بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ حسب ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے:
میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۷۱ء کی مناسبت سے کوئی اچھی راے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانش وروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں [بنگلہ دیش کے حوالے سے] بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں [مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ] جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گویا کہ ۱۹۷۱ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔
یہ تحریر بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر کی ہے، جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور خالدہ ضیا کے مشیر بھی ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے اعتراف میں بنگلہ دیش نے انھیں دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا ہے۔ انھوں نے یہ احساسات اپنے فیس بک اکائونٹ پر ۱۸جنوری ۲۰۱۴ء کو مشتہرکیے۔ انھی بیرسٹر شاہ جہاں عمر نے عبدالقادر کی شہادت کے دو روز بعد ۱۴دسمبر ۲۰۱۳ء کو لکھا تھا:
وہ لوگ جو عبدالقادر کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور یہ لوگ ایک غیرانسانی اور وحشیانہ عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن ان ایک ہزار پاگلوں کے مقابلے میں ۱۰۰ سے زیادہ مقامات پر لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر کی شہادت پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اس ابدی سچائی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مظلوم انسان تھا، جسے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اُس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز نے ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر اور گذشتہ ۱۰ برسوں سے حکمران وزیراعظم من موہن سنگھ اس مناسبت سے ایک دل چسپ کردار ہیں۔ جنھوں نے: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے مجوزہ دورے سے قبل۳۰جون ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:
بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم ۲۵ فی صد آبادی اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔
وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس ’فکرمندی‘ اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کچلنے کی خواہش کو معلوم نہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کس نظر سے دیکھتی ہے، تاہم عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے ۱۹۷۱ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی کہ جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت یہ کام کھل کر ، کررہی ہے اور پاکستان میں یہ ظلم ’مادرپدر آزاد میڈیا‘ اور وفاقی حکومت میں گھسے کچھ عناصر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت انجام گلستان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔