قرآنِ عظیم کس انداز سے انسانوں کو خاندان کے ادارے میں جوڑتا اور اس ادارے کو انسانیت کے لیے کس انداز سے پروان چڑھاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم یہاںقرآن کریم کے متن کی ترتیب سے یکجا پیش کریں گے۔
قرآن کے آغاز میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی: اے اللہ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ربّ جلیل نے قرآن کے تیس پارے نازل فرما دیئے۔ زندگی کے انفرادی، اجتماعی معاملات کے لیے ہدایات کھول کھول کر بار بار مختلف پیرایۂ بیان میں واضح کر دیں۔ عائلی نظام یا خاندان اور معاشرے کی اکائی کے لیے تفصیلات بھی سمجھا دیں۔
زمین پر پہلا جوڑا اُتارنے سے پہلے اُن کو علم عطا کیا، فرشتوں سے سجدہ کروایا، شیطان کے بارے میں متنبہ فرمایا اور جنّت میں کھانے پینے، رہنے سہنے کا سامان دیا۔ مگر ساتھ ہی چند اُمور سے خاص طور پر منع کرکے، باقی سب سے فائدہ اُٹھانے کا اذنِ عام دے دیا۔ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے مہلت لی اور بہکاکر جنّت سے نکلوا دیا اور یوں حضرت آدمؑ، اماں حواؑ اور شیطان زمین پر آن آباد ہوئے۔ حضرت آدم ؑ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی،مگر شیطان غلطی پر ڈٹا رہا۔ یوں انسان اور شیطان کے طرزِعمل کا فرق ظاہر ہوا:
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔اس کے بعد اللہ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: ’’اگر تمھارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا، آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘.....
پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم ؑ کے آگے جھک جائو، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔
پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی دونوں جنّت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھائو، مگر اِس درخت کا رُخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے‘‘۔آخرکار شیطان نے اِن دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انھیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اُتر جائو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے‘‘۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے ربّ سے چندکلمات سیکھ کر توبہ کی،جس کو اس کے ربّ نے قبول کرلیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرہ ۲:۳۰ تا ۳۷)
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم ؑ ،یعنی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا کہ وہ اِس دُنیا میں جس کا مالک وہ خود ہے، اس کے عطا کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، جو غیب میں ہے۔ انسان کا خلیفہ ہونے کے ناتے کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے مل رہی ہے اس پر بے چون و چرا عمل کرے۔ اگر کسی معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے تو غوروفکر کرے، اور جو بات دین کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو، وہ اختیار کرے۔ جن کاموں سے اللہ نے منع فرما دیا ہے اِن سے رُک جائے۔ یہی خلافت ہے۔
خاندان کے ادارے کے استحکام کے لیے بھی اپنی اِس ذمہ داری کو، انسان ہونے کے ناتے، ہم سب کو پورا کرنا ہے۔ سو اِس سے کماحقہٗ آگاہی حاصل کرنا، ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو چیزوں کے نام یعنی اِن کی حقیقت کا علم دے دیا۔ایک الہامی علم جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے بھیجتا ہے اور دوسرا اکتسابی علم جوا نسان خود حاصل کرتا ہے اور انسانی زندگی کے مختلف دائروں کہ جن میں ایک عائلی نظام یا خاندان اور معاشرہ ہے، ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار کی آزادی سے نوازا کہ کائنات کے اَن گنت وسائل اور جسمانی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے،اللہ کی فرماں برداری کرے یا نافرمانی کرے اور پھر اس پر جزا یا سزا کا مستحق ٹھیرے، یہی اس کا امتحان ہے۔ اس امتحان کا لازمی اور اہم پرچہ خاندان میں ہمارا کردار ہے۔
یاد کرو ، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃدینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے، اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔(البقرہ ۲: ۸۳)
پہلا جوڑا رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوکر ماں اور باپ بن گیا۔ اس بنیادی اکائی میں بچوں کا اضافہ ہوا، پھر یہ سلسلہ آگے چلا اور نسب اور مہر کے حوالے سے نئی رشتہ داریاں وجود میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے فوراً بعد، والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ نیک سلوک کیوں کریں، کون سا سلوک نیک سلوک ہے، اور کون سا سلوک درست نہیں ہے؟ اس کی تفصیل بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتادی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ نے مزید تفصیلات اور عملی رہنمائی دی۔ اس کے ساتھ ہی رشتہ داریوں کے دائرے بنے، خاندان میں وسعت ہوئی، اللہ نے سب کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی۔
اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ (البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶)
اللہ تعالیٰ نے یہ دُنیا آزمائش گاہ بنائی ہے۔انسان اپنے بال بچوں کے ساتھ، والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ، دُنیا کے مال و اسباب کے ساتھ، خوشی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آزمائش کا موقع و حالات پیدا کرتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے خوف، وبا، بیماری، بدامنی،موت، بے روزگاری، مہنگائی، کم آمدنی اور حادثاتی پریشانیوں، نقصانات سے پرکھتا ہے کہ میرے بندے کا کیا رویہ ہے؟ خود اپنی آزمائش اور خاندان کے دیگر افراد کی آزمائش پر کیا طرزِعمل ہوتا ہے؟ جو اس آزمائش کو اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت سمجھے اور اس آزمایش کے ذریعے اللہ سے معافی چاہے، یا اللہ کی طرف سے اجر میں بڑھوتری کے لیے موقع جانے اور رویہ یہ رکھے کہ ہم اللہ کے ہیں، اس کی رضا پر راضی ہیں اور اس کی طرف ہمیں واپس جانا ہے۔ وہ انصاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ اللہ اس سے بہتر معاملہ کرے گا، اجر سے نوازے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جو سکینتِ قلب کے ساتھ، کامل رضامندی کے ساتھ، ربّ کی بتائی ہوئی حدود میں زندگی گزارتے اور اجر کے مستحق قرار پاتے ہیں، جب کہ ناشکری اور جزع و فزع اللہ کی ناراضی کا سبب بنے گی۔
تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں بہت پسندہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنّت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔(البقرہ ۲: ۲۲۱)
عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان، اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آیندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہوگا، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہوجائے گی اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے اَزواج سے اسلام اور کفرو شرک کی ایک ایسی معجون مرکب اُس گھر اور اُس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیرمسلم خواہ کتنا ہی پسند کریں، مگر اسلام پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ۲۳۷)
آج ملک میں، اور بیرونِ ملک، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اوربہترین معاشی و سائل کے لیے سرگرداں، ہماری نوجوان نسل کو براہِ راست قرآن پاک سے استفادے کا موقع ملتا ہے، الاماشاء اللہ۔ تاہم، مل جل کر رہنا، دین کو ذاتی معاملہ بنا کر، اس کی بنیادی تعلیمات کو بھی غور کے قابل نہیں سمجھنا، اس دور کا المیہ ہے۔ جہالت اور احساسِ کمتری کے ساتھ، مغرب کے اُٹھائے گئے سوالات، بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے کی جانے والی بحثیں اور ان موضوعات کو ’مولوی کی سختی و تنگ نظری‘ کہہ کر آگے بڑھ جانا، موجودہ جدیدیت کا تقاضا بن گیا ہے۔ ہمارے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس جدیدیت پر عمل پیرا ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی توجہ ، اصل ماخذ، قرآن حکیم کی طرف مبذول کروائی جائے اور دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا جائے۔
پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے، اس میں عورتوں سے الگ رہو، اور ان کے قریب نہ جائوجب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ پاک ہوجائیں، تو اُن کے پاس جائواُس طرح جیساکہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔(البقرہ ۲:۲۲۲)
حیض گندگی بھی ہے اور بیماری بھی۔ طبّی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔(ایضاً، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۸)
مختلف ہارمونز جو کہ ایک عورت کے جسم میں گردش کرتے ہیں، ان کے اُتارچڑھائو سے یہ تبدیلی آتی ہے اور ظاہر ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی بھی ہوتی ہے، بالعموم عورت چڑچڑی اور مایوسی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ تھکاوٹ اور اکثر اوقات درد کی شدت کا شکار بھی ہوتی ہے۔
قرآن، ان کے قریب نہ جائو، الگ رہو، استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی کہ صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے مگر باقی تمام تعلقات برقرار رکھے جائیں۔ عورت کواچھوت نہ بنا دیا جائے جیساکہ یہود و ہنود اور بعض دوسری قوموں کا دستور ہے۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۹)
قرآن کے اِن واضح اور صاف صاف بیان کیے گئے احکامِ دین میں تنگی نہیں ہے:
تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ تمھیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جائو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمھیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ! جو تمھاری ہدایات کو مان لیں انھیں (فلاح و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔(البقرہ ۲:۲۲۳)
فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مردوں کے لیے سیرگاہ نہیں بنایا ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے۔ کھیت میں کسان تفریح کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے… خدا کی شریعت کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جائو کھیت ہی میں،اور اس غرض کے لیے جائو کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔
’اپنے مستقبل کی فکر کرو‘کے دو مطلب نکلتے ہیں: ’’ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو، اور دوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو، اس کو دین، اخلاق اور آدمیت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ پھر یہ تنبیہہ بھی فرما دی کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی، تو اللہ تم سے بازپُرس کرے گا‘‘(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۱-۲۴۲)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے فطری تعلق کو ، دُنیاداری نہیں دین داری بنایا، اس کے لیے مقصد اور حدود مقرر کردیں اور اِن سے لاپروائی برتنے کو اللہ کی ناراضی کا سبب بنادیا۔ اس رشتے اور تعلق کو نبھانے کی بنیاد تقویٰ پر رکھ دی۔
جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ اگر انھوں نے رجوع کرلیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اور اگر انھوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو، تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(البقرہ ۲: ۲۲۶-۲۲۷)
میاں بیوی کے درمیان قطع تعلقی کو شریعت کی اصطلاح میں ’ایلا ‘کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ایسے فطری اُتارچڑھائو کے نتیجے میں بڑے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر تو رشتۂ ازدواج میں بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارماہ کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو، ورنہ اَزدواج کا رشتہ منقطع کردو۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۵)
یہ حقیقت ہے کہ بیش تر میاں بیوی میں اَن بن ہوجاتی ہے، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں مگر چند ہی روز میں صلح صفائی ہوجاتی ہے اور زندگی خوش گوار اسلوب میں گزرتی رہتی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے بعد جھگڑا بڑھ جاتا ہے اور شوہر کچھ اس مفہوم کے کلمات کہہ دیتا ہے، یا بیوی ہی ایسی ناراض ہوجاتی ہے کہ وہ میکے آکر بیٹھ جاتی ہے۔ میکے آنا اور رہنا والدین کے علم اور رضا کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگرعموماً واپس جانے ، صلح کرنے یا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کسی مدت کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ مہینے تو کیا سال بھی گزر جاتے ہیں۔ تعلقات اس مدت میں سدھرتے کم اور بگڑتے زیادہ ہیں۔ عموماً ایک دوسرے کو بدنام، بلیک میل کرنے، تنگ کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسلام کا اصول ہے کہ جلدبازی میں فیصلے نہ کرو۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ تعلق نبھانا ہے تو بھی اور ختم کرنا ہے تو بھی، دونوں صورتوں کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد، اس چارماہ کی مدت میں حتمی فیصلہ نہ کرنا سب خرابیوں، افراد اور خاندانوں کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میںچار ماہ میں فیصلہ کرکے ، معاملہ نبٹا دینا ہی شریعت کے منشا کے قریب تر ہے۔(جاری)
LGBTQ: یہ مخصوص اصطلاحات کے پہلے حروف کا مجموعہ ہے ، مثلًا L برائے Lesbian یعنی وہ عورت جو عورت ہی کو شریک حیات منتخب کرتی ہے ۔ Gیعنی Gay وہ مرد جو ایک مرد سے تعلقات رکھے۔ B سے مراد Bisexual جو مرد اور عورت دونوں کے ساتھ رغبت رکھے ۔ T یعنی Transgender جو پیدایش کے ساتھ ملنے والی جنسی شناخت کے بجائے جنس مخالف کی شناخت اختیار کرے ، جنس تبدیل کرلے ، اس کے لیے دواؤں اور آپریشن کا طریقہ اپنائے۔ Qسے مراد Queer ہے، جو ابھی فیصلہ نہیں کرسکا کہ اس نے تبدیلی کے لیے کون سی جنس کا انتخاب کرنا ہے ۔
اس کے مقابل ایک دوسری اصطلاح Intersex ہے، جو Hermaphroditeبھی کہلاتی ہے۔ یہ دونوں میڈیکل اصطلاحات ہیں ، جو ان افراد کے لیے مخصوص ہیں، جو پیدایشی نقص کے حامل ہوتے ہیں۔ان کو بوقت پیدایش لڑکا یا لڑکی کے طور پر شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو ہیجڑہ یا ’مخنث‘ کہتے ہیں۔ان اصطلاحات Transgender اور Intersex کو جو یکسر مختلف ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں مختلف پہلوؤں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تیسرے دور میں ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ و امریکا میں بہت سے گروپس وجود میں آگئے۔امریکا کی پہلی عوامی تنظیم ۱۹۵۷ء میں مخصوص نام سے منظم ہوئی۔قانوناً ہم جنسیت کو ۱۹۵۷ء میں جائز قرار دے دیا گیا۔ اس مرحلے (۱۹۶۸ء) میں عورت کی آزادی کی تحریک اور ہم جنسیت زدگی کی تحریک ایک ہی دھارے میں شامل ہو گئیں۔ ہم جنس زدہ عورتوں نے، آزادیٔ نسواں کی علَم بردار خواتین پر زور دیا کہ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔(un.org.lgbt.plus)
۱۹۷۲ء میں سویڈن پہلا ملک تھا، جس نے سرجری کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کرنے کی اجازت دی اور اس کے لیے ہارمون یا دواؤں کے استعمال کو بھی جائز قرار دیا۔اسی دوران ۱۹۷۴ءمیں امریکی ماہرین نفسیات ایسوسی ایشن نے ہم جنسیت اور تبدیلیٔ جنس کو ذہنی بیماریوں کی فہرست سے نکال دیا۔اس سے جڑے برسوں میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کی انجمنوں، سوسائٹیز نے اپنے حقوق کے حصول کی تحریک کا آغاز کیا۔ برطانیہ میں ۱۹۷۴ء میں پہلی ہم جنس زدہ خاتون، پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئی۔ برطانیہ میں ان کا ایک خبرنامہ بھی شائع ہونا شروع ہوگیا۔
ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کی تحریک دُنیابھر میں شروع ہوگئی۔ اسی دور میں ۱۹۸۰ء میں ایڈز سے متعلق سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مرض ہم جنس زدگان میں سب سے زیادہ ہے ۔ جس سے اس تحریک کو کچھ دھچکا لگا۔
گلوبل انسائیکلوپیڈیا برائے ہم جنسیت، تبدیلیٔ جنس LGBT مرتب کیا گیا ۔جس میں الفاظ کو تبدیل کر کے لکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر معروف اصطلاح ’بریسٹ فیڈنگ‘ کو ’چیسٹ فیڈنگ‘ لکھا گیا ہے۔عوامی مقامات پر واش روم یا باتھ روم پر ان کے لیے مخصوص علامات آویزاں کی گئی ہیں ۔ بچوں کی کارٹون سیریز میں سالانہ کئی نئی سیریز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک معروف کارٹون سیریز ڈزنی میں ان کرداروں کو پیش کیا گیا ہے۔ بیڈن انتظامیہ نے اوباما کی پالیسیوں کے تسلسل میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدایش کے لیے سہولیات کی اجازت دے دی ہے(نیشنل ریویو، ۲۳جون ۲۰۲۱ء)۔ ایسےمرد، بچے کی پیدایش کے بعد ماں اور عورت ،باپ ہونے کا اعلان کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں (Kellyman.com)۔ سالانہ تقریبات میں Month Pride (خود اعتمادی کا مہینہ) کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جو اسکول انتظامیہ اور حکومتوں کی سرپرستی میں وسع پیمانے پر انجام پاتی ہیں ۔ اگرچہ ان سب اقدامات سے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ پریشان ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔ مثلاً ایک امریکی سروے میں بہت سے امریکی ووٹر اپنے بچوں کی سرجری کے ذریعے کی جانے تبدیلیٔ جنس کے تو خلاف ہیں، مگر خوف کی بنا پر کھلم کھلا مخالفت نہیں کر تے۔(The Cristian Post، ۱۸مئی ۲۰۲۲ء)
۲۰۱۲ء کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں ۲۵ لاکھ ہم جنس زدگان موجود تھے۔ بہت سی عوامی تحریکیں ان کی حمایتی تھیں۔انڈیا کی سپریم کورٹ نے ’انڈین پینل کوڈ‘ کی دفعہ ۳۷۷ کو غیرقانونی قرار دے دیا، جو ہم جنس زدہ افراد کو شادی کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ ۲۰۱۴ء میں انڈین سپریم کورٹ نے ان افراد کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اسی سال ایک پرائیویٹ ممبر نے ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن بل‘ جنس تبدیل کرنے والے افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کیا ، جوقانونی کمیٹی کی کچھ ترامیم کے بعد دسمبر ۲۰۱۹ء میں پاس ہوکر قانون کا حصہ بن گیا۔
مئی ۲۰۱۸ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے ہاتھوں ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن ایکٹ‘ پاس ہوا۔ جس میں ٹرانس جینڈر کی تعریف میں انٹر سیکس یا ہجیڑے یا مخنث کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ لیکن نیشنل کورٹ آف جیورسٹ نے اس قانون میں ٹرانس جینڈر کی تعریف، جس کے سیکشن ۲ میں انٹرسیکس کو شامل کیا گیا ہے ، کی طرف اشارہ کیا کہ ہیجڑہ ،ٹرانس جینڈر نہیں ہے۔ مئی ۲۰۲۲ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں ٹرانس جینڈر بل پیش کیا گیا، اور ۵جولائی ۲۰۲۲ء کو سندھ اسمبلی نے ٹرانس جینڈرز کے لیے جاب کوٹہ مقرر کیا ہے۔ یہ اس تحریک کے مختلف مراحل کا ایک مختصر خاکہ ہے۔
یہاں پر مختصر طور پر اس موضوع پر بات کی جارہی ہے کہ عصرحاضر میں خواتین کی نمایندگی اور خواتین کی خود اختیاریت کے نام پر کی جانے والی کوششوں کو جماعت اسلامی کس طرح دیکھتی ہے؟
جماعت اسلامی پاکستان کے دستور کی دفعہ ۴ کے مطابق : ’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی سعی و جدوجہد کا مقصود عملاً اقامت دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘۔
یہ نصب العین قرآن مجید کی اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے :
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۳۳ (التوبہ۹: ۳۳)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
’الہُدیٰ‘ سے مراد دین، دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے جس میں انفرادی برتاؤ، خاندانی نظام ،سوسائٹی کی ترکیب، معاشی معاملات، ممکنہ انتظام، سیاسی حکمت عملی ،بین الاقوامی تعلقات، غرض یہ کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کے لیے صحیح رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ دین حق یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں اور خود اپنے نفس کی بندگی واطاعت چھوڑ کر صرف اللہ کے اقتدار کو تسلیم کرے اور اس کی بندگی و اطاعت کرے ‘‘۔
جماعت کے دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق ایک رکن کو جماعت میں شامل ہونے کے بعد جوتغیرات بتدریج اپنی زندگی میں کرنے ہوں گے، وہ یہ ہیں :
- دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کرلینا کہ اسلام اور جاہلیت (غیر اسلام) کا فرق معلوم ہو اور حدود اللہ سے واقفیت ہو جائے۔
- تمام معاملات میں اپنے نقطۂ نظر،خیال اور عمل کو کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ، اپنی زندگی کے مقصد، اپنی پسند اور قدر کے معیار اور اپنی وفاداریوں کے محور کو تبدیل کرکے رضاے الٰہی کے موافق بنانا۔
- اُن تمام رسومِ جاہلیت سے اپنی زندگی کو پاک کرنا، جو کتاب اللہ اور سنت ِرسولؐ کے خلاف ہوں اور اپنے ظاہر و باطن کو احکامِ شریعت کے مطابق بنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا۔
- ان تعصبات اور دل چسپیوں سے اپنے قلب کو، اور اُن مشاغل اور جھگڑوں اور بحثوں سے اپنی زندگی کو پاک کرناجن کی بنا نفسانیت یا دنیا پرستی پر ہو اور جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔
- اپنے معاملات کو راستی، عدل ،خدا ترسی اور بے لاگ حق پرستی پر قائم کرنا۔
- اپنی دوڑ دھوپ ،سعی و جہد کو اقامت دین کے نصب العین پر مرتکز کر دینا۔
- اسی طرح دستور کی دفعہ ۹ کے مطابق: ہر رکن جماعت کے لیے لازم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کے سامنے بالعموم نصب العین کو پیش کرے۔ جو لوگ اس نصب العین کو قبول کرلیں، انھیں اقامتِ دین کے لیے منظم جدوجہد کرنے پر آمادہ کرے اور جو لوگ جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہوں ،انھیں جماعت اسلامی کے نظام میں شامل ہونے کی دعوت دے۔
- دستورِ جماعت کی دفعہ ۱۰ میں خواتین کے حوالے سے درج ہے:
- جو عورتیں جماعت اسلامی میں داخل ہوں، ان پر اپنے دائرئہ عمل میں دفعہ ۸ اور ۹ کے تمام اجزا کا اطلاق ہوگا، نیز رکن ِ جماعت کی حیثیت سے فرائض حسب ذیل ہوں گے:
- اپنے خاندان اور اپنے حلقۂ تعارف میں اس نصب العین کی دعوت پہنچائیں۔
- اپنے شوہر، والدین، بھائی ،بہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو بھی تبلیغ کرے۔
- اپنے بچوں کے دلوں میں نورِ ایمان پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔
- اگر اس کا شوہر یا بیٹے یا باپ یا بھائی جماعت میں داخل ہوں تو اپنی صابرانہ رفاقت سے ان کی ہمت افزائی کرے اور نصب العین کی خدمت میں حتیٰ الامکان ان کا ہاتھ بٹائے۔
- اگر اس کا شوہر یا اس کے سر پرست جاہلیت میں مبتلاہوں، حرام کماتے ہوں یا معاصی کا ارتکاب کرتے ہوں، تو صبر کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے ساعی رہے۔ ان کی حرام کمائی اور ان کی ضلالتوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔
دفعہ ۲۱ (ا)مجلسِ شوریٰ کی ترکیب: مجلس شوریٰ کے منتخب ارکان کی تعداد ۸۰ ہو گی، جن میں سے ۷۰ مردوں کی اور ۱۰ خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ مردوں کی نشستوں پر مرد ارکان اور خواتین کی نشستوں پر خواتین ارکان کا براہِ راست ووٹ سے انتخاب ہوگا۔
جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق یہ تمام دفعات اس امر کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ایک خاتون نظامِ زندگی، انفرادی و اجتماعی معاملات میں ایک کردار ادا کرے۔ وہ کردار کہ جس میں فکر بھی ہو اور ممکن حد تک اپنے دائرے میں رہ کر قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی اور عمل بھی۔
عصرِحاضر میں قومی زندگی میں منتخب دستور ساز اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں میں عورتوں کی نمایندگی اور ان کا کردر جبری طور پر لازم کردیا گیا ہے۔ یہ جبری صورتِ حال اپنے تقاضے اور سوالات رکھتی ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے اس چیلنج کا جواب دینا اور اس میں کردار ادا کرنا اہلِ دین پر بھی لازم ہے۔ اس مناسبت سے جب مولانا مودودی سے سوال کیا گیا تو مولانا مودودی نے جواب دیا: [ترجمان القرآن، فروری ۱۹۵۲ء]: ان [منتخب] مجالس کا نام قانون ساز مجالس رکھنے سے یہ غلط فہمی واقع ہوتی ہے کہ ان کا کام صرف قانون بنانا ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جومجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں، ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے،بلکہ وہ عملاً پوری ملکی سیاست کنٹرول کرتی ہیں۔وہی وزارتیں بناتی ہیں، وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں، وہی مالیات کے مسائل طے کرتی ہیں، اور انھی کے ہاتھ میں صلح و جنگ کی زمامِ کار ہوتی ہے ۔ اس حیثیت سے ان مجالس کا مقام محض فقیہ یا مفتی کا مقام نہیں بلکہ پوری مملکت کے ’قوام‘ کا مقام ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ: یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے ، نہ کہ ملکی سیاست کے لیے۔ مگر یہاں اول تو مطلقاً اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ کہا گیا ہے۔ فِی الْبُیُوْتِ کے الفاظ ارشاد نہیں ہوئے ہیں،جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
اگر آپ کی یہ بات مان بھی لی جائے تو ہم پوچھتے ہیں کہ جس اللہ نے عورت کوگھر میں قوام نہ بنایا بلکہ قنوت (اطاعت شعاری )کے مقام پر رکھا، کیا اسے تمام گھروں کے مجموعے، یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں ؟
سیاست اور ملکی معاملات چلانے میں عورت کی عمل داری کو جائز ٹھیرانے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں، تو وہ بس یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگ جمل [۱۰ جمادی الثانی ۳۶ھ/ ۴دسمبر ۶۵۶ء] میں نبردآزما ہوئیں۔
حضرت عائشہؓ کے جنگ جمل میں حصہ لینے کے استدلال کوجو لوگ پیش کرتے ہیں انھیں شاید معلوم نہیں کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا؟ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزھدمیں ، ابن المنذر نے ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے آیت قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں، یہاں تک ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا کیونکہ اس پر انھیں وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو ان سے جنگ جمل کے دوران ہوئی تھی۔
یہ دلیل اصولاً غلط ہے۔ اس لیے کہ جس مسئلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات موجود ہو ں، اس میں کسی بھی صحابیؓ کا کوئی ایسا انفرادی فعل جو اس ہدایت کے خلاف نظرآتاہو ہرگز حجت نہیں بن سکتا۔ صحابہؓ کی پاکیزہ زندگی بلاشبہہ ہمارے لیے مشعل ہدایت ہے، مگر اس غرض کے لیے کہ ہم ان کی روشنی میں اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں ، نہ اس غرض کے لیے کہ ہم اللہ اور رسولؐ کی ہدایت کو چھوڑ کر ان میں سے کسی اور کی اتباع کریں جس فعل کو اسی زمانے کے اکابر صحابہؓ نے غلط قرار دے دیا تھا، اور جس پر بعد میں خود ام المومنین بھی نادم ہوئیں۔
شیخ القرآن مولانا گوہر رحمٰن ، جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی کے رکن اور قومی اسمبلی کے منتخب رکن بھی تھے۔ انھوں نے ان تمام اصولی اور واضح اُمور کو سامنے رکھتے ہوئے اور پیدا شدہ صورتِ حال کے پیش نظر بیان کیا ہے:
مغربی جمہوریت کی بنیاد چونکہ ’حاکمیت عوام‘ پر رکھی گئی ہے، اس لیے اس میں مردوں کی طرح عورتیں بھی سربراہ مملکت بن سکتی ہیں اور وزیراعظم بھی بن سکتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی نظام میں خواتین عملی سیاسیات، یعنی حکومت کا نظم ونسق چلانے سے سبک دوش کردی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی یا مجلس شوریٰ ایک مشاورتی اور انتخابی ادارہ جو کہ سربراہ کا انتخاب کرتا ہے، اسے مشورہ دیتا ہے اور قانون سازی بھی کرتا ہے،اس ضمن میں یہ سوال کہ مذکورہ ادارے کی رکن کوئی خاتون بن سکتی ہے یا نہیں؟ مناسب یہ ہے کہ اس کے بارے میں فقہا عابدین کوئی اجتماعی فیصلہ کریں۔ لیکن اصولِ شریعت کی روشنی میں یہ امرواضح ہے کہ عورت مشورہ دینے کے حق سے شرعاً محروم نہیں کی گئی۔ اگرچہ قرآن و سنت میں مرد کو عورت پر ’قوام‘ بنایا گیا ہے ، لیکن مجھے اس کی دلیل نہیں مل سکی کہ عورت مشورہ نہیں دے سکتی [بلکہ] بعض خواتین، بعض مردوں سے دانائی اور ذہانت و فقاہت میں فائق بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن عام طور پر مشاہدے کی بات ہے کہ مر د کی ذہانت عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک: ’’عورت حدود و قصاص، یعنی فوجداری مقدمات کے علاوہ دوسرے تمام مقدمات میں قاضی یا جج بن سکتی ہے‘‘۔ امام ابن جریر کے نزدیک: ’’بشمول حدودوقصاص کے تمام مقدمات میں عورت قاضی بن سکتی ہے‘‘ اور چاروں ائمہ کے نزدیک عورت فتویٰ دے سکتی ہے۔ امام ابن حزم نے ۲۰ ایسی خواتین کے نام نقل کیے ہیں، جو دورِ صحابہؓ میں فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ جب قاضی اور مفتی بن سکتی ہیں، تو مجلس شوریٰ کی رکن کیوں نہیں بن سکتیں؟ اس ادارے کا کام بھی تو مشورہ اور فتویٰ دینا ہے، پالیسی بنانا اور قانون سازی کرنا فتویٰ ہی کی قسم ہے۔ جب عدالت میں فریقین اور گواہوں کے بیانات سن کر فیصلہ دے سکتی ہے اور بطور گواہ عدالت میں پیش بھی ہوسکتی ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ شرعی پردے کی پابندی کرتے ہوئے مجلس کے اجلاس میں شرکت نہ کرسکے اور مشورہ نہ دے سکے۔
اس سلسلے میں ایک روایت سننے میں آتی ہے کہ شاوروھُن و خالفوھُن ’’یعنی عورتوں سے مشورہ تو لے لیا کرو، لیکن ان کی مخالفت کرو اور ان کے مشوروں پر عمل نہ کیا کرو‘‘۔ اس روایت کے متعلق علّامہ علی قاری حنفی [م:۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵ء]، علامہ سخاوی [م:۹۰۲ھ/۱۴۹۷ء]کی کتاب المقاصد الحسن البیان کثیر من الاحادیث المشتہرہ علی الاالسنۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث ان الفاظ میں ثابت نہیں۔سخاوی فرماتے ہیں ان کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہونا مجھے معلوم نہیں۔ سیوطی کے مطابق یہ جھوٹی روایت ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے‘‘ ۔
انس بن مالکؓ سے اس مضمون کی ایک اور حدیث مرفوع نقل ہوئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں :’’تم میں سے کوئی شخص مشورے کے بغیر کام نہ کرے۔ اگر مشورہ دینے والا کوئی نہ ملے تو عورت سے مشورہ کر، لیکن اس پر عمل نہ کرے ۔اس لیے کہ عورت کے مشورے کی مخالفت میں برکت ہوتی ہے‘‘۔شمس الدین سخاوی ؒنے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:’’اس کی سند بھی ضعیف ہے، اور درمیان میں سلسلہ بھی ٹوٹا ہوا ہے‘‘۔
محمد بن عراق نے تنزیۃ الشریعۃ میں لکھا ہے:’’اس حدیث کو ابن لال نے حضرت انس سے نقل کیا ہے ، لیکن اس کی سند میں عیسیٰ بن ابراہیم کا نام آیا ہے، جس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہے‘‘۔ ابنِ لال سے مراد ابوبکراحمدبن علی بن علی بن لال الہمدانی [م:۳۹۸ ھ/۱۰۰۸ء] ہے، جس نے مکارم الاخلاق کے نام سے کتاب لکھی تھی۔
حدیث کے لیے راوی کا ثقہ اور عادل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے حافظے کا صحیح اور درست ہونا بھی ایک شرط اور سلسلہ سند کا متصل ہونا بھی لازمی شرط ہے۔ جب اس حدیث کا ایک راوی بدنام بھی ہے اور سند بھی ٹوٹی ہوئی ہے یعنی منقطع ہے، تو یہ قابل قبول حدیث نہیں ہوسکتی اور شاوروھن وخالفوھن کے بارے میں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کو کس نے نقل کیا ہے۔ علی قاری نے اس کو مرقات میں بغیر سند کے و قدورد یعنی اپنی دوسری کتاب موضوعات کبیر میں ’’اس روایت کو بے اصل اور باطل قرار دیا ہے‘‘۔
خود مولانا مودودیؒ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں لکھتے ہیں: تعلیم یافتہ خواتین پر اس وقت ایک اور فرض عائد ہوتا ہے، جو ایک لحاظ سے اپنی اہمیت میں دوسرے تمام کاموں سے بڑھ کر ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت مغرب زدہ طبقے کی خواتین پاکستان کی خواتین کو جس طرح گمراہی ، بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آورگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور جس پر حکومت کے ذرائع و وسائل سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں ، ان کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے۔ یہ کام محض مردوں کے کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ مرد جب اس گمراہی کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ مرد تم کو غلام رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی تو ہمیشہ سے یہی مرضی رہی ہے کہ عورتیں چاردیواریوں میں گھٹ کر ہی مرتی رہیں اور انھیں آزادی کی ہوا تک نہ لگنے پائے۔
اس لیے ہمیں اس فتنے کا سد باب کرنے میں بھی عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی شریف اور خدا پرست خواتین کی کمی نہیں ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان بیگمات کے علم اور ذہانت اور زبان اور قلم کی طاقت میں کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ اب یہ کام ان کا ہے کہ آگے بڑھ کر ان کو منہ توڑ جواب دیں۔ وہ انھیں بتائیں کہ مسلمان عورت حدوداللہ سے باہر قدم نکالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے ۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہیں کہ مسلمان عورت اس ترقی پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی حدود توڑنی پڑیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ منظم ہوکر اس حقیقی ضرورت کو جس کی خاطر حدود شکنی کو ناگزیر کیا جاتا ہے ،اسلامی حدود کے اندر پورا کرکے دکھائیں، تاکہ یہ گمراہ کرنے والے اور کرنے والیوں کا ہمیشہ کے لیے منہ بند ہو جائے۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک صاحب نے اس ضمن میں موقف اختیار کیا ہے: ’’اجتماعی زندگی کے معاملات میں عورت کے حصہ لینے کی ہر حال میں ممانعت ،ایک محدود زاویۂ نگاہ ہے۔ اس کا تعلق ایسے حالات سے ہے، جب خواتین کو میدان میں لانے کی ضرورت اور حاجت نہ ہو، اور کوئی بلاخیز سیلابی ریلانہ آیا ہو۔ لیکن اگر سیلابی ریلا آگیا ہو تو ایسی صورت میں فقہا نے لکھا ہے کہ دفاع فرض عین ہوتا ہے ۔بیٹے کو ماں باپ اور بیوی کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دشمن کو دھکیلنے کے لیے باہر نکلنا ہوتاہے۔ فتاویٰ عالمگیری ، شامی اور تمام کتب فتاویٰ اس پر شاہد ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کا اصل کام گھروں کو اسلامی شریعت کے رنگ میں رنگنے اور گھروں کو آباد کرنا ہے ۔عالمی سطح پر معاشرتی و سیاسی صورتِ حال یہ ہے کہ خواتین زندگی کے مختلف میدانوں میں داخل ہوگئی ہیں۔ خصوصاً سیاست میں بھی اہم مقام حاصل کر رہی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں ضروری ہو گیا کہ سیکولرزم، لادینیت، لبرل ازم اور اباحیت کو لگام دی جائے اور مغرب زدہ خواتین کے مقابلے میں دین کی علَم بردار اور باپردہ خواتین کو آگے لایا جائے۔ الحمدللہ، ہم اس میں کامیاب ہیں۔ شرعی حدود کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ان خواتین میں دعوت کا کام کررہی ہیں۔
خواتین کی سیاسی نمایندگی ۱۹۵۶ء کے آئین کے مطابق آیندہ ۱۰ برس کے لیے ۱۵نشستوں کو مخصوص کر کے کی گئی۔ ۱۹۶۲ء کے آئین کی رو سے قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں ۸، اور ہر صوبائی اسمبلی میں ۵ رکھی گئیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں خواتین کی ۱۰نشستیں قومی اسمبلی میں اور ۵ فی صد نشستیں ہر صوبائی اسمبلی میں مختص کردی گئیں۔ اور یہ مدت ۲۰سال کے لیے تھی۔ ۱۹۹۳ء میں یہ مدت پوری ہونے پر خواتین کا مخصوص کوٹہ ختم ہوگیا۔ ۲۰۰۲ء میں ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے خواتین کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی میں اور سینیٹ میں۳۳ فی صد نشستیں مخصوص کردی گئیں، جب کہ لوکل گورنمنٹ میں یہ نشستیں ۵۰فی صد کردی گئیں۔
اسی طرح پاکستان میں خواتین کی نمایندگی کی تعداد ۱۹۴۹ءمیں قومی اسمبلی میں ۳، صوبائی اسمبلی میں ۱۹۵۲ءتا ۱۹۵۸ ء ۲، ۱۹۶۲ءتا ۱۹۶۵ ء۲ ،اور ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ء یہ تعداد ۵تھی۔ اپریل ۱۹۷۷ءمیں خواتین ارکان کی تعداد ۹ ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قومی اسمبلی میں ۲۰ اور صوبائی اسمبلی میں ۲۴ خواتین مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی رہیں۔ اس طرح ۱۹۴۷ءتا ۱۹۹۷ء پاکستان میں ۱۱۳ خواتین منتخب یا نامزد ہوئیں۔ ۲۰۰۲ء میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی تعداد قومی اسمبلی میں ۶۰ اور سینیٹ میں ۱۸ تھی۔ صوبائی نشستوں پر صوبہ پنجاب میں ۶۶، سندھ میں ۲۹، خیبرپختونخوا میں ۲۲ اور بلوچستان میں ۱۱ خواتین مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں تھیں، جب کہ لوکل گورنمنٹ میں تعداد۴۰ہزار تھی۔
جماعت اسلامی میں عورت کی سیاسی نمایندگی کی تاریخ اس طرح ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ۱۹۸۵ء میں ایک خاتون مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ الیکشن ۲۰۰۲ء میں قومی اسمبلی میں صوبہ سندھ سے ایک، صوبہ پنجاب سے ایک، صوبہ سرحد سے تین، صوبہ بلوچستان سے ایک، کل ۶ کی تعداد میں خواتین اراکین اسمبلی بنیں۔ ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں ایک خاتون جن کا تعلق صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا)سے تھا، مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۶ء ایک خاتون ممبر اور ۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۹ء دوخواتین ممبر سینیٹ رہیں۔ بعد ازاں ۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۲ءایک خاتون ممبر سینیٹ رہیں۔
۲۰۰۲ء میں پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعت کے لیے ضابطۂ انتخاب میں یہ لازم کیا گیا کہ وہ ۳۳ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص رکھیں گے۔ یعنی اگر کوئی پارٹی ۱۰۰نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کو اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص ۳۳نشستیں مل جائیں گی، جس پر وہ اپنی نمایندہ خواتین کو اپنی پارٹی کی طرف سے ترتیب دی گئی، ترجیحی فہرست کے مطابق نامزد کریں گی۔ ان خواتین کو حلقے کے عوام کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ پارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کی بنا پر اسمبلی ممبر بن جائیں گی۔ اس طرح مخصوص نشستوں پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ دوسرے قدم کے طور پر ۲۰۱۸ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ اپنی پارٹی کی ۵ فی صد عام نشستوں پر خواتین اُمید وار نامزد کریں گی۔ ایسے اُمیدوار کو حلقے کے تمام رجسٹرڈ مرد و خواتین کے ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ بہرحال، الیکشن کمیشن کی طرف سے دیے گئے اس ضابطے کی علمااور عوامی حلقوں کی جانب سے مخالفت ہوئی کہ یہ اقدام ہماری تہذیبی روایات سے متصادم ہے۔
خواتین کو پارلیمینٹ میں مخصوص نشستوں پر نمایندگی دینے کے فیصلے میں بنیادی عوامل اقوام متحدہ کے عورتوں کے لیے بنائے گئے کمیشن کی قراردادیں اور معاہدے ہیں، جن پر حکومت ِ پاکستان نے دستخط کیے ہیں۔
جماعت اسلامی ایک دینی،اصولی اور سیاسی جماعت ہونے کے ناتے، سیاسی کشاکش میں خواتین کے فعال کردار پر شدید ذہنی تحفظات رکھتی ہے۔ لیکن معاشرے اور قانون ساز اداروں، نافذشدہ ضابطوں، انتخابات اور اس کے تقاضوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ بہتر تو یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے سیاسی عمل میں شمولیت کی اہمیت کو سمجھنے والے علما مل بیٹھ کر کچھ فیصلہ کریں کہ ہمیں الیکشن کمیشن کے ضوابط میں تبدیلیوں کے ساتھ کس حد تک اور کس شکل میں چلنا ہے۔
صحابہ کرامؓ اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ یہ جان سکیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ بہت ساری نیکیوں میںسے کون سی نیکی آخرت میں خیر کے پلڑے میں سب سے وزنی ہو گی؟
قرآن و سنت سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں جن سے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سے ہیں ، اور اعمال کے درجے کیا ہیں؟ پھر یہ رہنمائی بھی ہے کہ ایک ہی عمل ایک وقت میں اگر اجر کے لحاظ سے افضل ترین ہوتا ہے تو دوسرے حالات یا وقت میں اس کا وہ درجہ نہیں رہتا۔ اسی طرح بُرے اعمال جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ، ان کے درمیان فرق کو قرآن و حدیث میں واضح کیا گیا ہے۔
ربّ کی رضا کے متلاشی اور اس کے لیے کوشش کرنے والے اور رب کی ناراضی سے بچنے والوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اعمال کے درجوں کے بارے میں علم حاصل کریں ۔ فرض ، واجب ، مستحب اور نفل میں کیا فرق ہے؟ یہ درجہ بندی کیوںہے اور کون سے اعمال کس زمرے میں آتے ہیں؟ ایسے ہی جن کاموں سے رُکنا ہے، ان میں بڑے گناہ یا کبائر، صغائر ، مشتبہہ اور مکروہ اعمال کون سے ہیں؟ یہی علم ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔یہ علم نہ ہو، تو ہم عمل کریں گے، مگر غیراہم کو اہم بنا لیں گے اور اہم کو غیر اہم سمجھ لیں گے جو کہ بہت زیادہ نقصان کا سودا ہو گا۔ جو لوگ دین سے محبت رکھتے ہیں ،پابندی سے عمل کرتے ہیں، وہ بھی اکثر اوقات ان تفصیلات اور اس ترتیب تک کو نہیںجانتے۔
دین دار اپنی انفرادی زندگی میں نفلی حج اور رمضان کے عمرے پر خرچ کرنا زیادہ اہم جانتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ اپنے خاندان کے کسی تنگدست کی مدد کی جائے ، کسی مصیبت زدہ ملک،فلسطین یا کشمیر کے باسیوں کی بنیادی ضرورتوں کے لیے عطیہ دیا جائے ۔ کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کریں یا اس کی کفالت کریں، جہاں تخصص حاصل کر کے ایسے افراد تیار ہوں، جو دلیل کے ساتھ اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے شبہات کا جواب د ے سکیں۔
دین کا شعوری تعارف اور جذبہ بیدار ہونے کے بعد بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ کئی افراد اپنے تعلیمی میدان کو خیر باد کہہ کر ، دعوت و ارشاد کے لیے فارغ ہوجاتے ہیں۔ حالاںکہ اگر وہ اچھی نیت کے ساتھ، اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے، حدود اللہ کی پابندی کرتے، تو یہ عمل بڑی عبادت تصور ہوتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے بڑے پیمانے پر یہ مطالبہ نہیں کیا کہ تم اپنے پیشے چھوڑ کر دعوت و تبلیغ کے لیے فارغ ہو جائو۔ہجرت سے پہلے ، ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے اور دعوت کا کام بھی سرانجام دیتے رہے۔ جب جہاد کے لیے اعلان ہوتا تو اس کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔
امام غزالی نے اپنے دور میں لوگوں کے لیے یہ بات ناپسند کی کہ ان کے اکثر طالب علم ، علم فقہ وغیرہ کی طرف متوجہ رہتے۔ دوسری طرف مسلم ممالک میں علاج معالجے کے لیے عیسائی یا یہودی طبیب ہی ہوتے، جو عورتوں اور مردوں کا علاج کرتے۔
۱۹۷۳ء میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات کا ایک وفد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے ان کی رہایش گاہ پر ملا، راقمہ بھی اس وفد میں شامل تھی۔ عرض کی: ’’ہم ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ، مرُدوں کی چیر پھاڑ (ڈاسیکشن) کر کے پڑھتے ہیں ،یہ مرُدوں کی بے حرمتی میں آتا ہے۔ ہم دین پر مکمل عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم میڈیکل کی تعلیم چھوڑ دیں‘‘۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ہمارے اجتہاد سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ: ’’اگر سب اس طرح سوچیں ،تو ان شعبوں میں جس اصلاح کی ضرورت ہے ، وہ کون کرے گا؟‘‘ آپ نے اس کام کو بہ کراہت مکمل کرنے اور بڑے ہدف پر نظر رکھنے کا کہا اور مثال دی کہ گلاس کے گدلے پانی کو صاف پانی سے بدلنا ہو تو اس عمل میں درمیان کا وقت ، گدلے پانی کا ہو گا، مگر صاف پانی تک پہنچنے کے لیے اس گدلے پانی سے گزرنا ، ناگزیر ہے۔ اس کے سوا چارہ نہیں ،سو آپ اپنی تعلیم جاری رکھیں اور آیندہ اس کوخلاف اسلام امور سے پاک کریں۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے{ FR 644 } ہیں کہ امریکا، کینیڈا اوردوسرے یورپی ممالک میں رہایش پذیر مسلمان،ہم سے یہ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں پہنیں یابائیں ہاتھ میں، کوٹ پتلون پہناجاسکتا ہے یا شلوار قمیص پہننا فرض ہے؟عورتوں کامسجدوں میں جانا حلال ہے یا حرام؟
ترجیح کو نظرانداز کرنے کی روش پر چلتے ہوئے، ہم نے ان بہت سارے فرائض کفایہ کو چھوڑدیا ہے، جو مسلمان امت کو دنیا کی قیادت کے منصب پرفائز کرنے کے لیے ناگزیر تھے،مثلاً سائنسی،عسکری ،صنعتی برتری۔
بعض ایسے امور کوبھی چھوڑ دیا ہے، جو فرض عین کے درجے میں آتے ہیں، یعنی یہ کہ ہر فرد پر ان کا کرنا لازم ہے۔اگر چھوڑا نہیں تو انھیں وہ مقام نہیںدیا جودینا چاہیے تھا۔امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ بیان کرتے ہوئے ،اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ کی آیت ۷۱ میں اسے نماز اورزکوٰۃ سے پہلے بیان کیاہے۔اس فریضے کے ترک پربنی اسرائیل کے لیے ان کے نبیوں کی زبان سے لعنت کی گئی ہے۔
بعض اُمور کوبعض پرزیادہ اہمیت دے رکھی ہے۔بہت سارے بے نمازی ،رمضان کے روزے شوق سے رکھتے ہیں۔بعض کے ہاں نوافل کااتنا اہتمام کہ فرائض اور واجبات کابھی وہ اہتمام نہیں ہے۔
عبادات پہ بجاطور پر توجہ ہے،مگر معاشرتی فرائض کاوہ درجہ نہیں ہے۔جن میں والدین سے حُسن سلوک،رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی،یتیموں اورمسکینوں کاخیال رکھنا،اہل خانہ کے حقوق شامل ہیں۔ دوسری طرف یہ صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ دعوت کاکام کرنے کاایسا شوق اور مشغولیت کہ گھر میں بچوں کی تعلیم وتربیت،خانگی ضروریات اوربزرگوں کی خدمت میں کوتاہی ہونے لگتی ہے۔
ملازمت میں ایسی مشغولیت ہے کہ دین کاعلم سیکھنے اوردعوت کے کام کے لیے وقت نکالنا گراں محسوس ہوتا ہے۔مرکزومحور اپنی ذات ہے تومال بھی یہاں ہی خرچ ہوتا ہے۔کہیں اورخرچ کرنے کے لیے بچتا ہی نہیں ہے۔
چہرے کے پردے کی ایسی سختی کہ گھر میں آئے شوہر کے محرم رشتہ دار کے لیے دروازہ کھولنا اور بٹھانا تک ناممکن۔ گھر آئے مہمانوں کی مناسب میزبانی کے بجاے پردے کی بنا پر کمرے میں بند ہوجانا۔ دوسری طرف ملازمت اوراعلیٰ تعلیم کاایسا شوق اورآگے بڑھنے کی اتنی لگن کہ گھر باربچے،سب اس پر قربان کردیے جاتے ہیں۔
یہ سب خرابیاں اس بنا پر آتی ہیں کہ ہمیں ترجیحات کاتعین معلوم نہیں،کس وقت کون سا کام اہم ترین ہے،کس کوکس پرترجیح دینی ہے اورکس کوچھوڑ دیں تو خیر ہے؟ اس کے لیے یہ علم ناگزیر ہے کہ اعمال کے درجے کیا ہیں،اورحالات کے ساتھ ان کے درجے کیسے بدل جاتے ہیں؟
ترجیحات کی اہمیت، اللہ تعالی کے اس ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جان فشانی کی اللہ کی راہ میں۔ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑ ے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔(التوبہ ۹:۱۹-۲۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس بات کی وضاحت کرتا ہے۔ فرمایا:
اَلْایمَانُ بِضْعٌ وّسَبْعُونَ شُعبَۃً، اَعْلَا ھَا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہُ وَاَدْنَا ھَااِمَاطَۃُالْائَ ذَی عَنِ الطّرِیْق (بخاری،کتاب الایمان) ایمان کے۷۰ کے لگ بھگ شعبے ہیں ان میں سے اعلیٰ شعبہ لا الٰہ الا اللہ ہے اور ادنیٰ یہ کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا جائے۔
قرآن و سنت میں اس حوالے سے جو تعلیمات وارد ہوئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں افضل، اولیٰ اور سب سے پسندیدہ اقدار و اعمال کیا ہیں؟ یعنی فرض، واجب، مستحب اور نوافل کون کون سے ہیں؟یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ بعض احادیث میں ان کے درمیان جو نسبت ہوتی ہے وہ بیان کر دی گئی ہے جیسے:
باجماعت نماز انفرادی نماز سے ۲۷درجے فضیلت رکھتی ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، ابواب صلاۃ الجماعۃ ، حدیث: ۶۲۸)
اللہ کی راہ میں ایک ساعت پہرہ دینا اس سے بہتر ہے کہ آدمی لیلۃ القدر کو حجراَسود کے پاس کھڑا عبادت کرتا رہے۔ (بیہقی، باب فی المرابطۃ، حدیث: ۴۱۰۵)
اسی طرح بُرے اعمال کی بھی درجہ بندی موجود ہے۔ ان میں کچھ کبائرہیں، کچھ صغائر ہیں، پھر مکروہات اور مشتبہات ہیں۔ بعض اوقات ان کی بھی آپس میں نسبت بیان کی گئی ہے، مثلاً ایک آدمی جان بوجھ کر ایک درہم سود کھائے تو یہ اس سے شدید تر ہے کہ ایک شخص۳۶ بار زنا کا مرتکب ہو( دارقطنی، کتاب البیوع، حدیث: ۲۴۸۷)۔ لیکن اس کا مطلب زنا کو کم تر ثابت کرنا نہیں، بلکہ سود کے ناجائز ہونے کی شدت کو واضح کرنا ہے۔
قرآن پاک میں یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ سارے لوگ مرتبے کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں بلکہ علم و عمل کے لحاظ سے لوگوں کے دمیان فرق ہوتا ہے۔ فرمایا:’’ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، ان دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگر چہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں او ر مغفرت او ررحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (النساء ۴:۹۵-۹۶)
یہ موازنہ دراصل بھلائیوں کا آپس میں موازنہ کرنا ہے۔ دوسرے برائیوں کا آپس میں موازنہ ہے، اور تیسرے بھلائیاں اور برائیاں جب دونوں موجود ہوں تو اس وقت ان کے درمیان موازنہ کر کے فیصلہ کرنا ہے۔ بھلائیوں کے موازنے کے تین درجات ہیں۔ یہ تین درجے، ضروریات، حوائج یا آسانیاں اور محسنات یا تعیشات ہیں۔
ضروریات وہ ہیں جو زندگی کے لیے ضروری اور بنیادی ضرورتیں ہیں:
حوائج یا آسانیاں وہ ہیں، جن کے بغیر زندگی توگزر جاتی ہے مگر مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ محسنات اور تعیشات وہ ہیں جو زندگی کو حسین و جمیل اور انتہائی آرام دہ بنا دیتی ہیں۔
سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ، یعنی گھر بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے اندر مہمان کے لیے کمرہ، مکین کے لیے کمرہ، کھانا پکانے کی جگہ وغیرہ وغیرہ آسانیاں مہیا کرتے ہیں، لیکن ان کو بہت کشادہ کرنا، بہت سجانا وغیرہ تعیشات میں آتے ہیں۔ ضروریات کا اہتمام کرنا فرض ہے۔ آسانیاں حاصل کرنے کی گنجایش ہے مگر تعیشات ناپسندیدہ ہیں۔ اس لیے ضروریات کو آسانیوں پر ترجیح اور آسانیوں کو تعیشات پر ترجیح دینا ضروری ہے ۔
ضروریات میں بھی پانچ چیزیں ہیں: دین، جان ، نسل، عقل اور مال۔ ان میں دین پہلے اور سب سے اہم ہے اور باقی ضروریات پر مقدم ہے۔ یہاں تک جان پر بھی مقدم ہے اور جان باقی ضروریات پر مقدم ہے۔
بھلائیوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھائے جائے: بڑی مصلحت چھوٹی مصلحت پر مقدم ہے ، جماعتی مصلحت جس میں سب کا فائدہ ہو، انفرادی مصلحت پر مقدم ہے ، اکثریت کی مصلحت ،اقلیت کی مصلحت پر مقدم ہے، دائمی مصلحت عارضی مصلحت پر مقدم ہے۔ مستقبل کی قوی مصلحت حال کی کمزور مصلحت پر مقدم ہے، جیسے صلح حدیبیہ میں نبیؐ نے اصل اور بنیادی، مستقبل کی مصلحتوں کو ظاہر اور فوری مصلحتوں پر مقدم رکھ کر شرائط قبول کرلیں۔
برائیوں کے درمیان موازنہ بھی ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان کے بھی مختلف درجے ہیں۔ وہ برائیاں جو مال کے نقصان کا ذریعہ بنیں ان کا درجہ کم ہے۔ اُن سے جوجان کے نقصان کا باعث بنیں، اور جان کے نقصان والی کا درجہ دین کے نقصان کا باعث بننے والی برائیوں سے کم ہے۔
پھر برائیاں اپنے حجم، اثرات اور خطرات کے لحاظ سے بھی مختلف درجوں کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کے لیے فقہا نے بعض قواعدوضع کیے ہیں، مثلاً دو برائیوں میںسے کم تر کا انتخاب کیا جائے یا بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جائے۔
اگر کسی معاملے میں بھلائیاں اور برائیاں یا فائدے اور نقصان دونوں ہوں تو ان کے درمیان بھی موازنہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ کسی معاملے میں برائیاں زیادہ اور فائدے کم ہوں تو اس کو اختیار نہیں کیاجائے گا۔ یہی بات قرآن نے شراب کے مسئلے میں سمجھائی: ’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگر چہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘۔(البقرہ۲ :۲۱۹)
ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے ، ایک اور نکتہ ایمان اور اعمال میں ترجیح کے تعین کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف کرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے‘‘ (البقرہ۲:۱۷۷)۔ یعنی ایمان سب سے مقدم ہے اور عمل اس کے بعد ہے۔ ایمان پہلے لانا ہو گا، پھر عمل اور جتنا ایمان مضبوط ہو گا، اتنا عمل بہتر ہو گا۔
ایمان کے بعد اعمال ہیں اور اعمال میں ترتیب: فرائض ، واجبات اور مستحبات ہے۔ بنیادی فرائض میں عبادت: یعنی نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃہیں۔ ان فرائض میں بھی فرائضِ العین ہیں اور فرائضِ کفایہ ہیں۔ فرضِ عین اہم تر ہے۔ فرضِ عین وہ ہے جس کی ادایگی ہر فرد پر لازم ہے۔ اس کے بعد فرض کفایہ ہے، یعنی کچھ لوگ کر لیں تو بقیہ پہ لازم نہیں رہتا لیکن کچھ حالات میں فرضِ کفایہ فرضِ عین بن جاتا ہے۔ اگر ایک محلے میں ۵۰فقیہہ ہیں اور ایک طبیب ہے اور وہ بھی غیرمسلم تو طب کا علم حاصل کرنا، فرضِ کفایہ نہیں ، فرضِ عین ہو گا۔ فرضِ عین میں حج پر نماز مقدم ہے، اور فرائضِ کفایہ میں والدین کی خدمت مقدم ہے جہاد پر۔ یعنی حالات کے لحاظ سے ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تو ہدایت کی: پہلے اللہ اور اس کے رسولؐ پہ ایمان کی دعوت دینا۔ پھر پانچ نمازوں کا کہنا، مان لیں تو صدقہ اور پھر زکوٰۃکا حکم دینا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث ۱۳۴۲)
تربیتِ نبویؐ کے انداز کو سمجھنا بھی اہم تر ہے۔ جس میں پہلے ارکانِ اسلام اور اساسیات ، بنیادی امور کی تعلیم دیتے اور پھر جزئیات پر عمل کی تلقین فرماتے۔ دین کے مزاج کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ آدمی سنن اور نوافل میں مشغول رہے اور فرائض سے غفلت اور سستی اختیار کرے۔
بعض اوقات راتوں کو اُٹھ کر نمازِ تہجد کا اہتمام کرنے والے، صبح اپنی ملازمت کو ایسے جاتے ہیں کہ تھکاوٹ اور سستی دور نہیں ہوئی ہوتی، حالانکہ یہاں کے وقت کی وہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ اس کا پورا پورا حق ادا نہیں کر پاتے۔ گویا اچھے طریقے سے کام کرنا بھی فرض ہے۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ: یہ کوتاہی امانت میں خیانت ہے اور مہینے کے آخر میں آدمی جو تنخواہ لیتا ہے وہ حرام کا مال ہوتا ہے۔ رات کا قیام نفل ہے ،جو اللہ نے فرض نہیں کیا۔ فقہانے یہ بات طے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نفل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کہ فرض کو ادا نہ کیا جائے۔
امام راغب فرماتے ہیں کہ: جو شخص فرض کی ادایگی میں نفل سے غافل رہا، اس کو معذور سمجھا جائے گا، مگر جو شخص نفل کی ادایگی کا اہتمام کرے مگر فرض سے غافل ہوگیا، وہ دھوکے میں ہے۔
فرضِ عین میں حقوق العباد، حقوق اللہ پہ فوقیت رکھتے ہیں۔ علمانے کہا ہے کہ اللہ کے حقوق مسافت، یعنی نرمی و چشم پوشی پر مبنی ہیں، اور حقوق العباد مشاخت ،یعنی لڑائی جھگڑے پر مبنی ہیں۔ مثال یوں ہے کہ حج واجب ہے اور دوسری طرف قرض کی ادایگی واجب ہے، تو ان میں قرض کی ادایگی پہلے کرنا ہو گی۔
فرائض میں اور حقوق العباد میں جو فرائض جماعت کے حقوق سے تعلق رکھتے ہیں ، ان فرائض پر جن کا تعلق افراد کے حقوق سے ہے، ان کو ترجیح حاصل ہو گی۔
مثال کے طور پر حکومت کا ٹیکس لگانا بظاہر چند افراد کے مال کو نقصان پہنچانا ہے، مگر اس سے حکومت بہت سارے افراد کے لیے درکار ملکی ضروریات کو پورا کرتی ہے، تو یہ ایک افضل عمل ہے کہ یہ ملک کی حفاظت یا رفاہ عامہ کے دیگر امور کے لیے ضروری ہے۔
منہیات،یعنی جن کاموں سے منع کیا گیا۔ان کی اقسام اور ان میں ترجیح کا علم ہونا بھی اہم ہے۔ اس فہرست میں درج ذیل کو ذہن میں رکھنا ہو گا:
ریاکاری ایک طرح کا شرک ہے۔ ریا کار کا اپنے عمل سے مقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس سے راضی ہوں، اس کی تعریف کریں اور اس کی بزرگی وشرافت کا تذکرہ کریں۔ ایسے شخص کا عمل لوگوں کو راضی کرنے، ان کے درمیان اپنا مقام و مرتبہ بلند کرنے کی سعی ہوتی ہے، اور بظاہر لوگوں کو دکھاتا ہے کہ وہ رب کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اللہ اسے روزِ قیامت ذلیل کرے گا۔ (مختلف احادیث کا مفہوم)
یہ بھی ذہن میں رہے کہ حالات زمانہ اور ارتکاب کرنے والے فرد کے لحاظ سے بھی گناہ میں فرق آ جاتا ہے، جیسے کنوارے ، شادی شدہ اور بوڑھے کے زنا میں فرق ہے۔ اسی طرح مسجد میں یا ہمسایے سے زنا میں فرق ہے۔
کمائی میں تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کہا ہے۔ یعنی جس چیز کی حرمت کو قرآن و سنت میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے وہ حرام ہے۔
ابلیس کو گناہ کے مقابلے میں بدعت زیادہ اچھی لگتی ہے کیوں کہ بدعت کا کرنے والا نہ توبہ کرتا ہے، نہ باز آتا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہے۔ بسا اوقات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امور کو مزید ’معتبر‘ بنانے کی کوشش میں عملاً تحریف کردیتا ہے۔
بدعتیں بھی مختلف درجات کی ہیں۔ کچھ بدعات مغلظہ جو آدمی کو کفر تک پہنچاتی ہیں جیسے وہ فرقے جو اسلام کے اصول سے ہی نکل جاتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو کفر تک تو نہیں فسق تک پہنچا دیتی ہیں۔
ایک اَن پڑھ آدمی کو کسی با اعتماد عالم سے پوچھ لینا چاہیے۔ خود مشتبہات کے حوالے سے لوگوں کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ وسوسے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور انتہائی معمولی مناسبت ہو، تب بھی، مشتبہات کی تحقیق میں وقت اور صلاحیت صرف کرتے ہیں۔ بعض تاویلات کر کے ناممکن کو ممکن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اللہ کسی مسلمان سے اتنی گہرائی میں جانے اور اتنی نکتہ چینی کا تقاضا نہیں کرتا۔ صحابہ کرامؓ مشرکین اور اہلِ کتاب سے لین دین کرتے تھے، حالانکہ ان کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ تمام حرام چیزوں سے اجتناب نہیں کرتے۔
اگر معاملہ مشتبہ ہو تو اس کو چھوڑ دینا بہتر ہے۔ حضرت سفیانؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس سے کوئی رغبت نہیں، اسے اختیار کرنے کے مقابلے میں مجھے اس کا ترک کرنا زیادہ مرغوب ہے۔
اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی پڑوسی ہے جو کھلم کھلا سود کھاتا ہے اور حرام لینے سے نہیں ہچکچاتا، وہ مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلاتا ہے تو میں کیا کروں؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس کی دعوت کو قبول کرو۔ یہ تمھارے لیے جائز ہے اور گناہ اسی کے ذمے ہے۔(مصنف عبدالرزاق، حدیث: ۱۴۱۹۰)
اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل کے تحت عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر اُمورسرانجام پاتے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس ہوئی۔ ۱۹۷۹ء میں عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ ’سیڈا‘( CEDAW)ہوا۔ اس پر ۱۲۹سے زائد ممالک نے دستخط کیے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے مگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی روشنی میں کام کرنے سے مشروط ہے۔
اس معاہدے کی روشنی میں بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس میں بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن طے ہوا، جس کے ۱۳ نکات تھے۔ بعد ازاں آٹھ اہداف کو ’ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز‘(MDGs)کے طور پر طے کر لیا گیا، تاکہ خواتین کی ترقی کی رفتار تیز تر اور جائزہ آسان تر ہو جائے۔ اہداف یہ ہیں:۱-غربت کا خاتمہ، ۲-عالمی سطح پر لڑکیوں کا ابتدائی درجۂ تعلیم میں داخلہ یقینی بنانا، ۳-عورت کی برابری کے تصور کو آگے بڑھانا اور عورت کی ترقی کے لیے کام کرنا ،۴-بچوںکی شرح اموات میں کمی، ۵-مائوں کی شرح اموات میں کمی ، ۶-ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں سے حفاظت، ۷-ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانا، ۸-ترقی کے لیے عالمی برادری میں شراکت (Global Partnership)۔ ان میں سے نکات ۲،۳،۴،۵ اور ۶ عورتوں سے براہِ راست متعلق ہیں ۔ اہم ترین نکتہ تیسرا ہے، یعنی عورت کی برابری اور ترقی کے لیے کام کرنا ۔ آغاز میں جب برابری کا جھنڈا اٹھایا گیا تو نعرہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں ترقی کا تھا۔ اب یہ ہر طرح کی برابری کا ہے۔
’کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن‘ (CSW)عورت کی برابری اور ترقی کے لیے منصوبے بناتا اور ان کا جائزہ لیتا ہے ۔ اس کمیشن کا ۵۸واںاجلاس ۱۰ مارچ تا ۲۱ مارچ ۲۰۱۴ء ، اقوام متحدہ کی کانفرنس بلڈنگ اور نارتھ لان بلڈنگ میں منعقد ہوا۔ اس میں حکومتی مشن براے اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کی ’سوشل اینڈاکنامک کونسل‘ میں رجسٹرڈ این جی اوز، یعنی ’ایکوساک سٹیٹس‘ کی حامل ہیں ، نے شرکت کی۔ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین بھی اکنامک اینڈ سوشل کونسل میں صلاح کار تنظیم کا اسٹیٹس رکھتی ہے۔ راقمہ اس کی صدر اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل (ایشیا ) کی حیثیت سے اجلاس میں شریک ہوئیں۔ یہ اجلاس بنیادی طور پر مشاورتی فورم تھا جس میں گذشتہ سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اس میں حکومتی مشن کے نمایندوں اور این جی اوز نے اپنے اپنے ملک میں اہداف کے حصول کے بارے میں کارکردگی رپورٹ پیش کی اور اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ یہ اجلاس ۲۰۱۵ء کے بعد کے ایجنڈے کی تشکیل کے لیے تھا کہ اہداف کے حصول میں رکاوٹوں کو دُور کیا جا سکے، اور ان پر کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ اجلاس میں ۸۶۰ سول سوسائٹیز سے تعلق رکھنے والے ۶۰۰سے زائد نمایندگان نے شرکت کی۔ ۱۳۵ پروگرام اقوام متحدہ کی ایجنسیز، جب کہ ۳۰۰متوازی پروگرام این جی اوز نے منعقد کیے۔
کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن (CSW ) کا ۵۸واں سیشن صبح ۱۰ بجے شروع ہو کر شام چھے بجے تک جاری رہتا۔ درمیان میں ایک تا تین بجے کا وقفہ ہوتا۔ ہفتہ و اتوار کی چھٹی ہوتی تھی۔ متوازی پروگرام عموماً دو گھنٹے کے دورانیے کے ہوتے اور صبح ۱۰ بجے سے شروع ہو کر رات ۸بجے تک جاری رہتے۔ ایک وقت میں پانچ پانچ مختلف اجلاس ہوتے۔
عورت پر تشدد کے ذیل میں اندرون اور بیرونِ ممالک میں عورتوں کی خرید و فروخت پر کئی سیشن ہوئے، دستاویزی فلمیں دکھائی گئیں اور لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ نوجوان لڑکیوں اور چھوٹی بچیوں کو غریب اور غیر ترقی یافتہ علاقوں سے لا کر گھروں میں سخت مشقت کروانے، ہراساں کرنے ، مارپیٹ اور منفی طور پر پر یشان کرنے کا عمل، کئی حکومتوں اور بااثر افراد کا ان کو سستے مزدور کے طور پر استعمال کرنا، جنگوں میں فاتح فوج کا مفتوح علاقے کی عورت کو ہوس کا نشانہ بنانے جیسے موضوعات زیربحث آئے اور ان پر رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔
اسقاطِ حمل کی حوصلہ افزائی اور ہم جنسیت کی تائید میں نہ صرف لٹریچر تقسیم ہوا، بلکہ مباحث بھی ہوئے جن میں ایک موضوع تھا: ’’ عورتوں کو بچوں کی تعداد کے لیے فیصلے کی آزادی ہونا ضروری ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ فیملی فورم نے خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی طرف توجہ دلائی اور مضبوطی کے لیے اقدامات تجویز کیے۔ عورتوں کے حقوق ،کلچر اور شریعہ پر بھی ایک فورم ہوا۔
ایک فورم پر یہ تقریر کی گئی کہ اگر بیوی پر ازدواجی حقوق کی ادایگی کے لیے زبردستی کی جاتی ہے تو وہ قانونی چارہ جوئی کر سکے گی۔سوالات کے وقفے میں راقمہ نے سوال کیا کہ بیوی اس فعل پر شوہر کو جیل بھجوا دے گی۔ شوہر جب جیل سے رہا ہو کر آئے گا تو بیوی کے ساتھ اس کا سلوک کیا ہوگا؟ جس کے جواب میں مقرر خاتون نے سٹپٹا کر جواب دیا: یہ سوچنا ہمارا کام نہیں ہے۔ عورت کے حقوق اور قانون کے نفاذ نے معاشرے پر مجموعی طور پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں، محققین کو اس پر بھی اعداد و شمار جمع کرکے حقیقت آشکارا کرنا ہوگی۔
فیملی فورم، کیتھولک کرسچن خواتین کا گروپ ہے جو سب سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ اسقاطِ حمل کو قانونی تحفظ دینے کے خلاف کام کرتا ہے۔ اس کے بنیادی ارکان نے آنسوئوں کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات اور ذہنی کرب کی تفصیلات بیان کیں۔
اس نشست کے آخر میں شرکا کے تاثرات اور سوالات کے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راقمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسی ہی ایک عورت کے آنے کا واقعہ بیان کیا جو حد جاری کیے جانے کا اصرار کر رہی تھی کہ اسے دنیا میں اس گناہ کی سزا مل جائے اور آخرت میں رُسوائی سے بچ جائے۔ حضوؐر نے اس سے کہا کہ ابھی تم چلی جائو اور بچے کی پیدایش کے بعد آنا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ پھر آئی کہ حد جاری کروا دیجیے۔ یہ حد سنگساری تاحد موت تھی جس کے لیے وہ اپنے آپ کو پیش کر رہی تھی۔ حضوؐر اس کو دوبارہ واپس بھیج دیتے ہیں کہ اس بچے کو دودھ پلائو جب تک کہ یہ خود کھانے پینے کے قابل نہ ہوجائے۔ جب وہ تیسری بار آئی تو اس بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا جو وہ کھا رہا تھا۔ اس مثال سے دیکھیے کہ حضوؐر نے ماں کی ممتا ، اس کی نفسیات کا کتنا لحاظ کیا اور بچے سے کتنی شفقت کا معاملہ کیا۔
اس گروپ کے ساتھ ہمارا اچھا تعارف ہے۔ سوڈان سے آنے والی ہماری یونین کی ممبران کے ساتھ بھی ان کے روابط ہیں۔ یہ اس اجلاس میں ہر سال پابندی سے شرکت کرتی، اپنے نقطۂ نظر کو جدید تحقیق اور مؤثر دلائل سے ثابت کرتی ہیں۔ ان کا میگزین بھی باقاعدگی سے نکلتا ہے۔
عورتوں کے حقوق ٗ کلچر اور شریعہ پر بھی ایک فورم ہوا۔ اس میں عورتوں کے حقوق ،شریعت اور ممالک میں رائج کلچر کے حوالے سے لیکچر ہوئے۔ بعد ازاں سوال و جواب کی نشست میں ایک امریکی نژاد پاکستانی خاتون کھڑی ہوکر کہنے لگیں: میرے پاکستان کو شریعت نافذ کرنے والے لوگوں نے تباہ کر دیا ۔ اللہ کرے وہاں کبھی شریعت نافذ نہ ہو ۔ وہ بدامنی کا گہوارہ بن گیا ہے ۔ پاکستان سے آئی ایک دوسری خاتون نے، جن کے بارے میں ملاقات پر معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں اور لاہور سے ہیں، ویمن اسٹڈیز پر لیکچر بھی دیتی ہیں، سوال کیا کہ پاکستان میں کئی فرقے اور مسالک ہیں، سُنّی، بریلوی، اہل حدیث، اہل تشیع، تو وہاں کس کی شریعت آئے گی؟ اس پر یہ جواب دیا گیا کہ جہاں تک شریعت اور کون سی شریعت کا تعلق ہے، یہ نہ طالبان کی شریعت ہے، نہ کسی اور گروہ کی شریعت ہے، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے جو شریعت کے تابع ہے۔ہم دستورِ پاکستان کے نفاذ اور بالادستی کے لیے کوشاں ہیں کہ یہی ہمارے اتحاد کا امین ہے۔
ان اجلاسوں کے دوران مختلف گروپس کے ساتھ تعارف اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنا اور سمجھانا ہوتا رہا۔ ایک دن، لابی میں ایک خاتون نے بڑی گرمجوشی سے پوچھا: کیا تم پاکستانی ہو ؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: میں نے تم پاکستانی عورتوں کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے، اس کا عنوان ہے: پاکستانی عورت تو کہاں ہے ؟ یہ میرا تحقیقی مقالہ ہے جو مَیں نے بلوچستان میں رہ کر ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل کیا ہے۔ ہم نے کہا: بہت خوب، یہ تو بتائیں آپ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی گئیں ؟ اس نے کہا: نہیں، عورت کو پاکستان میں گھر کی چار دیواری میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا کہ ہم بھی پاکستانی ہیں۔ مَیں میڈیکل ڈاکٹر ہوں، فوج میں بھی کام کیا ہے، اور پارلیمنٹ کی ممبر بھی رہی ہوں ، تو وہ کہنے لگیں: یہ تو اِکا دُکا مثالیں ہیں۔ ہم نے پوچھا: ایک ماڈل اسلام کا ہے کہ مرد، عورت کی تمام ضروریات پوری کرنے کا پابند ہے، اور دوسرا ماڈل وہ ہے جس میں عورت اپنے لیے اور اکثر اپنے بچوں کے لیے خود کماتی ہے، ان دونوں میں سے عورت کے لیے کون سا ماڈل اچھا ہے ؟ اس نے کہا: اچھا تو اسلام والا ہے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عورت کو گھر سے نکلنے ہی نہ دیا جائے ۔ ہم نے کہا: مقامی رواج، اسلام نہیں ہے ۔ اسلام میں عورت گھر سے باہر جا سکتی ہے ۔ اسلام میں اس کے گھر سے باہر نکلنے کے لیے پردے کے احکامات بیان ہوئے ہیں۔ وہ کاروبار کر سکتی ہے، اور جو کماتی ہے اس کی خود مالک ہے ۔ اس نے حیرت سے کہا: اگر یہ ایسے ہی ہے تو یہ بہترین ہے!
میں اقوام متحدہ کے ایسے سیشن میں تیسری بار (۲۰۰۰ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ ء) شریک ہوئی تھی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ۲۰۰۰ ء میں عورتوں کی جو حاضری اور جوش و جذبہ براے حصولِ حقوق تھا وہ اس بار قدرے ماند پڑتا ہوا محسوس ہوا۔ حکومتیں خواتین کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں۔ ۲۰۰۰ء کے اجلاس میں مرد غالباً ۱۰ فی صد ہوں گے، جب کہ بعدازاں ان اجلاسوں میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً ۴۰ فی صد ہو گئی ہے ۔ اس کے برعکس عورتوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی جارہی ہے۔
ابتداً جاری ہونے والے اعلامیے میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ۱۵ برس گزر جانے کے باوجود کسی بھی ملک میں عورت کو حقیقی برابری اور صحت و تحفظ کے حوالے سے ترقی حاصل نہیں ہو سکی۔ عالمی ادارے عورت کی برابری اور ترقی کے لیے ، اپنی ترجیحات کے مطابق، گو سُست رفتاری مگر مستقل مزاجی کے ساتھ اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA)کی بہنوں کے ساتھ ان پروگراموں میں شرکت کی اہمیت پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ اس اجلاس میں بھی چند بہنوں نے شرکت کی۔ وہ پُرعزم تھیں کہ منصوبہ بندی کے ساتھ آیندہ اس نوعیت کے اجلاسوں میں اپنا نقطۂ نظر پہنچائیں گی۔
ایک خاتون پادری کے ساتھ تبادلۂ خیال میں انھوں نے کہا کہ چرچ میں لوگوں کا رجوع کم ہوتا جارہا ہے۔ لوگ اللہ سے تعلق کو کافی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ہم جنس زدہ جوڑوں کی حمایت کی جس پر حیرت ہوئی۔ تیونس کی ایک اسکارف پہننے والی خاتون نے یہ بتایا کہ اس کے ملک کی مسلمان نمایندگان نے چرچ میں ایک پروگرام کیا ہے، جس میں انھوں نے اسلام کے قانون وراثت میں مرد اور عورت کے غیر مساوی حصے کو ہدف بنایا۔ یہ بات بھی باعث ِ تشویش تھی۔ دوسری طرف خوش آیند پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں میںچرچ کو خرید کر مساجد، سکول اور کمیونٹی سینٹر بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جہاں محلے کے مسلمان باقاعدگی سے اکٹھے ہوتے ہیں۔
اسی طرح امریکی معاشرے میں بچوں کی والدین سے لا تعلقی و آزادی کی کئی پریشان کن داستانیں سنیں۔ بچے اپنے کمروں میں کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ ایک دین دار گھرانے کی بچی نے والدہ کی معمولی ڈانٹ پر گھر چھوڑ دیا اور بعد میں پتا چلا کہ اس نے اپنی کسی سہیلی کے ساتھ رہایش اختیار کر لی ہے۔ شادی کے لیے رشتہ نہ ملنا اور شادی کے بعد طلاق بہت سے گھروں کی کہانی ہے۔ امریکی انتخابات کے موقعے پر ہم جنسیت کی آزادی ملنی چاہیے یا نہیں کے ۵۸ فی صد اثبات میں جواب کے بعد، ہم جنس پسند دندناتے پھرتے ہیں۔ کوئی اشارتاً بھی کچھ کہہ دے تومعافی مانگے بغیر جان نہیں چھوٹتی۔ عدالتیں بھی ان کے حقِ آزادی کو تسلیم کرتی ہیں۔ یہ مغرب کے معاشرتی انتشار و انحطاط کا کھلا ثبوت ہے۔گھروں میں نبھائو کم ہوا ہے۔خاندانی ٹوٹ پھوٹ کے اس سمندر میں اِکادکا جزیرے بھی ہیں جہاں خاندان کے افراد ماہانہ جمع ہوتے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا درس بھی ہوتاہے۔ بچوں کی دوستی اور دل چسپی کا دائرہ خاندان ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتیں نکھارتے ہیں۔
انٹر نیشنل مسلم ویمن یو نین کواقوامِ متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسلوں اور کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے اجلا س میں ممبر کی حیثیت سے شر کت کی دعوت ملی۔ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، ۶۰ممالک کی نما یندہ خوا تین پر مشتمل تنظیم ہے جو اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اسی طرح یہ تنظیم دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم خواتین کا باہم را بطہ و مشا ورت اور ایک مشترکہ پلیٹ فا رم مہیا کر تی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں مسلم ویمن یونین کی سربراہ کی حیثیت سے میرے علاوہ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مطا ہر عثمان ،اپنے ملک سوڈان کی چار خواتین کے سا تھ شا مل ہوئیں ۔ اس وفد میں انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے شگفتہ عمر نے بھی شرکت کی۔
یو این کمیشن آن سٹیٹس ویمن( CSW) کا اجلاس ،۲۷ فروری تا ۹مارچ ۲۰۱۲ء ہو نا قرار پا یا۔اس اجلاس میں گورنمنٹ مشن، ممبر ممالک کی حکو متوں کے اقوام متحدہ میں متعین نمایند وں اور ان حکو متوں کے نما یندوں کے علا وہ این جی اووز کے ایک ایک نما ئندے کو اجلاس میں شر کت کی اجا زت تھی۔یہ این جی اووز یو این کی اکنامک اور سو شل کو نسل میں رجسٹرڈ ہیں۔ سی ایس ڈبلیو کے اجلاس میں شر کت کے لیے،ہر این جی اوو کو ایک اور حکو متی نما ئندگان کو دو خصوصی اجا زت نامے یا پاس مل سکتے تھے۔
اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں افتتاحی پروگرام ہوا۔ خصوصی سیشن کا مرکزی عنوان ’دیہی علا قے کی عورت کی ترقی‘ تھا۔ چار یا پانچ مقررین کے اظہار خیال کے بعد،شر کا میں سے تبصرے یا سوال کا موقع بالعموم حکو مت کے مشن اور کسی این جی او کے نمایندوں کو دیا جاتا۔ اس اجلاس سے شہناز وزیر علی صاحبہ (پا کستان) نے خطاب کیا۔ یو سف رضا گیلانی (سابق وزیراعظم پاکستان) کی بیٹی فضہ گیلا نی صاحبہ نے اپنا بیان پڑھا۔پا کستان مشن کے نمایندے نے متعدد مواقع پر پا کستان کے حالات کی عکاسی کر تے ہوئے درست مداخلت کی۔ اس فورم کے شرکا کی اکثریتی راے یہ تھی کہ:’’دیہی عورت کی تر قی کے لیے بنیا دی ضرورت اس عورت کی تعلیم ہے۔اس کو دیہی علاقے میں کیے جا نے وا لے کام کے لیے ہنر مند بنا نا ہے،اس کو چھوٹے قرضہ جات کا اجرا کر نا ہے،اس کے لیے آگا ہی دینی ہے،اس کے لیے زمین کے ما لکا نہ حقوق کا حصول یقینی بنا ناضروری ہے۔دیہی علا قے کی عورت کی صحت کی حفاظت بھی یو این کے طے شدہ ایجنڈے کے مطا بق کی جانی چا ہیے۔اور اس کو فیصلہ سا زی کے اختیا رات میں حصہ ملنا چا ہیے۔یوں وہ مرد کے شانہ بشانہ ترقی کے عمل میں شا مل ہو سکتی ہے اور اس طرح صنفی امتیاز کا خاتمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔اس مر کزی موضوع سے کشید ہونے والا خیال یہ تھا کہ صنفی امتیاز ختم کر نے کے عمل میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے، اور اس کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں اور عورت کو حیثیت دینے کے لیے بجٹ کی تقسیم میں صنف کا لحاظ رکھے جا نے، یعنی Gender sensitive budget allocation کا جا ئزہ اور اقدامات طے کیے جانے چاہییں۔
چرچ بلڈنگ میںہونے والے ایک پروگرام کا عنوان ’اسلام اور تشدد‘ تھا۔یہ امر یکا میں مقیم ایرانی مسلمانوں کی ایک این جی او نے تر تیب دیا تھا۔ ایران سے آنے وا لے وفد کو ویزا نہ ملنے کی بنا پر وہاں سے نما یندگی نہ ہوسکی تھی۔ پروگرام میں ایک دستاویزی فلم دکھا ئی گئی۔ یہ مسلمان عورت کا حجاب،اسلام میں قانون وراثت کی تفصیلات پر مبنی ایک مؤثر فلم تھی، جس میں موقف پیش کرنے کے لیے آیات اور تصاویر سے مدد لی گئی تھی۔کمرے میں موجود ۶۰؍ افراد میں سے نصف مسلمان اور نصف غیر مسلم تھے۔ آخر میں سوال و جواب کا وقفہ ہوا تو ایک غیر مسلم نے کہا کہ: ’’کو ئی مسلم عورت پا رلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ حجاب کی بنا پر ہے اور حجاب دوسروں کو مرعوب کر نے کے لیے ایک طرح کا دبا ئو ہے‘‘۔میں نے اس مرد کے سوال کے جواب میں کہا:’’ میں میڈیکل ڈاکٹر، سا بقہ ممبر پارلیمنٹ، صدر انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، یو این اکنا مکس و سوشل کونسل ہوں۔ انٹرنیشنل پا رلیمنٹری یونین کی مرتب کردہ ترتیب کے مطابق عورتوں کی سب سے زیا دہ نمایندگی کے ساتھ روانڈا پہلے نمبر پر ہے، جب کہ پا کستان ۲۷ویں نمبر پر ہے۔ امریکا و برطا نیہ ۵۰کے لگ بھگ نمبر پر ہیں۔جس یونی ورسٹی کے ساتھ مَیں منسلک ہوں وہاں میڈیکل، ڈینٹل ، فزیوتھراپی اور فارمیسی میں ۸۰ فی صد لڑکیاں اور۲۰ فی صد لڑکے زیرتعلیم و تربیت ہیں۔یہ تاثر درست نہیں ہے کہ آج مسلم معاشروں میں عورت کو کو ئی مقام حاصل نہیں‘‘۔
ایک پروگرام فیملی واچ انٹرنیشنل کی طرف سے اس نصب العین کے تحت کہ: ’’دنیا کے مسائل خا ندان کے تحفظ کے سا تھ حل کرو‘‘ اورجس کا نعرہ یہ تھا: ’’بچہ نعمت ہے انتخاب نہیں‘‘۔ اس طرح بچے کی مو ت ،ما ں کی نفسیات و صحت کے لیے سانحہ ہے۔ اس کی وضاحت میں دوخوا تین نے رو تے ہو ئے آپ بیتی سنا ئی کہ ہم اب تک اپنے آپ کو معاف نہیں کرسکتے۔ اس پروگرام میں دو پیپرز پڑھے گئے جن میں یہ بتا یا گیا کہ اسقاطِ حمل کرانے سے چھا تی کا سرطان بڑھتا ہے۔اس پروگرام میں اظہار خیال کر تے ہو ئے مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والی اس خاتون کا واقعہ سنا یا جو بد کرداری کے نتیجے میں حاملہ ہو چکی تھی اور رضاکارانہ طور پر سزا پانے کے لیے پیش ہوئی تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضع حمل کے بعد آنا،وہ آئی تو آپؐ نے اس کو دوبارہ بھیجا کہ: اس بچے کا دودھ چھڑوانے کے بعد آنا۔وہ بچے کا دودھ چھڑوا کر آئی تو اس کو سزا دی گئی۔ عورت کی ممتا کی تسکین کے اس اقدام کی سمجھ مجھے آج آپ خوا تین کی کیفیت دیکھ کر آئی ہے کہ جرم کا کفا رہ اس بچے کی موت نہیں ہے،اس کو تو زندہ رہنا ہے۔اس پر بند با ندھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میری راے میں اختلاط مردوزن،تعلیمی اداروں میں، اور جاے ملاز مت میں ہے، جو اس راہ پر چلانے میں محرک ہے۔اس کو بھی نا گزیر حد تک محدود کر نا ہو گا اور شا دی میں تا خیر کے بجاے جلد شا دی کو رواج دینا ہو گا،جیسے اعلیٰ تعلیم شادی کے بعد مکمل ہو تی ہے،ایسے ہی ہر تعلیم کا حصول شا دی کے بعد آسان اور ممکن بنا نا ہو گا‘‘۔
یو این لان بلڈنگ کے کانفرنس ہال سی میں ’بین المذاہب مکالمہ‘کے عنوان سے ایک سیشن یو ایس فیڈریشن برا ے مڈل ایسٹ پیس کے زیراہتمام ہوا۔ اس میں ایک یہو دی،ایک عیسا ئی اور ایک مسلمان خاتون مقرررین تھے۔ہال میں بیٹھتے ہی انتظا میہ نے شگفتہ عمر سے را بطہ کیا کہ آپ تیسری مقررہ بن سکتی ہیں کہ ہما ری مہمان مقررہ کو کچھ مسئلہ ہو گیا ہے۔انھوں نے ہامی بھر لی۔ اشتراکِ عمل کے نکات پر توجہ دلوا نے کے بعد،تینوں مقررین نے سا معین کے سوالات کے جوابات دیے۔
ایک پروگرام کا مرکزی خیال ـبچوں کی صنفی تعلیم کی روک تھام کی تحریک تھا۔ ان کا نعرہ تھا: ’’دنیا بھر میں صنفی جذبا تیت اُبھا رنے وا لی صنفی تعلیم کو بند کیا جا ئے‘‘۔ اس تعلیم میں صنف کی صحت کے بجاے،صنفی حقوق کی بات کی جا تی ہے ،جو صنفی رویوں کو اُبھا رنے کے طریقوں کی طرف رہنمائی دیتے ہیں، اوربچوں کو صنف کی پو جا پر لگا دیا جاتاہے۔اس گروپ نے ایک آن لائن رٹ کا بتا یا اوروہ شرکا کو دستخط کے لیے بھی تقسیم کی گئی۔ دیگر پروگرام عورتوں کے زمین میں مالکانہ حقوق، لڑکیوں کا موقف، دیہی عورتوں کا اغوا اور فروخت کرنے وغیرہ کے بارے میں تھے، جو دو ہفتوں کے لیے مختلف ہالوں میں جا ری رہے۔
انٹر نیشنل ویمن ڈے کی تقریب۷ما رچ کے بجاے ۸ما رچ۲۰۱۲ء کو منائی گئی۔ یونائیڈنیشن ہیڈ کوا رٹر،جو کہ نا رتھ لان بلڈنگ کے طور پر معروف ہے، کے کا نفرنس روم نمبر چار میں یہ خصوصی تقریب ہو ئی۔ پروگرام کا آغاز ۱۰بجے ہو نا تھا مگر پو نے۱۰بجے ہال پوارا کھچا کھچ بھر چکا تھا۔اور پروگرام کے آغاز کے بعد،آنے وا لوں کو جگہ نہ ہو نے کا کہہ کر دربان معذرت کررہے تھے۔سیکرٹری جنرل یو این مسٹر با نکی مو ن،چیئر پر سن سیشن کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن مارجان کا مرا اورجنرل اسمبلی اقوامِ متحدہ کے نما یندے مسٹر مطلق الکہتا نی نے خطاب کیا۔جس کے بعد واک ہوئی۔ خوا تین کو مخصوص پیلے رنگ کی پٹیاں دی گئیں، جو وہ لباس پر پہن کر اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت کے ایک کو نے سے چل کر دوسرے کو نے تک آئیں۔
عورت کے عنوان سے دنیا میں آنے والی اور لا ئی جا نے والی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا گویا معا شر تی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا ہے۔ حقوق اور مسا وات کے سا یے تلے، دیگر بہت سارے نعرے ہیں، جو بظاہر بے ضرر ہیں مگر فی نفسہٖ گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ عورت کے حقوق و فرائض پر اعتدال اور توا زن نہ ہو نا،اور انسانیت کا ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جا نا حقیقت ہے۔ اس کشاکش کے زیا دہ اثرات خاندان کے نظام پر آنے کا احتمال ہے، اعدادو شماراور سروے یہ تبدیلیاں دکھلا رہے ہیں۔
یہ دراصل ایک میلہ تھا،جو عورتوں نے اپنے اپنے مئوقف کی معلومات دو سروں تک پہنچانے کے لیے لگا یا تھا۔دوسروں کی را ے سا زی کی بالواسطہ کو ششیں تھیں،اپنے ہاں کے مسا ئل کو اُجاگر کر نے اور بعض اوقات اپنے مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا موقع پیدا کیا گیا تھا۔ گروہ بندیاں تھیں،موقف تسلیم کرا نے اور ہم نوائی حاصل کر نے کی کو ششیں تھیں۔ پھر یہ آرا و سفارشات یو این کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے مر کزی اجلاس کا مشترکہ اعلا میے اور قرارداد شامل کر نے کی خاموش سعی تھی۔
معاہدے اور قانون کے نام پر افراد اور قوموں پر حکمرا نی کر نا، آج کا ایک اہم طرزِ حکمرانی ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ: پہلے افرادو اقوام کو جمع کرو۔پھر ان کے مشا ورتی فورم بنا ئو۔ وہاں فیصلے ہوں۔پھر ان فیصلوں کا نفاذ ہو اوران کی عمل داری کا جائزہ ہو۔اس عمل کے لیے کچھ دبا ئو اور کچھ مالی ترغیبات ہوں۔ پھر عمل نہ کر نے پر کچھ پا بندیاں لگ جا ئیں،کچھ حما یت و امداد وغیرہ سے ہا تھ اٹھا لیے جائیں، قوموں کو اجتما عیت کے نام سے مات دی جا ئے،تنہا کر دیا جا ئے وغیرہ وغیرہ۔اگر یہ سب کچھ طاقتوں کے منفی جذبہ حکمرا نی کی تسکین کے لیے ہو، تو نظم اور مشا ورت ہو نے کے باوجود،بدنیتی کی بنا پر خیر برآمد نہیں ہو تا۔ نظام موجود ہو،اس کے اندر کچھ مشاورت اور جمہوریت بھی ہو،تو اصلاح کے لیے شامل ہو کر اپنا کردار ادا کر نے اور مثبت نتا ئج سے کلی طور پر نا امیدنہ ہونا چاہیے ۔ ایک سخت فکری دفاعی نظام کے باوجود اقوامِ متحدہ کے فیصلہ سازی کے نظام میں،داخل ہونے کے کئی را ستے ہیں۔اپنی تر جیحات کے سا تھ،ان پر کام اور مؤثر کردار ادا کر نے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک اور دوگیا رہ بن کر،منصوبہ بندی، یکسوئی کے سا تھ جان گھلانے کی ضرورت ہے اور یہ میدان بھی بہت اہم اور مؤثر ہے۔
معا شرے کی فکری اصلاح،خدمت کے ذریعے ان کے غموں کے مداوے کی کوشش کے ساتھ،ملکی سیاست میں تبدیلی قیادت کا فلسفہ رکھنے والے گروہوں کے لیے یہ بھی سو چنے کا نکتہ ہے کہ ملک میں قانون سا زی،ملکی با شندوں کے لیے خیر کا با عث ہوگی تو دنیا میں،عالمی معاہدات،پوری انسا نیت کے لیے نفع بخش ہوں گے۔ افراد کو مختص اور میدا ن کا انتخاب کرکے،کام کا آغاز کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کر نا ناگزیر ہے۔
اسوئہ دعوت کا آغاز غارِ حرا کے اس واقعے سے ہوتا ہے کہ جبرئیل امین ؑ آکر فرماتے ہیں: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘ (العلق:۹۶:۱) ۔ہیبت و جلال کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم معذرت کرتے ہیں کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل امین ؑ دوبارہ کہتے ہیں، دوبارہ عذر پیش ہوتا ہے: میں پڑھ نہیں سکتا، اور تیسری بار آپؐ سہمے ہوئے پڑھتے ہیں۔ گویا پہلا سبق اور پہلا کام پڑھنے کا، علم حاصل کرنے کا دیا گیا۔
وحی آتی ہے: راتوں کو اُٹھو، رب کو یاد کرو (المزمل ۷۳:۲)، کہ یہ داعی کے لیے ضروری توشہ ہے۔ اگلی وحی آتی ہے: اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو۔ اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو… اپنے رب کے لیے صبر کرو (المدثر ۷۴:۱-۷)۔ یہ کام چونکہ رب کا ہے، رب کے لیے ہے، اور اس کام کو رب کی پشتی بانی بھی حاصل ہے، لہٰذا رب کے راستے پر چلتے ہوئے صبر کرنا ہے۔ اس طرح داعی کو ناگزیر ضروریات اور تقاضوں سے آگاہ کر دیا گیا۔
حضرت حمزہؓ کے سامنے چار سال کے عرصے میں کئی مواقع آئے، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی، مگر براہِ راست دعوت سے متاثر ہوکر اسلام قبول نہ کیا۔ حضرت حمزہؓ چچا تھے۔ ایک روز کوہِ صفا کے پاس ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دست درازی کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبر سے اذیت برداشت کرتے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ اتفاق سے عبداللہ بن جذعان کی لونڈی نے یہ سارا ماجرا دیکھا۔ جب حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آئے تو انھیں یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ ہائے! تم خود دیکھ سکتے کہ تمھارے بھتیجے پر کیا گزری! یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت جاگ اُٹھی۔ سیدھے قریش کی مجلس میں جاپہنچے۔ ابوجہل سے کہا: میں محمد کے دین پر ایمان لے آیا ہوں، جو وہ کہتا ہے وہی میں کہتا ہوں، کرلو جو کرسکتے ہو___ داعیِ حق کا صبر، اذیتوں پر رویہ اور کردار، دعوت کا ذریعہ، اس کا تعارف، اور اس کے پھیلائو میں معاون بنتا رہا۔
آج بھی یہی صورت ہے کہ ایک برطانوی صحافی خاتون ایوان ریڈلے طالبان کی جاسوسی کے لیے جاتی ہے۔ اتفاق سے گرفتار ہو جاتی ہے اور قید میں طالبان کے کردار کا مطالعہ کرتی ہے۔ قید سے چھوٹنے پر قرآنِ مجید پڑھتی ہے اور نتیجتاً اسلام کی پُرجوش مبلغہ بن جاتی ہے۔ برطانیہ میں اسلام چینل کے ذریعے، اسلام کی دعوت اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات کو دُور کرتی ہے۔ ایک مسلمان عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے، جو امریکا کی قید میں صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔
مصالحت کی راہ نکالنے کے لیے، مخالفین تحریک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مطالبہ یہ بھی رکھا۔ اگر آپؐ اپنے حلقے سے ہمارے معاشرے کے گھٹیا لوگوں کو، ہمارے غلاموں اور لڑکوں بالوں کو نکال دیں تو پھر ہم آپؐ کے پاس آکر بیٹھیں گے اور آپؐ کی تعلیمات کو سنیں گے۔ موجودہ حالت میں یہ ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کریں۔ مطلوب یہ تھا کہ تحریک کو ان جان نثاروں کی خدمات سے محروم کر دیا جائے۔ غرض جو جو حربے اختیار کیے گئے، وحی کے ذریعے ان کے لیے رہنمائی آتی گئی: وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (انعام ۶:۵۲) ’’جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارنے میں لگے ہوئے ہیں، انھیں اپنے سے دُور نہ پھینکو‘‘۔
جب ایک ذی اثر مخالف سے گفتگو کے دوران ایک ساتھی کی مداخلت کو ناپسند فرمایا تو داعیِ اعظمؐ کو تنبیہہ آگئی: عَبَسَ وَتَوَلّٰی۔ٓ ٓ o اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی (عبس ۸۰:۱-۲) ’’ترش رو ہوا اور بے رُخی برتی، اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا‘‘۔
اہلِ قریش وفد بنابنا کر آئے اور کہا کہ بادشاہ بنا لیتے ہیں، علاج کروا دیتے ہیں، دولت جمع کردیتے ہیں، کسی امیر خاتون سے شادی کرا دیتے ہیں۔ غرض انسانی فطرت کے جتنے کمزور پہلو ہوسکتے ہیں سب کے ذریعے وار کیا، اور بار بار کیا مگر داعیِ حق دعوت سے باز نہیں آئے، مداہنت نہیں برتی۔ اپنے راستے پر، پُرسکون اور کامل اطمینانِ قلب کے ساتھ چلتے رہے۔ اپنی دعوت بہ بانگِ دہل بیان کرتے رہے۔ نہ نظر جھکی، نہ زبان لڑکھڑائی، نہ پاے ثبات میں لغزش آئی___ آج کے داعی کے لیے، اس میں بڑا سبق اور رہنمائی و نمونہ ہے۔
پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوتا ہے۔ اشارہ کریں تو طائف کے لوگوں کو ان پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں، مگر اس عالم میں بھی داعی کی شفقت اور محبت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ نسل تو نہیں لیکن ان کی اولاد شاید دین کو قبول کر لے۔ اسی سفر میں جنوں کی جماعت قرآن سنتی اور ایمان لاتی ہے۔ قیامِ مکّہ کے دوران میں سورئہ یوسف نازل ہوتی ہے اور حدیث دیگراں کے پردے میں، داعیِ حق کو بشارت دی جاتی ہے کہ حالات آج ناسازگار ہیں مگر انجامِ کار غلبہ تمھارا ہے___ آج کے داعی کے لیے بھی یہ بشارتیں قرآن پاک میں محفوظ ہیں مگر کوئی ان پر کان تو دھرے اور سمجھے تو سہی۔
انتہائی ناسازگار ماحول میں، صاف صاف الفاظ اور فیصلہ کن انداز میں، ایک نعرہ لگایا: ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے والا ہی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ اگر آج کوئی کہے کہ امریکا شکست کھائے گا، روس کی طرح ٹوٹے گا اور نہتے مسلمان کامیاب ہوں گے، تو لوگ کہیں گے کہ یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے۔ خوش فہمی میں نہ رہیں اور زمینی حقائق دیکھیں۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا اور اُمید کا دامن تھامنے اور کوشش میں لگے رہنے کا سبق ہے جو داعی نے دیا۔
تشدد کسی متزلزل نظام کا آخری ہتھیار ہوتا ہے۔ تمام قبائل سے نمایندے لیے جاتے ہیں اور گروہ براے حملہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ داعیِ اعظمؐ کے گھر کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے۔ ایک تدبیر، تدبیر کرنے والے کرتے ہیں، اور ایک تدبیر خیرالماکرین کرتا ہے___ ان تدبیر کرنے والوں کو پیدا کرنے والا اور ان سے اچھی تدبیر کرنے والا۔ پھر ان کی تدبیریں اکارت جاتی ہیں___ کل مکہ سے ہجرت کی رات یہ ہُوا اور آج بھی یہ ہوتا ہے اور یہ ہوتا رہے گا۔ اس سفرہجرت کی صعوبتوں میں بھی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (غم نہ کر، اللہ تمھارے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹: ۴۰) کا پیغام دیا جاتا ہے۔
داعیِ اعظمؐ مدینہ پہنچتے ہیں۔ دعوت کا اسلوب کیا ہے۔ جگہ حاصل کی جاتی ہے اور گارے اور گھاس پھونس سے مسجدنبویؐ کی تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ مسجد محض عبادت گاہ اور معبد نہیں ہے۔ یہ حکومت کے کاروبار، مشورے کا ایوان، پارلیمنٹ، سرکاری مہمان خانہ، سپریم کورٹ، جی ایچ کیو، جمہوری دارالعوام اور قومی لیکچرہال ہے۔ یہ مرکزی دفاتر ہیں۔ یوں اسلامی ریاست کی تاسیس ہوتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے اہم تعمیری اقدام، میثاقِ مدینہ کیا جاتا ہے۔ ریاست چلانے کے لیے مدینہ کے یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی سوسائٹی کو ایک نظم میں پرو دیا جاتا ہے۔ ایک تحریری معاہدہ ہوتا ہے جس کو دنیا کا پہلا تحریری دستور کہا جاسکتا ہے۔
مدینہ کے منظم ہونے والے معاشرے میں خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو سیاسی اہمیت حاصل ہوگئی۔ سیاسی، قانونی اور عدالتی لحاظ سے اتھارٹی، یعنی آخری اختیار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آگیا۔ دفاعی لحاظ سے مدینہ اور اس کے گردونواح کی پوری آبادی ایک متحد طاقت بن گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ داعی، مدینے کے معاشرے کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ، سیکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ، مواخات مدینہ کے ذریعے حل کرتے ہیں۔
داعی کا کردار، صرف ایک صوفی درویش کا نہیں بلکہ اجتماعی معاملات کو سنبھالنے، سنوارنے، ماہرانہ حکمت سے پورا کرنے کا نظر آتا ہے۔ تمدنی نظام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جزوی اصلاح چاہتے تھے یا ہمہ گیر؟ دعوت مذہبی و اخلاقی تھی یا سیاسی اہمیت بھی رکھتی تھی؟ نعرہ یہ دیا گیا اور اس کی وضاحت یہ دی گئی: ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (الصف ۶۱:۹)
یہ بھی کہا گیا کہ ’’اگر قیادت کے اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہوتا تو ہم نہ مارے جاتے، اگرہمارے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا‘‘۔ غزوئہ احزاب شروع ہوتا ہے، ۱۷روز سے محاصرہ جاری ہے، طرفین پڑائو ڈالے بیٹھے ہیں۔ سارا عرب اکٹھا ہوکر اُمڈ آیا ہے۔ گویا اس وقت ناٹو کی مانند اتحادی فوجیں، آخری ضرب لگانے کے لیے آئی تھیں۔ اس موقع پر یہود کی ریشہ دوانیاں اور غداریاں عروج پر ہیں۔ غزوئہ تبوک سے واپسی پر واقعۂ افک پیش آتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر رکیک الزام لگتا ہے، اور جب معاملہ داعی، تحریک کے قائد کی بیوی سے متعلق ہو تو اس کی نوعیت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے۔ اس بہتان اور الزام تراشی کا معاملہ ایک ماہ تک چلتا رہا۔ اس ہنگامہ خیز طوفان سے گزرتے ہوئے حضرت عائشہؓ کے ساتھ ساتھ بڑی مظلوم ذات داعیِ حق، نبیِ رحمتؐ کی تھی۔ داعیِ اعظم کی اعلیٰ ظرفی، حوصلہ مندی اور صبروتحمل کا عظیم مظاہرہ ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ نے غیرجذباتی اور پُروقار طرزِعمل اختیار کیا۔ قصور کیا تھا کہ وہ انسانیت کا نجات ہندہ، ان کو ان کے رب کی طرف بلاتا تھا۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
یہ ۱۹۴۵ء کی بات ہے‘ جب اقوام عالم میں پنچایت کا کردار ادا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پایا۔ اسی ادارے کے تحت ۱۹۴۶ء میں انسانی حقوق کمیشن اور پھر اس کے بعد خواتین حقوق کمیشن بنا‘ جب کہ خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں میکسکو میں ہوئی اور مساوات‘ ترقی اور امن جدوجہد کے لیے نعرہ قرار پایا۔
بعدازاں ہر پانچ سال بعد کوپن ہیگن (۱۹۸۰ئ) ‘نیروبی (۱۹۸۵ئ) ‘بیجنگ (۱۹۹۵ئ)‘ نیویارک (۲۰۰۰ئ) میں یہ خواتین عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ تاہم‘ ۱۹۹۰ء میں نہیں ہو سکی اور اب ۲۰۰۵ء نیویارک میں ہونی ہے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں حقوقِ نسواں کے لیے ایک عالمی معاہدہ کنونشن فار الیمی نیشن آف ڈسکریمی نیشن اگینسٹ ویمن جسے ’سیڈا‘ (CEDAW) کہا جاتا ہے‘ ہوا۔اس میں یہ طے پایا کہ عورت اور مرد کو مساوات اور برابری کے مقام پر لانے کے لیے ہر طرح کے امتیاز کو ختم کیا جائے۔ اس کی ۳۰ دفعات ہیں جن میں ۱۶دفعات خواتین کے مختلف حقوق سے متعلق ہیں اور بقیہ انتظامی نفاذ سے متعلق۔
اس معاہدے کی دفعہ ۲۹ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب امریکا کے ایک دانش ور رچرڈ نے راولپنڈی کے ایک میڈیکل کالج میں لیکچر دیتے ہوئے یوں سمجھایا تھا کہ: کوشش جاری ہے کہ عورت کو یہ حق دلایا جائے کہ اولاد کی پیدایش کا فیصلہ وہ کرے۔ اگر کسی مرحلے پر وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور وہ ایک ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے کہ مجھے اس بوجھ سے نجات دلا دی جائے۔ اگر ڈاکٹر انکار کرتا ہے کہ وہ اس عمل کو درست نہیں سمجھتا تو خواتین کے حقوق کے مطابق یہ علاج مہیا نہ کرنے والا ڈاکٹر مجرم تصور کیا جائے گا‘ اُس عالمی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
۱۹۷۹ء کے ’سیڈا‘ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ۱۳ دائرہ کار طے کیے گئے۔ انھی نکات کو آیندہ جائزوں کے لیے بنیاد قرار دیا گیا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک فریق حکومت ہے اور دوسری این جی اوز۔ حکومتوں کو امداد دینے والے عالمی اداروں کی مراعات کئی پہلوئوں سے اس معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مشروط ہیں۔ عالمی ایجنڈے کی علم بردار اور بالخصوص عالمی امداد حاصل کرنے والی این جی اوز بھی اپنے کام کے ساتھ‘ حکومتی اقدام کی نگرانی اور محاسب کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر چار سال بعد حکومت کو یہ رپورٹ دینی ہوتی ہے ۔ رپورٹ کے لیے نکات‘ تفصیلی جزئیات کے ساتھ اقوام متحدہ کی طرف سے بھجوائے جاتے ہیں۔
’سیڈا‘ پر اب تک ۱۵۰ ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ اس میں بھی اہم پہلو یہ ہے کہ کئی یورپی ممالک اور خود امریکا نے ابھی تک اس پر دستخط نہیں کیے۔ پاکستان کی طرف سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر فاروق خان لغاری نے کچھ تحفظات کے ساتھ اس پر دستخط کیے تھے کہ ہم اپنے ملکی آئین کے منافی ضوابط پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہوں گے۔
مساوات‘ ترقی اور امن کے نام پر بنایا جانے والا خواتین حقوق کمیشن ہو‘ یا وقتاً فوقتاً کی جانے والی خواتین عالمی کانفرنسیں ‘ یہ عالمی حقوق نسواں تحریک کے مختلف شاخسانے ہیں۔ اسی طرح بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ۱۳ نکاتی عنوانات سے بظاہر اختلاف ممکن نہیں۔ اس لیے کہ وہ عورت کی فلاح و ترقی کے لیے جامع منصوبے کی تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس بظاہر صورت حال سے فریب کھانے کے بجاے گہرائی میںجاکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ردعمل کی ایک عالمی تحریک ہے جس میں بہت سے پیغامات مضمر ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں خواہ مغرب ہو یا مشرق‘ غیرمسلم معاشرہ ہو یا مسلم معاشرہ‘ عورت کے ساتھ کئی حوالوں سے دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسلام کے مسلمہ اصولوں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد اسلامی معاشروں میں بھی کئی ایسے رویے مروج ہیں۔
اسلام‘ عورت کے کردار کے لیے جو نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے‘ اُس نے پستیوں میں گری ہوئی عورت کو عملاً اٹھا کر معاشرے کی ایک قابلِ احترام ہستی بنا کر اعلیٰ مقام سے نوازا۔ قرآنی تعلیمات‘ احادیث نبویؐ اور خود اسوۂ رسولؐ آج بھی نشانِ راہ و منزل ہیں۔ بیٹی کے قتل کی ممانعت‘ پرورش میں برابری‘ بچیوں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ہدایات‘ بچیوں کی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ کفالت‘ بلوغت کے بعد نکاح میں بیٹی کی مرضی کا لحاظ رکھتے ہوئے رخصتی کا اہتمام کرنا اور باپ کے ترکے میں حصہ دار ہونا اس کا حق ٹھیرا۔ شادی کے وقت مہر کی ادایگی اور وہ بھی کوئی لگابندھا ۳۲ روپے کے شرعی مہرکا تصور نہیں ہے‘ بلکہ عورت کے خاندان کی مناسبت سے مہر کا تعین ہونا قرار پایا۔ جب حضرت عمرؓ نے مہر کی رقم مقرر کرنے کے لیے مشورہ چاہا تو ایک عورت کھڑی ہوگئی اور کہا: قرآن نے تو ڈھیروں مال بھی عورت کو دیا ہو تو واپس نہ لینے کی نصیحت کی ہے‘ آپ کیسے اس رقم کو مقرر کر سکتے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنی رائے سے رجوع کیا۔
نان نفقہ‘ یعنی خوراک‘ لباس‘ مکان اور استطاعت ہو تو خادم کا انتظام کرکے دینا بھی شوہر کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ٹھیرا۔ حضرت عائشہؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشیوں کا تماشا دکھا کر بیویوں کے لیے تفریح کی نظیر بھی قائم کی۔ شوہر کے ترکے سے آٹھویں حصے کی بیوی حق دار ٹھیری۔ بحیثیت ماں حق خدمت باپ سے تین گنا زیادہ دیا گیا۔ سعی ہاجرہ کو حج کا لازمی رکن قرار دے کر بچے کی پرورش کے لیے کی جانے والی دوڑدھوپ کو اعزاز بخشا گیا‘ بیٹے سے بھی وراثت دلوائی گئی۔ بحیثیت آزاد شہری عورت جان‘ مال اور عزت میں برابر کی محترم ٹھیری۔ حق ملکیت تسلیم کیا گیا‘ کاروبار و ملازمت‘ رائے‘ مشورے و محاسبے کا حق بھی ملا۔حضرت ام سلمیٰؓ کے مشورے پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمل کیا۔
فرائض میں اولاد کی پیدایش و پرورش‘ شوہر کی فرماں برداری و شکرگزاری ضروری قرار پائی۔ عورت اور مرد کے نکاح کے ذریعے وجود میں آنے والے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان میں‘ تقسیمِ کار میں مرد بیرون خانہ معاشی سرگرمیوں کے لیے اور عورت اولاد کی پرورش کے لیے گھر کی نگران ٹھیری۔ یوں باہم تعاون کے لیے ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ کے مصداق ایک دوسرے کی کمزوریوں کے ساتھ نبھائو‘ اور خوبیوں کی قدردانی کی تلقین کے ساتھ گھر کے ادارے کو پُرسکون گہوارہ بنایا گیا۔ اگر کبھی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو خاندان کے حَکم تصفیہ اور صلح کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ طلاق جائز مگر ناپسندیدہ گردانی گئی اور اگر نبھا نہ ہوپائے تو آخری چارہ کار کے طور پر مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات اور اس کے نتیجے میں بننے والے معاشرے کے مقابلے میں حقوقِ نسواں کے لیے کی جانے والی کوششیں معاشرے پر ایک دوسری طرح سے اثرانداز ہوئی ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہے اور انسانی زندگی عدم توازن اور انتشار کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔
عورتوں کی برابری کے ایجنڈے اور ہر طرح کی تفریق ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ‘ یہ تقسیم ذہنوں کو پراگندا کررہی ہے۔ پہلے ۵ فی صد کوٹہ ملازمت خواتین کے لیے مخصوص ہوا‘ اب اس کو ۵۰ فی صد تک لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ملازمتوں پر ۵۰ فی صد کوٹے پر اور ۱۵ سے ۲۰ فی صد میرٹ پر خواتین آجائیں‘ تو تقریباً ۷۰ فی صد ملازمتیں عورتوں کے پاس اور ۳۰فی صد مردوں کے پاس ہوں گی۔ اس طرح مردوں کی بے روزگاری میں اضافے اور گھر میں تعاون اور ذمہ داری کی تقسیم پر اصرار سے معاشرے کا ایک نیا نقشہ بنے گا۔ معاشی میدان میںعورتیں سرگرم اور مرد گھر کے نگہبان ہوں گے۔ ماں کے اندر ممتا کے روپ میں اولاد کی پرورش کے لیے عطاکردہ تحمل‘ نرمی‘ الفت کی جگہ باپ لے گا جس کو بیرونی محاذکے لیے زیادہ طاقت ور اور سخت جان بنایا گیا۔ اس طرح توازن کے بگڑنے سے اولاد اور خاندان پر اس کے منفی اثرات آئیں گے۔
ان ممکنہ خدشات کے باوجود مغرب سے ذہنی مرعوبیت کی بنا پر عورت کی معاشی ترقی کے لیے‘ ہر میدان میں مخصوص نشستیں‘ قرضہ جات کا نظام‘ ہر شعبۂ زندگی میں بلاتفریق تعلیم و ملازمت‘ مرد کے ساتھ شانہ بشانہ دوڑ اور اعتدال پسند اور روشن خیال ثابت کرنے کے لیے‘ عالمی اور ملکی سطح پر کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں مہنگائی‘ غربت اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ جب کہ میڈیا کے ذریعے مادہ پرستانہ تہذیب کی یلغار ہے۔
معاشی ترقی اور خودانحصاری کے نام پر مرد کی کفالت سے محروم کرنے‘ اور عورت کی کمائی کے لیے عوامل و حالات پیدا کرنا عورت کے ساتھ خیرخواہی نہیں ظلم ہے۔ اگرچہ موجودہ مسلم معاشرے کسی بھی جگہ اپنی اصل روح کے مطابق اسلامی قدروں کی آبیاری نہیں کر رہے‘ تاہم ۹۹فی صد مرد خواہ دین کا کوئی فہم رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں‘ یہ جانتے ہیں کہ بیوی کو کما کر کھلانا ان کی ذمہ داری ہے۔
گھر کے اندر عورت کے کردار کو معاشی ترقی کے عوامل کے طور پر تسلیم کیا جانا‘ وراثت کی تقسیم اور منتقلی‘ حق مہر کی ادایگی اور حق ملکیت کے آزادانہ استعمال‘ اسلام کے دیے گئے ماڈل کی روشنی میں عورت کی معاشی ترقی کا حصہ تھے مگر ان سے صرفِ نظر کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ ان پر پوری دلجمعی کے ساتھ‘ تمام معاشرے میں اخلاقاً و قانوناً عمل درآمد ہو۔
معاشی کفالت کے حوالے سے جہاں مرد حقیقی مجبوری‘ بیماری یا نشے وغیرہ کی بری عادات کی وجہ سے نہ کماتے ہوں یا کم کماتے ہوں‘ وہاں بھی عورت کو کمائی کے لیے دھکیل دینے کے بجاے ریاست کو ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ خوش حال رشتہ دار اور ریاست اُس کی کفالت کا بوجھ اُٹھائے۔
۲۰۰۰ء میں نیویارک میں ہونے والی بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کے دوران ایک امریکی خاتون‘ ہم پاکستانی خواتین کے وفد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بتایا کہ میں تین سال پاکستان رہی اور میں نے پاکستانی عورتوں پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے: ’’پاکستانی عورتو! تم کہاں ہو؟‘‘
اُس سے جب یہ پوچھا گیا :بتائو عافیت کس میں ہے‘ مرد عورت کے لیے کما کر لائے یا عورت خود اپنے لیے کمائے؟ اُس نے کہا: عافیت تو اسی میں ہے کہ عورت گھر بیٹھے اور کمانے کی پابند نہ ہو‘ مگر یہ غلط ہے کہ اُس کو باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ اُسے بتایا گیا کہ اسلام عورت کو اپنی آزاد مرضی و منشا پر چھوڑتا ہے چاہے تو باہر جاکر ملازمت و کاروبار کرے‘ چاہے گھر بیٹھے مگر اُس کی کفالت کی ذمہ داری ہر دو صورت میں مرد ہی پر ہے۔ اُس نے تسلیم کیا: اگر ایسا ہے تو یہ بہترین ہے۔ پھر مغرب کی عورت کی وہ قابلِ رحم حالت بھی زیربحث آئی‘ جس کے کئی ساتھی تو ہوتے ہیں مگر کوئی شوہر یا کفیل نہیں ہوتا۔ اُس کے اپنے بچے ہونے نہیں پاتے‘ اگر ہوں تو ریاست پالتی ہے یا وہ خود نہ صرف اپنے لیے بلکہ اُن کے لیے کماتی اور انھیں پالتی بھی ہے۔
عورت مخصوص میدانوں کا انتخاب کرے یا ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی خدمت و فلاح کے لیے کام کرنا چاہے‘ اُس کو اُس کے لیے میدان کار مہیا کیا جانا چاہیے۔ باہم مسابقت ہو مگر وہ صرف عورتوں کے مابین۔ مرد اور عورت کو مکمل مخلوط ماحول میں یا تحفظ فراہم کیے بغیر ملازمت و معاشی ترقی میں ساتھ ساتھ کھڑا کیا گیا تو کئی واقعات ہوں گے۔ لہٰذا ہرہر سطح پر مخلوط ماحول جہاں اسلام کی روح اور اقدار کے منافی ہے وہاں خود عورتوں کے لیے بھی غیرمحفوظ اور مسائل کا باعث ہے۔
اس نمایندگی کے ذریعے خواتین کے حقوق کے حصول کے بارے میں کئی طبقے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب ملک کی نصف صدی سے زائد پر محیط تاریخ میں‘ ۹۸ فی صد مرد نمایندگان مردوں کی ترقی کی ضمانت نہیں بنے تو یہ اقدام مروجہ نظام کی اصلاح کے دیگر اقدامات کے بغیر کتنا فائدہ مند ہوگا۔ مگر اس سے عورتوں کو مشاورت کے فورم تک رسائی ضرور ملی ہے‘ تاہم بچوں پر اثرات‘ شوہر بیوی کے مابین غلط فہمیوں‘ عورت پر گھر اور سیاست کے بوجھ کے باعث خاندان کا ادارہ متاثر ہونے کے شواہد سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام عورت کے مشورے کو اہمیت دیتا ہے۔ اُس کو راے دینے اور محاسبہ کرنے کی بھی آزادی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جائے۔ پارٹی نشستوں پر متناسب نمایندگی عورت کو ایک مرد امیدوار کی طرح تمام تر انتخابی جدوجہد سے بچانے اور نمایندگی دلوانے کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ این جی اوز ’سیڈا‘ کی روشنی میں اس طریق کار کو عورتوں کا قومی دھارے میں شامل کیا جانا نہیں گردانتی اور مردوں کی طرح انتخابی امیدوار بننے کی حامی ہیں۔ خواتین کی نمایندگی کے حوالے سے یہ امور توجہ طلب ہیں: پارٹی نامزدگی میں عمر‘ دیگر گھریلو حالات کا لحاظ اور پھر پارلیمنٹ میں الگ نشستیں‘ کارروائی میں حصہ لینے اور تیاری کے لیے کچھ ضوابطِ کار‘ خاندان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے کچھ رعایتیں‘ مثلاً شوہر و بچوں کا مقام اسمبلی پر تبادلہ و داخلہ‘ ہر محفل و استقبالیے و عشایئے میں شامل کیا جانا وغیرہ۔
بلوغت کی تبدیلیاں و اثرات‘ ازدواجی زندگی کے مقتضیات‘ ایڈزبچائو کے طریقوں کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے جنسی تعلیم دی جانے پر بعض باشعور طبقات کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے۔ مغربی طرز تعلیم سے بچانے کے لیے اپنی اقدار و اخلاقیات کے حدودِکار میں رہتے ہوئے‘ مناسب انداز میں اس کو حدیث و فقہ کے مطابق ترتیب دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے‘ یہ بھی ایک چیلنج ہے۔
بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا کا انتظام اور خود دن رات یا کئی کئی روز بیرون شہر یا بیرون ملک ملازمت‘ میٹنگوں‘ سیمی ناروں‘ ورکشاپوں‘ اجلاسوں میں شرکت یا دورے اور فنکشنوں میں غیرمحرم مردوں کے ساتھ مصروف عمل رہنا‘ جہاں آیندہ نسلوں کی تربیت پر اثرانداز ہوگا وہاں گھروں میں غیرمحرم نوکرانی یا آیا اور شوہر کی موجودگی بھی معاشرے میں کئی کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کو کارٹون‘ انٹرنیٹ‘ سی ڈی پروگراموں میں مصروف کرکے‘ یا کئی کئی چینلوں کے ٹی وی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا معاشی ترقی میں حصے کے فوائد و نقصانات کا موازنہ کر کے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے؟
عورت کی ترقی کے ایسے فورموں پر‘ یہ موقف بھی بغیر رو رعایت کے کھل کر بیان کیا جاتا ہے کہ ’سیڈا‘ پر عائد تحفظات ختم کر دیے جانے چاہییں‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صرف پاکستان ہونا چاہیے‘ دستور میں شامل قرارداد مقاصد کی حامل دفعہ کوحذف کردیا جانا چاہیے___ کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ کس وقت کیا فیصلہ کر لیا جاتا ہے!
حقوق نسواں کی عالمی تحریک اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ’سیڈا‘ اس وقت ملک کی ترقی ناپنے کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی امداد کو اس پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے‘ این جی اوز کی صورت میں منظم قوتیں سیکولر ایجنڈے کو مؤثر انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں‘ حکمران وقت سامراجی قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں‘ تعلیم کے سیکولر ایجنڈے کے ذریعے تہذیبی تبدیلی کا عمل جاری ہے‘ اور روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اسلام کو تحریف کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے آج کے دور کی تہذیبی جنگ میں اپنی شناخت قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے‘ نیزعالمی برادری کے ساتھ بھی رہیں اور اپنی اقدار و روایات کی حفاظت بھی کریں‘ یہ کیسے ممکن ہو۔ ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اور عورت کو اس کا حقیقی مقام دینے کے لیے ایک بھرپور جدوجہد اور ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ بالخصوص خواتین میں دینی شعور کی آبیاری اور احیا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
_____________
مسیحی تہذیب نے عورت کو گناہ کی جڑ گردانا اور تقویٰ و اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہ سمجھا کہ نکاح ہی نہ کیا جائے۔ یہ پابندی ایک مستحسن قدر کے طور پر آج بھی وہاں کے مذہبی پیشوا پادری کے لیے موجود ہے۔ اس راہبانہ تصور کے زیر اثر یورپ اور امریکہ کے لیے جو قوانین بنائے گئے‘ ان میں عورت کو ادنیٰ حیثیت اور پست مقام دیا گیا۔ جب تہذیب کے مرکز کے دعوے دار معاشرے کی صورت حال یہ تھی تو دنیا کے بیش تر حصوں میں کسی نہ کسی شکل میں عورت کا استحصال جاری رہا۔
ردعمل کے طور پر حقوق نسواں کی ایک تحریک برپا ہوئی‘ جس کا آغاز اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے حقوق نسواں کمیشن کے قیام ۱۹۴۸ء سے ہوا۔ عالمی کانفرنسوں کا انعقاد‘ خواتین کا سال اور حقوق نسواں کا عالمی دن منانے کے ساتھ‘ اہم پیش رفت ۱۹۷۹ء میں سیڈا (CEDAW) کے ذریعے ہوئی۔ جس کے لائحہ عمل کے طور پر ۱۴ نکات طے کیے گئے جنھیں عورت کے لیے ترقی‘ امن مساوات کے نعرے کے ساتھ عالمی سطح سے پیش کیا گیا۔ آج امریکی‘ نیور ورلڈ آرڈر‘ کے تحت اسے مغرب کی تہذیبی بالادستی کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بیش تر مسلمان ممالک کی حکومتوں نے اس عالمی معاہدے پر دستخط کیے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی امداد بھی کسی حد تک اس ایجنڈے کے نفاذ کے ساتھ مشروط رکھی گئی۔ باقاعدگی سے منعقد ہونے والے جائزہ اجلاسوں نے ان اہداف کے حصول میں مدد کی۔ عالمی میڈیا اور انٹرنیٹ اس تحریک کے لیے معاون ثابت ہوئے۔ خود مغربی تصورات کے تحت رونما ہونے والی نام نہاد ’عالم گیریت‘ نے ساری دنیا کی عورتوں کو غیر محسوس طور پر اس کا ممبر بنا دیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھنے جانے والے رویوں اور پیش آنے والے واقعات کو مغرب کے پیش کردہ تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔ اسی تسلسل میں دنیا کے بیش تر ممالک میں عورت کے حقوق کی علم بردار این جی اوز اس ایجنڈے کے لیے دنیا بھر میں سرگرم عمل ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے مسلم عورت کو عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے جو رہنمائی عطا فرمائی ہے‘ اسے انھی کی تحریروں سے منتخب کردہ نکات کی روشنی میں پیش کیا جا رہا ہے:
’’یہ نظریات جن پر نئی مغربی معاشرت اور (حقوق نسواں کی عالمی تحریک) کی بنیاد رکھی گئی ہے‘ تین عنوانوں کے تحت آتے ہیں:
مساوات کے معنی یہ سمجھ لیے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبے اور انسانی حقوق میں مساوی ہوں‘ بلکہ تمدنی زندگی میں بھی عورت وہی کام کرے جو مرد کرتے ہیں۔ معاشی‘ سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں‘ انتخابی جدوجہد‘ دفتروں اور کارخانوں میں ملازمت‘ آزاد تجارتی و صنعتی پیشوں میں مردوں سے مقابلہ‘ سوسائٹی کے تفریحی مشاغل میں شرکت‘ یا اور بہت سی نا کردنی و ناگفتنی مصروفیات۔
عورت کے معاشی استقلال‘ یعنی خود کمانے نے اسے مرد کی معاونت سے بے نیاز کر دیا‘ اور اصول یہ بنا کہ عورت اور مرد دونوں کمائیں اور گھر کا انتظام بازار کے سپرد کر دیا جائے۔
مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمایش‘ عریانی اور صنفی خواہش کو غیرمعمولی ترقی دے دی۔ اس قسم کی مخلوط سوسائٹی میں فطری طور پر دونوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ صنفِ مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنیں‘ لہٰذا ہوش سنبھالتے ہی انھی خواہشات کا دیوان کو دبوچ لیتا ہے۔
ہمارے اہل حل و عقد نے جب مرعوبیت سے مسحور آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت‘ آرایش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو دیکھا تو ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش! ہماری عورتیں بھی اس روش پہ چلیں‘ تاکہ ہمارا تمدن بھی فرنگی کا ہمسر ہو جائے۔ پھر وہ آزادی نسواں‘ اور تعلیم اناث اور مساوات مرد و زن کے ان جدید نظریات سے بھی متاثر ہوئے‘ جو طاقت ور استدلالی زبان اور شان دار طباعت کے ساتھ بارش کی طرح مسلسل ان پر برس رہے تھے۔ اس لٹریچر کی زبردست طاقت نے ان کی قوت تنقید کو ماؤف کر دیا اور ان کے وجدان میں یہ بات اتر گئی کہ ان نظریات پر ایمان بالغیب لانا اور تحریر و تقریر میں ان کی وکالت کرنا (بقدر جرات و ہمت) عملی زندگی میں بھی ان کو رائج کر دینا‘ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو ’’روشن خیال‘‘ کہلانا پسند کرتا ہو اور ’’دقیانوسیت‘‘ کے بدترین الزام سے بچنا چاہتا ہو‘‘۔
۱- معاشرتی مسائل جو اکثر مسلم معاشرے میں رواج پا چکے ہیں‘ گو اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں‘ ان کو ایک خاص انداز سے اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے بیش تر سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں‘ تاہم ان کی شدت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں قرآن سے شادی‘ کاروکاری‘ گھروں میں عورتوں کی بے جا مار پیٹ‘ مٹی کے تیل کے چولہوں کے پھٹنے کے واقعات میں عموماً عورتوں کا زخمی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
۲- دوسرے وہ نکات جن کی زد براہ راست اسلام کے قوانین پر پڑتی ہے۔ مثلاً وراثت‘ گواہی اور دیت میں نصف مقدار کی بنا پر ’’آدھی عورت‘‘ کہا گیا۔ عورت کے لیے حجاب و ستر کی حدود‘ چار شادیوں کی اجازت‘ پسند کی شادی‘ حدود قوانین‘ آئین پاکستان سے قرارداد مقاصد اور اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے وغیرہ کا غلغلہ۔
۳- تیسرا حصہ‘ براہ راست تو نہیں مگر بالواسطہ اسلامی اقدار اور نظریاتی اساس کو متاثر کرنے والا ہے۔ عورتوں کی بیرون خانہ سرگرمیوں کے لیے چلائی جانے والی تحریک‘ ملازمتوں کا کوٹہ‘ ۳۳ فی صد سیاسی نمایندگی‘ ہر میدان میں مخلوط ملازمت‘ وغیرہ کا عنوان یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے‘ کیونکہ عورت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی نفی کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔
مذکورہ بالا تینوں امور کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھ کر اسلام نے عورت کو وسیع تمدنی و معاشی حقوق دیے ہیں‘ اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں اور ان حقوق و مراتب کی حفاظت کے لیے اخلاقی و قانونی ہدایات میں جیسی پائے دار ضمانتیں مہیا کیں ہیں‘ ان کی نظیر دنیا کی کسی قدیم و جدید معاشرت میں نہیں ملتی۔
تمدنی حقوق: شوہر کے انتخاب کا عورت کو پورا پورا حق دیا گیا ہے۔ ایک ناپسندیدہ یا ظالم یا ناکارہ شوہر کے مقابلے میں عورت کوخلع اور فسخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت کی گئی ہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ(النساء ۴:۱۹)‘یعنی عورت کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو۔ اسی طرح نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں‘‘۔
بیوہ اور مطلقہ کو نکاح ثانی کا غیر مشروط حق دیا گیا ہے‘ جو آج تک یورپ و امریکہ کے بیش تر ممالک میں نہیں ملا۔
مرد و عورت کے درمیان امتیاز کے خاتمے کے لیے جان‘ مال اور عزت کے تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں برتتا۔
عورتوں کی تعلیم‘ عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اسے ضروری قرار دیا گیا۔
قرآن پاک میں واضح کر دیا گیا: ’’اور جو نیک عمل کرے گا‘ خواہ مرد ہو یا عورت ‘بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی‘‘۔ (النسائ۴:: ۱۲۴)
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے باطنی اصلاح پر ہی اکتفا نہیں فرمایا‘ بلکہ قانون کے ذریعے عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا انتظام بھی کیا۔ اور عورتوں میں اتنی بیداری پیدا کی کہ وہ اپنے جائز حقوق کو سمجھیں اور ان کی حفاظت کے لیے قانون سے مدد لیں۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ جب تک حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم زندہ رہے ہم اپنی عورتوں سے بات کرنے میں احتیاط کرتے تھے کہ مبادا ہمارے حق میں کوئی حکم نازل ہو جائے‘ اور جب حضور اکرم ؐنے وفات پائی تب ہم نے کھل کر بات کرنا شروع کی۔ (الجامع الصحیح)
خاندان کا نظام عورت اور مرد کے اس مستقل اور پائے دار تعلق سے بنتا ہے جس کا نام نکاح ہے۔ یہی چیز ان کی انفرادیت کو اجتماعیت میں تبدیل کرتی ہے اور صنفی انتشار کے میلانات کو تمدن کا خادم بناتی ہے۔ اسی نظام کے دائرے میں محبت و ایثار کی وہ فضا پیدا ہوتی ہے‘ جس میں نئی نسلیں صحیح تربیت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔ اسی تصور نکاح کے ساتھ ازواج کی ذمہ داریوں‘ ان کے حقوق و فرائض اور ان کے اخلاقی انضباط کا بوجھ سہارا جا سکتا ہے‘‘۔
خاندان کے اس دائرے میں‘ دائرہ کار کی تقسیم کرتے ہوئے معاشی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی۔ اس کو قوام و منتظم قرار دیا (provider & sustainer) ‘ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْط (النساء ۴:۳۴)’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے‘ اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ جب کہ عورت کو فرماں برداری‘ شکر گزاری اور اپنی عفت و شوہر کے مال کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اولاد کی پیدایش و پرورش عورت کا وظیفۂ زندگی قرار دیا گیا۔ اولاد کے لیے ’’ضعف پرضعف اٹھایا‘‘ کہہ کر عورت کی وکالت کی‘ سعی ہاجرہ کو مردوں کے لیے بھی حج و عمرے کا لازمی رکن قرار دے کر اس اہم ذمہ داری کو تسلیم کروایا۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّط (البقرہ ۲:۱۸۷) ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘ کہہ کر ایک دوسرے کے لیے حفاظت‘ زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ قرار دیا۔
اسلام کی تعلیمات تو یہ تھیں مگر اسلامی معاشرے میں رواج پانے والے بہت سے رویے اور معاملات اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وراثت میں استحقاق رکھنے کے باوجود‘ وراثت سے محروم کرنے کے لیے نہایت قبیح رسوم کو اپنانا‘ مہر کا خوش دلی کے ساتھ‘ پوری طرح ادا نہ کرنا‘ یہ ظلم تو خود دین کی سمجھ رکھنے والوں میں بھی عام ہے۔ شادی کے موقع پر ۳۲ روپے غیر شرعی مہر مقرر کرنے کی حکایت کا وجود‘ یا پھر زیادہ رقم مقرر کر دینا‘ مگر ادا نہ کرنا‘ یا مختلف حیلے بہانے سے بیوی کو محبور کر کے معاف کرا لینا اور اس فعل کی حرمت کے بارے میں لاپروائی برتنا‘ ہمارے آج کے مسلم معاشرے میں معیوب نہیں ہے۔ نان نفقہ‘ یعنی کھانا‘ لباس اور رہایش کے خاطر خواہ انتظام سے بے نیازی و عدم دل چسپی‘ شادی میں لڑکی کی مرضی معلوم کرنے کو غیر اہم جاننا‘ ناپسندیدہ شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے تک کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ بیوی کی تفریح و دلجوئی و احسان کے معاملے کا نہ ہونا‘ بیوی کی ملکیت تسلیم نہ کرنا‘ خاندانی اکائی کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ دیگر غیر اسلامی رسمیںجن میں جہیز‘سورا‘ونی‘ قرآن سے شادی‘ کاروکاری اور عورت کے گھر والوں سے معاشی مطالبات وغیرہ بھی مروج ہیں۔
معاشرے میں نئی تبدیلیاں بھی واضح ہیں۔ عورت کی ملازمت ایک حق اور رواج بنتا جا رہا ہے۔ بچوں کو ڈے کیئر سنٹر بھجوانا‘ خاندانی منصوبہ بندی کا عام ہونا اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی تگ و دو کے لیے اس کی وکالت۔ اس کے ساتھ زوجین کی باہم ناراضیاں‘ خلع کی شرح میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ‘ مردوں کے ساتھ اختلاط کے لیے پہلے کی سی کراہت کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ یوں خاندانی اکائی کا استحکام متاثر ہو رہا ہے۔
مولانا فرماتے ہیں: ’’ضرورت اس امر کی تھی کہ مرد کے ساتھ عورت کے تعاون کی ایسی سبیل مقرر کر دی جائے کہ دونوں کا اشتراک عمل ہر حیثیت سے تمدن کے لیے صحت بخش ہو۔ اس نقطۂ عدل کو دنیا صد ہابرس سے تلاش کرتی رہی‘ مگر آج تک نہیں پا سکی‘ کبھی ایک انتہا کی طرف جاتی ہے تو پورے نصف حصے کو بیکار بناکر رکھ دیتی ہے۔ کبھی دوسری انتہا کی طرف جاتی ہے‘ اور انسانیت کے دونوں حصوں کو ملا کر غرق مے ناب کر دیتی ہے۔ افراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل کا راستہ دکھانے والا کوئی ہو سکتا تھا تو وہ صرف مسلمان تھا جس کے پاس اجتماعی زندگی کی ساری گتھیوں کے صحیح حل موجود ہیں‘ مگر دنیا کی بدنصیبی کا یہ بھی دردناک پہلو ہے کہ دوسروں کو راستہ دکھانا تو درکنار وہ خود اندھوں کی طرح ہر بھٹکنے والے کے پیچھے دوڑتا پھرتا ہے‘‘۔
لہٰذا ہر مسلمان عورت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا چاہیے: کیا آپ کو مغربی معاشرت اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی حقوق نسواں کی عالمی تحریک کا حصہ بننا ہے یا مسلمان معاشرے میں اسلام کے عطا کردہ حقوق کے حصول کے لیے معاون بننا ہے یا معاون نہیں بننا۔
اگر ایک ایسے صالح اور پاکیزہ تمدن کی ضرورت ہے‘ اور اگر ہم اسلام کے محکم اور آزمودہ نظام معاشرت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کا راستہ اختیار کرنا چاہیے‘ اس کے ضابطے اور اس کے ڈسپلن کی پوری پوری پابندی کرنی چاہیے۔ ہمیں ان نظریات‘ تخیلات سے بھی اپنے دماغ کو خالی کرنا ہو گا جو مغرب سے مستعار لے رکھے ہیں۔ اسی طرح اسلام کو غیراسلامی تصورات سے مسخ کرنے سے لازماً باز آنا ہو گا۔ یہ عملی تصور ہی اسلام کی اشاعت و تعارف کا ناقابل تردید ثبوت ہو گا۔ اس کے لیے درج ذیل طریق اختیار کیے جا سکتے ہیں:
اسلامی معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کے لیے‘ عورت اور مرد دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ وگرنہ یہ بگاڑ مسلمان عورت کو ہی نہیں مرد کو بھی متاثر کرے گا۔ اس کے بالمقابل یہ کسی ایک مسلمان عورت کے لیے ہی نہیں‘ دنیا بھر کی عورتوں کے لیے ایک نمونہ و پناہ ہو گا۔ دین کی قدروں کا عملی ابلاغ ہی تشہیر و اشاعت دین کا بہترین ذریعہ ہے۔ (ماخوذ: پردہ‘ حقوق الزوجین‘ مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)