لیکن یہاں اسی سلسلے میں اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔ حکومت کی عین سرپرستی میں دیہات میں تہذیب اور کلچر کے فروغ کے لیے اورسوشل اصلاح و ترقی کے لیے نوجوان عورتوں اور مردوں کے مخلوط تربیتی مراکز کھول کر چپ چاپ ہمارے معاشرے کی بنیادوں کے نیچے ڈائنامیٹ رکھے جارہے ہیں۔ ان سنٹروں کے تربیتی کام کے اہم پہلو یہ ہیں: lعورتوں اور مردوں میں بے تکلفانہ میل جول بڑھانا lپردے اور اسلامی معاشرت کی دوسری قدروں کا خاتمہ lمذہب کی تضحیک کرنا اور اس سے تنفر اور گریز پیدا کرنا lمغربی آرٹ اور کلچر کا ذوق اُبھارنا.....
ہمیں بتایا جائے کہ یہ سب کس اسلام کے کرشمے ہیں؟ کیا ان رنگ رلیوں کو اپنی سرپرستی سے نوازنے کی پالیسی قرار دادِ مقاصد کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ کیا یہ مساعی ایسی فضا تعمیرکرنے کے لیے ہیں جس میں مسلمان اپنی زندگیوں کو کتاب و سنت کے اُصولوں پر استوار کرسکیں؟
کیا یہ عوام کے معیارِ اخلاق کو بلند کرنے کا اہتمام ہے؟ کیا یہ زنا کو اُس کی ہرشکل میں ختم کردینے کی مہم ہے؟ کیا یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی اسکیم کا کوئی حصہ ہے؟
اِن چیزوں پر روپیہ صرف ہوتا ہے، وقت صرف ہوتا ہے، دماغی اور جسمانی قوتیں صرف ہوتی ہیں، لہٰذا قوم کو بتایئے تو سہی اس کے طے کردہ مقاصد میں سے یہ کس مقصد کی خدمت ہے؟
اس قوم کو دفاع کی قوت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، یہ تعلیمی اداروں کو توسیع دینے کی محتاج ہے، یہ صحت ِ عامہ کی سرگرمیوں کے معاملے میں سخت کوتاہ ہے، یہ اخلاقی بحالی کے لیے اکابر کی خدمات کی منّت کش ہے، یہ بے روزگاری کے چنگل سے نکلنے کے لیے سخت جدوجہد کی منتظر ہے___ ذرا بتایئے تو سہی کہ ان حقیقی قومی ضروریات کے لیے آپ نے کیا کچھ کیا؟ کیا آپ اِن ابتدائی فرائض سے فارغ ہوچکے ہیں کہ اب ’طائوس و رباب‘ کی سرمستیوں میں کھوجانے کا موقع نکل آیا ہے؟(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۴-۵، ربیع الثانی ، جمادی الاول ۱۳۷۳ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۴ء، ص۷، ۱۴-۱۵)