دنیاکی زندگی، سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے:
کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے، بس اسی دنیا میں ہے۔ اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمھیں کرنا ہے، بس یہیں کرلو۔
کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوش حالی کے نشے میں بدمست ہوکر اپنی موت کو بھول جاتا ہے، اور اس خیالِ خام میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ’اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے‘۔
کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کرکے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’معیارِ زندگی‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، خواہ نتیجے میں اس کا معیارِ آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔
کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ ’دُنیوی خوش حالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے۔ ہر وہ طریقہ حق ہے، جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو، اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے، باطل ہے‘۔
کوئی اسی خوش حالی کو مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدئہ کلیہ بناکر بیٹھ جاتا ہے کہ ’جس کی دُنیا خوب بن رہی ہے___ خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے___ اور جس کی دُنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے‘۔
یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے آیت [فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا’پس، یہ دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے‘، سورئہ لقمان۳۱:۳۳] میں ’دُنیوی زندگی کے دھوکے‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ (’تفہیم القرآن‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶، عدد۳، جون ۱۹۶۱ء، ص۱۲-۱۳)