں نے بارہا مطالبہ کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں کشمیر کے گورنر جگ موہن نے، جو کہ مسلم دشمنی کے لیے معروف تھا، وادیٔ کشمیر کے ہندوؤں سے کہا کہ وہ چند ہفتوں کے لیے کشمیر سے چلے جائیں تاکہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جا سکے اور کشمیر کی سڑکوں پر آزادی کے ساتھ گولیاں چلائی جاسکیں۔  پھر وادیٔ کشمیر سے ہندوؤں کے نکل جانے کے فوراً بعد جگ موہن نے یہی کیا بھی۔ اس نے ایک جنازے پر گولیاں برسانے کا حکم بھی دیا ، جس کے نتیجے میں چند منٹوں کے اندر ہی ۴۰ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ وہی گورنر ہے جس نے ان ہندوؤں کو ہندو اکثریت والے علاقے ’جموں‘ میں منتقل کرنے کے لیے آدھی رات کو فوجی گاڑیاں فراہم کی تھیں۔ جموں میں ان ہندوؤں کے لیے گھر بنائے گئے اور انھیں وظیفے، ملازمتیں اور دوسری بہت سی سہولتیں آج بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مگر ایسی سہولتیں نقل مکانی کرنےو الے متاثر مسلمانوں کو کبھی نہیں فراہم کی گئیں۔

حکومتِ کشمیر یا حکومتِ ہند نے کشمیر سے ہندوؤں کی نقل مکانی کے اصل حقائق کا پتہ لگانے کے لیے آج تک عدالتی کمیشن مقرر نہیں کیا۔ لیکن یہ چیز بھی انتہا پسند ہندوؤں کو مسلمانوں پر یہ الزام عائد کرنے سے نہیں روک پائی کہ انھوں نے ہی ہندؤوں کو کشمیر سے نکالا ہے ، جب کہ کشمیر کے مسلمان تو خود ا ٓج تک مغلوب و شکست خوردہ ہیں، اور اس فوج کا قہر برداشت کر رہے ہیں جو کشمیر کے اندر بڑی تعداد میں موجود ہے ۔ کشمیریوں کے خلاف فوج کی ظلم وزیادتی کو قانون کی حمایت حاصل ہے۔فلم ’کشمیر فائلز‘ انھی جھوٹی باتوں کو دُہراتی ہے، تاکہ عام ہندوؤں میں یہ پیغام پہنچایا جا سکے کہ ’’ہندستان کے واحد مسلم اکثریتی خطے کشمیر میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا ہے اور جہاں بھی یہ اکثریت میں ہوتے ہیں یہی کرتے ہیں‘‘۔

  • کیرالا اسٹوری :فلم ’کشمیر فائلز‘ کے بعد ’کیرالا اسٹوری‘ فلم آئی۔ اس فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’۳۲ ہزار ہندو لڑکیوں کو لالچ دے کر مسلمان بنا لیا گیا اور پھر انھیں شام میں داعش کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔ یہ ایک حددرجہ بے بنیاد اور گھنائونا جھوٹ ہے ۔ اس لیے کہ ا ن تمام برسوں کے دوران بھارتی حکومت نے جن ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے داعش کے کیمپ میں شامل ہونے کے لیے ملک کو خیر باد کہا ہے، ان کی تعداد ایک سو کے اندر ہی ہے، اور ان میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

ہم نے ذاتی طور پر ہندستان کی وزارت داخلہ سے (ہندستان کے آر ٹی آئی قانون کے تحت) داعش کیمپ میں شامل ہونے والی تعداد کے متعلق معلوم کیا تو وزارت داخلہ کا جواب یہ تھا کہ اس کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہے۔ پھر جب ہم نے ریاست کیرالا کے ڈائرکٹر جنرل پولیس سے بھی یہی سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ خفیہ معلومات ہیں، انھیں بیان نہیں کیا جا سکتا‘۔ پھر فلم بنانے والوں کو یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں؟ اس پر ہنگامہ ہوا تو بعض مسلمان عدالت چلے گئے۔ نتیجہ یہ کہ فلم پروڈیوسر بھی پلٹ گئے اور کہنے لگے کہ ’’تین ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد داعش کیمپ میں شامل ہو گئی تھیں‘‘۔ لیکن وہ لڑکیاں کون تھیں،ان کی متعین نشان دہی آج تک نہیں کی گئی۔

گذشتہ نومبر۲۰۲۳ء کے دوران جب ہندستان کے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ’دی کیرالا اسٹوری‘ کو پیش کیا گیا تو حیرت کی بات یہ ہوئی کہ سلیکشن کمیٹی کے صدر اسرائیلی فلم پروڈیوسر نداف لبید نے سلیکشن کمیٹی کے ارکان کی طرف سے یہ بیان دیا کہ یہ ’’ایک پروپیگنڈا فلم ، معیار سے فروتر اور بے ہودہ فلم ہے اور فیسٹیول میں پیش کیے جانے کے لائق نہیں ہے‘‘۔ مذکورہ بالا اسرائیلی پروڈیوسر کو ہندستان سے نکالنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اس بیان کے خلاف فوراً بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ، کیوں کہ انتہاپسند نسل پرست ہندوؤں کے نزدیک اسرائیل تو ہندستان کا جگری دوست سمجھا جاتا ہے۔ آخرکار مجبور ہو کرہندستان میں اسرائیل کے سفیر کو معذرت کرنا پڑی کہ’’وہ بیان اسرائیلی فلم پروڈیوسر کی ذاتی رائے پر مبنی ہے‘‘۔

جھوٹ کا پردہ فاش ہوجانے کے باوجود یہ فلم ہندستان بھر کے سنیما ہالوں میں دکھائی جارہی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کر رہی ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے لیڈر، جن میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں، نے اس فلم کی تعریف کی اور بی جے پی کے لیڈروں نے بعض مقامات پر اس فلم کو مفت میں دکھانے کا بندوبست بھی کیا، بلکہ سینما کے ٹکٹ خرید کر انھیں ہندوؤں میں تقسیم کیا تاکہ وہ فلم دیکھ سکیں۔

  • ۷۲ حوریں :اسی سلسلے کی تیسری فلم ’۷۲ حوریں‘ ہیں۔ اس فلم کا پلاٹ یہ ہے کہ مسلمان دہشت گردی کرتے ہیں ۔ انھیں شہادت سے پیار ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مذہب کہتا ہے کہ شہادت کی موت مرنے والے کو جنت میں ۷۲ حوریں ملیں گی۔

ان فلموں کے پرڈیوسروں کا کہنا ہے کہ ’’یہ آرٹ فلمیں ہیں، جن کی بنیاد ایسے قصے کہانیاں ہیں جن کا درست ہونا ضروری نہیں ہے‘‘۔ تاہم، یہ بات تو طے شدہ ہے کہ سادہ لوح ہندو اِن فلموں کو دیکھ کر یہ تاثر لیں گے کہ اسلام ظلم و تشدد اور دہشت گردی کا مذہب ہے اور اس مذہب پر ایمان رکھنے والے دہشت گرد ہوتے ہیں جو دہشت گردی کے ذریعے سے اپنے مذہب پر عامل ہیں۔

  • ہندوؤں کو اُکسانے والی فلم :اس سلسلے کی چوتھی فلم کچھ عرصہ پہلے ’ہندوتوا تحریک‘ کے لیڈران کی تائید و حمایت کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے ۔ اس فلم کا نام ’’آدی پُرُش‘ ہے۔ یہ فلم راماین کی دیومالائی کہانی پیش کرتی ہے جس میں ہندوؤں کے افسانوی دیوتا ’رام‘ ، ان کی بیوی ’سیتا‘ اور ان دونوں کے وفادار ساتھی ’بجرنگ‘ (بندر) کی زندگی کو فلمایا گیا ہے۔

فلم کے اندر ’رام‘ کو ایک جنگ جُو اور انتہاپسند کے رُوپ میں دکھایا گیا ہے، جو ان کی اس تصویر سے مختلف ہے جس میں انھیں ایک نرم خُو،فیاض اور انسانیت نواز شخصیت کے طور پر دکھایا جاتا ہے، اور ہندو آج بھی انھیں انسانیت کے اعلیٰ نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن ’ہندوتوا‘ کی سیاسی تحریک افسانوی کرداروں کے ہاتھوں میں اسلحہ دے کر ہندو نوجوانوں کو مشتعل کرنا اور انھیں انتہا پسندی و دہشت گردی پر اُبھارنا چاہتی ہے۔اس فلم کی وجہ سے ہند کے اندر ایک بحران کی صورت نے جنم لیا ۔ حزب مخالف کے لیڈروں نے فلم اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر شدید تنقید شروع کردی، کیوں کہ فلم میں ہندو دھرم کی مذہبی علامتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔نیپال کے اندر تو معاملہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ اس نے اپنی سرزمین پر اس فلم کی نمایش کو ممنوع کر دیا۔

  • دوسری فلمیں: مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ بھی اسی قسم کی بہت ساری فلمیں پچھلے چند برسوں میں ’ہندوتوا‘ کے پروپیگنڈا کے طور پر نمایش کے لیے مارکیٹ میں پیش کی چکی ہیں،جن کے ذریعے جھوٹ یا مسخ شدہ سچ کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے تاکہ سیاسی پولرائزیشن ہو سکے اور اس کا فائدہ موجودہ حکمران پارٹی (بی جے پی) کو مل سکے۔ ان میں یہ فلمیں شامل ہیں: ’ہر ہر مہادیو‘ (۲۰۲۲)، ’پانی پت‘ (۲۰۱۹)، ’ہندوتوا‘ (۲۰۲۲)، ’مجیب‘ (۲۰۲۳)، ’تنہا جی‘ (۲۰۲۰)، ’باجی راؤ مستانی‘ (۲۰۱۵)، ’      پدماوت‘ (۲۰۱۸)، ’سوریا ونشی‘ (۲۰۲۱)، ’لپسٹک انڈر مائی برقعہ‘ (۲۰۱۶)، ’رام سیتو‘ (۲۰۱۹)، ’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ (۲۰۱۹)،’ٹھاکرے‘ (۲۰۱۹)، ’یوری‘ (۲۰۱۹)، ’نریندر مودی‘ (۲۰۱۹)، ’رومیو اکبر و الٹر‘ (۲۰۱۹)، ’سمراٹ پرتھوی راج‘ (۲۰۲۲)، ’کیسری‘ (۲۰۱۹)، ’غنڈے‘ (۲۰۱۴)، ’بیل باٹم‘ (۲۰۲۱)، ’کمانڈو ۳ ‘(۲۰۱۹)، ’فراز‘ (۲۰۲۲)، ’مشن مجنوں‘ (۲۰۲۳) وغیرہ۔ ان سب کا مقصد ایک نئی خود ساختہ تاریخ بنانا، اشتعال پھیلانا اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔

کچھ اور فلمیں اگلے چند ہفتوں میں ریلیز ہونے والی ہیں تاکہ آنے والے انتخابات میں حکمران پارٹی کو فائدہ پہنچ سکے۔ ان آنے والی فلموں میں چند یہ ہیں: ’فائٹر‘ (پلواما کے بارے میں)، ’آرٹیکل ۳۷۰ ‘(کشمیر کی خود مختاری کے بارے میں)، ’نکسل اسٹوری، جے این یو‘ (دہلی کی لیفٹ نوازیونی ورسٹی کے بارے میں)، ’سابر متی رپورٹ‘ (گودھرا ٹرین کے حادثے کے بارے میں جس کو گجرات فسادات ۲۰۰۲ بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا)، ’رضاکار‘ (حیدر آباد دکن کی ملیشیا کے بارے میں)، ’گاندھی گوڈسے، میں اٹل ہوں‘ (اٹل بیہاری کے بارے میں)، ’سواتنتر ویر ساورکر‘ (ہندوتوا کے نظریہ ساز کے بارے میں)۔ یہ سب فلمیں واقعات کو ایسا رُخ دیں گی، جو ’ہندوتوا‘ کے نظریے سے میل کھاتا ہے تاکہ الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکے ۔

  • مشکوک فنڈنگ :آخر میں ایک سوال باقی رہ جاتا ہےکہ یہ اور اس طرح کی مزید فلمیں جو آچکی ہیں یا عن قریب منظر عام پر آنے والی ہیں ، ان کی فنڈنگ اور سرمایہ کاری کون کرتاہے؟ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ فلم سازی مالی اعتبار سے بڑے پیمانے پر اخراجات کا عمل ہے۔ پھر ممبئی فلم انڈسٹری کی عام فلموں کے برعکس اس قسم کی فلموں کے بارے میں یہ توقع بھی نہیں ہوتی کہ واقعی بڑی نفع بخش ہوں گی۔ اس لیے لازمی طور پر کچھ خفیہ ہاتھ ہیں، جو ان فلموں کی فنڈنگ اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان سے سیاسی فائدے حاصل کیے جائیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی ، جو کہ دنیا کی سب سے مال دار سیاسی جماعت ہے یا اس جماعت کی حمایت کرنےو الے تاجر اوربزنس مین وہی لوگ ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس پروپیگنڈا مہم کی فنڈنگ کرتے ہیں، تاکہ حکمران جماعت کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے ان فلموں سے سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے ۔موجودہ حکومت ِ ہند کی پالیسی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مسلسل ہوا دینے کی ہے، تاکہ شدید قسم کی گروہی پولرائزیشن ہو اور انتخابات میں وہ اس کا فائدہ اُٹھا سکے۔ ’اسلامک کونسل آف وکٹوریہ‘ آسٹریلیا (ICV)کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹ء- ۲۰۲۱ء کے دوران دنیا بھر میں مسلم مخالف (Islamophobic)سوشل میڈیا پوسٹ سب سے زیادہ ہندستان سے نکلے، جب کہ دُنیا بھر سے مسلم مخالف سوشل میڈیا مہم کا ۸۵ فی صد زہریلا لوازمہ تین ملکوں (انڈیا، امریکا، برطانیہ) سے پھیلایا جارہا ہے:

نفرت کی آگ بھڑکانے والی اس پست درجے کی سیاست کاری کو روکنے کے لیے ابلاغی، صحافتی، ادبی ، علمی، فکری اور ثقافتی حلقوں کی جانب سے افسوس کہ کوئی قابلِ ذکر کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔ خوف کی اس فضا میں مجموعی طور پر نقصان ہوگا، کاش کوئی اس پر سوچے!