جناب وحیدالدین خاں کا انتقال ۲۱؍اپریل ۲۰۲۱ءکو ہوا۔ سانحۂ ارتحال کے اس موقعے پر سبھی حلقے ان کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے، تحسینی کلمات ادا کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی، جو ۱۹۶۳ء یعنی تقریباً ۶۰برس سے کسی نہ کسی رنگ میں اُن کی تنقید کا نشانہ بنتے آرہے تھے، ان میں سے کسی فرد نے ان کے بارے میں کوئی اختلافی بات نہ کہی، بلکہ اسلامی اخلاقیات اور تہذیب وروایات کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے، ان کے صرف مثبت پہلوئوں کو بنیاد بنایا اور مغفرت کی دُعا کی۔ لیکن معلوم نہیں کیوں، انتقال کے ۲۴گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے، جناب وحیدالدین خاں سے فکری قربت اور نیاز مندانہ وابستگی رکھنے والے جاوید احمد غامدی صاحب نے اس موقعے کو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تشہیر کا ذریعہ بنانا شروع کیا اور پھر ان کے ہم نوائوں نے سوشل میڈیا و اخبارات میں اور ادارے ’المورد‘ نے بھی اس مصرع طرح پر گرہ لگاکر ’غزل گوئی‘ شروع کر دی۔
جاوید صاحب نے امریکا سے سوشل میڈیا پر اپنا جو پیغام نشر کیا، انھی الفاظ کو تین گھنٹے بعد مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ٹی وی پروگرام میں مختصراً دہرایا گیا اور پھر وہی پیغام زیادہ مرتب انداز سے، اپنی سرپرستی میں شائع ہونے والے ماہ نامہ اشراق میں بطور اداریہ شائع کیا۔ ملاحظہ کیجیے:
مولانا وحیدالدین خاں ایک بڑی غیر معمولی شخصیت تھے.... میری نسبت تو ان کے ساتھ یہ ہے کہ ہم ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں.... انھوں نے استاذ امام امین احسن اصلاحی سے ان کے ابتدائی دور میں تعلیم پائی اور مجھے یہ شرف استاذ امام کے آخری دور میں حاصل ہوا۔ اُن [یعنی وحیدالدین صاحب] کا بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جو دین [اسلام] کی سیاسی تعبیر کی گئی ہے، انھوںنے خالص علمی سطح پر اس کی غلطی کی۔ ان کی کتاب تعبیر کی غلطی کو پڑھ کر آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا اعلیٰ درجے کا محققانہ ذوق رکھتے تھے۔ یہ جس کارنامے کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے، یہ بڑا غیر معمولی ہے۔ ہمارے ہاں دین کی ایک تعبیر وہ ہے، جس کو ’صوفیانہ تعبیر‘ کہنا چاہیے۔ اس کے بڑے لوگوںمیں امام غزالی اور آخری زمانے میں شاہ ولی اللہ ہیں۔ اسی طرح ’دین کی سیاسی تعبیر‘ ہے۔ اس کے سب سے بڑے مفکر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ انھوں نے اس کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اِسی کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدّعا و مطلب کو بیان کیا ہے۔[مولانا مودودی پر تنقید کا] یہ ایک بڑا کام ہے جو اُن [خاں صاحب] کے قلم سے صادر ہوا ہے۔ اس وقت بھی میںلوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اگر اعلیٰ درجے کے تنقیدی کام کو دیکھنا چاہیں تو ان کو کتاب تعبیر کی غلطی کو ایک علمی کتاب کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے (ماہ نامہ اشراق، مرتبہ:منظورالحسن،مئی ۲۰۲۱ء، ص۴-۶)
یہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ خاں صاحب کے سانحۂ ارتحال پر جاوید صاحب نے کس مبالغہ آمیز طریقے سے ایک پہلو کو اُن کے سارے کام پر حاوی کرکے، اپنے ایجنڈے کی تشہیر کے لیے برتنا ضروری سمجھا۔ یاد رہے، خاں صاحب اور جاوید صاحب کی طرف سے جماعت اسلامی یا مولانا مودودی پر کی جانے والی ’کرم فرمائیوں‘ کا ترجمان القرآن میں کبھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ مگر اُن کی جانب سے اٹھائی گئی اس حالیہ مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے، چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے۔
جاوید صاحب نے یہ بہت سنگین الزام عائد کیا ہے: ’’[دین کی] سیاسی تعبیر... کے سب سے بڑے مفکر مولانا مودودی نے اس [تعبیر یا فکر]کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اسی [ایک مقصد]کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدعا و مطلب کو بیان کیا ہے‘‘(ص۵)۔ گویا کہ جاوید صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جو لکھا، وہ محض اُن کے وہ ذاتی احساسات و خیالات ہیں، جس میں انھوںنے دین اسلام کو محض کسی سیاسی چیز کے طور پر پیش کیا ہے۔
l امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی کے ہاں اسلام اپنی جامعیت کے ساتھ ہی جلوہ گر رہا ہے، جسے وہ اسلام کے ایمانی، فکری، عملی اور اطلاقی پہلوئوں کے ساتھ سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتےرہے۔ الحمدللہ، اسلام کی اسی کلیّت (totallity)کو انھوںنے دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے اجتناب پر زور دیا۔
l مولانا مودودی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’اسلام کا مقصد صرف اسلامی حکومت قائم کرنا ہے‘‘۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سیاق و سباق سے کاٹ کر جملے پیش کرنے والی بیمار ذہنیت کی جڑ کاٹنے کے لیے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۴کی تشریح کے ذیل میں مستقل طور پر لکھ دیا ہے:
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ سےہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے.... ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
l مولانا مودودی کے نزدیک نہ تو کوئی ’صوفی اسلام‘ ہے اور نہ کوئی ’سیاسی اسلام‘ بلکہ وہ پورے اسلام ہی کو اسلام کہتے ہیں اور ایسی تقسیم روا رکھنے کو مطلق جاہلیت سے منسوب کرتے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں سے مغربی توسیع پسند سامراجی طاقتوں نے اپنی جارحیت کا مقابلہ کرنے والے جاں نثار مسلمانوں کو برے ناموں سے موسوم کرنے کا دھندا شروع کیا، اور اس مقصد کے لیے خود مسلمانوں ہی سے اپنے ہم نوا کارندوں کو طاقت، وسائل اور پشت پناہی سے نوازا۔ مغربیوں نے اس گھنائونے کھیل کے لیے اپنے خلاف کھڑے ہونے اور مزاحمت کرنے والے مسلمانوں کو کبھی ’وہابی اسلام‘ سے منسوب کیا، کبھی ’وحشی اسلام‘ کے ماننے والے کہا اورپھر ’رجعت پسند اسلام‘ کے علَم بردار قرار دیا۔ گذشتہ ۳۰برسوں کے دوران منفی اصطلاح سازی میں تیزی لاتے ہوئے،’غصّے اور انتقام والا اسلام‘، ’انتہا پسند اسلام‘ اور ’بنیاد پرست اسلام‘ سے مربوط کرنا شروع کیا۔ خصوصاً نائن الیون کے بعد، مغربی سامراج اور ان کے دیسی ہم نوائوں نے ہر اس فرد، ادارے اور مزاحم کار کو ’سیاسی اسلام‘ سے موسوم کر دیا، جس نے ان سفاک اور ظالم قوتوں کی خدائی، انسانیت کی تذلیل اور وحشیانہ قتل و غارت گری کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ واضح رہے کہ خود امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کی نسبت سے ’صوفی اسلام‘ کی نمایندگی کا جو دعویٰ جاوید احمد غامدی صاحب نے کیا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒکی معرکہ آرا کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں خصوصیت سے اسلامی تاریخ کے جس سانحے کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، وہ اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست پر بادشاہت کے غلبے کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح شاہ صاحبؒ اسلام کے اصل سیاسی نظام کو اسلام کے احیا کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اسلام کے مجموعی پیغام،حکم اور مزاج کے مطابق مولانا مودودی نے عصرحاضر میں بیان کی ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہؒ نے ہندوئوں کی عظیم تر مرہٹہ سلطنت کے قیام کا خطرہ بھانپتے ہوئے، احمد شاہ ابدالی کو ہند پر حملے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری جنگ ہوئی اور مرہٹوں کی پسپائی سے ہندو سلطنت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔ کیا کوئی ’صوفی اسلام‘ کا علَم بردار نابغہ، اسلامی نظام سیاست کے موضوع پر لکھتا اور کھلے دشمن کے استیصال کے لیے مسلمانوں کی فوج کو دعوت دیتا ہے؟
lمولانا مودودی نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے،معاشرے میں ہمہ پہلو جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ، خلفائے راشدینؓ اور صلحائے اُمت کے ہاںبکمال وتمام موجود ہے، اور جسے امتداد زمانہ، خصوصاً گوری اقوام کی غلامی کے ماہ و سال نے دھندلادیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جہاں مولانا مودودی ایمان کی آبیاری کی طرف متوجہ کرتے ہیں، وہیں توحید کے مفہوم سے آشنائی اور توحید خالص پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر انقلابِ قیادت، تطہیر افکار اور تعمیر کردار کے ذریعے دعوتِ دین کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ مولانا مودودی، جہاد کے تصورِ اسلام کو روشن الفاظ میں پیش کرتے ہیں اور سامراجی آقائوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کرنے میں کسی مداہنت پسندی، ترمیم پسندی اور بزدلی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ دراصل یہی ہے وہ جرأت مندی، جو مولانا مودودی کو نشانہ بنانے والوں کو بے چین کرتی ہے۔
l مولانا مودودی نے اسلام کو چھوٹے چھوٹے خانوں میں پیش کرنے کے بجائے، اسے جڑ، تنے، ٹہنیوں، پتوں، پھل اور سائے سمیت پیش کیا ہے۔ اس روایت میں تزکیہ نفس بھی آتا ہے اور نظام زکوٰۃ و نظام خدمت عامہ بھی راہ پاتا ہے۔ پھر فتنہ جوئوں کی فکری ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مولانا مودودی کے فکری گلشن میں علم، تحقیق اور دلیل برگ و بار لاتے ہیں۔ نیز نظام معیشت و نظام سیاست اور نظام عدل، گویا عصرحاضر میں اسلامی معاشرے اور ریاست کا خاکہ جلوہ گر ہوتا ہے۔ چونکہ جدید سامراجی قوتیں، اسلامی ریاست و سیاست کے تصور سے خائف ہیں، اس لیے وہ اسلامی نظامِ حیات سے نسبت رکھنے والوں کو ہدف بنانے پر خاصے وسائل صرف کر رہی ہیں، اور ان کی اس ہمہ پہلو یلغار کا نشانہ مولانا مودودی بھی ہیں۔ بلاشبہہ دشمن کی اس جتھہ بندی کو بہت سے چرب زبان مقرروں کی کمک میسر ہے۔ مگر کاٹھ کی یہ ہنڈیا زیادہ دیر تک چولھے پر چڑھی نہیں رہ سکتی۔ جناب سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد، غلام احمد پرویز وغیرہ کی سالاری میں نام نہاد مذہبیات کا حشر ہمارے سامنے ہے۔
تین مزید باتیں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
پہلی بات یہ ہے کہ جاویداحمد صاحب کی جانب سے، مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی شاگردی کا دعویٰ ایک پامال افسانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ چند درجن دروس میں شریک ہونے سے کوئی فرد، شاگرد نہیں قرار پاتا۔ دینی روایت میں شاگردی اسی وقت منسوب ہوتی ہے، جب استاد خود اپنے اطمینان کے بعد اجازت عطا فرمائے۔ حالانکہ موصوف کے حوالے سے مولانا اصلاحی صاحب کے ہاں پائی جانے والی بے زاری مولانا سے ملنے والوں پر واضح ہے، جس کا انھوںنے متعدد افراد کے سامنے وقتاً فوقتاً اظہار بھی فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا اصلاحی صاحب نے خود میرے استفسار پر اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان فرمایا۔ یہ بھی عجیب شاگرد ہیں کہ استاد امین احسن اصلاحی صاحب تو تدبر قرآن میں اسلامی ریاست کے اُمور پر معرکہ آرا مباحث لکھیں، اور پھر اسلامی ریاست کتاب سپردِقلم کریں، اور اس پر ناز بھی کریں، مگر ’شاگرد‘ اسلام میں کسی ریاست کے عملی وجود ہی سے انکار کرے؟ سچ بات ہے کہ مولانا اصلاحی اور مولانا فراہی صاحبان کو جتنا نقصان، جاوید صاحب کے افسانوی دعوائےشاگردی نے پہنچایا ہے، اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ لوگ موصوف کی باتیں، دعوے اور فیصلہ کن فتوے سن سن کر یہ سوچتے ہیں کہ ’’ہر دم تبدیل ہوتے ایک آزاد خیال ’شاگرد‘ کا یہ حال ہے، تو اس کے استاد یقینا اس سے بھی زیادہ اسلام میںپیوندکاری و تحریف کے رسیا اور ’چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے سننے کو شاگرد کے دعوے ہی کافی ہیں، استادوں کو چھوڑو‘‘۔ اور سچ بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کے فکری قائد اور نسبتی استاد مولانا اصلاحی صاحب نہیں بلکہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہی ہیں۔
محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب کئی حوالوں سے چونکہ بھارت میں مسلمانوں کی مذمت اور طعنہ زنی سے منسوب رہے ہیں، غالباً اسی لیے بھارتی مقتدر قوتوں کے ہاں وہ قابلِ قدر سمجھے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ۶ستمبر۲۰۱۵ء کو اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA: اسنا) نے اپنے ۵۲ویں سالانہ کنونشن منعقدہ شکاگو میںمولانا وحیدالدین خاں صاحب کو مدعو کیا۔ اس پر امریکا کی یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر ایمریطس صاحب نے ’اسنا‘ انتظامیہ سے دریافت کیا کہ ’’آپ نے خاں صاحب کو کس مناسبت سے دعوتِ خطاب دی ہے، حالانکہ ان کے موقف اور رویے سے خود بھارتی مسلمانوں میں بے زاری پائی جاتی ہے؟‘ جواب میں ’اسنا‘ انتظامیہ نے بتایا:’’یہ ہمارا تجویزکردہ نام نہیں، بلکہ جب ہم نے کنونشن کا پروگرام ترتیب دیا تو امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے فرستادوں نے مقررین کی فہرست دیکھ کر کہا کہ ’ایک مقرر ہماری طرف سے رکھیں‘۔ جب ان سے پوچھا گیا: ’کون صاحب؟‘ تو انھوںنے کہا: ’انڈیا سے وحیدالدین خاں صاحب‘۔ ۲۰۱۶ء کے اکتوبر میں پروفیسر ایمریطس پاکستان آئے تو انھوں نے براہِ راست مجھے یہ تفصیل بتائی۔ اس واقعے سے خاں صاحب کو کسی خانے سے منسوب کرنا مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ان کی وہ کون سی ادا تھی، جو افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر تباہی و بربادی مسلط کرنے والے امریکی سامراجیوں کو پسند آئی تھی؟
تیسری بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کی نسبت سے تحقیق و تجزیہ کے جس بلندمعیار کا بہت شہرہ سنایا جاتا ہے، اس کہانی سے عام آدمی واقعی مرعوب ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے خان صاحب کی جس کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں،اس کتاب پر ایک تبصرہ ہم آیندہ کسی اشاعت میں طبع کریں گے، جس سے موصوف کے ذوقِ مطالعہ اور تحقیقی معیار کی بلندی کے بارے میں خود قارئین اندازہ لگالیں گے۔