اپریل ۲۰۲۴

فہرست مضامین

نظم’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | اپریل ۲۰۲۴ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

یہ نظم علامہ محمد اقبال نے اپنی والدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت علامہ نے اس میں سے کئی اشعار حذف کردیے اور چند شعروں کا اضافہ بھی کیا اور ترتیب بھی بدل دی۔ موجودہ شکل میں نظم کُل تیرہ بندوں کے ۸۶؍اشعار پر مشتمل ہے۔

علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ علامہ کے والد شیخ نورمحمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیرعلی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، وہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے اجتناب کرتیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد شیخ نورمحمد نے ملازمت ترک کردی۔ گھر میں انھیں ’بے جی‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل اَن پڑھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حُسنِ سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطورِ امانت رکھواجاتیں۔ برادری کے گھرانوں میںا گر کوئی جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوتا تو ’بے جی‘ کو سب لوگ منصف ٹھیراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کردیتیں۔ ’بے جی‘ غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیاررہتیں۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ محلے داری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑکیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہوجاتیں۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کرکے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کردیتیں۔

اقبال کو اپنی والدہ سے شدید محبت اور بے حد لگائو تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیرِنظر نظم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیریت واپسی کے لیے دُعائیں مانگتیں اور ان کے خط کی ہمیشہ منتظر رہتیں۔ان کا انتقال ۷۸برس کی عمر میں ۹نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا، جس کے چندشعر یہ ہیں:

مادرِ مرحومۂ اقبال جنّت کو گئیں
چشم تر ہے آنسوئوں سے قلب ہے اندوہ گیں

اکبرؔ اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے
سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے

واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات
رحلت ِ مخدومہ سے پیدا ہوا ہے تاریخِ وفات       [۱۳۳۳ھ]

اکبر کا ایک اور قطعۂ تاریخ وفات مرحومہ کے لوحِ مزار پر کندہ ہے۔

والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳نومبر ۱۹۱۴ء کو خط میں لکھتے ہیں:

اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کردیا ہے۔ میرے لیے دُنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دُنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے۔ دُنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جاپہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں، کسی طرح مَیں اس تک پہنچ جائوں!(صحیفہ، اقبال نمبر ۱۹۷۳ء، (اوّل)،ص ۱۳۲)

شیخ نُورمحمد کو بھی اپنی رفیقۂ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقعے پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی۔ اقبال نے زیرمطالعہ نظم کاتب سے خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔

اس نظم یا(مرثیے) کا اصل موضوع والدہ محترمہ کی وفات حسرت آیات پر فطری رنج و غم کا اظہار ہے۔ اس اظہار کے دو پہلو ہیں:۱- فلسفۂ حیات و ممات اور جبروقدر؛ ۲- والدہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا ردعمل۔

پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے۔ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ اُردو میں اقبال کی شاید واحد نظم ہے، جس میں وہ پڑھنے والے فکر اور جذبے دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں۔(سیّدوقار عظیم: اقبال، شاعر وفلسفی، ص۳۲۲)

  • فلسفۂ جبروقدر:موت کے تصوّر سے اور خاص طور پر اُس وقت جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اُچک کر لے گئی ہو، حسّاس قلب پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا نقش اُبھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ اس لیے اس نظم کا آغاز ہی فلسفۂ جبروقدر سے ہوتا ہے  ع

ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے

پہلے بند میں بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند ستارے، سبزہ و گُل اور بلبل، غرض دُنیا کی ہرشے فطرت کے جبری قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ایک معمولی پُرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔

  • انسانی ذہن پر فلسفۂ جبر کاردِّعمل :تقدیر کے مقابلے میں اپنی بے چارگی پر رنج و غم کا احساس اور اس پر آنسو بہانا انسان کا فطری ردِّعمل ہے۔ مگر دوسرے بند میں اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ جبروقدر مشیت ِ ایزدی ہے، اس لیے گریہ و زاری مناسب ہے۔ آلامِ انسانی کے اس راز کو پالینے کے بعد، کہ عیش و غم کا یہ سلسلہ خدا کے نظامِ کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے، نہ میں زندگی میں انسان کی بے بسی و بے چارگی پر افسوس کرتا ہوں اور نہ کسی ردعمل کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن والدہ کی وفات ایسا سانحہ ہے کہ اس پر خود کو گریۂ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہاں (دوسرے بند کے آخری شعر میں) اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انسان جس قدر بھی صابر و شاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو، زندگی میں کسی نہ کسی موقعے پر اس کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے، ساری حکمتیں اور محکم ضابطے، دُکھی دل کے ردعمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اور والدہ مرحومہ کی وفات پر مجھ پر بھی یہی کچھ بیت رہی ہے۔
  • گریہ و زاری کا مثبت پہلو :گریہ و زاری کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے زندگی کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ روح کی آلودگی اور داخلی بے قراری ختم ہونے سے قبل قاری کو ایک گونہ طمانیت اور استحکام نصیب ہوتا ہے۔ جس سے انسان ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ زمانے کی سختیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ نفسیات دان بھی یہ کہتے ہیں کہ رونے سے انسان کے جذبات کی تسکین (catharsis) ہوتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے  ع

موجِ دُودِ آہ سے آئینہ ہے روشن مرا

  • والدہ اور بچّے کا باہمی تعلق : والدہ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوئوں نے دل کے بوجھ کو ہلکا کردیا ہے۔ اب وہ خود کو بالکل ہلکا پھلکا اور معصوم بچّے کی مانند محسوس کرتا ہے۔ شفیق والدہ کی یاد شاعر کو ماضی کے دریچوں میں لے گئی ہے۔ جب وہ چھوٹاسا تھا اور ماں اس ننھی سی جان کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتی اور دودھ پلاتی تھی۔ اب وہ ایک نئی اور مختلف دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے، جو علم و ادب اور شعروسخن کی دُنیا ہے اور ایک عالَم اس کی شاعری پر سر دُھنتا ہے۔ ماضی اور حال کی ان کیفیات میں اس زبردست تضاد کے باوجود، اقبال کے خیال میں ایک عمررسیدہ بزرگ یا عالم و فاضل شخص بھی جب اپنی والدہ کا تصوّر کرتا ہے تو اس کی حیثیت ایک سادہ بچّے کی رہ جاتی ہے جو ماں کی صحبت کے فردوس میں بے تکلف خوشی پاتا ہے (یہ مضمون تیسرے بند کے تیسرے شعر سے بند کے آخرتک بیان ہوا ہے)۔
  • والدہ اور بھائی سےوابستہ یادیں : والدہ کو یاد کرتے ہوئے گذشتہ دور اور اس سے متعلق حالات و واقعات کا یاد آنا سوچ کے سفر کا حصہ ہے۔ اقبال ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے دور کو یاد کرتے ہیں، جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں امام بی بی، اقبال کی سلامتی کے لیے فکرمند رہتیں، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر ان کی خیریت سے واپسی کے لیے دُعائیں مانگتیں۔ اُنھیں ہمیشہ اقبال کے خط کا انتظار رہتا۔ یہاں اقبال اپنی والدہ کی عظمت کے اعتراف میں بتاتے ہیں کہ میری تعلیم و تربیت، میری عظیم والدہ کے ہاتھوں میں ہوئی، جن کی مثالی زندگی میرے لیے ایک سبق تھی۔ مگر افسوس! جب مجھے والدہ کی خدمت کا موقع ملا تو وہ دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔ البتہ بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے ایک حد تک والدہ کی خدمت کی اور اب والدہ کی وفات پر وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ نے اپنے پیار اور خدمت کے ذریعے اپنی محبت کا جو بیج ہمارے دلوں میں بویا تھا، غم کا پانی ملنے پر اب وہ ایک پودے کی شکل میں ظاہر ہوکر اُلفت کا تناور درخت بنتا جا رہا ہے۔
  • زندگی اور موت کا فلسفہ : والدہ سے وابستہ باتوں کو یاد کرتے ہوئے شاعر کو تقدیر اور موت کی بے رحمی کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ (چھٹے بند سے) سلسلۂ خیال زندگی اور موت کے فلسفے کی طرف مڑ جاتا ہے۔ نظم کے آغاز میں بھی اقبال نے فلسفۂ جبروقدر پر اظہارِخیال کیا تھا، مگر یہاں موت اور تقدیر کے جبر کا احساس نسبتاً شدید اور تلخ ہے۔ کہتے ہیں: دُنیا میں جبراور مشیّت کا پھندا اس قدر سخت ہے کہ کسی چیز کو اس سے مفر نہیں۔ قدرت نے انسانوں کی تباہی کے لیے مختلف عناصر (بجلیاں، زلزلے، آلام و مصائب، قحط وغیرہ) کو مامور رکھا ہے۔ ویرانہ ہو یا گلشن، محل ہو یا جھونپڑی، وہ اپنا کام کرجاتے ہیں۔ مجبور انسان اس پر آہ بھرنے کے سوا اور کیا کرسکتا ہے، نہ مجالِ شکوہ اور نہ طاقت ِ گفتار۔ غرض زندگی گلا گھونٹ دینے والے طوق کے سوا کچھ نہیں۔

لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کائنات کے اندر موت کے مقابلے میں زندگی کا بھی بہرحال ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ دُنیا کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں زندگی اور موت کی کش مکش  ہی سے قائم ہیں۔ چنانچہ ساتویں بند میں اقبال اسی دوسرے رُخ کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جبروقدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے۔ موت ،زندگی پر مستقل طور پر غالب نہیں آسکتی۔ کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانۂ کائنات نہ چل سکتا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں، غالب بنایا ہے۔ لیکن انسان کو زندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہردیکھنے والی نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے، جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیندکرکے پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے  ؎

مرگ اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
(میرتقی میر)

آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دُنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپائیداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فطرت ایک بااختیار خلاق کی حیثیت رکھتی ہے جسے، بنائواور بگاڑ پر پوری قدرت حاصل ہے۔فطرت کو چونکہ خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے، اس لیے اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہوسکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیاتِ نو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہوتی ہے۔

موت کو ایک عارضی کیفیت قرار دینے کے بعد اس سلسلۂ خیال کو ایک مثال کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ نویں بند کو چھوڑ کر دسویں بند میں اقبال نے ایک بیج کی مثال دی ہے، جو مٹی کی تہہ میں دبا پڑا ہے۔ ظاہری طور پر وہ مُردہ حالت میں ہے، مگر درحقیقت وہ ایک نئی اور بہترشکل میں زمین پر نمودار ہونے کی تیاری کرر ہا ہے۔

اس مُردہ دانے میں بھی زندگی کا شعلہ چھپا ہوا ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ زندگی کی تجدید میں مصروف ہے، لہٰذا زندگی کو موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں___ فلسفۂ زندگی و موت سے متعلق یہ سلسلۂ خیال دسویں بند کے اختتام پر ختم ہوجاتا ہے۔

  • عظمتِ انسان :اس کے درمیان (نویں بند میں) اقبال نے نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ آغاز، آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کے ذکر سے ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں ستارے اپنی تمام تر آب و تاب، چمک دمک اور عمر کی طوالت کے باوجود قدرت کے تکوینی نظام کے بے بس کارندے ہیں، اور نہ جانے کب سے ایک محدود دائرے کے اندر اپنا مقرر کردہ فرض ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان کے مقاصد کہیں زیادہ پاکیزہ تر، اس کی نگاہیں کہیں زیادہ وسیع تر ہیں اور وسیع اور اِس لامحدود کائنات میں اس کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند تر ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ کائناتی نظام میں انسان کا مقام ایسا ہی ہے، جیسے نظامِ شمسی میں سورج کا مرتبہ___ اس لیے موت انسان کو فنا نہیں کرسکتی۔
  • غم و اندوہ کا ردِّعمل : گیارھویں بند میں اقبال نے انسانی قلب و ذہن پر رنج و غم کے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ ’موت کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ البتہ زخمِ جدائی کے لیے وقت مرہمِ شفا کی حیثیت رکھتا ہے‘۔ مگر اقبال کو اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت سے دوچار ہو اور مصیبت بھی ناگہاں ہو تو صبروضبط انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اس کی آنکھیں خون کا سرشک آباد بن جاتی ہیں۔ البتہ ایسے عالم میں انسان کے لیے تسکین کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے (اور یہ وہی پہلو ہے جس کی طرف اقبال نے نظم کے آغاز میں ذکر کیا تھا) کہ موت کسی دائمی کیفیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ انسان مرتا ہے لیکن فنا کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے۔ تسکین کا دوسرا پہلو یہ ہے، جس طرح ہررات کی سحر ہوتی ہے (اور صبح کے وقت طائرانِ سرمست نوا، نیند کو عروسِ زندگی سے ہمکنار کردیتے ہیں)، بالکل اسی طرح موت کے وقفۂ ماندگی کے بعد انسان پھر بیدار ہوکر اُٹھ کھڑاہوگا۔ یہ اس کی زندگی کی نئی سحر ہوگی اور پھر وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے گا (یہ بات بارھویں بند کے آخر تک بیان ہوئی ہے)۔
  • والدہ کے لیـے دُعا :نظم خاتمے کے قریب پہنچتی ہے۔ سلسلۂ خیال والدہ مرحومہ کی جانب مڑجاتا ہے۔ ابتدا میں شاعر نے والدہ کی رحلت پر جس بے قراری، اضطراب اور بے چینی کا اظہار کیا، وہ والدہ سے محبت رکھنے والے ایک مغموم و متاسّف بچّے کے درد و کرب اور تڑپ کا بے تابانہ اظہار تھا۔ لیکن فلسفۂ زندگی و موت پر غوروخوض کے بعد شاعر نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ ایک پختہ کار مسلمان کی سوچ ہے۔ اقبال نے والدہ کی جدائی کے درد و غم کو اپنی ذات میں اس طرح سمولیا ہے کہ اب جدائی ایک مقدس اور پاکیزہ کیفیت بن گئی ہے  ع

جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے

یوں کہنا چاہیے کہ اقبال نے غم کا ترفّع (sublimation) کرلیا ہے۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے متاسّف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ آخری تین اشعار دُعائیہ ہیں۔ اقبال دُعاگو ہیں کہ جس طرح زندگی میں والدئہ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھیں، جن سے سب لوگ اکتسابِ فیض کرتے تھے، خدا کرے کہ ان کی قبر بھی نُور سے معمور ہو، اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ ’سبزئہ نُورستہ ‘خدا کی رحمت کی علامت ہے۔

  • لہجے کا تنوع : ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر یہ نظم اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اوردھیما لہجہ رکھتی ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی، قدرت کی جبریت او زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے، وہاں لہجے کا سخت اور پُرجوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے والدہ سے وابستہ یادِ رفتہ کو آواز دی ہے، وہاں اس کے لہجے میں درد و کرب اور حسرت کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اُتارچڑھائو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات نمایاں ہے۔ ملاحظہ ہو:

زندگی کی اوج گاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم
صُحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

_____

یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے

_____

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔

نظم میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبرواختیار اور زندگی و موت پر غوروخوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجائے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں۔ اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرمجوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً:

شعلہ یہ کمتر ہے گردُوں کے شراروں سے بھی کیا
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا

_____

موت ، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے

_____

سینۂ بُلبل کے زِنداں سے سرود آزاد ہے
سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے

  • سوز و گداز : زیرمطالعہ نظم اپنے تاثر کے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ غلام رسول مہر کے بقول اس کے اشعار اتنے پُرتاثیر ہیں کہ الفاظ میں ان کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی۔غالباً یہ مرثیہ شعروادب کی پوری تاریخ میں بالکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی کوئی دوسری زبان اس قسم کی نظم پیش کرسکے۔ اس انفرادیت اور اثرانگیزی کا سبب اس کا وہ سوز و گداز ہے جس سے نظم کے کسی قاری کا غیرمتاثر رہنا ممکن نہیں۔ روایت ہے کہ مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے سوزوگداز  سے ان پر گریہ طاری ہوجاتا، اور وہ دیر تک روتے رہتے۔ مرثیے میں یہ سوزوگداز اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اقبال کے پیش نظر ایک جذباتی موضوع تھا۔
  • فارسیّت :یہ اقبال کی ان نظموں میں سے ہے، جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔  بعض مصرعے ایک آدھ حرف یا لفظوں کے سوا فارسی میں ہیں:

پردئہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

_____

علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے

_____

ُخفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رُود باد

_____

مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا

حُسنِ بیان کے چند پہلو : فنی اعتبار سے حُسنِ بیان کا خوب صورت نمونہ ہے۔ پروفیسر رشیداحمد صدیقی نے ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں، لیکن ان میں ایک بھی توجہ پر بار نہ ہو‘‘۔

نظم میں زبان و بیان، صنائع بدائع اور حُسنِ بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:

تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ

_____

آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں

_____

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں

_____

علم کی سنجیدہ گُفتاری، بُڑھاپے کا شعور
دُنیوی اعزاز کی شوکت ، جوانی کا غرور

_____

جانتا ہوں آہ! مَیں آلامِ انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز

_____

دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دُنیا کا سبق تیری حیات

_____

مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

_____

نظم کا اختتام دُعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبروقدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دُنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ گویا یہاں:’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے جس کی بدولت اقبال کو اُردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے، اور دوسری شخصیت اس مجبورو مغموم انسان کی ہے، جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے۔(سیّدوقار عظیم، اقبال، شاعر اور فلسفی، ص ۱۶۳-۱۶۴)

آخر میں والدئہ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے دست بہ دُعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نُور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ یہاں اقبال کا طرزِ فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچّے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔