گذشتہ دنوں بنگلہ دیش نے نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل ایکٹ‘ کے تحت مزید ۱۳؍افراد کو ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت حراست میں لیا ہے۔ یادرہے اپنے قیام سے ہی یہ ٹریبونل سنگین نوعیت کی بے ضابطگیوں اور عدالتی عمل کے ذریعے سیاسی انتقام کی وجہ سے بین الاقوامی برادری خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمات کی طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیشی حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ مبینہ ’’جنگی جرائم کی عدالت،آج ۴۰سال گزرجانے کے بعد ۱۹۷۱ء کی جنگ کے متاثرین کو انصاف مہیا کررہی ہے‘‘۔ اس تناظر میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹریبونل کے تاریخی پس منظر پر کچھ روشنی ڈالی جائے، جس سے یہ واضح ہوگا کہ مذکورہ ٹریبونل اور اس کا خصوصی قانون بنگلہ دیش کی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک سیاسی اور سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور مذکورہ عدالت بھی اسی سیاسی عمل کی ایک کڑی ہے، جس کا حقیقی انصاف اور اصول قانون سے دُور دُور تک واسطہ نہیں۔
جنگی جرائم کی عدالتیں قائم کرنے کی سب سے پہلی کوشش سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار میں آتے ہی کی تھی اور ابتدائی طور پر دو سطح کی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ پہلی سطح کی عدالت مقامی افراد کے خلاف مقدمات کے لیے،جب کہ دوسری سطح کی عدالت کا مقصدپاکستانی قیدیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔لہٰذا، ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے بنگلہ دیش کولیبوریٹرز آرڈر ۱۹۷۲ء کے قانون کا اجرا کیا گیا۔ اس قانون کا واحد مقصد مقامی (غیر فوجی) افراد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس ضمن میں ۷۳ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں، جن کا مقصد پاکستانی انتظامیہ کی معاونت کرنے والے افراد کو سزائیں سنانا تھا۔ اس قانون کے تحت ۴۰ہزار افراد کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جن میں سے ۲۰ ہزار کے خلاف باقاعدہ چالان پیش کرکے انھیں حراست میں لیا گیا اور ان۲۰ ہزار میں سے ۷۵۲ کو مجرم قرار دیا گیا، لیکن ۳۰نومبر ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد ان کو بغیر کسی سزا کے رہا کردیا گیا۔ بعد ازاں ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ کو جنرل ضیاءالرحمان نے کولیبوریٹرز آرڈ قانون کو ہی منسوخ کردیا۔ یہاں ایک نکتہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ آج سنہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ء کے دوران شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں چلنے والی عدالت سے سزایافتہ یا گرفتار افراد میں سے ،ایک فرد بھی ۱۹۷۲ء میں گرفتار کیے گئے ۲۰ہزار مشتبہ افراد میں شامل نہیں تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی نوزائیدہ بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے درکار خصوصی مہارت اور بین الاقوامی قانون کی پیچیدگیوں پر اپنی کم مائیگی کا احساس تھا۔ اس تناظر میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمان بذات خود جنگی جرائم کے مقدمات چلانے میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ان خصوصی عدالتوں اور قوانین کو پاکستان سے بنگلہ دیش کو علیحدہ ملک تسلیم کروانے کے لیے صرف ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کےدرمیان ہونے والے سہ فریقی معاہدے کے فوراً بعد انھوں نے بنگلہ دیش میں عام معافی کا اعلان کردیا۔
عام معافی کے اعلان سے قبل ہی، بنگلہ دیشی حکومت نے مکتی باہنی کے تحت لڑنے والوں کے لیے خصوصی استثنا کا قانون بنگلہ دیش نیشنل لبریشن سٹرگل انڈیمنٹی آرڈر ۱۹۷۳ء پاس کردیا تھا۔ انڈیمنٹی آرڈر کے آرٹیکل ۲ کے تحت، ۱۹۷۱ء کے دوران مکتی باہنی کی طرف سے کیے جانے والے تمام جنگی جرائم اور بہیمانہ تشدد کو آزادی کی جدوجہد کا عنوان دے کر خصوصی استثنا دیتے ہوئے مکمل جائز قرار دیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جن جن جنگی جرائم کو انڈیمنٹی آرڈر کے تحت مکتی باہنی کے لیے جائز قرار دیا گیا بعینہ انھی جرائم کے الزامات لگا کر آج اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اس کھلے تضاد پر ممتاز برطانوی انسانی حقوق کے کارکن مسٹر جیفری رابرٹسن نے بالکل صحیح تبصرہ کیا ہے:
یہ دوہری قانونی بنیادوں پر مبنی ہے، جو حالیہ مقدمات کی کارروائی میں پوری طرح نمایاں ہیں، یعنی ’فاتح کا انصاف‘۔ جو تاریخ کے دائیں جانب ہیں ان کے جنگی جرائم کو معاف کر دیا جائے گا، جب کہ وہ جنھوں نے ایک متحدہ پاکستان کے لیے لڑائی لڑی ان کے ساتھ غداروں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔
۷۰ کے عشرے کے اوائل میں بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے حوالے سے قانون سازی اور منسوخی کا کھیل جاری رہا، حتیٰ کہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۳ کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ذریعے پہلی دفعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء کا اجرا عمل میں آیا۔ اس قانون کا مقصد ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں پر باقاعدہ مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس قانون پر فوجداری قانون اور قانون شہادت کے اصول و ضوابط کا اطلاق ممکن نہیں تھا ۔
۱۹۷۴ء میں ہونے والے سہ فریقی معاہدے (شملہ معاہدے) کے تحت طرفین نے ایک سیاسی و قانونی سمجھوتا کیا۔ لہٰذا ایک طرف تو پاکستان نے مذکورہ معاہدے کے بعد بنگلہ دیش کو باقاعدہ علیحدہ آزاد ریاست تسلیم کیا تو دوسری طرف بنگلہ دیش نے بھی ان ۱۹۵قیدیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی اور بعد ازاں جنگی قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔
چار عشروں کے بعد ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے ایک دفعہ پھر سے عوامی جذبات پر سیاست کرتے ہوئے جنگی جرائم کی عدالتوں کا احیا کیا، جن کے تحت سزائیں اور گرفتاریاں ابھی تک جاری ہیں۔ ان عدالتوں کا قیام روزِ اول سے ہی سیاسی اور سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ۱۹۷۳ء میں یہ دباؤ خارجی سطح پر ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا اور آج حسینہ واجد داخلی سیاسی محاذ پر اس کا استعمال کررہی ہیں۔