گذشتہ ہفتے برطانوی پارلیمنٹ میں ، کمیونٹی سیکریٹری مائیکل گوو نے ’انتہاپسندی‘ کی ایک نئی ’تعریف‘ (definition)بطور ریاستی پالیسی کے متعارف کروائی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف برطانیہ بلکہ دُنیا بھر میں خدمت دین سے وابستہ مسلم تنظیمات میں گہری تشویش پیدا ہوئی۔ اس تعریف میں کہا گیا ہے :
انتہا پسندی،تشدد، نفرت یا عدم برداشت پر مبنی کسی نظریے کی ترویج یا ترقی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ؛ اول : دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی نفی؛ یا دوم: برطانیہ کے لبرل پارلیمانی جمہوریت اور جمہوری حقوق کے نظام کو کمزور کرنا، الٹ دینا یا تبدیل کرنا؛ یا سوم: جان بوجھ کر (اوّل یا دوم نوعیت کے) نتائج حاصل کرنے کی سہولت دینے والا ماحول پیدا کرنا۔
Extremism is the promotion or advancement of an ideology based on violence, hatred or intolerance, that aims to: (1) negate or destroy the fundamental rights and freedoms of others; or (2) undermine, overturn or replace the UK’s system of liberal parliamentary democracy and democratic rights; or (3)intentionally create a permissive environment for others to achieve the results in 1 or 2.
یاد رہے برطانوی حکومت نے اس سے پہلے ۲۰۱۱ء میں ’انتہا پسندی‘ کی ایک تعریف متعین کی تھی، جس کا بنیادی ہدف پُرتشدد حملوں یا اس نوعیت کا عملی اقدام تھا۔ لیکن اس ۲۰۲۴ء کی نئی تعریف کے مطابق محض کوئی بھی ایسا نظریہ رکھنا، جو برطانوی اقدار کے خلاف ہو، وہ ’انتہاپسندی‘ سمجھا جائے گا۔ اس کے لیے کسی پُرتشدد یا کسی عملی اقدام کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ۲۰۱۱ء کی تعریف یہ تھی:
برطانوی بنیادی اقدار کی فعال مخالفت، بشمول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی اور مختلف عقائد اور عقائد کے باہمی احترام اور رواداری کے خلاف اقدامات کرنے والے گروہ یا افراد کو انتہا پسند تصور کیا جائے گا۔
vocal or active opposition to British fundamental values, including democracy, the rule of law, individual liberty and the mutual respect and tolerance of different faiths and beliefs
یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ پیش کردہ نئی تعریف، پرانی سے کس طرح مختلف ہے۔ ۲۰۱۱ء میں، انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے حکومت نے ’عملی انتہا پسندی‘ کو ’’بنیادی برطانوی اقدار، بشمول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی اور مختلف عقائد اور عقائد کے باہمی احترام اور رواداری کی فعال مخالفت‘‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔
لیکن ۲۰۲۴ء میں وضع کردہ نئی تعریف کے تحت اصل ہدف فعال مخالفت یا اقدام سے بدل کر محض ’برطانوی اقدار‘ کے مخالف نظریہ اور اس کی ترویج ہے۔ یعنی اب اصل ہدف صرف پُرتشدد اقدام نہیں بلکہ صرف ایسے نظریات بھی انتہا پسندی کے دائرے میں آئیں گے، جو برطانوی لبرل نظریات سے منافی ہوں۔ یہ بات سمجھنا چاہیے کہ نئی وضع کردہ تعریف کے، برطانیہ میں رہنے بسنے والے مسلمانوں، مسجدوں، اشاعتی اداروں اور مسلم تنظیمات پر گہرے دُوررس اثرات پڑیں گے۔
اس حوالے سے اگر مائیکل گوو کی پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر کا جائزہ لیا جائے تو اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک نئی تعریف نہیں ہے بلکہ انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مکمل ریاستی پالیسی بیان ہے۔ جس کا اطلاق فوری طورپرکیا جائے گا۔ اس لیے وزیروں اور سرکاری ملازموں پر ایسی تنظیموں سے رابطہ کرنے یا فنڈنگ کرنے پر پابندی ہوگی، جنھیں انتہا پسند شمار کیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر اس پالیسی کا نفاذ صرف حکومت اور اس کے محکمہ جات پر ہوگا، جب کہ کونسلوں سے توقع کی جائے گی کہ وہ حکومت کی پالیسی کی پیروی کریں گے۔ یعنی وہ تنظیمات جو نئی تعریف کے تحت ’انتہا پسند‘ قرار پاتی ہیں، اب ریاستی سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی۔ پالیسی کے تحت، ’انتہا پسند‘ دائرے میں نشان زدکی گئی تنظیمات اور افراد کو ’بلیک لسٹ‘ (ناپسندیدہ) قرار دیا جائےگا اور انھیں ریاست برطانیہ کی طرف سے ایک طرح کے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مائیکل گوو نے اپنی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا کہ ’’یہ دراصل ۷؍اکتوبر کو حماس، اسرائیل جنگ کی وجہ سے برطانوی معاشرے میں پیدا ہونے والے ردعمل اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خطرے کا جواب ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ فلسطین کی حمایت میں برطانیہ میں ہونے والے احتجاج اور اسرائیل مخالف جذبات درحقیقت یہ نئی پالیسی بنانے کی وجہ قرار دئیے گئے ہیں۔
خود مائیکل گوو کے مطابق اس کا مقصد انتہائی دائیں بازو کے اسلامی اور انتہا پسندوں کو نشانہ بنانا ہے۔لہٰذا، ’ہاؤس آف کامنز‘ میں اپنے اعلان میں، کمیونٹی سیکرٹری نے کہا کہ ابتدائی طور پر مسلم گروپ ’مسلم ایسوسی ایشن آف برٹین‘، مسلم انگیج منٹ اینڈ ڈویلپمنٹ اور انتہائی دائیں بازو کے گروہ برٹش نیشنل سوشلسٹ موومنٹ اینڈ پیٹریاٹک الٹرنیٹو وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر گروہ مثلاً فرینڈز آف الاقصیٰ ، فائیو پلرز اور فلسطین ایکشن وغیرہ بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ مسلم تنظیموں کا نام لیتے ہوئے مائیکل گوونے پارلیمانی استثناء کا سہارا لیا، تاکہ وہ اس حوالے سے قانونی مضمرات سے بچ سکیں۔
یاد رہے برطانیہ میں اس سال عام انتخابات ہوں گے، لہٰذا کنزرویٹو پارٹی، مسلمانوں کے خلاف اقدام کرکے سیاسی طور پر دائیں بازو کے ووٹر کی حمایت بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ ہتھکنڈا ہے، جسے بعض ملکوں میں استعمال کرکے فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔
یہاں ان اُمور کی نشاندہی ضروری ہے جن کی وجہ سے نئی تعریف مسلمان حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔اگرچہ یہ تعریف اور اس کی بنیاد پر بنی پالیسی کوئی قانون نہیں ہے لیکن اس کے باجود، انتہا پسند قرار دئیے جانے کی صورت میں حکومتی تعصب کا شکار ہونے اور اپنے حقوق سے محروم ہونے والے افراد یا تنظیمات کے پاس، انتہا پسند گردانے جانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود نہیں۔مزید برآں یہ نئی تعریف پیش کرنے سے پہلے کوئی تفصیلی مشاورت یا بحث بھی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ اس بات کا واضح خدشہ موجود ہے کہ یہ تعریف، آزادیٔ اظہار جو جمہوریت اور لبرل اقدار کا مسلّمہ اصول ہے کے خلاف ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔
مائیکل گوو کی تقریر کے اندر برطانیہ میں بروئے کار مسلم تنظیموں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانا اور فوری وجۂ جواز مشرق وسطیٰ کے حالیہ تنازعے کو قرار دینا، اور ’انتہاپسندی‘ کو مسلمانوں ہی سے منسلک کردینا، یہ ثابت کرتا ہے کہ دراصل برطانوی پالیسی سازوں کے ذہن میں مسلمانوں کے حوالے سے چھپا تعصب کارفرما ہے۔ اس گمان کو مائیکل گوو کے وہ خیالات مزید تقویت دیتے ہیں، جن میں انھوں نے مسلمان سیاسی مفکروں جیساکہ سیّدمودودی، حسن البنا اور سیّد قطب کے نظریات کو انتہا پسندی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے خاص طور پر برطانوی معاشرے کے لیے ’خطرہ‘ قرار دیا، اور کہا کہ ’’اس حوالے سے برطانوی حکومت مستقبل میں اپنا ردعمل دیتی نظر آئے گی‘‘۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ، جدید سیاسی، سماجی و اخلاقی نظریات اپنے آپ میں کئی صدیوں کی فلسفیانہ اور ادبی تنقید کا حاصل ہیں۔ لہٰذا ، کسی ریاست میں نافذ العمل سیاسی ،سماجی و اخلاقی نظریات اور اقدار کو، تنقید سے بالاتر سمجھنا اور ایک جابرانہ پالیسی، معاشرے کے تمام طبقات سے زبردستی تسلیم کروانا خود جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مائیکل گوو کے پالیسی بیان کے عملی نفاذ کی صورت میں، کثیرقومی برطانوی معاشرہ ایک نئی تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے، جس کی بنیاد خود حکومتی پالیسی ہو گی۔ اس کے علاوہ انتہا پسندی کی نئی تعریف کے مضمرات صرف برطانوی معاشرے تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ دنیا کے دیگر خطوں بالخصوص برطانوی استعمار میں رہنے والے، غیر مسلم اکثریتی ممالک مثلاً آسٹریلیا، اور ہندستان وغیرہ میں دُور رس اثرات کے حامل ثابت ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک خاص طور پر دائیں بازو کی سیاسی تحریکوں کی اٹھان سے متاثر یورپی ممالک میں بسنے والے مسلمان اور کام کرنے والی تنظیمات کو عملی مشکلات اور قدم قدم پر تعصب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس سارے منظر نامے کے پیش نظر اگرچہ ’مسلم کونسل آف برطانیہ‘ (MCB)نے اس تقریر کے بعد حکومت کی متعصبانہ پالیسی کو چیلنج کیا ہے، لیکن یہاں پر اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ’انتہا پسندی‘ کی نئی تعریف پر نمایندہ مسلم ممالک، خاص طور پر ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور دیگر مؤثر ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو فوراً نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔*
*برطانیہ کی ۴۰۰ مساجد کے اماموں اور اسلامی اسکالروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومت کی جانب سے کی گئی اس غلط تعریف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی لابی کے زیراثربرطانیہ میں ۳۵لاکھ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش ہے۔ (۲۲مارچ ۲۰۲۴ء)