ہم تمام قومی تعلیمی اداروں کے لیے ’یکساں قومی نصاب‘ کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اسلامی نظریے پر مبنی پاکستانی قوم کی تشکیل اور یک جہتی کے لیے پورے ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں اور متفقہ نصاب تعلیم کا نفاذ ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے مطلوبہ قومی نصابِ تعلیم کو ہرصورت میں قومی نظریاتی اُمنگوں کا آئینہ دار اور قومی ضروریات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس پس منظر میں ہم موجودہ حکومت کے اس عزم کی تائید کرتے ہیں کہ پورے ملک میں ’یکساں قومی نصاب تعلیم‘ نافذ ہونا چاہیے، جسے حکومت ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے نام سے موسوم کررہی ہے۔ اس مناسبت سے جو نصابی رپورٹیں شائع کی گئی ہیں، ان کے سرورق پر یہ دل کش نعرہ لکھا ہے:One Curriculum, One Nation یعنی ’ایک نصاب، ایک قوم‘۔
دیکھنا ہوگا کہ وفاقی حکومت نے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کو کس طرح مدون کیا ہے؟ کن لوگوں کو اس کی تدوین وترتیب میں شامل کیا گیا ہے؟ کس نظریے اور فلسفے کو نصابِ تعلیم کی بنیاد بنایا گیا ہے؟ اور اس قومی اہمیت کے کام میں کتنی شفافیت کا اہتمام کیا گیا ہے؟ اسی طرح نصابِ تعلیم کی پاکستان میں جو اساسیات ہونی چاہییں، اُن کا کہاں تک خیال رکھا گیا ہے اور کیا حکومت کے اس مجوزہ نصاب کو متفقہ قومی نصابِ تعلیم کہا جاسکتا ہے؟
ہم افسوس سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایک نہایت بنیادی قومی مسئلے پر حکومت کا رویہ عدم شفافیت اور بے جا رازداری میں اُلجھا رہا ہے، جس نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ یکساں قومی نصاب تعلیم کے نام پہ حکومت اور اس کی وزارتِ تعلیم بیرونی قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کا ایجنڈا اس ملک کی آیندہ نسلوں پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ان بنیادوں کا تذکرہ ضروری ہے جنھیں ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی ترتیب وتدوین کی بنیاد بنایا گیا ہے:
1- Constitutional Guidelines. (دستوری رہنمائی)
2- National Policies-National Standards. (قومی معیارات کی قومی پالیسیاں)
3- Emerging International Trends. (ظہور پذیر عالمی رجحانات)
4- Outcome Based Approach. (نتیجہ خیز تعلیمی بنیاد)
5- Focus on Values, Life Skills and Inclusive Education.
(اقدار اور مہارتوں کی فراہمی پر مبنی تعلیم پر توجہ)
6- Promotion of intellectual, Emotional, Spiritual, Aesthetic, Social, Physical Development of Children. ( بچوں کی فکری، جذباتی، روحانی، جمالیاتی، سماجی اور جسمانی نشوونما )
7- Move away from Rote Learning , Focus of Project Approach, Inquiry and Activity Based Learning. (رٹا لگانے کے بجائے عملی بنیادوں پر حصولِ تعلیم کا رواج)
8- Application of Knowledge with real life. (علم کا عملی زندگی پر انطباق)
9- Use of ICT. (انفارمیشن کمیونی کیشن ٹکنالوجی کا استعمال)
10- Inclusion of Modern Assessment and Teaching Methods. (جدید آزمایشی اور تدریسی طریقوں کی شمولیت)
11- Allignment with TIMSS.(ریاضی اور سائنس کے عالمی رجحانات سے مطابقت)
امرواقعہ ہے کہ اُوپر دی گئی فہرست میں جتنے بلند آہنگ (High Sounding)دعوے کیے گئے ہیں، وہ سب کے سب ہوائی قلعے ہیں۔ کیوںکہ پیش کردہ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ بنیادی طور پر ۲۰۰۶ء کا کریکولم ہے، جو جنرل پرویز مشرف کے دور ِ استبداد میں جرمنی کی ایجنسی جی آئی زیڈ (GIZ) کے مالی، فکری اور عملی تعاون سے تیار کیا گیا تھا اور جس کی سربراہ ایک پاکستانی خاتون تھیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اب بھی وہی محترمہ اس این جی او کے پلیٹ فارم سے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی تشکیلی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں بھی قومی اور اسلامی حلقوں نے ’۲۰۰۶ء کے نصابِ تعلیم‘ پرسخت نقدوجرح کی تھی۔ اب نئی انقلابی حکومت کے کارپردازوں نے صرف یہ کیا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے کریکولم کو ’ویلیوز ایجوکیشن‘ (اقداری تعلیم)کے نام سے ایک سیکولر لبرل نظریاتی اساس فراہم کردی ہے۔ اگرچہ نصابِ تو پہلے ہی سیکولر لبرل تھا، لیکن بین الاقوامی سطح پر سیکولر لبرل قوتیں جن اقدار کو پھیلا رہی ہیں، خصوصاً مسلم دنیا میں جن نظریات کو راسخ کررہی ہیں، انھی کو سرایت کردہ موضوعات (Cross Cutting Themes) کی شکل میں آگے بڑھایا گیا ہے۔ سنگل نیشنل کریکولم بنانے والی ٹیم نے ہاتھ کی صفائی یہ دکھائی ہے کہ ابتدائی مسودے میں ’ہیومنزم‘ کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا، جس کی ذیلی اقدار کو پورے نصاب میں پھیلا دیا گیا تھا۔ لیکن اب نظرثانی شدہ مسودے میں صرف یہ عظیم الشان کارنامہ کیا ہے کہ ’ہیومنزم‘ کی اصطلاح اُڑا دی گئی ہے، جب کہ اس کی تمام ذیلی اقدار میں ’ہیومنزم‘ کی روح جوں کی توں موجود ہے۔
بیان کردہ گیارہ دعوؤں میں سب سے پہلا دعویٰ ’دستوری رہنما خطوط‘ کے متعلق ہے، اور سب سے زیادہ انحراف اس نصاب میں اسی چیز کا کیا گیا ہے۔ دیگر شقوں کے علاوہ دستورمیں شامل ’قرار داد مقاصد‘ اور دفعہ ۳۱ تعلیم اور نصاب تعلیم کے لیے رہنما خطوط فراہم کرتا ہے۔ اس کے مطابق ۵ سال سے ۱۶ سال کی عمر کے طلبہ (جو کہ لازمی تعلیم کا دورانیہ ہے) کے لیے قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کی وہ تمام تعلیمات مہیا کی جانی چاہییں کہ وہ طالب علم جب عملی زندگی میں قدم رکھے تو اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارے۔ اس کے برعکس دیکھیے:
۱- اسلامیات کے نصاب میں پہلی سے بارھویں جماعت تک بیان کردہ مقاصد کسی طرح بھی مذکورہ بالا ضرورت کو پورا کرتے نظر نہیں آتے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ قرآن وحدیث اور اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ایمانیات، عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے تحت ان تمام امور کی فہرست بنائی جاتی، جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض عین ہے اور پھر ان امور کو پہلی سے دسویں جماعت (۵ سال سے ۱۶ سال کی عمر) کے نصاب میں عمر اور بلوغت کے تقاضوں کے مطابق تقسیم کردیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا محض اندازوں سے بعض معلومات اور تصورات پہلی سے پانچویں جماعت تک بکھیر دیے گئے ہیں۔ نصاب سازی ایک سائنس ہے اور اس کا ایک طریق کار ہے جب تک وہ طریق کار اختیار نہ کیا جائے تب تک علمی بنیادوں پر مطلوبہ نصاب ترتیب نہیں دیا جاسکتا۔
۲- دوسری بات یہ کہ ’دستوری رہنما خطوط‘ پورے نصاب تعلیم کے لیے ہوتے ہیں۔ چلیے اسلامیات کا نصاب تو جیسا تیسا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بہتری کی گنجایش ہے، لیکن اسلامیات کے نصاب کے ساتھ جنرل نالج اور معاشرتی علوم کا جو نصاب دیا گیا ہے، وہ مکمل طور پر سیکولر ہے۔ ان دونوں مضامین کے نصاب میں لفظ ’اسلام‘ کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا گیا ہے۔ وژن، مشن اور مقاصدِ نصاب پوری طرح سیکولر، لبرل اور ہیومنسٹ نظریۂ حیات کے آئینہ دار ہیں۔ معاشرتی علوم تو کسی معاشرے کے نظریات، اور اس کی تہذیب وثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، مگر یہاں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اس نصاب کو منسوب کرنے کا کوئی ’خطرہ‘ مول نہیں لیا گیا۔
’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں انگلش، ریاضی اور سائنس کے نصاب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور ملک یا ملکوں کا نصاب ہے۔ شاید سنگاپور ، آسٹریلیا، یا پھر کسی ایسے ہی ملک کا نصاب ہے۔ ہمارا چونکہ زیادہ زور اس بات پر ہے کہ زیر غور نصاب تعلیم کی نظریاتی اور پاکستانی جہت صحیح ہونی چاہیے، اس لیے ہم انگریزی، ریاضی اور سائنس کے نصابات کی ٹیکنیکل بنیادوں پر زیادہ بات نہیں کررہے۔ تاہم، ایک عمومی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قومی ضروریات، بچوں کی ذہنی بلوغت، ماحول، اساتذہ اور اسکولوں کی مشکلات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نصاب کی کوئی مقامی تحقیقی بنیاد نہیں ہے ۔ نہ ماضی کی مشکلات کا مطالعہ کیا گیا اور نہ مستقبل کی ضروریات کا تعین کیا گیا۔ محض ۲۰۰۶ء کے نصاب کو سطحی طور پر نظرثانی کرکے اور بیرونی سرپرستوں کی ویلیوز ایجوکیشن کی رہنمائی کو شاملِ نصاب کرنے کے لیے ایک دستاویز جاری کردی گئی، یہ دیکھے بغیر کہ اس میں اُفقی (horizontal)اور عمودی (vertical) رابطہ اور توازن کہاں تک قائم رہا ہے؟
l کہا گیا کہ نصاب کو TIMSSکے ساتھ مربوط کیاگیا ہے۔ TIMSS سے مراد ہے ٹرینڈ ان انٹرنیشنل میتھ اینڈ سائنس سٹڈی (ریاضی اور سائنس کے عالمی رجحانات) ۔یہ پراجیکٹ بنیادی طور پر بین الاقومی سطح پر سائنس اور ریاضی میں تحصیل علم کے مطالعے کا پراجیکٹ ہے اور اس کا نصاب سازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن فرمایا جارہا ہے کہ نصاب کو TIMSS سے مربوط کیا گیا ہے۔
l یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تعلیم میں رٹے بازی کو ختم کیا جائے گا نیز جائزے اور تدریس کے جدید طریقے نصاب میں اختیار کیے گئے ہیں۔ مگر اس نصاب کی تدوین میں ایسے کارنامے کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ البتہ ٹیچر ٹریننگ اور امتحانات کے انعقاد سے اس دعوے کا پتا چلے گا۔
l یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہICTیعنی انفارمیشن کمیونی کیشن ٹکنالوجی بھی استعمال میں لائی جائے گی۔ ایک تو نصابی مضامین میں اس کا کہیں ذکر نہیں ، دوسرا ICT کا مضمون کم از کم پرائمری سطح پر تو غائب ہے۔ تیسرا یہ کہ مہنگے نجی اسکولوں کے علاوہ، جہاں اس نصاب کے نفاذ کا سوال ابھی بڑا سوالیہ نشان ہے، سرکاری سکولوں، دینی مدارس اور گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں ICT کا چلن کیسے ہوگا؟ اور حکومت اس کے لیے کیا سہولتیں مہیا کرے گی؟کچھ وضاحت نہیں۔
l ’ نتیجہ خیز تعلیمی بنیاد‘ جیسے دعوے بھی زیادہ تر کسی بروشر سے اُٹھائے ہوئے دعوے معلوم ہوتے ہیں، جن کے کوئی آثار نصابی کتابچوں میں عیاں نہیں ہیں۔ جب نصاب کلاس روم میں استاد کے ہاتھ آئے گا تو دعوے کی حقیقت معلوم ہوگی۔
l یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نصاب میں شمولیاتی تعلیم (Inclusive Education) کا خیال رکھا گیا ہے۔ نصابی بیانات میں تو شمولیاتی تعلیم کا کوئی عکس نظر نہیں آتا کہ کس طرح معذور بچوں (Special Children)کو جو بصری، سمعی یا دیگر مشکلات کا شکار ہوں گے ، اس نصاب سے استفادے کا موقع فراہم کیا جائے گا؟ نصاب کی ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان ، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے اسکول، نیز دینی مدارس شمولیاتی استفادے سے محروم رہیں گے۔ اور اس طرح قومی یک جہتی ، اور ہموار ترقی میں مزید کمی اور طبقاتی خلیج میں وسعت آئے گی۔
اس تحریر کے آغاز میں کچھ سوالات اٹھائے گئے تھے، ایک نظر اُن پر:
m یہ کہ قومی سطح اور قومی اہمیت کے اس کام میں شفافیت کس طرح قائم رکھی گئی ہے؟
قومی اہمیت کا یہ کام بدقسمتی سے انتہائی خفیہ طریقے سے اور چھپ چھپا کر کیا گیا۔ اس نصاب کا جو پہلا مسودہ سامنے آیا وہ بھی پبلک نہیں کیا گیا۔ محدود سطح پر بعض پسندیدہ افراد سے راے لی گئی۔ بعد ازاں غالباً فروری۲۰۲۰ء میں تین روزہ ورکشاپ کی گئی، جس میں صوبوں کے نصاب و درسی کتب کے اداروں کے بعض اہل کار بلائے گئے۔ اس تعلیمی میلے میں بھی کسی کو پورا نصاب نہیں دکھایا گیا۔ بس کمیٹیاں بنا کر ان کو ایک مضمون کا مسودہ تھما دیا گیا اور ان سے تبصرے کے لیے کہا گیا۔ حد یہ ہے کہ ان کمیٹیوں نے جو تجاویز وسفارشات دیں، انھیں بھی حتمی مسودے میں جگہ نہیں دی گئی۔
مذکورہ تین روزہ ورکشاپ کے بعد عجلت میںوزیر اعظم عمران خان سے منظوری بھی لے لی گئی اور پھر قومی نصاب کے طور پر اپریل ۲۰۲۱ء سے اسے نافذ کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ وزیر اعظم سے منظوری مارچ ۲۰۲۰ء کے شروع میں لی گئی اور اب جون جارہا ہے لیکن حتمی مسودہ قوم کے علم میں نہیں لایا گیا۔ ہم جس مسودے کو دیکھ کر تبصرہ کررہے ہیں یہ وہ حتمی مسودہ ہے، جو ہم نے اپنے ذرائع سے حاصل کیا ہے۔ نیشنل کریکولم کونسل نے سرکاری طور پر اسے جاری نہیں کیا ۔ جب بھی پوچھا جاتا ہے تو اہل کار کہتے ہیں کہ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ جاری کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے جس کے مطابق اسے پبلک کیا جائے گا۔ وقت سے پہلے پبلک کرنے سے نقصان یہ ہوگا کہ اس کی مخالف قوتیں اس پر تنقید کی بوچھاڑ کردیں گی اور اس طرح یہ منصوبہ ناکام ہوجائے گا‘‘۔ یہ ہے پوری کہانی اس قومی نصابِ تعلیم کی شفافیت کی، حالانکہ تمام اقوام عالم کا یہ دستور ہے کہ نصابِ تعلیم عوام کے سامنے پورے شفاف طریقے سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ پوری قوم اس کی وارث بنے۔
m ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کس طرح تیار کیا گیا؟ فی الحقیقت یہ جنرل پرویز مشرف کی این جی اوزدہ آمرانہ حکومت میں تیار کیا گیا ۲۰۰۶ء کا متنازعہ نصاب ہے۔اس نصاب کی نظرثانی، تدوین اور اسے حتمی شکل دینے کا کام آغا خان یونی ورسٹی ، برطانیہ کی واٹرایڈ ، امریکا کے کمیشن براے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے مقامی ایجنٹوں، بیکن ہاؤس اور کیمبرج کے ماہرین اور بعض دیگرسیکولر این جی اوز کی شمولیت سے سرانجام دیا گیا ۔ حد یہ ہے کہ قومی اداروں، یعنی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونی ورسٹی ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، پشاور یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف ایجوکیشن، بلوچستان یونی ورسٹی، سندھ یونی ورسٹی اور کراچی یونی ورسٹی کے ادارہ ہاے تعلیم وتحقیق اور شعبہ ہاے ایجوکیشن کے اعلیٰ درجے کے ماہرین میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ صوبوں کے نصابات اور درسی کتب کے اداروں کے تجربہ کار ماہرین کو نظر انداز کیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کے اعلیٰ درجے کے اسکول سلسلوں (Chains)کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں مہارت رکھنے والی محب وطن اور محب اسلام تنظیموں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور محض سیکولر لبرل قسم کی آرگنائز یشنز کو ہی اس کام کا اہل سمجھا گیا۔ دینی مدارس کی تنظیمات کے کچھ نمایندوں کو محض اشک شوئی اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بلایا گیا اور وہ بھی صرف اسلامیات کے نصاب کے سلسلہ میں ، باقی نصاب میں ان کی شمولیت نہیں کرائی گئی۔
m نصاب تعلیم تیار کرنے کے معیاری طریقۂ کار کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ پاکستان میں قومی تعلیمی نصاب کی اساسیات کیا ہوتی ہیں اور انھیں کس طرح نصابی خاکے میں ڈھالا جاتا ہے؟ افسوس یہ ہے کہ ان تمام امور کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
m سطور بالا میں ہم نے اجمالاً جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان کے پیش نظر کسی طرح بھی ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کو ایک متفقہ قومی نصاب نہیں کہا جاسکتا۔
m مختلف مضامین کا نصاب چونکہ اساسیات کے لحاظ سے مربوط نہیں ہے، اس لیے اس کے پڑھنے کے بعد مستقبل کی نسل کی مربوط اسلامی قومی شخصیت کا تیار ہونا ممکن نہیں ہے۔
m نصابی کتابچے مشکل اور گنجلک انگریزی زبان میں ہیں، جب کہ اس نصاب کو پڑھانے والے پرائمری کے اساتذہ اگر گریجوایٹ بھی ہوں تو اس کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ اسی طرح اسکولوں کے نگران حضرات وخواتین بھی نصاب جیسا تیسا بھی ہے، اس کے مندرجات اور اس کے مقاصد سے نابلد رہیں گے۔ والدین اور قوم کے دیگر افراد سے بھی اس نصاب کی کیفیت پوشیدہ رہے گی اور یوں وزارتِ تعلیم کے ذمہ دار اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہوں گے۔
m آخر میں ہم استدعا کریں گے کہ بجائے قوم کو ایک غلط راستے پر ڈالنے اور سیکولر لبرل تعلیم دے کر آیندہ نسلوں کو اپنی تہذیب وتمدن سے دُور کرنے سے بہتریہی ہے کہ اس متنازعہ نصاب کو واپس لیا جائے۔ محب وطن ، محب اسلام ماہرین تعلیم کے ساتھ قومی دانش کو وسیع پیمانے پر کام میں لاکر نصاب تعلیم کو قومی تقاضوں ، قومی امنگوں اور اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں ترتیب دے کر صحیح معنوں میں قومی نصاب تعلیم بنایا جائے، تاکہ ’ایک قوم، ایک نصاب‘ کا نعرہ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
m اگر قومی نصاب تعلیم پر پوری قوم کا اتفاق راے حاصل نہ کیا گیا تو محض چند لوگوں کی سیکولر اور لبرل اَنا پرستی اور ان کے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی آرزوسے قومی تعلیم کے حوالے سے موجودہ حکومت کے مثبت عزائم ناکام ہوں گے، جو افسوس ناک امر ہوگا۔
آخر میں ہم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب(سابق سربراہ شعبۂ نصابات، وفاقی وزارتِ تعلیم، اسلام آباد) کے چند بنیادی سوالات پیش کر رہے ہیں، جو انھوں نے نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داروں سے پوچھے ہیں۔ ان سوالات کی روشنی میں ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کا بہتر محاسبہ ہوسکتا ہے۔
q دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں قومی نصابِ تعلیم کی بنیاد ان متعدد ریسرچ رپورٹوں پر نہ رکھی جاتی ہو جن میں پہلے سے رائج نصاب کی کمزوریوں ، خامیوں اور نفاذ کے مرحلے میں آنے والی مشکلات اور قومی مقاصد کی تکمیل میں ناکامیوں کا تفصیل سے ذکر ہوتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق نیشنل کریکولم کونسل نے ایسے کسی تکلف کا اہتمام نہیں کیا۔ اگر کیا ہے تو وزارت کے ذمہ داران کیا، ان ریسرچ سٹڈیز کی فہرست سے قوم کو آگاہ کرنا پسند کریں گے؟
q نصابِ تعلیم ان مقاصد اور ضروریات کے حصول کے لیے بنایا جاتا ہے، جو مقاصد تعلیمی پالیسی سے اخذ کیے جاتے ہیں اور ضروریات کا تعلق (Need Assessment) کی بنیاد وہ ریسرچ سٹڈیز ہوتی ہیں، جو اس مقصد کے لیے سرانجام دی جاتی ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران کیا بتانا پسند فرمائیں گے کہ کون سی تعلیمی پالیسی کو مقاصد کے تعین کے لیے بنیاد بنایا گیا اور وہ کون سی ریسرچ اسٹڈیز ہیں، جو نصاب سازی کی بنیاد بنیں؟ جہاں تک نظر آتا ہے کوئی قومی تعلیمی پالیسی تو رہی ایک طرف، خود تحریک انصاف کی تعلیمی پالیسی اور انتخابی منشور کو بھی پیش نظر نہیں رکھا گیا۔
q زیر غور دستاویز براے سنگل نیشنل کریکولم بتاتی ہے کہ ۲۰۰۶ء کے نصاب کو کاپی پیسٹ کے ذریعےریویو کرکے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے طور پر پیش کردیا گیا۔ کیا ۲۰۰۶ء کا نصاب جو پہلے ہی تنقید کی زد میں رہا ہے مزید بگاڑ کے ساتھ قومی نصاب کا درجہ حاصل کرسکتا ہے؟
q پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ نصاب سازی کے لیے ایک وسیع البنیاد قومی کمیٹی بنائی جاتی ہے، جس میں عالم ، سائنس دان، صنعتی ماہرین، مضامین کے اعلیٰ ماہرین، دانشور، شاعر، ادیب، ماہرین قانون اور مختلف علاقوں اور پس منظر کے حامل اساتذہ کرام شامل کیے جاتے ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران کیا بتانا پسند کریں گے کہ کیا ایسی کوئی وسیع البنیاد قومی نصابی کمیٹی بنائی گئی اور اگر بنائی گئی تو کیا قوم کو اُن کے ناموں سے آگاہ کرنا پسند کریں گے؟
q ڈرافٹ کریکولم میں شامل مقاصد، اسٹوڈنٹس لرننگ ابجیکٹوز ، معیارات ، صلاحیتوں (Competencies)اور ان کی تکمیل یا حصول کے لیے لوازمہ (Content)کے انتخاب کو دیکھ کر سنگل نیشنل کریکولم تشکیل دینے والے خواتین وحضرات کے مبلغ علم اور تجربے کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ کیا وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران اس خدشے پر تبصرہ کرنا پسند کریں گے؟
q ملک کے تعلیمی ادارے جن میں متوقع طور پر ’سنگل نیشنل کریکولم‘ نافذ ہونا ہے۔ ان میں ۳۰ہزار دینی مدارس، ایک لاکھ کے قریب پرائیویٹ تعلیمی ادارے، لاکھوں سرکاری سکولز، ۳۰ہزار غیررسمی اسکولز ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دُور دراز غیر ترقی یافتہ علاقوں سے لے کر کراچی، لاہور، اسلام آباد کے پوش علاقوں تک اسکولز ہیں، جن کے بچوں کی لسانی، سماجی، ثقافتی، معاشی بوقلمونی (Diversities) نہایت گہری ہے۔ کیا ان حقائق اور مشکلات کا نصاب سازی میں خیال رکھا گیا ہے؟ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے نام پر کیا اس سے طبقاتی تفریق اور نہیں بڑھ جائے گی؟
qکیا دینی مدارس جو ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کا اصل ہدف ہیں، ان کے اساتذہ اور منتظمین کو شامل مشاورت کیا گیا؟ ہماری معلومات کے مطابق اس طرح کی کوئی باہمی مشاورت نہیں کی گئی۔ ایسی مشاورت صرف پوش اسکول سلسلوں (Chains)سے کی گئی جو اس کریکولم کو اپنے ہاں قطعاً نافذ نہیں کریں گے۔ کیا دینی مدارس کے ساتھ یہ سلوک ظالمانہ نہیں ہے؟
q نصاب سازی کا ایک رائج طریقہ اب یہ ہے کہ پہلے نیشنل کریکولم پالیسی فریم ورک تیار کیا جاتا ہے اور پھر نصاب اس فریم ورک کی حدود وقیود میں تیار کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں جو نیشنل کریکولم فریم ورک تیار کرکے وزارتِ تعلیم نے منظور کیا ہے، اس کا کوئی عکس ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں نظر نہیں آتا۔ مذکورہ فریم ورک میں قرار دادِ مقاصد اور آئین کی اسلامی دفعات کو بنیاد بنایا گیا تھا اور نظریۂ پاکستان کو فوکس کیا گیا تھا، لیکن ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں لبرل سیکولر فلاسفی سے اقدار (Values) کو اخذ کرکے نصاب کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی اقدار میں کوئی کمی اور خلاہے کہ ’ہیومنزم‘ کی اقدار کو پسند کیا گیا ہے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ اسلام کی کون سی اقدار ایسی ہیں جو غیرمسلموں کے لیے تکلیف دہ ہوں گی، حالانکہ ہمیں تو اسلامی اقدار کی رحمت اور حکمت سے غیرمسلموں کو بھی مستفید کرنا چاہیے۔
q آئی سی ٹی (ICT)اس دور کی اہم تعلیمی ضرورت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیشنل کریکولم کونسل نے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں آئی سی ٹی کو تعلیم میں ایک بنیادی عنصر کے طور پر لے کر کوئی اہمیت دی ہے اور اس ٹکنالوجی کے استعمال سے تعلیم کی فراہمی مؤثر بنانے کی کوئی سبیل کی ہے؟
qتعلیم کے ساتھ تربیت اور تزکیہ پاکستانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ نیشنل کریکولم کو نسل نے اسلامی تعلیمات ، آئین کی دفعہ ۳۱، اور قرآن وحدیث کی اقدار کو یکسر نظرانداز کرکے، سیکولر اور لبرل معاشروں، مثلاً آسٹریلیا اور بھارت وغیرہ کی نصابی اقدار کو ویلیوز ایجوکیشن میں بنیاد بناکر جو نصابی ڈھانچا دیا ہے، کیا اس سے تربیت اور تزکیہ کی ضروریات اور مقاصد پورے ہوں گے ؟ تربیت اور تزکیہ پاکستانی معاشرے کی ضرورت ہے اور اس کو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے نے مؤثر انداز میں آگے بڑھایا ہے ۔ کیا نیشنل کریکولم کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے اور ہدایات کو مکمل نظر انداز نہیں کیا اور کیا یہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا؟
q Sustainable Development Goals-5(SDG-5)کا ایک اہم مطالبہ WASH یعنی پانی ، سینی ٹیشن اور ہائی جین ہے جس کا پاکستان دستخط کنندہ ہے۔ کیا نصاب میں ان معاملات کے متعلق طلبہ کو حساس اور عادی بنانے کے لیے کوئی تدابیر دی گئی ہیں؟
q قومی نصابِ تعلیم ایک کھلی قومی سرگرمی ہوتی ہے، جس کے ذریعے سے قوم کی آیندہ نسل کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی راز داری کا کام اور خفیہ کاری کی کوئی سرگرمی ہے کہ اعلانات کے ڈھنڈورے پیٹنے کے باوجود ابھی تک پوری قوم ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی حتمی شکل سے لاعلم ہے، جب کہ وزیر اعظم سے تین ماہ پہلے اس کی منظوری لی گئی اور پورے میڈیا میں اس کا پروپیگنڈا کیا گیا۔
q آخری سوال یہ کہ کیا کوئی قوم قومی نصابِ تعلیم تشکیل دینے کے لیے قومی تنظیمات اور قومی شخصیات کو نظر انداز کرکے غیر ملکی تنظیمات اور ان کے مقامی گماشتوں کی خدمات سے استفادہ کرکے کوئی ایسا قومی نصاب تشکیل دے سکتی ہے، جو قومی اُمنگوں ، نظریاتی ضروریات اور مستقبل کے اہداف کا آئینہ دار ہو؟