اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں فرعون اور اس کی قوم پر دنیا کے اندر لگاتار پانچ عذابوں کا ذکر فرمایا ہے اور ان کا ردعمل بھی بیان کیا ہے، جو ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے۔
اس سلسلے کا آغاز جادوگروں کےمشرف بہ ایمان ہونے کے بعد سے ہوتا ہے جو بالآخر فرعون کے لشکر سمیت غرقابی پرتمام ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’موسٰی نے کہا:’’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہو ں ۔میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں‘‘(اعراف ۷:۱۰۳-۱۰۴)۔
سورئہ طٰہٰ میں حضرت موسٰی کو یہ ہدایت کی گئی تھی: ’’ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔ پھر انھیں یہ حکم بھی دیا گیا تھا: ’’ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے ربّ کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے ربّ کی نشانی لے کر آئے ہیں، اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے ۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے‘‘ ۔ اس تقریر کا اختتام اس انذار پر ہوا کہ ڈراؤ تاکہ اس کا خوف اس کے اندر پیدا ہو۔
حضرت موسٰی کی اس نہایت دل سوز دعوت کے جواب میں کیا جانے والاتمسخر آمیز سوال دیکھیں : ’’ فرعون نے کہا: ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا ربّ کون ہے اے موسٰی ؟‘‘ حضرت موسٰی نے جواب دیا: ’’ہمارا ربّ وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا‘‘ ۔ یہاں ربِّ کائنات نے سرکش مخاطبین کا ردعمل اور ان کے مقابلے میں اپنے برگزیدہ رسول کا اسوہ پیش فرمایا ہے ۔ جہاں ایک طرف نفسِ مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر ’’ فرعون بولا:’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘ تو جواب میں نہایت خندہ پیشانی سے حضرت موسٰی نے کہا:’’اُس کا علم میرے ربّ کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے‘‘۔ گویا دوسروں کے غیر ضروری مسائل میں اپنے مخاطب کو الجھا کر راہِ فرار اختیار کرنے کا کچھ حاصل نہیں ہے ۔ اس کے بجائے انسان کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے ۔
یہ پیغمبرانہ بصیرت ہے کہ وہ اپنے مخاطب کے جال میں اُلجھنے کے بجائے اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’وہی جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمھارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعے سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے‘‘۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی توجہ پاک پروردگار کے احسانات کی جانب مبذول کرائی کہ جن سے وہ اور اس کی قوم بہرہ مند ہورہی تھی، لیکن مسئلہ صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ ربّ کائنات فرماتا ہے:’’ اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے‘‘۔
قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر فرعون کے انکار کا بیان ہے۔ سورۂ قصص میں فرمانِ خداوندی ہے: ’’اور فرعون نے کہا :’’اے اہل دربار، میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسٰی کے خدا کو دیکھ سکوں ‘‘۔ فرعون کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ:’’ ا ُس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے‘‘۔پھرفرمایا:’’ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا ‘‘۔ مزید فرمایا: ’’ ہم نے اِس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے ‘‘۔ قرآن حکیم کی اس آیت میں فرعون اور اس کی قوم پر دنیوی لعنت اور اُخروی قباحت کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت موسٰی نے جب مطالبہ کیا: ’’میں تم لوگوں کے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے‘‘۔ اس پر فرعون نے کہا:’’اگر تو کوئی نشانی لایا اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر‘‘ ۔ ربّ کائنات نے کلیم اللہ کو اس کے جواب سے لیس کرکے مبعوث فرمایا تھا، سو : ’’موسٰی نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا ۔اس نے اپنی بغل سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا ‘‘۔ قبطیوں نے اپنی فطرت کے مطابق سوال کیا اور اس کا قرار واقعی جواب مل گیا ۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ وہ سرِ تسلیم خم کرلیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ: ’’یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے‘‘ ۔
اس بہتان تراشی کے بعد فرعون نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’(یہ) تمھیں تمھاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو؟‘‘ اپنے فرماںروا کی خوش نودی کے لیے پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں، چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مقابلے سے قبل جادوگروں کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ اُنھوں نےپوچھا:’’اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟‘‘ فرعون نے جواب دیا:’’ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہوگے‘‘ ۔ اس طرح گویا فرعون اور جادوگروں کے درمیان کھلے عام عہدو پیمان طے ہوگیا۔
مقابلے سے قبل حضرت موسیٰ ؑ نےجس پُرزور انداز میں جادوگروں اور ان کے توسط سے وہاں موجود فرعون کی قوم کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں :’’ موسٰی نے ان سے فرمایا: تم پر افسوس (خبردار!) اللہ پر جھوٹا بہتان مت باندھنا ورنہ وہ تمھیں عذاب کے ذریعے تباہ و برباد کردے گا اور واقعی وہ شخص نامراد ہوا جس نے (اللہ پر) بہتان باندھا‘‘ ۔ یہ انذار ہے کہ جب حق سامنے آجائے گا تو اس سے رُوگردانی نہ کرنا کیونکہ اس سے قبل جب یہ معجزات فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے آئے تھے تو انھوں نے اسے جادو قرار دے کر جھٹلادیا تھا۔ جادوگروں پر اس تنبیہ کا خاطر خواہ اثر پڑا اور فرعون سے انعام و اکرام کے خواہش مند لوگوں کے اندر اللہ کے عذاب کا جو خوف پیدا ہوا اس کی گواہی اس آیت میں ہے :’’چنانچہ وہ (جادوگر) اپنے معاملہ میں باہم جھگڑ پڑے اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے‘‘۔
جادوگروں کے درمیان اختلاف رائے تو ہوا لیکن پھر بھی مقابلے کا جذبہ غالب رہا اور وہ کہنے لگے: ’’یہ دونوں واقعی جادوگر ہیں۔ یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ تمھیں جادو کے ذریعے تمھاری سرزمین سے نکال باہر کریں اور تمھارے مثالی مذہب و ثقافت کو نابود کردیں‘‘۔ فرعون اور اس کے درباری جہاں بندگی (اطاعت )اور اقتدار کے حوالے سے فکرمند تھے وہیں جادوگروں نے دین حق کو اپنی تہذیب و ثقافت کی عظمت کے لیے بھی خطرہ محسوس کیا: ’’اور: (باہم فیصلہ کیا) پس تم (جادوکی) اپنی ساری تدابیر جمع کر لو پھر قطار باندھ کر (اکٹھے ہی) میدان میں آجاؤ، اور آج کے دن وہی کامیاب رہے گا جو غالب آجائے گا‘‘ ۔ اس اعلان سے قبل اگر وہ اپنی ناکامی کے امکان پر بھی غور کرتے تو اس سے باز رہتے ۔ خیرمقابلے کے آغاز میں جادوگر بولے:’’موسٰی، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟‘‘ موسٰی نے کہا:’’نہیں، تم ہی پھینکو‘‘۔ یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے موسٰی کو دَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور موسٰی اپنے دل میں ڈر گیا‘‘ ۔
جادوگر تو ایمان لے آئے مگر فرعون نے(ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے) کہا :’’ تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اس کی اجازت دیتا؟‘‘۔ فرعون کا جادوگروں سے یہ مطالبہ کہ تم نے میری اجازت کے بغیر دین حق کو قبول کرنے کی جرأت کیسے کی، روئے زمین پر بدترین جبر کی روایت ہے جو جمہوریت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ہنوز جاری و ساری ہے۔
اس کے بعد فرعون نے ایک ناقابلِ یقین الزام لگا دیا :’’یہ تمھارا (جادوگروں کا) گُرو ہے جس نے تمھیں جادوگری سکھائی تھی‘‘۔یہ بہتان اس لیے احمقانہ تھا کہ جادوگروں کو بلانے کی تجویز سے لے کر اہتمام تک کی ساری مشق اس نے خود کی تھی۔ وہ ظالم حکمران یہیں نہیں رکا بلکہ دھونس دھمکی پر اُتر آیا اور بولا:’’ اچھا، اب میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ پھر تمھیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے (یعنی میں تمھیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی ) ‘‘۔ فرعون اس معرفت سے بے بہرہ تھا کہ ایمان کی دولت کیا ہوتی ہے؟ اور ایمان والے کس قدر جری و بہادر ہوتے ہیں؟ اس لیے جادوگروں کے اس جواب نے اس کو حواس باختہ کردیا:’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں، تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے‘‘۔
یہ ایک ایسا موقع ہے کہ پوری قوم ایک میدان میں جمع ہے ۔ ان کے سامنے فرعون کا پول کھل چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان جادوگروں کے ذریعے دین اسلام کی دعوت سب کے سامنے پہنچانے کا انتظام کرواچکا ہے ۔ جادوگر شہادت دیتے ہیں :’’ ہم تو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔ اس نازک ترین گھڑی میں جادوگروں نے جو ایمان افروز دعا کی سورۂ اعراف میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ :’’اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں‘‘۔ یہ عجیب و غریب منظر ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو زیر کرنے کے لیے ساحروں کو جمع کرنے کا منصوبہ فرعون نے بنایا۔ ان کو بصورتِ کامیابی اپنا مقرب بنانے کی پیش کش خود کی لیکن جب داؤ الٹ گیا اور وہ ایمان لے آئے تو ہاتھ پیر مخالف سمتو ں سے کٹواکر سولی چڑھانے کی دھمکی پر اتر آیا ۔ اس کے باوجود جادوگروں کا صبرو ثبات اور عزم و حوصلہ دیکھ کر فرعون کے درباری گھبرا گئے ۔
مارے گھبراہٹ کے فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا:’’کیا تو موسٰی اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟‘‘ ۔یہاں پر مفسدین الٹا حضرت موسیٰ ؑ پر فساد پھیلانے کی تہمت باندھ رہے ہیں ۔ اس سوال کا فرعون نے جواب دیا:’’میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے‘‘۔ اس جواب میں فرعون اپنے حق بجانب ہونے کا جواز اقتدار کی مضبوطی کو قرار دیتا ہے، یعنی چونکہ وہ طاقت ور ہے اس لیے وہ ہر طرح کے ظلم و جبر پر قدرت رکھتا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں اس کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں ۔
حضرت موسٰی نے اپنی قوم سے صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد انھیں امید و حوصلہ دیتے ہوئے کہا :’’زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے‘‘۔ یعنی بظاہر فرعون بہت طاقت ور ہے لیکن ربّ کائنات کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ دنیا مسبب الاسباب کی مرضی سے چل رہی ہے اور وہ کسی کو بھی اس کا وارث بناسکتا ہے اور معزول کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ دنیا کا اقتدار ہی اصل کامیابی نہیں ہے بلکہ ’’ آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اُس (اللہ) سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ یعنی خشیت اللہ اپنے دل میں پروان چڑھائیں ، فرعون سےخوف زدہ نہ ہوں ۔ سورۂ قصص میں یہی یقین ان الفاظ میں درج ہے: ’’ہم تیرے بھائی کے ذریعے سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمھارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمھارا اور تمھارے پیروؤں کا ہی ہو گا‘‘۔
ویسے یہ بشارت تو ہمارے لیے بھی ہے :’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ ۔ لیکن نہ جانے کیوں اس کواکثر فراموش کردیاجاتاہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے حالات امت کی موجودہ حالت سے خاصے مماثل ہیں۔ اس لیے جب حضرت موسٰی ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے تو جواب میں:’’ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا:’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں‘‘۔اس کڑوے کسیلے مایوس کن ردعمل کے باوجود حضرت موسٰی نے نہایت شگفتگی سے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا ربّ تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔
آج بھی پریشان حال امت کو اسی طرح کی حوصلہ مند اور پر امید قیادت درکار ہے جو نہ صرف کامیابی کی نوید سنائے بلکہ اس کے مقصد سے بھی آگاہ کرے ۔ اس کو بتائے کہ تمھیں اقتدار اس لیے نہیں دیا جائے گا کہ تم ان سے انتقام لو یا ان کی طرح ظلم و زیادتی اور عیش و طرب میں پڑجائو بلکہ وہ بھی ایک آزمایش ہی ہوگی ۔اس کائنات میں جہاں انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہی آزمایش ہے، اس کی نوعیت تو بدلتی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔ کبھی اقتدار سے محروم کرکے توکبھی نوازکر اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے بلکہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیسا عمل کرتے ہیں؟ کوئی پہلی آزمایش میں ناکام ہوجاتا ہے تو کوئی دوسری میں۔ ویسے یہ دنیا ایسی سعید روحوں سے بھی خالی نہیں ہوتی کہ جو دونوں مراحل میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں فرعون کی قوم پر دُنیوی عذاب کا سلسلہ دراز کیا گیا۔
اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ حالانکہ در حقیقت ان کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے‘‘۔ وہ اس آسمانی مصیبت کابہتان حضرت موسٰی کے سحر پر منڈھتے ہوئے کہتے تھے:’’تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں‘‘۔ یہ سراسر خود فراموشی اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ سورۂ نمل میں ان کی اندرونی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے :’’مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں اُن لوگوں کے سامنے آئیں تو انھوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نشانیاں ان کے قلب و ذہن کو قائل کرچکی تھیں لیکن انا، رعونت یا دنیوی مفاد جیسی نفسانی کمزوریاں اعترافِ حق کی راہ میں حائل تھیں۔
دوسرے مرحلے میں پانچ قسم کے عذاب الگ الگ وقتوں میں آئے: ’’آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سر کشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے ‘‘۔ طوفان سے مراد آسما ن سے پانی اور اولے برسنا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اَبرآلود آسمان سےسبت کی شب زبردست برسات شروع ہوئی اور طوفان بپا ہوگیا ۔ اس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ کھیت کھلیان اور گھر سب ڈوب گئے، پانی گلے تک آگیا۔ ایک ہفتہ قبطی اس مصیبت میں گرفتار رہے مگر بنی اسرائیل کو محفوظ رکھا گیا۔ اس مصیبت سے عاجز آکر انھوں حضرت موسٰی سے دعا کی درخواست کی۔ اس کاذکر سورۂ اعراف میں ہے: ’’جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے:اے موسٰی، تجھے اپنے ربّ کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر‘‘ ۔
یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ عذاب میں جب شدت آئی تو ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور انھوں نے حضرت موسٰی سے رجوع کیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ ’’ اگر اب کے تُو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے‘‘۔ اس مصیبت کے باوجود وہ لوگ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت پر لبیک کہہ کر فرعون کا انکار اور اللہ کے اقرار پر تیار نہیں تھے بلکہ دوسرے درجے کے کم تر مطالبے، یعنی بنی اسرائیل کی رہائی کے تعلق سے نرم پڑے ۔ ویسے یہ ان کا مستقل رویہ تھا کہ ہر مرتبہ بلا کے ٹل جانے پر وہ عہد شکنی کرتے۔ ’’مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے‘‘۔ لیکن طوفان تھم جانے کے بعد جب کھیت اور باغ سرسبزو شاداب ہوجاتے تو وہ اپنی مصیبت کو بھول کر اُلٹا طوفان کو نعمت قراردینے لگے اور پھر سے ظلم و طغیان کی طرف لوٹ گئے۔
طوفان کے بعد والے مرحلے میں ان کی تیار فصلوں پر ٹڈی دل نے ہلہ بول دیا ۔ اس سے پریشان ہوکر وہ دوبارہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئے ۔ آپ نے پھر سے دعا کی اور وہ عذاب بھی ٹل گیا تو وہ حسبِ سابق بدل گئے ۔ اس کے بعد جو اناج رکھا گیا تھا اس میں گھن لگ گئی اور بالوں میں جوئیں آگئیں۔ اس قہر آسمانی سے بلبلا کر وہ حضرت موسٰی کے حضور حاضر ہو ئےاور دعا کی درخواست کی اور وعدہ کیا مگر پھر وہی پرانی کہانی دُہرائی گئی ۔ اس کے بعد مینڈک کا عذاب نازل ہوگیا۔مینڈک اور قہر نے ان کا چین و سکون چھین لیا ۔ ہر جگہ مینڈک ہی مینڈک۔ نہ سونے دیتے نہ کھانے دیتے۔ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتے تو اُچھل کر اندر چلے جاتے ۔ اس عذاب سے نجات کے لیے وہ روتے گڑگڑاتے حضرت موسیٰ ؑ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی استدعا کے ساتھ حاضر ہوئے۔ آپ نے ان کی بار بار عہد شکنی کے باوجود کبھی منع نہیں کیا اور دعا کرتے رہے ۔ نہ تو رسول کا رویہ بدلہ اور نہ ان کی عہد شکنی میں تبدیلی واقع ہوئی یہاں تک کہ خون کے عذاب میں مبتلا کردیے گئے۔
یہ عذاب کی ایک منفرد شکل تھی کہ قبطی برتن سے پانی نکالتے تو خون بن جاتا اور بنی اسرائیل کے لیے وہ صاف شفاف پانی ہی رہتا۔ اس طرح پانی کے باوجود وہ قطرے قطرے کے محتاج ہوگئے۔ حکایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ گنے وغیرہ کو چوستے تو اس کا رَس بھی خون بن جاتا۔ اس طرح پے درپے عذاب میں مبتلا ہونے اور نجات پانے کے باوجود جب ان لوگوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو تیسرے مرحلے کا حتمی عذاب آیا ۔ اس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے :’’ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے ‘‘۔ یہ دنیا کا آخری عذاب ضرور ہے لیکن اصلی اور دائمی عذاب آخرت کا ہے۔