یہ نظم علامہ محمد اقبال نے اپنی والدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت علامہ نے اس میں سے کئی اشعار حذف کردیے اور چند شعروں کا اضافہ بھی کیا اور ترتیب بھی بدل دی۔ موجودہ شکل میں نظم کُل تیرہ بندوں کے ۸۶؍اشعار پر مشتمل ہے۔
علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ علامہ کے والد شیخ نورمحمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیرعلی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، وہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے اجتناب کرتیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد شیخ نورمحمد نے ملازمت ترک کردی۔ گھر میں انھیں ’بے جی‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل اَن پڑھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حُسنِ سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطورِ امانت رکھواجاتیں۔ برادری کے گھرانوں میںا گر کوئی جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوتا تو ’بے جی‘ کو سب لوگ منصف ٹھیراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کردیتیں۔ ’بے جی‘ غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیاررہتیں۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ محلے داری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑکیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہوجاتیں۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کرکے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کردیتیں۔
اقبال کو اپنی والدہ سے شدید محبت اور بے حد لگائو تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیرِنظر نظم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیریت واپسی کے لیے دُعائیں مانگتیں اور ان کے خط کی ہمیشہ منتظر رہتیں۔ان کا انتقال ۷۸برس کی عمر میں ۹نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا، جس کے چندشعر یہ ہیں:
مادرِ مرحومۂ اقبال جنّت کو گئیں
چشم تر ہے آنسوئوں سے قلب ہے اندوہ گیں
اکبرؔ اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے
سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے
واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات
رحلت ِ مخدومہ سے پیدا ہوا ہے تاریخِ وفات [۱۳۳۳ھ]
اکبر کا ایک اور قطعۂ تاریخ وفات مرحومہ کے لوحِ مزار پر کندہ ہے۔
والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳نومبر ۱۹۱۴ء کو خط میں لکھتے ہیں:
اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کردیا ہے۔ میرے لیے دُنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دُنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے۔ دُنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جاپہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں، کسی طرح مَیں اس تک پہنچ جائوں!(صحیفہ، اقبال نمبر ۱۹۷۳ء، (اوّل)،ص ۱۳۲)
شیخ نُورمحمد کو بھی اپنی رفیقۂ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقعے پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی۔ اقبال نے زیرمطالعہ نظم کاتب سے خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔
اس نظم یا(مرثیے) کا اصل موضوع والدہ محترمہ کی وفات حسرت آیات پر فطری رنج و غم کا اظہار ہے۔ اس اظہار کے دو پہلو ہیں:۱- فلسفۂ حیات و ممات اور جبروقدر؛ ۲- والدہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا ردعمل۔
پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے۔ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ اُردو میں اقبال کی شاید واحد نظم ہے، جس میں وہ پڑھنے والے فکر اور جذبے دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں۔(سیّدوقار عظیم: اقبال، شاعر وفلسفی، ص۳۲۲)
ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے
پہلے بند میں بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند ستارے، سبزہ و گُل اور بلبل، غرض دُنیا کی ہرشے فطرت کے جبری قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ایک معمولی پُرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔
موجِ دُودِ آہ سے آئینہ ہے روشن مرا
لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کائنات کے اندر موت کے مقابلے میں زندگی کا بھی بہرحال ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ دُنیا کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں زندگی اور موت کی کش مکش ہی سے قائم ہیں۔ چنانچہ ساتویں بند میں اقبال اسی دوسرے رُخ کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جبروقدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے۔ موت ،زندگی پر مستقل طور پر غالب نہیں آسکتی۔ کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانۂ کائنات نہ چل سکتا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں، غالب بنایا ہے۔ لیکن انسان کو زندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہردیکھنے والی نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے، جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیندکرکے پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے ؎
مرگ اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
(میرتقی میر)
آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دُنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپائیداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فطرت ایک بااختیار خلاق کی حیثیت رکھتی ہے جسے، بنائواور بگاڑ پر پوری قدرت حاصل ہے۔فطرت کو چونکہ خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے، اس لیے اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہوسکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیاتِ نو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہوتی ہے۔
موت کو ایک عارضی کیفیت قرار دینے کے بعد اس سلسلۂ خیال کو ایک مثال کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ نویں بند کو چھوڑ کر دسویں بند میں اقبال نے ایک بیج کی مثال دی ہے، جو مٹی کی تہہ میں دبا پڑا ہے۔ ظاہری طور پر وہ مُردہ حالت میں ہے، مگر درحقیقت وہ ایک نئی اور بہترشکل میں زمین پر نمودار ہونے کی تیاری کرر ہا ہے۔
اس مُردہ دانے میں بھی زندگی کا شعلہ چھپا ہوا ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ زندگی کی تجدید میں مصروف ہے، لہٰذا زندگی کو موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں___ فلسفۂ زندگی و موت سے متعلق یہ سلسلۂ خیال دسویں بند کے اختتام پر ختم ہوجاتا ہے۔
جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے
یوں کہنا چاہیے کہ اقبال نے غم کا ترفّع (sublimation) کرلیا ہے۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے متاسّف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ آخری تین اشعار دُعائیہ ہیں۔ اقبال دُعاگو ہیں کہ جس طرح زندگی میں والدئہ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھیں، جن سے سب لوگ اکتسابِ فیض کرتے تھے، خدا کرے کہ ان کی قبر بھی نُور سے معمور ہو، اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ ’سبزئہ نُورستہ ‘خدا کی رحمت کی علامت ہے۔
زندگی کی اوج گاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم
صُحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
_____
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے
_____
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔
نظم میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبرواختیار اور زندگی و موت پر غوروخوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجائے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں۔ اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرمجوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً:
شعلہ یہ کمتر ہے گردُوں کے شراروں سے بھی کیا
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا
_____
موت ، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
_____
سینۂ بُلبل کے زِنداں سے سرود آزاد ہے
سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے
پردئہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
_____
علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے
_____
ُخفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رُود باد
_____
مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا
حُسنِ بیان کے چند پہلو : فنی اعتبار سے حُسنِ بیان کا خوب صورت نمونہ ہے۔ پروفیسر رشیداحمد صدیقی نے ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں، لیکن ان میں ایک بھی توجہ پر بار نہ ہو‘‘۔
نظم میں زبان و بیان، صنائع بدائع اور حُسنِ بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:
تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ
_____
آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں
_____
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں
_____
علم کی سنجیدہ گُفتاری، بُڑھاپے کا شعور
دُنیوی اعزاز کی شوکت ، جوانی کا غرور
_____
جانتا ہوں آہ! مَیں آلامِ انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز
_____
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دُنیا کا سبق تیری حیات
_____
مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
_____
نظم کا اختتام دُعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبروقدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دُنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ گویا یہاں:’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے جس کی بدولت اقبال کو اُردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے، اور دوسری شخصیت اس مجبورو مغموم انسان کی ہے، جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے۔(سیّدوقار عظیم، اقبال، شاعر اور فلسفی، ص ۱۶۳-۱۶۴)
آخر میں والدئہ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے دست بہ دُعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نُور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ یہاں اقبال کا طرزِ فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچّے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔