جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پس ماندہ خِطّۂ لداخ، جہاں اس وقت چینی اور بھارتی فوج برسرِپیکار ہے، ایک صدی قبل تک خاصا متمول علاقہ تھا۔ متحدہ ہندستان ، تبت، چین ، ترکستان و وسط ایشیا کی ایک اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔ خوب صورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک بلندوبالا پہاڑ، کھلے میدان۔ یہ خطہ بہت حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت نے اس خطے کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ قرار دے ڈالا۔
دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطے کا رقبہ ۸۷ہزار ۲سو ۹۷ مربع کلومیٹر ہے۔ اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر انتظام ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف ۳۲ ہزار ایک سو ۸۵ مربع کلومیٹر ہی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے بھی اکثر صحافی اور دانش ور اس خطے کو بودھ مت کے ماننے والوں کا علاقہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ ۲۰۱۱ء میں بھارتی حکومت کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ کی آبادی میں ۴۶ء۴۰ فی صد مسلمان اور ۳۶ء۶۵ فی صد بودھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بودھ آبادی ۶۶ء۳۹ فی صد ہے،مگر اس ضلعے میں بھی ۲۵مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔یعنی خطّۂ لداخ میں مجموعی طورپر مسلمان ۴۶ فی صد اور بودھ ۳۹ فی صد ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی
اس خطے کے نام وَر تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق، یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ ۱۹ویں صدی میں اور ۲۰ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان، یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابطہ تھا۔ لیہہ شہر میں بودھ خانقاہ نمگیال سیموگمپا، یا تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے ہیں، اور یارقند، کاشغر یا تبت کے دارالحکومت لہاسہ، گلگت، بلتستان، ہنزہ و چترال کی بہت سی کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے۔ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے مجھے بتایا تھا کہ ہم عذابِ الٰہی کے شکار ہیں،کیونکہ ہمارے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔
لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق: ’’کشمیر کی طرح لداخ بھی ۲۰ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس خطے کی بقا ، ترقی ، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند درّوں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کے لیے کھولنے میں ہی مضمر ہے‘‘۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے سے ہوکر گزرتی تھی۔ چین کے ہاتھوں ۱۹۴۹ء میں مشرقی ترکستان، یعنی سنکیانگ اور پھر ۱۹۵۰ءمیں تبت پر قبضے کے بعد آہنی دیوار کھڑی کرنے سے یہ راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور تنازع کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔
۱۹۶۲ءکی بھارت چین جنگ سمیت، یہ خِطّہ پانچ جنگوں کے زخم کھا چکا ہے۔۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی رابطے منقطع کرکے اس کو غربت اور افلاس کی گہرائی میں دھکیل دیا ہے۔ جمو ں و کشمیر کے ایک محقق سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ: کشیدگی اور سیاسی واقعات نے اس خطے کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اس خطے میں سرکاری ملازم اپنے تقرر کو سزا تصور کرتے ہیں۔ نویں صدی کی ا یک فارسی قلمی دستاویز حدود عالم کے مطابق وسط ایشیا کے حاجی لداخ کے راستے مقدس سفر پر جاتے تھے۔ ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطے کے ایک ذریعے کے طور پر رائج ہوگئی تھی۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے ۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ’آرغون‘ کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد (Dardic)قابلِ ذکر ہیں۔
گذشتہ صدی کے آخری عشرے تک لداخ میں مسلم اور بودھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ مذہبی نفرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مسلمان نام بھی مقامی رنگ لیے ہوتے تھے۔ مغل دور میں لداخ کے باج گزار نمگیال خاندان کے فرماں روا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لداخی بودھ البتہ ڈوگرہ ہندوؤں سے خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں سکتے تھے کہ جب ۱۸۴۱ءمیں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی، تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر جو ں جوں بھارتی سیاست کے عناصر لداخ میں جڑ پکڑتے گئے، دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بودھوں کو بتایا گیا کہ ان کی پس ماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔
۱۹۹۰ء کے اوائل میں یہاں کی بودھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرکے نئی دہلی کا زیر انتظام علاقہ بنانے کے لیے احتجاج بھی شروع کیا تھا، اور مسلمانوں نے اس کی جم کر مخالفت کی تھی۔ اس کے رد عمل میں بودھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی ، جو ۱۹۹۴ءتک جاری رہا۔ ۱۹۹۴ءمیں جب کشمیر میں گور نر راج نافذ تھا، تو گفت و شنید کے بعد لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کو بجٹ بنانے کا اختیار دے کر مقامی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کردیا گیا۔ بعدازاں ۲۰۰۳ء میں بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قریب کے مسلم اکثریتی کرگل ضلع کے لیے بھی اسی طرح کی کونسل کی منظوری دے دی۔ ۲۰۱۲ء میں اس ضلع کے بودھ اکثریتی تحصیل زنسکار میں بودھ آبادی نے مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ وجہ یہ تھی کہ بودھ فرقہ کے ۲۲؍افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ہندو مت کی طرح لداخی بودھوں میں بھی ذات پات کا عنصر سرایت کر گیا ہے۔ اس لیے نچلی ذات کے بودھ خاصے نالاں رہتے ہیں۔ زنسکار بودھ ایسوسی ایشن نے اس واقعے کے بعد عرصے تک مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا۔ اگر کوئی بودھ کسی مسلم تاجر سے کوئی بھی چیز خریدتا ہو ا پایا جاتا تو اس پر باقاعدہ جرمانہ عائد ہوجاتا تھا۔
لداخ کا خِطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی مؤرخوں نے درد نسل کو اصل اور مستند ’ہندآرین نسل‘ قرار دیا ہے۔ ۱۹۷۹ءمیں دو جرمن خواتین کو اس خطے میں چند ممنوعہ علاقوں میں گھومنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مرد ساتھیوں کی تلاش میں تھیں، تاکہ اصیل آرین نسل پیدا کر سکیں۔ اس علاقے میں کئی دیہاتوں میں آج تک ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں، اگرچہ اس رسم پر ۱۹۵۰ءسے قانونی طور پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اکثر ایک خاندان میں دو بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے، تاکہ زرعی زمین کی تقسیم روکی جاسکے۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض ۶۲۰مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بودھ کلچر کا حصہ ہیں۔ نوبرہ تحصیل کے نمبردار زیرنگ نمگیال کے مطابق: ’’اکثر خاندان سب سے چھوٹے بیٹے کو لاما بنانے کے لیے خانقاہ بھیجتے ہیں۔ لاما، لداخیوںکی زندگی کا اہم جز ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دیہاتوں میں ایک یا دو بودھ خانقاہیں موجود ہیں، جن کا انتظام و انصرام لاماؤں کے سپرد ہوتا ہے‘‘۔
خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بھارت اورپاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ ۱۹۹۹ءکی کرگل جنگ کے بعد جب لداخ کے پہلے کور کمانڈر جنرل ارجن رائے کی ایما پر دیہات کی سرکاری طور پر پیمایش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ ہی میں نہیں ہیں۔ اس لیے ۲۰۰۱ءکی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۴۷ فی صد ہے اور بودھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔ ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بودھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھنے والے ابھی تک پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے یہاں کی زمینوں و جایداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ کسی عدالتی مقدمے یا تنازع کی صورت میں ابھی بھی ریکارڈ اسکردو سے ہی منگوایا جاتا ہے۔
لداخ کو زمینی طور پر باقی دنیا سے ملانے والے دو راستے، سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھے ماہ کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اور اسکردو کے درمیان ۱۹۲کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر ، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروںاور قافلوں کا پچھلے کئی عشروں سے انتظار کر رہے ہیں۔ مقامی دانش ور حاجی عبدالرزاق کا کہنا ہے: ’’ان کے والد اکثر یارقند اور کاشغر تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان، یعنی دو اُونٹ کوہان والے ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے‘‘۔ چند برس قبل سلیم بیگ ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزوین کرکے اس سے متصل تین منزلہ میوزیم بنایا۔ یہ میوزیم اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیا کے درمیان تاریخی روابط کا امین ہے۔ ترک آرغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس میوزیم کی نذر کیا۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات جامع مسجد سے یہاں منتقل کیے گئے۔ ۱۷ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی، تب بودھو ں کی سب سے مقدس خانقاہ ہمپس خانقاہ کے ہیڈ لاما ستساگ راسپا نے لکڑی کی ایک چھڑی مسجد کے امام صاحب کی نذر کی، جو مسجد کے اندر ہی ایک فریم میں رکھی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔
فی الوقت چینی اور بھارتی فوجوں کے درمیان کش مکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک ترک آرغون غلام رسول گلوان [م: ۱۳مارچ ۱۹۲۵ء] کے نام سے موسوم ہے، جو ۱۸۹۲ءمیں ایرل آف ڈیمور [مصنّف: The Pamir] کی قیادت میں سیاحوں کے قافلے کی رہنمائی کررہے تھے ،مگر یہ قافلہ برفانی طوفان میں بھٹک گیا تھا۔ اپنی کتاب لداخ: تہذیب و ثقافت [ناشر: کریسنٹ ہاؤس پبلی کیشنز، جموں، ۲۰۰۵ء، ضخامت:۵۱۴] میں عبدالغنی شیخ لکھتے ہیں کہ: گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔ ایرل آف ڈیمور نے اس وادی کو گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔ ۱۶ویں صدی میں لداخ اور کشمیرپر فوج کشی کے بعد سعید خان کا قافلہ واپس یارقند جا رہا تھا، تو وہ برفانی طوفان میں گھر کر ہلاک ہوگیا۔ تین صدی بعد جب برطانوی زمین پیما اور نقشہ ساز جنرل والٹر رویر لارنس [م:۱۹۴۰ء] اس علاقے میں پہنچا ، تو وہا ں انسانی اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی دیکھیں۔ اس کو بتایا گیا کہ یہ اولدی قبیلہ کے دولت بیگ اور اس کے قافلہ کی باقیات ہیں، تو اس نے ریکارڈ میں اس میدان کا نام ’دولت بیگ اولدی‘ درج کردیا۔
افغانستان کی طرح یہ خطّہ بھی عالمی طاقتوں کی کش مکش یعنی ’گریٹ گیم‘ کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور پھر برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہِ راست عمل داری کے بجائے اس کو ایک بفرعلاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۸۷۲ءکو ڈوگرہ مہاراجا رنبیر سنگھ نے گوالیار اور نیپال کے حکمرانوں کو ساتھ ملاکر زار روس الیگزنڈر دوم کو خط لکھ کر ہندستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی، اور زار روس کو یقین دلایا کہ اس حملے کی صورت میں سبھی ریاستیں برطانوی راج کے خلاف روسی فوج کا ساتھ دیں گی۔ یہ خط فرغانہ کے روسی گورنر کے ذریعے سے زار روس کو بھیجا گیا تھا، مگر فرغانہ میں اس خط کی تفصیلات برطانوی جاسوسوں کے ہتھے چڑھ گئیں ۔ برطانوی حکومت نے مہاراجا رنبیر سنگھ کو سبق سکھاتے ہوئے، لداخ میں اپنا ایک مستقل نمایندہ مقرر کردیا۔ ساتھ ہی ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی غیرممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر پابندی عائد کردی گئی۔ عبدالغنی شیخ کے بقول زار روس نے اپنے جواب میں لکھا تھا کہ وہ فی الحال ابھی ترکی کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ استنبول فتح کرنے کے بعد وہ ہندستان کا رخ کرے گا۔ ۱۸۷۷ءمیں روس نے ترکی سے جنگ چھیڑدی، جس کے نتیجے میں بلغاریہ، رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو، عثمانی ترک سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔تاہم، زار کا استنبول پہنچنا خواب ہی رہا۔
خطے میں مسلمانوں اور بودھ مت کے پیروکاروں کے درمیان وہ اب پہلی سی اُلفت نہیں رہی، مگر ماضی اور عظمت رفتہ کی یادیں قدرے مشترک ہیں۔ یہاں کی پوری آبادی الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گزارنے سے عاجز آچکی ہے۔ چند ماہ قبل جب لداخ کو کشمیر سے بھارت نے الگ کیا ، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کے لیے بھیجا گیا،لیکن تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ انتظامیہ نے زبردستی کرکے انھیں مرکز کے زیرانتظام علاقے کے ملازمین میں شامل کیا ہے۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق بھارت، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوجی نقطۂ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے۔ اللہ کرے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پُرامن حل تلاش کیا جائے، تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔