اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ۸ فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے شمار اور اعلان کردہ نتائج میں کوئی منطقی ربط نہیں پایا جاتا ۔ اس حقیقت کا اظہار جماعت اسلامی کے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے عدل و دیانت پر مبنی بیان سے ہوتا ہے۔ انھوں نے سرکاری اعلان کردہ اپنی کامیابی کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے مخالف پی ٹی آئی کے نمایندے کو ڈالے گئے ووٹ ان کے حق میں پڑنے والے ووٹوں سے زیادہ تھے، لیکن سرکاری اعلان میں انھیں تحریف کر کے جیتنے والے کو ہارنے والا بنا دیا گیا۔ یہ اخلاقی جرأت ہمارے یقین میں اضافہ کرتی ہے کہ جماعت اسلامی جس قسم کا انسان اور معاشرہ پیدا کرنا چاہتی ہے، اس میں حق گوئی، عدل اور بےغرضی کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے۔ چنانچہ تحریک کا کارکن اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے حق کی حمایت کو اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ایسا فرد ہی انسانی معاشرے میں مثبت، صحت مند اور عادلانہ تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کی بڑی اخلاقی فتح ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی اصول پرستی اور بے لوثی پائی جاتی ہے۔
انتخابات میں اعلان شدہ نتائج کی صداقت کو نہ صرف سیاسی جماعتوں نے بلکہ ملک کے ہر باشعور شہری، حتیٰ کہ بیرون ملک کے ابلاغ عامہ نے بھی غلط اور جمہوری روایات کے مکمل منافی قرار دیا ۔ یہ بدقسمتی ہے کہ نتائج کو اپنی پسند کے مطابق ظاہر کرنے والوں کے ضمیر ابھی تک بیدار نہیں ہوسکے۔اگرچہ ’ن‘ لیگ کے چند سنجیدہ افراد نے بھی نتائج کی تبدیلی کے عمل کو شرمناک اور ان کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں براجمان ہونے والوں کی حیثیت پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ نفس لوامہ جب تک زندہ ہے، یہ یاد دہانی کراتا رہتا ہے کہ حق و باطل میں فرق کیا جائے اور حق بات کا اظہار کیا جائے، چاہے اس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہو ۔
عالمی طور پر نتائج میں کسی تحریف کو نہ صرف ایک قانونی اور اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے آمرانہ نظام کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تحریک اسلامی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کو آمریت سے بچانے کے لیےاور ملک کے نظام کو دستورِ مملکت کے مطابق جمہوری اداروں اور جمہوری روایات کے احیا کے لیے پُرامن ذرائع سے ملک گیر جدوجہد برپا کرے ۔
ان انتخابات نے اس عام تاثر کے برعکس کہ عوام کو جو چاہے رقم سے خرید سکتا ہے یا سرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے دباؤ میں ان سے ووٹ ڈلوایا جا سکتا ہے ، یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچادی ہے کہ پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں میں ملکی مسائل کا شعور نہ صرف بیدار ہے بلکہ وہ تمام پابندیوں اور آزمایشوں کے باوجود استقامت اور صبر کے ساتھ پُرامن رہتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال اورظلم کے خلاف جمہوری انداز میں آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ احتجاج کے اظہار کےلیے توڑ پھوڑ کی جگہ صبر و استقامت اور پرامن احتجاج زیادہ مؤثر طرزِ عمل ہے ۔
انتخابات میں بے ضابطگی کےعلاوہ جمہوری روایات کو پامال کرتے ہوئے بعض اندازوں کے مطابق ملک میں بڑی تعداد میں سیاسی کارکن اس وقت جیلوں میں نظر بند ہیں۔ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس کے کارکنان پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں ۔ مزید یہ کہ پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کےا سپیکر، وزیراعظم اور صدر مملکت کے عہدوں پر من پسند افراد کو بٹھایا جا چکا ہے، جب کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عملاً کوئی انتظامی اختیار نہیں رکھتی۔ ان سب استحصالی اقدامات اور اپنے خیال میں حزبِ اختلاف سے نجات حاصل کر لینے کے باوجود، سیاسی قیدیوں کو رہا نہ کرنا غیر معمولی احساسِ عدم تحفظ و عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سیاسی آزادی کی بحالی کے لیے آواز بلند کرنا اور قوم کو ساتھ لے کر کلمۂ حق بلند کرنا ایک قومی فریضہ ہے ۔ ایک اصولی اور نظریاتی اساس پر قائم ہونے والی جماعت کا فرض ہے کہ تمام اختلافات اور تلخ تجربات سے بلند ہو کر اصولی طور پر حق کی حمایت اور ظلم و استحصال کی کھل کر مخالفت کرے۔ نوجوانوں کی راہنمائی کے لیے بھی ضروری ہے کہ پر امن دستوری ذرائع سے ظلم کے خلاف آواز اٹھتی رہے اور نفاذ جمہوریت کی تحریک ایک تسلسل سے آگے بڑھتی رہے۔
ملک گیر پیمانے پر تمام خواتین اور سیاسی کارکنان کی رہائی کے لیے منظم مہم وقت کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں سیاسی بنیاد پر خواتین کو جیلوں میں بند کرنا پاکستان کی سیاسی روایت سے انحراف اور ایک ظالمانہ اقدام ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں چادر اور چار دیواری کا احترام بنیادی اخلاقی اور انسانی فریضہ شمار کیا جا تا ہے۔ اسلام نے جو عزت و احترام کا مقام خواتین کو دیا ہے اس کی مثال کسی اور معاشرے میں نہیں پائی جاتی۔ سیاسی گرفتاریوں خصوصاً خواتین کی رہائی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سیاسی اختلافات سے بلند ہو کر بات کرنا ، اسلامی روایات کا تقاضا اور تحریک اسلامی کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
انتخابات میں مقتدر اداروں کی غیر دستوری دخل اندازی کے باوجود ایک بے نشان سیاسی جماعت کو ملک گیر سطح پر عوامی حمایت کا حاصل ہونا تحریکی نقطۂ نظر سے غیر معمولی توجہ کا مستحق ہے۔ ماضی کے انتخابات کے نتائج کا نظریاتی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو صرف جماعت اسلامی کو نظریاتی اور اصولی پارٹی کہا جا سکتا تھا کیونکہ اپنے اپنے منشور میں کیے گئے وعدوں کے باوجود، دیگر سیاسی پارٹیاں الگ الگ ناموں کے ساتھ، عملاً اقتدار کی دوڑ میں شریک اور ذاتی مفاد پرست افراد کا ایک مجموعہ بنی رہی ہیں ۔ جماعت ایک بے لوث اصلاحی اور اصولی پارٹی ہے۔ مزید یہ کہ جماعت وہ واحد دینی اور نظریاتی پارٹی رہی ہے ،جس کا وجودعوامی سطح پر ملک کے تمام صوبوں میں پایا جاتا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ، ایک سندھ اوردوسری پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھنے کی مدعی رہی ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی صورتِ حال کو بہتر بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا ، پنجاب اور سندھ تینوں جگہ اس کے امیدواروں کو عوام نے ووٹ دیا۔ مگر یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کراچی کے علاوہ دیگر مقامات پر جماعت اسلامی اپنی مقبولیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کرسکی۔ کیا اس کا سبب پی ٹی آئی کی قیادت کا بظاہر مظلوم ہونا اور عوام کا انھیں ہمدردی کی بنا پر ووٹ دینا تھا، یا واقعتاً پی ٹی آئی کے منشور اور پروگرام سے آگاہی کی بنا پرعوام نے اس سے وابستہ افراد کو انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود اور غیر معروف سیاسی نشانوں پر بھاری تعداد میں ووٹ دیئے؟ اس کے کیا محرکات تھے اور پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا تھی ؟ سیاسی جلوس اور اسٹریٹ پاور کے اظہار کے بغیر محض سوشل میڈیا کے ذریعے انھوں نے کس طرح عوام کو ساتھ ملایا؟ یہ سب پہلو زمینی حالات کے حقیقت پسندانہ ادراک اور تجزیے کے طالب ہیں۔
اس پہلو پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ مقتدر حلقوں کے ہاتھوں پس پردہ جو کچھ ہوا اگر وہ نہ ہوتا، تو کیا ملک گیر سطح پر ہمارا ووٹ بنک ہمارے اندازے کے مطابق ہوتا؟ اس اندازے اور حقائق کے درمیان توازن پیدا ہونا چاہیے۔
انتخابات کے حوالے سے ایک سے زائد پیشہ ورانہ جائزوں اور تجزیوں کی ضرورت ہے، جو اس شعبہ کے ماہرین سے کرائے جائیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اگر کسی مقام پر جماعت کے امیدوار کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کو زیادہ ووٹ ڈالے گئے، تو کیا اس کا سبب اس امیدوار کا عوامی سطح پر فلاحی کاموں میں سر گرم ہونا تھا یا اس پارٹی کی شہرت کی بنا پر اسے ووٹ ملے ؟ جماعت کے امیدوار کی مہم میں کس جگہ کیا خامی رہی ؟ خود امیدوار کے حوالے سے یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امیدوار کی عمر، ظاہری وضع قطع، علمی استعداد ،محلے کی مسجد میں نماز باجماعت میں حاضری، اس کا پیشہ یا کسی مقامی معاشرتی و فلاحی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ، کس چیز نے ووٹر کو متاثر کیا؟ کیا دو معروف جماعتوں سے عدم اطمینان اور تیسری بڑی پارٹی کے معتوب ہونے کی بنا پر ووٹر نے جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہا، تاکہ کم از کم ووٹ کا وزن ایک جگہ پڑے، یا اس نے جماعت اسلامی کی دعوت ، امیدوار کی صلاحیت پر اعتماد کی بنا پر جماعت کے امیدوار کو پسند کیا ؟ ووٹر کی پسند ناپسند کا اندازہ کرنا آیندہ کے لیے رہنمائی فراہم کرنے اور خود تحریکی دعوتی سرگرمی کے لیے بھی بنیادی مواد فراہم کر سکتا ہے ۔
انتخابات سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی تصدیق اور تجزیہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ جب تک دعوت کے مخاطب کی نفسیات، زندگی کے بارے میں تصور اور معاشرتی اور معاشی تصورات کا اندازہ نہ کیا جائے، دعوت کی حکمت عملی طے نہیں کی جاسکتی۔ کیا وجہ ہے کہ پورے پنجاب میں سے جنوبی پنجاب کے دوحلقوں میں جماعت کے نمایندہ کو ۱۱ہزار سے زیادہ ووٹ ملے ہیں، جب کہ کراچی اور خیبرپختونخوا میں ۳۰،۳۰ہزار سے زیادہ ووٹ جماعت کے نمایندے کو ملے ہیں۔ اس فرق کا گہری نظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ۲۵کروڑ آبادی کے ملک میں ملک گیر سطح پر جماعت کو ۲۵لاکھ ووٹ ملے ہیں، مگر یہ منتخب نمایندے کی شکل میں کیوں نہیں ڈھل سکے؟
انتخابات میں حصہ لینا تحریک اسلامی کے مجموعی کام کا ایک لازمی جزو ہے، جسے اقامتِ دین کی جامع اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے ۔تحریک کا اصل کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ، اس کے بندوں تک ان کے ربّ کا پیغام پہنچانا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی رہنمائی میں اپنے طرز عمل کے ذریعے دین کی تعلیمات کو متعارف کروانا ہے، اور تحریک اور اس کا ہرکارکن عند اللہ اس دعوتی فریضے کے لیے جواب دہ یا مسئول ہے۔ چونکہ انتخابات یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ عوام سے بڑے پیمانے پر رابطہ ہو، ان کی اخلاقی اورسیاسی تعلیم و تربیت کی جائےتاکہ وہ دیانت دار اور امانت دار افراد کو اپنا نمایندہ منتخب کریں۔ اس لیے سیاسی محاذ پر کام دعوتی کام کا ایک حصہ ہے،اسے محض ووٹ بنک بڑھانے کا ذریعہ سمجھنا سادہ لوحی ہے۔لیکن اقامت دین کے دیگر اُمور جن میں تربیت و تزکیۂ سیرت اور اجتماعیت اور نظم و ضبط کا پیدا کرنا شامل ہے، نظر انداز نہیں ہونے چاہییں ۔ ہماری انتخابی مہم کا حاصل محض ووٹوں کی گنتی اور نشستوں کی تعداد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ توسیع دعوت، تعمیر کردار ، تطہیر افکار کرتے ہوئے سیاسی ، معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی نظام کی اصلاح کی کوشش ہونا چاہیے، تاکہ عام سیاسی جماعتوں اور تحریک کے مزاج اور مقصد کے فرق کو ایک عام ناظر بھی محسوس کر سکے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پورے ملک میں جہاں جہاں تحریک نے امیدوار کھڑے کیے تھے، ان کے حق میں جس شخص نے بھی ووٹ دیا، اس سے رابطہ اور تحریکی لٹریچر کے ذریعے یا قرآنی حلقۂ درس اور سیرت پاکؐ کے مطالعے کے ذریعے اسے تحریک کے قریب لانے کے منصوبہ پر فوری عمل کیا جائے اور اس میں ایک لمحہ کی تاخیر نہ ہو ۔یہ دور اعداد و شمار (Data) جمع کرکے، تجزیہ کرنے اور اس کی بنیاد پر قابلِ عمل منصوبہ بندی کرنے کا دور ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی تحریکی امیدوار کامیاب ہوا یا نہیں ، ووٹ دینے والے ہر فرد سے ذاتی رابطہ اور حکمت کے ساتھ انھیں اپنی دعوت پہنچانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے نتیجے میں جماعت مرکزی پارلیمنٹ میں کوئی جگہ حاصل نہ کرسکی اور صوبائی سطح پر صرف کراچی میں ایک اور بلوچستان میں دو نشستیں حاصل ہوسکیں۔ سبب بہت واضح ہے۔ بعض مؤثر ادارے جن افراد کو لانا چاہتے تھے ریاستی قوت استعمال کرتے ہوئے انھیں ایوان تک پہنچا دیا گیا۔ان حقائق کے باوجود یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فارم ۴۵ کے مطابق جماعت نے ملک گیر پیمانے پر اس انتخاب میں اور سابقہ انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں کل کتنے ووٹ حاصل کیے اور کیا حاصل شدہ ووٹ اس کے متوقع ووٹوں کی تعداد سے مطابقت رکھتے تھے ؟
لیکن اس جائزے اور سروے کے نتائج کا انتظار کیے بغیر زمینی حقائق کی روشنی میں فوری طور پر دعوتی حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ داعی تحریک اسلامی سیّد مودودی نےایسے مواقع کے بارے میں اپنے ایک تاریخی خطاب میں جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا، یہ بات فرمائی تھی کہ تحریک کے کام میں اگر رکاوٹ کا پہاڑ بھی سامنے آ جائے تو تحریک رُکتی نہیں۔ وہ پہاڑی نالے کی طرح پہاڑ کے دائیں اور بائیں سے راستہ تبدیل کر کے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے، اور پہاڑ اپنی جگہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جو لوگ بھی ہیں، ان سے سرگرم تعلقات کے ذریعے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کون افراد نظریۂ پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں اور ملک کے دستور کی روشنی میں ملک میں اخلاقی اور اصلاحی کام کو ترجیح دیتے ہیں؟ ان کے ساتھ ان موضوعات پرجن کا تعلق نظریۂ پاکستان اورآئین پاکستان میں درج جمہوری روایات سے ہے، باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے رابطہ استوار کیا جائے۔
اس سلسلے میں ان موجود افراد کو علمی اور فکری زاویے سے جس تعاون کی ضرورت ہے وہ فوراً فراہم کیا جائے ۔ان نمایندگان سے ذاتی رابطہ پورے خلوص کے ساتھ قائم کیا جائے، انھیں مختلف موضوعات پر مواد کی فراہمی، تحریک سے وابستہ افراد کے ذریعے کی جائے۔اس عمل سے کسی پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچے تو ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔ ہمارا مقصد دین اور نظریۂ پاکستان کا نفاذ ہے۔ اگریہ کام ہمارے ہاتھ سے نہ بھی ہو لیکن کسی اور کے ذریعے ہو جائے تو یہ ہماری ہی کامیابی ہے۔
ان بنیادی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ چند امور پر فوری توجہ دی جائے:
ایک عام شہری ہی نہیں پڑھے لکھے جہاں دیدہ افراد بھی سیاسی مہم کا مقصد حصولِ اقتدار و اختیارات ہی سمجھتے ہیں، اور انتخابات میں کسی پارٹی کی کامیابی سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر عوام سے کیے گئے وعدوں پر کام کرے گی۔ انتخابات سے پہلے، دوران انتخابات اور انتخابات کے بعد، ہر مرحلے میں تحریکی فکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کا مقصدحصولِ اقتدار کی جگہ اقامت دین کے لیے زمین کی تیاری کی جائے اور ذاتی اقتدار کی جگہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے نفاذ کی کوشش کو اپنی گفتگو، حکمت عملی اور رابطہ مہم میں مرکزی مقام دیا جائے۔ انتخابات کےنتائج سے قطع نظر تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ اقامت دین اور اپنے مخاطبین کی فکری تربیت اور عملی تنظیم میں کمی نہ آنے دے اور سیاسی مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی اپنے اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے اس کے پاس واضح نقشۂ عمل ہو ۔ اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے خود کو اوردوسروں کو یاد دہانی اور تاکید میں کمی نہ آنے دے۔ جگہ جگہ قرآنی حلقوں کا قیام اور سیرت پاکؐ کی روشنی میں تعمیر سیرت کی نشستوں اور تربیت گاہوں کا جتنا زیادہ اہتمام کیا جائے گا، اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ سے جتنی قربت ہوگی، دعوت کو اتنی ہی کامیابی ہوگی۔
دستور ریاست ِ پاکستان جن سیاسی آزادیوں کا تحفظ دیتا ہے تحریک کو ان کے حصول کے لیے ملک گیر مہم برپا کرنی چاہیے، تاکہ جن افراد کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے، ان پر کھلی عدالت میں کارروائی ہو، اور جو سیاسی کارکن خصوصاً خواتین اس وقت بلا کسی اخلاقی جواز کے جیلوں میں ہیں، اور جن صحافیوں کو ان کی حق گوئی کی بنا پر قید کر دیا گیا ہے، ان کو رہا کر ایا جائے اور ملک میں دستور میں دیے گئے جمہوری حقوق کو بحال کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تہذیبی اور سیاسی روایات اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کی حفاظت میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔
اداراتی دخل اندازی سے جن افراد کو برسر اقتدار لایا گیا ہے، وہ ایک حزبِ اختلاف کے موجود ہونے کے باوجود ایسی قانون سازی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں جو بیرونی دشمنانِ پاکستان کی مرضی کے مطابق ہو۔ ماضی میں بھی دشمنانِ وحدت ملت کی کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ ملک میں سیاسی عدم توازن پیدا کرکے ایسے افراد کو اقتدار میں لایا جائے، جو ذہنی طور پر مغربی سامراج کے غلام اور تابع دار ہوں۔
عدالت عظمیٰ پاکستان کے ایک حالیہ فیصلے سےبراہِ راست فائدہ قادیانیوں کو ہوا ہے اور ایسے اہم فیصلے کا انتخابات سے دو دن قبل آنا ایک معنی خیز اقدام کہا جا سکتا ہے ۔ایک عرصے سے بیرونی دشمن اس مہم میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح قادیانیوں کو جن کا وجود تاج برطانیہ کا مرہونِ منت تھا اور جو مرزا غلام احمد کے تحریری بیانات کے مطابق برطانوی مفادات کے تحفظ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے، مذہبی آزادی کے بہانے قادیانیت کی ترویج کے دروازے کو کھول دیا جائے۔ ایسے ہی ایک دوسرے فتنہ یعنی مخنث افراد سے ہمدردی کے نام پر جنسی تبدیلی اور اباحیت کے دروازے کو بھی کھول دیا جائے تاکہ پاکستانی نوجوان ان دو شیطانی وباؤں کا شکار ہو کر اپنی تعمیری اور اصلاحی صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں ۔ ان دونوں فتنوں پر ملک گیر پیمانہ پر علمی مجالس کا انعقاد ، رائے عامہ کی ہمواری اور قانون ساز اداروں میں ہونے والی پس پردہ سرگرمیوں سے آگاہی قومی فلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔ حزبِ اختلاف کا چوکنا رہنا اور تحریک کی جانب سے ان دونوں معاملات میں مددگار فکری و عملی اثاثہ (supporting material) اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا لازم ہے۔
ملک ِ عزیز میں موجودہ سیاسی عدم استحکام اور فکری انتشار کا بنیادی سبب ملکی اداروں کا اپنے دائرۂ کار کے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے شعبوں کو اپنے زیر تسلط لانے کا کھیل ہے، جو ملک کے دستور کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ملکی سالمیت اور بقا کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر شعبہ دوسرے شعبے کے دائرۂ کار کا احترام کرتے ہوئے تعاون تو کرے، لیکن اس کا استحصال نہ کرے۔ اس حقیقت واقعہ کے نتیجے میں گذشتہ دو برس کے دوران میں جس تیزی سے عوام کا اعتماد مقتدر اداروں سے اٹھا ہے اور اداروں کی عزّت ان کی اپنی غیر دانش مندی کی بنا پر برباد ہوئی ہے،اس کو دوبارہ استوار کرنے کے لیےغیر معمولی محنت، دیانت، امانت اور سچائی کی ضرورت ہے۔
جس معاشرے میں عدل اور قانون کا احترام ختم ہو جاتا ہے، وہاں انتشار اور خودغرضی رواج پا جاتی ہے اور اخلاقی زوال زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر جاتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام نے اخلاقی زوال کی روک تھام نہیں کی انھیں کوئی طاقت صفحۂ ہستی سے مٹنے سے نہیں روک سکی۔ اُمت مسلمہ کی پہچان اس کا وہ اخلاقی طرزِ عمل ہے، جسے قرآن کریم نے امر بالمعروف اور عملِ صالح کے الفاظ سے واضح کیا ہے ۔اس کے مقابلے میں اگر معروف کی جگہ ’منکر‘ اور ظلم و جبر کو اختیار کیا جائے، تو اس مدت ِمہلت کے گزرنے پر جس کا علم صرف اللہ کو ہے، وہ قوم اپنا وجود اور جواز کھوبیٹھتی ہے۔ قومی سطح پر معروف کا قیام اور منکر کا مٹانا قرآن کریم کی رو سے امت مسلمہ اور تحریک اسلامی کا فرض منصبی ہے ۔اس فرض کی ادائیگی کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
سیاسی عدم استحکام اداروں کے دائرۂ کار کے اختلاط اور معاشی اضمحلال کا ایک بڑا سبب برسرِاقتدار آنے والوں کی وہ غلامانہ ذہنیت ہے، جو اپنے ذاتی مادی مفاد کو قومی وقار پر فوقیت دیتی ہے۔ یہ ٹولہ بیرون ملک ہر اس ملک کے فرماں روا کے سامنے کاسۂ گدائی اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جہاں سے قرض ملنے کی توقع ہو۔ ایسے مالی قرضے کو یہ اپنا کارنامہ دکھانے کے ساتھ اس قرض کی رقم کو کسی دوسرے قرض کی ادائیگی میں استعمال کرلیتا ہے، اور اسے اپنی فنی مہارت کہہ کر اپنے آپ کو خوش کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ پالیسی معیشت کو قطعاً بہتر نہیں بنا سکتی ۔
عالمی مالی اداروں سے مزید قرض یا سود کی ادائیگی کے بارے میں مہلت کی مہنگی بھیک کی جگہ ان اداروں سے مکمل گلو خلاصی کی ضرورت ہے۔ تحریک کو چاہیے کہ ماہرین کی مدد سے قوم کے سامنے اس مرض کا علاج تجویز کرے تاکہ ملک میں معاشی ترقی اور اپنی ذات پر اعتماد پیدا ہوسکے۔ بے ساکھیوں کی مدد سے چلنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔جب تک جسم کو صحت مند نہیں بنایا جائے گا عارضی نسخے کسی بھلائی کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتے۔
برسر اقتدار طبقہ نے یہ جاننے کی بنا پر کے بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی تعداد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست سے بیزار ہے، ان کے دستوری حق کو ان سے چھین کر انھیں ووٹ دینے سے محروم کیا۔ یہ قومی سطح کی بددیانتی ہے اور تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حق کے لیے قوم کو اعتماد میں لے اور دستوری ذرائع سے یہ بات تسلیم کرائے کہ وہ برقی ذرائع سے اپنے ووٹ دے سکیں۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت میں بیرون ملک پاکستانیوں کے کردار کے پیش نظر ان تک تحریک کی دعوت مؤثر انداز میں پہنچائی جائے ۔ان میں پاکستان سے وابستگی کو مزید مستحکم کیا جائے اور ان کی نا اُمیدی کو دُور کیا جائے اور ملکی مسائل پر ان کی آراء کو عوام اور نمایندہ ایوانوں میں پہنچایا جائے ۔اس غرض سے بیرون ملک پاکستانیوں کی قائم کردہ تنظیمات سے رابطہ اور ان کی مثبت رہنمائی بے حد ضروری ہے۔ وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں اور ملک سے دُور ہونے کے سبب ملک کے بارے میں یہاں بسنے والوں سے زیادہ ملک کے تحفظ و ترقی کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ ان میں دعوت دین کا فروغ، ان کی پاکستانیت کو زیادہ مستحکم اور فعال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔ یہ وہ ملک ہے جو ۲۷رمضان المبارک کی شب قدر کو وجود میں آیا اور دورِحاضر میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والا پہلا ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مستحکم اور قوی تر بنائے اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں پاکستان میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی توفیق دے، آمین!