مرد عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ۔ اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔(النساء۴:۳۴)
’’قوام یا قیم ّاس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کر نے کا ذمہ دار ہو‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص ۳۴۹)
’مرد قوام ہے‘ ،بڑی بحث کا عنوان ہے ۔جدید ترقی یافتہ ،تعلیم یافتہ اور حقوق نسواں اور مساوات مرد و زن کی علَم بردار خواتین کو تو یہ بالکل ہضم نہیں ہوتا ۔ہاں، ادارے کا سربراہ ہونا ،گوارا ہے، مرد حاکم ہے تو بالکل گوارا نہیں ۔اس قسم کی عورتوں کے گروپ یا میٹنگ میں اس طرح کا بیان دینا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ پورا نظام معاشرت سمجھا کر، گھر میں تقسیمِ کار کی بات کریں اور پھر اس نکتے پر آ ئیں تو سننے پر کچھ آمادگی ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد کی فضیلت کی جو وجوہ بیان کی ہیں، ان میں سے ایک وجہ مال خرچ کرنا ہے۔ اس پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جو مرد کماتے نہیں ہیں،یا بیویاں کماتی ہیں اور کمائی شوہر سے کئی گنا زیادہ ہے ،تو اب مرد قوام تو نہیں رہے گا اور مال خرچ کرنے کی وجہ ساقط ہوگئی۔ ویسے تو مہر اور نان و نفقہ بھلے عورت مال دار ہو ، مرد کی ہی ذمہ داری ہے ۔ خیال رہے کہ مرد کی فضیلت کی دوسری وجہ ہے: ’’اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘‘۔لہٰذا اگر ایک وجہ نہ بھی رہے تو دوسری تو موجود ہے۔
’’یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اُردوخواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا،بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبرگیری کے تحت رہنا چاہیے۔
حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمھارا جی خوش ہو جائے، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمھاری اطاعت کرے، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمھارے پیچھے تمھارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے‘‘ ۔
یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر بیان کرتی ہے ،مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم ایک اور اقدام اپنے خالق کی اطا عت ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے، یا خدا کے عائدکیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے۔ اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہوگی ۔بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہےتو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ اس صورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص ۳۴۹)
’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ‘‘___ اس کا ’’یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کرڈالے جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے ۔ اب رہا ان پر عمل درآمد،تو بہرحال اس میں قصو ر اور سزا کے درمیان تناسب ہوناچاہیے، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو ،وہاں سخت تد بیر سے کام نہ لینا چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے ،بادلِ نخواستہ دی ہے ،اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ تاہم، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جوپٹے بغیردرست ہی نہیں ہوتیں ۔ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے، بےرحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیزسے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے‘‘۔(ایضاً، ص۳۵۰)
غیب میں حفاظت کو سمجھنا بھی اہم ہے ۔ایک تو شوہر کے مال کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر دودھ اُبلتا رہے ،لائٹس جلتی رہیں، پانی بہتا رہے وغیرہ، یہ اشیا کا ضیاع ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح ہر فنکشن کے لیے نیا بڑھیا جوڑا اور جیولری، اپنی استطاعت سے زیادہ کی خریدی جائے ۓ اور ضروری مدات کا بجٹ کم کر دیا جائے، تو یہ بھی مال کی حفاظت کےمنافی اقدام ہیں۔
دوسری اور بڑی اہم حفاظت ہے بیوی کی عصمت جو شوہر کی عزت ہے ۔وہ اس کی غیرموجودگی میں اپنی حفاظت کر کے گویا اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔غیر مردوں، نامحرم رشتہ داروں سے بے تکلفی، ان کو بیڈ روم میں بٹھانا ،گھر میں مرد نہ ہو تو اندر بلانا ،مہمان بنانا ،خاطر تواضع کرنا وغیرہ اسی ذیل کی تفصیلات ہیں۔تیسرے شوہر کے راز، کسی بھی طرح کے ہو سکتے ہیں، نجی، کاروباری، خاندانی امور سے متعلق وہ فاش کرنے سے بھی تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے ۔
پھر جن عورتوں سے سرکشی کا اندیشہ ہو، یعنی اگر کسی عورت کے رویے سے ہی سرکشی، ضد اور ہٹ دھرمی ظاہر ہوتی ہو ۔شوہر کی بات مان کر نہیں دینی، ہر کام میں اپنی منوانی ہے۔ ذرا کمی کوتاہی ہو جائے تو بے جا واویلا کر کے شوہر کی کردار کشی کرنی، بچوں کو بھی نافرمان بنانے کے لیے ان کی ذہن سازی کرنا جیسے مسائل کا سامنا ہو۔ لہٰذا وہ امور جو گھر کو فساد کی طرف لے کر جانے والےہوں، ان سے روکنے کے لیے قوّام ہونے کی وجہ سے اللہ نے مرد کو تادیبی اختیارات دیے ہیں۔ مقصود مرد کی اَنا اور مَیں کی تسکین نہیں، گھر کے نظام کی اصلاح ہے۔وہ تین مراحل اور درجات ہیں۔ ان کی ترتیب یا قصور کا لحاظ رکھے بغیر ،ان کو جواز بنا نا اور فائدہ اٹھانا دین کا منشا اورمطلوب نہیں ہے۔
اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلّقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے ۔ (النساء۴:۳۵)
’’اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں ناموافقت ہو جائے وہاں نزا ع سے انقطا ع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مل کر اسبابِ اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں ،اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کارروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں؟ فقہا میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں،ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے۔ ہاں، اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا ۔یہ حنفی اور شافعی علما کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، مگر علیحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے ۔یہ حسن بصری اور قتادہ اور بعض دوسرے فقہا کا قول ہے۔ ایک اور گرو ہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کر دینے کے پورے اختیارات ہیں۔
حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے ان کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عقیل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمانؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انھوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباسؓ اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہؓ کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کردینا ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں ۔اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علیؓ نے حَکم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہے جدا کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطور خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انھیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہوگا‘‘۔(ایضاً، اوّل، ص۳۵۰-۳۵۱)
ہر جھگڑے میں صلح ہو سکتی ہے۔ دونوں فریق شوہر و بیوی گوابتدا میں تو زیادہ غصے میں ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ،غصہ کم ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنے جھگڑے کی وجوہات اور اثرات پر غور کرتے ہیں۔انصاف سے جائزہ لیں تو ہر فریق کا ہی کچھ نہ کچھ قصور ہوتا ہے۔ اس کے اعتراف میں پہل کر لی جائے تو معاملہ بہت آسان ہو جاتا ہے ۔لیکن اگر ساری سوچ بچار فریق ثانی کو غلط ثابت کرنے کے لیے، گذشتہ واقعات کی کڑیاں بھی ملا لی جائیں تو معاملات اُلجھتے چلے جاتے ہیں۔ اگر والدین ،رشتہ دار، غم خوار اور دوست احباب بھی ایک فریق کے مظلوم اور دوسرے کے ظالم ہونے کی تائید کردیں تو سلگتی آگ بھڑک کر الاؤ بن جاتی ہے جو پھر کسی طور بجھنے کا نام نہیں لیتی۔
معاملات کو ابتدا میں ہی درست کرلینا بہتر ہوتا ہے۔ اسی وقت دو ایسے افراد جو فریقین میں اصلاح چاہتے ہو ں،ایک لڑکی اور ایک لڑکے کے خاندان میں سے’ حَکم ‘مقرر کرنا چاہیے کہ طرفین کی سن کر ان کو سمجھایا جا سکے ۔آج کے دور کا بہت بڑے المیہ یہ ہے کہ اول تو سب کھسر پھسر، ناموس کی حفاظت کی خاطر،صیغۂ راز میں رکھی جاتی ہے۔’حَکم ‘مقرر کر بھی لیا جائے تو اس سے توقع یہی ہوتی ہے کہ یہ ہمارا وکیل ہے، ہمارا مقدمہ لڑے اور جیتے ۔اگر حَکم دونوں کی سن کر ، توقع کے خلاف رائے دے تو اس پر شک کیا جاتا ہے اور علانیہ یہ بھی کہا جانے لگتا ہے کہ ہمارا معاملہ تو سلجھ جاتا مگر ان ’بیچ والو ں‘ نے جو صلح کروانے کے لیے آئے تھے، انھوں نے بگاڑا ہے۔ چنانچہ لوگ حَکم بننے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر یہ اللہ کا حکم ہے، موقوف نہیں ہونا چاہیے۔
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔ (النساء۴:۳۶)
پہلا حق اللہ کی بندگی کا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ اس کا کوئی شریک نہیں۔ متصلًا بعد والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم ہے اور پھر رشتہ داروں کا دائر ہ آگیا ۔معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو بھی حقیر نہ جانو بلکہ ان کے ساتھ بھی،خواہ یتیم ہو یامسکین ،اچھا سلوک کرو ۔ پڑوسی کا بڑ ا مقا م ہے اور اس میں بھی درجات ہیں۔ پڑوسی رشتہ دار اور مسلمان ہے تو بڑا درجہ ، پڑوسی مسلمان ہے،رشتہ دار نہیں ہے تو درمیانہ درجہ، پڑوسی نہ رشتے دار، نہ مسلمان مگر پڑوسی ہے تو بھی اس کے تین درجو ں تک نہ سہی ایک درجے کے حقوق تو ہیں ۔ اس کے علاوہ ساتھی ،جو تھوڑے سے وقت کے لیے ساتھ رہے ،انتظار گاہ میں بیٹھا ہو،گاڑی میں آپ کے ساتھ بیٹھ جائے، خریداری کرتے ہوئے وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ بھی یو ں معاملہ کرو کہ وہ اچھا ہی یاد کرے۔ مسافر کا بھی بڑا احترام ہے، اس کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی ہدایت ہے۔ پھر جو بہت کمزور اور بے بس، معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہے ،ان کے ساتھ بھی برابری نہیں احسان کا معاملہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ سارے رویے ان لوگوں کے ہیں جو متکبر نہیں ہوتے، جو اپنے آپ کو برتر نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تلقین کی ہے۔ ان سب پر عمل کر کے ہمیں معا شر ےکی اسلامی خطوط پر تعمیر کرنی ہے۔
اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ۔ ایسے کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔ (النساء۴:۳۷)
’’اللہ کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کر رہے ۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ، نہ بندگان خدا کی مدد کرے ، نہ نیک کاموں میں حصہ لے ۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے ۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو ۔ یعنی اس کے کھانے پینے ، رہنے سہنے ، لباس اور مسکن ، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۵۲)
خاندان میں خرچ کرتے ہوئے، رشتہ داروں اور عزیز وا قا رب پر خرچ کرتے ہوئے، کنجوسی کرنا بھی تعلقات میں دُوری اور سرد مہری کا باعث بنتا ہے ۔اس لیے اگلی آیات (۳۸-۴۲) میں اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے کی تلقین اور تفصیلات بیان کرتے ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو ۔ اور اسی طرح جَنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، اِلّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو ۔ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفعِ حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لَمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے ۔ (النساء۴:۴۳)
’’جنابت کے اصل معنی دُوری اور بیگانگی کے ہیں ۔اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔اصطلا حِ شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یاخواب میں مادہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ٓادمی طہا رت سے بیگا نہ ہو جاتا ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۵۵)
’’فقہا اور مفسرین میں سےایک گروہ نےاس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چا ہیے اِلاّ یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائےکو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک ،حسن بصر ی اور ابراہیم نخعی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے ۔دوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالت ِسفرمیں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے تو تیمّم کیا جاسکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ ،تو اس گر وہ کی رائے میں جُنبی کے لیے وضو کر کے مسجد میں بیٹھنا جائز ہے ۔یہ رائے حضرت علی ، ابن عباس، سعید بن جبیراور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امرمیں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالت ِسفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمّم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔لیکن پہلا گروہ اس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دوسرا گرو ہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مند ر جہ بالا آیت پر رکھتا ہے‘‘۔(ایضاً، ص۳۵۵)
غسل جنابت بھی جدیدیت کے حامیان اور ماڈرن افراد کے لیے ایک اضافی عمل ہے، جس کی ان کے نزدیک کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔
’’حکم کی تفصیلی صورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اُسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو یہ تیمّم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمّم کی اجازت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
تیمّم کےمعنی قصدکرنے کے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو۔
تیمّم کے طریقے میں فقہاکے درمیان ا ختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیر لیا جائے ،پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے ۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور اکثر فقہا کا یہی مذہب ہے، اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی، عبداللہ بن عمر، حسن بصری، شعبی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے۔کہنیوں تک مسح کر نےکی ضرورت نہیں۔ یہ عطا اور مکحو ل اور اوزاعی اوراحمد ابن حنبل ر حمہم اللہ کا کا مذہب ہے اور عموماً حضراتِ ا ہل حدیث اسی کے قائل ہیں ۔
تیمّم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مارا جائے ۔اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے ۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حِس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تد بیرہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو،بہرحال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا ،اور اس کے ذہن سے قابلِ نماز ہونے کی حالت اور قابلِ نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا‘‘۔(ایضاً، ص ۳۵۶)
نہیں، اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔ (النساء۴:۶۵)
یہ حکم ،کہ باہمی اختلافات میں تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ کرنے والا مان لو اور اس پر خوشی کے ساتھ عمل کرو ، حجت بازی نہ کرو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود نہیں تھا۔ یہ نہ صرف ملکو ں اور قبائل کے اختلافات پر محیط ہے،بلکہ گھر میں شوہر، بیوی،بچوں اور والدین، بزرگوں اور جوانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کے لیے بھی ہے۔
قرآن اور حدیث سے ہمیں واضح ہدایات مل جاتی ہیں۔ ان کی روشنی میں ہم اپنے درمیان سراٹھانے والے اختلافات کو خوش اسلوبی سے سلجھا سکتے ہیں۔دین کو تھوڑا بہت بھی سمجھنے والے ہوں تو دونوں فریقین بالعموم ان حوالوں پر مطمئن ہوجاتے ہیںیا چپ ہو جاتے ہیں۔اور اگر نفس اور شیطان غالب ہو تو پھر تصفیہ مشکل ہوپاتا ہے۔
خیال رہے کہ ’’خدا کی طرف سے رسول اس لیے نہیں آتا ہے کہ بس اس کی رسالت پر ایمان لے آئو اور پھر اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو، بلکہ رسول کے آنے کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے، تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے، تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انھی پر عمل کیا جائے۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسول کو رسول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل، ص۳۶۸)