دینی مدارس سے فارغ ہونے والے نوجوان علما، معاشرے کی معاشی تبدیلی اور بہتری کے لیے کن نئے میدانوں میں اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں؟ ایک ایسا سوال ہے، جس پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرکے ایک مفید اور مثبت و مؤثر لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
عموماً دیکھا یہ جاتا ہے کہ مدارس سے عالمیت اور فضیلت کے بعد یہ نوجوان مسجدومنبر سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں۔ کچھ آگے بڑھ کر مکتب اور مدرسہ قائم کرکے کام آگے بڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی گونج ہماری سوسائٹی میں سنائی دیتی ہے۔ ان میں سے چند افتاء کا کورس کرکے فتاویٰ کے مسند پر بیٹھتے ہیں۔ مفتی اور قاضی بن کر وراثت اور وصیت کے مسائل، نکاح و طلاق اور فسخ کےمعاملات میں اُمت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بعض فاضلین مترجم کی حیثیت سے غیرملکی سفارت خانوں میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ پھر کچھ افراد کالج اور یونی ورسٹی میں عربی اور اُردو کے شعبہ جات میں داخلہ لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کالجوں میں لیکچررمقرر ہوجاتے ہیں۔
زیرنظر مضمون میں، فارغین مدارس کو اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز سے استعمال کرکے اور شریعت اسلامی کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے میں مفید اور مؤثرخدمات اداکرنے کی جانب متوجہ کیا جارہاہے۔
پہلی بات تو یہ بڑی واضح ہے کہ اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے چار، یعنی کلمۂ شہادت، نماز، روزہ اور حج پر برصغیر پاک و ہند کے علما کی توجہ الحمدللہ موجود ہے۔ کلمہ طیبہ کی تعلیم پر بھی توجہ ہے۔ نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہورہا ہے۔ پھر نوافل سے رغبت اور شوق کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنے کی بھی برحق ترغیب دی جاتی ہے۔ مالی عبادات میں حج کا شوق کافی بڑھا ہوا ہے اور عمرے کا بھی بڑا اہتمام ہورہا ہے۔ لیکن زکوٰۃ ، جو اسلام کی بنیادوں میں سے تیسرا اہم جز ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کے مال داروں کے مال کی بدولت حکومت اور معاشرے کے ذمہ داروں کے ذریعے فقرا و مساکین کے حقوق کی ضمانت دی ہے۔ اس کی طرف علما اور خاص طور پر فارغین مدارس کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دورِ نبویؐ میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے چار شعبوں پر مشتمل باقاعدہ نظم قائم کیا گیا:
عاملین صدقات کے لیے رسولؐ اللہ نے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، جن میں امانت و دیانت، احساسِ ذمہ داری اور اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں ہوتی تھیں، ان کا انتخاب فرما کر مختلف قبیلوں کی طرف بھیجا۔ جن میں حضرت عمرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت عدیؓ بن حاتم اورحضرت ابوعبیدہؓ بن جراح شامل تھے۔
مالی نظام کا باقاعدہ حساب کا شعبہ حضرت زبیر بن عوامؓ کے سپرد تھا۔ ان کی غیرموجودگی میں حضرت جہیم بن صلتؓ اور حضرت حذیفہؓ بن الیمان صدقات کی آمدنی کے حساب کتاب کے ذمہ دار تھے۔ عہد نبویؐ میں خارصین (Estimators) پیداوار کا تخمینہ لگانےوالے اصحاب بھی موجود تھے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر خراص تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کا شمار بھی انھی میں سے ہوتا تھا۔ اسی طرح مویشیوں کی چراگاہوں سے وصول یابی کے لیے بھی عمال مقرر تھے جن میں حضرت سعد بن وقاصؓ، حضرت بلال بن حارثؓ، حضرت ابورافعؓ اور حضرت ذرؓبن ابی ذر مشہور ہیں۔
دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں بھی اجتماعی نظم زکوٰۃ کی تفصیلات موجود ہیں۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں جب صدقہ و زکوٰۃ کی رقم لینے والا کوئی نہ تھا تو آپ نے فرمان جاری کیا کہ اس رقم سے غلاموں کو خرید کر آزاد کرو، شاہراہوں پر مسافروں کے لیے آرام گاہیں تعمیر کرو، اور ان نوجوانوں مرد و عورتوں کی مالی امداد کرو، جن کا نکاح نہیں ہوا۔
آج خود ہمارے ملکوں کے چند شہروں میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظام چھوٹے بڑے پیمانے پر متحرک ہے۔ اس کے لیے بعض جگہوں پر باقاعدہ ’سماجی معاشی سروے‘ کرایا جاتا ہے جس کی بنیاد پر مختلف طبقات میں زکوٰۃ کی رقم تقسیم ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ ریکارڈ مرتب کرنے کا اہتمام کیا ہے، ان کی پیش کردہ تفصیلات کے ذریعے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ صرف زکوٰۃ کے نظام کو سلیقے سے قائم کرنے کے نتیجے میں کتنے نئے شعبے علم کے حصول اور کام کے ذرائع ہمارے سامنے کھل سکتے ہیں۔ اکائونٹ، کامرس اور آڈیٹنگ، سروے اور ضروریات کی صحیح معلومات کے لیے شماریات (Statistics)،وصولیاتی فن اور طریقوں کے لیے تعلقاتِ عامہ اور علم نفسیات،غربت اور پسماندگی کی معلومات کے لیے عمرانیات، ابن سبیل (مسافروں) کے لیے آرام گاہوں کی تعمیر وغیرہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انتہائی غربت، بھوک اورفاقے کے خاتمے کے لیے ۲۰۰۰ء میں اقوا م متحدہ نے دُنیابھر کے حکمرانوں کے ساتھ مل کرایک اعلامیہ Millenium Development Goals [MDG: ہزاریہ ترقی کا منصوبہ]کے نام سے پندرہ سالہ ایک عالمی منصوبہ بنایا تھا۔ پھر ۲۰۱۵ء میں آیندہ پندرہ برسوں کے لیے Sustainable Development Goals [SDG: پایدار ترقی کے اہداف]تیار کیا، جس میں غربت کا خاتمہ، صحت، تعلیم، صاف پینے کے پانی کی فراہمی، صحت و صفائی،ماحولیات کی حفاظت وغیرہ شامل ہے۔ زکوٰۃ کے نظام کے قیام کو بھی اس مذکورہ پروگرام (SDG) سے جوڑاہے (دیکھیے: عالمی ترجمان القرآن، ستمبر۲۰۱۹ء)۔ اب، جب کہ دُنیا نے زکوٰۃ کے نظام کو گلوبل منصوبے کے طورپر تسلیم کیا ہے اور اس کی افادیت کو مانا ہے،تو بین الاقوامی جبر اور پابندیوں کے باوجود ملت اسلامیہ برصغیر پاک و ہند اور خاص طور پر علمائے کرام اور فارغین مدارس پرفرض ہے کہ وہ نماز، روزہ اور حج کے اہتمام کی طرح زکوٰۃ کے اجتماعی نظم و انصرام کے لیے علوم و فنون کے ان میدانوں کو اپنے کیریئر کا حصہ بنائیں، جس سے دین کے گم کردہ اور کم توجہ فرض کی طرف لوگ متوجہ ہوں اورمقاصد ِ شریعت کے حصول کا باعث بنیں۔ اس سے اُمید ہے کہ دُنیا میں غربت اور فاقے میں کمی ہوگی اور خوش حالی میں اضافہ ہوگا اور آخرت میں رضائے الٰہی کا باعث بھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کا سامان لے کر تجارتی سفر کیا اور ایک مثالی تاجر کی حیثیت سے مکّی معاشرے میں مقام حاصل کیا تھا۔ ہجرت کے بعد آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے سوق المدینۃ (مدینہ مارکیٹ) قائم کی اور تجارت پر یہودیوں کی اجارہ داری اور استحصال کے خلاف عملی اقدام کرکے گویا اس بات کا اعلان کیا کہ معاشرے کی خوش حالی کےلیے رزقِ حلال کی طلب اور معاشی سرگرمی میں حصہ داری ضروری ہے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: اَلْجَالِبُ اِلٰی سُوِقِنَا کَالْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (المستدرک للحاکم،کتاب البیوع، حدیث:۲۱۰۹)، جو ہماری مارکیٹ میں خریدوفروخت کرے گا،وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدینہ مارکیٹ، سیرتِ نبویؐ کا ایک گم نام گوشہ ہے جس کی تفصیلات ہمارے علما و فضلا کو جاننے کی ضرورت ہے۔ (عالمی ترجمان القرآن، مارچ ۲۰۱۹ء)
مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ کا مشغلہ کیا تھا؟ کچھ صحابہ اصحابِ صفہ میں سے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوتے تھے،لیکن اکثر مہاجرین بازاروں میں مشغول اور انصار کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ عشرہ مبشرہ میں سے تمام ہی اصحاب تاجر پیشہ تھے۔ تاہم، ان میں سے چار صحابہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کی دولت کا اندازہ کیا جائے تو اس کا مقابلہ موجودہ دور کے بہت دولت مندوں سے کیا جاسکتا ہے۔
اکیسویں صدی کی موجودہ دُنیا میں معاشی ترقی کا دارومدار صرف قدرتی وسائل کی کثرت پر نہیں بلکہ انسانوں کی فکری اُپج (Creativity)،فنی ایجادات (Technical Innovation)، ہنرمندی (Skill Development) اور کاروبار کی آزادی پر ہے۔ مثال کے طور پر جاپان میں کاشت کاری کے لیے زمین موجود نہیں ہے تو وہ چھوٹے بڑے جہازوں میں اپنی غذا اُگانے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں۔ آج سرمایہ کاری کے لیے دُنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے فعال کاروباری منصوبوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے سرمایہ حاصل کیا جارہا ہے، جسے Crowd Funding کے نام سےموسوم کیا جاتا ہے۔
کاروبار میں مسابقت کی دوڑ برپا ہے۔ جو دل کش اور آسان تکنیک یا مصنوعات کو نئے انداز اور بہترفائدہ مندی کی صورت میں مارکیٹ میں نہیں لاتا، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ بیہقی اور مسند ابی یعلٰی کی حدیث ہے: اِنَّ اللہَ یُحِبُّ اِذَا عَمِلَ اَحَدُکُمْ عَمَلًا اَنْ یُتْقِنَہٗ (بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۵۰۶۳)’’اللہ کو پسند ہے کہ جب آپ میں سے کوئی کام کرے تو اسے کمال کے ساتھ کرے‘‘۔ اس طرح ایک مسلمان تاجر اپنی مصنوعات بہترین طریقے سے تیارکرتاہے تو ایک طرف مارکیٹ میں اس کے ذریعے مسابقت ہی نہیں کرتا بلکہ ہدایت نبویؐ کی تعمیل بھی کرتا ہے۔ بعض اوقات تاجر کچھ نئے طریقہ اور نئے انداز سے ایسی پیداوار (Product) اپنی مہارت سے پیدا کردیتے ہیں کہ اس میں ویلیوایڈ (Value add)ہوکر ایسی چیز تیار ہوجاتی ہے کہ جو مارکیٹ میں نئی ہوتی ہے اور اس کی مانگ بھی۔
آج کل انٹرنیٹ پرینورشپ کے نام کابڑا چرچا ہے، جس کی طرف بھی ہمارے علما و فضلا کی توجہ ہونی چاہیے۔ جودراصل نئے کاروبار کو شروع کرنے کادوسرا نام ہے۔ یہ اپنی اختراع سے نئی مصنوعات یا نئے انداز کی سروسز کے طور طریقوں کو رائج کرنا، خطرات کا سامنا کرنا، اس کی توسیع و ترقی کے لیے نئے مواقع تلاش کرنا اور پیداواری عمل میں ندرت اور مارکیٹنگ کے انداز میں نئے انداز کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔
آغازِ کار (Startup) کا نام بھی ہرجگہ لیا جارہا ہے۔ کاروباری سہولیات فراہم کرنے کے مختلف نجی آن لائن اداروں کی تعداد ۲۰۲۰ء کے اختتام تک ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔
ایک اور نئے قسم کا کاروبار جوپوری دنیا میں بڑی تیزی سے اُبھر رہا ہے،وہ حلال بزنس کےنام سے موسوم ہے جو دُنیا بھر میں حلال مہمان نوازی، حلال گوشت، حلال ماکولات و مشروبات، حلال ادویات، حلال فیشن کی اشیاء (Cosmetics) اور حلال میڈیا اور تفریحات پر مشتمل ہے۔ ان تمام صنعتوں اور تجارتی اداروں میں شریعتہ سرٹیفکیٹ دینے کے لیے بھی علما وفضلا کی ضرورت ہے، جنھیں شریعت کےعلم کے علاوہ ان کاروباری سرگرمیوں اور مصنوعات کے بارے میں بھی بخوبی آگاہی اور خصوصی علم حاصل ہو۔ یہ حلال انڈسٹریز مستقبل قریب میں اربوں ڈالر کے کاروبار پر مشتمل ہوگی، اور دنیا بھر میں شریعت کے جاننے والوں کی مانگ ہوگی۔
تجارت کے پیچ و خم کو سیکھنے ، اس میں ماہرانہ کمال حاصل کرنے کےلیے کاروباری انتظامیات، کاروباری مہارتوں، کاروباری حکمت عملیوں کےکورسز میں داخلہ لےکرفارغین مدارس اپنے کیریئرکو شان دار بناسکتے ہیں اورملک وملّت کی ترقی میں حصہ دار بھی۔
سرمایہ کاری کے لیے جوائنٹ اسٹاک کی کمپنیاں ہیں، جن میں شریعت کے دائرے میں آنےوالے اسٹاکس کی نشان دہی کے لیے افراد اور اداروں کی ضرورت ہے۔ اسٹاک کی مارکیٹ میں نفع مندی کے ساتھ ہی شریعت کے اخلاقی اقدار پر پورے اُترنے والے اسٹاکس کی جانچ کا کام کرنے کے لیے شریعت کے اُمور و مسائل سے واقفیت کے حامل فارغین مدارس کی ضرورت ہے۔
اسی طرح روایتی انشورنس کے بجائے تعاونی اور اسلامی اصولوں پر مبنی انشورنس، یعنی تکافل کا بھی ایک میدان ہے اور بڑے بڑے تعمیراتی، تجارتی اور صنعتی ڈھانچوں کی تشکیل وتعمیر کے لیے صکوک (Sukuk) کے اجرا اور اُن کی مسلسل نگہبانی کے لیے شریعہ اسکالرز درکار ہیں، جو فارغین مدارس ہی ہوسکتے ہیں۔ جنھیں ملک اور بیرونِ ملک جاکر جدید سرمایہ کاری کے ان مختلف کورسوں میں داخلہ لے کر تخصص (Specialisation) حاصل کرکے انھیں صحیح خطوط پر قائم کرنا اور باقی وبرقرار رکھنا ہے۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے اور مستقبل قریب میں نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں اس کے بہترین مواقع فارغین مدارس کو حاصل ہوں گے۔
آج مارکیٹ میں بہت ساری ’پونزی اسکیمیں‘ (Ponzi Schemes)، یعنی دھوکا دہی اورفراڈ پر مبنی اسکیمیں، اسلامی سرمایہ کاری کے خوش نما ناموں سے بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں اور مارکیٹ کے معروف نفع کی شرح سے بہت زیادہ رقم ان سرمایہ کاروں (investors) کو دے رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس دھندے کی پشت پناہی بھی بعض علمائے کرام کررہے ہیں اور فضلا و فارغین مدارس بھی بڑے پیمانے پر اس میں اپنا سرمایہ لگارہے ہیں، جو دراصل ایک کھلے دھوکے کا سودا ہے۔ اس میں اسکیم چلانے والے اپنےسرمایہ کاروں کو منافع نئی سرمایہ کاریوں کے سرمایہ سے دیتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کی اصل سرمایہ کاری کے حقیقی نفع سے۔ اگرعلما و فضلا تجارت اور سرمایہ کاری کے اسلامی اصولوں اور ضوابط سے کماحقہٗ واقف ہوں گے،اکائونٹنگ اور آڈیٹنگ کے طریقوں سے آگاہ ہوں گے، تو ان ’پونزی اسکیموں‘ کا پول کھل جائے گا اور شاطر افراد لوگوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیںگے۔ اور لوگ حلال اور طیب تجارتوں کی طرف متوجہ ہوںگے۔
آخر میں یہ بات عرض کرنی ہے کہ ان تینوں: اُمور زکوٰۃ کے اجتماعی نظم، تجارت و انٹرپرینورشپ اور اسلامی سرمایہ کاری اور بنکاری میں جہاں مرد علماو فارغین کو بھرپور حصہ لینا ہے، اور اس کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنا کردار ادا کرناہے،وہیں عالمہ اور فاضلہ خواتین بھی شریعت کے حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انھیں بھی معاشی ترقی کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں آگے بڑھنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جس کے لیے اُم المومنین حضرت خدیجہؓ اور نبی کریمؐکے قائم کردہ مدینہ مارکیٹ میں خواتین تاجروں کی موجودگی اور ان کے کاموں کی نگرانی کے لیے خواتین محاسبوں کا تقرر مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہم صرف ’خواتین کے لیے خصوصی مارکیٹ‘ اور گھر بیٹھے نظامِ کار کے مراکز قائم کرکے اس کا آغاز کرسکتے ہیں؟