امریکی جریدے فارن پالیسی کی ۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء کی رپورٹWhy is Saudi Arabia buying 15,000 US Anti-Tank missiles for a war it will never fight? (سعودی عرب ۱۵ہزار امریکی اینٹی ٹینک میزائل ایک ایسی جنگ کے لیے کیوں خرید رہا ہے جو کبھی نہ لڑی جائے گی؟)کے مطابق سعودی عرب اور امریکا کے مابین جدید اسلحے کی خریداری کے لیے ایک بڑے سودے پر بات چیت جاری ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے امریکا سے انتہائی جدید ترین ۱۵ہزار ریتھون اینٹی ٹینک میزائل خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس کی مالیت ایک ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔
بین الاقوامی دفاعی امور پر نظر رکھنے والے ادارے International Institute of Stratagic Studiesکی رپورٹ Military Balance 2014کے مطابق سعودی عرب کے پاس پہلے ہی یہ میزائل ۴ہزار کی تعداد میں موجود ہیںجو کہ ۲۰۰۹ء میں کیے گئے سودے کے نتیجے میں سعودی عرب کو حاصل ہوئے تھے۔اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے کہ بالآخر وہ کون سی ایسی ضرورت ہے جو سعودی عرب کو مزید ۱۵ہزار اینٹی ٹینک میزائل خریدنے پر مجبور کر رہی ہے؟ یہ یقینا بہت اہم سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔
سویڈن میں قائم ایک معتبر ادارہStockholm International Peace Research Institute (SIPRI)جو گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر کے ممالک کے دفاعی اخراجات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کی رپورٹ Trends in World's Military Expenditure 2012 کے مطابق دنیا کے ۱۵بڑے دفاعی اخراجات کے حامل ممالک میں سعودی عرب اس وقت ساتویں نمبر پر ہے۔ اسی ادارے کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ۲۰۱۱ء میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ لیکن ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب کے دفاعی اخراجات کی مد میں ۲۰۱۱ء کی نسبت۱۲ فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ سعودی عرب کے کل جی ڈی پی کا ۹ء۸ فی صد بنتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء سعودی عرب کے دفاعی بجٹ میں کُل۱۱۱فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔لہٰذا اپنے جی ڈی پی کے تناسب کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا میں دفاعی اخراجات کی مد میں بجٹ خرچ کرنے والاسب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔سال ۲۰۱۲ء میں اس کے دفاعی اخراجات کا بجٹ ۷ء۵۶ ارب امریکی ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کے بعد دوسرا عرب ملک جس کے دفاعی اخراجات میں اچانک بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ ریاست عمان ہے۔عرب ریاست عمان جس کی کل آبادی تقریباً ۴۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور مالی لحاظ سے بھی دیگر امیر ریاستوں کی بہ نسبت کمزور ہے، اب وہ دوسری بڑی ریاست بن چکی ہے جو کہ سعودی عرب کے بعد اپنے دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔SIPRI ہی کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے دفاعی اخراجات میں ڈرامائی اضافہ کرتے ہوئے سال ۲۰۱۱ء کی نسبت اچانک ۵۱ فی صد اضافہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمان نے اپنے حالیہ ۲۰۱۳ء کے بجٹ میں دفاع کی مد میں ۵۴ء۳۳ ارب امریکی ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو کہ سال ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں ۵ء۷ ارب امریکی ڈالر زیادہ ہے۔ SIPRIکی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے کُل جی ڈی پی کا ۵ء۸ فی صد دفاع پر خرچ کیا ۔
اسلحے کی اس دوڑ میں تیسری عرب ریاست کویت ہے۔SIPRIکی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے بھی ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء کے دفاعی اخراجات میں ۱۰فی صد اضافہ کیا ہے، جب کہ SIPRI ہی کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے سال ۲۰۱۱ء میں دفاع کی مد میں کُل ۵۶۴۰ملین امریکی ڈالر خرچ کیے۔دیگر عرب ریاستیں جن میں بحرین اور قطر شامل ہیں نے بھی سال ۲۰۱۲ء میں اپنے دفاعی اخراجات کی مد میں مسلسل اضافہ کیاہے ۔
عرب ریاستیں کیونکہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں زیادہ آگے نہیں ہیں، لہٰذا وہ اپنی دفاعی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مغربی ممالک پر ہی انحصار کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان کی دفاعی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے اور ہتھیار اور ان کے فاضل پُرزے مسلسل مغربی ممالک سے حاصل کیے جارہے ہیں، جو ان کی دفاعی صنعت کی تقویت کا باعث ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس وقت دنیا بھر میں اسلحے کے سب سے بڑے ڈیلر امریکا کی بہترین گاہک ہیں اور مشرقِ وسطیٰ مغربی ممالک کے اسلحے کی خریداری کے حوالے سے سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔۲۰۱۰ء میں SIPRI کی جاری کردہ ایک اور رپورٹ Military Spending and Arms Procurment 2010کے مطابق ان تمام تر دفاعی سودوں میں سب سے زیادہ فائدہ بالترتیب امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اٹھایا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق عرب ریاستوں کے ہر۱۰۰ میں سے ۷۰ سودے امریکی اسلحہ ساز اداروں سے ہی ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر سال عرب ریاستوں کے کئی سو ارب امریکی ڈالرامریکا کے اسلحہ ساز اداروں کے اکائونٹس میں چلے جاتے ہیں۔اب اگر ان بھاری بھرکم فوجی اخراجات کے مقابلے میں عرب ریاستوں کو لاحق بیرونی خطرات کا جائزہ لیا جائے تو اور بھی پریشان کن سوالات جنم لیتے ہیں۔
ماضی کی باہمی جنگوں کے تناظر میںعرب ریاستوں کے لیے ایک بڑا خطرہ عراق ہو سکتا تھا۔ لیکن امریکا کے ہاتھوں عراق کی تباہی و بربادی کے بعد اب وہ خطرہ کافی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ایران اور روس کی پشت پناہی کے نتیجے میں شام جو کہ خطے میں ایک اُبھرتی ہوئی بڑی فوجی قوت تھا اس وقت داخلی انتشار و تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اب وہ کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔باوجود اس کے کہ ایران کو عرب ریاستوں کے خلاف ایک ہوّے کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن ایران، جو دو دہائیوں کی سخت پابندیوں اور تنہائی کے بعد ایک دفعہ پھر عالمی برادری میں اپنا مثبت تاثر قائم کرنے کی طرف جا رہا ہے، کا بھی فوری طور پر کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب مشکل ہے۔ رہا اسرائیل کا خطرہ___ جو اصل خطرہ ہے، اس سے ان تمام ہی ممالک کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور یہ سب اسرائیل سے کھلے یا خفیہ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یہ تمام حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں کہ خلیجی ممالک کے اعلیٰ ترین اجتماع میں سکائپ (بذریعہ انٹرنیٹ) کے ذریعے خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے شرکت کی ہے جس پر امریکی تجزیہ نگار بھی تعجب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ خصوصیت سے بین الاقوامی نیویارک ٹائمز کے تجزیہ کار فریڈمین کا مضمون چشم کشا ہے۔ لہٰذا اس مختصر جائزے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب ریاستوں کو فی الحال کسی سنگین اور فوری نوعیت کے بیرونی خطرے کی پیش بندی کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ روزبروز بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کیوں؟
مشرق وسطیٰ سے جاری ہونے والے انگریزی اخبار (الاخبار)کے تجزیہ نگار Raymond Barrett کے مضمون New Trends in Arab Defence Spendings (عرب دفاعی اخراجات میں نئے رجحانات) کے مطابق عرب ریاستیں جیسا کہ بحرین ، کویت اور سعودی عرب اس وقت گذشتہ عرب بہار کے خوف سے خارجی سے زیادہ اپنی داخلی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں، Raymond Barrettکا یہ تجزیہ کافی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ عرب ریاستوں خصوصاً بحرین ، کویت اور سعودی عرب کی جانب سے الیکٹرانک سرویلنس اوردیگر جاسوسی کے آلات کی خریداری اور سوشل میڈیا اور موبائل فون پر سخت نگرانی کے نظام کا حصول اُن کے اِس داخلی سلامتی کے حوالے سے خوف کی غمازی کرتا ہے۔طویل اور جابرانہ آمریت کے بعد مصر اور تیونس میں سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے نتیجے میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد سے دیگر عرب ریاستوں میں سوشل میڈیا ویب سائٹس اور موبائل فونز کی نگرانی اور اس کے نتیجے میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی عرب ریاستوں کے اسی داخلی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش کی غمازہیں۔
ماضی میں شام کی طرف سے روس اورچین سے اسرائیل کے نام پر خریدے گئے ہتھیار بھی بشار الا سد اپنے ہی ملک کے عوام کو تباہ و برباد کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ جن میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے، جو کہ سنگین جنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق، جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہی صورت حال عرب ملک مصر کی ہے۔ جہاں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں کے فوجی آمر کی طرف سے اپنے ہی عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کو کچلنے کے لیے بے دریغ گن شپ ہیلی کاپٹر اور ٹینکوں کا استعمال کیا گیا۔لہٰذا جو بجٹ عرب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا وہی اب ان کے جمہوری حقوق کی پامالی کے لیے داخلی سلامتی اور دہشت گردی کو کچلنے کے نام پر استعمال ہو رہا ہے۔
ایک طرف اسلحے کی خریداری کی یہ ریل پیل ہے اور دوسری طرف ان ممالک اور دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کے عوام کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت دگرگوں ہے۔ آئی ایم ایف کی شائع کردہ رپورٹ Prespectives on Youth Employment in Arab World 2012 جو کے ورلڈ اکنامک فورم کے تحت شائع کی گئی کے مطابق اس وقت مشرقِ وسطیٰ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے پوری دنیا میں بدترین صورت حال سے دوچار ہے، جہاں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۲۵ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔امریکا کے عراق پر قبضے اور شامی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہاجرین کا مسئلہ ایک انسانی بحران کی کیفیت اختیار کرچکا ہے اوراس حوالے سے دسمبر کے مہینے میں اقوامِ متحدہ نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدا د کی اپیل جاری کی ہے۔
بچوں میں پولیو وائرس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ایک بار پھر سر اُٹھا چکا ہے۔ لیکن عرب ریاستیں ان حقیقی مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے سے اغماض برت رہی ہیں اور جو بجٹ عوام کی فلاح و بہبود ،تعمیر و ترقی ،تعلیم و صحت اور دیگر اس جیسی شہری سہولیات پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ اب غیر ضروری اور محض تصوراتی خوف پر مبنی دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ منجملہ دیگر اُمور امریکا کی War on Terrorکے نام سے پوری دنیا میں پھیلائی ہوئی دہشت ہے کہ جس کے نتیجے میں امریکا سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک اپنے ہی عوام کی جاسوسی اور نگرانی جیسے جنون کی وجہ سے عوامی فلاح کابجٹ سیاسی مفادات کے لیے ضائع ہو رہا ہے۔ اور اس کا اصل فائدہ مغربی ممالک اور خصوصیت سے ان کے ہتھیار بنانے والے ادارے اُٹھارہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب مسلم دنیا اپنی ترجیحات کاازخود تعین کرتے ہوئے، مغربی پروپیگنڈے سے باہر نکل کر انھیں ازسرِنو مرتب کرے اوراپنے عوام کو جائز شہری وسیاسی حقوق، جمہوری روایات اور تعلیم و صحت جیسی فلاحی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بجٹ کو صرف کرے، تاکہ آج کی مسلم دنیا بھی تعلیم و ترقی کے میدان میں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔
(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)