ایچ عبدالرقیب


دینی مدارس سے فارغ ہونے والے نوجوان علما، معاشرے کی معاشی تبدیلی اور بہتری کے لیے کن نئے میدانوں میں اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں؟ ایک ایسا سوال ہے، جس پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرکے ایک مفید اور مثبت و مؤثر لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

عموماً دیکھا یہ جاتا ہے کہ مدارس سے عالمیت اور فضیلت کے بعد یہ نوجوان مسجدومنبر سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں۔ کچھ آگے بڑھ کر مکتب اور مدرسہ قائم کرکے کام آگے بڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی گونج ہماری سوسائٹی میں سنائی دیتی ہے۔ ان میں سے چند افتاء کا کورس کرکے فتاویٰ کے مسند پر بیٹھتے ہیں۔ مفتی اور قاضی بن کر  وراثت اور وصیت کے مسائل، نکاح و طلاق اور فسخ کےمعاملات میں اُمت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بعض فاضلین مترجم کی حیثیت سے غیرملکی سفارت خانوں میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ پھر کچھ افراد کالج اور یونی ورسٹی میں عربی اور اُردو کے شعبہ جات میں داخلہ لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کالجوں میں لیکچررمقرر ہوجاتے ہیں۔

زیرنظر مضمون میں، فارغین مدارس کو اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز سے استعمال کرکے اور شریعت اسلامی کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے میں مفید اور مؤثرخدمات اداکرنے کی جانب متوجہ کیا جارہاہے۔

پہلی بات تو یہ بڑی واضح ہے کہ اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے چار، یعنی کلمۂ شہادت، نماز، روزہ اور حج پر برصغیر پاک و ہند کے علما کی توجہ الحمدللہ موجود ہے۔ کلمہ طیبہ کی تعلیم پر بھی توجہ ہے۔ نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہورہا ہے۔ پھر نوافل سے رغبت اور شوق کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنے کی بھی برحق ترغیب دی جاتی ہے۔ مالی عبادات میں حج کا شوق کافی بڑھا ہوا ہے اور عمرے کا بھی بڑا اہتمام ہورہا ہے۔ لیکن زکوٰۃ ، جو اسلام کی بنیادوں میں سے تیسرا اہم جز ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کے مال داروں کے مال کی بدولت حکومت اور معاشرے کے ذمہ داروں کے ذریعے فقرا و مساکین کے حقوق کی ضمانت دی ہے۔ اس کی طرف علما اور خاص طور پر فارغین مدارس کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دورِ نبویؐ میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے چار شعبوں پر مشتمل باقاعدہ نظم قائم کیا گیا:

  • عمال الصدقات یا عاملین صدقات، یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والے افسران
  • کاتبین صدقات، یعنی حساب کتاب کے ا نچارج
  • خارصین، یعنی باغات میں پھلوں کی پیداوار کا تخمینہ لگانے والے
  • عمال علی الحمٰی،یعنی مویشیوں کی چراگاہ سے محصول وصول کرنے والے۔

عاملین صدقات کے لیے رسولؐ اللہ نے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، جن میں امانت و دیانت، احساسِ ذمہ داری اور اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں ہوتی تھیں، ان کا انتخاب فرما کر مختلف قبیلوں کی طرف بھیجا۔ جن میں حضرت عمرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت عدیؓ بن حاتم اورحضرت ابوعبیدہؓ بن جراح شامل تھے۔

مالی نظام کا باقاعدہ حساب کا شعبہ حضرت زبیر بن عوامؓ کے سپرد تھا۔ ان کی غیرموجودگی میں حضرت جہیم بن صلتؓ اور حضرت حذیفہؓ بن الیمان صدقات کی آمدنی کے حساب کتاب کے ذمہ دار تھے۔ عہد نبویؐ میں خارصین (Estimators) پیداوار کا تخمینہ لگانےوالے اصحاب بھی موجود تھے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر خراص تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کا شمار بھی انھی میں سے ہوتا تھا۔ اسی طرح مویشیوں کی چراگاہوں سے وصول یابی کے لیے بھی عمال مقرر تھے جن میں حضرت سعد بن وقاصؓ، حضرت بلال بن حارثؓ، حضرت ابورافعؓ اور حضرت ذرؓبن ابی ذر مشہور ہیں۔

دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں بھی اجتماعی نظم زکوٰۃ کی تفصیلات موجود ہیں۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں جب صدقہ و زکوٰۃ کی رقم لینے والا کوئی نہ تھا تو آپ نے فرمان جاری کیا کہ اس رقم سے غلاموں کو خرید کر آزاد کرو، شاہراہوں پر مسافروں کے لیے آرام گاہیں تعمیر کرو، اور ان نوجوانوں مرد و عورتوں کی مالی امداد کرو، جن کا نکاح نہیں ہوا۔

آج خود ہمارے ملکوں کے چند شہروں میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظام چھوٹے بڑے پیمانے پر متحرک ہے۔ اس کے لیے بعض جگہوں پر باقاعدہ ’سماجی معاشی سروے‘ کرایا جاتا ہے جس کی بنیاد پر مختلف طبقات میں زکوٰۃ کی رقم تقسیم ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ ریکارڈ مرتب کرنے کا اہتمام کیا ہے، ان کی پیش کردہ تفصیلات کے ذریعے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ صرف زکوٰۃ کے نظام کو سلیقے سے قائم کرنے کے نتیجے میں کتنے نئے شعبے علم کے حصول اور کام کے ذرائع ہمارے سامنے کھل سکتے ہیں۔ اکائونٹ، کامرس اور آڈیٹنگ، سروے اور ضروریات کی صحیح معلومات کے لیے شماریات (Statistics)،وصولیاتی فن اور طریقوں کے لیے تعلقاتِ عامہ اور علم نفسیات،غربت اور پسماندگی کی معلومات کے لیے عمرانیات، ابن سبیل (مسافروں) کے لیے آرام گاہوں کی تعمیر وغیرہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

انتہائی غربت، بھوک اورفاقے کے خاتمے کے لیے ۲۰۰۰ء میں اقوا م متحدہ نے دُنیابھر کے حکمرانوں کے ساتھ مل کرایک اعلامیہ Millenium Development Goals  [MDG: ہزاریہ ترقی کا منصوبہ]کے نام سے پندرہ سالہ ایک عالمی منصوبہ بنایا تھا۔ پھر ۲۰۱۵ء میں آیندہ پندرہ برسوں کے لیے Sustainable Development Goals  [SDG: پایدار ترقی کے اہداف]تیار کیا، جس میں غربت کا خاتمہ، صحت، تعلیم، صاف پینے کے پانی کی فراہمی، صحت و صفائی،ماحولیات کی حفاظت وغیرہ شامل ہے۔ زکوٰۃ کے نظام کے قیام کو بھی اس مذکورہ پروگرام (SDG) سے جوڑاہے (دیکھیے: عالمی ترجمان القرآن، ستمبر۲۰۱۹ء)۔ اب، جب کہ دُنیا نے زکوٰۃ کے نظام کو گلوبل منصوبے کے طورپر تسلیم کیا ہے اور اس کی افادیت کو مانا ہے،تو بین الاقوامی جبر اور پابندیوں کے باوجود ملت اسلامیہ برصغیر پاک و ہند اور خاص طور پر علمائے کرام اور فارغین مدارس پرفرض ہے کہ وہ نماز، روزہ اور حج کے اہتمام کی طرح زکوٰۃ کے اجتماعی نظم و انصرام کے لیے علوم و فنون کے ان میدانوں کو اپنے کیریئر کا حصہ بنائیں، جس سے دین کے گم کردہ اور کم توجہ فرض کی طرف لوگ متوجہ ہوں اورمقاصد ِ شریعت کے حصول کا باعث بنیں۔ اس سے اُمید ہے کہ دُنیا میں غربت اور فاقے میں کمی ہوگی اور خوش حالی میں اضافہ ہوگا اور آخرت میں رضائے الٰہی کا باعث بھی۔

  • تجارت اور انٹرپرینور شپ: علماو فاضلین مدارس کے لیے معاشی ترقی کا ایک اہم ترین ذریعہ تجارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو جائز رزق عطا فرمایا ہے اس کے دس میں سے نو حصے تجارت کے ذریعے عطافرمائے ہیں، تِسْعَۃُ اَعْشَارِ الرِّزْقِ  فِیْ التِّجَارَۃٍ  (کنزل العمال، الفصل الثالث: فی انواع الکسب، حدیث: ۹۳۴۲)۔ تجارت میں محض روایتی تجارت، یعنی سادہ کاروبار ہی شامل نہیں ہے، بلکہ ہروہ سرگرمی شامل ہے، جس میں انسان اپنی ذاتی محنت سے روزی حاصل کرتا ہے۔ اس میں صنعت بھی شامل ہے، دستکاری بھی اور وہ تمام معاملات شامل ہیں جو انسان شوق اور جذبے سے کرتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کا سامان لے کر تجارتی سفر کیا اور ایک مثالی تاجر کی حیثیت سے مکّی معاشرے میں مقام حاصل کیا تھا۔ ہجرت کے بعد آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے سوق المدینۃ (مدینہ مارکیٹ) قائم کی اور تجارت پر یہودیوں کی اجارہ داری اور استحصال کے خلاف عملی اقدام کرکے گویا اس بات کا اعلان کیا کہ معاشرے کی خوش حالی کےلیے رزقِ حلال کی طلب اور معاشی سرگرمی میں حصہ داری ضروری ہے۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا: اَلْجَالِبُ اِلٰی سُوِقِنَا کَالْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (المستدرک للحاکم،کتاب البیوع، حدیث:۲۱۰۹)، جو ہماری مارکیٹ میں خریدوفروخت کرے گا،وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدینہ مارکیٹ، سیرتِ نبویؐ کا ایک گم نام گوشہ ہے جس کی تفصیلات ہمارے علما و فضلا کو جاننے کی ضرورت ہے۔ (عالمی ترجمان القرآن، مارچ ۲۰۱۹ء)

مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ کا مشغلہ کیا تھا؟ کچھ صحابہ اصحابِ صفہ میں سے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوتے تھے،لیکن اکثر مہاجرین بازاروں میں مشغول اور انصار کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ عشرہ مبشرہ میں سے تمام ہی اصحاب تاجر پیشہ تھے۔ تاہم، ان میں سے چار صحابہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کی دولت کا اندازہ کیا جائے تو اس کا مقابلہ موجودہ دور کے بہت دولت مندوں سے کیا جاسکتا ہے۔

اکیسویں صدی کی موجودہ دُنیا میں معاشی ترقی کا دارومدار صرف قدرتی وسائل کی کثرت پر نہیں بلکہ انسانوں کی فکری اُپج (Creativity)،فنی ایجادات (Technical Innovation)، ہنرمندی (Skill Development) اور کاروبار کی آزادی پر ہے۔ مثال کے طور پر جاپان میں کاشت کاری کے لیے زمین موجود نہیں ہے تو وہ چھوٹے بڑے جہازوں میں اپنی غذا اُگانے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں۔ آج سرمایہ کاری کے لیے دُنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے فعال کاروباری منصوبوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے سرمایہ حاصل کیا جارہا ہے، جسے Crowd Funding کے نام سےموسوم کیا جاتا ہے۔

کاروبار میں مسابقت کی دوڑ برپا ہے۔ جو دل کش اور آسان تکنیک یا مصنوعات کو نئے انداز اور بہترفائدہ مندی کی صورت میں مارکیٹ میں نہیں لاتا، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ بیہقی اور مسند ابی یعلٰی کی حدیث ہے: اِنَّ اللہَ یُحِبُّ  اِذَا  عَمِلَ  اَحَدُکُمْ  عَمَلًا  اَنْ  یُتْقِنَہٗ (بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۵۰۶۳)’’اللہ کو پسند ہے کہ جب آپ میں سے کوئی کام کرے تو اسے کمال کے ساتھ کرے‘‘۔ اس طرح ایک مسلمان تاجر اپنی مصنوعات بہترین طریقے سے تیارکرتاہے تو ایک طرف مارکیٹ میں اس کے ذریعے مسابقت ہی نہیں کرتا بلکہ ہدایت نبویؐ کی تعمیل بھی کرتا ہے۔ بعض اوقات تاجر کچھ نئے طریقہ اور نئے انداز سے ایسی پیداوار (Product) اپنی مہارت سے پیدا کردیتے ہیں کہ اس میں ویلیوایڈ (Value add)ہوکر ایسی چیز تیار ہوجاتی ہے کہ جو مارکیٹ میں نئی ہوتی ہے اور اس کی مانگ بھی۔

آج کل انٹرنیٹ پرینورشپ کے نام کابڑا چرچا ہے، جس کی طرف بھی ہمارے علما و فضلا کی توجہ ہونی چاہیے۔ جودراصل نئے کاروبار کو شروع کرنے کادوسرا نام ہے۔ یہ اپنی اختراع سے نئی مصنوعات یا نئے انداز کی سروسز کے طور طریقوں کو رائج کرنا، خطرات کا سامنا کرنا، اس کی توسیع و ترقی کے لیے نئے مواقع تلاش کرنا اور پیداواری عمل میں ندرت اور مارکیٹنگ کے انداز میں نئے انداز کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔

آغازِ کار (Startup) کا نام بھی ہرجگہ لیا جارہا ہے۔ کاروباری سہولیات فراہم کرنے کے مختلف نجی آن لائن اداروں کی تعداد ۲۰۲۰ء کے اختتام تک ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔

ایک اور نئے قسم کا کاروبار جوپوری دنیا میں بڑی تیزی سے اُبھر رہا ہے،وہ حلال بزنس کےنام سے موسوم ہے جو دُنیا بھر میں حلال مہمان نوازی، حلال گوشت، حلال ماکولات و مشروبات، حلال ادویات، حلال فیشن کی اشیاء (Cosmetics) اور حلال میڈیا اور تفریحات پر مشتمل ہے۔ ان تمام صنعتوں اور تجارتی اداروں میں شریعتہ سرٹیفکیٹ دینے کے لیے بھی علما وفضلا کی ضرورت ہے، جنھیں شریعت کےعلم کے علاوہ ان کاروباری سرگرمیوں اور مصنوعات کے بارے میں بھی بخوبی آگاہی اور خصوصی علم حاصل ہو۔ یہ حلال انڈسٹریز مستقبل قریب میں اربوں ڈالر کے کاروبار پر مشتمل ہوگی، اور دنیا بھر میں شریعت کے جاننے والوں کی مانگ ہوگی۔

تجارت کے پیچ و خم کو سیکھنے ، اس میں ماہرانہ کمال حاصل کرنے کےلیے کاروباری انتظامیات، کاروباری مہارتوں، کاروباری حکمت عملیوں کےکورسز میں داخلہ لےکرفارغین مدارس اپنے کیریئرکو شان دار بناسکتے ہیں اورملک وملّت کی ترقی میں حصہ دار بھی۔

  • اسلامی بنکاری اور سرمایہ کاری: آج ہمارے ہاں بنکاری نظام سود کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اسی ماحول میں کوششیں ہورہی ہیں کہ بلاسودی عدل و قسط اور اخلاقی اقدار پر مبنی اسلامی سرمایہ کاری اور بنکاری کااجرا ہو یا کم از کم بلاسودی دریچے (windows) مروجہ بنکوں میں کھولے جائیں۔ اس قسم کے بنکوں کو صحیح رُخ پر شریعت کے خطوط کے مطابق چلانے کے لیے علمائے کرام اور فضلا کو فقہ المعاملات کے اپنے علم کو موجودہ بنکاری کے قوانین پر انطباق کرکے صحیح رُخ پر چلانا ہوگا۔ اس طرح ان کے آیندہ کے کاموں کا ایک وسیع وعریض میدان سامنے آسکے گا۔ فی الوقت کوآپریٹو سوسائٹیز کے تحت مختلف چھوٹے مالیاتی لین دین (مائیکروفنانس) اور چھوٹے کاروباریوںکے لیے بلاسودی سرمایہ کاری کاکام ہورہا ہے، اس میں بھی فارغین مدارس کے لیے مواقع فراہم ہیں۔

سرمایہ کاری کے لیے جوائنٹ اسٹاک کی کمپنیاں ہیں، جن میں شریعت کے دائرے میں آنےوالے اسٹاکس کی نشان دہی کے لیے افراد اور اداروں کی ضرورت ہے۔ اسٹاک کی مارکیٹ میں نفع مندی کے ساتھ ہی شریعت کے اخلاقی اقدار پر پورے اُترنے والے اسٹاکس کی جانچ کا کام کرنے کے لیے شریعت کے اُمور و مسائل سے واقفیت کے حامل فارغین مدارس کی ضرورت ہے۔

اسی طرح روایتی انشورنس کے بجائے تعاونی اور اسلامی اصولوں پر مبنی انشورنس، یعنی تکافل کا بھی ایک میدان ہے اور بڑے بڑے تعمیراتی، تجارتی اور صنعتی ڈھانچوں کی تشکیل وتعمیر کے لیے صکوک (Sukuk) کے اجرا اور اُن کی مسلسل نگہبانی کے لیے شریعہ اسکالرز درکار ہیں، جو فارغین مدارس ہی ہوسکتے ہیں۔ جنھیں ملک اور بیرونِ ملک جاکر جدید سرمایہ کاری کے ان مختلف کورسوں میں داخلہ لے کر تخصص (Specialisation) حاصل کرکے انھیں صحیح خطوط پر قائم کرنا اور باقی وبرقرار رکھنا ہے۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے اور مستقبل قریب میں نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں اس کے بہترین مواقع فارغین مدارس کو حاصل ہوں گے۔

آج مارکیٹ میں بہت ساری ’پونزی اسکیمیں‘ (Ponzi Schemes)، یعنی دھوکا دہی اورفراڈ پر مبنی اسکیمیں، اسلامی سرمایہ کاری کے خوش نما ناموں سے بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں اور مارکیٹ کے معروف نفع کی شرح سے بہت زیادہ رقم ان سرمایہ کاروں (investors) کو دے رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس دھندے کی پشت پناہی بھی بعض علمائے کرام کررہے ہیں اور فضلا و فارغین مدارس بھی بڑے پیمانے پر اس میں اپنا سرمایہ لگارہے ہیں، جو دراصل ایک کھلے دھوکے کا سودا ہے۔ اس میں اسکیم چلانے والے اپنےسرمایہ کاروں کو منافع نئی سرمایہ کاریوں کے سرمایہ سے دیتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کی اصل سرمایہ کاری کے حقیقی نفع سے۔ اگرعلما و فضلا تجارت اور سرمایہ کاری کے اسلامی اصولوں اور ضوابط سے کماحقہٗ واقف ہوں گے،اکائونٹنگ اور آڈیٹنگ کے طریقوں سے آگاہ ہوں گے، تو ان ’پونزی اسکیموں‘ کا پول کھل جائے گا اور شاطر افراد لوگوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیںگے۔ اور لوگ حلال اور طیب تجارتوں کی طرف متوجہ ہوںگے۔

آخر میں یہ بات عرض کرنی ہے کہ ان تینوں: اُمور زکوٰۃ کے اجتماعی نظم، تجارت و انٹرپرینورشپ  اور اسلامی سرمایہ کاری اور بنکاری میں جہاں مرد علماو فارغین کو بھرپور حصہ لینا ہے، اور اس کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنا کردار ادا کرناہے،وہیں عالمہ اور فاضلہ خواتین بھی شریعت کے حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انھیں بھی معاشی ترقی کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں آگے بڑھنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جس کے لیے اُم المومنین حضرت خدیجہؓ اور نبی کریمؐکے قائم کردہ مدینہ مارکیٹ میں خواتین تاجروں کی موجودگی اور ان کے کاموں کی نگرانی کے لیے خواتین محاسبوں کا تقرر مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہم صرف ’خواتین کے لیے خصوصی مارکیٹ‘ اور گھر بیٹھے نظامِ کار کے مراکز قائم کرکے اس کا آغاز کرسکتے ہیں؟

ترقی کا اسلامی تصور یہ ہے کہ وہ وقتی یا عارضی نہ ہو، بلکہ دیرپا ہو اور باعث ِ خیر بھی۔ اسی چیز کو فوزوفلاح کا نام دیا جاتا ہے۔ ترقی کا عمل اور معاشی خوش حالی صرف آج کے لیے نہ ہو، بلکہ آیندہ کے لیے بھی ہو، جس کو Sustainable Development (پاےدار ترقی) کہا جاتا ہے۔
ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ مغربی معاشی نظام کی وجہ سے غریب، غریب تر اور امیر ، امیر ترہوتے جارہے ہیں، جیساکہ کہا جاتا ہے:
آج دنیا میں غربت کے گہرے سمندر ہیں، تو دوسری طرف دنیا بھر میں دولت اور خوش حالی کے چند جزیرے ہیں، جن کی مذمت کا طاقت ور اظہار ’وال سٹریٹ کا قبضہ‘ [۲۰۱۱ء] اور ’صرف ایک فی صد‘ کے مظاہرے ہیں۔
نام وَر ادیب برنارڈشا [م: ۱۹۵۰ء] سے ایک بار پوچھا گیا کہ’’ اقتصادی میدان میں انسانیت کی پریشانی کا سبب کیا ہے؟‘‘ انھوں نے ٹوپی سر سے اُتاری، گنجے سر اور گھنی داڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہی انسانیت کی پریشانی ہے، یعنی پیداوار کی کثرت اور غیر مساوی تقسیم‘‘۔
امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۶ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:A World in which one percent of humanity controls as much wealth as the other 99% will never be stable  (اس دنیا کے ایک فی صد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی باقی ۹۹ فی صد لوگوں کی دولت ملا کر ہے، اس صورت میں یہ پاے دار نہیں ہوسکتی)۔

’اوکس فیم انٹرنیشنل‘ [Oxfam] بین الاقوامی غربت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم (قائم شدہ: ۱۹۴۲ء)کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: ’’دنیا کی ۵۰ فی صد آبادی کی دولت کے برابر دولت دنیا کے آٹھ کھرب پتیوں کے پاس جمع ہے‘‘۔اس رپورٹ میں ’۹۹ فی صد کی معیشت‘ (An Economy of 99%)کے زیرعنوان لکھا ہے کہ: ’’وقت آگیا ہے کہ ہم ایک انسان دوست معیشت کی تعمیر کریں، جو ہر ایک کے لیے فائدہ مند ہو، نہ کہ صرف بااختیار اور باحیثیت طبقے کے لیے‘‘۔
عالمی بنک کے جائزے کے مطابق: ’’بھارت کی دو تہائی آبادی روزانہ ۲ ڈالر سے بھی  کم میں اپنا گزارا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ اس ملک میں ۵۷؍ارب پتی سیٹھوں کے پاس ملک کے ۷۰فی صد غریبوں کے مساوی دولت ہے‘‘۔
اس کے مقابلے میں اسلام ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، جس میں باہمی ہمدردی اورتعاون (Caring & Sharing)کی فضا عام ہو۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ دولت چند افراد یا کسی مخصوص طبقے کے قبضے میں ہو:
كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ط (الحشر۵۹:۷)تاکہ دولت تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گردش کرتی نہ رہے۔

اسی نابرابری کے خاتمے اور غربت میں نمایاں کمی کرنے کے لیے اکیسویں صدی کے آغاز پر اقوامِ متحدہ کے ۱۹۱ممبر ممالک نے ۲۰۰۰ء میں مل بیٹھ کر ۱۵ سالہ Millennium Declaration (ہزاریہ اعلامیہ) تیار کیا تھا۔ ان ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے ۲۲ نام وَر بین الاقوامی مالیاتی اور فلاحی ادارے بھی شامل کیے گئے اور ۱۵ برسوں کے لیے آٹھ اہداف پر مشتمل ایک منصوبہ بنایا، جسے ’ملینیم ترقی کا منصوبہ‘ (Millennium Development Goals: MDG) کا نام دیا گیا۔ ان اہداف میں غربت میں نمایاں کمی، پرائمری اسکول تک کی تعلیم، صنفی مساوات، خواتین کی خوداختیاری، بچوں کی شرح اموات میں کمی، موذی امراض ایڈز اور ملیریا سے جنگ، ماحولیات میں پاے داری اور بین الاقوامی سطح پر ترقی وتعمیر کے کاموں میں حصہ داری اور شرکت کو اُجاگر کیا گیا۔
۲۰۱۵ء میں دنیا بھر کے ماہرین نے سرجوڑ کر ۱۵سالہ ملینیم ترقیاتی منصوبوں اور کاموں کا جائزہ لیا اور یہ محسوس کیا کہ صرف تعلیمی میدان اور معاشی ترقی کے پیمانے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، جب کہ دوسرے اہداف کا حصول تشفی بخش نہیں ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں دوبارہ ایک ۱۵سالہ نیا منصوبہ تیار کیا گیا، جسے Sustainable Development Goals  (SDG : پاےدا ر ترقی کے اہداف) کا نام دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بیش تر ممالک نے ۲۵ستمبر ۲۰۱۵ء کو اس منصوبے پر دستخط کیے اور جنوری ۲۰۱۶ء میں اس کے نمایاں اہداف متعین کیے گئے،جو درج ذیل تھے:

  • غربت کا خاتمہ (End of Poverty ) l کرئہ ارض کی حفاظت (Protect the Planet) اور l عالمی امن و خوش حالی کو یقینی بنانا (Ensure Prosperity) ۔

اس جامع، ہمہ جہت اور متوازن دستاویز کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاس کیا،  جس میں عہد کیا گیا کہ غربت کا مکمل خاتمہ، صحت مند انسانی زندگی، فاقہ زدگی کے نتیجے میں اموات سے آزادی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور توانائی کی دست یابی ہوسکے گی۔

کہا جاتا ہے کہ: ’’یہ ’پاےدار اور دیرپا ترقیاتی منصوبہ‘ (SDG) انسانی ترقی اور خوش حالی کی طرف پیش قدمی کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک کے علاوہ فلاحی اداروں کے تعاون سے یہ اہداف حاصل کیے جائیں گے‘‘۔ فی الحال صحت، تعلیم، صفائی اور توانائی کے حصول کے لیے ۴ء۱ کھرب ڈالر کا حصول ہوسکا ہے، اور مزید۵ء۲ کھرب ڈالر کی رقم کی ضرورت ہے جو دنیا کے تمام ممالک، ادارے اور مخیر افراد کو مل جل کر فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ’پاے دار اور دیرپا ترقیاتی منصوبہ‘ کے حصول کے لیے تین امور پر خصوصی توجہ  دی جائے گی، جو سرمایہ کاری (Finance)، ٹکنالوجی (Technology) اور تجارت (Trade) پر مشتمل ہوگی اور خاص طور پر سماجی سرمایہ کاری (Social Finance) پیش نظر ہوگی۔
اقوامِ متحدہ، جنرل اسمبلی کے اجلاس (۲۷ستمبر ۲۰۱۸ء) میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک کے ایک خصوصی فورم میں یہ تاریخی فیصلہ کیا گیا کہ: ’’انسانی تاریخ کے اس اہم عالمی ترقیاتی منصوبے کے حصول کے لیے اسلامی سرمایہ کاری کے نئے طریقوں اور نادر نمونوں کے ذریعے ’پاے دار اور دیرپا ترقیاتی منصوبہ‘ کے اہداف کے حصول کی کوشش کی جائے گی‘‘۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام‘ (UNDP: یو این ڈویلپمنٹ پروگرام) اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، جدہ کے ادارے ’اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI)‘ اور ملائیشیا کے سیکورٹی کمیشن نے مل کر  اسلامک فنانس کو استعمال کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ اس کے ذریعے اقوام متحدہ کے اس عالمی ترقی و خوش حالی کے عظیم منصوبے کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں ایک واضح اور مؤثر کردار ادا کریں گے۔اس ۱۵سالہ اقوام متحدہ کے ترقی و خوش حالی کے منصوبے کی تکمیل کے لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت ہے اور اس کے حصول کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ دنیا بھر کے ممالک سے انفرادی طور پر اور بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے مالیاتی ادارے اور تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جائے گا۔ بطورِ خاص اسلامی سرمایہ کاری کے نظام سے استفادہ کیا جائے گا، جو خطرات کو انگیز کرنے ، ذمہ دارانہ سرمایہ کاری (Responsible Financing)، اور سماجی مقاصد (Social Causes) کے پیش نظر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ دنیا کے سماجی ، معاشی اور ماحولیاتی نقشے کو بدلنے کی عالمی کوشش ہے۔ اس کے تحت اسلامی سرمایہ کاری کے مؤثر استعمال پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ چنانچہ ۲۷ستمبر ۲۰۱۸ء کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں فورم کا انعقاد کیا گیا، جس کا عنوان تھا:
"Achieving the SDG Unleashing the potential of Islamic Finance through innovative Investors and instruments".
اس فورم میں طویل المیعاد سرمایہ کاری، پاے دار ترقیاتی منصوبوں اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی سرمایہ کاری کے نئے انداز اور نئے طریقوں پر غور وخوض کیا گیا۔
ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیربن محمد [پ:۱۰جولائی ۱۹۲۵ء] نے کلیدی خطاب میں ملائیشیا کے گلوبل سطح پر اسلامی فنانس میں قائدانہ کردار کا جائزہ پیش کیا اور نئے انداز سے اسلامی سرمایہ کاری کو ماحولیات کی آلودگی سے بچانے کے لیے ’گرین فنانس‘ کا بطورِ خاص ذکر کیا۔ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کی نمایندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر محمدجوینی نے بتایا:’’ SDG کے اہداف کا حصول کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ یہ کام روایتی اسلامی فنانس کے طریقوں سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے باہمی اشتراک اور نئے انداز کے اسلامی فنانس پروڈکٹس (Products) پر غوروخوض کرکے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

ڈاکٹر ہمایوں ڈار، ڈائرکٹر جنرل اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI)، جدہ نے اختتامی خطاب میں کہا کہ : ’’یہ مسرت کا مقام ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک باہمی اشتراک، نئی سوچ اور نئے طریقوں کو اپنا کر اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے آگے بڑھیں گے‘‘۔
اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری اور ’اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام‘(UNDP) کے افسراعلیٰ ٹیگیگ نے ورک گٹو ایڈ نے اُمید ظاہر کی کہ: ’’اقوام متحدہ کا اسلامی فنانس کے اداروں سے اشتراک پاےدار ترقی کے اہداف کی تکمیل کے لیے مددگار ثابت ہوگا اور سرکاری مالیاتی اداروں،   نجی کاروباری اور فلاحی تنظیموں کے تال میل سے یہ کام ہوسکے گا‘‘۔ ترکی کے مستقل نمایندے صالح موتلوسین نے بتایا: ’’کس طرح ترکی میں اسلامی سرمایہ کاری کی پیش رفت جاری ہے‘‘۔ 
یاد رہے کہ ۲۰۱۶ء میں اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے ادارے IRTI  اور اقوامِ متحدہ کے   یواین ڈی پی نے مل کر ’گلوبل اسلامک فنانس اینڈ امپاکسٹ انوسٹمنگ پلیٹ فارم‘ (GIFIIP) بنایا تھا، تاکہ اسلامک فنانس کو اقوام متحدہ کے اس عظیم الشان ترقیاتی منصوبے سے ہم آہنگ کرے۔
ترکی، ملائیشیا اور سعودی عرب کے نمایندوں نے خاص طور پر اس فورم کے مباحثے میں حصہ لیا اور اُمیدو حوصلہ سے بھرپور عزم کا اعادہ کیا کہ اسلامی سرمایہ کاری کے ذریعے مستقل اور پاے دار ترقی کے اس گلوبل منصوبے پر عمل کیا جائے گا، خاص طور پرگرین صکوک (Green Sukuk) پر مشورہ کیا گیا، جس کے ذریعے ترقی کے ایسے نمونے اور طریقے اختیار کیے جائیں گے، جن سے ماحولیات کی آلودگی سے بچا بھی جاسکے، اور جو ہمہ جہتی (Inclusive) اور متوازن ترقی کا باعث بھی ہوں۔
 اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی نے انڈونیشیا کے زکوٰۃ کے حصول و تقسیم کی تنظیم BAZNAS کے اشتراک سے ایک دستاویز تیار کی ہے: ’زکوٰۃ کا پایدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں ممکنہ حصہ داری اور کردار‘‘ (The Role of Zakat in supporting the Sustainable Development Goals)۔ اس میں لکھا ہے کہ مذاہب، دنیا میں تبدیلی اور تغیرات کے لیے ایک اہم قوت ہوتے ہیں اور مذہبی ادارے امن و سلامتی، ترقی و خوش حالی اور برداشت و تحمل پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی تقریباً ۲۲ فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ۲۰۰۵ء میں اسلامی سرمایہ کاری کا اندازہ تقریباً ایک سے دو کھرب ڈالر سالانہ لگایا گیا تھا۔ 
پھر قرآن کی سورۃ التوبہ آیت ۶۰ کاحوالہ دیتے ہوئے تفصیلی طور پر لکھا ہے کہ: ’’دین [اسلام] کے ارکانِ خمسہ میں کلمہ، نماز، روزہ اور حج کے ساتھ زکوٰۃ کا بھی ذکر آتا ہے اور ہر صاحب ِ نصاب پر فرض ہے کہ وہ فقرا، مساکین اور مستحقین تک اپنے مالوں کا ایک حصہ پہنچائے، جس کے ذریعے معاشرے کے کمزور اور کچلے ہوئے افراد کو اُونچا اُٹھایا جاسکے۔ زکوٰۃ کو اگر اجتماعی طور پر حاصل کرکے ایک منصوبہ بند طریقے سے تقسیم کیا جائے تو آج کے مستحقینِ زکوٰۃ آنے والے کل میں زکوٰۃ دینے والے ہوسکتے ہیں‘‘۔
’عالمی زکوٰۃ فورم‘ نے ۲۰۱۷ء میں اپنے جکارتہ (انڈونیشیا) کے اجلاس میں مقاصد ِ شریعہ کی روشنی میں اقوام متحدہ کے اس پاےدار ترقی کے اہداف اور زکوٰۃ کے مقاصد پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ: ’’مقاصد ِ شریعہ، جس میں انسانوں کے اپنے ایمان، زندگی، نسل، عقل اور مال کی حفاظت کا تذکرہ ہے، دراصل اقوام متحدہ کے پاےدارترقی کے اہداف (SDG) کے حصول سے ہم آہنگ ہیں اور زکوٰۃ کا اجتماعی نظم ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔زکوٰۃ کے حصول و تقسیم اور مختلف اصناف مستحقین کی نشان دہی اور ان تک زکوٰۃ کی رقم پہنچانے کے لیے مالیاتی ٹکنالوجی (فن ٹیک) کا استعمال کیا جائے تو شفافیت اور تیزی کے ساتھ یہ کام ہوسکتا ہے‘‘۔

اس کے علاوہ ’اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام‘ نے ایک اور اہم دستاویز Unlocking the Potential of Zakat & Other forms of Islamic Finance to achieve SDG Goals میں: ’’زکوٰۃ اور دوسرے اسلامی فنانس کو SDG کے اہداف کو حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا ہے‘‘۔ اس طرح زکوٰۃ کے اجتماعی نظم اور اسلامی سرمایہ کاری میں نئے اور نادر تجربے کے ذریعے اکرام انسانیت اور ان کی بنیادی ضروریات کے ساتھ کرئہ ارض کی امن و سلامتی کے لیے اقوامِ متحدہ کے عظیم ’اقدام‘ میں کامیاب حصہ داری سے، یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اقدار پر مبنی اسلامی معیشت آج کی دنیا کے  سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے میں ایک مثبت اور منافع بخش کردار ادا کرے گی۔ 

دین اسلام میں مسجد ایک انقلابی ادارہ ہے اور مسلم معاشرے میں اس کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے۔ جب تک قلب متحرک ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب کمزور پڑجاتا ہے تو جسم بھی شل ہوجاتا ہے۔ مسجد نہ تو اتوار کے اتوار سرگرم ہونے والا چرچ ہے، نہ محض یومِ سبت کو گریہ و زاری کرنے والا معبد، اور گنتی کے چند مخصوص اوقات اور دنوں میں پوجا پاٹ کیا جانے والا مندر، بلکہ دن رات کے کسی بھی لمحے نہ صرف فرض نمازوں، سنتوں، نوافل، اعتکاف اور قیام و سجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت، تربیت، دعوت اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مرکز ہے، جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔
مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے اپنے دست ِ مبارک سے مسجد قبا تعمیر کی اور یہاں پہلا جمعہ ادا کیا۔ اس کے بعد اپنے گھر تک کی تعمیر سے پہلے مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی اور اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قراردیا۔
امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں مسجد کے احکام و آداب اور اس کے استعمال کے دائرے کی تفصیل ۵۰ سے زائد ابواب باندھ کر بیان کی ہے، جس سے مسجد کی اہمیت، اس کے استعمال کا وسیع دائرہ اور معاشرے میں اس کے مقام و مرتبے کے علاوہ انسانیت کی خدمت کا پتا چلتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسجد نبویؐ قیامت تک کے لیے اُمت مسلمہ کے لیے ایک مینارئہ نور اور اسوئہ نبویؐ کا عملی نمونہ ہے۔ اس کسوٹی پر ہم اپنے معاشرے میں مساجد میں ہونے والے اُمور کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اسے معاشرے میں عبادت، تربیت اور خدمت کا مرکز اور محور بنانے کے بجاے اسے مصنوعی تقدس دے کر نہ صرف مسلم معاشرے کو بلکہ پوری انسانی سوسائٹی کو اس کے حقیقی فوائد و ثمرات سے محروم کر دیا ہے۔ اس کی ظاہری بناوٹ، سجاوٹ اور صفائی و ستھرائی کی ماشاء اللہ بھرپور کوشش کی جاتی ہے لیکن اسے مسجد نبویؐ کی طرح حرکت و عمل اور مرجعِ خلائق کا ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ بنانے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
اسلام کے دورِ عروج میں مساجد کا یہی حرکی کردار مسجد نبویؐ کی طرح پوری دنیا میں پایا جاتا تھا۔ یہاں صرف مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ اس کسوٹی اور معیار کی روشنی میں ہم اپنی مساجد کی تعمیر، ان میںتعلیم و تربیت اور خاص طور پر اُمت اور انسانیت کی ضروریات اور خدمت ِ خلق کے اہم کاموں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور مسجد کے انقلابی کردار کو بحال کرنے کی سعی و جہد کریں:

۱- تعلیم و تربیت

مسجد نبویؐ کے اندر ’صفہ‘ نام کا ایک مقام تھا، جو تعلیم کے لیے مخصوص تھا۔ صفہ چبوترے یا پلیٹ فارم کو کہتے ہیں۔ مسجد کے ایک حصے میں ڈائس کے طور پر ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا، جو دن کے وقت تعلیم گاہ کا کام دیتا اور رات کے وقت بے گھر لوگوں کے لیے سونے کی جگہ۔ گویا یہ پہلی اقامتی (residential) یونی ورسٹی تھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی۔
پہلے ہی دن سے شہر کے باشندے بھی وہاں آنے لگے۔ بے خانماں لوگ حصولِ تعلیم کے لیے وہیں رہتے تھے۔مختلف لوگوں کی ضرورتوں کے پیش نظر مختلف قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جو لوگ بالکل ہی اَن پڑھ تھے ان کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ۔ اہلِ مدینہ اپنی انتہائی فیاضی کے باعث یہ کرتے تھے کہ جب کھجوروں کی فصل تیار ہوتی تو ہرشخص کھجوروں کا ایک ایک خوشہ تحفے کے طور پر لاتا اور اسے مسجد نبویؐ کے اندر صفہ میں لٹکا دیتا۔ ان میں سے کھجوریں گرتیں تو صفہ میں رہنے والے غریب مسلمان انھیں کھاتے۔ ان خوشوں کی حفاظت کے لیے بھی ایک شخص مقرر کیا گیا تھا۔
حضرت معاذ بن جبلؓ جب اپنی انتہائی فیاضی کے سبب مقروض ہوگئے تو قرض کی ادایگی کے سلسلے میں انھیں اپنا مکان تک فروخت کر دینا پڑا۔ انھیں بھی رہنے کے لیے صفہ میں جگہ دی گئی اور ان پر یہ ذمہ داری بھی ڈالی گئی کہ وہ ان خوشوں کی نگرانی کریں۔ اصحابِ صفہ کے لیے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرسے اور کبھی مختلف صحابہؓ کی طرف سے کھانے کا انتظام ہوتا ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے ایک دن اہلِ صفہ کے ۸۰ آدمیوں کو کھانے کی دعوت دی۔ (حلیۃ الاولیاء، طبقات الاصفیاء)
ایک دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرئہ مبارک سے نکل کر مسجد کے اندر آئے اور دیکھا کہ دو گروہ ہیں: ایک گروہ تسبیح پڑھنے اور ذکر و اذکار میں مشغول تھا اور دوسر ا گروہ علم حاصل کررہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’اگرچہ دونوں اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ گروہ بہتر ہے جو تعلیم کا کام کر رہا ہے‘‘۔ پھرآپؐ بھی اس دوسرے گروہ میں شامل ہوگئے۔
اصحابِ صفہ کو تعلیم و تربیت کے علاوہ فوجی کام بھی کرنے پڑتے تھے، مثلاً بعض اوقات کسی قبیلے کے خلاف تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی، یعنی دشمن کو سزا دینے یا تعاقب کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا۔ اسی تربیت گاہ سے بڑی بڑی شخصیتیں تیار ہوئیں۔ مشہور فقیہ عبداللہ بن مسعودؓ، مشہور قاری سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ، مشہور محدث عبداللہ بن عمرؓ، مشہور زاہد ابوذر غفاریؓ، صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ، ابودرداؓ، حضرت ابن مکتومؓ ، مؤذنِ رسولؐ حضرت بلالؓ، غسیل الملائکہ حضرت حنظلہؓ، فاتح عراق سعد بن ابی وقاصؓ، فاتح آرمینیا حضرت حذیفہ بن الیمانؓ وغیرہ۔

۲- جسمانی تربیت کا اہتمام

تعلیم ہی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی جسمانی تربیت کا بھی انتظام فرمایا۔ آپؐ ہمیشہ لوگوں کو ورزش کی ترغیب دیتے۔ نشانہ بازی کی مشق بھی ہوتی تو خود بھی وہاں جاتے اور اپنے سامنے گھڑ دوڑ، اُونٹوں کی دوڑ اور آدمیوں کی دوڑ کراتے، کشتی کے مقابلے کرواتے اور مختلف طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
آج بھی مسجد نبویؐ کے شمالی دروازے کے پاس ایک مسجد ہے ، جس کا نام’مسجد سبق‘ ہے۔ سبق کے معنی مسابقت میں حصہ لینا ہے۔ آپؐ اس جگہ بلندی پر کھڑے ہوتے اور جب گھڑسوار گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرماتے کہ کون سا گھڑسوار پہلے نمبر پر ہے اورکون سا دوسرے نمبر پر۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ پانچ اوّل آنے والے گھڑسواروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انعام دیا کرتے تھے۔ کبھی کھجور کی شکل میں کبھی کسی اور چیز کی صورت میں۔

۳- ادب اور تفریح

مسجد نبویؐ کے منبر پر جہاں جمعے کا خطبہ اور مختلف اوقات میں آپؐ کے خطبات و ارشادات کا معمول تھا، وہیں ادب اور شعروشاعری کی محافل بھی منعقد ہوتی تھیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر اصحاب رسولؐ حمدِ خدا، مدحِ رسولؐ ، توصیف ِ اسلام اور جاہلی دور کے واقعات اور ادبی ذوق پر مشتمل اشعار بھی پڑھتے تھے۔ بخاری میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔
مدینہ میں حبشیوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی، جو نیزہ بازی اور دیگر جسمانی ورزشوں اور کھیلوں کا اہتمام خاص موقعوں پر کرتے تھے۔ عید کے دن ایک مرتبہ آپؐ نے مسجد نبویؐ میں حبشیوں کے کرتبوں پر مشتمل کھیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دکھائے جو آپؐ کی اُوٹ میں دیکھتی رہیںاور جب تھک گئیں تو واپس اپنے حجرے میں چلی گئیں۔

۴- مالی اور معاشی معاملات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی اہم مالی معاملہ پیش آتا اور نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے بعد اور اگر نماز کا وقت نہ ہوتا تو الصلٰوۃ الجامعۃ کا اعلان کر کے لوگوں کو جمع فرماتے اور معاملہ ان کے سامنے رکھتے۔
ایک دوپہر کو قبیلہ مضر کے لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جو تقریباً ننگے بدن، کمبل یا عبا لپیٹے ہوئے اور گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ ان کے فقر اور فاقے کی یہ حالت دیکھ کر آپؐ کا چہرئہ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر باہر نکلے اور حضرت بلالؓ کو اذان دینے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ حضرت بلالؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی، آپؐ نے نماز پڑھائی۔
پھر آپؐ نے حاضرین کو خطاب فرمایا۔ سورئہ نساء کی پہلی آیت اور سورئہ حشر کی اٹھارھویں آیت پڑھی اور اس کے بعد فرمایا: ’’ہرشخص اپنے دینار و درہم، کپڑے، گندم اور جَو کی مقدار میں سے صدقہ و خیرات کرے‘‘۔ پھر فرمایا: (خیرات کرو) چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ لوگ آتے گئے اور کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگ گئے،جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا دیکھا گیا۔ آپؐ نے قبیلہ مضر کے ان افراد کی بھرپور مدد کی۔
اسی طرح ایک انصاری صحابیؓ کا واقعہ ہے جو آپؐ کے پاس سوال کرنے کے لیے آئے۔ آپؐ نے پوچھا: ’تمھارے گھر میں کچھ نہیں ہے‘۔وہ بولے: ’کیوں نہیں، ایک کمبل ہے۔ کچھ اس میں ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’دونوں چیزیں ہمارے پاس لے آئو‘۔ وہ گئے اور دونوں چیزیں لے کر آئے۔ آپؐ نے ان دونوں کو ہاتھوں میں لیا اور فرمایا: ’کون خریدتا ہے ان دونوں چیزوں کو؟‘ ایک شخص بولا: ’میں لیتا ہوں دونوں کو ایک درہم کے بدلے میں‘۔ آپؐ نے پھر دو یاتین بار فرمایا کہ: ’’کون ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟‘ آخر آپؐ نے نیلام کے ذریعے دو درہم میں دونوں چیزوں کو فروخت کر دیا اور اس انصاری صحابیؓ سے فرمایا کہ: ’ایک درہم کا اناج لے کے اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لائو‘۔ پھر اس کلہاڑی میں ایک دستہ اپنے ہاتھ سے ٹھوک کر فرمایا: ’جائو لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن بعد آنا۔ وہ صحابی گئے اور وہی کام کیا۔ پندرہ دن بعد انھوں نے دس درہم کما لیے تھے۔ کچھ درہم کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ۔ آپؐ نے انھیں نصیحت فرمائی کہ یہ کام ان کے لیے سوال کرنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ، ابوداؤد)
اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور کے مائیکروفنانس(Micro Finance) کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ کسی شخص کے پاس جتنی کچھ بچت ہے، اسے کارآمد اور نفع بخش کمائی کا ذریعہ بنانا اور اس کے لیے رہنمائی فراہم کرنا اور اپنی معمولی بچت و حقیر سرمایے سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہی دراصل کامیابی کا راز ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی معمول تھا کہ نمازِ فجر اور عصر میں سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتے اور غیرحاضر اصحاب کے بارے میں دریافت کرتے اور اس کی وجہ جان کر ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش فرماتے۔

۵- شفاخانہ

مسجد نبویؐ میں مجاہدین کے لیے فوجی ہسپتال قائم تھا، جس میں ان کا علاج کیا جاتا تھا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی ہوتی تھی۔ اس کام کی حضرت رفیدہؓ ذمہ دار تھیں جو زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ مسجد میں اس مقصد کے لیے بنی غفار کا خیمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔ جنگ ِ خندق کے موقعے پر حضرت سعد بن معاذؓ، جب شدید زخمی ہوگئے تو ان کے لیے خیمہ لگایا گیا تاکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیکھ بھال کرسکیں۔ (بخاری)

۶- مہمان خانہ اور وفود کا قیام

نجران کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے نہ صرف مسجد میں ان کی مہمان نوازی کی بلکہ عیسائی وفد کو جس کے افراد کی تعداد ساٹھ تھی، انھیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے سے عبادت بھی کریں۔ اسی طرح قبیلہ ثقیف کا وفد آیا تو آپؐ نے نہ صرف ا ن کو مسجد میں بحیثیت مہمان ٹھیرایا بلکہ ان کے لیے مسجد نبویؐ میں ایک خیمہ نصب فرمایا اور ان کی تکریم کے لیے کئی صحابہؓ آگے بڑھے۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے ان کی خدمت کے لیے بارگاہِ نبویؐ میں درخواست دی تو فرمایا کہ ان کی خدمت و تکریم سے تم کو نہیں روک رہا ہوں لیکن انھیں ایسی جگہ ٹھیرائو جہاں سے وہ قرآن سن سکیں۔ اس وفد میں ان کے سردار ابنِ عبدیالیل بھی تھے، جنھوں نے سفرطائف کے موقعے پر آپؐ سے بدسلوکی اور شہر کے لڑکوں اور غلاموں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا کہ وہ آپؐ کی تضحیک و تحقیر کریں۔ انھوں نے آپؐ پر کیچڑ پھینکا اور پتھروں کی بوچھاڑ سے زخمی کر دیا۔ پیشانی مبارک کے خون نے بہہ کر پاے مبارک کو رنگین کر دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں:
آپؐ نے ان سخت بُت پرست اور اسلام کی عداوت میں سنگ دل لوگوں کو مسجد میں ٹھیرایا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جس قبیلہ طائف کو مسلمانوں کی منجنیق ۴۰ دن تک سنگ باری کرکے فتح نہ کرسکی اس کے بسنے والوں کے دلوں کو آں حضرتؐ کے خلق عظیم، اسلام کی مصلحت، مسجد کے قیام اور اسلامی عبادت کے نظارے نے چند گھنٹوں کے اندر فتح کرلیا۔ لوہے کی تلوار کو سر پر روکا جاسکتا ہے لیکن محبت کی تلوار کے لیے کوئی سپر نہیں۔(جامع الشواہد،ص ۱۹)

۷- عورتوں اور بچوں کا داخلہ

دورِ نبویؐ میں عورتیں فرض نمازوں کی ادایگی کے لیے مسجد نبویؐ میں آیا کرتی تھیں۔ آج بھی مسجدنبویؐ میں باب النساء موجود ہے ، جہاں سے ان کا داخلہ ہوتا تھا۔ بعض مرتبہ مردوں کو خطاب کرنے کے بعد آپؐ خصوصی طور پر عورتوں کے پاس آتے اور انھیں نصیحت فرماتے۔ 
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس دور میں عورتیں عام طور پر فجر، مغرب اور عشاء کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپؐ نماز کے بعد عورتوں کی طرف تشریف لائے اور انھیں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی۔ عورتوں نے اپنے گلے اور کانوں کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اپنے زیور اُتار کر حضرت بلالؓ کو دے دیے۔ بچے بھی بالعموم عورتوں کے ساتھ آتے تھے۔ بچوں کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ نماز کو مختصر کر دیتے تھے۔ نواسۂ رسولؐ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا مسجد میں آنا اور اپنے ناناؐ کی گود میں بیٹھنا بھی مشہور ہے۔

۸-جہاد کی تیاری

جہاد کا سامان مسجد نبویؐ میں جمع ہوتا تھا اور مجاہدین کو دیا جاتا تھا۔ جنگ ِ تبو ک کے موقعے پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے تعاون کی اپیل کی، تو حضرت ابوبکرؓ نے گھر کا پورا اثاثہ لاکر پیش کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے گھر کا آدھا سامان پیش کیا۔ بعض غریب صحابیؓ محنت مزدوری کرکے اور ایک صحابیؓ نے رات بھر کھیت میں کام کرکے مٹھی بھر کھجوریں پیش کیں تو آپؐ نے سامان کے ڈھیر کے اُوپر اس کو بکھیر دیا۔ بعض اوقات مالِ غنیمت، انفال اور ہدیہ کا مال بھی مسجد نبویؐ میں آتا اور حق داروں میں تقسیم کیا جاتا۔ اگر مال ایک دن میں تقسیم نہیں ہوتا تو آپؐ اس رات گھر تشریف نہیں لاتے بلکہ مسجد میں ہی قیام فرماتے تھے۔

۹- مسجد میں عدالت

مسجد کو قضا اور عدالت کے لیے مرکز بنانے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا۔ آپؐ مسجد میں فیصلے فرماتے، اور متعدد مدعی اور مدعا علیہ، ان کے گواہ اور دوسرے لوگ مسجد میں حاضر ہوتے ، جہاں ان کے بیانات لیے جاتے تھےاور فیصلہ سنایا جاتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ کھلی عدالت تھی، جس میں ہر شخص عدالتی کارروائی سننے اور دیکھنےآسکتا تھا۔ 
آپؐ نے عدالتی فیصلے مسجد میں کیے۔ جیسے فاطمہ مخزومی کی چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ اور غامدیہ کے رجم کا فیصلہ۔ بنی قریظہ قبیلہ کے قلعے کے محاصرے کے دوران ان کے سرداروں نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ صحابی رسول ابولبابہؓ کو ان کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ مشورہ کر کے کوئی فیصلہ کریں۔ ابولبابہؓ جب اس قبیلے کے پاس پہنچے تو عورتیں اور بچے دھاڑیں مارمار کر رونے لگے اور اس کیفیت کو دیکھ کر ان پر رقّت طاری ہوگئی۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ ہتھیارڈال دیں لیکن ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائے گا، لیکن انھیں فوراً احساس ہوا کہ ان کا اس طرح اشارہ کرنا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت ہے اور اپنے آپؐ کو مسجد نبویؐ کے ایک ستون سے باندھ لیا اور قسم کھائی کہ اب انھیں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اپنے دست ِ مبارک سے کھولیں گے۔ ابولبابہؓ چھے رات مسلسل ستون سے بندھے رہے۔ اس کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور آپؐ نے انھیں کھول دیا۔ (تفسیر الرازی، سورئہ انفال ۸:۲۷-۲۸)

۱۰- مسجد میں قید خانہ

ثمامہ بن اثالؓ جو قبیلہ بنوحنیفہ کے ایک سربرآوردہ رئیس اور علاقہ یمامہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے خبری میں اچانک حملہ کر کے کام تمام کرنا چاہتے تھے، لیکن صحابہ کرامؓ کے ایک فوجی دستے نے گرفتار کر کے مدینہ لاکر مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ آں حضوؐرنے جب ثمامہ کو دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ ان کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آنا اور پھر گھروالوں سے کہا کہ جو کچھ کھانا موجود ہے ، جمع کر کے ان کے پاس بھیج دیں اور ہدایت فرمائی کہ آپؐ کی اُونٹنی کا دودھ صبح و شام دوہ کر پیش کریں ، تاکہ ثمامہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ دو دنوں کے بعد آپؐ نے انھیں رہا کر دیا۔ اس کے بعد ثمامہ نے اسلام قبول کرلیا اور مرتے دم تک سچے اور مخلص مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزاری۔(بخاری، حدیث: ۴۳۷۲)

مسجد کو خدمتِ خلق کا مرکز بنایئے!

یہاں مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے اس لیے پیش کیا گیا ہے، تاکہ ہم موجودہ دور کی مسجدوں سے ان کا موازنہ کر کے دیکھیں کہ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ آج ہماری مسجدیں صرف خالق کی عبادت کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان میں مخلوقِ خدا کی خدمت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان میں مکاتب و بچوں کے لیے ناظرہ قرآن یابعض جگہ مدرسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ نمازوں کےعلاوہ یا تو بند رہتی ہیں یا ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم مساجد کو جن پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی رقم خرچ کر کے تعمیر کیا جاتا ہے، اس کی ظاہری بناوٹ،ان کے اندر اور باہر کی تعمیر اور سجاوٹ، یہاں تک کہ    ان کے میناروں تک پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انھیں خدمت ِ خلق کے مختلف کاموں کا مرجعِ خلائق بنائیں اور مسجد کے اس فعال اور حرکی تصور کو جو دورِ نبویؐ اور دورِ خلفاے راشدینؓ میں عروج پر تھا، دوبارہ زندہ کریں:

  • مساجد میں ایک عمدہ قسم کی لائبریری اور دارالمطالعہ ضرور بنائیں، تاکہ اس میں اصحابِ صفہ کی طرح طالبانِ علم آئیں اور علم کی پیاس بجھائیں۔ آج کے دور میں آڈیو، ویڈیو، سی ڈی اور کمپیوٹر کے ذریعے مختلف علوم کو حاصل کرنا آسان بھی ہوگیا ہے اور سستا بھی۔مثال کے طور پر شہر بنگلور کی سٹی جامع مسجد میں اس قسم کی عام تعلیم، فنی تعلیم اور تعلیم بالغاں وغیرہ کی فراہمی کا مناسب انتظام ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔

  • مساجد میں صدقات و زکوٰۃ کے وصول اور اس کی تقسیم کا نظم بھی ہونا چاہیے اور ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہییں جو باقاعدہ محلے کا سروے کرکے ڈیٹابنک تیار کریں، جن میں اس محلے کے بے روزگاروں ، بیوگان اور معذوروں اور صاحب ِ نصاب مرد اور عورتوں کے پورے اعداد و شمار سافٹ ویئر میں جمع ہوں اور باہم اشتراک سے بلاسودی قرضہ جات، روزگار کی فراہمی، صدقات کی وصولی، شادی بیاہ کے لیے سہولیات کا اچھے انداز سے انتظام کریں۔

  • مساجد میں نکاح اور اس سے متعلقہ معاملات کے لیے سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں اور آسان اور کم خرچ شادیوں کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ شادی شدہ لڑکیوں کے مسائل کے حل کے لیے کونسلنگ سنٹر (Counselling Centres)، دارالقضا اور باہمی تنازعات کے حل کے لیے پنچایت وغیرہ کا قیام بھی بحسن و خوبی ہوسکتا ہے۔

  • تفریح آج کے دور کی اہم ضرورت ہے اور تفریح کے نام پر صرف فحش اور گندی چیزیں میسر ہیں۔ بھارت میں جیّد علماے دین پر مشتمل اسلامک فقہ اکیڈمی کے بیسویں اجلاس (رام پور) نے اس سلسلے میں توجہ دی ہے اور طے کیا ہے کہ: ’’ایسے کھیل جو انسان کے وسیع تر مفاد میں ہوں، جن سے جسمانی قوت، چستی، نشاط کی بحالی میں مدد ملتی ہو اور جن کھیلوں کے بارے میں احادیث میں ترغیب آئی ہے، ان کے مستحب ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ان سے ملتے جلتے جمناسٹک،   مارشل آرٹس، یا کم جگہ پر چھت تلے (indoor) کھیلوں کے لیے مواقع مسجد کے احاطے میں فراہم نہیں کیے جاسکتے ہیں؟ چھوٹے بچوں کے لیے تربیتی مقصد کے لیے خاکے بنانا، ان میں رنگ بھرنے، بچوں کے لیے نفسیاتی، اخلاقی اور لسانی نقطۂ نظر سے مفید اور جائز سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک، مثلاً امریکا، کینیڈا، جرمنی، سکنڈے نیوین ممالک اور برطانیہ میں مساجد اسلامک سنٹر کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں، جہاں انڈرگرائونڈ (تہہ خانے میں) بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور مختلف کھیلوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی احاطے میں حلال اور سستے کھانوں کے ریسٹورنٹس اور چھوٹی چھوٹی دکانیں ہوتی ہیں ، جن میں روز مرہ کی اشیا اور ہاتھ کی بنی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے آرام کرنے کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔

  • صحت اور حفظانِ صحت کی ضرورت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی تربیت، آفات میں بحالی (Disaster Management)کے کورسس، کلینیکل لیبارٹریاں اور بلڈبنک کا قیام۔ ممکن ہو تو ایکسرے اور اسکیننگ کی سہولیات جہاں مرد اور عورتوں کے لیے علیحدہ اوقات اور الگ اصناف کے ماہرین کی فراہمی ہو تو یہ عمل دورِ نبویؐ کے شفاخانے اور زخمیوں کی تیمارداری کے مترادف ہوسکتے ہیں۔

  • مسجد کے اطراف کرایے کے لیے دکانوں کی تعمیر اور اس کے ذریعے آمدنی کے ذرائع فراہم کرنے کا رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بجاے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہوسٹلز یا کم از کم کمرے تیار کیے جائیں تو طلبہ و طالبات کو مسجد کے احاطے میں پاکیزہ ماحول مل سکتا ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔ یہ مثال میرے علم میں ہے کہ ایک غریب محلے میں صاحب ِ خیر نے مسجد بنائی ہے، جو دن رات کھلی رہتی ہے اور سیکڑوں طالب علم اپنے گھر میں جگہ کی قلت کی وجہ سے مسجد میں لکھتے پڑھتے ہیں۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس مسجد کی وجہ سے سیکڑوں نوجوان گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بن کر نکلے ہیں اور آج بہتر ملازمت اور اچھے معاش کے حصول کے ذریعے معاشرے میں ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

جیساکہ یہ واقعہ کافی مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کو اپنا پیالہ اور چادر فروخت کرکے کلہاڑی خریدنے، اس کو دستہ لگا کر لکڑیاں کاٹنے کی رہنمائی کی۔ یہی دراصل آج کے مائیکروفنانس کا تصور ہے جس کی طرف مسلمانوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ اس قسم کی کوشش عین سنت ِ نبویؐ کی پیروی ہے اور یہ کام ہماری مسجد میں بڑی خوبی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں مساجد میں حج اور عمرہ کے فضائل و مسائل پر تو بیانات واجتماعات ہوتے ہیں جو مسلم معاشرے کے صاحب نصاب و اہلِ ثروت سے متعلق ہیں، لیکن غربت کے مارے اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کے لیے زکوٰۃ و صدقات پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ کیا محسن انسانیتؐ کی وارننگ وَالْفَقْرُ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ کُفْراً (عنقریب فقروافلاس لوگوں کو کفر کی طرف لے جائے گا) ہمارے سامنے نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بلاسودی سوسائٹیوں اور بیت الزکوٰ ۃ کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور زیادہ اچھا ہو کہ یہ مسجد کے احاطے ہی میں ہو۔ فقرا و مساکین اپنی ضروریات کے لیے سودی قرضہ جات کے چکّر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بالآخر اپنے مکانات اور زیورات ہی نہیں بلکہ غربت کی انتہا میں خواتین کے لیےزندگی بہت زیادہ پُرخطر ہوجاتی ہے۔

  • معروف محقق ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے خطبات بہاول پور میں زکوٰۃ کے تالیف ِ قلب کی مد میں غیرمسلموں کی امداد اور حضرت عمرفاروقؓ کے بیت المال سے بلاسودی قرضوں کے اجرا کا ذکر کیا ہے۔ تکثیری (Pluralistic) معاشرے میں تعلقات کی خوش گواری اور خیرسگالی و ہمدردی کے جذبات کو اُجاگر کرنے اور اسلام کے نظامِ رحمت کو عملی طور پر پیش کرنے کے لیے مساجد سے بلاتفریق مذہب و ملّت بلاسودی قرضوں اور زکوٰۃ و صدقات کی رقوم کا ایک حصہ کیا غیرمسلم عوام کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے ؟ بالغ نظر علماے دین اوردانش وران ملّت کو حقیقت پسندانہ انداز میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اُمت مسلم اور خاص طور پر ہمارے ملک میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے مسجد نبویؐ کے نمونے پر مساجد کے استعمال کے بارے میں انقلابی اور حرکی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کی طرف ملّت کے علماے کرام اور عمائدین عظام کو خصوصی اورفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری مساجد معاشرتی ماحول کی بدصورتی اور ظلم کے اتھاہ سمندر میں کنول کے پھول کی طرح نمودار ہوں۔ جہاں نہ صرف خالق کی عبادت و بندوں کی تربیت کا اہتمام ہو بلکہ وہ خلق خدا کی خدمت و مودت کا بھی مرکز ہو۔ معاشرے کے مجبور، معذور اور حاشیہ پر رہنے والے افراد کی داد رسی ہوسکے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر مسجدنبویؐ کے طرز پر ان تمام سرگرمیوں پر مشتمل چند مسجدوں کا قیام عمل میں آجائے تو دنیا اپنے سرکی آنکھوں سے اس کی افادیت و اہمیت کو دیکھ سکےگی۔ سنت نبویؐ کے اجرا کے اس عظیم الشان کام سے نہ صرف اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ ہوسکے گی، بلکہ صدقۂ جاریہ کے  ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہوگا ، جس سے ساری انسانیت مستفید ہوسکے گی اور ربِ جلیل و قدر کے ہاں بے پناہ اجر و ثواب کی مستحق بھی۔ساتھ ہی ہم اسلام کو ایک نظامِ رحمت و مودت کی عملی شہادت کے طور پر بھی پیش کرسکیں گے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی معاشرہ قائم ہوا تھا اور ایک عظیم الشان اسلامی ریاست بھی۔ اس معاشرے اور ریاست کی پانچ اہم مضبوط اور منظم بنیادیں تھیں: مذہبی، سیاسی، تعلیمی، سماجی اور معاشی۔
دینی اُمور اور معاملات کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ کی تعمیر فرمائی، نمازباجماعت اور مختلف سرگرمیوں کی وجہ سے یہ تمام مذہبی اُمور کا مرکز بنا۔ سیاسی نقطۂ نظر سے کفارِ مکّہ سے صلح حدیبیہ، یہود سے میثاقِ مدینہ اور نجران کے عیسائیوں سے الگ معاہدہ بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ مہاجرین و انصار میں بھائی چارگی کا رشتہ، نیز ان کے درمیان انس و اخوت کی بنیادیں، سماجی ڈھانچے میں زبردست تبدیلیوں کا باعث بنیں۔
تعلیم کے پس منظر میں پہلی منظم درس گاہ مسجد نبویؐ کے اندر صفہ (چبوترہ) تھا، جس میں ۷۰ تا ۸۰ طالب علم تھے۔ اس مدرسے کے طلبہ میں مختلف افراد اسلامی حکومت کی مختلف خدمات پر مامور کر دیے جاتے تھے اور تعلیم و تبلیغ کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ ان ہی اصحاب کو بھیجا جاتا تھا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ مالی اُمور کے نگران تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مختلف اکابر صحابہ کرامؓ بھی معلم کی خدمات انجام دیتے تھے۔
معاشی خوش حالی اور مادی ترقی کے لیے ’مدینہ مارکیٹ‘ کا قیام اور اس کا انتظام و انصرام سیرتِ نبویؐ کا ایک تاب ناک باب ہے، جو عام طور پر ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ اس کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں

مدینہ منورہ کی مرکزیت

مدینہ منورہ اس اعتبار سے پورے جزیرئہ عرب میں نمایاں تھا کہ وہاں تجارت اور زراعت کے مراکز تھے۔ طائف میں زیادہ تر زراعت ہوتی تھی، مگر تجارت کم تھی۔ مکہ مکرمہ میں صرف تجارت ہوتی تھی، لیکن زراعت نہیں تھی۔ مدینہ منورہ میں تجارت اور زراعت دونوں ہوتی تھیں۔   مدینہ منورہ میں بہت سے باغات اور کھیت تھے۔ کھجور اور انگور کے علاوہ بھی بہت سی دوسری پیداوار ہوتی تھی۔ تجارت میں اگرچہ مسلمان بھی شریک تھے، لیکن زیادہ تر تجارت اب بھی یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔
جب مکّہ سے ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے، تو آپؐ نے  ایک ایک کرکے ان میں سے ہرچیز کا جائزہ لیا۔جو چیز اسلام کے نقطۂ نظر سے قابلِ قبول تھی یا غلط نہیں تھی، اس کو حضوؐر نے جاری رہنے دیا اور اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔
مدینہ منورہ کی اہم پیداوار کھجور، جَو، انگور، انجیر تھی اور کچھ پھل، جن میں انار اور کیلا بہت نمایاں ہیں، کثرت سے پیدا ہوتے تھے۔ گندم پیدا ہوتی تھی، لیکن بہت کم۔ عام طور پر دُور سے لانے کی وجہ سے مہنگی بھی تھی اور کم بھی۔ مصنوعات میں زیادہ تر کپڑا، ہتھیار، لکڑی کا سامان شامل تھا۔ انگور کی پیداوار کی وجہ سے شراب کی پیداوار بھی تھی۔ اکثر شراب خانے یہود کے تھے۔ وہ خود بھی شراب کا کاروبار کرتے تھے اور ان سے لے کر دوسرے لوگ بھی قرب و جوار میں شراب کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ جب شراب حرام قرار پائی تو مہاجرین اور انصار دونوں میں شراب کا کاروبار کرنے والوں نے اس سے ہرقسم کاتعلق ختم کر دیا۔ چوں کہ مدینہ میں اس کی کھپت ختم ہوگئی، اس لیے غیرمسلموں نے بھی ایک ایک کرکے شراب کا کاروبار ختم کر دیا۔
صنعت و حرفت میں گھریلو دست کاری بھی تھی اور اجتماعی دست کاری بھی۔ گھریلو دست کاری میں عموماً کپڑے، سوت کاتنے، دھاگہ بنانے کا کام ہوتا تھا، جو بڑے کاروبار تھے اور جس میں ایک سے زائد لوگ کام کرتےتھے، اسے آپ فیکٹری یا کارخانہ کہہ سکتے ہیں۔ جہاں پر زراعت اور لوہے کے آلات بنائے جاتے تھے۔ یہ سرگرمی عموماً بنوقینقاع کے ہاتھ میں تھی۔ قرب و جوار میں زرعی آبادیاں تھیں، اس لیے وہاں آلاتِ زراعت کے کام کی خاصی گنجایش تھی۔ مدینہ منورہ کے تاجر درآمد (import) برآمد(export) کا کام بھی کرتے تھے۔ شام سے کپڑا اور استعمال کی دیگر اشیا منگوایا کرتے تھے۔ گندم کا بیش تر حصہ اُردن سے آیا کرتا تھا۔ کاروبار میں یہودی بھی پیش پیش تھے اور شام کے مختلف علاقوں میں ان کے تجارتی مراکز تھے، جہاں سے درآمد اور برآمد کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ بنونضیر کے یہودی اس کام میں بڑے نمایاں تھے۔ 
 ہجرت کے تقریباً ایک ڈیڑھ سال کے بعد مسلمان بڑی تنگ دستی کے عالم میں تھے۔ یہود کا ایک بڑا تجارتی قافلہ آیا۔ اس میں خوشبوئیں، جواہرات اور سمندری سامان غالباً موتی وغیرہ مدینہ کے بازار میں آکر اُترا۔ مسلمان خواتین اور نوجوانوں نے حسرت کی ایک نظر سے ان سب چیزوں کو دیکھا اور دل میں محسوس کیا کہ تمام مال ود ولت یہود کے پاس ہے، مسلمانوں کے پاس کچھ مالی وسائل نہیں ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی تسلی کے لیے قرآنِ پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:
وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ۝۸۷  لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۸۸ (الحجر۱۵:۸۷-۸۸) ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دُہرائی جانے کے لائق ہیں، اور تمھیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے۔ تم اُس متاعِ دنیا کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ   ان کے حال پر اپنا دل کڑھائو۔ انھیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھکو۔
غرض یہ کہ تجارت بیش تر یہود کے قبضے میں تھی۔ انصار، یعنی اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ ان کے مقروض تھے۔ اور جیساکہ عرض کیا گیا کہ ان کی زمینیں ایک ایک کرکے یہود کے قبضے میں جارہی تھیں۔ اس صورتِ حال پر مہاجرین کے آنے سے بہت فرق پڑا۔ مہاجرین تجارت کے بڑے ماہر تھے کیوں کہ مکہ مکرمہ میں اصل کام تجارت تھا۔ مہاجرین میں بڑے بڑے نامی گرامی تاجر تھے، جو تجارت کے فن میں طاق تھے۔ جب انھوں نے مدینہ منورہ کے بازاروں میں تجارت شروع کی تو یہودیوں کا زور بازار پر سے کم ہوتا چلا گیا اور ان کی بالادستی متاثر ہوئی۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے بنوقینقاع کے بازار میں ہی کاروبا ر شروع کیا تھا (بخاری، کتاب البیوع)۔ وہاںکے تاجروں نے بازار پر اپنی اجارہ داری بنائی ہوئی تھی۔ ایک شخص ابورافع ’تاجرِ حجاز‘ کہلاتا تھا اور وہ پورے حجاز کا سب سے بڑا تاجر تھا۔ بنوقینقاع کے پورے بازار بلکہ مدینہ منورہ کے بازار پر اس کا کنٹرول تھا۔ جو قیمت وہ متعین کردیتا، وہی بازار کی قیمت ہوتی تھی۔ سب یہودی تاجر متحد ہوکر اس کے فیصلوں کی پابندی کرتے تھے۔ اس طرح یہ لوگ ایکا کرکے  کسی غیریہودی تاجر کو بازار میں قدم جمانے نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے دو پیمانے بنا رکھے تھے: ایک پیمانہ دینے کے لیے اور دوسرا لینے کے لیے۔ اسلام نے دو پیمانے رکھنے کی ممانعت کردی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ پہلے تاجر تھے، جنھوں نے ابورافع کی اس بالادستی کو ختم کردیا۔ انھوں نے ایک ایک کرکے اس کے غلط تجارتی طریقوں کو ختم کیا اور اس کی اجارہ داری کو کمزور کیا۔

نئی مارکیٹ کا قیام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا اہم فیصلہ یہ کیا کہ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد ایک نئی مارکیٹ قائم کی، جو مسجد نبویؐ کے قریب ہی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے لیے ایک متبادل بازار قائم ہوجائے اور یہود کی شرارتوں اور اجارہ داری سے مسلمانوں کو نجات مل جائے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تجارت میں بڑا اُونچا مقام رکھتے تھےاور اللہ نے انھیں وسائل بھی دیے تھے۔ ان کو شکست دینا اور ان کے کاروبار کو خراب کرنا یہود کے لیےممکن نہیں تھا۔ لیکن چھوٹے مسلمان تاجروں کو یا ایسے لوگوں کو ، جن کا رسوخ کم تھا، یہودی تاجر تنگ کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر اپنے مسلمان خریداروں کو بھی یہودی دکان دار تنگ کیا کرتے تھے۔ ایک مسلمان خاتون کی بے حُرمتی کا مشہور واقعہ بھی اسی پس منظر میں ہوا، جس کی وجہ سے  غزوئہ بنوقینقاع [شوال ۲ ہجری/۶۲۴ء]ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی توہین کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ 
اس کے علاوہ یہود کا نظریہ تھا کہ ان کے علاوہ دوسرے سب لوگ گم راہ ہیں، اس لیے ان کا استحصال جائز ہی نہیں پسندیدہ فعل تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ سیاسی خودمختاری اور ریاست کے استحکام کے لیے معاشی طور پر مضبوطی اور آزادی کس قدر اہم ہے۔ اس لیے ایک متبادل تجارتی پلیٹ فارم قائم کرنے کے لیے آپؐ نے ایک مارکیٹ قائم کی، جس کے بارے میںآپؐ نے فرمایا کہ: ’’یہ تمھارا اپنا بازار ہے۔ اس میں کوئی بھی تمھارے ساتھ زیادتی یا کمی نہیں کرے گا۔ یہاں تم سے کوئی ظالمانہ ٹیکس نہیں لے گا۔ یہودی اپنے بازار میں بیٹھنے والے مسلمانوں سے غیرضروری ٹیکس بھی لیا کرتے تھے اور ان پر طرح طرح کے مالی تاوان اور بوجھ ڈالا کرتے تھے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے بازار میں کاروبار کرنے والے مسلمان تاجروں کے لیے ٹیکس کی چھوٹ کا اعلان کیا کہ کوئی اضافی بوجھ تم پر نہیں ڈالا جائے گا۔
محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
اَلْجَالِبُ اِلٰی سُوْقِنَا کَالْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (مصنف ابن شیبہ، ج۴، ص ۳۰۵؛  بلاذری، ص ۸۲؛ سمہودی، ص۵۰۴) جو ہمارے اس بازار میں مال لے کر آئے گا، وہ اسی طرح کے اجر کا مستحق ہوگا جس طرح کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے۔
اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا مسلمانوں کی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور جو مسلمانوں کے بازار کو کامیاب بناتا ہے، وہ مسلمانوں کی معاشی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔مسلمانوں اور اُمت مسلمہ کی آزادی کو یقینی بنانے والا کوئی بھی عمل جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔ 
آپؐ نے فرمایا کہ: ہمارے اس بازار میں کوئی شخص اگر ذخیرہ اندوزی کرے گا،تو اس کو اتنا ہی مجرم سمجھا جائے گا جس طرح کہ کتاب اللہ میں الحاد کرنے والا، کتاب اللہ کے معانی میں غتربود کرنے والا یا کتاب اللہ کے معنی کو غلط بیان کرنے والا۔ (المستدرک ، الحاکم،کتاب البیوع، حدیث:۲۱۰۹)

تاجروں کو سہولت

نئی مارکیٹ مسجد نبویؐ سے قریب اور یہود کی مارکیٹ سے فاصلے پر تھی۔ جگہ کی تبدیلی کے ساتھ آپؐ نے ایسے حالات پیدا کیے، جو تاجروں اور گاہکوں کے لیے بڑے سازگار ہوں اور وہ اپنی پرانی مارکیٹ چھوڑ کر خریدوفروخت کے لیے اس نئی نبویؐ مارکیٹ کی طرف آئیں۔ اس کے لیے آپؐ نے دو دُور رس اصولوں کو اپنا کر اسے عملی جامہ پہنایا، جس کی وجہ سے تاجروں کی توجہ اس   نئی مارکیٹ کی طرف مرکوز ہونے لگی۔ پہلا اہم فیصلہ آپؐ نے یہ کیا کہ مدینہ مارکیٹ کے احاطے میں کسی بھی تاجر کو آنے اور خیمہ لگانے کی اجازت ہوگی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تجربہ کار تاجر تھے۔ آپؐ کو معلوم تھا کہ ٹیکسوں کے بغیر تجارت کی جائے تو خریدوفروخت میں آسانی ہوتی ہے اور نفع میں ترقی بھی۔ تاجر اور گاہک دونوں کو زیادہ نفع کی وجہ سےاس جگہ میں کشش پیدا ہوگئی۔ بغیر محصول اور ٹیکس کے خریدوفروخت میں قیمتیں کم ہوں گی اور کاروباری نقطۂ نظر سے بھی یہ بات مفید ہوگی۔ جہاں قیمتیں کم ہوں گی، لامحالہ خریداروں کا رُخ اسی مارکیٹ کی طرف ہوگا۔ واضح رہے کہ یہودی تاجر اپنی مارکیٹ میں ٹیکس لگاتے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے یہ طریقہ بھی اختیار کیا کہ مارکیٹ میں تاجروں کے لیے مخصوص جگہوں کا تعین نہ ہو، بلکہ جو تاجر جلد آئے گا، اپنی جگہ حاصل کرے گا اور کوئی بھی تاجر مستقل کسی جگہ پر قبضہ نہیں کرے گا۔ اس طریقۂ عمل سے جلد اور سویرے کاروبار کا سلسلہ شروع ہوا، اور تمام ہی تاجر اس مارکیٹ کی طرف منتقل ہونے لگے۔
مؤرخینِ سیرت نے لکھا ہے کہ جب تاجروں نے دیکھا کہ مارکیٹ اچھی ہے اور کاروبار بھی زوروں پر ہے، تو چند ایک نے اپنی متعین جگہوں پر خیمہ لگانے اور مارکیٹ کی احاطہ بندی کی کوشش کی۔ ایسے ہی ایک تاجر نے مارکیٹ میں مستقل خیمہ لگایا تو آپؐ نے حکم دیا کہ: ’اس کے خیمے کو جلا دیا جائے‘ (کتاب وفا الوفاء، باخبار دارالمصطفٰے، ص ۵۴۰)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجرانہ اصولوں پر کس شدت کے ساتھ عمل کروایا۔ اس طرح مدینہ مارکیٹ خریدوفروخت کا اچھا مرکز بن گیا۔ اجارہ داری او ر استحصال سے پاک اور ٹیکس کے نہ ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں کمی اور کاروبار میں آسانی کی وجہ سے یہودیوں کا بازار سرد پڑنے لگا، اور وہ خود مجبور ہوئے کہ مدینہ مارکیٹ کی طرف آئیں اور خریدوفروخت کریں۔

بازار کی نگرانی کا انتظام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ وہ مدینہ کے اُس بازار کا جائزہ لینے کے لیے خود تشریف لے جاتے تھے ۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃ  اَنَّ النَّبِیَّ  مَرَّ عَلٰی صُبْرَۃِ طَعَامٍ  فَأَدْخَلَ اَصَابِعَہٗ فِیْھَا ، فَاِذَا فِیْہِ  بَلَلٌ  فَقَالَ مَا ھٰذَا یَاصَاحِبَ الطَّعَامِ،قَالَ: أَصَابَتْہُ سَمَاءٌ  یَارَسُوْلَ اللہِ، قَالَ: فَھَلَّا  جَعَلْتَہٗ  فَوْقَ  الطَّعَامِ حَتّٰی یَرَاہُ النَّاسُ  ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ غلہ کے ڈھیر کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپؐ نے غلّے کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اندر کا حصہ گیلا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: حضور، بارش کی وجہ سے بھیگ گیا تھا۔ آپؐ نے کہا: پھر اسے اُوپر کیوں نہیں رکھا؟‘‘ پھر ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا  ’’جو ہم سے دھوکا کرے، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (صحیح ابن حبان، ابواب البیوع ،حدیث: ۴۹۸۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خودتاجر تھے اور تجارت کو باوقار اور معزز پیشہ سمجھتے تھے۔ یہ پیشہ عوام کی سماجی اور معاشی خدمت کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے دورِاوّل ہی سے مسلم معاشر ے میں تاجروں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: التَّاجِرُ الأَمِیْنُ الصَّدُقُ الْمُسْلِمُ مَعَ الشُّھَدَاءِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ’’سچا اور امانت دار مسلمان تاجر روزِ قیامت شہدا کے ساتھ ہوگا‘‘۔(ابن ماجہ، کتاب التجارۃ، باب الحث علی المکاسب، حدیث: ۲۱۳۶)۔یہ فرمانِ نبویؐ تجارت کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرتا رہا اور قیامت تک کرتا رہے گا۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا: تِسْعَۃُ اَعْشَارِ الرِّزْقِ فِیْ التِّجَارَۃِ (المطالب العالیۃ، ابن حجر،کتاب البیوع، باب الزجر عن الغش، حدیث: ۱۴۸۰) ’’انسانوں کو جو رزق عطا فرمایا ہے اس میں دس میں سے نواں حصہ تجارت میں ہے‘‘۔
آپؐ نے تاجروں کو نصیحت فرمائی: ’’اے تاجرو! تم آپس میں لین دین کے وقت بہت زیادہ قسمیں کھاتے ہو، اس لیے صدقہ کرو تاکہ تمھاری معافی ہو (سنن نسائی، کتاب البیوع، حدیث:۵۸۵۳)۔ عرب میں تاجروں کے لیے ’سمسار‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، جس کے معنی دلال ہوتے ہیں۔ آپؐ نے ایک دوسرا اور بہتر لفظ’تاجر‘ کا نام انھیں دیا۔
کیسان نامی ایک تاجر شام سے شراب لاتے اور مدینہ میں فروخت کرتے تھے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا:’’’اے کیسان! جب تم غیرحاضر تھے تب شراب حرام قرار پاچکی تھی۔ اس کی تجارت مت کرو‘‘۔(مسنداحمد، اوّل، مسندالکوفیین، حدیث کیسان، حدیث: ۱۸۵۹۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مارکیٹ کی نگرانی اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے محتسب مقرر فرمائے، جو اشیاے خریدوفروخت کے علاوہ ناپ تول پر بھی نظر رکھتے تھے۔ ان محتسبوں میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔ مردوں میں حضرت سعید بن العاصؓ امیہ تھے ، عبداللہ بن سعی بن اُمیہؓ اور عمربن خطابؓ اور عورتوں میں سمرہ بنت جندت السعدیہؓ اور شفاءؓ بنت عبداللہ کا نام آتا ہے۔
تاجروں میں جہاں مردوں کا نام آتا ہے وہیں خواتین کا بھی ذکر ہے، مثلاً: اسماء بنت محربہؓ، خولہ بنت صویبؓ، ملیکہ اُم سائبؓ اور قیلہ النماریہؓ۔ اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کے بارے میں معروف ہے کہ وہ مکہ کی ایک کامیاب تاجر خاتون تھیں اور چالیس سال کی عمر میں ان کے پاس ۲۵ہزار دینار تھے۔
اہلِ بادیہ میں زاہر نامی ایک صحابی تھے۔ آپؐ ان سے بہت محبت کرتے تھے، حالاں کہ بظاہر کوئی وجاہت نہیں رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بازار میں اپنا سامان فروخت کر رہے تھے، اسی موقع پر آپؐ کا ادھرسے گزر ہوا۔ آپؐ نے پیچھے سے ان کی کمر پکڑ لی کہ وہ آپؐ کو نہیں دیکھ پائے تھے۔ زاہر نے کہا:’ کون ہے، چھوڑ دو مجھے‘۔ آپؐ کے چھوڑنے پر انھوں نے آپؐ کو پہچان کر اپنی پشت آپؐ کے سینے سے اور قریب کرلی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اس غلام کو کون خریدے گا؟‘ انھوں نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! تب تو آپؐ کو میری قیمت بہت ہی کم ملے گی‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’لیکن اللہ کے نزدیک تمھاری حیثیت بہت زیادہ ہے‘ (مسنداحمد، حدیث: ۱۲۴۲۴)۔ آپؐ نے مارکیٹ کو شیطان سے جنگ کا میدان قرار دیا۔ (مسلم، فضائل الصحابہ، حدیث:۱۰۰)

:مدینہ کی مذکورہ مارکیٹ کو مزید اچھی ، پُرکشش اورترقی سے ہم کنار کرنے کے لیے آپؐ نے درج ذیل اُمور پر بھی توجہ فرمائی

  • اس مارکیٹ میں آپؐ نے مختلف حصے بنائے، جہاں اشیاکی فروخت، جانوروں اور کپڑوں کی تجارت کے لیے الگ سے جگہ مقرر کی، تاکہ وہاں پر کوئی گڑبڑ اور ہلڑبازی نہ ہو، بلکہ صفائی اور حفظانِ صحت کا بھی خیال رہے۔
  •    اس مارکیٹ میں داخلے کے لیے تاجروں اور خریداروں کے لیے بھی کچھ اصول و ضوابط بنائے گئے تھے، مثلاً جو اس میں داخل ہو، وہ اپنے اسلحے کو اس طرح رکھے کہ اس سے لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ راستوں میں کوئی نہ بیٹھے۔
  •  تجارتی قافلوں کی آمدورفت کے لیے سڑکوں کا اس طرح انتظام تھا اور اس کی چوڑائی اتنی تھی کہ سامان سے لدے ہوئے دو اُونٹ ایک طرف سے آئیں اور دوسری طرف سے جائیں۔

ناانصافی کے خاتمے کے لیے اقدامات

وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(البقرہ۲:۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
اس فرمان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تجارت و کاروبار کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔  یہ وہ مہلت ہے جو قرض دینے والا مقروض کو سود کے عوض قرض ادا کرنے کے لیے دیتا ہے۔ اسے ربا القرآن اور ربا النسیہ کہا جاتا ہے۔دراصل یہ وہ ربا ہے جو قرضوں پر واجب الادا ہے۔ 
لیکن جہاں اسلام نے سود کو حرام اور تجارت کو جائز قرار دیا ہے، وہاں اس نے تجارت میں ہرچیز کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام صرف اس ناانصافی اور ظلم کو ختم نہیں کرنا چاہتا جو سودی نظام میں ہوتی ہے ، بلکہ وہ تجارت سے بھی نفع کمانے کے تمام ناجائز اور غیرعادلانہ طریقوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ 
تجارت کے دوران خریدوفروخت میں جو فاضل رقم تاجر یا خریدار دھوکے اور بے ایمانی کے ذریعے اپنے مدمقابل سے حاصل کرتا ہے، اس کے خاتمے کے لیے مدینہ کے بازار میں جو اقدامات آپؐ نے اختیار کیے، اس کی کچھ تفصیلات ملاحظہ فرمائیں:
مدینہ میں اس زمانے کے بہت سے دوسرے علاقوں کی طرح مبادلہ (Barter) کا کاروبار بھی ہوتا تھا، یعنی لوگ ایک چیز دے کر دوسری چیز لے لیا کرتے تھے۔ ابتدائی معیشت میں ہرجگہ بارٹر کا سسٹم مروج تھا اور مدینہ منورہ میں بھی معروف تھا۔ یہود نے اس بارٹر سسٹم کو بھی    اپنی بالادستی اور اپنے معاشی کنٹرول کو مضبوط کرنےکا ایک ذریعہ بنا رکھا تھا۔ چوں کہ زرعی پیداوار پرقبضہ اور کنٹرول عموماً یہود ہی کا تھا۔ صنعت اور تجارت یہود ہی کے ہاتھ میں تھی۔ اس لیے جب فصل کٹنے میں ابھی کافی وقت ہوتا تھا تو لوگوں کو چیز دیتے وقت کہتے تھے کہ: ’’یہ اچھی چیز ہے‘‘ اور جب لوگوں کی پیداوار وصول ہوجاتی تھی اور وہ قرض وصول کرنے آتے تو کہتے کہ تمھاری پیداوار گھٹیا ہے، اس لیے تمھیں زیادہ دینا پڑے گا‘‘۔ وہ اپنی پیداوار کو اعلیٰ اور دوسروں کی پیداوارکو   گھٹیا قرار دیتے تھے، یعنی تقریباً ایک کلو کے بدلے میں تقریباً دو کلو کے قریب لے لیا کرتے تھے۔ یہ بھی استحصال کا ایک طریقہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ’ربا‘ کے احکام کے تحت کاروبار کی بہت سی شکلوں کا ناجائز قرار دیا، تو اسے بھی حرام قرار دیا۔ اس کو ربا الفضل کہا جاتا ہے۔

:ایک مشہور حدیث ہے، جس میں چھے چیزوں کے بارے میں آپؐ نے فرمایا
الذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْحِنْطَۃُ بِالْحِنْطَۃِ مِثْلًا بِمِثْلٍ یَدًا بِیَدٍ وَالْفَضْلُ رِبٰو، سونا اور چاندی، جَو ، کھجور، گندم اور نمک کا جب باہمی لین دین کیا جائے تو دست بدست کیا جائے، فوراً دیں اور فوراً لیں اور برابر سرابر کی بنیاد پر لین دین کیا جائے۔ زیادتی ہوگی تو اس کو   ربا سمجھا جائے گا۔
اس حکم نے دو اچھے نتائج پیدا کیے: ایک تو یہ کہ اس کے نتیجے میں بارٹر کے کاروبار میں خودبخود کمی آئی اور زری معیشت، یعنی مانٹیری اکانومی کو فروغ ہوا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ یہود کے استحصال کا ایک بہت بڑا طریقہ ختم ہوگیا۔ وہ جس انداز سے مسلمان تاجروں کو نقصان پہنچا رہے تھے، وہ سلسلہ رُک گیا۔ یہ ’ربا‘ کی وہ قسم ہے جس کو فقہا نے ربا البیع، ربا الفضل، ربا الحدیث کے  نام سے یاد کیا ہے۔ 
بازار کو صحیح خطوط پر چلانے کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ بازار میں اوزان اور پیمانے متعین ہوں۔ اگر ہرشخص الگ الگ اپنے اوزان اور پیمانے رکھے گا تو بازار میں سنٹرلائزیشن اور معیار بندی نہیں ہوسکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانٹیری اکانومی کی حوصلہ افزائی کرکے بازار اور تجارت میں معیار بندی (standardization)کو بہتر اور مقبول قرار دیا۔ معیار بندی کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ پیمانوں اور اوزان کو متعین کیا جائے۔
اس زمانے میں یہ بھی تھا کہ مختلف علاقوں میں مختلف پیمانے اور اَوزان مقرر تھے۔مکہ مکرمہ کا پیمانہ اور تھا اور مدینہ منورہ کا پیمانہ مختلف تھا۔مکّہ کے لوگ چوں کہ تجارت میں نمایاں تھے۔ دُوردراز کی تجارت میں نقد رقم لے کر جایا کرتے تھے، سونا اور چاندی کی صورت میں ان کے پاس بڑی بڑی رقمیں ہوتی تھیں، اس لیے سونے اور چاندی کی پرکھ کا معیار مکہ میںزیادہ اسٹینڈرائزڈ تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ: اَلْمِکْیَالُ مِکْیَالُ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ ،ناپنے کے پیمانے مدینہ کے معیاری مانے جائیں گے،اور والوزن وزن اھل مکۃ اور سونے چاندی کو تولنے یا گننے کے پیمانے اہلِ مکہ کے معیاری مانے جائیں گے(نسائی، کتاب الزکوٰۃ، حدیث: ۲۲۷۱)۔ یعنی سکّوں اور سونے چاندی کا معیار مکہ کے معیار کے مطابق ہوگا اس لیے کہ وہ تجارت کا مرکز ہے۔ زرعی پیمانے مدینہ کے ہوں گے، کیوں کہ وہاں زرعی کاروبار زیادہ تھا۔
مثال کے طور پر مکہ مکرمہ میں چمڑے کی مصنوعات کا بڑا رواج تھا۔ وہاں سے کوئی تاجر اپنا چمڑا فروخت کرنے کے لیے مدینہ آرہا ہوتا اور یہودی ساہوکاروں کو پتا چلتا کہ چمڑا آرہا ہے تو ان کے نمایندے باہر سے آنے والے تاجر سے راستے ہی میں سارا ذخیرہ خرید لیتے تھے اور بازار تک اس کو آنے نہیں دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ یہ تاجر اگر خود بازار آئے تو اُس کو تازہ ترین قیمتوں کا پتا چل جائے گا اور وہ اپنے مال کو بہتر قیمت پر بیچ سکے گا۔ اس سے روکنے کے لیے وہ پہلے ہی جا کر اس کا مال خرید لیتے تھے اور پھر لاکر من مانی قیمتوں پر فروخت کرتے تھے۔ اس طرح  ان کو ذخیرہ اندوزی کا موقع بھی ملتا تھا اور قیمتوں کے تعین میں بھی اپنی مرضی چلاتے تھے اور اس شخص کو جو اصل مال لے کر آیا ہے ایک معقول قیمت سے محروم کر دیا کرتے تھے۔
:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مداخلت کو ناجائز قرار دیا اور اس کی ممانعت فرمائی
نَھٰی رَسُوْلُ اللہِ عَنْ تَلَقِّیْ الْجَلْبِ ، حَتّٰی یَدْخُلَ بِھَا السُّوْقَ (نسائی، کتاب البیوع، حدیث:۵۹۰۸) یعنی باہر سے آنے والے مال کو بازار میں آنے سے پہلے ہی جاکر اُونے پونے داموں خرید لیا جائے، اسے آپؐ نے ممنوع قرار دیا۔
مدینہ مارکیٹ کی یہ تفصیلات تقاضا کرتی ہیں کہ اہلِ علم حضرات، سیرت النبیؐ کے اس گم نام گوشے پر خصوصی توجہ دیں۔تجارت اور صنعت و حرفت، جو عین سنت ِ نبویؐ ہے ، اس کو اپنا شیوہ بنائیں۔ اس طرح دنیا میں عزت و شرف کا مقام حاصل کریں اور آخرت میں قولِ نبیؐ کے مطابق اچھے اور امانت دار تاجر بن کر انبیا ؑ، شہدا اور صالحین کی رفاقت حاصل کریں۔