ایچ عبدالرقیب | ستمبر ۲۰۱۹ | اسلامی معاشیات
ترقی کا اسلامی تصور یہ ہے کہ وہ وقتی یا عارضی نہ ہو، بلکہ دیرپا ہو اور باعث ِ خیر بھی۔ اسی چیز کو فوزوفلاح کا نام دیا جاتا ہے۔ ترقی کا عمل اور معاشی خوش حالی صرف آج کے لیے نہ ہو، بلکہ آیندہ کے لیے بھی ہو، جس کو Sustainable Development (پاےدار ترقی) کہا جاتا ہے۔
ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ مغربی معاشی نظام کی وجہ سے غریب، غریب تر اور امیر ، امیر ترہوتے جارہے ہیں، جیساکہ کہا جاتا ہے:
آج دنیا میں غربت کے گہرے سمندر ہیں، تو دوسری طرف دنیا بھر میں دولت اور خوش حالی کے چند جزیرے ہیں، جن کی مذمت کا طاقت ور اظہار ’وال سٹریٹ کا قبضہ‘ [۲۰۱۱ء] اور ’صرف ایک فی صد‘ کے مظاہرے ہیں۔
نام وَر ادیب برنارڈشا [م: ۱۹۵۰ء] سے ایک بار پوچھا گیا کہ’’ اقتصادی میدان میں انسانیت کی پریشانی کا سبب کیا ہے؟‘‘ انھوں نے ٹوپی سر سے اُتاری، گنجے سر اور گھنی داڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہی انسانیت کی پریشانی ہے، یعنی پیداوار کی کثرت اور غیر مساوی تقسیم‘‘۔
امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۶ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:A World in which one percent of humanity controls as much wealth as the other 99% will never be stable (اس دنیا کے ایک فی صد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی باقی ۹۹ فی صد لوگوں کی دولت ملا کر ہے، اس صورت میں یہ پاے دار نہیں ہوسکتی)۔
’اوکس فیم انٹرنیشنل‘ [Oxfam] بین الاقوامی غربت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم (قائم شدہ: ۱۹۴۲ء)کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: ’’دنیا کی ۵۰ فی صد آبادی کی دولت کے برابر دولت دنیا کے آٹھ کھرب پتیوں کے پاس جمع ہے‘‘۔اس رپورٹ میں ’۹۹ فی صد کی معیشت‘ (An Economy of 99%)کے زیرعنوان لکھا ہے کہ: ’’وقت آگیا ہے کہ ہم ایک انسان دوست معیشت کی تعمیر کریں، جو ہر ایک کے لیے فائدہ مند ہو، نہ کہ صرف بااختیار اور باحیثیت طبقے کے لیے‘‘۔
عالمی بنک کے جائزے کے مطابق: ’’بھارت کی دو تہائی آبادی روزانہ ۲ ڈالر سے بھی کم میں اپنا گزارا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ اس ملک میں ۵۷؍ارب پتی سیٹھوں کے پاس ملک کے ۷۰فی صد غریبوں کے مساوی دولت ہے‘‘۔
اس کے مقابلے میں اسلام ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، جس میں باہمی ہمدردی اورتعاون (Caring & Sharing)کی فضا عام ہو۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ دولت چند افراد یا کسی مخصوص طبقے کے قبضے میں ہو:
كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ط (الحشر۵۹:۷)تاکہ دولت تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گردش کرتی نہ رہے۔
اسی نابرابری کے خاتمے اور غربت میں نمایاں کمی کرنے کے لیے اکیسویں صدی کے آغاز پر اقوامِ متحدہ کے ۱۹۱ممبر ممالک نے ۲۰۰۰ء میں مل بیٹھ کر ۱۵ سالہ Millennium Declaration (ہزاریہ اعلامیہ) تیار کیا تھا۔ ان ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے ۲۲ نام وَر بین الاقوامی مالیاتی اور فلاحی ادارے بھی شامل کیے گئے اور ۱۵ برسوں کے لیے آٹھ اہداف پر مشتمل ایک منصوبہ بنایا، جسے ’ملینیم ترقی کا منصوبہ‘ (Millennium Development Goals: MDG) کا نام دیا گیا۔ ان اہداف میں غربت میں نمایاں کمی، پرائمری اسکول تک کی تعلیم، صنفی مساوات، خواتین کی خوداختیاری، بچوں کی شرح اموات میں کمی، موذی امراض ایڈز اور ملیریا سے جنگ، ماحولیات میں پاے داری اور بین الاقوامی سطح پر ترقی وتعمیر کے کاموں میں حصہ داری اور شرکت کو اُجاگر کیا گیا۔
۲۰۱۵ء میں دنیا بھر کے ماہرین نے سرجوڑ کر ۱۵سالہ ملینیم ترقیاتی منصوبوں اور کاموں کا جائزہ لیا اور یہ محسوس کیا کہ صرف تعلیمی میدان اور معاشی ترقی کے پیمانے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، جب کہ دوسرے اہداف کا حصول تشفی بخش نہیں ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں دوبارہ ایک ۱۵سالہ نیا منصوبہ تیار کیا گیا، جسے Sustainable Development Goals (SDG : پاےدا ر ترقی کے اہداف) کا نام دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بیش تر ممالک نے ۲۵ستمبر ۲۰۱۵ء کو اس منصوبے پر دستخط کیے اور جنوری ۲۰۱۶ء میں اس کے نمایاں اہداف متعین کیے گئے،جو درج ذیل تھے:
اس جامع، ہمہ جہت اور متوازن دستاویز کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاس کیا، جس میں عہد کیا گیا کہ غربت کا مکمل خاتمہ، صحت مند انسانی زندگی، فاقہ زدگی کے نتیجے میں اموات سے آزادی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور توانائی کی دست یابی ہوسکے گی۔
کہا جاتا ہے کہ: ’’یہ ’پاےدار اور دیرپا ترقیاتی منصوبہ‘ (SDG) انسانی ترقی اور خوش حالی کی طرف پیش قدمی کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک کے علاوہ فلاحی اداروں کے تعاون سے یہ اہداف حاصل کیے جائیں گے‘‘۔ فی الحال صحت، تعلیم، صفائی اور توانائی کے حصول کے لیے ۴ء۱ کھرب ڈالر کا حصول ہوسکا ہے، اور مزید۵ء۲ کھرب ڈالر کی رقم کی ضرورت ہے جو دنیا کے تمام ممالک، ادارے اور مخیر افراد کو مل جل کر فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ’پاے دار اور دیرپا ترقیاتی منصوبہ‘ کے حصول کے لیے تین امور پر خصوصی توجہ دی جائے گی، جو سرمایہ کاری (Finance)، ٹکنالوجی (Technology) اور تجارت (Trade) پر مشتمل ہوگی اور خاص طور پر سماجی سرمایہ کاری (Social Finance) پیش نظر ہوگی۔
اقوامِ متحدہ، جنرل اسمبلی کے اجلاس (۲۷ستمبر ۲۰۱۸ء) میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک کے ایک خصوصی فورم میں یہ تاریخی فیصلہ کیا گیا کہ: ’’انسانی تاریخ کے اس اہم عالمی ترقیاتی منصوبے کے حصول کے لیے اسلامی سرمایہ کاری کے نئے طریقوں اور نادر نمونوں کے ذریعے ’پاے دار اور دیرپا ترقیاتی منصوبہ‘ کے اہداف کے حصول کی کوشش کی جائے گی‘‘۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام‘ (UNDP: یو این ڈویلپمنٹ پروگرام) اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، جدہ کے ادارے ’اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI)‘ اور ملائیشیا کے سیکورٹی کمیشن نے مل کر اسلامک فنانس کو استعمال کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ اس کے ذریعے اقوام متحدہ کے اس عالمی ترقی و خوش حالی کے عظیم منصوبے کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں ایک واضح اور مؤثر کردار ادا کریں گے۔اس ۱۵سالہ اقوام متحدہ کے ترقی و خوش حالی کے منصوبے کی تکمیل کے لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت ہے اور اس کے حصول کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ دنیا بھر کے ممالک سے انفرادی طور پر اور بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے مالیاتی ادارے اور تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جائے گا۔ بطورِ خاص اسلامی سرمایہ کاری کے نظام سے استفادہ کیا جائے گا، جو خطرات کو انگیز کرنے ، ذمہ دارانہ سرمایہ کاری (Responsible Financing)، اور سماجی مقاصد (Social Causes) کے پیش نظر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ دنیا کے سماجی ، معاشی اور ماحولیاتی نقشے کو بدلنے کی عالمی کوشش ہے۔ اس کے تحت اسلامی سرمایہ کاری کے مؤثر استعمال پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ چنانچہ ۲۷ستمبر ۲۰۱۸ء کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں فورم کا انعقاد کیا گیا، جس کا عنوان تھا:
"Achieving the SDG Unleashing the potential of Islamic Finance through innovative Investors and instruments".
اس فورم میں طویل المیعاد سرمایہ کاری، پاے دار ترقیاتی منصوبوں اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی سرمایہ کاری کے نئے انداز اور نئے طریقوں پر غور وخوض کیا گیا۔
ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیربن محمد [پ:۱۰جولائی ۱۹۲۵ء] نے کلیدی خطاب میں ملائیشیا کے گلوبل سطح پر اسلامی فنانس میں قائدانہ کردار کا جائزہ پیش کیا اور نئے انداز سے اسلامی سرمایہ کاری کو ماحولیات کی آلودگی سے بچانے کے لیے ’گرین فنانس‘ کا بطورِ خاص ذکر کیا۔ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کی نمایندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر محمدجوینی نے بتایا:’’ SDG کے اہداف کا حصول کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ یہ کام روایتی اسلامی فنانس کے طریقوں سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے باہمی اشتراک اور نئے انداز کے اسلامی فنانس پروڈکٹس (Products) پر غوروخوض کرکے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
ڈاکٹر ہمایوں ڈار، ڈائرکٹر جنرل اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI)، جدہ نے اختتامی خطاب میں کہا کہ : ’’یہ مسرت کا مقام ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک باہمی اشتراک، نئی سوچ اور نئے طریقوں کو اپنا کر اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے آگے بڑھیں گے‘‘۔
اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری اور ’اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام‘(UNDP) کے افسراعلیٰ ٹیگیگ نے ورک گٹو ایڈ نے اُمید ظاہر کی کہ: ’’اقوام متحدہ کا اسلامی فنانس کے اداروں سے اشتراک پاےدار ترقی کے اہداف کی تکمیل کے لیے مددگار ثابت ہوگا اور سرکاری مالیاتی اداروں، نجی کاروباری اور فلاحی تنظیموں کے تال میل سے یہ کام ہوسکے گا‘‘۔ ترکی کے مستقل نمایندے صالح موتلوسین نے بتایا: ’’کس طرح ترکی میں اسلامی سرمایہ کاری کی پیش رفت جاری ہے‘‘۔
یاد رہے کہ ۲۰۱۶ء میں اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے ادارے IRTI اور اقوامِ متحدہ کے یواین ڈی پی نے مل کر ’گلوبل اسلامک فنانس اینڈ امپاکسٹ انوسٹمنگ پلیٹ فارم‘ (GIFIIP) بنایا تھا، تاکہ اسلامک فنانس کو اقوام متحدہ کے اس عظیم الشان ترقیاتی منصوبے سے ہم آہنگ کرے۔
ترکی، ملائیشیا اور سعودی عرب کے نمایندوں نے خاص طور پر اس فورم کے مباحثے میں حصہ لیا اور اُمیدو حوصلہ سے بھرپور عزم کا اعادہ کیا کہ اسلامی سرمایہ کاری کے ذریعے مستقل اور پاے دار ترقی کے اس گلوبل منصوبے پر عمل کیا جائے گا، خاص طور پرگرین صکوک (Green Sukuk) پر مشورہ کیا گیا، جس کے ذریعے ترقی کے ایسے نمونے اور طریقے اختیار کیے جائیں گے، جن سے ماحولیات کی آلودگی سے بچا بھی جاسکے، اور جو ہمہ جہتی (Inclusive) اور متوازن ترقی کا باعث بھی ہوں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی نے انڈونیشیا کے زکوٰۃ کے حصول و تقسیم کی تنظیم BAZNAS کے اشتراک سے ایک دستاویز تیار کی ہے: ’زکوٰۃ کا پایدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں ممکنہ حصہ داری اور کردار‘‘ (The Role of Zakat in supporting the Sustainable Development Goals)۔ اس میں لکھا ہے کہ مذاہب، دنیا میں تبدیلی اور تغیرات کے لیے ایک اہم قوت ہوتے ہیں اور مذہبی ادارے امن و سلامتی، ترقی و خوش حالی اور برداشت و تحمل پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی تقریباً ۲۲ فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ۲۰۰۵ء میں اسلامی سرمایہ کاری کا اندازہ تقریباً ایک سے دو کھرب ڈالر سالانہ لگایا گیا تھا۔
پھر قرآن کی سورۃ التوبہ آیت ۶۰ کاحوالہ دیتے ہوئے تفصیلی طور پر لکھا ہے کہ: ’’دین [اسلام] کے ارکانِ خمسہ میں کلمہ، نماز، روزہ اور حج کے ساتھ زکوٰۃ کا بھی ذکر آتا ہے اور ہر صاحب ِ نصاب پر فرض ہے کہ وہ فقرا، مساکین اور مستحقین تک اپنے مالوں کا ایک حصہ پہنچائے، جس کے ذریعے معاشرے کے کمزور اور کچلے ہوئے افراد کو اُونچا اُٹھایا جاسکے۔ زکوٰۃ کو اگر اجتماعی طور پر حاصل کرکے ایک منصوبہ بند طریقے سے تقسیم کیا جائے تو آج کے مستحقینِ زکوٰۃ آنے والے کل میں زکوٰۃ دینے والے ہوسکتے ہیں‘‘۔
’عالمی زکوٰۃ فورم‘ نے ۲۰۱۷ء میں اپنے جکارتہ (انڈونیشیا) کے اجلاس میں مقاصد ِ شریعہ کی روشنی میں اقوام متحدہ کے اس پاےدار ترقی کے اہداف اور زکوٰۃ کے مقاصد پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ: ’’مقاصد ِ شریعہ، جس میں انسانوں کے اپنے ایمان، زندگی، نسل، عقل اور مال کی حفاظت کا تذکرہ ہے، دراصل اقوام متحدہ کے پاےدارترقی کے اہداف (SDG) کے حصول سے ہم آہنگ ہیں اور زکوٰۃ کا اجتماعی نظم ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔زکوٰۃ کے حصول و تقسیم اور مختلف اصناف مستحقین کی نشان دہی اور ان تک زکوٰۃ کی رقم پہنچانے کے لیے مالیاتی ٹکنالوجی (فن ٹیک) کا استعمال کیا جائے تو شفافیت اور تیزی کے ساتھ یہ کام ہوسکتا ہے‘‘۔
اس کے علاوہ ’اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام‘ نے ایک اور اہم دستاویز Unlocking the Potential of Zakat & Other forms of Islamic Finance to achieve SDG Goals میں: ’’زکوٰۃ اور دوسرے اسلامی فنانس کو SDG کے اہداف کو حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا ہے‘‘۔ اس طرح زکوٰۃ کے اجتماعی نظم اور اسلامی سرمایہ کاری میں نئے اور نادر تجربے کے ذریعے اکرام انسانیت اور ان کی بنیادی ضروریات کے ساتھ کرئہ ارض کی امن و سلامتی کے لیے اقوامِ متحدہ کے عظیم ’اقدام‘ میں کامیاب حصہ داری سے، یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اقدار پر مبنی اسلامی معیشت آج کی دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے میں ایک مثبت اور منافع بخش کردار ادا کرے گی۔