مسلسل گیارہ روز فلسطینی عوام پر آتش وآہن کی بارش کرنے اور غزہ کو موت کی وادی بنانے کی کوشش کے بعد اسرائیل پینترا بدل کر جنگ بندی کا اعلان کر چکا ہے۔ اسرائیل نے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے گنجان ترین شہر غزہ کو خون میں نہلانے کے لیے کیوں چنا، اور عالمی رائے عامہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنے کے بعد اسرائیل کو بالآخر خود ہی جنگ بندی کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں کہ جو اسرائیل میں تین برسوں کے دوران پانچویں انتخابی معرکے سے پہلے ہی غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
لیکن ان دو سوالوں کے ساتھ ہی اس معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا، جب عالمی برادری پہلے سے جاری فوجی جارحیتوں سے بے زاری کا اظہار کر رہی ہے؟ ضروری ہے کہ ناجائز قبضے اور توسیع پسندیت کے حوالے سے اسرائیلی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے۔
برطانیہ کی جانب سے ’اعلان بالفور‘ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب فلسطین میں ۱۹۱۷ء میں یہودی کل آبادی کا صرف آٹھ فی صد تھے۔ یہودیوں نے ’اعلان بالفور‘ کے بعد مشرقی یورپ، روس اور جرمنی وغیرہ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔ یوں ۱۹۳۹ء میں فلسطین میں یہودی آبادی آٹھ فی صد سے بڑھ کر ۳۰ فی صد ہو گئی۔ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو امریکا اور مغربی ممالک کے اسٹرے ٹیجک ملاپ سے جنم لینے والی ناجائز اسرائیلی ریاست کو فلسطین کا ۵۳ فی صد رقبہ دے دیا گیا، جب کہ اکثریتی آبادی کے حامل فلسطینی عوام کو صرف ۴۷ فی صد علاقے کا مالک تسلیم کیا گیا۔
ناجائز اسرائیلی ریاست نے صرف اسی پر بس نہ کیا اور عالمی سامراج کی سرپرستی حاصل ہونے کے نشے میں ۱۹۴۸ء میں ہی فلسطینیوں کے مزید ۲۱فی صد علاقے پر فوجی طاقت سے قبضہ کر لیا اور ۸ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے آبائی وطن سے بے دخل کر کے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ۶۰لاکھ فلسطینی مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ناجائز ریاست کے توسیع پسندانہ حربے جاری رہے اور جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ غزہ پر بھی ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی قبضہ ہو گیا، جو اس نے بزور طاقت ۲۰۰۵ء تک جاری رکھا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان فوجی قوت کا فرق یہ ہے کہ ایف سولہ طیارے، مہلک ڈرون، فاسفورس بم، جدید ٹینک اور توپ و تفنگ سب کچھ اسرائیل کے پاس ہے۔ مگر دوسری طرف زیر محاصرہ فاقہ کش اہل غزہ پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ ناجائز ریاست کے باسی اور ناجائز قبضوں کی تاریخ رکھنے والے صہیونی غزہ پر حملہ آور ہوئے، تو صرف امریکا کی ہٹ دھرمی ہی ان کی پشت پناہ بنی۔ اہلِ غزہ پر جارحیت کا الزام وہ ریاست لگا رہی تھی، جس کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر توسیع پسندی ریاستی نصب العین کی صورت ان الفاظ میں نقش ہے۔ ترجمہ: ’’اے وطن اسرائیل! تیری سرحدیں فرات سے نیل کے ساحل تک پھیلی ہوئی ہیں‘‘۔
دنیا کا واحد ملک اسرائیل ہے، جس نے اپنی سرحدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں یا نقشوں کے مطابق تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی حدود کی تکمیل تب ہو گی، جب اردن، شام، عراق، ایران، آدھا سعودی عرب اور ترکی ومصر کے کئی علاقے ریاست اسرائیل کے قبضے میں آئیں گے۔
کیا یہ مسلم ریاستوں کے خلاف ’اسرائیل اور اسرائیلی مداخلت کاروں‘ کی کھلی جارحیت اور دہشت گردی کا ایجنڈا نہیں ہے؟ اور کیا نصف درجن سے زائد مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرنے اور جارحانہ عزائم رکھنے والے اسرائیل کے لیے غزہ کی تھوڑی سی پٹی کی نیم، خودمختاری اور ظالمانہ پابندیوں سے بندھی نام نہاد ’آزادی‘ بھی قابلِ قبول نہیں ہے؟ خصوصاً جہاں پر حماس جیسی مضبوط، منظم اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے لڑ مر جانے والی سیاسی قوت بھی موجود ہو۔ اسرائیل نے ۱۵ برسوں سے اس کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اس پر تین جنگیں بھی مسلط کی جا چکی ہیں۔
محمود عباس کی مدت صدارت ۹ جنوری ۲۰۰۹ءکو ختم ہونے کے بعد حماس اپنی سیاسی طاقت استعمال کرتے ہوئے جیل میں قید سپیکر ڈاکٹر عزیر دویک کو قائم مقام صدر بنانے کا آئینی مطالبہ کر سکتی تھی اور فلسطینی آئین کے مطابق نئے صدارتی انتخاب کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ مگر یہ بات ’الفتح‘ کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔ اس صورتِ حال کو اسرائیل نے غزہ پر ۲۰۰۸ء کے اواخر میں کھلی جنگ مسلط کر کے دنیا کے ذہن سے محو کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کے خلاف کی جانے والی جارحیت کا بھی کچھ ایسا ہی پس منظر رہا ہے۔
اسرائیلی ایف سولہ طیاروں سے شروع کی گئی بمباری نے عام آبادیوں کو ہدف بنایا جس کے نتیجے میں غزہ میں ۶۵ بچوں اور ۳۹ خواتین سمیت ۲۳۲ فلسطینی شہید اور ۱۹۱۰ زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں ۵۶۰ بچے اور ۳۸۰ خواتین شامل ہیں، جب کہ ۹۱معمر فلسطینی بھی زخموں سے چور ہیں۔ اس کے مقابلے میں غزہ میں حماس کے راکٹ حملوں میں صرف ۱۲ صہیونی ہلاک اور ۳۳۵زخمی ہوئے۔
’اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ '(UNRWA') کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ میں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ۷۵ ہزار فلسطینی بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۲۸ہزار ۷۰۰فلسطینی 'UNRWA' کے اسکولوں میں عارضی طور پر قیام پذیر ہیں۔غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری سے صنعتی سیکٹر کو ۴۰ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، جب کہ توانائی کے شعبے کو ۲۲ ملین ڈالر، زراعت کو ۲۷ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ حملوں میں ۴۰تعلیمی ادارے جن میں سکول اور یونی ورسٹیاں، کووڈ-۱۹ کی واحد لیب تک شامل تھی تباہ کر ڈالے گئے۔ شہر کے بڑے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایک ایسے ماحول میں جب امریکا اور اقوام متحدہ نام نہاد بین المذاہب ہم آہنگی کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں، اسرائیل نے غزہ کی متعدد مساجد شہید کر دیں۔ خوراک کے ایسے گودام جو اقوام متحدہ کے زیر انتظام تھے اور اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ادارے (UNRWA) کے دفاتر بھی اسرائیل نے تباہ کر دیے، حتیٰ کہ شہر کے اندر کی سڑکیں اور پل تک تباہ کر دیے گئے۔ گویا اسرائیل نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا تہہ کر رکھا تھا اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
دو ہفتے ضائع کرنے کے بعد سلامتی کونسل ایک لولی لنگڑی قرارداد لائی تو امریکا نے اپنے دامن پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا دھبہ نہ لگنے دیا۔ سلامتی کونسل میں قرارداد تو عملاً اقوام متحدہ کی بے اثری اور دوہرے معیار کے اسی سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے، جس میں پہلے بھی شرق اوسط کے بارے میں اسی نوع کی اور بہت سی قراردادیں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔
عالمی رائے عامہ، جسے جمہور کی آواز کہنا چاہیے، امریکی جارحیت کے بعد اب کی بار اسرائیلی جارحیت کے مقابل سامنے آئی۔ جمہور کی یہ عالمی آواز، عالمی طاقتوں کے سنگ دلانہ رویے اور دوہرے معیار سے بیزاری بھی ہے۔ گویا یہ علَم بغاوت ہے، جو ننھے بچوں، خواتین، وکلا، صحافیوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے تھام رکھا ہے۔
اسی کی بدولت اسرائیل ایسی سرکش اور ’روگ اسٹیٹ‘ کو بالآخر خود جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ اعلان جنگ بندی اس وقت تک محض ایک ڈھونگ رہے گا، جب تک اسرائیل کی فوج غزہ اور اہل غزہ کی ناکہ بندی جاری رکھتی ہے۔ اس صورت حال میں حماس نے بجا طور پر راکٹ فائر نہ کرنے کو اس بات سے مشروط کرتے ہوئے اسرائیل کو انتباہ کیا ہے کہ الشیخ جراح کالونی اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی افراط وتفریط ہوئی تو ہم کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے پابند نہیں ہوں گے۔
بلا شبہہ اسرائیلی طیاروں، ٹینکوں اور توپوں نے غزہ کو تباہی سے دوچار کیا، لیکن جس حالت میں اسرائیلی فوج کو واپس جانا پڑا ہے، اس کے پاس ایسا کوئی تمغہ نہیں ہے جسے وہ حماس کو کمزور کرنے، ختم کرنے کے حوالے سے اپنے سینے پر سجا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت، اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اب دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔
اس میں دو رائیں نہیں کہ سوشل میڈیا اور شہری صحافت کے توسط سے غزہ کے شہریوں پر فاسفورس بموں سے حملوں کے مناظر سامنے آنے کے بعد، اسرائیلی فوج کا تشخص ‘روگ آرمی‘ اور خود اسرائیل کا تعارف ایک ’روگ سٹیٹ‘ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ خصوصاً اسرائیل فوج کی بمباری سے جس طرح معصوم بچوں کے لاشے غزہ کی گلیوں اور ملبے تلے تڑپتے رہے، ہستپال، تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بنتے رہے اور اسرائیلی فوج شہدا کی نماز جنازہ پر ہی نہیں قبرستانوں پر بھی بمباری کرتی رہی۔ان میں اکثر مناظر تصویروں اور ویڈیو فوٹیج کے ذریعے دُنیا بھر میں دیکھے گئے۔
یہ سفاکانہ بم باری جنیوا کنونشن کی ایسی خلاف ورزیاں ہیں جو اسرائیلی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات کا باعث بن سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے خلاف کرپشن مقدمات سے بریت کے جو خواب دیکھ رہے ہیں، غزہ میں بہائے جانے والے خون کو اقتدار کی اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ تاہم، یہ بات طے ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرارداد مسترد کرکے بعد میں خود ہی جنگ بندی کا اعلان کر کے سو پیاز اور سو جوتوں والی روایت کو برقرار رکھا ہے۔
اس ادارتی نوٹ میں اخبار نے جو نکات ۲۰۰۹ء میں بیان کیے تھے، آج ۲۰۲۱ء یعنی ساڑھے بارہ برس بعد بھی المیے کا دُہرانا ثابت ہورہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: تاریخی طور پر اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جارحیت کوتنازع کے دیرینہ بیانیے اور خطے میں پائی جانے والی باہمی ناانصافیوں اور ناہمواریوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
جغرافیائی پہلو سے بات کی جائے تو ایک مختصرقطع اراضی کے خلاف جنگ کودوسرے ممالک؛ جیسے شام ، مصر ، امریکا اور ایران وغیرہ کی وسیع ترشرکت اور تزویراتی مفادات سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔یہ حقیقت خود ہی اس امر کی وضاحت کردیتی ہے کہ یہ آپریشن اسرائیل کی شکست کا کیوں غماز ہے؟کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔یہ نعرہ تو اسرائیلی سیاست دانوں کا ایک مستقل مخمصہ ہےکہ ’’اس ملک (اسرائیل) کی سلامتی سے متعلق مسائل کوطاقت کے بے مہابا استعمال کے ذریعے یک طرفہ طورپرحل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس معاملے میں جنوبی اسرائیل کی جانب حماس کے راکٹ حملوں کا حل یہ نکالا گیا کہ حماس کے خلاف جنگ مسلط کردی جائے۔اسرائیلیوں نے اس ضمن میں وسیع ترانسانی پہلو کو ملحوظ نہیں رکھا کہ ایک گنجان آباد غزہ میں حماس کے خلاف ایک مکمل جنگ کا لازمی نتیجہ شہری آبادی کے خلاف ایک حملہ ہی متصور ہوگا۔
اسرائیل کی اگر اپنی ہی شرائط کی بات کی جائے تو اس کی یہ مہم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔اسرائیلی حکام اب اس بات پر اصرار کرسکتے ہیں کہ انھوں نے حماس کی راکٹ حملوں کی صلاحیت کو محدود کردیا ہے لیکن اس جنگ کا بظاہر مقصد تو یہ بتایا گیا تھا کہ حماس کی راکٹ داغنے کی صلاحیت کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے گا۔
اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کی اس جنگی مہم جوئی نے بہت سے عرب دارالحکومتوں میں حماس کے لیے ناکافی حمایت کو بھی بے نقاب کردیاہے۔غزہ میں حماس کی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلاامتیاز [اسرائیل کی]سفاکانہ فوجی جارحیت نے حماس کے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمتی حیثیت کو ایک اہم اور ترجیحی کردار کے طور پر اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔
’’نیز اسرائیلی فورسز نے جس طرح فلسطینی شہریوں کے زندگیوں کے بارے غیرمعمولی بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے،ان کے خلاف فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور اس کے خلاف جو عالمی ردعمل آیا ہے.... جیسا کہ اخبار آبزرور نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی فردِجُرم عاید کی جاسکتی ہے۔جنگی جرائم کے ایسے تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے‘‘۔
۲۰۰۹ء میں اخبار گارڈین کے اس اداریے کو مئی ۲۰۲۱ء میں پڑھیں تو یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے اور ظلم اسی طرح وحشت بار ہے!