مَیں مدھیہ پردیش کے ضلع دھار کے ایک ایسے قصبے سے تعلق رکھتی ہوں، جہاں ایک گھر بھی مسلمانوں کا نہیں۔ میرے والد راجپوت ٹھاکر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بی جے پی کے بہت سرگرم کارکن رہے ہیں۔ اسلام کے خلاف جو بین الاقوامی پروپیگنڈا چل رہا ہے، اس سے وہ حددرجہ متاثر رہے۔ ہرمسلمان ان کے خیال میں دہشت گرد اور ہندستان کا دشمن تھا۔ وہ ہرپاکستانی کو بھی دہشت گرد سمجھتے تھے۔ وہ پرائمری اسکول میں سرکاری ٹیچر تھے اور اب ہیڈماسٹر ہیں۔ کلاس کے تین ساتھیوں کے علاوہ کسی مسلمان سے ان کا ذاتی تعلق بھی نہیں تھا۔ میرا ایک بڑا بھائی، ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔
میرا اسلام قبول کرنا بس ایک ایسی پہیلی ہے، جس کے لیے کسی بوجھ بجھکڑ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اصل میں پہیلی کیا، سچی حقیقت یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے صبح کی پو پھاڑنے والا، یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ(المائدہ ۵:۱۶) ’’وہ اللہ ان کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکالتا ہے‘‘، کا فیصلہ ہرجگہ ہر گھر میں سب کی زندگی میں کرتا ہی رہتا ہے۔ اس کی ایک کرن ہمارے مشرک خاندان پر بھی پڑ گئی۔
تفصیلات ایسی گھنائونی ہیں کہ ذکر کرنا بھی مشکل اور سننا بھی مشکل اور لکھنا اور نقل کرنا شاید اور بھی مشکل۔ اصل میں بات میرے ایک محترم رشتے دار حقیقی چچا کی شرم ناک حرکت سے شروع ہوئی جو اَب خود اپنی حرکت پر اس قدر نادم ہیں کہ اس سے زیادہ ندامت ممکن نہیں، اور اب وہ نہ صرف مسلمان بلکہ ایک دردمند داعی ہیں۔ اگرچہ اب اس حرکت کا ذکر یقینا اچھا نہیں، مگر وہ حرکت ہی اس روشنی کا ذریعہ بنی، اور اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی شانِ ہدایت کا ذکر ادھورا رہے گا۔
میرے چچا بچپن ہی سے غلط صحبت میں رہنے لگے تھے ، اور ان کو شراب کی لت لگ گئی تھی۔ شراب پی کر انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اس انسان کا فعل نہیں، بلکہ اس نجس شے کا اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے تو نشے کی حالت میں نماز کی اجازت نہیں، اور ہوش و حواس کھو جائیں تو آدمی شرعی احکام کا مکلّف نہیں رہتا۔ایک روز نشے کی حالت میں میرے چچا نے مجھ سے دست درازی کی کوشش کی جس کاوہ اپنے ہوش و حواس میں تو کجا خواب و خیال میں بھی تصور نہ کرسکتے تھے۔ میں بمشکل جان بچاکر گھر سے نکلی۔ مجھے ذہنی طور پر شدید صدمہ پہنچا۔ میں نے گھر اور قصبے کو چھوڑنے کا سوچ لیا، اور بس میں بیٹھ کر اِندور چلی گئی۔ راستے بھر سوچتی رہی، مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کئی بار خیال آیا کہ تھانے میں جاکر ایف آئی آر درج کرائوں۔ پھر خیال آیا کہ پولیس والے خود درندے ہوتے ہیں، وہ مجھے اپنی حراست میں رکھیں گے، پھر کسی ناری نکیتن [دارالامان] میں لے جائیں گے۔ ایک ناری نکیتن کی گندی کہانی مَیں نے اخبار میں دو دن پہلے ہی پڑھی تھی۔ کبھی سوچتی یہ کرنا چاہیے، اور کبھی وہ ۔ اپنے قصبے ، اپنے خاندان یہاں تک کہ پورے معاشرے اور دھرم (مذہب) سے نفرت اور کراہت میرے پورے وجود کو جلائے جارہی تھی۔ اِندور تک کے سفر میں میرے دماغ اور دل میں مختلف خیالات آتے رہے اور آخری فیصلہ جس پر مجھے اطمینان ہوا یہ تھا کہ مجھے ایسے گھرانے، خاندان اور معاشرے کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے لیے مضبوط فیصلہ یہ کیا کہ اسلام قبول کرلینا چاہیے۔
اصل میں تو اللہ کی رحمت تھی، مگر بظاہر چوٹ بہت زور سے لگی تھی، تو ردعمل بھی اسی شدت سے تھا۔ بودھ دھرم تو ہندو دھرم کا حصہ ہے۔ عیسائی ہوکر بھی کچھ ہندو دھرم سے اتنا دُور ہونا ممکن نہیں جتنا میرے اندر جذبہ تھا۔ پوری دنیا میں سارے مذاہب کی ضد بس اسلام ہی ہے۔ لہٰذا اس وقت میرے ردعمل کے جذبات کی تسکین کامل کے لیے خاندان کو ہلا دینے والا فیصلہ اسلام ہی ہوسکتا تھا۔ اس لیے میں نے جذبات میں آکر یہ فیصلہ کیا اور فیصلہ لے کر جمے رہنا میرے اللہ نے میری فطرت کا خاص حصہ بنایا ہے۔ اس کے لیے مجھے کسی ایسے مسلمان کی تلاش ہوئی جو مجھے مسلمان کرسکے۔ اِندور بس اڈے پر اُتر کر میں نے جامع مسجد کا پتا معلوم کیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہاں بہت سی جامع مساجد ہیں۔ ایک مسلمان نے مجھے آزاد نگر مدرسے کا پتا بتایا۔ وہاں گئی، مولوی صاحب ملے تو انھوں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے آپ کو بھوپال قاضی کے پاس جانا پڑے گا۔
میں گھر سے نکل رہی تھی تو میں نے دروازے کے باہر دیکھا کہ ایک پرس پڑا ہوا ہے۔ وہ میری ماں کا پرس تھا ، جو اِن سے جاتے وقت گر گیا ہوگا۔ اس میں ۵۶۰۰ روپے تھے، جو میرے اللہ نے میرے اسلام کے انتظام کے لیے گرائے تھے۔ میں بھوپال پہنچی اور وہاں قاضی صاحب کے پاس گئی۔ وہ بہت ہنسے۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ انھوں نے مجھ سے مسلمان ہونے کی وجہ معلوم کی تو میں نے بتایا: مجھے اپنے خاندان اور معاشرے سے نفرت ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا: اس وجہ سے مسلمان ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ اسلام کو پڑھیے۔ آپ ابھی نابالغ ہیں، بالغ ہوکر مسلمان ہونا ہوگا۔ میں نے کہا: میرا دماغ، میرا دل بالغ ہے، آپ مجھے مسلمان کرلیجیے، مگر وہ نہ مانے۔ میں تاج المساجد بھی گئی۔ بہت سے مسلمانوں اور مولوی لوگوں کے پاس گئی، لیکن کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ میرا خیال تھا کہ میں دھن کی پکی ہوں، مایوس ہوکر کئی بار خیال آیا کہ گھر واپس چلی جائوں مگر میری اَنا مجھے روک دیتی۔ میری اَنا مجھ سے کہتی کہ فیصلہ لے کر بدلنا بہت بڑی ہار ہوگی۔میرا نام لکشی بائی میرے والد نے رکھا تھا۔
میں شاہ جہاں آباد مرکز میں گئی۔ وہاں بھی مولوی صاحب نے منع کردیا۔ رات کا وقت تھا، وہاں پر ایک بے چاری پریشان حال بیوہ ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔ انھوں نے مجھے اپنے گھر رکھا، مجھ پر ترس کھایا۔ میں بھوپال میں دو مہینے ان کے گھر رہی۔ رحمت آپا جن کے یہاں مَیں رہ رہی تھی، وہ مجھے لے کر ایک آپا جان کے یہاں گئیں، جو جمعرات کو عورتوں کا اجتماع کرتی تھیں۔ انھوں نے وہاں لے جاکر میرے بارے میں بتایا۔ وہ بھی ہنسنے لگیں۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو وہ مجھ سے لپٹ گئیں۔ مجھے گود میں لے کر بہت پیار کیا اور کہا: میری بچی! کیوں رو رہی ہے، میں تجھے ضرور مسلمان بنائوں گی۔ پھر انھوں نے مجھے روتے روتے کلمہ پڑھوا دیا۔ پھر مجھ سے معلوم کیا تم اپنا نام بھی بدلو گی؟ کیا نام رکھوں؟ میں نے کہا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سے کوئی نام رکھ دو تو انھوں نے میرا نام فاطمہ رکھا۔ انھوں نے مجھے نو کتابیں مطالعے کے لیے دیں: آپ کی امانت آپ کی سیوا میں، مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ بہشتی زیور، رہبرانسانیتؐ، نسیم ہدایت کے جھونکے (تین حصے)، اسلام کے پیغمبر، اور اسلام کیا ہے؟ یہ میرے لیے مکمل نصاب تھا۔
ان کتابوں کو پڑھ کر میرے جذبات کا رُخ بدل گیا۔ میں اپنے چچا کو بالکل بے قصور سمجھ کر اللہ کی طرف سے ان کو اپنی ہدایت کا ذریعہ سمجھنے لگی۔ مجھے گھر اور خاندان کو چھوڑنے کے بجاے ان کو دوزخ سے بچانے کی فکر پریشان کرنے لگی۔ مجھے اپنے گھر والوں کی فکر ہوئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرے گھر والوں میں سے کسی کو میرے گھر سے نکلنے کی وجہ معلوم نہیں ہوگی، نہ جانے کیا کیا افواہیں میرے بارے میں اُڑ رہی ہوں گی۔ گھر والے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگنے اور نہ جانے کیا کیا سوچ رہے ہوں گے، مگر مرنے کے بعد دوزخ سے بچانے کے لیے یہ الزامات اور اس پر گھر والوں کا عتاب سب چھوٹی چیزیں تھیں۔ نسیم ہدایت کے جھونکے میں ’حرا‘ نے جو تقریباً میری عمر کی تھی،اپنی جان دے کر، اللہ کی محبت میں ایمان کے لیے جل کر پورے گھرانے کے لیے ایمان اور جنت کا راستہ کھولا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے بھی قربانی دینی چاہیے۔ رحمت آپا مجھے منع کرتی رہیں اور اپنے بھتیجے سے شادی کراکر اپنے بھائی کے گھر میں رکھنے کے لیے خوشامد کرتی رہیں، مگر میں نے فیصلہ کرلیا اور رحمت آپا نے بھی مجھے اجازت دے دی۔ میں واپس گھر پہنچی۔
میرے گھر سے نکلنے کے بعد میرے والد گھر آئے تو والدہ ابھی تک واپس نہیں آئی تھیں۔ میرے چچا تین گھنٹے تک بے ہوش پڑے رہے۔ ان کی غلط صحبت اور شراب کی لت سے سب ان سے بدظن تھے۔ مجھے گھر میں نہ پایا تو میری تلاش ہوئی۔ دو تین روز سب جگہ تلاش کے بعد میں نہ ملی تو تھانے میں رپورٹ درج کرائی۔ میرے اسکول میں تحقیق کی گئی کہ کسی لڑکے سے کوئی تعلق تو نہیں تھا۔ یہ بھی خیال تھا کہ چچا نے کوئی حرکت کی ہو۔ میں گھر پہنچی تو پہلے تو گھر والے بہت غصے ہوئے۔ مجھ سے وجہ معلوم کرتے رہے۔ میرے سامان کو ٹٹولا، تلاشی لی گئی تو اسلا م پر کتابیں نکلیں۔ سب برہم ہوگئے، اس لیے اپنی ماں کو چچا کی حرکت بتانا پڑی، اور ساتھ ہی ساتھ میں نے اسلام قبول کرنے کی کہانی بھی بتائی۔ سب بھائیوں نے چچا کوبلا کر بُری طرح مارا۔ میں ان کو منع کرتی رہی کہ ان کی خطا نہیں ہے۔ میرے مالک نے مجھے سچی راہ دکھانے کے لیے ان پر شیطان چڑھا دیا تھا۔ اس پر انھوں نے مجھے بھی مارا، میں پٹتی رہی اور ان لوگوں سے کہتی رہی: تم مجھے مار رہے ہو، مگر مرنے کے بعد ایک بڑی مار کا سامنا ہونے والا ہے، اس سے صرف اسلام ہی بچا سکتا ہے۔ میرا بھائی سخت غصے میں آگیا، اس نے لوہے کی کرسی اُٹھا کر میرے سر پر مار دی جس سے میرا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ میرے تایا نے روکا کہ یہ مرجائے گی، ابھی کچی عمر ہے، سمجھانے کی کوشش کرو، پیار سے سمجھائو۔ ایک ایک کر کے مجھے گھر والے سمجھاتے رہے۔ میری ایک بہن جو مجھ سے زیادہ تعلق رکھتی تھی، میری ماں نے اس کو بلوایا کہ وہ مجھے سمجھائے، مگر اسلام اب میرے لیے ایسی چیزنہیں تھا کہ جسے چھوڑا جاسکے۔ میرے سامنے حرا کا نمونہ تھا جس نے خوشی سے اللہ کی محبت میں جل کر جان دے دی تھی، یا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن زندگی کہ سب کچھ سہتے رہے اور قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت میں لگے رہے۔
روز ایک نئی آزمایش میرے ایمان کو بڑھانے کے لیے آتی اور پھر مجھے اس مخالفت اور دشمنی میں اللہ کا نور نظر آتا۔ دو سال تک کے ہر دن کی ایک داستان ہے، جس کے لیے ایک کتاب چاہیے۔ گھر والوں کے ساتھ کبھی کبھی پڑوسی بھی شامل ہوجاتے۔ میرے ایک ماموں مجھے راے پور اپنے گھر لے گئے۔ وہاںبہت سے سیانوں سے ٹونے ٹوٹکے کروائے، جس کا اثر میرے دماغ پر ہوا۔ مجھے بھول کا مرض لاحق ہوگیا، مگر میں سورئہ فلق اور سورئہ ناس پڑھتی رہی۔ اللہ نے اس کا اثر زائل کر دیا۔ میری کوشش سے وہاں میرے ماموں کی لڑکی نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کا بھائی بھی کتاب پڑھنے لگا تو ماموں نے مجھے واپس بھیج دیا کہ یہ تو سارے گھر والوں کو ادھرم (لامذہب) کردے گی۔ گھر پر آکر پھر مارپیٹ شروع ہوگئی۔ ایک بار مجھے زہر بھی دے دیا گیا۔ ایک بار میرے ہاتھ کی دونوں ہڈیاں توڑ دیں، دو روز تک ہاتھ ٹوٹا رہا، کوئی پٹی کرانے کو بھی تیار نہیں تھا۔ میری بوا کو معلوم ہوا، وہ آئیں اور پلاستر کروا لائیں۔ ایک دفعہ میرے بھائی نے اس زور سے سریا مارا کہ میری پنڈلی کی ہڈی میں فریکچر ہوگیا، مگر میری ہر چوٹ میرا اللہ بہت جلدی ٹھیک کردیتا۔ میرے اللہ کا کرم ہوا کہ جب بھی مجھے مارا جاتا، ستایا جاتا، مجھے اچھے خواب دکھتے۔ کبھی جنت دکھائی جاتی، کبھی کسی صحابی کی زیارت ہوتی، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ گھر والے میری ثابت قدمی جسے وہ ضد اور ہٹ دھرمی سمجھتے تھے، سے عاجز آگئے۔
ان کی ساری مخالفت کو مَیں فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ سمجھتی تھی، کیونکہ سیرتِ پاک کے روشن خطوط میرے سامنے تھے۔ اس لیے میں راتوں کو اپنے اللہ کے سامنے بہت روتی تھی اور گھر والوں کے لیے ہدایت کی دعا کرتی تھی۔ کبھی کبھی اس کیفیت کے ساتھ دعا کرتی کہ میرا گمان ہوتا کہ آج اگر جنت کو زمین پر اُتروانے کی ضد کروں گی تو میرا اللہ اُتار دے گا۔ دعا کے بعد میرا سارا دُکھ درد دُور ہوجاتا۔ اللہ کے حضور اس بھکارن کی صدا کو قبولیت سے نوازا گیا۔
ایک دن میری ماں میرے پاس ایک بجے رات تک روتی رہی، اور بولی کہ لکشمی تو نے گھر کو کیسا نرک (جہنم) بنا رکھا ہے، تو واپس نہ آتی تو اس سے اچھا تھا۔ میں نے کہا: میں پھر گھر سے جانے کو تیار ہوں، بس میری آپ سے ایک شرط ہے کہ دو کتابیںآپ کو دیتی ہوں، آپ پڑھ لیجیے۔ اس کے بعد آپ اگر کہیں گی تو میں گھر سے چلی جائوں گی۔ وہ اس پر راضی ہوگئیں۔ میں نے آپ کی امانت اور نسیم ہدایت کے جھونکے ان کو دیں۔ وہ بولیں: اب تو میں تھک چکی ہوں، کل پڑھوں گی۔ اگلے روز انھوں نے آپ کی امانت پڑھنا شروع کی۔ میں غور سے ان کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ ان کے چہرے پر ان کے دل سے کفر و شرک کے چھٹنے کا اثر صاف نظر آرہا تھا اور میں ان کے مسلمان ہونے کی اُمید پر خوش ہورہی تھی کہ اچانک کتاب بند کر کے وہ بولیں: بس لکشمی! میں نہیں پڑھتی، تو تو مجھے مسلمان بنا دے گی۔ میں نے کہا کہ آپ ایک راجپوت گھرانے کی عورت ہیں۔ آپ نے زبان دی ہے۔ یہ دونوں کتابیں آپ کو پڑھنا پڑیں گی۔ میں نے ان کے پائوں پکڑ لیے، میری ماں! بات مانو، ورنہ موت کے بعد بہت پچھتانا پڑے گا۔ میری خوشامد سے وہ پھر پڑھنے لگیں۔ پوری کتاب پڑھ کر بولیں: لکشمی! بات تو بالکل سچی ہے، مگر تیری طرح ہمت کون کرسکتا ہے؟ سب تو لکشمی بائی نہیں ہوسکتیں۔ میں نے کہا: اس کے لیے آپ کو دوسری کتاب پڑھنا پڑے گی۔ اس پر انھوں نے نسیم ہدایت کے جھونکے پڑھنا شروع کی۔ میں نے عبداللہ اہیر کا انٹرویو نکال کر دیا۔ تھوڑی دیر میں میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کے بعد میں نے دوسری کتاب سے زینت چوہان اور عائشہ کے انٹرویو پڑھوائے۔ ان کے دل کی دنیا بدل گئی۔ رات کو وہ دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہیں، اور میری ضد اور خوشامد پر کہ ماں! جب حق آپ کی سمجھ میں آگیا تو اب دیر کرنا ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔ اب تک تو آپ اللہ کے یہاں یہ کہہ سکتی تھی کہ مجھے معلوم نہ تھا، اب تو بات صاف ہوچکی ہے، نہ جانے صبح کو آنکھ کھلے گی کہ نہیں۔ ایک بجے رات کو مَیں نے ان کو کلمہ پڑھوایا۔ بیان نہیں کرسکتی کہ میری کیسی عید ہوگئی تھی۔
اب میرے لیے گھر میں رہنا بالکل آسان ہوگیا تھا۔ ماں کے اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے اپنی ساری دعائوں کے قبول ہونے کا یقین ہوگیا۔ میں نے اپنے والد کے اسلام قبول کرنے کی خوشی میں ۴۰روزے رکھنے کی نذر مانی، اور دعا کا اہتمام کیا۔ ایک رات وہ بھی مجھ سے کہنے لگے: لکشمی شروع میں تو ُتو اپنے چچا کی وجہ سے مسلمان ہوئی، مگر اتنی مشکلوں کے بعد اب تجھے اسلام پر کون سی چیز ہٹ دھرم بنارہی ہے؟ میں نے ان کو بھی آپ کی امانت آپ کی سیوا میں اور ہمیں ہدایت کیسے ملی؟ پڑھنے کو دیں۔ وہ کھول کر دیکھنے لگے۔ دو لفظ پڑھے تو وہ اور پڑھنے لگے۔ رات کو سوئے تو انھوں نے اپنے کو داڑھی اور ٹوپی میں نماز پڑھتے دیکھا، اور جب وہ مسجد میں گئے تو ان کو ایسا لگا کہ آسمان سے ٹھنڈی پھوار جس میں نور بھی ہے، ان کے اُوپر برس رہی ہے۔ انھوں نے اس میں عجیب سکون محسوس کیا اور مجھ سے لے کر اسلام کیا ہے؟ اور دیگر کتابیں پڑھیں۔ پھر مجھ سے کہا کہ مولوی کلیم صاحب سے مجھے کسی طرح ملوا دے، مگر بہت کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور خواب دیکھا، جس کے بعد وہ خود ہی مسلمان ہونے کے لیے کہنے لگے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے ان کو کلمہ پڑھوایا۔
بڑے بھائی ہم لوگوں کے فیصلے سے ناراض رہے اور چھے مہینے کے لیے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ گوالیار رہے، وہاں بہت پریشان رہے۔ ایک مسلمان لڑکے نے ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ وہ گھر آئے اور دو تین دن سمجھانے کے بعد مسلمان ہوگئے۔ چھوٹا بھائی اور بہن تو والدصاحب کے ایک دو دن کے بعد ہی مسلمان ہوگئے تھے۔ اب چچا پر کوشش شروع کی اور اللہ کا شکر ہے کہ انھوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ میرے اللہ کا کرم ہے کہ میرے خونی رشتے کا کوئی قریبی عزیز ہمارے گھرانے میں کافر و مشرک نہیں رہا۔
الحمدللہ، میں اس اللہ کی رحمت کے قربان کہ میرے چچا پر شہوت اور درندگی کا شیطان سوار کر کے اللہ نے مجھے، میرے چچا اور سارے خاندان کو دعوت دلوا کر ہدایت سے نوازا۔میری درخواست تمام مسلمانوں سے یہی ہے کہ اگر آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے روشنی لیتے ہوئے اپنے اُوپر یہ دھن سوار کرلے کہ انسانیت کو دوزخ سے بچانا ہے، تو اِس وقت ہدایت کا فیصلہ اللہ کی طرف سے تھوک کے بھائو ہورہا ہے۔ نہ جانے کتنے خالد بن ولید، سیف من سیوف اللہ اور کتنی لکشمی بائی فاطمہ اور رقیہ بن سکتی ہیں! (بہ شکریہ ماہنامہ ارمغان ولی اللّٰہ، پھلت، بھارت)