فروری ۲۰۱۴

فہرست مضامین

افغانستان: جنگ کے اثرات اور نتائج

پروفیسر امان اللہ شادیزئی | فروری ۲۰۱۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

افغانستان میں وہ کون سی ایسی کشش یا اس کی طلسماتی سحرانگیزی تھی کہ دنیا کی تین بڑی سوپرپاورز کو اپنی طرف کھینچا اور وہ اپنے مستقبل کے انجام سے بے خبر اس خطے میں داخل ہوگئیں اور بالآخر اِن کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تاریخ کا بھی یہ حیرت انگیزباب ہے کہ ہرسوپرپاور کی شکست نے جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں، اُن کی حیثیت مضمحل ہوگئی اور اپنے دائرے میں محدود ہوکر رہ گئیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں سابق سوویت یونین کی شکست نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کا وجود ہی مٹ کر رہ گیا۔ سوویت یونین کو شکست ہوسکتی ہے؟ اس پر قوم پرست اور بائیں بازو کے دانش ور اور سیاست دانوں کو یقین ہی نہیں آتا تھا۔ اس کا اندازہ بھارت کے ممتاز صحافی راجیندرا سرین (Rajendra Sareen) کی کتاب Pakistan - The Indian Factor کے مطالعے سے ہوسکتا ہے۔ ان کے خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتے تھے لیکن وقت اور تاریخ نے کچھ اور فیصلہ کیا۔

 جب امریکا افغانستان میں داخل ہوا تو سیکولر اور بایاں بازو امریکا کے سایے میں کھڑا ہوگیا اور ان کی سو چ اور تجزیہ بھی ایسا ہی تھا کہ امریکا کو کون شکست دے سکتا ہے، لیکن آج امریکا ۱۱سال کی لاحاصل جنگ کے بعد افغانستان سے ناکام اور نامراد لوٹ رہا ہے۔ اس کے بعد افغانستان میں کیا صورت حال ہوگی؟ پاکستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جنوبی ایشیا کس طرح اور کن کن پہلوئوں سے اثرانداز ہوگا؟ کشمیر میں اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ ایران اور افغانستان کے تعلقات کس سمت میں سفر کریں گے؟ بین الاقوامی طور پر حالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟ کیا جغرافیائی تبدیلی رُونما ہوگی؟ اور ان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خود افغانستان پر اس کے اثرات کس طرح پڑیں گے؟ان سب پر تفصیل سے تجزیے کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں امریکا کا کردار خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے اور جوں جوں دسمبر۲۰۱۴ء قریب آتا جائے گاطالبان کے حملوں میں شدت آتی جائے گی۔ جنگ کی طوالت نے امریکی عوام میں مایوسی کو تیزی سے پروان چڑھایا ہے۔ امریکا کے ۷۰ فی صد عوام فوج کی واپسی چاہتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون طالبان کے حوالے سے شائع ہوا۔ اس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ طالبان کے حوصلے اس تصور ہی سے بلند ہوگئے ہیں کہ اب امریکا افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا کو کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ افغان فوج  اس قابل نہیں کہ اسے پورے افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی جائے۔ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا طالبان بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

امریکا نے افغانستان کے حوالے سے جو اہداف طے کیے تھے اس میں اسے مکمل ناکامی کا سامنا ہے، اور اس سے امریکی عوام اور اتحادیوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا کے   سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے اپنے ایک مضمون میں امریکا کو بعض اہم مشورے دیے ہیں اور  بعض اقدامات تجویز کیے ہیں۔ لیکن ہنری کسنجر کو سب سے زیادہ تشویش اور خوف اس بات کا ہے کہ امریکا ایک فاتح کے بجاے شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے لوٹے۔

ہنری کسنجر اپنے مضمون میں اس طرف یوں نشان دہی کرتے ہیں: ’’اگر امریکا نے افغانستان سے نکلنے میں جلدی کی اور دانش مندی سے کام نہ لیا اور دنیا کو یہ تاثر ملا کہ واحد سوپرپاور شکست کھاگئی ہے تو علاقائی اور عالمی سطح پر جہادازم کو فروغ ملے گا ۔ مسلم عسکریت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں اور بھارتی سرزمین پر تیزی سے اقدامات کی تحریک ملے گی۔ ایسی حالت میں افغانستان میں نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ڈھکی چھپی جنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

اگر افغانستان میں طالبان دوبارہ برسرِاقتدار آگئے تو کئی ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ روس میں چیچنیا کا علاقہ، چین میں سنکیانگ کا صوبہ عسکریت پسندوں کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ایران میں سُنّی عسکریت پسند مستحکم ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایران جواب میں افغانستان کی شیعہ آبادی کو ملیشیا کی سطح پر مدد فراہم کرسکتا ہے، جیساکہ اس نے لبنان اور عراق میں کیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا معاملہ زیادہ پیچیدہ اس لیے ہوگیا ہے کہ پاکستان اور ایران سے امریکا کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان دونوں ممالک کے پاس افغانستان سے نکلنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ ان کے اور ہمارے مفادات میں ہم آہنگی نہ پائی گئی تو افغانستان کو اِن کے معاملے میں دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر افغانستان میں استحکام کا اہتمام نہ کیا گیا تو امریکا سے زیادہ پڑوسی ممالک خطرے میں رہیں گے، اور اگر امریکا نے نکلنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں امریکیوں کو ایک بات یقینی بنانا ہوگی۔ وہ یہ کہ انخلا حتمی ہو، یعنی دوبارہ مداخلت کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔(نیوزویک، پاکستان اڈیشن،۳ جون، ۲۰۱۱ء)

امریکا کے سامنے اب بنیادی کام یہ ہے کہ کسی بڑے قضیے کو روکتے ہوئے کسی طرح افغانستان سے نکلا جائے اور جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ہنری کسنجر اپنے تجزیے میں بعض اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات بارآور ہونے چاہییں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر افغانستان کو متحارب گروپوں میں تقسیم کردیا جائے۔(ایضاً)

امریکا کی پوری کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی حتمی فیصلے تک پہنچا جائے۔ لویہ جرگہ کو مُلّاعمر اور حکمت یار نے مسترد کردیا ہے اور صدرکرزئی کچھ شرائط کے ساتھ بالآخر دستخط پر آمادہ ہوجائیں گے۔ وہ کیا شرائط ہوں گی؟ ابھی پردۂ راز میں ہیں۔ وقت تیزی سے امریکا کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ ۱۱سال لمحوں میں گزر گئے تو ۱۱مہینے ہوا کے جھونکوں کی طرح گزر جائیں گے۔

امریکا ایک شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے افغانستان سے لوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں اس وقت ۳۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ موجود ہے اور امریکا ۲۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ نیلام کرنا چاہتا ہے، جب کہ باقی ۱۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ پاکستان کو فروخت کرنا چاہتا ہے اور کچھ حصہ افغانستان کو دینا چاہتا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا تیزی سے جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے کرنل اینڈریو رالنگ نے چھے ماہ میں ۳ہزار سے زائد اسلحے کے کنٹینر امریکا روانہ کیے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کے زیراستعمال گاڑیوں کی تعداد ۵۰ہزار ہے۔ گولہ بارود اور دیگر سازوسامان کو بھیجنے میں امریکا کو ۵؍ارب ۷۰کروڑ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ وہ بہت کم سازوسامان فوجیوں کے لیے چھوڑنا چاہتا ہے۔ کرنل  اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۳۳ویں ایربورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ ان کے سامنے چھے میٹر طویل کنٹینروں کا ایک سمندر موجود ہے۔ امریکا اور اتحادیوں کے پاس  اب صرف ۱۱مہینے بچے ہیں۔ اس عرصے میں ان سب کو نکالنا ایک دشوار ترین کام ہے۔

اربوں ڈالر کی مالیت کا اسلحہ بارود اور دیگر سامان افغانستان میں بکھرا پڑا ہے۔ نہ سب کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ سب ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ اسلحے سے بھرے کنٹینر سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں قیمتی سامان موجود ہے۔ اسلحے سے بھرے کئی کنٹینر غائب بھی ہوگئے ہیں۔ ان کی رپورٹ بھی درج کی گئی ہے۔ مشرقی افغانستان میں باگرام ایئربیس میں امریکا کا سب سے بڑا اڈا موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ایئربیس بھی ہیں۔ چھوٹے اڈوں سے اسلحہ اور سازوسامان واپسی کے لیے یہاں پہنچایا جاتا ہے اور چھانٹی کی جاتی ہے۔ سول کنٹریکٹر دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کون سا سامان تلف کرنا ہے۔ یہ سب کام تیزی سے ہورہا ہے اور مزدور دن رات کام میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی فوج کے ۴۵۵ بریگیڈ کو فوجیوں کو امریکا بھجوانے کا کام سونپا گیا ہے۔ فوج کا یہ یونٹ روزانہ ۱۳۰۰ فوجی اور ۶۰۰ٹن سامان امریکا بھجواتا ہے۔ ۴x۴ فٹ کے ککرباکس میں ۳لاکھ ڈالر کی اشیا موجود ہوتی ہیں اور ہرہفتے ۳۰۰ کنٹینر جارہے ہیں۔ امریکا کے ایک لاکھ فوجیوں کا انخلا دسمبر۲۰۱۴ء تک مکمل ہونا ہے۔ امریکا ۱۱سال تک اسلحہ اور سامان افغانستان پہنچاتا رہا ہے۔ یہ اب ایک ڈھیر کی صورت میں وہاں موجود ہے۔ افغانستان سے ترسیل آسان کام نہیں ہے۔( ٹائم میگزین،۸مارچ ۲۰۱۳ء)

ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک لاکھ بھرے ہوئے کنٹینر واپسی کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اب ان کا سلسلہ بلوچستان کے راستے شروع ہوچکا ہے۔ قندھار سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے براستہ خضدار کراچی جارہا ہے۔ صوبہ کے پی کے میں دھرنے سے واپسی متاثر ہوئی ہے۔   اگر وہ راستہ نہ کھلا تو سامان کی واپسی میں مزید تاخیر ہوگی اور اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔

امریکا نے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر افغانستان اور عراق میں جو کچھ کیا ہے اس کو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑرہے ہیں۔ امریکی صدر جارج بش نے ۲۰۰۳ء میں کہا  تھا کہ امریکا کو دونوں جنگوں میں مجموعی طور پر ۵۰ سے ۶۰؍ ارب ڈالر اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ ۲۰۱۱ء میں برائون یونی ورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے اعداد وشمار پیش کیے کہ عراق اور افغانستان میں جنگوں پر تقریباً ۴۴۰۰؍ارب ڈالر کے اخراجات ہوئے ہیں۔ اس میں زخمیوں کے علاج اور افغانستان میں تعمیرنو کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ماہرمعاشیات جوزف اسٹگلر کا کہنا ہے کہ صرف افغانستان میں ۲۲۰۰؍ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں اور امریکا پر ۲۰۱۲ء تک ۱۶ہزار ارب ڈالر سے زائد قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا اور امریکا میں ۲کروڑ ۲۵لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔  (Was it Worth It, Afghanistan 11 Years Later، گلوبل ریسرچ، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء)

امریکا کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ ہے۔ اس کو افغانستان کی جنگ میں کتنا نقصان اُٹھانا پڑا؟ اس کے نقصانات کے اعدادوشمار بھی حیرت انگیز ہیں۔ برطانیہ کے فوجیوں کو ۲۰۰۶ء میں ہلمند میں تعینات کیا گیا۔ ہلمند کی کُل آبادی ۱۵لاکھ ہے۔ ایک تازہ کتاب میں جنگ کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی حکومت کے مجموعی اخراجات کم و بیش ۴۰؍ارب پونڈ ہوں گے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق قومی خزانے سے افغانستان کی جنگی کارروائیوں کے لیے مختص رقم ۲۵؍ارب پونڈ سے زیادہ ہوگئی ہے۔(دی گارڈین، ۳۰ مئی ۲۰۱۳ء)

یہ اعداد و شمار ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء کے ہیں۔ ۲۰۱۴ء شروع ہوگیا ہے۔ ہلاکتوں اور اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جوں جوں امریکا اور ناٹو تیزی سے اپنے سازوسامان اور فوجیوں کو واپس لے جارہے ہیں اور طالبان کے حملوں میں بھی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر ۲۰ویں صدی میں برطانیہ اور سابق سوویت یونین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب ۲۱ویں صدی امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی ایک اور شکست دیکھے گی۔ افغانستان میں دونوں عالمی سامراجی سوپرپاور جنگ کے مابعد اثرات سے نہیں بچ سکی ہیں تو امریکا اور اس کے اتحادی کیسے بچ سکتے ہیں۔ امریکا کے مضمحل ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے اور یہ منظر بھی دنیا دیکھے گی کہ جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں کس طرح سے رُونما ہوں گی۔