کچھ باتوں کو نظرانداز کرنا بہتر ہوتا ہے، لیکن چند بنیادی باتوں کی وضاحت ملک سے محبت کی مجبوری بن جاتی ہے۔ مغالطہ انگیزی پر مشتمل تحریروں میں ایک دل چسپ تضاد بھی نظر آتا ہے۔
ایسے عالم و فاضل اور محقق حضرات، جو سچ لکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اُن میں سیکولر اور اسلام پر عالمانہ اور اجتہادی کالم لکھنے والے دونوں قسم کے حضرات شامل ہیں۔ بعض اوقات یہ ہوتاہے کہ نظریاتی حوالے سے دونوں متضاد گروہ بھی ایک دوسرے کے مماثل نظر آتے ہیں۔
ان دونوں قسم کے فاضل حضرات سے میرا محض ایک سوال ہے: ’’آپ کو کیسے علم ہوا کہ قائداعظم پاکستان کو فلاحی و جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے؟‘‘ اگر تو آپ نے یہ بات محض پروپیگنڈا سن کر لکھ دی ہے تو آپ قارئین سے بے انصافی کر رہے ہیں، کیونکہ قارئین آپ سے تحقیقی اور عالمانہ سچ کی توقع کرتے ہیں۔ اگر آپ نے قائداعظم کی تقاریر پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے، تو آپ ادھورے سچ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
قائداعظم نے اپنی تقریروں اور خطبات میں چند بار فلاحی اور کئی بار جمہوری پاکستان کا تصور پیش کیا۔ لیکن انھوں نے قیام پاکستان سے قبل سو بار سے زیادہ اور قیامِ پاکستان کے بعد بحیثیت گورنر جنرل چودہ بار یہ اعلان کیا کہ وہ ’پاکستان کو ایک اسلامی، جمہوری ریاست‘ بنائیں گے۔ انھوں نے بار بار یہ وضاحت کی کہ: ’’پاکستان کے دستور کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی‘‘۔
عید میلاد النبیؐ کے موقعے پر ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے ’پاکستان میں شریعت کے نفاذ‘ کا اعلان دُہرایا، اور فروری ۱۹۴۸ءمیں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں پاکستان کو ’پریمئر اسلامک اسٹیٹ‘ قرار دیا۔ ایسے اَن گنت حوالوں کے پس منظر میں، ان حضرات سے میرا یہ سوال ہے کہ: ’’عزیزو! جہاں آپ کو قائداعظم کے تصورِ پاکستان میں جمہوری فلاحی پاکستان نظر آتا ہے، تو وہاں پر آپ کو اسلامی نظر کیوں نہیں آتا کہ جس پر قائداعظم نے بار بار زور دیا؟‘‘
تحقیق کا پہلا اصول سچ ہے اور جب تحقیق کے نام پر ادھورا سچ بولا یا لکھا جائے، تو سمجھ لیجیے کہ یہ دھماچوکڑی کسی ایجنڈے یا وسیع پروگرام کا حصہ ہے۔ اس میں دل چسپ بات یہ ہے کہ سیکولر اور دین سے بے زار حضرات تو قائداعظم کے پاکستان کو محض ’جمہوری اور فلاحی ریاست‘ تک محدود رکھتے ہی ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر میں نے بعض مذہبی شخصیات کو بھی اسی ایجنڈے کا ’سوداگر‘ پایا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انھوں نے قائداعظم کی تقاریر پر نظر نہ ڈالی ہو، اور یہ بھی ممکن نہیں کہ انھیں ان تقاریر میں اسلام کا سنگ بنیاد نظر نہ آیا ہو۔ یہ محض ان کی مذہب سے بے زاری ہے، جو جمہوری فلاحی ریاست سے پہلے ’اسلامی‘ کا لفظ لکھنے نہیں دیتی۔ حالانکہ آج کا پاکستان بھی کم سے کم آئین کی حد تک اسلامی و جمہوری ہے۔ جب اسلامی کہا جائے تو فلاحی کے اضافی لفظ کی اس لیے ضرورت نہیں رہتی کہ ’اسلامی‘ میں ’فلاحی کا تصور‘ جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی پس منظر میں سیکولر حضرات کی ’قرارداد مقاصد‘ سے بے زاری سمجھ میں آتی ہے۔ یاد رہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کی تھی، اور اسے پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا۔ قائداعظم کے بعد قائدِ ملت لیاقت علی خان سب سے زیادہ مقبول اور مضبوط قومی لیڈر تھے۔ یہ بھی ایک قابلِ توجہ بات ہے کہ یہ حضرات ’قرارداد مقاصد‘ پر وہی اعتراضات کرتے ہیں، جو اس وقت کے ہندو اور کانگریسی اراکین اسمبلی نے کیے تھے۔ کانگریسی اراکین اسمبلی کو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تحفظات تھے، حالانکہ قرارداد کے پیرا۹ اور ۱۰ میں تمام شہریوں کو برابری، بنیادی حقوق، آزادیِ اظہار، آزادیِ مذہب و عقیدہ اور سیاسی و سماجی عدل کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز محقق اور دانش ور جی ڈبلیو چودھری [غلام وحید: ۱۹۲۶ء- ۱۳دسمبر ۱۹۹۷ء] کے بقول: ’قرارداد مقاصد‘ کا قصور یہ ہے کہ اس قرارداد نے پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھنے کا اعلان کیا تھا، حالانکہ یہ وہی بات تھی، جو قائداعظمؒ اپنی زندگی میں بارہا کہہ چکے تھے‘‘۔
میرے مطالعے کے مطابق سیکولر حضرات اور ان کے حامیوں کے ہاں ’قرارداد مقاصد‘ کو مسترد کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرارداد نے اللہ تعالیٰ کا اقتدارِ اعلیٰ(Sovereignty) تسلیم کیا اور ریاست کو دین اسلام کی طے کردہ حدود میں رہ کر قانون سازی اور پالیسی سازی کرنے کا اختیار مانا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، اور یہ ہمارے آئین کا نمایاں ترین پہلو ہے۔ ان سیکولر حضرات کا کہنا ہے کہ: ’’مغربی جمہوریت کی مانند اقتدارِ اعلیٰ عوام کی ملکیت ہونا چاہیے اور اسلامی اصولوں سے قطع نظر انھیں ہر قسم کی قانون سازی کی اجازت ملنا چاہیے‘‘۔ ظاہر ہے کہ پاکستان میں ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا، اس لیے وہ لفظ’اسلامی‘ کو پسِ پشت ڈال کر ’فلاحی جمہوری ریاست‘ کا راگ الاپتے رہیں گے اور ’قرارداد مقاصد‘ پر نشانے باندھ باندھ کر تیر چلاتے رہیں گے۔
’قرارداد مقاصد‘ کے حوالے سے مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی، جب ایک معروف کالم نگار نے یہ لکھا کہ:’’ ’قرارداد مقاصد‘ کی منظوری لے پالک سیاسی قیادت کے جمہوری انحراف کا شاخسانہ تھی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے مقبول ترین وزیراعظم لیاقت علی خان ’لے پالک سیاست دان‘ تھے یا ان کے رفقا، جنھوں نے ’قرارداد مقاصد‘ کی حمایت کی وہ ’لے پالک تھے؟‘ کیا یہ حضرات ۴۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے تھے؟ کیا انھیں کسی جرنیل نے اپنی گود میں پالا پوسا تھا؟ کیا پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا قرارداد منظور کرنا جمہوریت سے انحراف تھا؟ اسی طرح ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ’’قرارداد مقاصد کا مسودہ قائداعظم کی زندگی میں تیار کرلیا گیا تھا، لیکن جب قائداعظم کو دکھایا گیا تو انھوں نے نامنظور کر دیا‘‘۔ ’قرارداد مقاصد‘ کے مخالفین نے قرارداد پر ضرب کاری لگانے کے لیے یہ انوکھا افسانہ تراشا اور شوشہ چھوڑا ہے۔ جو سراسر بے بنیاد ہے اور سمجھ لینا چاہیے کہ یہ آخری وار ہرگز نہیں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ لوگ اسلام سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہیں؟