سوال : کسی تقریب میں یا بالخصوص کہیں بھی اسٹیج پر قاری حضرات قرآنِ مجید کی جب تلاوت کرتے ہیںتو بعض اوقات رُموزِ اوقاف، مثلاً: لا، یا م یا ط کا خیال نہیں کرتے اور جوشِ قرأت میں بآوازِ بلند پورے زور سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے چلے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک تقریب میں ایک قاری صاحب نے سورۃ الضحیٰ کی تلاوت کی۔ شروع میں پہلی آیت پروقفہ کیا۔ پھر اکٹھی پہلی دو آیات پڑھ کر سانس لیا۔ پھر اکٹھی پہلی تین آیات پر رُک کر سانس لیا،حتیٰ کہ آخری بار پوری گیارہ آیات یعنی پوری سورت تلاوت کرکے سانس لیا۔ لطف یہ کہ سامعین کا تحسین و آفرین ’سبحان اللہ‘ وغیرہ کا سلسلہ بھی بلندتر ہوتا چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی طرزِتلاوت واقعی قابلِ تحسین ہے؟ کیا حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یا آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں اس طرح کی تلاوت کی مثالیں ملتی ہیں؟ ہمیں توپڑھایا گیا تھا کہ آیات کو الگ الگ کرکے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ براہِ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمادیں۔
جواب: قرآن مجید کی تلاوت کا مقصود اس میں غور و فکر ، تدبّر و تفکّر اور عبرت پذیری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے ٹھیر ٹھیر کر پڑھا جائے ۔ جلدی جلدی پڑھنے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔ جو شخص قرآن کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھ رہا ہو اسے بھی ٹھیر ٹھیر کر پڑھنا چاہیے، اس لیے کہ یہ تلاوت ِ قرآن کے آداب میں سے ہے۔
سورۂ مزّمّل بعثت ِ نبویؐ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے جہاں یہ فرمایا ہے کہ رات کا بیش تر حصہ، یا نصف ، یا اس سے کچھ کم بیدار رہ کر نماز پڑھا کرو، وہیں اس کا یہ بھی ارشاد ہے:
وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۴ۭ(المزّمّل۷۳:۴) اور قرآن کوخوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔
’ترتیل ‘ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کی جائے کہ اس کا ایک ایک حرف ، ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت الگ الگ ہو ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام ِ الٰہی کے مفہوم و مدّعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات ِ تشکّر سے لب ریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے، یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے؟ غرض یہ قراء ت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں ،بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ (تفسیر سورۂ مزّمّل، حاشیہ ۴، تفہیم القرآن، ج۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدایت ِ ربّانی پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا ۔ چنانچہ متعدد صحابہؓ و صحابیاتؓ نے بیان کیا ہے کہ آپؐ کس طرح تلاوت ِ قرآن کیا کرتے تھے ؟
اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں:
اِنَّ قِرَاءَ ۃَ النَّبِيِّ ....قِرَاءَ ۃً بَطِیْئَۃً (احمد:۲۶۷۴۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سست رفتاری سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔
دوسری روایت میں ہے:
اِنَّ النَّبِيَّ کَانَ یُقَطِّعُ قِرَاءَ تَہٗ ( ترمذی:۲۹۲۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت میں الفاظ الگ الگ ہوتے تھے۔
بعض دیگر روایتوں میں ہے کہ انھوں نے مثال دے کر آپؐ کا طریقۂ تلاوت سمجھایا۔ انھوں نے فرمایا:
کَانَ رَسُوْلُ اللّہِ یُقَطِّعُ قِرَاءَ تَہٗ ، یَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ ، ثُمَّ یَقِفُ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ ، ثُمَّ یَقِفُ، وَ کَانَ یَقرَؤھَا مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ (ابو داؤد:۴۰۰۳ ، ترمذی : ۲۹۲۷)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے۔ مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ پڑھ کر رک جاتے ، پھر الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ پر ٹھیرتے، اس کے بعد رُک کر مٰلک یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ِ خاص حضرت انس بن مالک ؓ سے سوال کیا گیا کہ آپؐ کیسے قرآن کی تلاوت کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا: کَان یمدُّ مدّاً (بخاری: ۵۰۴۵)’’آپ ؐ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے‘‘۔
دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے مثال کے طور پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپؐ اللہ ، الرحمٰن ، الرحیم کو مَد کے ساتھ پڑھتے تھے۔
بعد میں علما نے تجوید کے قواعد و ضوابط وضع کیے اور رموز ِ اوقاف متعین کیے،چنانچہ مصاحف کی طباعت ان رموز کے ساتھ ہونے لگی ، تاکہ لوگ درست طریقے سے قرآن کی تلاوت کر سکیں۔ تلاوت ِ قرآن کے دوران میں ان قواعد کی پابندی اور رموزِ اوقاف کی رعایت ضروری ہے۔ مشہور ماہر قراء ت امام ابن الجزری (م:۸۳۳ھ) کا شعر ہے:
وَالْأَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حَتْمٌ لَازِمٌ
مَن لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ آثِمٌ
(قواعد ِ تجویدکی رعایت کرتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے۔جو شخص قواعد ِ تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے)۔
رہا یہ سوال کہ جو شخص قرآن پڑھتے ہوئے آداب ِ تلاوت کی رعایت نہ کرے اور ایک سانس میں کئی آیتیںیا پوری چھوٹی سورت پڑھ لے، اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں علما نے کہا ہے کہ اگر حروف کے مخارج درست ہوں اور معنٰی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، البتہ افضل کے خلاف ہے۔بعض علما اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء سے یہ سوال کیا گیا :’’ قرآن مجید پڑھتے ہوئے بہت ساری جگہوں پر وقف اور وقف ِ لازم ہوتا ہے۔ وقف کرتے وقت اگر ہم آخری حرف کو سکون دیں ، لیکن نئی سانس نہ لیں اور قرآن پڑھنا جاری رکھیں تو کیا یہ جائز ہے ؟ اگر جائز نہیںہے تو کیا حرام ، مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی ہے؟‘‘ تو اس کا یہ جواب دیا گیا: ’’ سکون دے کر سانس کا انقطاع نہ کرنا اور آگے پڑھنا درست نہیں، اصولا ً غلط ہے، جس کا حاصل کراہت ہے۔ اسی طرح وقفِ لازم پر وقف نہ کرنا اچھا نہیں۔اس کا حاصل مکروہ ہے۔‘‘ (جواب نمبر۱۹۷۸۴)،فتویٰ نمبر (ھ) :۳۱۶=۲۹۴-۱۴۳۱؍۳)
قرآن مجید کی تلاوت اس کے تمام آداب اور قواعد ِ تجوید کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنی چاہیے کہ یہی حکم ِ الٰہی ہے اور اسوۂ رسولؐ بھی ۔(مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
سوال : ماضی قریب کی تواریخ ہمیں بتاتی ہیں کہ اسلامی راسخ العقیدہ یا مغرب کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ مسلم تحریکیں جب کامیابی کی ایک سطح کو پہنچتی ہیں تو اس کے بعد مسلم قوم پرست یا درست الفاظ استعمال کیے جائیں تو سیکولر گروہ ان پر یا ان کے پیداکردہ مواقع پر قابض اور حاوی ہوجاتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تحریکیں، مغرب پسند مسلم قوم پرستوں کے سامنے ایک ثانوی کردار ہی ادا کرتی رہیں گی؟
جواب :یہ ایک بڑا بنیادی سوال ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف وجوہ سے مغربی اقوام کے ہاتھوں مسلم معاشرے ،سیاسی شکست کے نتیجے میں زوال پذیر ہوچکے ہیں، مگر قومی زوال کا آغاز محض سیاسی شکست سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ بلاشبہہ شکست ایک بڑی تلخ شے ہے، مگر زندگی کے مدّوجزر کا ایک لازمی حصہ بھی ہے۔ البتہ شکست کو تسلیم کرکے بیٹھ جانا اور اسی پوزیشن پر قانع ہوجانا، پہلے مرحلے میں جمود اور حتمی نتیجے میں موت کے مترادف ہے۔
فکری تحریکیں میدانِ جدوجہد میں نشیب و فراز سے گزر کر بھی نئی بلندیوں سے ہم کنار ہوسکتی ہیں اور مسلم تاریخ ایسی ایمان افروز مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ایک فکری تحریک کا شیرازہ صرف اس وقت بکھرتاہے، جب شکست اس کی قیادت اور پھر کارکنوں کے دل و دماغ پر غالب آجائے اور وہ اپنی بنیاد اور شناخت کے باب میں تشکیک، اضمحلال، تھڑدلی، تذبذب یا لاتعلقی کی سی کیفیت کا شکار ہوجائے۔ اس لیے شکست کے مختلف ماڈل، مسلم معاشروں کے گوناگوں تضادات کا ایک تسلسل ہیں۔ بلاشبہہ اسلامی تحریکات بڑا قابلِ قدر، تخلیقی اور ہمہ گیر شعور دینے کے باوجود ابھی تک مسلم معاشروں کو مکمل تبدیلی کی منزل سے ہم کنار نہیں کرسکی ہیں، البتہ اس جدوجہد میں وہ پوری تگ و دو اور لگن کے ساتھ مصروف ہیں۔
ان گوناگوں مشکلات کا ایک سبب یہ ہے کہ اسلامی تحریکات نے بڑے نامساعد حالات میں کام کا آغاز کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب علمی، فکری، ذہنی اور اخلاقی طور پر مغربی تہذیب نے مسلمانوں پر ہمہ گیر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ مصر جیسے مسلم ملک میں ایک طرف برطانوی اقتدار کے خلاف جنگ ِ آزادی جاری تھی، دوسری طرف وزیراعظم سعدزغلول [م:۱۹۲۷ء] رمضان کے مہینے میں عوام کے سامنے علی الاعلان شراب نوشی کرتا تھا، اس سب کے باوجود لوگ اسے زندہ باد کے نعروں سے ہی نوازتے رہے۔ اسی طرح نیاز فتح پوری [م:۱۹۶۶ء] کو تمام تر ملحدانہ نظریات کے باوجود مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ دلّی میں ہیرو سمجھا جاتا رہا۔ انھی حالات کے بارے میں علامہ محمد اقبال [م: ۱۹۳۸ء]نے بہت بنیادی بات کہی تھی کہ:
تھا جو ’ناخوب‘ بہ تدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اس پس منظر میں تحریک اسلامی نے دنیا بھر میں ایک واضح فکر کے ساتھ کام شروع کیا۔ اس کا بنیادی کام دو پہلوئوں پر محیط ہے، اور دونوں نہ صرف برابر کی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان کا اپنا اپنا مستقل کردار ہے اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں: پہلا یہ کہ فکر کی تشکیل نو اور نظریاتی انقلاب، اور دوسرا قیادت کا انقلاب اور اجتماعی تبدیلی___ یاد رہے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکوں کو انیسویں اور بیسویں صدی کے دین اور سیاست میں عملی تفریق کے باب میں ایک بڑے فکری چیلنج کا سامنا تھا۔ انھیں باطل نظریات کے طلسم کو توڑنا تھا، تاکہ لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا یقین حاصل ہو۔ دوسری جانب ان کو یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ مسلم معاشروں کی اعلیٰ قیادت، جس میں دانش ور، محقق، ادیب، اساتذہ اور اہل حل و عقد شامل ہیں، انھیں مخاطب کیا جائے۔
لیکن، شاید اسلامی تحریکی قیادتیں اس امر کا بروقت اور درست اندازہ نہ لگاسکیں کہ ان کے اپنے ملکوں کی مقتدر قوتوں اور عوام کے درمیان تعلقاتِ کار تبدیل ہوچکے ہیں اور انھیں ایک تبدیل شدہ صورتِ حال میں دعوت، تنظیم اور کش مکش کا سامنا ہے۔ جتنا بھرپور چیلنج درپیش تھا، اس جان جوکھم جدوجہد، ایثار اور قربانی پر اسلامی تحریکوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جو کام انھوں نے کیا وہ بڑا بنیادی اور غیرمعمولی نوعیت کا کام تھا۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ تمام مدِمقابل قوتوں کا مقابلہ کرنے اور قائل کرنے کے لیے، ہم سخن اور ہم مقصد لوگوں یا گروہوں کو ساتھ لے کر چلنے میں کمزوری کا شکار ہیں؟ کیوں کہ انجامِ کار ایک ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی واقع نہیں ہوسکی۔
یہ مثال اپنی جگہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ اگر حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں تو پورا قبیلہ ان کے ساتھ آجاتا ہے۔ اگر طائف کے سردار اسلام قبول کرلیتے ہیں تو پورا طائف، محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف تحریک پاکستان کے دوران مولانا شبیراحمد عثمانیؒ [م: ۱۳دسمبر ۱۹۴۹ء] تو بلاشبہہ کُل ہند مسلم لیگ کے ساتھ آجاتے ہیں، مگر جمعیت العلمائے ہند کی اکثریت ساتھ نہیں آتی۔ اس اعتبار سے اسلامی تحریکات کی سیاسی و سماجی قیادت اور فکری قیادت___ ان دونوں پہلوئوں سے آگے بڑھنے میں فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں رہیں اور وہ عوامی جذب و انجذاب (transformation) کا درجہ حاصل نہیں کرسکیں۔ لیکن یہ روح فرسا حادثہ بھی ہوا ہے کہ الجزائر اور مصر میں پاپولر ووٹ اور رائے عامہ کی فیصلہ کن حمایت حاصل کرنے کے باوجود، ان ممالک کی افواج نے نہایت سفاکی سے ان کا راستہ روک دیا۔
یہی ہے وہ دوراہا کہ ایک طرف ہمارے عوام دل سے اسلام چاہتے ہیں، لیکن نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور نہ اخلاقی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوسکے ہیں کہ اسلام جو مطالبات ان سے کرتا ہے اور جو تبدیلیاں وہ چاہتا ہے، انھیں یہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں جاری وساری کریں___ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا اصل بحران یہ ہے کہ بلاشبہہ آج کا مسلمان، اسلام کے لیے جان اور مال کی قربانی دینے کے لیے تو تیارہے، لیکن وہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیارنہیں۔ وہ سود کھانے سے تو نہیں شرماتے، مگر سور کھانے سے نفرت ضرور کرتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ ایک بڑا عظیم چیلنج اور گمبھیر سوال ضرور ہے،جس کا جواب مختلف ممالک اور مختلف معاشروں میں مختلف استدلال کی گنجایش رکھتا ہے۔
مولانا مودودی نے تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان اُمور کو واضح کیا ہے کہ اسلامی تحریکات کو کن دائروں میں، کس ترتیب سے اور کس لگن سے کام کرنا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اس جدوجہد کے دوران کون کون سے اُمور ایسے ہیں، جن میں ترتیب اور ترجیح کا اَدل بدل ہوسکتا ہے، اور کون سے اُمور ایسے ہیں کہ جن میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔اس ضمن میں کام کے دوران وقتی صورتِ حال کے تحت بسااوقات کسی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دینا پڑسکتا ہے، مگر اُس کے باوجود شعوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہمیں توازن کی طرف پلٹنا ہے، کسی ایک ’جزو‘ کو کُل نہیں بنانا۔(پروفیسر خورشید احمد)
سوال : اسلامی تحریکات، عوام تو ایک طرف ، بلکہ خود خواص کے دلوں کو بھی اس انقلابی دعوت کی طرف نہیں پھیر سکیں۔ کیا ان تحریکوں کی حکمت عملی میں کوئی خامی رہ گئی ہے؟
جواب :گذشتہ جواب میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس وقت ہماری سوسائٹی کا جو پاور اسٹرکچر ہے، اس کو نہ تو اسلام کے حقیقی تصور اور تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے قائل کیا جاسکا ہے اور نہ اسے اپنی جگہ سے پوری طرح ہلایا جاسکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی تعمیرکردہ آہنی رکاوٹ کو پوری طرح عبور بھی نہیں کیاجاسکا۔ چنانچہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے چاہا کہ انتخابی عمل سے ایک ایسی حیثیت اختیار کرلیں، جس میں ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ لیکن محسوس ہوا کہ اسلامی قوتوں کا (اسلامی تحریکوں کا نہیں) تقسیم در تقسیم ہونا بلکہ متحارب ہونا، اس راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتا چلا آرہا ہے۔
ہم ان تلخ حقائق سے سیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسلامی تحریک کو یہ جمود توڑنے کے لیے تنظیم کے اندر مضبوطی لاتے ہوئے مستقبل میں زیادہ Populist (مقبول عام) پالیسی اختیار کرنا ہوگی، عوام کو متحرک اور بیدار کرنا ہوگا۔ ایسی بھرپور کاوش ہی سے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں عوامی سطح پر متوقع ابلاغ نہ ہوسکے، لیکن اگر ہدف واضح رہے اور تنظیم میں مضبوطی، احتساب اور ڈسپلن رہے اور تحریکِ اسلامی کی قیادتیں نعروں کے آہنگ سے بلند ہوکر دین پر عمل میں پختگی، علم و فکر میں گہرائی، ایمان میں راستی، مشاہدے میں وسعت اور کشادہ روی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں، تو پھر مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں ان شاء اللہ ضرور تبدیلی آئے گی۔محض مقبول نعروں اور نری تشہیر سے کبھی پایدار بنیادیں فراہم نہیں ہوسکتیں۔(پروفیسر خورشید احمد)
سوال : قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں کی جدوجہد میں بنیادی کمی کس چیز کی دکھائی دیتی ہے؟
جواب: بے لوث، مخلص اور دین و ملّت کا درد رکھنے والے نہایت قیمتی افراد کا ساتھ ہونے کے باوجود، اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر علمی و فکری بنیاد میں کمی ہوگی اور سماجی شعور میں ضعف موجود ہوگا اور ریاستی پاوراسٹرکچر کی قوت و حکمت کار اور پھیلائو کی جہتوں کے بارے ادھورا فہم در آئے گا، تو یہ پہلو تحریک اسلامی کی کارکردگی اور مستقبل پر نہایت منفی اثر ڈالیں گے۔
علمی وفکری پہلو سے جہاں جدید سماجی علوم اور تازہ ترین معلومات سے کماحقہٗ واقفیت رکھنا قیادت کا وصف ہونا چاہیے، وہیں دینِ اسلام کا بنیادی علم، اسلامی تہذیب کی بنیادوں کا فہم اور اُن کی موجودہ کیفیت کو پرکھنے کا ذوق اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں تقویٰ راسخ ہونا چاہیے۔ ان میں کمی واقع ہو تو اُن کی فکر ہونی چاہیے اور مواقع پیدا کرنے کی تڑپ ہونی چاہیے۔
دوسرے یہ کہ معاشرے کے مزاج، مقامی کلچر پر نظر، سماجی تضادات کو دیکھنے اور ’عرف‘ یعنی وہاں کے رسم و رواج کی حقیقت جاننے کا فہم ہونا چاہیے۔ دلوں پر دستک دینے کے لیے ان معلومات تک رسائی ایک ضروری چیز ہے۔
تیسرے یہ کہ پاور اسٹرکچر کی قوت اور کمزوری کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہونا چاہیے۔ پاور اسٹرکچر میں: قبیلہ، برادری، جاگیردارانہ سماج، سرمایہ دارانہ گرفت، فوجی قیادتوں کا ذوقِ حکومت، میڈیا کی قوت اور بروئے کار پارٹیوں کے طریق کار، ڈسپلن وغیرہ کو جاننا چاہیے۔
ان پہلوئوں کا ادراک جہاں پہلی اور دوسری سطح کی قیادتوں میں ہو، وہیں ان معاملات پر غوروفکر کارکنان کی مجالس میں بھی ہونا چاہیے، کیونکہ قیادت، کارکنان ہی سے پروان چڑھتی ہے، اور کارکنان ہی معاشرے کے اندر تبدیلی کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔(س م خ )