ظفر اسحاق صاحب کے والد گرامی مولانا ظفر احمد انصاری [۱۹۰۸ء-۱۹۹۱ء] الٰہ آباد یوپی کے ان معتبر عمائدین میں سے تھے ،جنھوں نے پاکستان کے قیام کے لیے تن من دھن سے حصہ لیا، اور وہ تقسیم ہند سے قبل ہی کراچی منتقل ہوگئے۔ مولانا انصاری تقسیم ملک کے بعد پاکستان کے سنٹرل پارلیمانی بورڈ کے سکریٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سکریٹری تھے۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کی پیدایش الٰہ آباد میں ۲۷دسمبر ۱۹۳۲ء کو ہوئی۔ انھوں نے ۱۹۵۰ء میں سندھ یونی ورسٹی سے گریجویشن اور ۱۹۵۲ء میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے (اکنامکس) کیا۔ کراچی یونی ورسٹی، پرنسٹن یونی ورسٹی، کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی، جدہ، کنگ فہد یونی ورسٹی آف پٹرولیم ، ظہران میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ میلبورن یونی ورسٹی، میک گل اور شکاگو یونی ورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ معروف اسکالر چارلس جے آرم [م: ۲۰۱۱ء] اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن [م: ۱۹۸۸ء]، ڈاکٹر انصاری کے سپروائزر تھے۔ قاہرہ کے زمانۂ تحقیق میں انھوں نے شیخ محمد ابوزہرہ [م:۱۹۷۴ء]سےعلمی استفادہ کیا۔
ظفراسحاق انصاری نے معروف مستشرق جوزف شاخت [م: ۱۹۶۹ء]کی انگریزی کتاب کے ایک باب: Pre-Islamic Background and Early Development of Jurispruedence کو عربی میں منتقل کرکے شیخ ابوزہرہ کی خدمت میں پیش کیا تاکہ وہ اس کی غلطیوں کا تعاقب کریں۔ شیخ نے تعلیقات علی اوہام شاخت لکھ کر پروفیسر ظفراسحاق انصاری کی خواہش کی تکمیل کی۔ پروفیسر انصاری نے فقہ اسلامی پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تھیسس کا عنوان تھا:
The Early Development of Islamic Jurispruedence in Kufa: A Study of the Works of A Yusuf and Al-Shabar
پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کے قیمتی تحقیقی مقالات انسائیکلوپیڈیا اور انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن میں شامل کیے گئے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد میں اپنے عہد ِ صدارت کے دوران کئی بین الاقوامی سیمی نار منعقد کرائے۔ان کی ایک معروف تصنیف کا عنوان ہے: Muslims and the West-Encounter and Dialogueجس میں دنیا کے چوٹی کے مسلمانوں اور مستشرقین کے مقالات شامل ہیں۔ اس مجموعے کو جان ایس پوزیٹو کے ساتھ پروفیسر ظفر اسحاق نے ترتیب و تبویب دیا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے انگریزی جرنل Islamic Studies کو انھوں نے عالمی تحقیقی معیارفراہم کیا۔ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر ۲۰۱۰ء میں پروفیسر خورشیداحمد کی مشارکت سے ایک اہم پراجیکٹ مکمل کیا جس کا عنوان ہے: Islamic Perspective: Studies in Honour of Sayyid Abul Ala Mawdudi۔
پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کو ورثے میں قرآن، حدیث اور فقہ سے آگہی ملی۔ وہ اقبال اور رومی شناس تھے۔ وہ وسیع القلب، شیریں مقال، مخیرالاوقات ، گرم جوش، محبت و اُلفت کا پیکر اور دوسروں کے اندر خوبیوں کے متلاشی و معترف تھے۔ انھیں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار و خیالات سے بے پناہ عقیدت تھی۔ ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی اور تفہیم القرآن کا معیاری انگریزی ترجمہ ان کے خاص حسنات میں سے ہیں۔ ان کا انتقال ۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو اسلام آباد میں ہوا۔۱
تفہیم القرآن تفسیر کی دنیا کا وہ شاہکار ہے، جس کے اندر ساڑھے چودہ سوسالہ علماے اُمت کی قرآنی بصیرت کا عطر آگیا ہے۔ بیسویں صدی میں اسلامی دنیا نے جو معیاری ادب تیار کیا ہے اس میں اسے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد تحریر کرتے ہیں:
تفسیر تفہیم القرآن جب سے اُردو میں معرضِ وجود میں آئی، اس وقت سے انگریزی زبان میں اسے ترجمہ کرنے کی ضرورت کا احساس رہا ہے۔ چنانچہ اس ضرورت کی تکمیل تفہیم کا انگریزی ترجمہ کروا کر اسلامک پبلی کیشنز لاہور نے بھی پورا کر دیا۔ اگرچہ یہ عمدہ پہل تھی لیکن عمومی طور پر یہ احساس کیا گیا کہ اس کے ذریعے تفہیم القرآن کی عظمت اور قوت کو منتقل نہیں کیا جاسکا ہے، جو نہ صرف ایک شاہکار تصنیف ہے بلکہ ایک بے نظیر ادبی کارنامہ ہے۔ سیّد مودودی نے قرآن کے متن کو جس بلند آہنگ کے ساتھ اُردو میں تحریر کیا ہے، وہ انگریزی میں منتقل نہیں ہوسکا تھا، اور اس میں متعدد مقامات پر حواشی کو بھی مختصر کردیا گیا تھا۔ تصنیفی زبان اور کتاب کی ظاہری ترتیب معیار سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے خود ان کمیوں کو محسوس کیا اور انھوں نے خواہش کی کہ جدید انگریزی زبان و بیان کے اندر ایک مؤثر ترجمہ تیار کیا جائے۔ چنانچہ اس جذبے کے تحت مرحوم چودھری غلام محمد اور راقم السطور (خورشیداحمد) نے سیّد مودودی سے ایک نئے ترجمے کی بابت مشورہ کیا۔ ہم تمام کی راے میں ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اس ذمہ داری کے لیے سب سے مناسب فرد محسوس ہوئے۔ ان کی عربی ،اُردو اور انگریزی زبانوں پر یکساں قدرت اور سیّد مودودی کے افکار اور منہاج میں گہری بصیرت نے ڈاکٹر انصاری کو اس خدمت کے لیے قابلِ ترجیح بنا دیا۔ سیّد مودودی کی خواہش کی تکمیل کے لیے چودھری غلام محمد اور میں نے ڈاکٹر ظفر اسحاق کو اس خدمت کو قبول کرنے پر آمادہ کرلیا۔ اس عظیم خدمت کو کچھ تذبذب کے ساتھ انھوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ سوئے قسمت کہ ڈاکٹر انصاری کے اس جدید پیراہن کو نظرنواز کرنے کے لیے سیّدمودودی اور چودھری غلام محمد میں سے کوئی زندہ نہ رہا۔ تاہم، ان کی مقدس اَرواح ضرورشادمانی محسوس کریں گی کہ ان کی دیرینہ خواہش کی اب تکمیل ہورہی ہے۔۲
پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے ۱۷جولائی ۱۹۸۷ء کو تفہیم کے انگریزی ترجمے کی پہلی جلد کی طباعت کے موقعے پر ادارتی نوٹ میں اپنی خوش بختی کا اعتراف کیا کہ خود مصنف سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان کے ذریعے انگریزی ترجمہ تفہیم القرآن پر اطمینان کا اظہار فرمایا تھا۔ پروفیسر انصاری نے تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے کی بابت تحریر کیا ہے۔ سطورذیل میں اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کی جاتی ہے:
میں نے دو متضاد رویوں کو ایک ہی اسلوب میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ ایک کوشش یہ کی کہ اصلی ترتیب الفاظ و معانی کو برقرار رکھ سکوں، تاکہ مروجہ قابلِ ستایش انگریزی اسلوب میں تفہیم منتقل ہوسکے۔ وہیں دوسری کوشش یہ رہی کہ اُردو نثری ادب اور سیّدمودودی کی ادبی خصوصیات کو بھی باقی رکھ سکوں۔ اُردو ادب کی اس شاہکار تصنیف کو میں نے انگریزی داں طبقہ کے لیے قابلِ استفادہ ومطالعہ بنانے کی خاطر اس کی اصلیت کو باقی رکھتے ہوئے چند اقدامات کیے ہیں، مثلاً:
۱- متعدد اقوالِ مصنف اس بات کے مقتضی تھے کہ ا نھیں حوالوں کے ساتھ پیش کیا جائے۔ حُسنِ ظن کی بنیاد پر تفہیم القرآن میں انھیں بلاحوالہ پیش کیا گیا تھا۔ انگریزی ترجمہ تفہیم میں بقدرِ ضرورت حوالے فراہم کردیے گئے ہیں۔ پھر یہ کہ تفہیم میں جہاں جہاں انگریزی مصادر کے حوالے ہیں، وہ بلاشبہہ انگریزی سے ترجمہ کرکے پیش کیے گئے ہیں۔ ان انگریزی حوالوں کو اصل انگریزی مصادر سے پیش کر دیا ہے۔
۲- احادیث کے حوالوں کی تحقیق میں بہت زیادہ وقت صرف ہوگیا، مثلاً اس کام میں ارنٹ جان ونسنک [م: ۱۹۳۹ء] کا حوالہ جاتی طریقہ اختیار کیا ہے، جس کا اظہار انھوں نے A Hand book of Early Muhammadan Tradition میں کیا ہے۔ یہ کتاب لیڈن سے ۱۹۲۷ء میں شائع ہوچکی ہے۔ اور ان کی دوسری کتابConcordance میں بھی حوالوں کا اعلیٰ اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ تفسیری مآخذ کے حوالوں میں سیّدمودودی نے سورتوں اور آیات کے نمبر رقم کیے ہیں، لیکن ان مآخذ کی جلدوں اور صفحات کا ذکر نہیں ہے۔ ان مصادرکے اجزا اور صفحات کا اندراج مکمل کرلیا گیا ہے۔ بائبل کے تمام حوالوں کو تصحیح شدہ ایڈیشن کے مطابق کردیا گیا ہے۔
۳- اُردو قارئین کے بالمقابل انگریزی قاری کی ضرورت کے پیش نظر چند اضافے مزید کیے گئے ہیں۔ اوّل یہ کہ ایک موضوعاتی فہرست تیارکی گئی ہے، جس کے ذریعے قرآنی اصطلاحات کا تعارف پیش کر دیا گیا ہے۔ دوم یہ کہ ایک سوانحی اشاریہ میں متذکرہ اشخاص کی حیات سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، جن کا ذکر حواشی کے اندر آیا ہے۔ سوم یہ کہ موضوعاتی اشاریہ (جو کہ سیّدمودودی نے تیار کر دیا ہے) کے علاوہ ایک عمومی اشاریہ بھی تیار کیا ہے۔ چہارم یہ کہ فہرست کتابیات کے ذریعے متذکرہ کتابوں کی تفصیل پیش کر دی گئی ہے۔ پنجم یہ کہ انتہائی ضروری نوٹس بھی جگہ جگہ لگا دیے گئے ہیں اور آخری بات یہ کہ انگریزی مترجم کے نوٹس جہاں بھی ہیں، انھیں محترم مصنف کی توضیحات سے الگ اور نمایاں کر دیا گیا ہے۔۳
اس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے متعدد اشاریے یا انڈکس تیار کرنے میں بے پناہ محنت صرف کی ہے اور تفہیم القرآن کے انگریزی قالب کو عصری تحقیقی پیراہن عطا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تفہیم القرآن میں سیّدمودودی نے صرف ایک اشاریہ تیار کیا ہے اور وہ ہے حروفِ ابجد کے مطابق موضوعاتی فہرست۔ سیّدمودودی کے ایک ایک موضوعاتی اجزاء کو ظفر اسحاق صاحب نے موجودہ انگریزی تصانیف کے مطابق صفحات کے تعیین کے ساتھ شامل کیا ہے، مثلاً تفہیم القرآن،جلداوّل (۲۴x۱۶ سائز) میں سورۃ الفاتحہ تا سورۃ الانعام شامل ہے اور ان تمام سورتوں کے اعتبار سے موضوعاتی فہرست اس جلد میں تیار کی گئی ہے، جب کہ ظفر اسحاق صاحب کا انگریزی قالب جو ۲۱.۵x۱۳ کے سائز میں ہے، ان سورتوں کی تشریح تین جلدوں میں سماسکی ہے، اور اس طرح تفہیم، جلداوّل کی تمام موضوعاتی فہرست کو شامل کرلیا گیا ہے۔
فرہنگ اصطلاحات کو بطورِ خاص جدید تحقیقی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج اس کا چلن انگریزی کے علاوہ بعض دیگر زبانوں میں بھی عام ہوچکا ہے۔ پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے ہرجلد کے آخر میں اس ٹائٹل کے تحت اس جلد میں آئے ہوئے مشکل الفاظ اور اصطلاحات کی دل نشین تشریح کی ہے۔ اس گلوسری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک غیرمسلم: عیسائی، یہودی، ہندو کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ان اصطلاحات کا دین اسلام میں کیا مفہوم و مقام ہے؟ان کے لغوی اور اصطلاحی معانی کیا ہیں؟ ایک لفظ کن کن معانی میں معتبر و مستعمل ہے؟ الفاظ کے واحد جمع کی تفصیل کیا ہے؟ اور یہ الفاظ کس سورہ میں آئے ہیں؟ وغیرہ، اس تشریح کے مباحث ہیں۔مثلاً الآخرہ کی بابت کہتے ہیں کہ یہ چارمفہوم میں بولا جاتا ہے۔۴ قرآن میں کفر متعدد مفہومات میں استعمال ہوا ہے،چار کا ذکر کرتے ہیں۔۵
’ابلیس‘ کی لغوی تعریف کرتے ہیں کہ وہ جو مکمل ’مایوسی کا پتلا‘ ہو۔ اسلامی اصطلاح میں اس کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے کے خدائی حکم سے انحراف کیا تھا اور جس نے انسان کو گمراہ کرنے کی خداسے اجازت طلب کی تھی۔ اسے شیطان بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک خاص حیثیت کا مالک ہے۔ اسے مادہ کے رُوپ میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔۶
چند اصطلاحات ملاحظہ کریں، جن کی تشریح جلداوّل میں مترجم نے کی ہے:عرش، اصحاب الصفہ، آیت، اہلِ الذمہ، حدیث، حج، حروفِ مقطعات، عدت، احرام، احسان، انجیل، اعتکاف، خلیفہ، خُلع، کرسی، مہر، رب، رحمٰن، رحیم،رکعات، رکوع، سبت، شیطان ، شکر، تابعون، طاغوت، تقدیس ، تسبیح ، ایام التشریق، توبہ، ثواب،عمرہ۔ یہ وہ چند اصطلاحات ہیں، جو سیّد مودودی نے تفہیم القرآن کی جلداوّل کے ایک حصے میں استعمال کی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر اصطلاحات چونکہ تفہیم کے قاری کے لیے معروف تھیں، لہٰذا سیّد مودودی نے الگ سے تعارف نہیں کرایا ہے اور فہرست موضوعات میں بھی سواے چند کے اکثر کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ لیکن چونکہ انگریزی قاری کے لیے یہ ضروری تھیں۔ اس لیے انگریزی ترجمہ کی تمام جلدوں کے اندر سیکڑوں اضافی اصطلاحات کی تشریح خدمت ِ قرآن کے باب میں ڈاکٹر انصاری کی جانب سے ایک اہم اضافہ ہے۔
تفہیم القرآن کےانگریزی ترجمے کی ہرجلد کے آخر میں یہ دوسری تحقیقی سرخی ہے، جو پروفیسر انصاری کی خدمت قرآنی کا اہم حصہ ہے۔ تفہیم القرآن کی متعلقہ جلدوں/سورتوں میں مذکوراسماے گرامی: صحابہ، تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین، فقہا، پورے القاب و آداب کے ساتھ تیار کیے گئے ہیں۔ ان تمام ناموں کے ساتھ ہی سنین وفات کو شمسی و قمری دونوں طریقوں سے واضح کرکے ان کے زمانوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ تمام ترجموں کے اندر مذکور اسماے گرامی کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔ اس سوانحی خاکے میں جو نام اس جِلد میں مکرر آگیا ہے تو اشارہ کردیا گیا ہے کہ فلاں جلد میں اس کی تفصیل ملاحظہ کریں، مثلاً جلدسوم میں عبداللہ ابن مسعود، عبداللہ ابن ابی، عبداللہ ابن عمر کی بابت اشارہ کیا گیا کہ ’’جلداوّل و دوم میں ان کی تفصیل ملاحظہ کریں‘‘۔
اختصار و ایجاز ان اشاریوں کی اہم خوبی ہے، چند مثالیں ملاحظہ کریں:
۱- عبداللہ ابن عمرو ابن العاص (م: ۶۵ھ/۶۸۴ء) ایک صحابی تھے، جو مصر کے فاتح کے بیٹے تھے، جنھوں نے اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کیا۔ وہ لگن، محنت اور حصولِ علم کے لیے معروف تھے۔ انھوں نے احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔۷
۲- الزہری، محمد ابن مسلم ابن شہاب (م:۱۲۴ھ/۷۲۱ء) دوسری صدی ہجری میں مدینہ کے غیرمعمولی اسکالر تھے جنھوں نے حدیث اور سیرت پر غیرمعمولی خدمت انجام دی۔۸
۳- الطبری محمد ابن جعفر (م: ۳۱۰ھ/۹۲۳ء) ایک معروف مؤرخ، فقیہ اور مفسرقرآن۔ ان کی باقیات میں جو قابلِ حصول ہیں: جامع البیان فی تفسیر القرآن اور ان کے وقائع: تاریخ الرسل والملوک، بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔۹
مغربی دنیا کے محققین نے علم و تحقیق کا معیار کافی بلند کیا ہے۔ مصادرو مراجع کا استعمال تو مسلم محققین بھی عہد وسطیٰ سے آج تک کرتے آرہے ہیں، لیکن کسی کتاب کے اندر مذکور مصادر/مآخذ کو کتاب کے آخر میں حروفِ ابجدیہ کے اعتبار سے ترتیب دینا بطورِ خاص مستشرقین کا تحقیقی کارنامہ ہے۔ مترجم گرامی پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کی تمام تحریریں تحقیق کی اس اعلیٰ قدر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ چنانچہ تفہیم القرآن کے ترجموں کو بھی تحقیق کی یہ شان عطا کی گئی ہے۔ انگریزی ترجموں کی تمام جلدیں کتابیات کی جملہ معلومات سےبھرپور ہیں۔ چنانچہ جلداوّل میں ۲۷کتابوں کا ذکر ہے، جب کہ جلد سوم میں ۱۲مصادر کے مصنّفین،مؤلّفین، مترجمین، اجزا، مطابع، سنینِ طباعت، ایڈیشن، مقامِ طباعت کی متعین معلومات فراہم ہوجاتی ہیں۔ اس اشاریے کا اہم پہلو یہ ہے کہ جن انگریزی مصادر کو مصنف علام سیّد مودودی نے اُردو میں رقم کیا تھا، ظفراسحاق صاحب نے اصل انگریزی نسخوں کی نشان دہی ترجمہ کرتے وقت بھی کی ہے اور انھی کو اس اشاریہ کا جزو بھی بنایا ہے، مثلاً:
The Holy Bible, Revised Standard Edition, NewYork, 1952 A.J. Wensinck, Cocordance et Indices de Tradition Musalmane 7Vols, Leiden, 1939-19
تفہیم القرآن کی چھے جلدوں کے اندر سیکڑوں صفحات میں پھیلے ہوئے ہزاروں عنوانات پر مشتمل فہرست موضوعات محققین کو کتب و مآخذ کی عدم دستیابی کے وقت سکون و راحت بخشی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے لاطینی حروفِ ابجدیہ کے اعتبار سے انھیں اسی جلد میں شامل کیا ہے، جہاں ان کا تذکرہ آیا ہے اور تمام ہی مندرجات کو ریکارڈ کیا ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے جوفہرست مصطلحات تیار کی ہے اور سیّد مودودی کی فہرست موضوعات، دونوں کو ملا کر اگر استفادہ کیا جائے تو طالب علم کو معلومات کا وقیع و نادر خزانہ ہاتھ لگتا ہے۔
اس فہرست موضوعات کا خاص وصف یہ ہے کہ انگریزی تحقیقی منہج کی رعایت کے نتیجے میں اکثر مقامات پر اصل عربی الفاظ و مصطلحات کو قوسین میں رکھا گیا ہے، مثلاً: (Ibrahim) Abraham, (Harun) Aaron (Kufr) Disbelief, (Talaq) Divorce (Dhikr) Admonisk وغیرہ۔ اسی طرح کچھ دوسرے قوسین، مثلاً: بنواسرائیل کے لیے اشارہ کرتے ہیں (See Children of Israelities)۔ اس طرح اس اشاریے میں دوطرح کے قوسین ہیں: ایک میں انگریزی ترجمہ کی اصل عربی کو قوسین میں بند کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرح کے قوسین میں ترجمہ شدہ لفظ کو دوسرے مقام پر ملاحظہ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں اور ایسا کرکے مترجم نے خود کو اور قاری کو تکرار سے بچایا ہے۔
اشاریہ سازی کی اس قسم کے اندر پوری کتاب پر ایک طائرانہ نظر پڑ جاتی ہے۔ اس اشاریہ کے ذریعے صفحہ صفحہ کے لعل و گہر کو ایک بار پھر یک جا کردیا جاتاہے۔ اس اشاریے کے ذریعے مصطلحات، مآخذ، اماکن ، شخصیات اور افکار، الغرض جس نوعیت کی کتاب تیار کی جاتی ہے، اس کے جملہ اجزاے ترکیبی کا خلاصہ کر دیا جاتا ہے۔ ہر زبان کے حروف اصلیہ کے ذریعے معارف کے اس گنجینہ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ترجمہ تفہیم کی ہرجلد میں A تا Z یہ عمومی اشاریہ ایک طرف تفہیم القرآن کو قدآور بناتا ہے اور دوسری طرف خود ترجمہ پرغیرترجمہ ہونے بلکہ اصلی تحقیقی کتاب ہونے کا گمان کراتا ہے
قرآن کے اُردوترجمہ کو انگریزی زبان کی جدید خوبیوں سے مالا مال کردینا انگریزی دُنیا میں پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کابے مثال اور نادر کارنامہ ہے۔ قاری کو اگرمعلوم نہ ہوکہ یہ سیّدمودودی کی تفہیم کا ترجمہ ہے، تو وہ آخر تک اسے عربی متن قرآن کا ان کا ذاتی ترجمہ تصورکرے گا۔
طریقۂ کار یہ اختیار کرتے ہیں کہ ہر سورہ کے نام کے نیچے اس کے مکی یا مدنی ہونے کی تاکید کرتے ہیں۔ سورہ نمبر واضح کرتے ہیں اور ہر صفحہ کی پیشانی پر ان سورتوں کے انگریزی نام کو قوسین میں بھی درج کرتے ہیں، مثلاً آل عمران (The House of Imran)، البقرہ (The Cow) ، المائدہ (The Table)،النساء (Women)، الانعام (live stock) وغیرہ۔ تفہیم القرآن کے اندر پاروں، رکوع، منزل، جزء، وغیرہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ علامات صرف قرآن کی تلاوت کی خاطر ہیں اور توقیفی بھی نہیں ہے۔ غالباً اسی وجہ سے مترجم موصوف نے انگریزی ترجمہ میں ان کی رعایت نہیں رکھی اور تذکرہ نہیں کیا ہے۔
دیباچے میں نام اور وجہ تسمیہ کے لیے Title، زمانۂ نزول کے لیے Period of Revelation یا History of Revelation شانِ نزول کے لیے Background ، موضوع اور مباحث کے لیے Subject and Central Theme کے الفاظ سے ترجمہ کرتے ہیں۔
حواشی کے اندر جابجا سیّد مودودی نے سورتوں کے نام اور آیات کے حوالوں کی نشان دہی کی ہے اور رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مترجم موصوف نے سورتوں کے نام کے بجاے سورہ نمبر اور آیات نمبر کااسلوب اختیار کیا ہے، کیونکہ انگریزی تراجم قرآن میں یہی اسلوب رائج و راجح تصور کیا گیا ہے، مثلاً البقرہ حاشیہ ۲۴، حاشیہ ۳۱، حاشیہ۴۶، آل عمران حاشیہ ۱،۲، ۸، ۱۱ بطورِ مثال ملاحظہ کریں۔
دوسری نوعیت کا اضافہ چند حواشی کی مدد سے پیش کیا جاتا ہے، مثلاً البقرہ حاشیہ ۱۳۲ میں ’دین‘ کی اصطلاح کی وضاحت کی گئی ہے۔ مترجم اس مقام پر کہتے ہیں کہ ’’سیّد مودودی کی اصطلاح کو ان کی کتاب Four Basic Quranic Terms میں ملاحظہ کریں، جس کا ترجمہ ابواسعد نے انگریزی میں کیا ہے اور جو لاہور سے ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئی ہے‘‘ اور صفحات کی بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ اصل کتاب کا عنوان ہے: قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں۔
دوسری مثال، البقرہ حاشیہ ۱۳۳ کی ہے۔ اس حاشیہ میں تلمود میں حضرت یعقوبؑ کے جملے نقل کیے گئے ہیں۔ مترجم موصوف ان اُردو جملوں کا ترجمہ کرنے کے بجاے تلمود کے انگریزی جملوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور تفہیم کے لیے اصل حوالہ دے کر اسے تحقیقی وقار عطا کرتے ہیں۔۱۰
تیسری مثال: البقرہ حاشیہ ۱۴۶ کی یہ ہے کہ سیّد مودودی نے طبقاتِ ابن سعد کی ایک روایت پیش کی ہے لیکن حوالہ نہیں دیا ہے۔ مترجم گرامی نے ابن سعد، طبقات، جلد۱، ص۲۴۱ کا حوالہ دے کر اضافہ کیا ہے۔
چوتھی مثال، البقرہ آیت نمبر۱۴۶ کی یہ ہے کہ اس میں یَعْرِفُوْنَہ کی ضمیر (ہ) سے سیّدمودودی نے قبلہ مراد لیا ہے۔۱۱مترجم موصوف نے یہاں وضاحتی نوٹ لگایا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دیگر مفسرین نے اس کا مرجع پیغمبر یا قرآن کو قرار دیا ہےنہ کہ قبلہ کو۔۱۲
پانچویں مثال ، آل عمران حاشیہ ۲۲ کی یہ ہے کہ سیّد مودودی نے بجاطور پر تورات و انجیل کو خدا کی کتاب قرار دیا۔ مترجم گرامی نے کہا کہ تورات اور انجیل کے قرآنی انداز بیان کے لیے خود تفہیم القرآن، آل عمران کا حاشیہ ۲ دیکھیں، جہاں سیّد مودودی نے قیمتی حاشیہ تحریر کیا ہے۔ اس طرح ترجمہ کے اندر بھی رجوع کرنے کی ہدایت دراصل مترجم گرامی کا اضافہ ہے، جس سے قاری کو فیض پہنچتا ہے۔ اس طرح ان چند مثالوں کے ذریعے ترجمہ اور حاشیہ دونوں کے اندر ظفراسحاق صاحب کے عطایا نہایت بروقت اور علم و تحقیق میں اضافے کا باعث ہیں۔
قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ترجمہ کے اندر زبان و بیان کا حُسن اور جلوہ اپنی مثال آپ ہے۔ قرآنی اصطلاحات کے لیے قریب الفہم انگریزی مترادف کا انتخاب، جملوں کے درمیان گرامر کی باریکیوں کا خیال، کومہ، علاماتِ استفہام و حیرت، اقتباسات، وقفہ، عطف وغیرہ کی علامات کے ذریعے پروفیسر انصاری سیّد مودودی کے اردوے مبین کوعصرجدید کے معیاری انگریزی ادب میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔
مترجم گرامی پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کی یہ دوسری قرآنی خدمت ہے اور اس خدمت کے طفیل ان کا نام نامی ہر اس مقام پر، اسی احترام کے ساتھ لیا جائے گا جہاں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کی قرآنی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔ ظفر اسحاق انصاری نے ’ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی‘ کو ’تفہیم القرآن کی تلخیص‘ کا عنوان دیا ہے جیساکہ اس کے اصلی نام سے ظاہر ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد، جو اس ترجمے کے اصل محرک ہیں، اس کتاب کے پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں:
سیّد مودودی کی تفہیم القرآن جو چھے جلدوں میں ہے، اس کا خلاصہ ایک جلد میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ دنیابھرکے انگریزی جاننے والے حضرات تک یہ ترجمہ پہنچ سکے۔ یہ ترجمہ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر برطانیہ سے شائع کیا جارہا ہے۔ اسی وقت یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ جن کے پاس وقت اور فرصت نہیں ہے، ان کی خاطر ایک جلد میں انھوں نے اُردو ترجمے کو مکمل کیا اور اس کا نام: ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی رکھا۔۱۳
پروفیسر ظفر اسحاق انصاری تفہیم القرآن کو انگریزی میں منتقل کرنے کو اپنی سعادت اور خوش بختی قراردیتے ہیں۔ وہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
جب میں تفہیم القرآن کو انگریزی کی آٹھویں جلد میں منتقل کرچکا تو فاؤنڈیشن میں میرے بعض دوستوں نے اس کام کو روک دینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس وقفے کو پورے قرآن کو ترجمہ کرنے میں پہلے استعمال کرلوں اور ان ’مختصر حواشی‘ کو بھی انگریزی کا جامہ پہنا دوں، جسے سیّد مودودی نے تیار کیا ہے اور جسے انھوں نے ۱۹۷۶ء میں طبع کرایا تھا۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ مَیں سورۃ القصص (۲۸) مکمل کرچکا تھا، جو انگریزی کی ساتویں جلد میں شائع ہوا تھا۔ میں نے اس نئے ترجمہ پر پوری توجہ کے ساتھ نگاہ ڈالی اور بعض مقامات کی اصلاح کی اور ۲۹ تا ۱۱۴ سورتوں کے ترجموں کو بالکل نئے سرے سے انگریزی کا قالب پہنا دیا۔ میرے پاس اللہ کا شکر ادا کرنے کو الفاظ نہیں ہیں۔ خواہش صرف یہ ہے کہ خداوند قدوس مجھےقرآن کے مترجمین کے درمیان جگہ مرحمت فرما دے۔۱۴
ترجمہ مع مختصر حواشی کے آخر میں تفہیم کے ترجموں کی مانند چار اشاریے تیار کیے گئے ہیں جو نسبتاً مختصر ہیں، مثلاً اصطلاحات کا اشاریہ ایک سو تین (۱۰۳) اصطلاحات کی تشریح کررہا ہے۔ سوانحی اشاریہ کے اندر ساٹھ (۶۰) شخصیات کے مختصر کوائف کا ذکر آگیا ہے۔ موضوعاتی اشاریہ اور عمومی اشاریہ، تفہیم القرآن کے ترجموں کی مانند تیار کیے گئے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ تفہیم القرآن میں سیّدمودودی نے صرف فہرست موضوعات تیار کی تھی۔ تین اشاریے مترجم گرامی کے اضافے تھے، جب کہ یہاں ترجمہ مع مختصر حواشی میں چاروں اشاریے مترجم گرامی کی ذاتی کاوش کا مظہر ہیں۔ دونوں تصنیفات کی اصطلاحات کے اشاریوں کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مترجم گرامی کے یہ دونوں اشاریے الگ الگ قرآنی الفاظ و اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہیں۔ چند الفاظ ملاحظہ کریں جو تفہیم کے مصطلحات کے اشاریے میں نہیں آئے ہیں: احقاب، اولیا، ایام، آذر، بحیرہ، بُرہان، چادر، خوشی، فقیر، فسخ، فتنہ، حبل اللہ، حام، لیلۃالقدر، مؤلفۃ القلوب، خوف، کتاب، حواشی، لوحِ محفوظ، میزان وغیرہ۔
ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اُردو کے الفاظ کو بھی انگریز ی کاجامہ پہنایاہے، مثلاً : چادر، خوشی وغیرہ اور بعض الفاظ کی دونوں فہرستوں میں تشریح تو ہے، لیکن بالکل الگ انداز اوراسلوب میں ، مثلاً میزان، حبل اللہ وغیرہ۔ دوسری بات یہ کہ عربی اصطلاحات کے فوراً سامنےقوسین میں پہلے ان کا انگریزی متبادل اور واحد جمع کی تشریح کرتے ہیں۔ اس کے معاً بعد اس کی وضاحت۔سوانحی حواشی میں بے شمار اضافے ہیں، البتہ جہاں وہی اسماء آئے ہیں، مثلاً عبداللہ ابن مسعود، یاعبداللہ ابن ابی، تو ہرجگہ ایک ہی انداز میں تعارف کرایا گیا ہے۔ اس اشاریے کے ذریعے چند مزید اسماء کا علم ہوجاتا ہے، جن کا تذکرہ تفہیم کے اشاریہ میں نہیں آسکا تھا۔ موضوعاتی اشاریے میں عربی کے الفاظ کی رعایت سے حروفِ ہجا کی ترتیب میں الفاظ رکھے گئے ہیں اور ساتھ میں انگریزی ترجموں کا بھی خیال کیا گیا ہے، مثلاً خمرومیسر کے بجائے اشاریے میں Gambling اور Games of Chance کے الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے اور ایسا بکثرت ہے۔ اسی طرح عربی کے الفاظ کو Italic میں ظاہر کرکے صفحات کا تعیین کردیا گیا، مثلاً: مہاجرین، کلالہ، محکم، راعنا، تشریق، زکوٰۃ، ظہار ،اولوالامر وغیرہ۔
انگریز ی قالب کی ان دونوں خدمات کے سلسلے میں ایک جزوی وضاحت یہ ہے کہ تفہیم میں ترجمہ کرتے وقت سورتوں کے ناموں کو Latin میں تبدیل کرکے اس کامعنی دیتے ہیں، مثلاً Al-Maidah (Table) جب کہ ترجمہ مع مختصر حواشی میں ایک خوب صورت اضافہ مذکورہ تفصیل دے کر یہ کرتے ہیں کہ سورہ کا عربی نام بھی منقش کر دیتے ہیں، مثلاً ’سورہ المائدہ‘ لکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی میں مترجم گرامی نے شاذونادر حواشی کے اندرکسی قسم کے نوٹس کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن بعض بڑے قیمتی اضافے نوٹ کی شکل میں کیے ہیں اور وہ ترجمہ نگاری میں ان کی بصیرت کا اظہار ہیں،مثلاً النساء، آیت ۹۴ میں ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَتَبَيَّنُوْا ’’اےلوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرلو‘‘۔
پروفیسر ظفر اسحاق ، اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
Belivers! When you go forth in the way of Allah ascertain and distinguish (between friend foe).
واضح رہے کہ اس مقام پر کمالِ دیانت داری سے سیّد مودودی کے ترجمے کو انگریزی کا قالب پہناتے ہیں لیکن ’دوست اور دشمن‘ کے الفاظ کو قوسین میں رکھتے ہیں، کیونکہ ترجمہ نگاری کا یہی تقاضا ہے کہ کلامِ الٰہی کا من و عن ترجمہ کیا جائے۔ درحقیقت سیّد مودودی نے ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا ہے، جب کہ ظفراسحاق صاحب نے ترجمانی اور ترجمہ دونوں اسالیب سے کام لیا ہے۔
بعض جگہوں پر اصل اُردو میں سیّدمودودی نے درمیانِ ترجمہ قوسین سے کام لیا ہے۔ پروفیسر ظفراسحاق نے انگریزی ترجمہ میں اس طرح کے قوسین کو چھوڑ دیا ہے، مثلاً النساء آیت ۷۴ دیکھیے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر قوسین کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً المائدہ، آیت ۱۰۴ میں سیّد مودودی نے ترجمہ میں قوسین کا استعمال نہیں کیا ہے، جب کہ مترجم گرامی بریکٹ میں لکھتے ہیں: Will they continue to follow their forefathers? ۔ اس طرح کی کچھ اور مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
پروفیسر ظفر اسحاق انصاری مشرقی و مغربی علوم کے پارکھ تھے۔ عصرجدید میں مغربی دنیا کے نامور مستشرقین کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ ان کے مطالعات کی جولان گاہ تھی۔ ان علوم سہ گانہ کے تعلق سے غیرو ں کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کی انھوں نے کامیاب کوشش کی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کی مانند،پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے بھی سیّدمودودی کے افکار و خیالات کو مغربی دنیا کےسامنے پیش کرنے کی عالمانہ کوشش کی ہے۔ سیّدمودودی، چودھری غلام محمد اور پروفیسرخورشید احمد کے ذریعے تفہیم القرآناور پھر ’ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی‘ کو انگریزی کا قالب پہنانے کی تجویز کو پروفیسر ظفراسحاق انصاری اپنے لیے باعث اجروسعادت سمجھتے تھے، جس کا اعتراف و اظہار انھوں نے واضح لفظوں میں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر انصاری کی ترجمہ نگاری اور انتہائی دیانت داری کے ساتھ سیّد مودودی کے مفاہیم کی انگریزی زبان میں منتقلی کا اعتراف اہلِ علم نے کیا۔ ان کی ترجمہ نگاری کے خصائص کا اگر الگ سے مطالعہ کیا جائے تو اس مطالعے کے ذریعے متعدد اسالیب نکھر کر سامنے آسکیں گے جو ان مختصر صفحات کی قید میں نہیں لائے جاسکے ہیں۔
۱- Muzaffar Iqbal, Zafar Ishaq Ansari (December, 27 1932 - April 24, 2016) Obituar Glimpses in Memoriam, Islamic Science Vol.1, Summer, 2016, No. 1.P. 101-11.
۲- پیش لفظ، پروفیسر خورشیداحمد، Towards Understanding the Quran مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، اکتوبر ۲۰۰۴ء، ص xviii
۳- Towards Understanding the Quran محولہ بالا، ادارتی نوٹ،ص xxiii
۴- ایضاً ، جلد۱، محولہ بالا، ص ۳۱۱ ۵- ایضاً ، جلد۱، محولہ بالا، ص ۳۱۴
۶- ایضاً ، جلد۱، محولہ بالا، ص ۳۱۳
۷- ایضاً ، جلدسوم میں یہ نام آیا ہے لیکن اوّل اور دوم کی طرف رجوع کا مشورہ ہے۔ دیکھیے: ج۱، ۲، محولہ بالا، ص ۳۰۹-۳۲۹
۸- Towards Understanding the Quran جلد۱، ۲، ص ۳۱۵-۳۲۵، جلد سوم میں نام ہے لیکن اوّل دوم کی طرف رجوع کا مشورہ ہے۔
۹- Towards Understanding the Quran جلد۱، ۲، ص ۳۱۴-۳۲۴، جلد سوم میں ان کا تذکرہ نہیں ہے۔
۱۰- Towards Understanding the Quran جلد۱، البقرہ، حاشیہ ۱۳۳،ص ۱۱۵۔ اس طرح البقرۃ، حاشیہ ۳۰۲ میں بخاری، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ کے ابواب اور صفحات کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔
۱۱- Towards Understanding the Quran جلد۱، ص ۱۲۵ ۱۲- ایضاً
۱۳- Towards Understanding the Quran ، Foreword، محولہ بالا، جلد۱، اسلامک فاؤنڈیشن، یوکے، ص xvii ، xvi
۱۴- Towards Understanding the Quran جلد۱، محولہ بالا ،عرض مترجم