ڈاکٹر عبداللہ فیضی


گذشتہ ہفتے برطانوی پارلیمنٹ میں ، کمیونٹی سیکریٹری مائیکل گوو نے ’انتہاپسندی‘ کی ایک نئی ’تعریف‘ (definition)بطور ریاستی پالیسی کے متعارف کروائی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف برطانیہ بلکہ دُنیا بھر میں خدمت دین سے وابستہ مسلم تنظیمات میں گہری تشویش پیدا ہوئی۔ اس تعریف میں کہا گیا ہے :

 انتہا پسندی،تشدد، نفرت یا عدم برداشت پر مبنی کسی نظریے کی ترویج یا ترقی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ؛ اول : دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی نفی؛ یا دوم: برطانیہ کے لبرل پارلیمانی جمہوریت اور جمہوری حقوق کے نظام کو کمزور کرنا، الٹ دینا یا تبدیل کرنا؛ یا سوم: جان بوجھ کر (اوّل یا دوم نوعیت کے) نتائج حاصل کرنے کی سہولت دینے والا ماحول پیدا کرنا۔

Extremism is the promotion or advancement of an ideology based on violence, hatred or intolerance, that aims to: (1)  negate or destroy the fundamental rights and freedoms of others; or (2) undermine,  overturn or replace the UK’s system of liberal parliamentary democracy and democratic rights; or (3)intentionally create a permissive environment for others to achieve the results in 1 or 2.

یاد رہے برطانوی حکومت نے اس سے پہلے ۲۰۱۱ء میں ’انتہا پسندی‘ کی ایک تعریف متعین کی تھی، جس کا بنیادی ہدف پُرتشدد حملوں یا اس نوعیت کا عملی اقدام تھا۔ لیکن اس ۲۰۲۴ء کی نئی تعریف کے مطابق محض کوئی بھی ایسا نظریہ رکھنا، جو برطانوی اقدار کے خلاف ہو، وہ ’انتہاپسندی‘ سمجھا جائے گا۔ اس کے لیے کسی پُرتشدد یا کسی عملی اقدام کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ۲۰۱۱ء کی تعریف یہ تھی:

برطانوی بنیادی اقدار کی فعال مخالفت، بشمول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی اور مختلف عقائد اور عقائد کے باہمی احترام اور رواداری کے خلاف اقدامات کرنے والے گروہ یا افراد کو انتہا پسند تصور کیا جائے گا۔

vocal or active opposition to British fundamental values, including democracy, the rule of law, individual liberty and the mutual respect and tolerance of different faiths and beliefs

یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ پیش کردہ نئی تعریف، پرانی سے کس طرح مختلف ہے۔ ۲۰۱۱ء میں، انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے حکومت نے ’عملی انتہا پسندی‘ کو ’’بنیادی برطانوی اقدار، بشمول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی اور مختلف عقائد اور عقائد کے باہمی احترام اور رواداری کی فعال مخالفت‘‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔

لیکن ۲۰۲۴ء میں وضع کردہ نئی تعریف کے تحت اصل ہدف فعال مخالفت یا اقدام سے بدل کر محض ’برطانوی اقدار‘ کے مخالف نظریہ اور اس کی ترویج ہے۔ یعنی اب اصل ہدف صرف پُرتشدد اقدام نہیں بلکہ صرف ایسے نظریات بھی انتہا پسندی کے دائرے میں آئیں گے، جو برطانوی لبرل نظریات سے منافی ہوں۔ یہ بات سمجھنا چاہیے کہ نئی وضع کردہ تعریف کے، برطانیہ میں رہنے بسنے والے مسلمانوں، مسجدوں، اشاعتی اداروں اور مسلم تنظیمات پر گہرے دُوررس اثرات پڑیں گے۔

اس حوالے سے اگر مائیکل گوو کی پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر کا جائزہ لیا جائے تو اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک نئی تعریف نہیں ہے بلکہ انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مکمل ریاستی پالیسی بیان ہے۔ جس کا اطلاق فوری طورپرکیا جائے گا۔ اس لیے وزیروں اور سرکاری ملازموں پر ایسی تنظیموں سے رابطہ کرنے یا فنڈنگ کرنے پر پابندی ہوگی، جنھیں انتہا پسند شمار کیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر اس پالیسی کا نفاذ صرف حکومت اور اس کے محکمہ جات پر ہوگا، جب کہ کونسلوں سے توقع کی جائے گی کہ وہ حکومت کی پالیسی کی پیروی کریں گے۔ یعنی وہ تنظیمات جو نئی تعریف کے تحت ’انتہا پسند‘ قرار پاتی ہیں، اب ریاستی سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی۔ پالیسی کے تحت، ’انتہا پسند‘ دائرے میں نشان زدکی گئی تنظیمات اور افراد کو ’بلیک لسٹ‘ (ناپسندیدہ) قرار دیا جائےگا اور انھیں ریاست برطانیہ کی طرف سے ایک طرح کے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مائیکل گوو نے اپنی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا کہ ’’یہ دراصل ۷؍اکتوبر کو حماس، اسرائیل جنگ کی وجہ سے برطانوی معاشرے میں پیدا ہونے والے ردعمل اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خطرے کا جواب ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ فلسطین کی حمایت میں برطانیہ میں ہونے والے احتجاج اور اسرائیل مخالف جذبات درحقیقت یہ نئی پالیسی بنانے کی وجہ قرار دئیے گئے ہیں۔

خود مائیکل گوو کے مطابق اس کا مقصد انتہائی دائیں بازو کے اسلامی اور انتہا پسندوں کو نشانہ بنانا ہے۔لہٰذا، ’ہاؤس آف کامنز‘ میں اپنے اعلان میں، کمیونٹی سیکرٹری نے کہا کہ ابتدائی طور پر مسلم گروپ ’مسلم ایسوسی ایشن آف برٹین‘، مسلم انگیج منٹ اینڈ ڈویلپمنٹ اور انتہائی دائیں بازو کے گروہ برٹش نیشنل سوشلسٹ موومنٹ اینڈ پیٹریاٹک الٹرنیٹو وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر گروہ مثلاً فرینڈز آف الاقصیٰ ، فائیو پلرز اور فلسطین ایکشن وغیرہ بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ مسلم تنظیموں کا نام لیتے ہوئے مائیکل گوونے پارلیمانی استثناء کا سہارا لیا، تاکہ وہ اس حوالے سے قانونی مضمرات سے بچ سکیں۔

یاد رہے برطانیہ میں اس سال عام انتخابات ہوں گے، لہٰذا کنزرویٹو پارٹی، مسلمانوں کے خلاف اقدام کرکے سیاسی طور پر دائیں بازو کے ووٹر کی حمایت بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ ہتھکنڈا ہے، جسے بعض ملکوں میں استعمال کرکے فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔

یہاں ان اُمور کی نشاندہی ضروری ہے جن کی وجہ سے نئی تعریف مسلمان حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔اگرچہ یہ تعریف اور اس کی بنیاد پر بنی پالیسی کوئی قانون نہیں ہے لیکن اس کے باجود، انتہا پسند قرار دئیے جانے کی صورت میں حکومتی تعصب کا شکار ہونے اور اپنے حقوق سے محروم ہونے والے افراد یا تنظیمات کے پاس، انتہا پسند گردانے جانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود نہیں۔مزید برآں یہ نئی تعریف پیش کرنے سے پہلے کوئی تفصیلی مشاورت یا بحث بھی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ اس بات کا واضح خدشہ موجود ہے کہ یہ تعریف، آزادیٔ اظہار جو جمہوریت اور لبرل اقدار کا مسلّمہ اصول ہے کے خلاف ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔

مائیکل گوو کی تقریر کے اندر برطانیہ میں بروئے کار مسلم تنظیموں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانا اور فوری وجۂ جواز مشرق وسطیٰ کے حالیہ تنازعے کو قرار دینا، اور ’انتہاپسندی‘ کو مسلمانوں ہی سے منسلک کردینا، یہ ثابت کرتا ہے کہ دراصل برطانوی پالیسی سازوں کے ذہن میں مسلمانوں کے حوالے سے چھپا تعصب کارفرما ہے۔ اس گمان کو مائیکل گوو کے وہ خیالات مزید تقویت دیتے ہیں، جن میں انھوں نے مسلمان سیاسی مفکروں جیساکہ سیّدمودودی، حسن البنا اور سیّد قطب کے نظریات کو انتہا پسندی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے خاص طور پر برطانوی معاشرے کے لیے ’خطرہ‘ قرار دیا، اور کہا کہ ’’اس حوالے سے برطانوی حکومت مستقبل میں اپنا ردعمل دیتی نظر آئے گی‘‘۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ، جدید سیاسی، سماجی و اخلاقی نظریات اپنے آپ میں کئی صدیوں کی فلسفیانہ اور ادبی تنقید کا حاصل ہیں۔ لہٰذا ، کسی ریاست میں نافذ العمل سیاسی ،سماجی و اخلاقی نظریات اور اقدار کو، تنقید سے بالاتر سمجھنا اور ایک جابرانہ پالیسی، معاشرے کے تمام طبقات سے زبردستی تسلیم کروانا خود جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مائیکل گوو کے پالیسی بیان کے عملی نفاذ کی صورت میں، کثیرقومی برطانوی معاشرہ ایک نئی تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے، جس کی بنیاد خود حکومتی پالیسی ہو گی۔ اس کے علاوہ انتہا پسندی کی نئی تعریف کے مضمرات صرف برطانوی معاشرے تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ دنیا کے دیگر خطوں بالخصوص برطانوی استعمار میں رہنے والے، غیر مسلم اکثریتی ممالک مثلاً آسٹریلیا، اور ہندستان وغیرہ میں دُور رس اثرات کے حامل ثابت ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک خاص طور پر دائیں بازو کی سیاسی تحریکوں کی اٹھان سے متاثر یورپی ممالک میں بسنے والے مسلمان اور کام کرنے والی تنظیمات کو عملی مشکلات اور قدم قدم پر تعصب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس سارے منظر نامے کے پیش نظر اگرچہ ’مسلم کونسل آف برطانیہ‘ (MCB)نے اس تقریر کے بعد حکومت کی متعصبانہ پالیسی کو چیلنج کیا ہے، لیکن یہاں پر اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ’انتہا پسندی‘ کی نئی تعریف پر نمایندہ مسلم ممالک، خاص طور پر ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور دیگر مؤثر ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو فوراً نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔*

*برطانیہ کی ۴۰۰ مساجد کے  اماموں اور اسلامی اسکالروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومت کی جانب سے کی گئی اس غلط تعریف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی لابی کے زیراثربرطانیہ میں ۳۵لاکھ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش ہے۔ (۲۲مارچ ۲۰۲۴ء)

گذشتہ دنوں بنگلہ دیش نے نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل ایکٹ‘ کے تحت مزید ۱۳؍افراد کو ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت حراست میں لیا ہے۔ یادرہے اپنے قیام سے ہی یہ ٹریبونل سنگین نوعیت کی بے ضابطگیوں اور عدالتی عمل کے ذریعے سیاسی انتقام کی وجہ سے بین الاقوامی برادری خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمات کی طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیشی حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ مبینہ ’’جنگی جرائم کی عدالت،آج ۴۰سال گزرجانے کے بعد ۱۹۷۱ء کی جنگ کے متاثرین کو انصاف مہیا کررہی ہے‘‘۔ اس تناظر میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹریبونل کے تاریخی پس منظر پر کچھ روشنی ڈالی جائے، جس سے یہ واضح ہوگا کہ مذکورہ ٹریبونل اور اس کا خصوصی قانون بنگلہ دیش کی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک سیاسی اور سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور مذکورہ عدالت بھی اسی سیاسی عمل کی ایک کڑی ہے، جس کا حقیقی انصاف اور اصول قانون سے دُور دُور تک واسطہ نہیں۔

جنگی جرائم کی عدالتیں قائم کرنے کی سب سے پہلی کوشش سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار میں آتے ہی کی تھی اور ابتدائی طور پر دو سطح کی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ پہلی سطح کی عدالت مقامی افراد کے خلاف مقدمات کے لیے،جب کہ دوسری سطح کی عدالت کا مقصدپاکستانی قیدیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔لہٰذا، ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے بنگلہ دیش کولیبوریٹرز آرڈر ۱۹۷۲ء کے قانون کا اجرا کیا گیا۔ اس قانون کا واحد مقصد مقامی (غیر فوجی) افراد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس ضمن میں ۷۳ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں، جن کا مقصد پاکستانی انتظامیہ کی معاونت کرنے والے افراد کو سزائیں سنانا تھا۔ اس قانون کے تحت ۴۰ہزار افراد کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جن میں سے ۲۰ ہزار کے خلاف باقاعدہ چالان پیش کرکے انھیں حراست میں لیا گیا اور ان۲۰ ہزار میں سے ۷۵۲ کو مجرم قرار دیا گیا، لیکن ۳۰نومبر ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد ان کو بغیر کسی سزا کے رہا کردیا گیا۔ بعد ازاں ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ کو جنرل ضیاءالرحمان نے کولیبوریٹرز آرڈ قانون کو ہی منسوخ کردیا۔ یہاں ایک نکتہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ آج سنہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ء کے دوران شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں چلنے والی عدالت سے سزایافتہ یا گرفتار افراد میں سے ،ایک فرد بھی ۱۹۷۲ء میں گرفتار کیے گئے ۲۰ہزار مشتبہ افراد میں شامل نہیں تھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی نوزائیدہ بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے درکار خصوصی مہارت اور بین الاقوامی قانون کی پیچیدگیوں پر اپنی کم مائیگی کا احساس تھا۔ اس تناظر میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمان بذات خود جنگی جرائم کے مقدمات چلانے میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ان خصوصی عدالتوں اور قوانین کو پاکستان سے بنگلہ دیش کو علیحدہ ملک تسلیم کروانے کے لیے صرف ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کےدرمیان ہونے والے سہ فریقی معاہدے کے فوراً بعد انھوں نے بنگلہ دیش میں عام معافی کا اعلان کردیا۔

عام معافی کے اعلان سے قبل ہی، بنگلہ دیشی حکومت نے مکتی باہنی کے تحت لڑنے والوں کے لیے خصوصی استثنا کا قانون بنگلہ دیش نیشنل لبریشن سٹرگل انڈیمنٹی آرڈر ۱۹۷۳ء پاس کردیا تھا۔ انڈیمنٹی آرڈر کے آرٹیکل ۲ کے تحت، ۱۹۷۱ء کے دوران مکتی باہنی کی طرف سے کیے جانے والے تمام جنگی جرائم اور بہیمانہ تشدد کو آزادی کی جدوجہد کا عنوان دے کر خصوصی استثنا دیتے ہوئے مکمل جائز قرار دیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جن جن جنگی جرائم کو انڈیمنٹی آرڈر کے تحت مکتی باہنی کے لیے جائز قرار دیا گیا بعینہ انھی جرائم کے الزامات لگا کر آج اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اس کھلے تضاد پر ممتاز برطانوی انسانی حقوق کے کارکن مسٹر جیفری رابرٹسن نے بالکل صحیح تبصرہ کیا ہے:

یہ دوہری قانونی بنیادوں پر مبنی ہے، جو حالیہ مقدمات کی کارروائی میں پوری طرح نمایاں ہیں، یعنی ’فاتح کا انصاف‘۔ جو تاریخ کے دائیں جانب ہیں ان کے جنگی جرائم کو معاف کر دیا جائے گا، جب کہ وہ جنھوں نے ایک متحدہ پاکستان کے لیے لڑائی لڑی ان کے ساتھ غداروں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔

۷۰ کے عشرے کے اوائل میں بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے حوالے سے قانون سازی اور منسوخی کا کھیل جاری رہا، حتیٰ کہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۳ کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ذریعے پہلی دفعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء کا اجرا عمل میں آیا۔ اس قانون کا مقصد ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں پر باقاعدہ مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس قانون پر فوجداری قانون اور قانون شہادت کے اصول و ضوابط کا اطلاق ممکن نہیں تھا ۔

 ۱۹۷۴ء میں ہونے والے سہ فریقی معاہدے (شملہ معاہدے) کے تحت طرفین نے ایک سیاسی و قانونی سمجھوتا کیا۔ لہٰذا ایک طرف تو پاکستان نے مذکورہ معاہدے کے بعد بنگلہ دیش کو باقاعدہ علیحدہ آزاد ریاست تسلیم کیا تو دوسری طرف بنگلہ دیش نے بھی ان ۱۹۵قیدیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی اور بعد ازاں جنگی قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔

چار عشروں کے بعد ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے ایک دفعہ پھر سے عوامی جذبات پر سیاست کرتے ہوئے جنگی جرائم کی عدالتوں کا احیا کیا، جن کے تحت سزائیں اور گرفتاریاں ابھی تک جاری ہیں۔ ان عدالتوں کا قیام روزِ اول سے ہی سیاسی اور سفارتی دباؤ  ڈالنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ۱۹۷۳ء میں یہ دباؤ خارجی سطح پر ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا اور آج حسینہ واجد داخلی سیاسی محاذ پر اس کا استعمال کررہی ہیں۔

بین الاقوامی قانون، شخصی آزادی اور نجی زندگی کے تحفظ کے لیے خطرہ

امریکا اس وقت معاشی، سیاسی اور فوجی اعتبار سے دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے ۔عالمی طاقت ہونے کے ناتے جمہوریت، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی خود کو پوری دنیا کے لیے نمونہ سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی تو انسانی حقوق اورکبھی جمہوریت کے نام پر دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ لیکن در حقیقت انسانی حقوق اور جمہوری روایات کے حوالے سے امریکا کی اپنی تاریخ خاصی تلخ واقع ہوئی ہے۔ وکی لیکس اور اب ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے نہ صرف اس نقاب سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ اُن کے پیچھے چھپے امریکا کے اصل توسیع پسندانہ عزائم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔امریکا میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق خفیہ اہل کار ایڈورڈ سنوڈن کے ہاتھوں افشا ہونے والے جاسوسی پروگرام ’پرزم ‘کی تفصیلات سے متعلقہ معلومات پر جاری گرما گرم بحث اب ایک باقاعدہ قانونی جنگ کی صورت اختیار کر رہی ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ۴جنوری۲۰۱۳ء کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘کے خلاف آنے والے ۱۶دسمبر ۲۰۱۳ء کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایک امریکی شہری لینی کلے مین نے امریکی وفاقی ضلعی عدالت میںپرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی کو جواز بناتے ہوئے ایک مقدمہ Klayman v. Obama دائر کیا تھا۔ ۱۶دسمبر ۲۰۱۳ء کو مذکورہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی عدالت کے  جج ریچرڈ لیون نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘کو امریکی آئین کی چوتھی ترمیم جس میں Privacy Rights کا تحفظ کیا گیا ہے ، سے متصادم قرار دیتے ہوئے نہ صرف غیرآئینی بلکہ فلاحی ریاست کے لیے تباہ کن قرار دیا اور     مذکورہ پروگرام کو بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ بعد ازاں ۲۷دسمبر کو اسی سلسلے کے ایک اور مقدمے ACLU v. Clapper میں ایک دوسرے وفاقی جج ویلیم پویلے نے حکومتی عذر کو تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دی۔

ان دونوں مقدمات میں ہونے والی بحث اور قانونی نکات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس موضوع سے متعلق اہم واقعات اور دیگر پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھا جائے۔ حالیہ بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ۷جون ۲۰۱۳ء کی رپورٹ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق خفیہ اہل کار ایڈورڈ سنوڈن کے حوالے سے انتہائی اہم نوعیت کی خفیہ معلومات افشا کیں۔ اس رپورٹ کے مطابق نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے گوگل، سکائپ، مائیکروسافٹ، یوٹیوب، یاہو، فیس بُک اور ایپل کے پاس موجود دنیا بھر کے صارفین کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کی اور انھیں جمع کیا۔ جمع کی جانے والی معلومات میں ان کمپنیوں کے صارفین کی نجی معلومات، ای میل، چٹینگ اور فون ریکارڈ خفیہ طور پر سنا اور اکٹھا کیا جاتا تھا۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق یہ حساس اور ذاتی نوعیت کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو انٹر نیٹ کمپنیوں کے سرورز تک رسائی حاصل تھی جنھیں بیک ڈور چینلز کا نام دیا گیا۔ یہاں سے صارفین کی تمام تر معلومات بلاواسطہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے کمپیوٹرز تک پہنچ جاتی تھیں، جب کہ مشہور سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے صارفین کے ڈیٹاتک رسائی کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے فیس بک کا جعلی سرور بھی بنایا جس پر فیس بک کے سربراہ مارک زبرگ نے مایوسی کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ۲۰۱۲ء میں ۲۰۱۱ء کی نسبت سکائپ سے حاصل کی جانے والی معلومات میں ۲۴۸ فی صد، فیس بُک سے ۱۳ فی صد اور گوگل سے ۶۳ فی صد معلومات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دی گارڈینکی رپورٹ کے مطابق ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کردہ کل ۵۸ہزار دستاویزات میں سے اخبار نے اب تک بہت کم تفصیلات عام کی ہیں۔رپورٹ کے مطابق   نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے تقریباً ۲۷ٹیرا بائٹ کی مقدار تک معلومات حاصل کی تھیں۔یہ مقدار   اتنی بڑی تھی کہ خود نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو بھی اس کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ یہ عمل ایک کمپیوٹر سسٹم ’تریولر ‘ کی مدد سے کیا گیا۔

یہاں یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ۳مارچ کو شائع کردہ  دی گارڈین کے مضمون میں برطانوی نائب وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ۲۰۱۳ء کے صرف ۱۰منٹ میں پوری دنیا کے انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے پیدا کردہ معلومات /ڈیٹا کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ جتنی تاریخ کی ابتدا سے لے کر ۲۰۰۲ء تک کے ڈیٹا/معلومات کی تھی۔ اس امر سے اس بات کا اندازہ بھی خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ٹکنالوجی کی ترقی اور دنیا کے عالمی گائوں بن جانے سے معلومات کے بہائو میں کس حیران کن حد تک تیزی اور تبدیلی آ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی سی کی ۷مارچ کی شائع کردہ رپورٹ میں امریکی فوج کے اعلیٰ اہل کار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کردہ معلومات کی مقدار کے تعین اور اس سے ہونے والے نقصانات کے تدارک کے لیے بھی دو سال کا عرصہ درکار ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اس جاسوسی پروگرام کی نوعیت پہلے سے موجود منصوبوں سے خاصی سنگین ہے اور یہ انٹرنیٹ صارفین کی ذاتی زندگیوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکی قانون میں امریکی شہری کے خلاف کی جانے والی اس قسم کی جاسوسی سے پہلے متعلقہ عدالت کے جج سے منظوری لینا لازمی ہے لیکن ’پرزم‘ کے تحت کی جانے والی الیکٹرانک جاسوسی کے لیے ایسی کوئی بھی منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ  یہ تمام سرگرمیاں امریکی Privacy Laws کے بھی خلاف تھی جو کہ امریکی آئین میں شامل چوتھی ترمیم کے تحت تمام شہریوں کو Unreasonable Search سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہاں   ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کو اپنی قومی سلامتی اور ملکی دفاع کے حوالے سے اقدامات کرنے کا حق تو حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرد کی نجی زندگی اور بین الاقوامی اور ملکی قوانین کی مکمل پاس داری بھی نہایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن جو کہ اس وقت روس میں عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں، کے مطابق انھوں نے یہ راز امریکی عوام کے مفاداور ریاست کی جانب سے عوام کی آزادی اور انفرادی زندگیوں میں مداخلت کے خلاف اٹھائے تاکہ امریکی شہریوں کی آزادی کا تحفظ کیا جا سکے۔ ان کے اس اقدام نے انھیں امریکی اور دنیا بھر کے عوام کی نظروں میں ایک ہیرو بنادیا، جب کہ امریکی حکومت نے انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلانے اور  روس سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے روسی حکومت نے رد کر دیا۔

نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے کی جانے والی جاسوسی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ دی گارڈین ہی کی ایک اور رپورٹ (شائع شدہ ۲۵؍اکتوبر۲۰۱۳ء )کے مطابق امریکا نے دنیا بھر کے ۳۵سربراہان مملکت کے استعمال میں موجود موبائل فونز اور ای میلز کی بھی نگرانی کی۔ رپورٹ کے مطابق ایک امریکی اہل کار نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو ۲۰۰مشہور شخصیات کے فون نمبروں کی لسٹ فراہم کی جن کی جاسوسی کرنے کو کہا گیا۔ ان شخصیات میں ۳۵ سربراہان مملکت کے فون نمبر بھی شامل تھے۔ جن سربراہان مملکت کے فون ریکارڈ کیے گئے ان میں برازیل،میکسکو اور کیوبا کے ساتھ ساتھ امریکا کے دوست اور اتحادی ملک جرمنی کی چانسلر اینجیلامرکل کا فون ٹیپ کرنا بھی شامل تھا۔

اس رپورٹ کے افشا ہونے کے بعد امریکا اور یورپین یونین کے تعلقات میں شدید سفارتی تنائوپیدا ہوا جس کو برسلز میں ہونے والے یورپی سربراہ کانفرنس ۲۰۱۳ء کے موقع پر اینجیلا مرکل کی طرف سے اعتماد کا مجروح ہونا قرار دیا کہا گیا۔ اس قسم کی جاسوسی کے بعد امریکا کو یورپی یونین اور دیگر ممالک کی طرف سے بھی شدید تنقید اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تمام صورت حال پر   سب سے زیادہ شدید اور سخت ردعمل برازیل کی طرف سے دیا گیا جہاں برازیل کی صدر ڈلمارسل نے دسمبر ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں امریکا کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور خطاب کے بعد اپنی پہلے سے طے شدہ ملاقات جو کہ برازیلی صدر اور اوباما کے مابین ہونا تھی کو منسوخ کرتے ہوئے وطن واپس چلی آئیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق جو نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی انٹرنل آڈٹ رپورٹ کا حصہ ہے، خود نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اندرونی حلقوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ  ۲۰۰۸ء کے بعد سے کانگریس سے ملنے والے اختیارات کو ناجائز استعمال کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں Privacy Laws کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق  ۲۰۱۱ء میں Foreign Intelligence Survelliance Act کی ۱۵۰ بار اور صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کی ۳۰۰ بار خلاف ورزی کی ہے۔

’پرزم‘ کے اس پروگرام کے تحت امریکی شہریوں اور سربراہان مملکت کے علاوہ باقی تمام دنیا بھر کے افراد اور اداروں کی جاسوسی بھی کی گئی، حتیٰ کہ بڑی کاروباری کمپنیاں اور آئل ریفائنریز تک بھی جاسوسی کے اس جال سے بچ نہ سکیں۔ جس بڑے پیمانے پر یہ جاسوسی کی گئی اس کا اندازہ ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء کو جاری کردہ وہ بی بی سی کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق روزانہ دنیا بھر سے ارسال کردہ ۲۰۰ملین موبائل فون ایس ایم ایس پیغامات کا معائنہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی میں کیا جاتا ہے، جب کہ ۱۵؍ارب موبائلز کے محل وقوع کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

یہاں یہ بات معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ عدالت میں دورانِ سماعت یہ بات بھی سامنے آئی کہ جس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور نیشنل سیکیورٹی کی آڑ میں یہ تمام جاسوسی کی جاتی ہے، اس کے لیے اس تمام عرصے کے دوران اس ذریعے سے حاصل کردہ معلومات کی وجہ سے ایک بھی دہشت گرد یا دہشت گردی کا منصوبہ نہیں پکڑا جا سکا۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘سے متعلق سب سے اہم اور تشویش ناک معلومات پاکستان کے متعلق دریافت ہوئی ہیں۔  ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے پاکستان کے متعلق فراہم کردہ معلومات جو برطانوی اخبار دی گارڈین میں ۱۱جون۲۰۱۳ء کو Boundless Informant کے عنوان سے اور پاکستانی انگریزی روزنامے دی ایکسپریس ٹربیونکی ۹جون۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع ہوئی ہیں کے مطابق دنیا بھر میں جاسوسی کی بنیاد پر حاصل کردہ ڈیٹا کے اعتبار سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، یعنی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے سب سے زیادہ جاسوسی جن ممالک کی کی، پاکستان ان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء میں صرف مارچ کے مہینے میں سب سے زیادہ ڈیٹا ایران سے حاصل کیا گیا جو کہ ۱۴بلین، انٹیلی جنس رپورٹس پر مشتمل تھا اور دوسرے نمبر پر مارچ ہی کے مہینے میں پاکستان سے ۵ء۱۳بلین، انٹیلی جنس رپورٹس حاصل کی گئیں۔ مذکورہ رپورٹ پڑھ کر یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ پاکستانی شہریوں اور اہم شخصیات کی جاسوسی بہت بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے، یعنی ہمارا  ایس ایم ایس، ای میل اور دیگر ذاتی اور حساس نوعیت کا ڈیٹا مسلسل نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے پاس جمع ہو رہا ہے۔

اسی سلسلے میں پاکستان کے حوالے سے امریکی عزائم افشا کرتی ایک اور نہایت اہم دستاویز NSA Black Budget Summary ہے۔ یہ دستاویز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ۲۹؍اگست ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں افشا کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ۲۰۱۳ئکے لیے ۶ء۵۲ بلین ڈالر کے خطیر بجٹ اور اس کے مصارف بیان کیے گئے ہیں۔ قابلِ ذکر اور باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اس بجٹ میں پاکستان  میں جاسوسی سرگرمیوں کے لیے بڑا حصہ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کا سب سے افسوس ناک اور چشم کشا پہلو یہ ہے کہ اس میں پاکستان کو جو کہ کسی زمانے میںغیرناٹو حلیف تھا، اب ایک مشکل سے قابو آنے والا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ یہ چشم کشا اور حقائق پر مبنی معلومات نہ صرف امریکا کی پاکستان دشمنی کی غماز ہیں بلکہ ان تمام محب وطن حلقوں کے شبہات کو بھی تقویت دیتی ہیں جو پاکستان کی سلامتی اور داخلی امور کے حوالے سے امریکا کے مشکوک کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان رپورٹس کے بعد پاکستان امریکا سے جواب طلب کرتا لیکن افسوس کہ ہمارے دفترخارجہ کی طرف سے ایک رسمی بیان تک نہ جاری ہو سکا۔ فراہم کردہ معلومات، ماضی کے کردار اور امریکا کی طرف سے عالمی قوانین کی پامالی کے حوالے سے ایک طویل تاریخ کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا جو اس وقت طاقت کے نشے میں بدمست ہے دنیا کے کسی بھی قانون اور ضابطے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘  کے فلسفے پر کاربند ہے۔ نیشنل سیکیورٹی اور نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں اپنے استعماری ایجنڈے کو پوری دنیا پر بزور طاقت نافذ کرنے کے درپے ہے اور اس کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کی قیادت اس ایجنڈے کے آگے بند باندھنے اور اس کا توڑ کرنے سے قطعی قاصر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے مسلم ممالک اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود امریکا کو آئینہ دکھانا تو دور کی بات اپنے ہی حق کے لیے بھی آواز بلند نہیں کر پا رہے۔

پاکستان جو غیرناٹو حلیف کے درجے سے ترقی پا کر آج ہدف کی منزل تک پہنچ چکا ہے، اس کے حکمرانوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ امریکا کے ساتھ تعاون کی پالیسی اور امریکی جنگ میں شمولیت کے ثمرات آج پاکستان کے طول و عرض میں نظر آنے لگے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی عالمی طاقتوں کے کھیل کے میدان، جب کہ قبائلی علاقہ جات ہماری اپنی عاقبت نااندیشی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب امریکا جو کہ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کا   علَم بردار بنا بیٹھا ہے اس کا حقیق چہرہ دکھایا جائے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جو دراصل امریکی ایجنڈے اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل ہے، سے باہر نکلا جائے اور اس بات پر  غور کیا جائے کہ امریکا کا ساتھ دے کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

حالیہ بحث اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردِ عمل سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس حوالے سے تین نکات بہت اہمیت کے حامل ہیں جن کو حل کرنا دنیا کے تحفظ کے لیے اور خود امریکا کے اپنے تشخص کے لیے بے حد ضروری ہے :

۱-قومی سلامتی کے اداروں کے طریقہ کار اور فرد کی پرائیویسی کے تحفظ کے درمیان توازن، معلومات تک رسائی کے حوالے سے موجودہ قوانین کا از سرِ نو جائزہ اور خود کا ر احتسابی نظام کی تشکیل۔

۲-اختیارات کے ناجائز استعمال اور فرد کی ذاتی معلومات کے مجرو ح ہونے کی صورت میں قانونی ضمانت، جب کہ دوسرے ملکوں کی آزادی اور سلامتی کی ضمانت کے سلسلے میں بین الاقوامی قوانین کی مکمل اور بلاامتیاز پاس داری ۔

۳-صرف اسلامی ہی نہیں بلکہ انسانی نقطۂ نگاہ سے ٹکنالوجی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور تمام مذاہب، رنگ و نسل اور اقوام کی عزت و ناموس کے حوالے سے مؤثر قانون سازی اور ضابطۂ اخلاق بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ نہ صرف فرد کی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے بلکہ ادیان عالم اور اقوام کی عزت و ناموس اور سلامتی کا بھی پاس رکھا جاسکے۔

ہماری نظر میں مؤثر قانون سازی کے بغیر یہ مسئلہ ایک گمبھیر صورت حال اختیار کرتے ہوئے اب عالمی مسئلے کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ لہٰذا تمام اقوام کو متحدہو کر اقوام متحدہ کی سطح پر اس مسئلے کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے چاہییں، تاکہ یہ دنیا رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بن سکے جہاں تمام اقوام امن، عزت اور برابری کے حقوق کے تحت مل جل کر جینے کا حق پاسکیں۔

(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)

امریکی جریدے فارن پالیسی کی ۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء کی رپورٹWhy is Saudi Arabia buying 15,000 US Anti-Tank missiles for a war it will never fight?  (سعودی عرب ۱۵ہزار امریکی اینٹی ٹینک میزائل ایک ایسی جنگ کے لیے کیوں خرید رہا ہے جو کبھی نہ لڑی جائے گی؟)کے مطابق سعودی عرب اور امریکا کے مابین جدید اسلحے کی خریداری کے لیے ایک بڑے سودے پر بات چیت جاری ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے امریکا سے انتہائی جدید ترین ۱۵ہزار ریتھون اینٹی ٹینک میزائل خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس کی مالیت ایک ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

بین الاقوامی دفاعی امور پر نظر رکھنے والے ادارے International Institute of Stratagic Studiesکی رپورٹ Military Balance 2014کے مطابق سعودی عرب کے پاس پہلے ہی یہ میزائل ۴ہزار کی تعداد میں موجود ہیںجو کہ ۲۰۰۹ء میں کیے گئے سودے کے نتیجے میں سعودی عرب کو حاصل ہوئے تھے۔اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے کہ بالآخر وہ کون سی ایسی ضرورت ہے جو سعودی عرب کو مزید ۱۵ہزار اینٹی ٹینک میزائل خریدنے پر مجبور کر رہی ہے؟   یہ یقینا بہت اہم سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

سویڈن میں قائم ایک معتبر ادارہStockholm International Peace Research Institute (SIPRI)جو گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر کے ممالک کے دفاعی اخراجات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کی رپورٹ Trends in World's Military Expenditure 2012 کے مطابق دنیا کے ۱۵بڑے دفاعی اخراجات کے حامل ممالک میں سعودی عرب اس وقت ساتویں نمبر پر ہے۔ اسی ادارے کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ۲۰۱۱ء میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ لیکن ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب کے دفاعی اخراجات کی مد میں ۲۰۱۱ء کی نسبت۱۲ فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ سعودی عرب کے کل جی ڈی پی کا ۹ء۸ فی صد بنتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء سعودی عرب کے دفاعی بجٹ میں کُل۱۱۱فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔لہٰذا اپنے جی ڈی پی کے تناسب کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا میں دفاعی اخراجات کی مد میں بجٹ خرچ کرنے والاسب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔سال ۲۰۱۲ء میں اس کے دفاعی اخراجات کا بجٹ ۷ء۵۶ ارب امریکی ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔

سعودی عرب کے بعد دوسرا عرب ملک جس کے دفاعی اخراجات میں اچانک بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ ریاست عمان ہے۔عرب ریاست عمان جس کی کل آبادی تقریباً ۴۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور مالی لحاظ سے بھی دیگر امیر ریاستوں کی بہ نسبت کمزور ہے، اب وہ دوسری بڑی ریاست بن چکی ہے جو کہ سعودی عرب کے بعد اپنے دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔SIPRI ہی کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے دفاعی اخراجات میں ڈرامائی اضافہ کرتے ہوئے سال ۲۰۱۱ء کی نسبت اچانک ۵۱ فی صد اضافہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمان نے اپنے حالیہ ۲۰۱۳ء کے بجٹ میں دفاع کی مد میں ۵۴ء۳۳ ارب امریکی ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو کہ سال ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں ۵ء۷ ارب امریکی ڈالر زیادہ ہے۔ SIPRIکی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے کُل جی ڈی پی کا ۵ء۸ فی صد دفاع پر خرچ کیا ۔

اسلحے کی اس دوڑ میں تیسری عرب ریاست کویت ہے۔SIPRIکی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے بھی ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء کے دفاعی اخراجات میں ۱۰فی صد اضافہ کیا ہے، جب کہ SIPRI ہی کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے سال ۲۰۱۱ء میں دفاع کی مد میں کُل ۵۶۴۰ملین امریکی ڈالر خرچ کیے۔دیگر عرب ریاستیں جن میں بحرین اور قطر شامل ہیں نے بھی سال ۲۰۱۲ء میں اپنے دفاعی اخراجات کی مد میں مسلسل اضافہ کیاہے ۔

عرب ریاستیں کیونکہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں زیادہ آگے نہیں ہیں، لہٰذا وہ اپنی دفاعی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مغربی ممالک پر ہی انحصار کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان کی دفاعی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے اور ہتھیار اور ان کے فاضل پُرزے مسلسل مغربی ممالک سے حاصل کیے جارہے ہیں، جو ان کی دفاعی صنعت کی تقویت کا باعث ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس وقت دنیا بھر میں اسلحے کے سب سے بڑے  ڈیلر امریکا کی بہترین گاہک ہیں اور مشرقِ وسطیٰ مغربی ممالک کے اسلحے کی خریداری کے حوالے سے سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔۲۰۱۰ء میں SIPRI کی جاری کردہ ایک اور رپورٹ Military Spending and Arms Procurment 2010کے مطابق ان تمام تر دفاعی سودوں میں سب سے زیادہ فائدہ بالترتیب امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اٹھایا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق عرب ریاستوں کے ہر۱۰۰ میں سے ۷۰ سودے امریکی اسلحہ ساز اداروں سے ہی ہوتے ہیں۔   جس کے نتیجے میں ہر سال عرب ریاستوں کے کئی سو ارب امریکی ڈالرامریکا کے اسلحہ ساز اداروں کے اکائونٹس میں چلے جاتے ہیں۔اب اگر ان بھاری بھرکم فوجی اخراجات کے مقابلے میں عرب ریاستوں کو لاحق بیرونی خطرات کا جائزہ لیا جائے تو اور بھی پریشان کن سوالات جنم لیتے ہیں۔

ماضی کی باہمی جنگوں کے تناظر میںعرب ریاستوں کے لیے ایک بڑا خطرہ عراق ہو سکتا تھا۔ لیکن امریکا کے ہاتھوں عراق کی تباہی و بربادی کے بعد اب وہ خطرہ کافی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ایران اور روس کی پشت پناہی کے نتیجے میں شام جو کہ خطے میں ایک اُبھرتی ہوئی بڑی فوجی قوت تھا اس وقت داخلی انتشار و تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اب وہ کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔باوجود اس کے کہ ایران کو عرب ریاستوں کے خلاف ایک ہوّے کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن ایران، جو دو دہائیوں کی سخت پابندیوں اور تنہائی کے بعد ایک دفعہ پھر عالمی برادری میں اپنا مثبت تاثر قائم کرنے کی طرف جا رہا ہے، کا بھی فوری طور پر کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب مشکل ہے۔ رہا اسرائیل کا خطرہ___ جو اصل خطرہ ہے، اس سے ان تمام ہی ممالک کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور یہ سب اسرائیل سے کھلے یا خفیہ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یہ تمام حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں کہ خلیجی ممالک کے اعلیٰ ترین اجتماع میں سکائپ (بذریعہ انٹرنیٹ) کے ذریعے خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے شرکت کی ہے جس پر امریکی تجزیہ نگار بھی تعجب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ خصوصیت سے بین الاقوامی نیویارک ٹائمز کے تجزیہ کار فریڈمین کا مضمون چشم کشا ہے۔ لہٰذا اس مختصر جائزے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب ریاستوں کو فی الحال کسی سنگین اور فوری نوعیت کے بیرونی خطرے کی پیش بندی کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ روزبروز بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کیوں؟

مشرق وسطیٰ سے جاری ہونے والے انگریزی اخبار (الاخبار)کے تجزیہ نگار Raymond Barrett کے مضمون New Trends in Arab Defence Spendings (عرب دفاعی اخراجات میں نئے رجحانات) کے مطابق عرب ریاستیں جیسا کہ بحرین ، کویت اور سعودی عرب اس وقت گذشتہ عرب بہار کے خوف سے خارجی سے زیادہ اپنی داخلی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں، Raymond Barrettکا یہ تجزیہ کافی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ عرب ریاستوں خصوصاً بحرین ، کویت اور سعودی عرب کی جانب سے الیکٹرانک سرویلنس اوردیگر جاسوسی کے آلات کی خریداری اور سوشل میڈیا اور موبائل فون پر سخت نگرانی کے نظام کا حصول اُن کے اِس داخلی سلامتی کے حوالے سے خوف کی غمازی کرتا ہے۔طویل اور جابرانہ آمریت کے بعد مصر اور تیونس میں سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے نتیجے میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد سے دیگر عرب ریاستوں میں سوشل میڈیا ویب سائٹس اور موبائل فونز کی نگرانی اور اس کے نتیجے میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی عرب ریاستوں کے اسی داخلی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش کی غمازہیں۔

ماضی میں شام کی طرف سے روس اورچین سے اسرائیل کے نام پر خریدے گئے ہتھیار بھی بشار الا سد اپنے ہی ملک کے عوام کو تباہ و برباد کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ جن میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے، جو کہ سنگین جنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق، جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہی صورت حال عرب ملک مصر کی ہے۔ جہاں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں کے فوجی آمر کی طرف سے اپنے ہی عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کو کچلنے کے لیے بے دریغ گن شپ ہیلی کاپٹر اور ٹینکوں کا استعمال کیا گیا۔لہٰذا جو بجٹ عرب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا وہی اب ان کے جمہوری حقوق کی پامالی کے لیے داخلی سلامتی اور دہشت گردی کو کچلنے کے نام پر استعمال ہو رہا ہے۔

ایک طرف اسلحے کی خریداری کی یہ ریل پیل ہے اور دوسری طرف ان ممالک اور دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کے عوام کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت دگرگوں ہے۔ آئی ایم ایف کی شائع کردہ رپورٹ Prespectives on Youth Employment in Arab World 2012 جو کے ورلڈ اکنامک فورم کے تحت شائع کی گئی کے مطابق اس وقت مشرقِ وسطیٰ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے پوری دنیا میں بدترین صورت حال سے دوچار ہے، جہاں  نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۲۵ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔امریکا کے عراق پر قبضے اور شامی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہاجرین کا مسئلہ ایک انسانی بحران کی کیفیت اختیار کرچکا ہے اوراس حوالے سے دسمبر کے مہینے میں اقوامِ متحدہ نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدا د کی اپیل جاری کی ہے۔

بچوں میں پولیو وائرس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ایک بار پھر سر اُٹھا چکا ہے۔ لیکن عرب ریاستیں ان حقیقی مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے سے اغماض برت رہی ہیں اور جو بجٹ عوام کی فلاح و بہبود ،تعمیر و ترقی ،تعلیم و صحت اور دیگر اس جیسی شہری سہولیات پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ اب غیر ضروری اور محض تصوراتی خوف پر مبنی دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ منجملہ دیگر اُمور امریکا کی War on Terrorکے نام سے پوری دنیا میں پھیلائی ہوئی دہشت ہے کہ جس کے نتیجے میں امریکا سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک اپنے ہی عوام کی جاسوسی اور نگرانی جیسے جنون کی وجہ سے عوامی فلاح کابجٹ سیاسی مفادات کے لیے ضائع ہو رہا ہے۔ اور اس کا اصل فائدہ مغربی ممالک اور خصوصیت سے ان کے ہتھیار بنانے والے ادارے اُٹھارہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب مسلم دنیا اپنی ترجیحات کاازخود تعین کرتے ہوئے، مغربی پروپیگنڈے سے باہر نکل کر انھیں ازسرِنو مرتب کرے اوراپنے عوام کو جائز شہری وسیاسی حقوق، جمہوری روایات اور تعلیم و صحت جیسی فلاحی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بجٹ کو صرف کرے، تاکہ آج کی مسلم دنیا بھی تعلیم و ترقی کے میدان میں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔

(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)