بھارت میں عام انتخابات ۱۹؍اپریل سے شروع ہوں گے اور سات مرحلوں میں مکمل ہونے کے بعد ۴جون کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ حکمران پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج جنوبی ہند میں اپنی پوزیشن محفوظ بنانا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف ’شمالی انڈیا‘ کا لیڈر ہونے کا داغ مٹانا چاہتے ہیں۔ پھر یہ کہ جنوبی ہند بنیادی طور پر انڈیا کی معاشی قوت کا مرکز ہے۔ اگرچہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہروقت ہی انتخابی مہم کی حالت میں رہتی ہے، مگر اس بار ۷مارچ کو سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریند را مودی نے یہ عندیہ دے دیا کہ اس بار ہندستان میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے ’کشمیر کارڈ‘ کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔ یاد رہے ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں پاکستان کو سبق سکھانے کو انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ ماضی میں بھی بھارت کے وزرائے اعظم سرینگر آتے رہے ہیں۔ مودی کے پیش رو من موہن سنگھ نے اپنے دس سالہ دو رِ اقتدار میں چار بار سرینگر کا دورہ کیا۔
مودی نے اس سے قبل ۲۰۱۵ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید، جن کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ انھوں نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی، کے ہمراہ سرینگر میں عوامی ریلی سے خطاب کیا تھا۔مگر اب کی بار خصوصیت یہ تھی، کہ اس خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ان کا سرینگر کا پہلا دورہ تھا۔ پھر یہ خالصتاً بی جے پی کی اپنی ریلی تھی۔
بھارت کی ملک گیر پارٹیوں میں ماضی میں اس طرح کی ریلیاں صرف کانگریس پارٹی ہی وزیراعظم اندرا گاندھی کے لیے اپنے بل بوتے پر کشمیر میں منعقد کراتی تھی۔ ان کے بعد راجیو گاندھی سے لے کر ڈاکٹر من موہن سنگھ تک ، جن وزرائے اعظم نے سرینگر میں کسی ریلی سے خطاب کیا ہے، ان کومقامی پارٹیوں: نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کے لیے منعقد کیا تھا۔ اندرا گاندھی نے ہمارے قصبے سوپور میں بھی دو بارعوامی جلسے سے خطاب کیا ہے۔۱۹۸۳ء میں کانگریس نے جب ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے خلاف انتخابات میں پوری طاقت جھونک دی تھی، تو اس انتخابی مہم کی کمان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خود ہی سنبھالی تھی، اور ایک کھلی جیپ میں ہمارے گھر کے سامنے سے ہی گذر کر جلسہ گاہ میں پہنچی تھیں۔
نریندرا مودی کی ریلی کے بارے جموں و کشمیر روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ایک عہدے دار نے اعتراف کیا کہ ’’شرکا کو لے جانے کے لیے ۹۰۰ سرکاری بسوں کا انتظام کیا گیا تھا‘‘۔ اس سے قبل، یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ’’تقریباً ۷ہزار سرکاری ملازمین، اساتذہ اور جموں اینڈ کشمیر کے بینک کے عملے کو ریلی میں لازمی شرکت کا حکم دیا گیا تھا۔ انھیں فجر سے پہلے مختلف مخصوص جگہوں پر جمع ہونے کو کہا گیا تھا، جہاں سے ان کو بسوں میں لاد کر اسٹیڈیم پہنچایا گیا تھا۔ ان میں سے ۱۴۵بسیں بارہمولہ ضلع سے لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے وقف کی گئی تھیں۔
جس طرح ماضی میں اندرا گاندھی کو یہ شوق چرایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقہ وادیٔ کشمیر سے سیٹیں جیت کر ایک طرح کا پیغام دیا جائے، اسی راستے پر مودی چل رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر میں جگہ بنانے کے لیے کانگریس بھی اپنی بھر پور طاقت جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے لگاتی تھی، بی جے پی بھی اسی سیٹ کو حاصل کرنے کے لیےپر تول رہی ہے۔
۱۹۸۷ء کے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد یہاں کے عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور ووٹر ٹرن آوٹ عدم دلچسپی اور آزادی پسند پارٹیوں کے بائیکاٹ کال کی وجہ سے بہت ہی کم ہوتا آیا ہے ۔ مگر پھر بھی ماضی میں حکومتی عہدوں پر جو افراد براجمان ہوتے تھے، وہ کسی حد تک ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے تھے۔ لیکن ۲۰۱۸ءکے بعد سے یعنی پچھلے سات سال سے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو مرکزی بیور کریسی چلا رہی ہے۔ اس وقت ۲۰ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں میں سے صرف آٹھ ہی مقامی ہیں۔ خطے کے ۱۱۲؍اعلیٰ پولیس افسران میں صرف ۲۴مقامی ہیں۔
جموں و کشمیر کی چھ پارلیمانی نشستوں میں تین وادیٔ کشمیر ، دو جموں اور ایک لداخ کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ چونکہ اب لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ سیٹیں اب پانچ ہی رہ گئی ہیں۔ ۲۰۱۸ء میںہونے والے پنچایتی انتخابات کا نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ کیونکہ وہ وزیر اعظم سے دفعہ۳۷۰ ، اور ۳۵-اے کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی چاہتے تھے۔ اس وجہ سے بی جے پی نے غیر متعلقہ افراد کو کھڑا کرکے اور ان کو جتوا کر سیاسی کارکنوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرلی، جو اب ان کو چیلنج دے رہے ہیں، گو کہ ان میںسے کئی تو مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔
اس وقت دو بڑی مقامی پارٹیوں کے علاوہ سید الطاف بخاری کی ’اپنی پارٹی‘، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس بھی میدان میں ہے۔ سابق ممبر اسمبلی انجینئر رشید، جو پچھلے پانچ برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں ہیں، کی عوامی اتحاد پارٹی بھی انتخابات میں اُترنے کا عزم رکھتی ہے۔ گویا بی جے پی سمیت سات پارٹیاں انتخابات میں قسمت آزمائی کریں گی۔
چونکہ بی جے پی جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ سیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے، اس لیے حدبندی کمیشن کے ذریعے اس کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں اب جموں ڈویژن کے دو اضلاع یعنی راجوری اور پونچھ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اضلاع اس سے قبل جموں،توی سیٹ کا حصہ ہوتے تھے۔ ریاسی ضلع کو ادھم پور سیٹ سے الگ کر کے جموں حلقے میں شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح شوپیاں کو جو جنوبی کشمیر کے بالکل وسط میں ہے، سرینگر کی سیٹ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس کا سرینگر حلقہ کے ساتھ زمینی رابطہ ہی نہیں ہے۔ اننت ناگ کو راجوری پونچھ سے ملانے کا واحد ذریعہ شوپیاں کے راستے مغل روڈ ہے اور یہ راستہ سردیوں میں بند رہتا ہے ۔ کسی بھی امیدوار کو اس انتخابی حلقہ کے پیر پنچال کے دوسری طرف کے علاقوں کی طرف انتخابی مہم کے لیے جانا ہو، تو پہلے ڈوڈہ، پھر ادھم پور او ر پھر جموں یعنی تین اضلاع کو عبور کرکے اپنے حلقہ کے دوسری طرف پہنچ سکتا ہے۔
جنوبی کشمیر واحد ایسا خطہ ہے، جو خالصتاً کشمیری نژاد نسل پر مشتمل تھا۔ ورنہ چاہے وسطی کشمیر ہو یا شمالی کشمیر ، اس میں دیگر نسل کے افراد بھی آباد ہیں۔ اب پونچھ ، راجوری کو شامل کرکے اس میں گوجر اور پہاڑی آبادی کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ کشمیری آبادی کے اثر و رسوخ پر روک لگائی جاسکے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب اس حلقے کی کُل ۲۶لاکھ ۳۱ہزار کی آبادی میں ۱۴لاکھ ۸۰ہزار کشمیری یعنی ۵۶ء۲۵فی صد، گوجرو بکروال ۸۱ فی صد، پہاڑی ۸۴ فی صد، ڈوگرہ۴۷ فی صد اور پنجابی ۴۹ فی صد ہوں گے۔
بی جے پی کو یقین ہے کہ حال ہی میں پہاڑی آبادی کو شیڈول ٹرائب (ST) کی فہرست میںشامل کرنے سے یہ آبادی یکمشت اس کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔ پہلے یہ سہولت صرف گوجربکروال کمیونٹی کو ہی مہیا تھی، جو پس ماندہ قوم تصور کی جاتی تھی۔ اس سہولت کی وجہ سے پہاڑی کمیونٹی ، جو جموں و کشمیر کی آبادی کا ۷فی صد یعنی کل ۷ء۹ لاکھ ہیں، کے لیے اسمبلی، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہوں گی۔ مگر اس کی وجہ سے گوجر بکروال کمیونٹی ناراض ہے، کیونکہ ابھی تک وہ اکیلے ہی ان نشستوں کی دعوےدار تھی۔
مگر اس سب کے باوجود اور جموں و کشمیر میں ’امن و امان کی بحالی‘ کے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود اسمبلی کے انتخابات نہیں ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کا کہنا ہے: ’’اگرچہ سب سیاسی پارٹیوں نے لوک سبھا کے ساتھ ہی یہاں کی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی وکالت کی تھی، مگر سیکورٹی اداروں نے اس کی مخالفت کی ہے‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ ’’نئی حدبندی کے مطابق جموں و کشمیر کی ۹۰نشستوں کے لیے تقریباً ایک ہزار اُمیدوار ہوں گے، اور سیکورٹی فورسز کی اضافی ۵۰۰ کمپنیوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔
کشمیر میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ سبھی روایتی سیاسی قوتوں کی ایک طرح سے زبان بندی کرکے ان کو بے وزن کر دیا گیا ہے اور کشمیر میں واقعی قبرستان کی سی خاموشی کا ماحول مسلط کردیا گیا ہے۔ اگر اطمینان کی خاموشی درکار ہے، تو اس کے لیے سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی زمین بھی واپس دینی ہوگی، اور مسئلہ کے دیرپا حل کے لیے بین الاقوامی کوششیںبھی کرنا پڑیں گی۔