قرآن مجید، اللہ کی کتاب ہونے کے ساتھ زمین کے اوپر خالقِ کائنات کی نشانی ہے۔ اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مخلوق نہیں بلکہ خالق کا کلام ہے۔اس سے مراد اس کا کاغذ، سیاہی یا اس کی جلدنہیں بلکہ اس کی روح ہے، جو ایک غیر مرئی کلام ہے۔خود مالکِ کائنات اسے کفار کے اس اعتراض:’’یہ اکٹھا کیوں نہیں اتر تا؟ کہیں اس کو بیان کرنے والا سوچ سوچ کر موقع محل کے لحاظ سے کچھ دل سے تو نہیں گھڑلیتا ہے (نعوذ باللہ)‘‘، کے جواب میں یہ فرماتا ہے کہ’’ اے نبیؐ، یہ ہم ہیں جو اسے تم پر تھوڑا،تھوڑا بتدریج ( نجمًا، نجمًا) اتار رہے ہیں‘‘۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا۲۳ۚ (الدھر ۷۶:۲۳)، خیال رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والے کلامِ الٰہی کا یہ نامِ نامی نزولِ قرآن کے دوران پہلی مرتبہ سورئہ دھر میں آیا جو نبوت کے پانچویں برس میں نازل ہوئی۔ جب سہ سالہ خاموش دعوتی دور کے بعد ہر چوک، بازار اور میلے میں ایمان کی دعوت دی جارہی تھی ۔
lکتابُ اللہ کو اللہ تعالٰی کے عطا کردہ نام: اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس کلام کا نام بھی بتا دیا جائے کہ اہلِ مکہ’ توراۃ اور 'انجیل‘ کے ناموں سے تو واقف تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل حسرت و یا س سے کہا کرتے تھے کہ ’کاش! ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب آتی تو ہم اُس پر عمل کرتے اور ہدایت یاب ہوتے‘۔ کلام پاک میں خود اس کتاب کے الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا سے ماسوامزید چھ (۶) نام آئے ہیں اور یہ تمام نام مکی سورتوں ہی میں وارد ہوئے ہیں۔
مدینے پہنچنے سے قبل سارے حجاز میں کتابُ اللہ کی حیثیت معلوم، معروف اور مستحکم ہو گئی تھی۔ اس کتاب کو جب نخلہ کے مقام پر جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں تلاوت کرتے ہوئے سُنا تو کہا: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَـجَــبًا۱ۙ ( الجن۷۲:۱)، یعنی یہ قراءت کی جانے والی، تلاوت کی جانے والی یا پڑھی جانے والی بے مثال اور حیرت انگیز چیز ہے۔اسے سورئہ قٓ میں وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ ،انتہائی بزرگی والا کہا گیا، درحقیقت خالق کائنات کی بزرگی اِس کے ساتھ ملحق ہے۔ سورئہ طٰہٰ میں قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا کہا گیا۔ سورئہ یٰسٓ میں اسے حکمت سے بھرپور ہونے اور اپنے بنیادی معانی اور مفاہیم کو باوضاحت کھول کربیان کرنے والی نصیحتوں سے بھر پور ہونے کی بنا پر قُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ اور ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ کے ناموں سے پکارا گیا۔ سنہ ۶ نبوی میں اہلِ شہر پر اتمامِ حجت کرتی ہوئی سورۂ کافرون کے بعد سورئہ واقعہ میں بڑا فیض بخش بتانے کے لیےاسے قُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ کہا گیا کہ نادانو، جس چیز کو تم ٹھکرا رہے ہو، وہ تو انتہائی فیض بخش و فیض رساں ہے۔ اپنے کلام کو اللہ تعالیٰ نےآخری مرتبہ ۱۲ویں سنہ نبوت میں، جس برس معراج ہوئی قُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ کےنام سے سورئہ فجر میں پکارکے اس کی شان و عظمت کو بیان کیا۔ کسی مدنی سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب کو اِن ناموں سے ماسوا کسی دیگر نام سے نہیں پکارا۔
قرآن مجید کے ۲۳ سالہ دورِ نزول میں لفظ ’قرآن‘ ۶۳ مرتبہ مکہ میں نازل ہونے والے قرآن میں اور ۷ مرتبہ مدینہ میں اُترنے والے قرآن میں وارد ہوا ہے۔ ہر مرتبہ یہ اُس کے مقاصدِ نزول، اُس کی برکات، اُس کے مقام اور اس کے ساتھ انسان اور اہلِ ایمان کے تعلق اور پسندیدہ روّیے کو بیان کرتا ہے۔ یہ حالتِ رفعی، نصبی و جرّی، تینوں صورتوں میں آیا۔ باطل کے ساتھ کش مکش اور آخر کار دین کے کامل اور غالب ہوجانے کے مختلف مراحل میں اس کا بیان دینِ اسلام کے دعوتی، تربیتی اورانقلابی تینوں پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اقامت ِ دین کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور کارِ نبوت کی تکمیل کی تاریخی ترتیب پر اس لفظ کے استعمال پر تدبر، تفہیمِ دین کی راہیں کشادہ کرتاہے۔
یہاں پر ۲۳ برسوں کے مختلف مراحل میں اس دور کےاحوال سے مناسبت رکھنے والی کچھ نمائندہ مکّی آیات پر گفتگو سے قارئین کو لفظ ’قرآن‘ کو سمونے والی آیات پر غوروتدبر سے قرآن فہمی اور اُس کے مقاصدِ نزول سے عمیق آگہی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ مختصر مضمون میں تمام ۷۰ آیات پر روشنی ڈالنا مشکل ہے۔ تاہم ہر برس کی ایک دو آیات کو اُس زمانے اور اُس وقت کے احوال میں قرآن ، جو کچھ خود اپنے بارے میں بیان کرتا ہے ہم پیش کرتے ہیں، جن کا بنیادی اور مرکزی فہم ہر سننے والے کو حاصل کرنا آسان ہوتا تھا۔
حیاتِ طیّبہ کے دوسرے برس، سورئہ قیامہ میں فرمایا گیا: اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۱۷ۚۖ فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۱۸ۚ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۱۹ۭ (القیامۃ ۷۵:۱۷ -۱۹) کہ اے نبیؐ، نزولِ قرآن کے موقع پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے تمھارے ذہن نشین کر ا دیں(جَمْعَهٗ) اور تم سے پڑھوا دیں (قُرْاٰنَهٗ)۔ اسے یاد کرنے کے لیے کسی تردّد کی ضرورت نہیں۔ پس، جب جبریلؑ امین اسے تمھیں سنا رہے(قَرَاْنٰهُ) ہوں تو تم اس قراءت کا تتبع کرو، یعنی توجہ سے سنو۔ رہا اس کی تشریح و تفسیر سمجھنے (بَیَانَهٗ) کے لیے بھی کسی پریشانی کا کیا معاملہ، یہ تو ہمارے ذِمّے ہے۔
یہاں ذرا ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ غور کریں کہ رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہنِ مبارک پرقرآن کی تشریح و تفسیر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام اللہ کی جانب سے آپؐ پر کسی خیال و مضمون کا القا، وحی کی شکل میں ہی ممکن ہے، جسے ہم ’وحی غیر متلو‘ کہتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ’وحی متلو‘ (قرآنِ مجید) کے علاوہ بھی وحی کا ایک بڑا خزانہ اتارا گیا، جس کے ذریعے آپؐ نے قرآن مجید کی قولی اور عملی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی۔ آخر کس نادانی سے منکرینِ اسلام، سنّت کی اہمیت و وجوب کا انکار کرتے ہیں۔
حیاتِ طیّبہ کے چوتھے برس میں، جب مکّہ شہر والےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اپنے لیڈروں کی پیروی میں مذاق اُڑا رہے تھے اور بات کو مان کر نہ دےرہے تھےاور نہ بات کوسمجھنا ہی چاہ رہے تھے، تو ایسی صورتِ حال میں سورئہ سبا میں فرمایا گیا: وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ۰ۭ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚۖ يَرْجِــعُ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۰ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ۳۱(السبا ۳۴:۳۱) ’’کافر کہتے ہیں کہ ’’ہم ہرگز اس قرآن کو نہ تسلیم کریں گے اور نہ اِس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو‘‘، کاش! تم ان کا حال اس وقت(روزِ محشر) دیکھو جب یہ ظالم مشرک اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اس وقت یہ ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، جو پیچھے چلنے والےلوگ (عوام کالانعام)دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے، وہ بڑے بننے والے اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ ’’ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے‘‘۔
پانچویں برس میں، جب مومنین پرایمان لانے کے جرم میں زندگی تنگ کردی گئی تھی، جسمانی اذیتوں اور معاشرتی پابندیاں اُن کا مقدّر بن رہی تھیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی جانب سے انکار و ناقدری پر بہت افسردہ تھے۔ سورئہ قٓ میں فرمایا گیا: نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِجَبَّارٍ ۰ ۣ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ۴۵ۧ (قٓ۵۰:۴۵)، ’’اے ہمارے پیغمبرؐ، ہمیں معلوم ہے، جو باتیں تمھاری دعوت کے جواب میں یہ بناتے ہیں۔ سنو، تم اِن پر زور زبردستی کرکے اسلام میں داخل کر دینے والے داروغہ بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو، تمھارا کام بس اتنا ہے کہ جو ہماری تنبیہات سے ڈرتا ہو اُسےقرآن مجید کے ذریعے نصیحت کرو ‘‘۔
پانچویں برس کے وسط میں اپنے دین و ایمان کو بچانے اور دیارِ غیر میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی غرض سے اللہ تعالیٰ کی مشیت مسلمانوں کے ایک گروہ کو ہجرت کرا کے قریب کی مسیحی مملکت حبشہ کی جانب لے گئی۔ قریش کی جانب سے اِن مسلمانوں کو واپس مکہ لانے کی سفارتیں اور تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور وہاں کے سربراہِ مملکت نجاشی نے مسلمان مہاجرین کو عزّت و اکرام دیا۔ اس کے نتیجے میں اِس خوف سے کہ مکہ میں باقی رہ جانے والے مسلمان بھی کہیں وہاں نہ چلے جائیں اور پھر اُن کی مملکت مسلمان ہو کر اِن پر حملہ آور نہ ہو جائے، وہ مسلمانوں کو مزید تنگ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تُل گئے۔ اسی برس کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیّدناحمزہ بھی ایمان لے آئے۔
اِن کے ایمان لانے کے چند ہی روز بعد چھٹے برس کا آغاز ہو گیا اور عمرؓ بن الخطاب ایمان لے آئے۔یہ چھٹا برس ہے اور اہلِ ایمان کے لیے دورِ تشدد اختتام کی جانب ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اہلِ ایمان کو بتایا جاتا ہے:طٰسۗ۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۱ۙ ہُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۲ۙ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ يُوْقِنُوْنَ۳ (النمل ۲۷:۱ -۳)۔ فرمایا جا رہا ہےکہ ’’طٰسٓ، یہ آیات ہیں قرآن اور کتابِ مبین کی، ہدایت اور بشارت اُن ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پُورا یقین رکھتے ہیں‘‘۔ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ اپنے معانی بیان کرنے میں وہ ایک کھلی کتاب، كِتَابٍ مُّبِيْنٍ ہے، ایک عام قاری جو اسے اخلاص کے ساتھ مطالعہ کرکےسمجھنا چاہے اُسے یہ اپنا مرکزی خیال بہ آسانی مہیا کرتی ہے۔
آنے والے دنوں میں، آٹھویں برس، قرآن نے اپنے بارے میں یہی بات تکرار کے ساتھ بتائی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۴۰ۧ (القمر۵۴: ۴۰ )، یعنی تحقیق ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے بڑا آسان اور موزوں بنایا ہے، پس ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔
اس مقام پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ رسالت کا ساتواں، آٹھواں اور نواں برس وہ زمانہ تھا،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے بنو ہاشم کو آپؐ کی پشت پناہی کے ’جرم‘ میں سارے قریش کے مقاطعے کا سامنا تھا، نہ کوئی بات کرتا تھا، نہ اِن سے خرید و فروخت ، نہ شادی بیاہ۔ اِن حالات میں ابو طالب، سردارِ بنو ہاشم اپنے پورے قبیلے کو لے کر آبادی سے باہر کی جانب قبیلے کے ایک قطعۂ زمین، شعبِ بنو ہاشم پر جا کر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اسی مقاطعہ کے دوران سورئہ فرقان نازل ہوئی، جس میں روزِ قیامت اللہ کے رسولؐ کی جانب سے اپنی قوم کے قرآنِ مجید کے ساتھ بے اعتنائی برتنے اور اسے نشانہ تضحیک بنانے پر احتجاج کیے جانے کا تذکرہ یوں وارد ہوا: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۳۰(الفرقان ۲۵:۳۰) ’’اور رسولؐ کہے گا کہ ’’اے میرے ربّ، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا‘‘۔
شعب بنوہاشم میں مقاطعے کے تین برس گزارنے کےبعد، جب بنو ہاشم نبوت کے دسویں برس کے اوائل میں واپس شہر میں آئے تو ابو طالب مرض الموت میں تھے، دیگر سردارانِ قریش نے چاہا کہ ابوطالب اپنے انتقال سے قبل محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ بقائے باہمی کا کوئی معاہدہ کروا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ لوگ توحید کی گواہی دیں تو عرب و عجم کی بادشاہی اِن کی ہو گی۔ یہ سُن کر تمام سردار مایوس ہو کر یہ بڑبڑاتے ہوئے پلٹ گئے کہ یہ تو وہی اپنی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہے ۔ سورئہ صٓ اِس اجلاس کی رُوداد بیان کرتی ہے اور اس سورہ کا آغاز قرآن مجید کے سراسر نصیحت ہونے کے اعلان سے ہوتا ہے:صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۱ۭ (صٓ ۳۸:۱)
اس سال کے اواخر میں آپؐ نے اہلِ مکہ کی طرف سے فوری طور پر مزید کسی تعاون کا قرینہ نہ پاکر طائف کا رخ کیا کہ شاید وہ بات کو سمجھیں، لیکن اُن کے سرداروں نے آپؐ کو سخت تضحیک کا نشانہ بنایا۔ واپسی کے سفر میں مکہ کی سرحد، نخلہ کے مقام پر جنوں نے آپؐ کو قرآن مجید تلاوت کرتے ہوئے سُنا اور وہ ایمان لے آئے۔ اس بات کا تذکرہ سورئہ احقاف میں اِن الفاظ میں وارد ہوا:وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۰ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۲۹(احقاف۴۶:۲۹)،’’جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمھاری طرف لے آئے تھے، تاکہ قرآن سنیں، جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے ) تو انھوں نے آپس میں کہا: خاموش ہو جاؤ۔ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے‘‘۔ یہ بات آپؐ کے لیے اطمینان کا ذریعہ بنی۔
بنو ہاشم کے سردار، ابو لہب نے اپنے بھتیجے کو بنو ہاشم سے خارج کرتے ہوئے اُس کی پشت پناہی سے ہاتھ اُٹھا لیا تھا۔ مطعم بن عدی کی جانب سے پناہ مل جانے پر اُس کی حفاظت میں آپؐ مکہ میں داخل ہو سکے۔ چند ہی ہفتوں بعد حج کا موسم آ گیا اور حسبِ معمول آپؐ باہر سے آنے والے حاجیوں تک توحید کی دعوت پہنچانے میں سرگرم ہوگئے۔ اس سرگرمی کےدوران یثرب سے آئے ہوئے چھ افراد کے سامنے ایمان کی دعوت پیش کی تو سیّدنا اسعدبن زرارہ کی تحریک پر یہ تمام لوگ ایمان لے آئے۔ یہ واقعہ یثرب کے مدینۃ النبی بننے کا نقطۂ آغاز تھا۔
ادھر اسلام اپنے غلبے کی ایک اڑان لے رہا تھا، مگر قریش اپنی بڑائی کے زعم میں اس بات سے غافل تھے کہ زمین اُن پر تنگ ہوتی جارہی ہے۔ اسلام حبشہ ، یمن اور یثرب ہی میں نہیں تمام اطراف شہرِ مکہ میں اپنی جڑیں پکڑنا شروع کر چکا تھا۔ یہ نبوت کا گیارھواں برس تھا۔ آپؐ کی قوم کے مشرکینِ قریش قرآن مجید کو اللہ کی کتاب تسلیم نہ کرنے پر اڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے معجزبیان کے کلام کو انسانی کلام کہہ رہے تھے۔ چنانچہ اب قریش پر اتمامِ حجت ہو رہا تھا۔
سورئہ یونس اسی اتمام حجت کو بیان کرنے والی سورہ ہے۔ اس میں قرآن کی حقیقت یوں بیان کی جاتی ہے:وَمَا كَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۳۷(یونس ۱۰:۳۷)،’’اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کی جاسکے، بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آسمانی کتب آچکی ہیں اُن کی تصدیق اور لوح محفوظ میں ثبت و رقم الکتاب کی تفصیل ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے جہانوں کے پالنہار کی جانب سے ہے‘‘۔
بارھویں برس میں اہلِ مکہ پر جاری اتمامِ حجت کے دوران، جب بیعت عقبہ اولیٰ ہو چکی اور یثرب میں تعلیم کے لیے حضرت مصعب بن عمیرؓ وہاں تشریف لے جا چکے اور اہلِ یثرب کی مختلف جماعتوں کے لیے نقیب مقرر کیے جا چکے، تو اہلِ مکہ کی ضد اور ہٹ دھرمی پر آزردہ اہلِ ایمان کوسورئہ رعد میں یہ بتایا گیا کہ ناممکنات کو ممکن بنا دینا اللہ کے لیے ناممکن نہیں۔ کیا اہلِ ایمان نہیں جانتے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ لیکن اللہ کی مشیت یہ نہیں کہ وہ زبردستی بغیر لوگوں کی چاہت کے ایمان اُن کے سینوں میں اُنڈیل دے۔ ایمان اُن ہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے، جو اُس کی طلب میں صادق ہوتے ہیں۔فرمایا گیا: وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰى۰ۭ بَلْ لِّلہِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا ط (الرعد ۱۳:۳۱)،’’اور کیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا، جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟‘‘ اس بارھویں برس میں نازل ہونے والی سورۃ الحجر میں سات آیات والی سورۂ فاتحہ کی عظمت کے بارے میں فرمایا گیا:وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ۸۷ (الحجر ۱۵: ۸۷)،’’ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں اور تمھیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے‘‘۔
علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ سے مرادسورۂ فاتحہ ہی ہے جیساکہ بخاری و موطا، امام مالک کی احادیث بیان کرتی ہیں (بخاری کی احادیث ۴۴۷۴، ۴۷۰۳؛ موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ ۸، مَاجَاءَ فِی اُمِّ الْقُراٰنِ) اور تمام متقدمین مفسرین بیان کرتے ہیں۔ دورِحاضر کےبعض محققین نے اس سے مراد کلام مجید کے نہ ختم ہونے والے اسرار و رُموز کو کھولتے ہوئے اس سے کچھ دوسرے بالکل مختلف معانی بھی اخذ کیے ہیں۔(تدبر قرآن، چہارم، ص ۳۷۸)
سیرت النبیؐ کے مطالعے میں یہ بارھواں برس اس لحاظ سے بھی اہم اور بابرکت ہے کہ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا ہوئی۔ معراج کا تذکرہ سورئہ بنی اسرائیل میں وارد ہے، جیسا کہ لوگ جانتے ہیں کہ معراج میں پنج وقتہ نماز کا حکم ملا، جس کا تذکرہ یوں وارد ہوا : اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۰ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُوْدًا۷۸ (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۸)،’’نماز قائم کرو(اہتمامِ وقت کے ساتھ خشوع و خضوع سے معاشرے میں نماز کی ادائیگی کا نظام) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) اور فجر کے قرآن (با اہتمام طویل قراءت)کا بھی التزام کرو، کیونکہ (فرشتوں کی گواہی/ شہادت سے) قرآنِ فجر مشہُود ہوتا ہے‘‘۔نماز کے پانچوں اوقات کی جانب سورۂ ہود میں اشارات موجود ہیں (تفہیم القرآن، دوم، حاشیہ ۹۵، ص ۶۳۵)، منکرین حدیث کا یہ دعویٰ کہ ’’پانچ اوقات کی جانب قرآن مجید میں کوئی اشارہ نہیں‘‘، بالکل بے بنیاد ہے۔
دورِ نبوت کا تیرھواں برس مکہ میں دورِ نبوت کا آخری برس ہے۔ آپؐ ماہِ صفر کی آخری تاریخوں میں یثرب کی جانب ہجرت کے لیے غارِ ثور میں قیام پذیر ہوئے۔ تین روز یہاں قیام کرکے یہیں ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کے آگے روانہ ہوئے۔ تیرھویں برس میں ہجرت سے کچھ قبل سورئہ اعراف اور سورئہ نحل کی دو آیات نازل ہوئیں جن میں قرآن کو توجہ سے سننے اور تلاوت سے قبل تعوذ کے کلمات ادا کرنے کی ہدایت کی گئی: وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۲۰۴ (اعراف ۷:۲۰۴) ’’جب قرآن تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے‘‘، اور فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۹۸ (النحل ۱۶:۹۸)’’پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو‘‘۔