اُردو زبان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ سیرت النبیؐ پر سب سے زیادہ کتابیں اسی زبان میں لکھی جارہی ہیں۔ پروفیسر شاکر مرحوم کے قائم کردہ کتب خانے ’بیت الحکمت‘ میں دنیا کی ۲۵زبانوں میں ۵ ہزار سے زائد کتب ِسیرت موجود ہیں۔(ص ۸)
زیرنظر کتاب مصنف کی ریڈیائی تقریروں، رسائل میں شائع شدہ مضامین، مقالات اور چند خطبات پر مشتمل ہے۔ مندرجات ۴۰ عنوانات پر محیط ہیں، ان کے تحت سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔چندعنوانات: سیرت النبیؐ کے اختیارات، نبی رحمتؐ صاحب ِ خلق عظیم، حضور اکرمؐ بحیثیت رہبر امورخارجہ، حضوؐر بحیثیت قانون ساز، حضوؐر بحیثیت پیغمبر انقلاب، خطبہ حجۃ الوداع، حضوؐر کی معلّمانہ حکمت عملی، ربیع الاول اور اس کے تقاضے، توہین رسالتؐ اور مغرب، سیدابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت سیرت نگار۔
مصنف نے کوشش کی ہے کہ سیرت النبیؐ کے ان پہلوئوں کو اُجاگر کریں جن کے بارے میں مستشرقین نے حقائق کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔ عہد نبویؐ کے ان مقامات کی اہمیت واضح کی ہے جو آج اپنی اصل حالت میں ہیں اور ان کا تذکرہ کتب سیرت کی زینت ہے۔ جدید عسکری علوم کی روشنی میں حضوراکرمؐ کی دفاعی حکمت عملی کی افہام و تفہیم کی کوشش کی ہے۔ رسولِؐ رحمت کے اسوئہ تعلیمی کے نقوش بحسن و خوبی واضح کیے ہیں۔ مصنف مدت العمر ایک معلم کی حیثیت سے ان تجربات و مشاہدات سے گزرے جو حضوؐر اکرم کی معلّمانہ حیثیت کی تفہیم میں معاون ثابت ہوئے۔
سیرت النبیؐ کا موضوع ایک بحرناپیدا کنار ہے۔ اس کی شناوری پروفیسر عبدالجبار شاکر جیسے مشاق اور صاحب ِعزم انسان ہی کرسکتے تھے۔ سیرت النبیؐ پر ان کی تحاریر و تقاریر کی یہ پہلی جلد ہے۔ مزید کام بھی پیش نظر ہے۔ پروفیسر صاحب موصوف کا اسلوبِ بیان علمی، تحقیقی اور معلوماتی ہے۔ ان کی تحریریں بھی ان کے خطاب کی مانند دل چسپ اور فکرانگیز ہیں۔(ظفرحجازی)
شاہ مصباح الدین شکیل سیرت النبیؐ کے موضوع پر ۱۱سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ سیرت النبیؐ البم مصنف کی منفرد کاوش ہے۔ اس میں سیرتِ رسولؐ کو ایک مختلف زاویے سے پیش کیا گیا ہے، اور تفہیم سیرت کے نئے دریچے کھول دیے گئے ہیں۔
سیرت النبیؐ البم کو ایک البم کی طرح ("۱۲x "۹ سائز) میں آرٹ پیپر پر تزئین و آرایش کے ساتھ خوب صورتی سے شائع کیا گیا ہے۔ البم کا آغاز تعمیرکعبہ کی تاریخ سے ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی بنیاد حضرت آدم ؑ نے رکھی، اس میں نماز پڑھی اور اوّلین طواف کیا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے ۱۰مراحل، دیگر تاریخی پہلوئوں اور مسجدحرم کی توسیعِ جدید کا تذکرہ بھی ہے۔ بعدازاں انبیاے کرام ؑ (حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت عیسٰی ؑ)کی دعوت، جدوجہد اور سیرت عہد بہ عہد ایک سرگذشت کے انداز میں دل چسپ پیرایے میں بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد نبی آخرالزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور انقلابی جدوجہد کو مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے جو اختتامی مرحلے ، یعنی ’رفیق اعلیٰ کی جانب سفر‘ پر منتج ہوتی ہے۔
گویا سیرتِ النبیؐ کے ساتھ ساتھ تاریخِ اسلام اور احیاے اسلام کی جدوجہد مرحلہ وار دل چسپ اور واقعاتی انداز میں ایک تسلسل سے سامنے آجاتی ہے۔ قاری اپنے آپ کو اس جدوجہد میں شریک پاتا ہے اور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ واقعات کے ساتھ ساتھ خوب صورت رنگین تصاویر قاری کا ذوق و انہماک اور بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ البم کا بڑا حصہ نبی اکرمؐ کی سیرت پر مبنی ہے، جسے دیکھ کر، پڑھ کر جہاں حضوؐر سے محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں مختلف آثار و مقامات کی تصاویر دیکھ کر قاری کے دل میں ان مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا بھی تڑپنے لگتی ہے۔ اس تڑپ کو مزید مہمیز حسب موقع اشعار بالخصوص اقبال کے اشعار سے ملتی ہے جن کا عمدگی سے انتخاب کیا گیا ہے۔
یہ اس کتاب کا تیسرا اڈیشن ہے جسے نئے اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی حقانیت کا تازہ ثبوت (اَبرہہ کے لشکر پر ابابیل کے برسائے ہوئے کنکر کی دریافت)، پہلی صدی ہجری کے قدیمی قرآنی نسخے، اور آبِ زم زم پر سائنسی تحقیق کا تذکرہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔ یہ خوب صورت کاوش اور پیش کش پی ایس او کے تعاون سے منظرعام پر آئی ہے۔ دوسرے سرکاری اور کاروباری اداروں کے لیے یہ ایک عمدہ مثال ہے۔(امجد عباسی)
اس سے پہلے فاضل مرتب آخری پارے اور سورئہ بقرہ کا مطالعہ اسی انداز سے پیش کرچکے ہیں۔ ان کے پاس تفسیر کی ۲۹ کتابیں موجود ہیں، بعض آٹھ دس جلدوں میں ہیں۔ ان سب سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے جو بہتر سمجھا ہے حوالے کے ساتھ اس میں شامل کرلیا ہے۔ متن لکھنے کے بعد ترجمہ اور پھر عربی الفاظ کے معانی لکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے لُغات کی چھے کتب سے فائدہ اُٹھایا۔ اسی مفہوم کی دوسری آیت یا حدیث کو تفہیم بالقرآن اور تفہیم بالحدیث کے عنوان سے نقل کیا ہے۔ آخر میں آیت مبارکہ کی حکمت اور بصیرت کے عنوان سے اہم نکات درج کیے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ قاری عربی زبان کو سمجھ کر قرآن پڑھے۔ انھوں نے عربی کے ۱۵؍اسباق بھی دیے ہیں جن کی مشق کرنے سے ضروری فہم حاصل ہوجاتا ہے۔ قرآن کے طالب علم اور درس دینے والے اس تفسیر سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ اس ضخیم کتاب کی مرتب کوئی قیمت نہیں لیتے۔ چنانچہ جو گھر آکر لے وہ لے جاسکتا ہے۔ دوسرے شہروں کے شائقین ۵۰روپے کے ڈاک ٹکٹ ارسال کردیں تو انھیں کتاب بک پوسٹ کردی جائے گی۔(مسلم سجاد)
حُسن و جمال کے لیے پسندیدگی اور اس جانب رغبت انسانی فطرت کا خاصا ہے۔ مسلمانوں نے اس کی تسکین کے لیے خطاطی، نقّاشی، پچی کاری، ظروف سازی، معماری اور اسی طرح کے فنون ایجاد کیے یا ان کی آبیاری کی۔ ان میں خطاطی ایسا فن ہے جس کے لیے لمبے چوڑے اہتمام یا لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قریبی صدیوں میں عالمِ اسلام میں خطِ نسخ اور نستعلیق کی مختلف اقسام کے بیسیوں بلکہ سیکڑوں ماہر خطاط ہوگزرے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند میں بھی بہت سے نام وَر خطاطوں نے شہرت حاصل کی جن میں محمد یوسف دہلوی، پرویں رقم، زریں رقم، حافظ محمد یوسف سدیدی، خلیق ٹونکی اور سیّدانور حسین نفیس رقم (المعروف: سید نفیس الحسینی، ولادت: ۱۹۳۳ء- وصال: ۲۰۰۸ء) کے نام نمایاں ہیں۔ زیرنظر کتاب کے مرتب محمد راشد شیخ کے بقول: مؤخرالذکر ’ایک جامع الکمالات‘ بزرگ تھے۔ ’’وہ ایک نام وَر خطاط‘ شیخ طریقت، محقق، مصنف، شاعر اور کئی دیگر حیثیتوں کے مالک تھے‘‘۔ ۱۹برس کی عمر میں وہ نواے وقت میں بطور خطاط ملازم ہوگئے تھے۔ چارسال کے بعد ۱۹۵۶ء میں استعفا دے دیا اور پھر پایانِ عمر آزادانہ خطاطی کی۔ نوادرِ خطاطی کی تخلیق کے ساتھ شاہ صاحب نے خطاط شاگردوں کے ایک وسیع حلقے کی تربیت بھی کی۔
راشد شیخ لکھتے ہیں: ’’یہ چشمۂ فیض ۵۰سال سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اس عہد میں آپ کے علاوہ کسی اور خطاط سے اس کثیرتعداد میں تلامذہ نے اکتسابِ فن نہ کیا۔ اس طرح شاہ صاحب سے زیادہ کسی خطاط نے کتب کے سرورق نہیں لکھے۔ اس کثرت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی شاید ہی کوئی لائبریری ہوگی جس میں پاکستان کی مطبوعہ دینی و علمی کتب موجود ہوں، اور ان میں شاہ صاحب کے خوب صورت خط کا کوئی نمونہ نہ ہو‘‘۔ (ص ۱۷)
نفیس شاہ صاحب کی شخصیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے خالو صوفی مقبول احمد کے زیراثر، اوائل ہی سے تصوف کی طرف راغب ہوگئے تھے اورعالمِ شباب میں مولانا شاہ عبدالقادرراے پوری کے حلقۂ ادارت میں داخل ہوئے۔
زیرنظر کتاب ان کی مختصر سوانح کے ساتھ ان کے فن اور ان کی خطاطی کے مختلف النوع نمونوں کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ اسے پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں سوانح اور فنِ خطاطی میں شاہ صاحب کے اجتہادات کی تفصیل ہے۔ دوسرے حصے میں نفیس رقم کی تحریرکردہ قرآنی آیات، ان کے تراجم اور احادیث نبویؐ،نیز اسماے حسنہ اور اسماء النبیؐ بھی شامل ہیں۔ تیسرا باب نفیس صاحب کی خطاطی میں اشعار اور اُردوفارسی منظومات پر مشتمل ہے۔ چوتھے باب میں شاہ صاحب کے تحریر کردہ مختلف کتابوں کے سرورق جمع کیے گئے ہیں۔ پانچویں حصے میں ان کے خط میں متفرق عبارات یک جا کی ہیں۔
محمد راشد شیخ پیشے کے اعتبار سے انجینیرہیں مگر عمرانی علوم و فنون کا نہایت عمدہ اور فراواں ذوق رکھتے ہیں جو کبھی تو کتابوں کی تصنیف و تالیف ، کبھی بلندپایہ کتابوں کی باسلیقہ اور معیاری اشاعت اور کبھی خطاطی کے ایسے مرقعے شائع کرنے میں اظہار پاتا ہے۔ اس سے پہلے وہ عالمِ اسلام کے نام وَر خطاطوں کے حالات، خدمات اور ان کے نوادر پر مشتمل ایک خوب صورت کتاب تذکرۂ خطاطین کے نام سے شائع کرچکے ہیں۔ (طبع اوّل اضافہ شدہ اڈیشن ۲۰۰۹ء)
ارمغانِ نفیس بلاشبہہ ایک نہایت خوب صورت اور نفیس مرقّع ہے جو راشدصاحب کی کم و بیش ۱۵برس کی محنت ِشاقہ کا حاصل ہے۔ اس کی تیاری میں مرحوم نفیس صاحب کی اجازت اور تائید شامل رہی، بعد میں ان کے فرزند حافظ سید انیس الحسن حسینی مرحوم نے بھی نوادر کی فراہمی میں راشدصاحب کی مدد کی۔ مرتب کے بقول: ’’شاہ صاحب کا کتابی ذوق انتہائی اعلیٰ اور نفیس تھا‘‘۔ زیرنظر مرقعے کی تیاری اور اشاعت میں راشدصاحب نے اسی اعلیٰ اور نفیس معیار کو پیش نظر رکھا ہے۔ کاغذ، طباعت، جلدبندی ، لے آئوٹ، غرض یہ کتاب ہمہ پہلو نفاست، سلیقے اور حُسن و جمال کا مرقع ہے۔ اس تبصرہ نگار کی ایک کتاب تصانیفِ اقبال کا سرورق بھی نفیس شاہ صاحب نے تحریر فرمایا تھا۔ وہ نمونہ اس مرقّعے میں نہیں آسکا تو مبصرکو اپنی محرومی کا احساس ہو رہا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
عہدنبویؐ میں صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتربیت براہِ راست وحی الٰہی اور اسوئہ نبویؐ کے زیراثر رہی۔ بعد کے اَدوار میں مسلمانوں کے افکار و نظریات میں تغیر پیدا ہوا تو ان اختلافات نے فرقہ واریت کو جنم دیا۔یہ اختلافات دینی فکرونظر میں بھی تھے اور سیاسی اُمور میں بھی رُونما ہوئے۔ اہلِ علم میں اختلاف راے ممنوع نہیں، لیکن اس اختلاف راے کو مخالفانہ روش کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ جب سے مسلمانوں نے اللہ کے اس واضح حکم کے خلاف اپنی اغراض کے تحت معاملات طے کرنے شروع کیے ہیں، تب سے مسلمانوں میں فرقہ واریت کا زہر سرایت کرگیا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ متعدد فرقے قائم ہوگئے۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کے نتیجے میں، مسلمانوں میں دُوریاں پیدا ہوئیں۔
زیرنظر کتاب میں مصنف نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کی تاریخ، مختلف اَدوار میں اس کی نوعیت، اسباب و محرکات اور نقصانات پر بحث کی ہے۔ انھوں نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے داخلی اور خارجی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلافات نے مسلمانوں کے زوال کی راہ ہموار کی ہے۔ مصنف نے اختلاف راے کی حدود، اختلاف اور فرقہ واریت میں فرق اور اچھے مقاصد کے لیے جماعت سازی کی اجازت پر بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ اُمت کو قرآن و سنت کی بنیاد پر متحد و متفق رکھنے کی ذمہ داری علماے کرام پر عائد ہوتی ہے(ص۱۵۶)۔کتاب کے آخر میں مسلمانانِ پاک و ہند کے جید علما کی آرا دی گئی ہیں جو فرقہ واریت کو ختم کرنے میں معاون ہوسکتی ہیں۔ ( ظفرحجازی)
عزیمت کے راہی کا یہ چوتھا حصہ ہے جو ۲۳شخصیات کے حالاتِ زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ تحریک تجدید و احیاے ملت کی تاریخ کا یہ ایک نمایاں اور روشن باب ہے۔ یہ ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کی پوری زندگیاں فریضۂ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں گزریں۔ وہ عمربھر ثابت قدمی کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہے۔
حافظ محمد ادریس کی گفتگو ہو یا ان کی تحریر’ از دل ریزد بر دل خیزد‘ کی کیفیت پیدا کرنے اور دلوں کو زندگی بخش پیغام دینے والی ہوتی ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف مقصدیت سے آشنا کرتی ہیں بلکہ جذبہ اور جوشِ عمل پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ سیرت و سوانح ان کا خاص موضوع ہے۔ اس موضوع پر ان کی نصف درجن کتب آچکی ہیں ۔ زیرنظر کتاب میں تحریکِ اسلامی کے قائدین بالخصوص قاضی حسین احمد، نجم الدین اربکان، پروفیسر غفور احمد، علی طنطاوی، شیخ جعفرحسین، محترمہ مریم جمیلہ، عبدالوحید خان، شیخ عبدالوحید، ڈاکٹر پرویز محمود، حاجی فضل رازق، ڈاکٹر محمد رمضان، مولانا احمدغفور غواص، صاحبزادہ محمد ابراہیم اور شعیب نیازی شہید پر مفصل مضامین ہیں۔ عزیزوں میں میاں سخی محمد اور حافظ غلام محمد کا تذکرہ شامل ہے۔
تحریکِ اسلامی کے یہ وہ کردار اور روشن مثالیں ہیں جن کے تذکرے سے نیکی و بھلائی کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اور قربِ الٰہی کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ ان مثالی شخصیات کی حیات و خدمات نئی نسل کو تحریک کے ساتھ جوڑنے، روایات سکھانے اور تربیت کا عمدہ ذریعہ ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل کر قربانی و ایثار کا مرقع اور استقامت کا پیکر ہے۔ وابستگانِ تحریک کے لیے یہ زندگیاں منارۂ نور ہیں۔ تحریک کے کام کو اُسی جذبے، اخلاص، للہیت اور قربانی کے ساتھ آگے بڑھایا جاسکتا ہے، جس جذبے سے ان بنیاد کے پتھروں اور قرنِ اوّل کے لوگوں نے کیا۔ تحریک کے موجودہ وابستگان بھی ان حالات و واقعات سے کسی طرح بے نیاز نہیں ہوسکتے کہ یہی جذبے، ولولے اور اخلاص ہمارا اثاثہ ہیں۔ کتاب کا مطالعہ ایمان و یقین کو جلا دینے اور تحریک کے ساتھ وابستگی کو مضبوطی عطا کرنے والا ہے۔ (عمران ظہور غازی)
اس اشاعت ِ خاص میں پانچ ابواب کے اندر ایک جذباتی مگر ایمانیاتی مسئلے کو نہایت سلیقے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ عظمت ِ مصطفیؐ،عہدِوفاداری، تسلیم اور اسلام، آیت ِ صلوٰۃ و سلام کا زمانۂ نزول، زبان سے صلوٰۃ و سلام کی ادایگی، صلوٰۃ و سلام سے متعلق امام راغب اصفہانی، ابن منظور، مرتضیٰ الزبیدی اور ابن قیم و محب الدین جیسے اہلِ لغت کی لغوی بحثوں کو درج کیا گیا ہے۔ اُردو تفاسیر میں سے مولانا شبیراحمد عثمانی ، مفتی محمد شفیع، مولانا احمد رضا خان بریلوی، پیرمحمد کرم شاہ ازہری، مولانا امین احسن اصلاحی، سیدابوالاعلیٰ مودودی، حافظ صلاح الدین یوسف، سید صفدر حسین نجفی اور علامہ حسین بخش کی تفاسیر سے اقتباس دیے گئے ہیں۔ کتاب جلاء الافہام فی فضل الصلوٰۃ والسلام علٰی محمد خیرالانامؐ میں سے درود شریف پڑھنے کے ۴۰ محل و مقامات کا اندراج ہے۔ ’رسولِؐ رحمت کی رحمۃ للعالمینی کی پھوار اُمت پر‘ کا عنوان دے کر غزوئہ احزاب کے تناظر میں فضیلت صلوٰۃ و سلام کو سورئہ احزاب کی آیت ۵۶ کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ آیات ۴۳اور۴۴ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ نور وظلمت کو بعثت و نبوتِ انبیا سے مربوط کر کے انسانی و حیوانی فرق و امتیاز کا تذکرہ، کتب ِ سماوی کے مشترکہ خاصے کے طور پر نور کا بیان، اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا مظہر، طہارت و تطہیر، نور اور پاکیزگی، نورِ ہدایت اور نورِقرآن، دعاے نور اور سیدنامحمدؐ اور سلام و تسلیم کا مطالبہ اور منافقین کے کردار کو باہم مربوط کرکے بیان کیا گیا ہے۔ نفاق کے مرض کو عہدحاضر کی صورت حال سے مربوط کر کے دعوتِ فکروعمل دی گئی ہے اور درود وسلام پر بات کو اختتام تک پہنچایا گیا ہے۔ مصنف نے جس تسلسل، ترتیب اور ربط کے ساتھ کڑی سے کڑی جوڑ کر ایمانِ مسلم کو احسانِ مصطفیؐ سے جوڑا ہے وہ لائق مطالعہ ہے۔ مروجہ روایات و رسومات سے ہٹ کر جذبۂ ایمانی کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کی سعی دکھائی دیتی ہے۔(ارشاد الرحمٰن)