مسلم اُمہ کے مسائل اور بحران در بحران کیفیت میں ہرمسلمان اُلجھا ہوا ہے۔ اس کا بڑا سبب جہاں سامراجی قوتوں کی عالمی سیاسی و معاشی جتھہ بندی ہے، وہیں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود مسلم ممالک میں سیاسی،فکری اور دفاعی سطح پر مقتدر اور بااختیار قیادتوں کا معاملہ سوالیہ نشان ہے۔ اس کیفیت میں مایوسی کا شکار ہونا اور حالات کے بے رحم دھارے کے سامنے سپرڈال دینا، عظیم اور ناقابلِ تلافی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔ یہ بحران جس قدر شدید ہے، اور مسائل و مشکلات کی یلغار جتنی تباہ کن ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، اور ان آفتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے، کہیں زیادہ بڑھ کر عقل، دانش، فہم و فراست کی ضرورت ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ خوں ریزی ہمارے سامنے ہے، جہاں ہردوڈھائی برس کے بعد مظلوم فلسطینی بھائیوں پر خون، آگ اور بارود کی بارش ہوتی ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے مظلوموں کو کچلنااور آزادی کی اُمنگوں کا قتل عام بھی پوری دُنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل اور بھارت بنیادی طور پر نسل پرست، فسطائی اور وحشی (Rogue) ریاستیں ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت کے صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ بصیرت افرادِ کار کو بھرپور طریقے سے حق کی گواہی دینا ہوگی۔ملّی یک جہتی کو زندہ کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں بیداری کی تحریکیں برپا کرنے کی ضرورت ہوگی۔
مسئلہ کشمیر پر ، بالخصوص گذشتہ دو برسوں کے دوران جس انداز سے پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً متضاد بیانات کا سلسلہ جاری ہے، اس نے بہت تکلیف دہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔
فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک مذاکرات کا اعلان، اور پھر اپریل میں ۲۵، ۳۰ صحافیوں سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کی بظاہر ’آف دی ریکارڈ‘ (اور عملاً آن دی ریکارڈ) ملاقات میں بیان کردہ روایتوں اور حکایتوں نے گہری تشویش کا سامان فراہم کیا ہے۔ مذکورہ ملاقات میں جنرل صاحب کی طرف سے یہ کہا جانا کہ ’ہم بیک ڈور چینل (پس پردہ) مذاکرات کر رہے ہیں‘ اور یہ کہ ’ہمیں ماضی بھلاکر آگے بڑھنا ہے‘ دھماکا خیز خبر ہے۔ جب کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ ’کوئی بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے‘۔ گویا کہ حکومت اور مسلح افواج ایک انداز سے نہیں سوچ رہے۔ یہ متضاد اور متحارب اطلاعات اگر سول حکومت اور پارلیمان کی جگ ہنسائی کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام اور قوم میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔یاد رہے کہ نہ ماضی سے کٹا حال ہوتا ہے اور نہ ماضی سے کٹ کر مستقبل کی صورت گری ہوسکتی ہے۔
اسی مناسبت سے ہم چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
اس وقت شروع کیے جانے والے مذاکرات کا جو پہلو کھل کر سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ مذاکرات پاکستان کی طرف سے کسی پیشگی شرط اور کسی روڈمیپ کے تعین کے بغیر ہونے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی انتظامی وحدت پر سفاکانہ یلغار اور بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری کے طے شدہ اُمور کی دھجیاں بکھیرنے والے اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیے بغیر، ان مذاکرات کا حصہ بناجارہا ہے۔ یاد رہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات میں دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے نے جموں و کشمیر میں آبادی کے توازن و تناسب کو تلپٹ کرکے دوسرا اسرائیل بنانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ پھر مقبوضہ کشمیر میں ۸ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی، دُنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین نقشہ پیش کرتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ ایسے غیرمشروط، اور وقت کی قید سے آزاد مذاکرات سے پاکستان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس صورت میں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارتی حکومت کے تمام غیرانسانی اور غیرقانونی اقدامات کو پاکستان کی جانب سے عملاً تحفظ دیا جارہا ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ قطعاً ناممکن ہے۔
یہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تو اس کا مقصد کبھی سنجیدہ، بامعنی اور اخلاص پر مبنی مذاکرات کا انعقاد نہیں تھا۔ بین الاقوامی دبائو سے نکلنے اور اندرونِ ملک مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے کاک ٹیل مذاکرات کا کھیل اس سے پہلے بھی ڈیڑھ سو مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔ اس لیے بے فیض نشست و برخاست سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت، مذاکرات اور مکالمے کے لیے تیار رہا ہے، اور آج بھی تیار ہے۔ مگر ان مذاکرات میں بھارت کی مخلصانہ شمولیت کا اندازہ لگانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان، مذاکراتی عمل میں (مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، بیرون پاکستان و بھارت) کشمیری نمایندگان کو ساتھ لے کرشریک ہو۔ اگر بھارت مسئلے کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت مذاکرات کو محض وقت گزاری کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس کا مقصد کشمیریوں اور پاکستان میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے، ساتھ ہی وہ پاکستان کے اصولی موقف میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے بے معنی مذاکرات کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کا ایجنڈا، صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کو رُوبہ عمل لانے کی تفصیلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے بنائے ہوئے کمیشن ہی کا تقاضا نہیں بلکہ خود بھارت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے اور جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اس عہد وپیمان میں پوری دنیا شریک ہے۔نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں بھی اسی حل کو واحد حل کی حیثیت سے طے کر دیا گیا ہے اور مسئلے کے منصفانہ، پایدار اور قانونی سلجھائو کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا فریم ورک نہیں ہوسکتا۔
کسی برادر مسلم یا غیرمسلم دوست ملک کے دبائو میں آکر اگر ہم اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا کرتے ہوئے اور پسپائی اختیار کرنے کی راہ پر چل پڑے،اور خدانخواستہ اگر ’آؤٹ آف باکس‘ کوئی وعدہ کربیٹھے، تو یہ چیز، جدوجہد آزادیِ کشمیر کو برباد کرنے کا ذریعہ بنے گی، اور ایسا کرنے والوں کو پاکستانی اور کشمیری کبھی معاف نہیں کریں گے۔
کسی دوست ملک یا کسی طاقت کے دبائو میں آکر ثالثی کے پھندے کو قبول کرنا، کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستانیوں کی قربانیوںکو دریابرد کرنے کےمترادف ہوگا۔
اگرچہ موجودہ برسوں میں پاکستان کی معاشی حالت گوناگوں داخلی، خارجی اور انتظامی اسباب کے باعث تسلی بخش نہیں ہے، مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی اخلاقی، قانونی، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ اس لیے معاشی دبائو میں آکر اپنی اخلاقی اور قانونی پوزیشن کو قربان کرنے، اس پر سمجھوتا کرنے، دب کر بات کرنے اور موقف کو ضُعف پہنچانے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
اکتوبر ۲۰۲۰ء میں گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہدایات دینا، مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔ اسی لیے ہم نے ایسے کسی عمل سے برأت کا اعلان کرنے پر زور دیا تھا اور جموں و کشمیر کی وحدت برقرار رکھنے کا اعادہ کیا تھا۔
بہت واضح الفاظ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کے سامنے ہم یہ بات رکھیں گے کہ پاک بھارت مذاکرات، ہرصورت میں پاکستان کی منتخب حکومت اور دفترخارجہ کی ذمہ داری ہے، جسے مسلح افواج کے مشورے کی ضرورت ہرقدم پر رہے گی۔ لیکن خود افواجِ پاکستان کا ایسے بین الاقوامی مذاکرات کی ذمہ داری لینا، پاکستان، پاکستان کے موقف اور قومی اداروں کی ساکھ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔
یہ بات ہمیں اس لیے کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سول حکومت کی موجودگی کے باوجود ۲۰۰۸ء سے لے کر اب تک پہلے جنرل پرویز کیانی ڈاکٹرائن، پھر جنرل راحیل شریف ڈاکٹرائن اور اب جنرل باجوہ ڈاکٹرائن پیش کرنے کا عمل اور اس کی تشہیر یا ذہن سازی ہرگز مناسب قدم نہیں ہے۔ مسلح افواجِ پاکستان کی خدمات، شجاعت اور لازوال قربانیوں کی قدر ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ہرادارے کی حدود کار، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ معاہدۂ عمرانی کے مطابق واشگاف ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنے سے جہاں نظم و ضبط، فساد سے دوچار ہوتا ہے، وہیں پر قومی ساکھ کو صدمہ پہنچتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم کی آیندہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
ہمارے مقتدر اداروں اور میڈیا کو ایسے نیم دلانہ مذاکرات سے توقعات وابستہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ افسوس کہ مخصوص این جی اوز اور میڈیا پر کنٹرول رکھنے والی مخصوص لابی قوم کو اس اندھیری سرنگ میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسے عناصر کی جانب سے کی جانے والی بے جا داد و تحسین کی حقیقت کو سمجھیں اور ایسے دام ہم رنگ میں اُلجھنے سے بچیں۔
پارلیمنٹ کی ’کشمیر کمیٹی‘ کی تشکیل نو کرتے ہوئے کمیٹی کی قیادت ذمہ دار، متحرک اور مسئلہ کشمیر کا درد رکھنے والے فرد کے سپرد کی جائے۔ جو متعلقہ معاملات پر پوری لگن اور تندہی سے ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، سیاسی، سفارتی اور فکری قیادت کو ساتھ لے کر چلے۔ اس پلیٹ فارم کی تساہل پسندی کے نتیجے میں جو پہلے نقصان ہوچکا ہے، اس کا مداوا کرے۔
ہمیں مسئلہ کشمیرکے باب میں حکومت، حزبِ اختلاف، مسلح افواج اور میڈیا کے متعلقین کے اخلاص کے بارے میں شک نہیں۔ لیکن مخلص فرد بھی اگر درست چیز کو نامناسب انداز سے پیش کرے تو اس سے کئی بار ایسا نقصان پہنچتا ہے، کہ وہ دشمن کے حق میں بہت بڑا نفع بن جاتا ہے، اور پھر ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے ہم: ’نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘۔