صحابہ کرامؓ اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ یہ جان سکیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ بہت ساری نیکیوں میںسے کون سی نیکی آخرت میں خیر کے پلڑے میں سب سے وزنی ہو گی؟
قرآن و سنت سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں جن سے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سے ہیں ، اور اعمال کے درجے کیا ہیں؟ پھر یہ رہنمائی بھی ہے کہ ایک ہی عمل ایک وقت میں اگر اجر کے لحاظ سے افضل ترین ہوتا ہے تو دوسرے حالات یا وقت میں اس کا وہ درجہ نہیں رہتا۔ اسی طرح بُرے اعمال جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ، ان کے درمیان فرق کو قرآن و حدیث میں واضح کیا گیا ہے۔
ربّ کی رضا کے متلاشی اور اس کے لیے کوشش کرنے والے اور رب کی ناراضی سے بچنے والوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اعمال کے درجوں کے بارے میں علم حاصل کریں ۔ فرض ، واجب ، مستحب اور نفل میں کیا فرق ہے؟ یہ درجہ بندی کیوںہے اور کون سے اعمال کس زمرے میں آتے ہیں؟ ایسے ہی جن کاموں سے رُکنا ہے، ان میں بڑے گناہ یا کبائر، صغائر ، مشتبہہ اور مکروہ اعمال کون سے ہیں؟ یہی علم ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔یہ علم نہ ہو، تو ہم عمل کریں گے، مگر غیراہم کو اہم بنا لیں گے اور اہم کو غیر اہم سمجھ لیں گے جو کہ بہت زیادہ نقصان کا سودا ہو گا۔ جو لوگ دین سے محبت رکھتے ہیں ،پابندی سے عمل کرتے ہیں، وہ بھی اکثر اوقات ان تفصیلات اور اس ترتیب تک کو نہیںجانتے۔
دین دار اپنی انفرادی زندگی میں نفلی حج اور رمضان کے عمرے پر خرچ کرنا زیادہ اہم جانتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ اپنے خاندان کے کسی تنگدست کی مدد کی جائے ، کسی مصیبت زدہ ملک،فلسطین یا کشمیر کے باسیوں کی بنیادی ضرورتوں کے لیے عطیہ دیا جائے ۔ کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کریں یا اس کی کفالت کریں، جہاں تخصص حاصل کر کے ایسے افراد تیار ہوں، جو دلیل کے ساتھ اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے شبہات کا جواب د ے سکیں۔
دین کا شعوری تعارف اور جذبہ بیدار ہونے کے بعد بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ کئی افراد اپنے تعلیمی میدان کو خیر باد کہہ کر ، دعوت و ارشاد کے لیے فارغ ہوجاتے ہیں۔ حالاںکہ اگر وہ اچھی نیت کے ساتھ، اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے، حدود اللہ کی پابندی کرتے، تو یہ عمل بڑی عبادت تصور ہوتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے بڑے پیمانے پر یہ مطالبہ نہیں کیا کہ تم اپنے پیشے چھوڑ کر دعوت و تبلیغ کے لیے فارغ ہو جائو۔ہجرت سے پہلے ، ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے اور دعوت کا کام بھی سرانجام دیتے رہے۔ جب جہاد کے لیے اعلان ہوتا تو اس کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔
امام غزالی نے اپنے دور میں لوگوں کے لیے یہ بات ناپسند کی کہ ان کے اکثر طالب علم ، علم فقہ وغیرہ کی طرف متوجہ رہتے۔ دوسری طرف مسلم ممالک میں علاج معالجے کے لیے عیسائی یا یہودی طبیب ہی ہوتے، جو عورتوں اور مردوں کا علاج کرتے۔
۱۹۷۳ء میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات کا ایک وفد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے ان کی رہایش گاہ پر ملا، راقمہ بھی اس وفد میں شامل تھی۔ عرض کی: ’’ہم ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ، مرُدوں کی چیر پھاڑ (ڈاسیکشن) کر کے پڑھتے ہیں ،یہ مرُدوں کی بے حرمتی میں آتا ہے۔ ہم دین پر مکمل عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم میڈیکل کی تعلیم چھوڑ دیں‘‘۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ہمارے اجتہاد سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ: ’’اگر سب اس طرح سوچیں ،تو ان شعبوں میں جس اصلاح کی ضرورت ہے ، وہ کون کرے گا؟‘‘ آپ نے اس کام کو بہ کراہت مکمل کرنے اور بڑے ہدف پر نظر رکھنے کا کہا اور مثال دی کہ گلاس کے گدلے پانی کو صاف پانی سے بدلنا ہو تو اس عمل میں درمیان کا وقت ، گدلے پانی کا ہو گا، مگر صاف پانی تک پہنچنے کے لیے اس گدلے پانی سے گزرنا ، ناگزیر ہے۔ اس کے سوا چارہ نہیں ،سو آپ اپنی تعلیم جاری رکھیں اور آیندہ اس کوخلاف اسلام امور سے پاک کریں۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے{ FR 644 } ہیں کہ امریکا، کینیڈا اوردوسرے یورپی ممالک میں رہایش پذیر مسلمان،ہم سے یہ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں پہنیں یابائیں ہاتھ میں، کوٹ پتلون پہناجاسکتا ہے یا شلوار قمیص پہننا فرض ہے؟عورتوں کامسجدوں میں جانا حلال ہے یا حرام؟
ترجیح کو نظرانداز کرنے کی روش پر چلتے ہوئے، ہم نے ان بہت سارے فرائض کفایہ کو چھوڑدیا ہے، جو مسلمان امت کو دنیا کی قیادت کے منصب پرفائز کرنے کے لیے ناگزیر تھے،مثلاً سائنسی،عسکری ،صنعتی برتری۔
بعض ایسے امور کوبھی چھوڑ دیا ہے، جو فرض عین کے درجے میں آتے ہیں، یعنی یہ کہ ہر فرد پر ان کا کرنا لازم ہے۔اگر چھوڑا نہیں تو انھیں وہ مقام نہیںدیا جودینا چاہیے تھا۔امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ بیان کرتے ہوئے ،اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ کی آیت ۷۱ میں اسے نماز اورزکوٰۃ سے پہلے بیان کیاہے۔اس فریضے کے ترک پربنی اسرائیل کے لیے ان کے نبیوں کی زبان سے لعنت کی گئی ہے۔
بعض اُمور کوبعض پرزیادہ اہمیت دے رکھی ہے۔بہت سارے بے نمازی ،رمضان کے روزے شوق سے رکھتے ہیں۔بعض کے ہاں نوافل کااتنا اہتمام کہ فرائض اور واجبات کابھی وہ اہتمام نہیں ہے۔
عبادات پہ بجاطور پر توجہ ہے،مگر معاشرتی فرائض کاوہ درجہ نہیں ہے۔جن میں والدین سے حُسن سلوک،رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی،یتیموں اورمسکینوں کاخیال رکھنا،اہل خانہ کے حقوق شامل ہیں۔ دوسری طرف یہ صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ دعوت کاکام کرنے کاایسا شوق اور مشغولیت کہ گھر میں بچوں کی تعلیم وتربیت،خانگی ضروریات اوربزرگوں کی خدمت میں کوتاہی ہونے لگتی ہے۔
ملازمت میں ایسی مشغولیت ہے کہ دین کاعلم سیکھنے اوردعوت کے کام کے لیے وقت نکالنا گراں محسوس ہوتا ہے۔مرکزومحور اپنی ذات ہے تومال بھی یہاں ہی خرچ ہوتا ہے۔کہیں اورخرچ کرنے کے لیے بچتا ہی نہیں ہے۔
چہرے کے پردے کی ایسی سختی کہ گھر میں آئے شوہر کے محرم رشتہ دار کے لیے دروازہ کھولنا اور بٹھانا تک ناممکن۔ گھر آئے مہمانوں کی مناسب میزبانی کے بجاے پردے کی بنا پر کمرے میں بند ہوجانا۔ دوسری طرف ملازمت اوراعلیٰ تعلیم کاایسا شوق اورآگے بڑھنے کی اتنی لگن کہ گھر باربچے،سب اس پر قربان کردیے جاتے ہیں۔
یہ سب خرابیاں اس بنا پر آتی ہیں کہ ہمیں ترجیحات کاتعین معلوم نہیں،کس وقت کون سا کام اہم ترین ہے،کس کوکس پرترجیح دینی ہے اورکس کوچھوڑ دیں تو خیر ہے؟ اس کے لیے یہ علم ناگزیر ہے کہ اعمال کے درجے کیا ہیں،اورحالات کے ساتھ ان کے درجے کیسے بدل جاتے ہیں؟
ترجیحات کی اہمیت، اللہ تعالی کے اس ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جان فشانی کی اللہ کی راہ میں۔ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑ ے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔(التوبہ ۹:۱۹-۲۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس بات کی وضاحت کرتا ہے۔ فرمایا:
اَلْایمَانُ بِضْعٌ وّسَبْعُونَ شُعبَۃً، اَعْلَا ھَا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہُ وَاَدْنَا ھَااِمَاطَۃُالْائَ ذَی عَنِ الطّرِیْق (بخاری،کتاب الایمان) ایمان کے۷۰ کے لگ بھگ شعبے ہیں ان میں سے اعلیٰ شعبہ لا الٰہ الا اللہ ہے اور ادنیٰ یہ کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا جائے۔
قرآن و سنت میں اس حوالے سے جو تعلیمات وارد ہوئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں افضل، اولیٰ اور سب سے پسندیدہ اقدار و اعمال کیا ہیں؟ یعنی فرض، واجب، مستحب اور نوافل کون کون سے ہیں؟یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ بعض احادیث میں ان کے درمیان جو نسبت ہوتی ہے وہ بیان کر دی گئی ہے جیسے:
باجماعت نماز انفرادی نماز سے ۲۷درجے فضیلت رکھتی ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، ابواب صلاۃ الجماعۃ ، حدیث: ۶۲۸)
اللہ کی راہ میں ایک ساعت پہرہ دینا اس سے بہتر ہے کہ آدمی لیلۃ القدر کو حجراَسود کے پاس کھڑا عبادت کرتا رہے۔ (بیہقی، باب فی المرابطۃ، حدیث: ۴۱۰۵)
اسی طرح بُرے اعمال کی بھی درجہ بندی موجود ہے۔ ان میں کچھ کبائرہیں، کچھ صغائر ہیں، پھر مکروہات اور مشتبہات ہیں۔ بعض اوقات ان کی بھی آپس میں نسبت بیان کی گئی ہے، مثلاً ایک آدمی جان بوجھ کر ایک درہم سود کھائے تو یہ اس سے شدید تر ہے کہ ایک شخص۳۶ بار زنا کا مرتکب ہو( دارقطنی، کتاب البیوع، حدیث: ۲۴۸۷)۔ لیکن اس کا مطلب زنا کو کم تر ثابت کرنا نہیں، بلکہ سود کے ناجائز ہونے کی شدت کو واضح کرنا ہے۔
قرآن پاک میں یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ سارے لوگ مرتبے کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں بلکہ علم و عمل کے لحاظ سے لوگوں کے دمیان فرق ہوتا ہے۔ فرمایا:’’ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، ان دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگر چہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں او ر مغفرت او ررحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (النساء ۴:۹۵-۹۶)
یہ موازنہ دراصل بھلائیوں کا آپس میں موازنہ کرنا ہے۔ دوسرے برائیوں کا آپس میں موازنہ ہے، اور تیسرے بھلائیاں اور برائیاں جب دونوں موجود ہوں تو اس وقت ان کے درمیان موازنہ کر کے فیصلہ کرنا ہے۔ بھلائیوں کے موازنے کے تین درجات ہیں۔ یہ تین درجے، ضروریات، حوائج یا آسانیاں اور محسنات یا تعیشات ہیں۔
ضروریات وہ ہیں جو زندگی کے لیے ضروری اور بنیادی ضرورتیں ہیں:
حوائج یا آسانیاں وہ ہیں، جن کے بغیر زندگی توگزر جاتی ہے مگر مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ محسنات اور تعیشات وہ ہیں جو زندگی کو حسین و جمیل اور انتہائی آرام دہ بنا دیتی ہیں۔
سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ، یعنی گھر بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے اندر مہمان کے لیے کمرہ، مکین کے لیے کمرہ، کھانا پکانے کی جگہ وغیرہ وغیرہ آسانیاں مہیا کرتے ہیں، لیکن ان کو بہت کشادہ کرنا، بہت سجانا وغیرہ تعیشات میں آتے ہیں۔ ضروریات کا اہتمام کرنا فرض ہے۔ آسانیاں حاصل کرنے کی گنجایش ہے مگر تعیشات ناپسندیدہ ہیں۔ اس لیے ضروریات کو آسانیوں پر ترجیح اور آسانیوں کو تعیشات پر ترجیح دینا ضروری ہے ۔
ضروریات میں بھی پانچ چیزیں ہیں: دین، جان ، نسل، عقل اور مال۔ ان میں دین پہلے اور سب سے اہم ہے اور باقی ضروریات پر مقدم ہے۔ یہاں تک جان پر بھی مقدم ہے اور جان باقی ضروریات پر مقدم ہے۔
بھلائیوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھائے جائے: بڑی مصلحت چھوٹی مصلحت پر مقدم ہے ، جماعتی مصلحت جس میں سب کا فائدہ ہو، انفرادی مصلحت پر مقدم ہے ، اکثریت کی مصلحت ،اقلیت کی مصلحت پر مقدم ہے، دائمی مصلحت عارضی مصلحت پر مقدم ہے۔ مستقبل کی قوی مصلحت حال کی کمزور مصلحت پر مقدم ہے، جیسے صلح حدیبیہ میں نبیؐ نے اصل اور بنیادی، مستقبل کی مصلحتوں کو ظاہر اور فوری مصلحتوں پر مقدم رکھ کر شرائط قبول کرلیں۔
برائیوں کے درمیان موازنہ بھی ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان کے بھی مختلف درجے ہیں۔ وہ برائیاں جو مال کے نقصان کا ذریعہ بنیں ان کا درجہ کم ہے۔ اُن سے جوجان کے نقصان کا باعث بنیں، اور جان کے نقصان والی کا درجہ دین کے نقصان کا باعث بننے والی برائیوں سے کم ہے۔
پھر برائیاں اپنے حجم، اثرات اور خطرات کے لحاظ سے بھی مختلف درجوں کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کے لیے فقہا نے بعض قواعدوضع کیے ہیں، مثلاً دو برائیوں میںسے کم تر کا انتخاب کیا جائے یا بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جائے۔
اگر کسی معاملے میں بھلائیاں اور برائیاں یا فائدے اور نقصان دونوں ہوں تو ان کے درمیان بھی موازنہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ کسی معاملے میں برائیاں زیادہ اور فائدے کم ہوں تو اس کو اختیار نہیں کیاجائے گا۔ یہی بات قرآن نے شراب کے مسئلے میں سمجھائی: ’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگر چہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘۔(البقرہ۲ :۲۱۹)
ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے ، ایک اور نکتہ ایمان اور اعمال میں ترجیح کے تعین کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف کرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے‘‘ (البقرہ۲:۱۷۷)۔ یعنی ایمان سب سے مقدم ہے اور عمل اس کے بعد ہے۔ ایمان پہلے لانا ہو گا، پھر عمل اور جتنا ایمان مضبوط ہو گا، اتنا عمل بہتر ہو گا۔
ایمان کے بعد اعمال ہیں اور اعمال میں ترتیب: فرائض ، واجبات اور مستحبات ہے۔ بنیادی فرائض میں عبادت: یعنی نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃہیں۔ ان فرائض میں بھی فرائضِ العین ہیں اور فرائضِ کفایہ ہیں۔ فرضِ عین اہم تر ہے۔ فرضِ عین وہ ہے جس کی ادایگی ہر فرد پر لازم ہے۔ اس کے بعد فرض کفایہ ہے، یعنی کچھ لوگ کر لیں تو بقیہ پہ لازم نہیں رہتا لیکن کچھ حالات میں فرضِ کفایہ فرضِ عین بن جاتا ہے۔ اگر ایک محلے میں ۵۰فقیہہ ہیں اور ایک طبیب ہے اور وہ بھی غیرمسلم تو طب کا علم حاصل کرنا، فرضِ کفایہ نہیں ، فرضِ عین ہو گا۔ فرضِ عین میں حج پر نماز مقدم ہے، اور فرائضِ کفایہ میں والدین کی خدمت مقدم ہے جہاد پر۔ یعنی حالات کے لحاظ سے ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تو ہدایت کی: پہلے اللہ اور اس کے رسولؐ پہ ایمان کی دعوت دینا۔ پھر پانچ نمازوں کا کہنا، مان لیں تو صدقہ اور پھر زکوٰۃکا حکم دینا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث ۱۳۴۲)
تربیتِ نبویؐ کے انداز کو سمجھنا بھی اہم تر ہے۔ جس میں پہلے ارکانِ اسلام اور اساسیات ، بنیادی امور کی تعلیم دیتے اور پھر جزئیات پر عمل کی تلقین فرماتے۔ دین کے مزاج کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ آدمی سنن اور نوافل میں مشغول رہے اور فرائض سے غفلت اور سستی اختیار کرے۔
بعض اوقات راتوں کو اُٹھ کر نمازِ تہجد کا اہتمام کرنے والے، صبح اپنی ملازمت کو ایسے جاتے ہیں کہ تھکاوٹ اور سستی دور نہیں ہوئی ہوتی، حالانکہ یہاں کے وقت کی وہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ اس کا پورا پورا حق ادا نہیں کر پاتے۔ گویا اچھے طریقے سے کام کرنا بھی فرض ہے۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ: یہ کوتاہی امانت میں خیانت ہے اور مہینے کے آخر میں آدمی جو تنخواہ لیتا ہے وہ حرام کا مال ہوتا ہے۔ رات کا قیام نفل ہے ،جو اللہ نے فرض نہیں کیا۔ فقہانے یہ بات طے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نفل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کہ فرض کو ادا نہ کیا جائے۔
امام راغب فرماتے ہیں کہ: جو شخص فرض کی ادایگی میں نفل سے غافل رہا، اس کو معذور سمجھا جائے گا، مگر جو شخص نفل کی ادایگی کا اہتمام کرے مگر فرض سے غافل ہوگیا، وہ دھوکے میں ہے۔
فرضِ عین میں حقوق العباد، حقوق اللہ پہ فوقیت رکھتے ہیں۔ علمانے کہا ہے کہ اللہ کے حقوق مسافت، یعنی نرمی و چشم پوشی پر مبنی ہیں، اور حقوق العباد مشاخت ،یعنی لڑائی جھگڑے پر مبنی ہیں۔ مثال یوں ہے کہ حج واجب ہے اور دوسری طرف قرض کی ادایگی واجب ہے، تو ان میں قرض کی ادایگی پہلے کرنا ہو گی۔
فرائض میں اور حقوق العباد میں جو فرائض جماعت کے حقوق سے تعلق رکھتے ہیں ، ان فرائض پر جن کا تعلق افراد کے حقوق سے ہے، ان کو ترجیح حاصل ہو گی۔
مثال کے طور پر حکومت کا ٹیکس لگانا بظاہر چند افراد کے مال کو نقصان پہنچانا ہے، مگر اس سے حکومت بہت سارے افراد کے لیے درکار ملکی ضروریات کو پورا کرتی ہے، تو یہ ایک افضل عمل ہے کہ یہ ملک کی حفاظت یا رفاہ عامہ کے دیگر امور کے لیے ضروری ہے۔
منہیات،یعنی جن کاموں سے منع کیا گیا۔ان کی اقسام اور ان میں ترجیح کا علم ہونا بھی اہم ہے۔ اس فہرست میں درج ذیل کو ذہن میں رکھنا ہو گا:
ریاکاری ایک طرح کا شرک ہے۔ ریا کار کا اپنے عمل سے مقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس سے راضی ہوں، اس کی تعریف کریں اور اس کی بزرگی وشرافت کا تذکرہ کریں۔ ایسے شخص کا عمل لوگوں کو راضی کرنے، ان کے درمیان اپنا مقام و مرتبہ بلند کرنے کی سعی ہوتی ہے، اور بظاہر لوگوں کو دکھاتا ہے کہ وہ رب کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اللہ اسے روزِ قیامت ذلیل کرے گا۔ (مختلف احادیث کا مفہوم)
یہ بھی ذہن میں رہے کہ حالات زمانہ اور ارتکاب کرنے والے فرد کے لحاظ سے بھی گناہ میں فرق آ جاتا ہے، جیسے کنوارے ، شادی شدہ اور بوڑھے کے زنا میں فرق ہے۔ اسی طرح مسجد میں یا ہمسایے سے زنا میں فرق ہے۔
کمائی میں تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کہا ہے۔ یعنی جس چیز کی حرمت کو قرآن و سنت میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے وہ حرام ہے۔
ابلیس کو گناہ کے مقابلے میں بدعت زیادہ اچھی لگتی ہے کیوں کہ بدعت کا کرنے والا نہ توبہ کرتا ہے، نہ باز آتا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہے۔ بسا اوقات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امور کو مزید ’معتبر‘ بنانے کی کوشش میں عملاً تحریف کردیتا ہے۔
بدعتیں بھی مختلف درجات کی ہیں۔ کچھ بدعات مغلظہ جو آدمی کو کفر تک پہنچاتی ہیں جیسے وہ فرقے جو اسلام کے اصول سے ہی نکل جاتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو کفر تک تو نہیں فسق تک پہنچا دیتی ہیں۔
ایک اَن پڑھ آدمی کو کسی با اعتماد عالم سے پوچھ لینا چاہیے۔ خود مشتبہات کے حوالے سے لوگوں کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ وسوسے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور انتہائی معمولی مناسبت ہو، تب بھی، مشتبہات کی تحقیق میں وقت اور صلاحیت صرف کرتے ہیں۔ بعض تاویلات کر کے ناممکن کو ممکن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اللہ کسی مسلمان سے اتنی گہرائی میں جانے اور اتنی نکتہ چینی کا تقاضا نہیں کرتا۔ صحابہ کرامؓ مشرکین اور اہلِ کتاب سے لین دین کرتے تھے، حالانکہ ان کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ تمام حرام چیزوں سے اجتناب نہیں کرتے۔
اگر معاملہ مشتبہ ہو تو اس کو چھوڑ دینا بہتر ہے۔ حضرت سفیانؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس سے کوئی رغبت نہیں، اسے اختیار کرنے کے مقابلے میں مجھے اس کا ترک کرنا زیادہ مرغوب ہے۔
اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی پڑوسی ہے جو کھلم کھلا سود کھاتا ہے اور حرام لینے سے نہیں ہچکچاتا، وہ مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلاتا ہے تو میں کیا کروں؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس کی دعوت کو قبول کرو۔ یہ تمھارے لیے جائز ہے اور گناہ اسی کے ذمے ہے۔(مصنف عبدالرزاق، حدیث: ۱۴۱۹۰)