۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ اہلِ کشمیر بھارتی حکومت کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی آبادی اور خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے خوف کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہی جموں اور کشمیر جو چند سال پہلے تک خصوصی درجہ رکھنے والی ریاست تھی، اور کشمیری جو مدت تک متعصبانہ خوف کے تحت زندگی گزار رہے تھے، ان کے لیے یہ اضطراب اب اور بھی گہرا ہوچکا ہے۔
۵؍اگست ، ۲۰۱۹ء کو ، بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰، جس نے ریاست کو خصوصی حیثیت دی تھی، اسے مختلف آئینی شقوں کے اطلاق سے خارج کر کے منسوخ کردیا گیا ، جب کہ دفعہ ۳۵- اے، جس نے مقامی آبادی کے لیے رہایش کے کچھ مخصوص حقوق محفوظ کر رکھے تھے، اس تحفظ اور بقا کے سارے انتظامات کو بھی ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔
ان دونوں دفعات نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ زمین خریدنے اور اس کے مالکانہ حقوق لینے یا سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کا حق صرف ان لوگوں کا ہے، جو مستقل طور پر نسل در نسل یہاں پر مستقل رہایش پذیر چلے آرہے تھے۔ ان قوانین کا مطلب یہ بھی تھا کہ جموں و کشمیر سے باہر لوگوں پر کاروباری سرمایہ کاری پر پابندی لگائی جائے یا جموں و کشمیر کی اراضی اور معیشت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑی اجارہ دار کمپنیوں کی کوششوں پر پابندی لگائی جائے۔ یہ سب کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ ،اور انھیں ایک مخصوص سطح کی سیاسی اور معاشی خودمختاری کا حق دار بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
اکتوبر۲۰۱۹ء میں ، جموں و کشمیر کی ریاست کو عملی طور پر تحلیل کردیا گیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کی ریاستی اسمبلی سے قانون سازی کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے ،اسے نئی دہلی حکومت کے تحت براہِ راست جموں اور کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے تک جموں و کشمیر، بھارت سے وابستہ واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی۔
۳۷۰ اور ۳۵-اے دفعات کو منسوخ کرنے اور ریاست کے طور پر اس کی حیثیت کے خاتمے سے قبل، یہ خطہ مکمل طور پر متحد تھا ۔مگر اب یہاں بسنے والوں کی حقیقی بے اختیاری جلد ہی محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے، جو خصوصی مقامی شناخت کے ضائع ہونے سے کہیں زیادہ بڑا اور گہرا صدمہ ہے۔ ریاستی مقننہ میں شمولیت کے آئینی تقاضے کو پورا کیے بغیر ، چوری اور دھوکا دہی کے ذریعے دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنا اور سابقہ ریاست کا خاتمہ، ماہرین قانون کی نظر میں یک سر ناجائز عمل ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ میں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس اقدام کو چیلنج کرنے والی درخواستیں زیرسماعت ہیں، اور سپریم کورٹ ان کی سماعت متعدد بار ملتوی کرتا چلا آرہا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ۳۱مارچ ۲۰۲۰ءکو رات گئے، بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے لیے باضابطہ طور پر ایک ’نئے ڈومیسائل کی حکمرانی‘ کا اعلان کیا تو جان لینا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں مستقبل میں کیا ہوگا؟مختصر لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایسی تفصیلات ہیں جن کا تعلق ’شیطان‘ سے ہے۔
جموں و کشمیر کی ’تنظیم نو‘ کے نام پر ریاستی قوانین اور احکامات نامی نوٹیفکیشن کے مطابق، کوئی بھی فرد جو ۱۵ سال تک جموں و کشمیر میں کسی بھی حوالے سے مقیم رہا ہے یا اس علاقے میں سات سال تک تعلیم حاصل کرچکا ہے ، اور کلاس ۱۰ یا کلاس ۱۲ کے امتحان میں حاضر ہوا ہے ، اسے یہاں پر رہایشی حقوق حاصل ہوں گے، اور وہ مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے اہل ہوگا۔
اس نوٹیفکیشن کا وقت ، بھارت نے کورونا (COVID-19 ) پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر کیا، جو وقت، طریق کار ، مقصد کے اعتبار سے بہت ہی عجیب حرکت ہے۔ اگرچہ بھارت کے دیگر حصوں میں یہ لاک ڈاؤن وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی اقدام ہے ، لیکن کشمیر میں اس نے بالکل ہی مختلف معنی اختیار کرلیے ہیں، جو درحقیقت لاک ڈاؤن کے اندر ایک بھیانک لاک ڈاؤن تھا۔ ایسا لاک ڈاؤن جو ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے ہی موجود تھا۔
ریاست جموں و کشمیر کے نظامِ مواصلات کی مکمل طور پر ناکہ بندی سمیت فوج کے تحت، جموں و کشمیر پر ایک سخت جبری کنٹرول میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور مزید ذیلی یونٹوں میں تقسیم کرنے کی کارروائی کی۔ کشمیر میں اب تک تاریخ کی طویل ترین شہری بندشوں کا مقصد، عوامی غم و غصے کو ختم کرنے کے مقاصد حاصل کرنا ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ یہاں پر رہنے والے مظلوموں کے یہ دُکھ درد کسی گہرے اندھے سیاہ کنویں میں دفن ہوجائیں، اور ان لوگوں کی کوئی چیخ پکارباہر سنائی نہ دے۔
’نئے رہایشی‘ اور ’مالکانہ قوانین‘ کا نفاذ اگست ۲۰۱۹ء کے جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن کے غیرآئینی ، غیرجمہوری اور اخلاقی طور پر غلط لاک ڈاؤن کا تسلسل ہے۔ لیکن اب وہی جبری اقدام کشمیر میں بھارت کی حکمت عملی کا بنیادی اصول بن گیا ہے، جس میں دکھاوے کی بھی کوئی پابندی نہیں رہی۔ اگر کشمیر میں پہلا لاک ڈاؤن اس کی خصوصی حیثیت اور تحفظ سے محروم ہونے پر عوامی شور و غل کو روکنے میں کامیاب رہا، تو دوسرے لاک ڈاؤن سے بھارتی حکومت اپنے بڑے ایجنڈے کے تحت جو کچھ کرنا چاہتی ہے ،اس کا نقشہ بچھانے کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہے۔
نئے رہایشی اور مالکانہ قوانین کے نفاذ نے، خاص طور پر جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں ، ان کی نسلی اور مذہبی شناخت کو بے وزن اور بے وقعت بنانے کا جو پیغام دیا ہے، اس کے نتیجے میں وہاں ہر مذہب اور قوم میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں وہ سرکاری ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ اس دوران میں یہاں متعدد بھرتیوں کا عمل روک دیا گیا ہے، جس نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ گویا کہ یہ کام نئے قواعد کے تحت ڈومیسائل پر جموں و کشمیر سے باہر کے افراد کو بھی درخواست دینے کی اجازت دینے کے لیے جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔
۲۷ فروری کو ،[بھارتی] حکام نے جموں اینڈ کشمیر بنک کی ڈیڑھ ہزار سے زائد ملازمتوں کے لیے بھرتی کے اس عمل کو ختم کردیا ، جو ۲۰۱۸ءسے جاری تھا ۔ اس طرح ان ہزاروں مقامی نوجوانوں کے معاشی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا گیا، جو اپنے ابتدائی امتحانات میں کامیابی کے بعد ملازمت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ۲جون ۲۰۲۰ء کو ، بنک نے ایک ہزار ۸سو ۵۰ ملازمتوں کے لیے اشتہارات دیے، جس میں نئے ڈومیسائلوں کی بنیاد پر بھی درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔
وبائی امراض کے طوفان بیچ ، جب اسپتالوں کو بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور عملے کی کمی کا سامنا ہے۔ حکومت نے ہندو اکثریتی خطے جموں، سری نگر اور کٹھوعہ ضلع میں سیکڑوں طبّی ملازمتوں کا راستہ کھولا ہے۔ جو عارضی اور مستقل معاہدے کی پیش کش کرتا ہے۔
انتظامیہ ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے مختلف شعبوں میں بھی بھرتی ، تقرر اور ترقی کے عمل کو بھی روک دیا گیا ہے، جس کے بعد جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن ، جو سول سروس میں بھرتیوں کا ذمہ دار ہے ، اسے ختم کردیا گیا ہے اور ایک نیا ضابطہ تشکیل دیا گیا ہے۔ریاست سے باہر کے لوگوں کے ہاتھوں ملازمت سے محروم ہونے کا خطرہ موجودہ سرکاری ملازمین کی بےچینیوں میں اضافے کے ساتھ ان کی تنخواہ ، ترقیوں ، وغیرہ سے متعلق قانونی چارہ جوئی کا ایک سلسلہ دراز کرتا ہے، جس کے دائرے میں ۳۰ہزار سے زیادہ مقدمات سامنے آ چکے ہیں۔
اس سال ۲۹؍اپریل کو جموں وکشمیر نے اپنا ریاستی وجود کھو دیا ہے، انجامِ کار ’انتظامی ٹریبونل ایکٹ ، ۱۹۸۵ء‘ کو جموں و کشمیر اور لداخ پر لاگو کر دیا گیا ہے۔ جون میں ، سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹربیونل کے جموں بنچ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جس میں جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکزی علاقوں کا احاطہ کیا جائے گا۔ انتظامی بیوروکریسی میں مقامی لوگوں کو بُر ی طرح نظرانداز کیا گیا ہے یا انھیں ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا ہے۔ اس عمل نے لوگوں کے صدمے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد ،آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ میں اعلیٰ بیوروکریٹک عہدوں کی اکثریت، ریاست جموں و کشمیرسے باہر کے لوگوں کے پاس ہے۔
ان نئے ’رہایشی حقوق‘ (ڈومیسائل)سے فوری طور پر فائدہ اٹھانے والے وہ ہزاروں ہندو اور سکھ مہاجرین بہت فائدے میں رہیں گے، جو ۱۹۴۷ء میں پاکستانی علاقوں سے آکر جموں شہر کے نواح میں آباد ہوگئے ہیں۔ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے قواعد چونکہ بہت حد تک نرم کردیے گئے ہیں ، لہٰذا ایسے لوگوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانے کا کوئی معیار نہیں ہے جو اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔
بھارت سے آنے والے ہزاروں بیوروکریٹوں اور نجی شعبے میں کام کرنے والوں نے گذشتہ ۷۰ سالوں میں جموں و کشمیر میں مطلوبہ ۱۵ سال سے زیادہ مدت گزاری ہے۔ اسی طرح بھارتی مسلح افواج کا ایک قابل ذکر حصہ جموں و کشمیر میں مرکوز چلا آرہا ہے اور بہت سے لوگوں نے سابقہ ریاست میں متعدد اوقات میں ملازمانہ خدمات انجام دے رکھی ہیں۔ ان حوالوں سے بہت سارے افراد بڑی آسانی سے ڈومیسائل کے نئے معیار کے تحت یہاں سکونتی حق حاصل کرنے کے اہل بن گئے ہیں۔
یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوجائے گا۔ پھر تباہ شدہ نظام اور احتساب کی کمی کے پیش نظر ، باہر سے آکر فائدہ اٹھانے والوں کی جانچ پڑتال کا نظام بھی دریابرد ہے۔ اس طرح یہ معاملہ صرف ملازمتوں تک نہیں رُکے گا، بلکہ یہاں زمین کی ملکیت اور کاروباری سرمایہ کاری پوری قوت سے خراج حاصل کرے گی۔ اور ’شہری حق‘ (ڈومیسائل) اس خلا میں ایسے لوگوں کو بھرپور فائدہ دے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بھارتی، اب جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے ، آباد ہوسکتا ہے، اور کاروبار شروع کرسکتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۹ء میں نافذ ہونے والے ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ‘ کے تحت ، نجی جایداد کی ملکیت کو مستقل رہایشیوں تک محدود رکھنے والی قانونی دفعات کو ختم کردیا گیا۔ یوں ماضی میں ، زمینی اصلاحات کی مقامی قانون سازی نے یہاں کے کسانوں کو معاشرتی طور پر مظلوم طبقوں سمیت بااختیار بنایا تھا، جس سے انھیں وقار کا احساس ملا تھا اور جموں و کشمیر ملک کی ان چند ریاستوں میں شامل تھا، جہاں کوئی بھی بھوک سے نہیں مرتا تھا۔ مگرزمین سے متعلق ان ترمیم شدہ قوانین سے مقامی آبادی نہ صرف اپنی مراعات سے محروم ہوگئی ہے بلکہ بیرونی لوگوں کی ممکنہ معاشی و سیاسی اجارہ داری کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
یاد رہے اس سے قبل ریاست جموں و کشمیر نے اپنا ریزرویشن ایکٹ بھی نافذ کیا تھا، جس کے تحت تعلیمی اداروں میں کوٹہ فراہم کیا گیا تھا اور پس ماندہ پس منظر کے لوگوں کے لیے نوکریاں مہیا کی گئی تھیں۔ ان میں دلت اور دوسرے پس ماندہ قبائل بھی شامل تھے۔ خواتین پیشہ ور کالجوں میں ۵۰فی صد ریزرویشن سے استفادہ کر رہی تھیں۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے سے ، سرکاری اداروں میں اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم مفت تھی، لیکن اب ان سب کو اُلٹ کر دیا گیا ہے۔
ابھی تو وبائی حالت کو بہانہ بناکر، حکومت نے گرمیوں میں دارالحکومت جموں سے سری نگر منتقل کرنے کی ۱۵۰ سالہ قدیم سالانہ مشق کو بھی روک دیا ہے۔ اگرچہ ہندو اکثریتی جموں اور مسلم اکثریتی کشمیر میں دو دارالحکومتوں کا عمل مثالی طور پر بڑی خوبی سے چل رہا تھا۔
پھر انتخابی حلقوں کی حد بندی کو اَزسرِ نو شروع کرنے کے حکومتی فیصلے سے ہندو اکثریتی جموں کو زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ہے ۔اس سلسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ: ’’نشستوں کا تعین ملک کے دوسرے حصوں کی طرح آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور چین کے زیرانتظام اکسائی چین کی مناسبت سے ایسی نشستوں کو وضع کیا جائے گا جن سے ۱۹۴۷ء کے ہندواورسکھ استفادہ کریں گے‘‘۔
جموں و کشمیر کا سیاسی ڈھانچا مکمل طور پر ختم کیا جاچکا ہے، جب کہ متعدد اعلیٰ قائدین حراست میں ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں ۔ خاموش رہنے کی شرائط پر کئی افراد کو چھوڑ بھی دیا گیا ہے یا انھیں نظربند رکھا گیا ہے۔مختلف پارٹیوں سے بدلہ لینے کے لیے حال ہی میں ’اپنی پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی تنظیم تشکیل دی گئی ہے، جس کے بارے میں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ یہ نئی دہلی حکومت کی سرپرستی میں پر پُرزے نکال رہی ہے، مگریہ حرکت بھی برف پگھلانے میں ناکام رہی ہے۔
نئے انتظامات کے تحت ، لداخ کے دُور دراز علاقوں کو قانون ساز اسمبلی کے نام پر لوٹ لیا جائے گا اور جموں و کشمیر کو محدود اختیارات ملیں گے ، جس سے ان اداروں کو عملی طور پر دوریموٹ کنٹرول میونسپلٹیوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جس سے ایک مرکزی اتھارٹی کے زیرانتظام، اس کے وسیع رقبے ، یہاں کی پیچیدگی ، اس کے سماجی و سیاسی تنوع اور نزاکت سے منسوب، انتظام کی عملی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہے۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ نقصان کے گہرے احساس نے ایک عجیب مزاج کو جنم دیا ہے، جس نے مسلم اکثریتی کشمیر اور ہندو اکثریتی جموں میں روایتی طور پر تفرقہ انگیز داستانوں کو کچھ حد تک محدود کردیا ہے۔ جموں میں عوامی عدم اطمینان، روزگار ، اراضی ، تجارت اور اجتماعی تعلیم پر بھارت سے اُمڈتے اجارہ داری سیلاب نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔یہ سب کچھ دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے اور نئے ڈومیسائل قانون کا نتیجہ ہے جس سے مقامی آبادی خوف میں مبتلا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت اور حکمران پارٹی تو پہلے ہی تسلسل سے کشمیریوں کی آبادی میں تبدیلی اور ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں مکمل طور پر ضم کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں کئی عشروں سے آبادی میں تبدیلی کے سوال پر بے چینی پائی جارہی تھی۔ آج ، مقبوضہ کشمیر میں اُردن کے مغربی کنارے کے اسرائیلی ماڈل کے قبضے اور نوآبادیات کی نقل مکانی اور مقامی باشندوں خصوصاً کشمیری مسلمانوں کو گھٹا کر نئی آبادکاری کی راہ ہموار کی جارہی ہے، تاکہ ان نئے آباد کاروں کے ذریعے اکثریت کی اجارہ داری کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے۔
نومبر۲۰۱۹ء کے آخر میں ، امریکا میں تعینات ایک بھارتی سفارت کار نے، کشمیری ہندوؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’کشمیری ثقافت اور بھارتی ثقافت اصل میں ایک ہندو ثقافت ہے‘‘ اور ساتھ نوآبادیاتی عمل کی تحسین کرتے ہوئے، دریاے اُردن کے مغربی کنارے بستیوں کے اسرائیلی ماڈل کی حمایت کی تھی۔
اگر ان خیالات کی سنجیدگی کے بارے میں کوئی شبہات تھے، تو ان کو مسترد کیا جاسکتا تھا۔ لیکن کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے حالیہ اقدامات ’اسرائیلی ماڈل‘ کو بھارت کی کشمیر پالیسی کا مرکز بنانے کا ایک انتظامی نمونہ ظاہر کرتے ہیں، جنھیں موجودہ لاک ڈاؤن کے زمانے کو استعمال کرکے عوامی سطح پر کسی بھی اشتعال انگیزی سے بچنے کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ لیکن ایسی خوش فہمی کسی بھی وقت بڑے حادثے سے دوچار کرسکتی ہے۔ بھارتی حکومت عوام کے صبر اور خاموشی اور کشمیری عوام کی اُمنگوں اور انسانی حقوق کی بے حد زیادتیوں میں اضافے کو اپنی کامیابی تصور کر رہی ہے۔
اگرچہ یہ سب کچھ بھارتی جمہوریت کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، لیکن اس نے جنوبی ایشیا میں امن کو بھی انتہائی غیر محفوظ بنادیا ہے۔ جس سے کشمیر کے اندر مقامی باشندوں کا اپنے حقوق کے لیے سخت جدوجہد کرنا، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کی شدت سے دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، ایک دھماکا خیز صورت حال پیدا کردے گا۔ ہندستان اور چین کے مابین موجودہ تنازعے میں اس آگ کو بڑھانے اور ایندھن میں اضافے کا بھی امکان ہے۔(’الجزیرہ‘، انگریزی، ۲۱ جون ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)