بین الاقوامی برادری کئی مہینوں سے اسرائیل سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ غزہ کی شہری آبادی کے خلاف بھوک کا شکار کرنے والے ہتھیار کا استعمال بند کرے۔ مگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینی عوام کو تکلیف پہنچا کر وہ حماس کے ساتھ ایک بہتر مذاکراتی معاہدہ کر سکتا ہے۔
درحقیقت اس طرح کی اسرائیلی کارروائی ایک جنگی جرم ہے، جس کا بدترین مظاہرہ جمعرات کو اس وقت ہوا، جب اسرائیلی فوجیوں نے غزہ شہر کے باہر امدادی ٹرکوں کے قافلے سے خوراک کے لیے بھاگنے والے بھوکے فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے ان میں سے ۱۰۰ سے زائد افراد شہید کردیئے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون اور جنگی قوانین یہ واضح کرتے ہیں کہ جنگی ہتھیار کے طور پر شہریوں کو بھوکا مارنا ممنوع ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم کے قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جان بوجھ کر شہریوں کو ’’ان کی بقا کے لیے ناگزیر چیزوں سے محروم رکھنا، بشمول جان بوجھ کر امدادی سامان میں رکاوٹ ڈالنا‘‘ ایک جنگی جرم ہے‘‘۔ غزہ کے معاملے میں ارادے اور عمل دونوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیردفاع نے جنگ کے پہلے دن سے علانیہ کہا کہ کسی بھی قسم کی خوراک، پانی یا بجلی کو محصور علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’اسرائیل کا غزہ کی مسلسل ناکہ بندی، اور ۱۶ سال سے زیادہ مدت پر پھیلی بندش، شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے، جو ایک جنگی جرم ہے۔ غزہ میں قابض طاقت کے طور پر، چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت اسرائیل کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ شہری آبادی کو خوراک اور طبّی سامان ملے‘‘، ہیومن رائٹس واچ نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں یہ مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، مارچ ۲۰۲۴ء کے آخر تک صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی۔
اسرائیلیوں نے نہ صرف غزہ کے شمالی علاقوں میں، جہاں اسرائیل کے ساتھ سرحد ہے، خوراک اور طبّی امداد کے داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے، بلکہ انھوں نے مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر بھی ایسا کیا ہے۔ اسرائیل نے مصر سے امدادی سامان لے کر آنے والے ٹرکوں پر بمباری کی، تاکہ مصریوں کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ اسرائیلی کنٹرول کو قبول کریں کہ کب اور کیسے غزہ میں کسی بھی چیز کو عبور کرنے کی اجازت دی جائے۔ نتیجے کے طور پر، کھانے پینے کا سامان لے جانے والے ہر ٹرک کو سب سے پہلے اسرائیلی سرحدی مقام تک جانا پڑتا ہے، جہاں اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اس جانچ پڑتال میں کافی وقت لگتا ہے اور پھر ان ٹرکوں کو، اسرائیل کے ساتھ، رفح راہداری کے ذریعے غزہ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ خوراک کے ٹرکوں کی قلیل تعداد جو بالآخر رفح تک پہنچتی ہے قدرتی طور پر بھوک سے مرنے والی آبادی کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔
امدادی سامان پہنچانے میں مصروف کارکن بتاتے ہیں کہ بھوک سے مرنے والی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں خوراک کے ٹرک غزہ میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ خوراک کی عدم دستیابی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ۳ کلو گندم کا تھیلا ۱۰۰ ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے جسے غزہ کا کوئی بھی خاندان برداشت نہیں کر سکتا۔
غزہ کے جنوب میں صورتِ حال اس وقت اور بھی سنگین ہوگئی، جب اسرائیلی فوج شمال سے جنوبی مرکز کی طرف منتقل ہو گئی۔ انھوں نے غزہ شہر پر قبضہ کر لیا، پھر فلسطینیوں کو جنوب میں رفح کی طرف دھکیلتے ہوئے خان یونس پر بھی قبضہ کرلیا، جہاں پہلے سے تقریباً ۱۵لاکھ لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر شمال کی طرف واپس نہیں جا سکتے، اور مصری کسی کو بھی اس خوف سے سینا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے کہ اسرائیل انھیں کبھی واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس طرح نسل کشی کرنا ایک اور جنگی جرم ہے۔
غزہ میں خوراک کی وافر مقدار میں عام داخلے کی اجازت دینے کے بجائے، بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی اسرائیلی کوشش نے بھوک سے مرتے فلسطینیوں کو ’مُردہ فلسطینیوں‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف جنوبی غزہ کی صورتِ حال تشویشناک ہے، تو وہیں شمال میں غذائی قلت کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ اسرائیل مٹھی بھر نسل پرست یہودی اسرائیلی مظاہرین کی وجہ سے گندم کے ٹرکوں کو شمال میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے۔ اگر وہ فلسطینی ہوتے تو یقیناً انھیں فوراً گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا۔ لیکن چونکہ وہ اسرائیلی ہیں، اس لیے فوج دباؤ کو برقرار رکھنے میں مستعد ہے۔ اس نے گندم کے ٹرکوں کو فلسطین میں داخلے کی بہت کم اجازت دی ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے اپنے اتحادی امریکا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شمالی غزہ تک گندم کے ٹرک جانے کی اجازت دے گا۔
شمالی غزہ کی سنگین صورتِ حال نے اُردن کی فضائیہ کو روزانہ خوراک کے پیکٹ پھینکنے پر مجبور کیا ہے، حالانکہ قابض فوجیں بین الاقوامی قانون کے تحت لوگوں کی تمام انسانی ضروریات کو اپنے براہ راست فوجی کنٹرول میں فراہم کرنے کی پابند ہیں۔
جمعرات کے قتل عام میں اسرائیلیوں نے نہ صرف ان لوگوں پر گولیاں چلائیں جن سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تھا،بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ زیادہ تر مرنے والے کھانے کے لیے افراتفری اور بھگدڑ میں کچلے گئے۔ لیکن جیسا کہ صحافی گیڈون لیوی جیسے روشن خیال اسرائیلیوں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اسرائیل حقیقی متاثر فلسطینیوں کو اپنی موت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف، امریکا سمیت اسرائیل کے مضبوط ترین اتحادیوں اور پوری دنیا سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل بھوک کو بطور جنگی ہتھیار کے استعمال کرنا بند کرے۔ اس سفاکیت میں لازم ہے کہ دنیا اسرائیل پر پابندیاں لگانا شروع کر دے۔ کوئی بھی ملک جو اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے وہ بھی جنگی جرائم اور فلسطینی عوام کی نسل کشی میں ملوث ہے۔