’عبدالقادر مُلّا کی شہادت: انصاف اور انسانیت کا قتل‘ (جنوری ۲۰۱۴ء)،بلاشبہہ ایک بے گناہ اور بے ضرر انسان کا قتل سیاسی انتقام ہے۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اسلام دشمنی میں ایک ایسا گھنائونا اقدام کیا ہے جس کی تاریخ مثال پیش نہیں کرسکتی۔ عبدالقادر مُلّا ایک بے ضرر انسان تھے اور ان کا ماضی بے داغ تھا۔ پھانسی کی سزا کے اعلان پر ترکی کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو ٹیلی فون کیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو پھانسی تاریخی غلطی ہوگی اور یہ جمہوریت کی بھی موت ہوگی!‘‘ لیکن بنگلہ دیشی وزیراعظم اپنے موقف پر قائم رہیں اور اعلان کیا کہ ’’کوئی بڑی سے بڑی ٹیلی فون کال بھی ان افراد کو پھانسی دینے سے نہیں روک سکتی‘‘۔ وزیراعظم بنگلہ دیش کا یہ اقدام سراسر زیادتی و ظلم ہے۔ عبدالقادر مُلّا اسلام کی بالادستی کا علَم بردار تھا اسی جرم میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ ان شاء اللہ عبدالقادر مُلّا کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی اور بنگلہ دیش سپریم کورٹ کی پیشانی پر جو کلنک کاٹیکہ لگا ہے وہ رہتی دنیا تک ان کے لیے باعث عار وشرم رہے گا۔نیویارک ٹائمز نے صحیح لکھا ہے کہ ’’بنگلہ دیش میں انصاف کا تماشا بن چکا ہے‘‘۔
’عبدالقادرمُلّا کی شہادت: انصاف اور انسانیت کا قتل‘(جنوری ۲۰۱۴ء) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے جس طرح سے حقائق پیش کیے، ان سے مسئلے کی نوعیت پوری طرح اُجاگر ہوئی ۔ یقینا عبدالقادر مُلّا کی شہادت انصاف اور انسانیت کا قتل ہے۔ انھیں بے بنیاد الزامات کے تحت پھانسی دی گئی اور جس جانب داری اور صریح ناانصافی کے ساتھ مقدمے کی کارروائی کی گئی اس پر عالمی ردعمل بھی سامنے آیا۔ تاہم پاکستان جو ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے میں ایک فریق تھا اس نے سیاسی، سفارتی اور عالمی سطح پر جو کردار ادا کیا وہ یقینا شرم ناک ہے۔
عبدالقادر مُلّا کی شہادت ایک سانحے سے کم نہیں۔ اس پر پاکستان کی حکومت کا رویہ قابلِ مذمت ہی نہیں شرم ناک بھی ہے۔ خدا شہید کی قربانی کو قبول فرمائے اور اس کے ثمرات سے اُمت مسلمہ کو نوازے اور مظلوم خانہ نشینوں کی بحالی کی بھی کوئی صورت نکالے جو ایک مدت سے اس کی راہ تک رہے ہیں۔
مصر میں دستور پر ریفرنڈم (جنوری ۲۰۱۴ء) کے بارے میں جناب عبدالغفار عزیز نے اہم تجزیہ پیش کیا ہے۔ اخوان کی لازوال اور بے مثال قربانیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ لیکن فوجی آمریت بے انتہا ظالمانہ اور مکارانہ اقدامات کے ذریعے اپنی آمرانہ حاکمیت کو دوام بخشنے کے لیے کوشاں ہے۔ غیرقانونی اور غیرآئینی ہتھکنڈوں کے ذریعے جنرل سیسی اپنے مفادات کے حصول کے لیے ریفرنڈم کا سہارا لے رہا ہے اور ہمیشہ ڈکٹیٹروں کی طرح تاحیات حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یہاں مغربی جمہوریت کی دل دادہ بین الاقوامی طاقتیں بھی نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ جنرل سیسی کا کندھا تھپتھپا رہی ہیں۔ ان ظالموں کو نہ جمہوریت سے مطلب ہے نہ آمریت سے غرض، بلکہ اسلام دشمنی میں اندھے ہوکر اپنے ہی اصولوں اور ضابطوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اِن حالات میں اخوان المسلمون اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔
’نماز اور صحت‘ (دسمبر ۲۰۱۳ء) پڑھا، آگاہی کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ مقالہ نگار نے کوئی پہلو اُدھورا نہیں چھوڑا۔ ہرشخص کو یہ مضمون پڑھنا چاہیے اور ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر پروفیسر نورالدین نور مرحوم نے ایک بار اپنے تبلیغی لیکچر میں کہا تھا کہ وہ امریکا گئے وہاں انھوں نے امریکی ڈاکٹروں کے سامنے خود یا کسی نے نماز پڑھنے کی پوری ترکیب کا عملاً مظاہرہ (demostration) کیا، تو انھوں نے کہا کہ یہ تو پوری exercise ہے۔ لیکن اس مضمون میں مقالہ نگار نے تو ایک ایک اعضا پر مفصل بیان دیا ہے اور وہ مفید بھی ہے اور عقل افزا بھی۔
جنوری ۲۰۱۴ء کا شمارہ اپنی روایتی آب و تاب و پُرمغز مضامین سے بھرپور تھا۔ عبدالقادر مُلّا کی شہادت، یقینا اس خطے میں تحریکِ اسلامی کے مزید عروج کا سبب بنے گی۔ افغانستان سے امریکی افواج کے ممکنہ انخلا کے بعد کے پی کے اور قبائلی پٹی میں پختون عوام اور افغان عوام کا دل جیتنے کے لیے ایک ہمہ گیر، مؤثر اور مخلصانہ خارجہ اور داخلہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیرت النبیؐ پر ’منتخب مضامین‘ شائع کرنے کے بجاے تحریکی رہنمائوں کے عصرِحاضر کے تناظر میں پیغامِ مصطفیؐ کے موضوع پر مضامین ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا مضمون چشم کشا ہے، واقعتا مغربی حکمت عملی کو پوری قوت سے نافذ کیا جارہا ہے۔ کراچی کے حالات پر زاہد عسکری صاحب نے خوب تجزیہ کیا ۔ مصر اور افغانستان کی صورت حال پر مضامین معلومات افزا اور خوب تھے۔ شام کے حوالے سے مضمون پڑھ کر تشنگی برقرار رہی۔ شامی حزبِ اختلاف کے مختلف گروپوں (عسکری، سیاسی) ، اُن کی باہمی چپقلش، اخوان کے کردار اور القاعدہ کے عمل دخل کے حوالے سے کوئی تفصیلی مضمون درکار ہے۔