قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ اس نے انسان کو آزمائے جانے کے لیے پیدا کیا۔چنانچہ سورۂ ملک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جس نےموت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمھیں آزمائےکہ تم میں سے عمل میں زیادہ بہتر کون ہے‘‘(الملک ۶۷:۳)۔ اسی طرح سورۂ انعام آیت۱۶۵ ،سورۂ ہود آیت ۷،سورہ کہف آیت ۷، اور دیگر سورتوں میں بھی اس بات کودوہرایا گیا ہے۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ آزمایشوں کا مقصد کیا ہے؟
lآزمایشوں کی حقیقت:دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ہم بے شمار امتحان دیتےہیں، اس لیے کہ امتحانات دیے بغیر کبھی بھی ترقی نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی اسکول ایسے بچے کوقبول نہیں کرے گا جس کے والدین یہ شرط لگائیں کہ یہ بہت لاڈلا ہے، لہٰذا اس کا امتحان مت لیجیے گا۔ پس، ہر قابل قدر چیز کی طرح جنت کی بھی ایک قیمت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’بےشک اللہ کا سودا مہنگا سودا ہے۔ سن لو، بےشک اللہ کا سودا جنت ہے‘‘ (ترمذی) ۔ اگر اسکول والے امتحان نہ لیں تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں، لیکن اگر اللہ کی طرف سے امتحان آجائے تو انسان کبھی سوچتا ہے کہ کیا میں ہی رہ گیا تھا؟ ہم اللہ سے آسان امتحان مانگتے ہیں، لیکن جنت کی قیمت چکانےکے لیے امتحان ہوگا ضرور۔
امتحان کے ذریعے ہی کھوٹے اور کھرے کا فرق پتا چلتا ہے۔ ایک صحابیؓ جن کو کافروں نے ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ کافر چلّاکر پوچھتے کہ کہاں ہے تمھارا رب؟ وہ تمھیں کیوں نہیں بچاتا؟ وہ جواب دیتے تھے کہ جب تم مٹکا بھی خریدتے ہو تو اس کو بجا کر دیکھتے ہو کہ یہ مضبوط ہے یاکھوکھلا۔ میرا رب بھی مجھے آزمارہا ہے کہ میں جنت کے قابل ہوں یا نہیں؟
اس امتحان میں ممتحن اللہ تعالیٰ ہیں اور اسی نے امتحان کی کتاب (textbook) یعنی قرآن کریم ہمارے لیے اتارا ہے۔ بلاشبہہ تلاوتِ قرآن پر بھی اجر ہے،لیکن قرآن دراصل عمل کی کتاب ہے:’’یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے ایک برکت والی کتاب۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘(انعام۶:۱۵۵)۔ اگر اس کو سمجھ کر اس کو اپنے عمل میں ڈھالا جائے تو دنیا اور آخرت کے مراحل خیر اور آسانی سے طے ہو پائیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معلّم ہیں۔ آپؐ نے بھی فرمایا: ’’میں معلم بنا کر بھیجاگیا ہوں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اسی لیے آپؐ قرآن کی زندہ مثال تھے (بخاری)۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کرنا تو ہمارے ایمان کاحصہ ہے، لیکن جب تک آپؐ سےسیکھ کر ان کے نقش قدم پر نہ چلاجائے تو امتحان کا پرچہ صحیح حل نہیں ہوپائے گا: ’’جو کچھ رسول ؐتمھیں دے وہ لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ‘‘۔ (الحشر۵۹:۷ )
امتحان کس چیز کا ہے؟ گھروں اور گاڑیوں کا؟ بہترین گریڈوں اور نمبروں کا؟ نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کون بہترین عمل کرنے والا ہے؟ (الملک ۶۷:۲) ۔ نیک اعمال ہی آخرت کی کرنسی ہیں اور اسی کے لیے ہماری تگ و دو ہونی چاہیے: ’’پس تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو‘‘ (البقرہ۲:۱۴۸)۔
نتیجہ کب آئے گا؟ نتیجہ آخرت میں آئے گا:’’کامیاب دراصل وہ ہے جو آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنّت میں داخل کردیا جائے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵)۔ جیسے بئر معونہ کے واقعہ میں ایک شخص نے حضرت حرام بن ملحانؓ کو پیچھے سے نیزہ مار کرشہید کیا۔ جب انھوں نے اپنے سینے سے نیزے کی نوک نکلتی دیکھی تو پکار اٹھے: ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا!‘‘ (بخاری)۔ قاتل یہ بات سن کر حیرت میں ڈوب گیا کہ میں نے اس کو قتل کیا اور اس نے کہا کہ میں کامیاب ہوگیا؟ پھر جب اس کو پتا چلا کہ اسلام میں کامیابی اور ناکامی کے تصورات نے آخرت کی وسعتوں کو سمیٹا ہوا ہے اور وہ محض اس دنیاے فانی تک محدود نہیں ہیں، تو اس نے رب العالمین کے آگے اپنا سر جھکالیا اور مشرف بہ اسلام ہوا۔
یہ دنیا کمرۂ امتحان ہے:’’جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے، اِس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ (الکہف۱۸:۷)۔ امتحان کے ختم ہونے کےساتھ یہ سب بھی ختم ہوجائے گا: ’’آخرکار اس سب کوہم ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں‘‘ (الکہف۱۸:۸)۔ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ ہمارے پرچے اور اسباب امتحان ہیں، بہن بھائی سے لے کر گاڑی اور گھرتک: ’’تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں‘‘(التغابن۶۴:۱۵)۔ ان پرچوں کو ہم نےبحسن وخوبی ادا کرکے اپنا مقصد، یعنی رضاے الٰہی اور جنت حاصل کرنا ہے نہ کہ انھی کو اپنا مقصدبنائیں۔
دنیا کے امتحانات میں ہر تھوڑی دیر بعد ایک نئی نسل(batch ) آتی ہے اور اس کا اَز سرِ نو امتحان لیا جاتاہے۔ اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عرب میں ارتداد کی لہر دوڑ گئی اور ہرطرف سے مشکلات نے گھیر لیا۔ انسان سوچ سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم ہی اتنا بڑا تھا، اس کے باوجود اتنی زیادہ مشکلات کیوں؟ دراصل صحابہؓ تو مختلف آزمایشوں سے گزر کر اعلیٰ درجات حاصل کرچکے تھے۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایک نئی کھیپ آگئ تھی اور ان کا امتحان بھی ضروری تھا (جب کہ، صحابہؓ مزید بلند درجات حاصل کرتے گئے)۔
پچھلے امتحانات (past papers ) سے بھی سیکھاجاتا ہے، اس لیے کہ سوال اور طرزِ سوال دُہرائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ابراہیمؑ اور نمرود، موسٰی اور فرعون کے قصے ہمیں اتنی مرتبہ اسی لیے سنائے ہیں کیونکہ ہم ہر دور میںان سے ملتے جلتے کرداروں کو پائیں گے۔
واقعات دُہرانے کا یہی مقصد ہے کہ ہم ان کرداروں کی پہچان، ان کے انجام سے واقفیت، نیکوکاروں سےحوصلہ اور بدکاروں سے عبرت کے اسباق حاصل کریں۔
جن لوگ نے اس زندگی کو آزمایش جان کر گزارا ان کی بلندیاں ہی اور تھیں۔ اگر یہ ایک تصور درست ہوجائے تو سوچ اور عمل کی بہت ساری کجیاں دورہوجاتی ہیں۔ آج دنیا میں مسلمانوں کے جوحالات ہیں، اللہ چاہے تو ایک لمحے میں ان کو درست کرسکتا ہے۔ لیکن دراصل وہ ہمیں آزما رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ حق اور باطل کی کش مکش میں ہم میں سے کون اپنا حصہ ادا کررہا ہے اور کون محض تماشائی بنابیٹھا ہے: ’’اگرچہ تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بناسکتا تھا، لیکن (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ جوکچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے، اس میں وہ تمھاری آزمایش کرے‘‘۔ (المائدہ ۵:۴۸)
جب امتحانات گزر جائیں گے اور پورا انعام اور ثواب وصول ہوجائے گا تو انسان ان تمام سختیوں کو بھول جائے گا جو اس نے جھیلیں تھیں۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ قیامت کے دن اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں انتہائی تکلیف دہ زندگی گزاری تھی۔ اس کو جنت میں ایک بار ڈبکی دی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے: ’’اے ابن آدم، کیا تم نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی؟ کیا تم کبھی کسی پریشانی سے گزرے؟‘‘ وہ جواب دے گا کہ نہیں اللہ کی قسم!میں نے کبھی کسی قسم کی تکلیف نہیں دیکھی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو امتحانِ زندگی میں کامیاب کرے۔ آمین!
lمقصد زندگی: قرآن میں اللہ تعالیٰ ہم سے سوال کرتا ہے: ’’بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمھیں یوں ہی بےمقصد پیدا کردیا، اور تمھیںواپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے، اس کی شان اس سے اونچی ہے (کہ وہ بےمقصد کچھ بنائے)، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرشِ بزرگ کا مالک ہے‘‘۔ (المومنون۲۳:۱۱۵)
ایسی زندگی جس کا کوئی مقصد نہ ہو یوں ہی ہے جیسے ایک جسم ہو جس میں روح نہ ہو، یا ایک قافلہ ہو جس کی کوئی منزل نہ ہو۔ لیکن اللہ نے تو ہمیں بھٹکنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ہماری زندگیاں ایک خوب صورت معنی خیز مقصد کی حامل ہیں جوجب ایک مرتبہ واضح ہوجائے تو بہت ساری الجھنیں دور ہوجاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بارہا ذکر کرتا ہے کہ اس کی کوئی بھی مخلوق بے مقصد پیدا نہیں کی گئی: ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے‘‘(الانبیاء ۲۱: ۱۶-۱۷)۔ یہی مضمون سورة حجر ۱۵: ۸۵-۸۶، سورة یونس ۱۰:۵ اور سورة دخان۴۴: ۳۸-۳۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد جوکچھ ہے، سب ایک نہایت گہرا اور پاکیزہ مقصد رکھتےہیں:’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدتِ خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے‘‘ (الاحقاف ۴۶:۳)۔
پس، وہ مقصد کیا ہے اور انسانی زندگی پر کیسے اثرات چھوڑتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: ’’اُس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ (الملک۶۷:۲)۔ہم اس دنیا میں اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آزمائے جائیں۔ کیوں؟ اس لیےکہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم نے اللہ تعالیٰ سے عہدکیا تھا کہ وہی ہمارا رب ہے۔ لہٰذا اللہ ہمیں آزما کر دیکھتے ہیں کہ ہم کس حد تک اپنے رب کے وفادار ہیں؟ پھر ہماری وفاداری کے بدلے میں بطور انعام ہمیں جنت ملےگی۔ یہ دراصل ایک سودا ہے: دنیا کی فانی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق، پھر آخرت کی ہمیشگی کی زندگی ہماری مرضی کے مطابق۔
انفرادی سطح پر کامیابی ا للہ کی عبادت سے حاصل ہوگی۔ اللہ کاارشاد ہے:’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘ (الذاریات ۵۱:۵۶)۔مگر اللہ کی عبادت کس چیز کو کہتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا ہر کام عبادت ہے،بشرطیکہ وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو اور اس کےپسندیدہ طریقے کے مطابق ہو۔ بلاشبہہ جو روحانی عبادات اللہ نے ہم پر فرض کی ہیں وہ نہایت اہم پیغامات اور یاد دہانیوں کی حامل ہیں اور ان کی ادائیگی ہم پر لازم ہے۔ البتہ اس کے علاوہ اگر ایک مسلمان دیانت داری کے ساتھ اللہ کے احکام پر چلتےہوئے اپنا کاروبار کررہا ہو، اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے رزق حلال کمارہاہے، تو اس کا کمانا عبادت ہے۔ اگر وہ پڑھائی کررہا ہواس نیت سے کہ آگے جاکر وہ اس کے اور دوسروں کے کام آئے اور اس سلسلے میں وہ ا للہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بھی بچا رہے، تو وہ اللہ کی عبادت کررہا ہے۔ اگر وہ اپنے گھر میں ہو اور اپنےگھروالوں کے حقوق کی ادایگی کررہا ہو، تو وہ اللہ کی عبادت کررہا ہے۔ اگر وہ میدان جنگ میں ہو اوراپنے دین اور بھائی بہنوں کی حفاظت کے لیے لڑ رہا ہو تو وہ ا للہ کی عبادت میں ہے۔
البتہ چونکہ ہم پر پہلا اور آخری حق اللہ کا ہے ،لہٰذا اگر ہمیں کبھی ایسی صورتِ حال پیش آئے جس میںایک طرف اللہ کی خوش نودی ہو اور دوسری طرف اس کی ناراضی، تو ہم ہمیشہ اللہ کی خوش نودی پرہی چلیں گے۔
دوسری طرف اجتماعی سطح پر ہمارے بارے میں یہ فرمایا گیا: ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو‘‘ ( اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)۔
بحیثیت امت ہمارافرض ہے کہ ہم حق کو قائم کریں اور باطل کو مٹائیں۔اس کے لیے ہم سب سے پہلے اپنی ذات سے شروع کرتے ہیں، پھر اپنے گھر کی طرف بڑھتے ہیں اوراس کے بعد جہاں تک ہمارا دائرہ اثر جاسکے۔ ایک مسلمان کی زندگی دنیائے فانی کی اشیاء کےساتھ بندھی نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنے رب کی محبت میں اور جنت پانے کے لیے جیتا ہے۔ پھر جب اس دنیا میں اپنی مدت پوری کرکے وہ آخرت کی طرف منتقل ہوجائے گا تو وہ جنت میں بیٹھ کر اپنی پچھلی زندگی کو اس کے تمام راحت اور غم سمیت یاد کرکے کہے گا: "ہم پہلے جب اپنے گھر والوں (یعنی دنیا) میں تھے تو ڈرے سہمے رہتے تھے۔ آخر اللہ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا اور ہمیں جھلسانے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔ ہم اس سے پہلے اس سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی ہے جو بڑامحسن، بڑا مہربان ہے‘‘۔ (الطور۵۲:۲۶-۲۸)
lقرآن کا تصورِ خدا :جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا درست تصور حاصل ہوجائے اس کو بےحد سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کھویا ہوا جگری دوست دوبارہ مل گیا ہو۔ مختلف مذاہب کے الگ تصورِ خدارہے ہیں جو فرق رکھنے کے باوجود کچھ باتوں میں مماثلت بھی رکھتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن نے خدا کے بارے میں کس طرح کا تصور پیش کیا ہے؟
قرآن ہمارا تعارف اللہ تعالیٰ سے کرواتا ہے، ایک ایسی ذات جو اپنی ہر مخلوق سے گہری دل چسپی رکھتی ہے۔ وہ محض ہمارا خالق نہیں ہے، بلکہ وہ ہمیں پرورش اور ہدایت دینے والا بھی ہے: ’’جس نے سب کچھ بنایااور ٹھیک ٹھیک بنایا۔ اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا پھر راستہ بتایا‘‘ (الاعلٰی ۸۷:۲-۳)۔ جب اس نے اپنی مخلوق کو اس دنیا میں بھیجا تو انھیں مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نواز کر بھیجا۔البتہ اس کے ساتھ ان کو تسلی بھی دی کہ وہ انھیںکبھی بے یار و مددگار بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑے گابلکہ وہ ان کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں اورکتابوں کو بھیجتا رہے گا تاکہ وہ انھیں سکھائیں کہ جو قوتیں اور صلاحیتیں ان کے پاس ہیں انھیں کس طرح استعمال کیا جائے: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘(البقرہ۲:۳۸)۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا اور آخرت میں سکون اور سلامتی کے ساتھ رہیں:’’اوراللہ انھیں سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے‘‘ (یونس۱۰: ۲۵)۔
چاہے ہمارے انفرادی درجے کے معاملات ہوں یااجتماعی، اللہ تعالیٰ سب میں دل چسپی رکھتے ہیں اورپوری محبت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کرتےہیں۔ پس قرآن میں ہم اللہ تعالیٰ کو تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مسائل کو حل کرتے دیکھتے ہیںجیسے حکومت، عدالت، صلح اور جنگ، میراث(النساء۴:۱۱-۱۲)، رضاعی رشتے، محفل کے آداب(المجادلہ ۵۸: ۸-۱۱)، معاشی معاملات کے اصول، اورشوہر اور بیوی کی آپس کی محبت کو قائم رکھنے کےطریقے: ’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگروہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘ (النساء۴:۱۹)۔قرآن پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کوئی بےلوث دوست، کوئی شفیق استاد یا ایک مشفق والدہم سے مخاطب ہے۔
قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو متحد رہنے پر ابھارتا ہے اور تفرقہ میں پڑنے سے منع کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳)۔ اس کو یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں اس کے بندوں میں ظلم اورفحاشی نہ پھیل جائے ۔ وہ ہمارے ازلی دشمن شیطان سے ہمیں متنبہ کرتا ہے اور اس سے، اس کے ساتھیوںسے اور ان کی چالوں سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔اللہ ہم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات بھی ہمیںسناتا ہے تاکہ ہمارے دل مضبوط ہوں اور ہماری ہمت افزائی ہو: ’’اور اے نبیؐ! یہ پیغمبروں کے قصّے جو ہم تمھیں سناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے ہم تمھارے دل کو مضبوط کرتے ہیں‘‘ (ھود: ۱۱:۱۲۰) ۔ بعض اوقات وہ پیار بھرے انداز میں ٹوکتا اورسرزنش بھی کرتا ہے: ’’جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟‘‘ (النور۲۴:۱۲)۔وہ ہماری کوتاہیوں کا تجزیہ کرتا ہےاور جہاں ضرورت ہو ہماری اصلاح کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۵۲)۔
قرآن کریم ایسے ربِّ جلیل سے ہمارا تعارف کرواتا ہے جو ہر چیزپر قدرت رکھتا ہے اور جس کے لیے کچھ ناممکن نہیں۔ زمین اور آسمان کے خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مگرسب سے زیادہ طاقت ور ہونے کے ساتھ وہ سب سے زیادہ حکمت اور دانائی والا بھی ہے:’’اللہ زبردست اور حکیم ہے‘‘ (النساء۴:۱۵۸)۔ ہم دنیا میں اپنے اردگرد مستقل تبدیلیاں ہوتے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں کبھی خوف اور پریشانی بھی لاحق ہوجاتی ہے۔ لیکن قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اول تو ہر چیز اس کی اجازت سے ہی ہوتی ہے، اور دوم یہ کہ حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے ہیں:’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتےرہتے ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۴۰ )۔ پس اللہ جس کو چاہتا ہے عزت اورطاقت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ وہ اندھیروں میں سے روشنی اور روشنی میں سے اندھیرا نکالتا ہے۔ وہ زندوں کو موت اور مردوں کوزندگی بخشتا ہے۔ مگر اس کا کوئی بھی فعل چاہے جس بھی پیمانے پر ہو بے مقصد نہیں ہوتا ہے، بلکہ ’’تیرے ہی لیے سراسر خیر ہی خیر ہوتا ہے، اس لیے کہ: ’’بھلائی تیرےاختیار میں ہے۔ بے شک تُو ہرچیز پر قادر ہے‘‘(آل عمرٰن۳:۲۶)۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ اپنی محبت اور حکمت میںاپنی بعض مخلوق کو دیگر مخلوقات کے فائدہ اورحفاظت کے لیے متعین کرتا ہے۔ اس کی باریک اوربےعیب تدبیروں کی ایک جھلک ہمیں حضرت موسیٰ اور خضرعلیہم السلام کے واقعے میں ملتی ہے۔ غریب ملاح اپنی کشتی میں سوراخ دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے ہوں گے۔ والدین اپنے بیٹے کی موت پر غم سے نڈھال ہوگئے ہوں گے۔ یتیم بچوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا کہ یہ پردیسی دیوار کیوں تعمیر کررہے ہیں؟ مگر درحقیقت اللہ ملاحوں کے وسیلۂ روزگار کو چھن جانے سے بچا رہے تھے، والدین کو بڑھاپے میں ذلت اٹھانے سے محفوظ رکھ رہے تھے، اور یتیم بچوں کے لیے باپ کی میراث کی حفاظت کا انتظام کررہے تھے۔ جب انسان کا ایسے پیارے رب پر ایمان ہو تو وہ کیوں نہ پکار اٹھے:’’کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ رکھیں،جب کہ اس نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں!‘‘ (ابراہیم۱۴:۱۲)
قرآن میں اللہ اپنے بندوں کو ترغیب دلاتا ہے کہ وہ ہمیشہ حق کے لیے کھڑے ہوں اور باطل کا کبھی ساتھ نہ دیں۔ پھر جب اس کے بندے واقعی حق اور باطل کی کش مکش میں اترتے ہیں تو وہ محض تماشائی نہیں بنا رہتا ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کو حوصلہ دلاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے: ’’ڈرو نہیں، میں تمھارے ساتھ ہوں، سن بھی رہا ہوں، دیکھ بھی رہا ہوں‘‘ (طٰہٰ ۲۰: ۴۶)۔
وہ ان کو تسلی دیتا ہے: ’’اگر تمھیں ایک زخم لگا ہے، تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکاہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰)۔ وہ ان کی ہمت کو بڑھاتا ہے:’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۹)،بلکہ بعض اوقات حق کوباطل سے ممیز کرنے کے لیے وہ دونوں کو آپس میں ٹکراتا ہے۔ پھر جیسے ہی باطل کا کمزور ڈھانچا زمین بوس ہوجاتا ہے، حق ہر ایک کے لیے واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے:’’ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے، اورجو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھیرا رہتاہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے‘‘ (الرعد۱۳:۱۷)۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اللہ بے نیازہے اور اس کو کسی کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنی مخلوق کی کوششوں کی بےحد قدر کرتا ہے:’’اللہ بڑا قدردان ہے، اور سب کے حالات کا پوری طرح علم رکھنے والا ہے‘‘(النساء۴:۱۴۷)۔ وہ کسی کی ادنیٰ سی نیکی کرنے کوشش کو بھی ضائع ہونے نہیں دیتا:’’اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘ (ھود۱۱:۱۱۵)۔ وہ ہر ایک کو انصاف دلاتا ہے، پس اسی لیے اس نے آخرت کی زندگی بھی رکھی کیونکہ اس محدود دنیا میں اکثرانسان عادلانہ جزا اور سزا سے محروم رہ جاتا ہے: ’’روز جزا کا مالک‘‘(الفاتحہ ۱: ۴)۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کی ذات سب سے عظیم ہے،مگر اس کی کوئی بھی مخلوق، چاہے کتنی ہی چھوٹی اور غیر معروف ہو، کبھی اس کی نظر سےاوجھل نہیں رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ ہر ایک کی بات کو سننے کے لیے موجود ہوتا ہے: ’’بے شک میرا رب قریب ہے اور وہ دُعاؤں کا جواب دینے والا ہے‘‘ (ھود۱۱: ۶۱)۔ ’’بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا ہے‘‘ (ابراھیم۱۴:۳۹ )۔یہ خدشہ کبھی نہیں ہوتا کہ کہیں وہ تھک کر غفلت میں پڑجائے۔ اس لیے کہ: ’’اس کو نہ اُونگھ آتی ہے نہ نیند‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۵)۔
یہ ہے وہ تصورِ خدا جو انسان کو اپنے رب کی محبت اور اس پر مان اور فخر دلاتا ہے۔ ایسا تصورِ خدامسلمان کو وہ ہمت اور عزم دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کےلیے سینہ تان کر کھڑا ہو، اس کی خاطر قربانیاں دے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہے: ’’اور ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس آگیا ہے اس پر آخر کیوں نہ ایمان لائیں؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کردے گا‘‘ (المائدہ۵:۸۴) ۔
اللہ کو جاننا، اس کو چاہنا اور اس سے قریب ہونے سےہی دل پُرسکون اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک دل میں ایک ویرانی ہے جوصرف اللہ کی معیت سے آباد ہوتی ہے۔ اور اس میںایک غم ہے جو صرف اس کو جاننے کی خوشی سےدور ہوتا ہے۔ اور اس میں ایک بےچینی ہے جو صرف اس کی طرف لپکنے سے قرار پاسکتی ہے۔ اور اس میںحسرتوں کی ایک آگ ہے جو صرف اس کے فیصلوںاور احکامات پر راضی ہونے اور صبر کرنے سے بجھ سکتی ہے۔ اور اس میں ایک خلا ہے جو صرف اس کی محبت، اس کی یاد اور اس کے ساتھ مخلص ہونے سے پُر ہوتی ہے۔ اور اگر انسان کو (اس کے بجائے) پوری دنیا بھی مل جائے تو وہ خلا کبھی پر نہیں ہوگا ۔