جون ۲۰۲۱

فہرست مضامین

لبرل ازم کا چیلنج اور معلّم

ڈاکٹر مشتاق الرحمٰن صدیقی | جون ۲۰۲۱ | تعلیم و تربیت

Responsive image Responsive image

عصرِحاضر میں جس مغربی اصطلاح نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک فیشن بلکہ ایک مستقل فکر کی صورت اختیار کرلی ہے، وہ ’لبرل ازم‘ کا فلسفہ ہے۔ ’لبرلسٹ‘ اس نعرے کے ساتھ نوجوان نسل میں کام کرتا ہے کہ ’’سچائی کا ماخذ صرف عقلی اور تجربی ذریعہ ہے اور یہی برتر اور قطعی سرچشمۂ علم ہے۔ لہٰذامذہبی اقدار اور روایات سے جتنی کنارہ کشی بلکہ بغاوت کی جائے، اتنا ہی معاشرے کے لیے بہتر ہے‘‘۔

ستم یہ ہوا کہ لبرلزم محض فکروفلسفہ تک محدود نہ رہا۔ بلکہ آگے بڑھ کر ایک مستقل سیاسی ایجنڈا بناکر پورے جبر کے ساتھ اپنے جدید ابلاغی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے بالخصوص مسلم دنیا پر حملہ آور ہوگیا۔مغرب کے اس فکری اور علمی پروگرام نے ایک جارح امپریل ازم (سامراجیت) کی واضح شکل اختیار کرلی اور یوں اس سامراج نے اپنی ثقافتی دھونس اور اپنے سیاسی فریب سے  مسلم دُنیا کے تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس طرح نئی نسل کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی گئی کہ ’’یہی مادی دُنیا سب کچھ ہے اور اس دُنیا سے متعلق حیاتیاتی یا جبلی ضروریات ہی نصابِ تعلیم کا مرکز و محور ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے‘‘۔ بقائے ذات اور اس حوالے سے مادی منفعت کو ہی اصل تعلیمی مقصد تسلیم کرتے ہوئے آخرت میں جواب دہی کے عقیدے کو تعلیمی نظام سے الگ تھلگ کردینے کی تلقین کی گئی۔ اسی مقصد کے زیراثر اس نظریے کو غالب کرنے کا پروگرام تشکیل دیا گیا کہ ’’دین و اخلاق سے بے نیاز تعلیم ہی وقت کی ضرورت اور ترقی کا راستہ ہے‘‘۔

لبرلسٹوں نے بظاہر علمی اصطلاحوں کا سہارا لے کر سب سے بڑا حملہ مسلم تاریخ کے ماضی پر کیا، جس کی جڑیں دینی اقدار میں ہیں۔ اس نے اقدار کی یہ کسوٹی طے کی کہ ’’ہرجدید خیر ہے اور ہرقدیم شر ہے‘‘۔ خیروشر کے اس مادی پیمانے نے زندگی کے ہرشعبے میں نفس پرستی، خواہش پرستی، مفاد پرستی اور دولت پرستی کو پروان چڑھایا۔ عصرِحاضر میں لبرل ازم کے سب سے بڑے نمایندے امریکا نے اس فکر کو صرف اپنے اتحادیوں تک محدود نہ رکھا، بلکہ اسے ایک عالمی نظام اور اپنی بالادستی کے عنوان سے مسلم دنیا کے تہذیبی نظام کو نشانہ بنانے کےلیے تیربہدف بنایا۔ مغرب، دلیل میں شکست کھانے کے بعد اب دھونس، دھمکی بلکہ زبردستی ہم سے یہ بات منوانے کی کوشش کرنا چاہتا ہے کہ ’’زندگی کا اصل نظریہ تو صرف مادی افادیت اور مصلحت پسندی ہے۔ لہٰذا، اگر تم اپنی اقدار، اپنی تاریخ، اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنے دین پر ڈٹے رہو گے توتم متعصب ، رجعت پسند، قدامت پسند اور دہشت گرد کہلائو گے۔ لیکن اگر تم اپنے تہذیبی نظریے میں لچک پیدا کروگے اور اپنی اخلاقی اقدار کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کرکے زندگی کے انفرادی اور اجتماعی اُمور میں لادینیت، مذہب بیزاری اور اسلامی شعائر سے تضحیک کا مظاہرہ کروگے یا کم از کم تعلیمی اداروں میں بظاہر تعلیمی معیارِ زندگی کے نام پر، لیکن درحقیقت دین دار اساتذہ اور طلبہ کی نظریاتی قوت کو نقصان پہنچاکر اسلامی نظریے کے فروغ میں ایک مزاحم قوت بنو گے، تو تم نہ صرف ’علم دوست‘، ’روشن خیال‘، ’انسان دوست‘ اور ’ترقی پسند‘ کہلائو گے، بلکہ لبرل خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک آزاد فضا کی راہ بھی ہموار کرو گے۔ البتہ اس کا فوری طریقہ یہ ہے کہ تم اپنی وضع قطع، اپنی زبان، اپنے کھانے پینے کے انداز، اپنے سلام دُعا کے طریقے، غرض اپنے لائف اسٹائل میں ہمارے مقلد بن جائو‘‘۔

مغرب درحقیقت اپنے اس آزمودہ طریقۂ واردات کی روشنی میں اپنے لبرل ثقافتی پروگراموں کو رائج کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آہستہ آہستہ لوگوں کی آنکھوں سے حیا چھن جائے، کیونکہ اسے بخوبی علم ہے کہ مسلمان اگر ایک بار حیادارانہ جذبات سے عاری ہوگئے، تو سیاسی شکست ان کا مقدر ہے۔

اصل ہدف: اسلامی تہذیب و تمدن

لبرل ازم کی اس متنوع یلغار کا اصل ہدف دین،دینی تعلیمات اور دینی شعائر ہیں۔ اس نے مذہب کو مطعون کرنے اور اسے ایک قصۂ پارینہ ثابت کرنے کے لیے جدید اصطلاحوں میں لپٹے بے خدا نظریات پیش کیے۔ یوں لبرل ازم کے پروپیگنڈے کے سامنے کئی تہذیبیں پہلے ہلّے میں ہی شکست کھا گئیں۔ البتہ یہ تہذیبیں محض اپنی ظاہری رسوم و عبادات کے بچائو کا ایک طریقہ سیکولرزم کی صورت میں سامنے لے کر آئیں۔ حقیقت میں ان تہذیبوں کا سیکولرزم کے لیے پرچار مروت یا انسان دوستی کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ اپنی بے بسی کو چھپانے کی ایک شاطرانہ چال تھی۔ اس لیے کہ ان تہذیبوں کے پاس انسانی مسائل کے حل کا مکمل ضابطہ موجود نہیں تھا۔ اس طرح ان کے لیے کوئی اور چارئہ کار نہ رہا کہ یا تو وہ مذہب کو خیرباد کہہ دیں یا اسے نجی معاملہ بناکر اجتماعی نظام یا سیاسی، معاشرتی، قانونی، تعلیمی، اخلاقی، غرض ہر شعبۂ زندگی سے مکمل طور پر خارج کردیں۔

بہرحال تاریخ کی اس ساری کش مکش میں صرف اسلامی تہذیب و کلچر ہی وہ سخت جاں نظام فکروعمل ثابت ہوا، جس نے نہ تو کسی بے خدا نظریے سے مصالحت کی اور نہ سیکولرزم یا اس حوالے سے کسی اور ازم کو تسلیم کیا۔ بلکہ باوجود شدید مزاحمتوں کے، ہرمحاذ پر بڑی جرأت سے ان تمام بے خدا تہذیبوں کو چیلنج کرتے ہوئے وحدتِ الٰہ، شرک کی نفی، وحدتِ انسانی اور تصورِ آخرت کی بنیاد پر یہ پروگرام پیش کیا کہ یہی ایک معیاری تہذیب ہے، جو پوری انسانیت کی (مادی اور روحانی) فلاح و بہبود کا ایک مستقل پیمانہ دیتی ہے۔ اس طرح چاہے کوئی سا بھی زمانہ ہو یا کوئی سا بھی علاقہ ، یہ تہذیب بلاامتیاز رنگ و نسل اور بغیر کسی لسانی تعصب کے، بنیادی انسانی حقوق اور عدل کی ضامن ہے اور صحیح معنوں میں یہی احترامِ آدمیت کو اپنا نصب العین بناتی ہے۔

البتہ اس عالم گیر تہذیب کی اُٹھان اس اصول پر ہوتی ہے کہ برتر اور قطعی ذریعۂ علم وحی الٰہی اور باقی سارے عقلی اور حسی ذرائع اس کے تابع ہیں۔ اسی معیار کی روشنی میں ہردور میں تجدید و احیائے دین کا کام ہوا۔ اس اجتہادی کام کے لیے مفکرین نے مسلسل اس ہدایتِ الٰہی کو پوری انسانیت کے سامنے پیش کیا کہ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ  (البقرہ ۲:۲۰۸)’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ انھوں نے اس ہدایت کی روشنی میں یہ نقطۂ نظر دُنیا کے سامنے رکھا کہ اللہ تعالیٰ، کائنات اور انسان کے بارے میں مجموعی اسلامی فکر کے اندر رہتے ہوئے ادراکی قوتوں کا بھرپور استعمال ہی صحیح نظریۂ علم ہے۔ چنانچہ آج اسی نظریۂ علم پر مبنی اسلامی تہذیب کا احیا ہی پوری انسانیت کی ایسی جامع فلاح کی راہ ہے، جو جدت اور ترقی کے ہرگز خلاف نہیں، البتہ تمام ترقیات کو الہامی ہدایت کے تابع رکھتی ہے اور تمام علوم کو یَنْفَعُ النَّاسَ (الرعد ۱۳:۱۷) کے معیار پر پرکھتی ہے۔

معروضیت کے پرچار کی حقیقت

لبرل مفکرین ، معروضیت (Objectivity) کا پرچار کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ مگر وہ خود اپنے ہی متعین کردہ ریاضیاتی کلیہ کے پیش نظر اس بات کا جائزہ لیں کہ آج پوری انسانیت کے لیے کس تہذیبی ماڈل میں جامعیت اور توازن ہے؟ اور کون سا ماڈل دُنیا کے لیے زیادہ مفید ہے؟ ہرچند کہ وہ اس طرح کے جائزے تو مرتب کر رہے ہیں کہ دُنیا میں لبرل ازم اور دوسرے لفظوں میں مغربی تہذیب کا اصل حریف کون ہے؟ مثلاً معروف امریکی دانش ور پروفیسر سیموئیل ہن ٹنگٹن نے یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ ’’بیسویں صدی کے اختتام پر عملاً اب صرف دو تہذیبیں ہی رہ گئی ہیں، جو ایک دوسرے کی نظریاتی رقیب ہیں۔ ایک مغربی تہذیب اور دوسری اسلامی تہذیب‘‘۔ ہن ٹنگٹن مغرب کو اسلامی تہذیب کے ممکنہ غلبہ سے خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اکیسویں صدی میں اصل جنگ ان دوتہذیبوں میں ہی ہوگی جس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ بالآخر غلبہ کسے حاصل ہونا ہے؟‘‘ اسی مقالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر برائن بیڈہیم نے یہ رائے پیش کی: ’’مقابلے کی اس فضا میں اس بنیادی نکتے کو بہرحال بڑی اہمیت حاصل ہوگی کہ کس تہذیب کی اساس کن دائمی قدروں پر ہے؟‘‘۔

لبرل ازم کے پرستار دانش وروں نے اس صورتِ حال پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے، بڑی شدت کے ساتھ یہ اعلان کر دیا کہ ’’ان کا اصل ہدف تو اسلامی تہذیب ہی ہے‘‘۔ اس تہذیبی جنگ میںخاص طور پر اس وقت اور تیزی آگئی جب دسمبر ۱۹۹۱ء میں کمیونزم کو بدترین شکست کا سامنا کرکے اپنی بساط لپیٹنا پڑی۔ چنانچہ اب ’کیپٹل ازم‘ کی علامت امریکا اپنی حلیف قوتوں کو ساتھ ملا کر پوری دُنیا پر مادی یا حسی تہذیب کی صورت میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے۔ اس تہذیبی فکر کے سیاسی علَم برداروں کو یہ خوب علم ہے کہ ان کا اصل حریف کون ہے؟ انھیں معلوم ہے کہ اگرچہ سائنس اور ٹکنالوجی میں اُمت مسلمہ پیچھے ہے، لیکن وہ ایک ایسے نظامِ حیات کی حامل ہے، جو اگر مکمل حالت میں دُنیا کے سامنے آگیا تو ان کے کھوکھلے تہذیبی قلعے مسمار ہونے شروع ہوجائیں گے۔ لہٰذا، اگراس کا تدارک نہ کیا گیا تو بہت جلد پوری دُنیا کی قیادت اُمت مسلمہ کے پاس ہی ہوگی۔

مغرب کی یہ دل چسپ منطق بھی دیکھیے کہ ایک طرف تو اس کے مفکرینِ تعلیم یہ کہتے ہیں کہ ’’دُنیا کو صرف فزیکل اور نیچرل سائنسز کی ضرورت ہے۔ باقی علوم چاہے عمرانی ہوں یا خالصتاً مذہبی، ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ علوم کے انتخاب اور دیگر علمی تحقیقات اور سائنسی ایجادات میں اصل معیار تو مادی نظریۂ افادیت ہے۔ لہٰذا، اس سوچ کے تحت وہ ترقی یافتہ قوم صرف اسی کو تسلیم کریں گے جو طبعی یا جدید علوم کو اپنی دسترس میںلے گی ‘‘۔ لیکن ان جدید علوم میں جب کوئی چھوٹا ملک بالخصوص کوئی مسلم ملک ایک اہم مقام حاصل کرلے تو اہلِ مغرب کی جھنجھلاہٹ دیدنی ہوتی ہے، کیونکہ اس سے ان کی اجارہ داری پر حرف آتا ہے۔

بالکل اس فیوڈل لارڈ، نواب اور جاگیردار کی طرح، جس کی جاگیر کے اندر ایک عام کسان کا بیٹا اگر تعلیمی، معاشرتی یا معاشی لحاظ سے کوئی بہتر مقام حاصل کرلے ،تو وڈیرہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ کل کلاں یہی شخص اس کے مقابل کرسی پر بیٹھے گا یا اس کا یہ نفسیاتی خوف کہ کہیں مستقبل میں یہ اس کا حکمران ہی نہ بن جائے۔ حقیقت میں جاگیردارانہ ذہنیت صرف اتنی بات پر منحصر نہیں ہے کہ کسی کے پاس ایکڑوں زمین یا وسیع کاروباری سلطنت ہے اوراس کی چودھراہٹ میں باقی سب مزارع اور ہاری ہیں، بلکہ جاگیرداریت دراصل ایک ذہنیت ہے، جو مادیت سے متاثرہرشخص کی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ اس ذہنیت کی بھرپور نمایندگی مغرب کرتاہے، جو باقی دنیا بالخصوص مسلم دُنیا پر اپنی ثقافتی برتری اور سیاسی و معاشرتی حکمرانی کے خواب کی فوری تعبیر چاہتا ہے۔

یہاں تفصیل سے واقعات بیان کرنا جو مغرب ثقافتی محاذ پر کر رہا ہے، مقصود نہیں، البتہ اپنے ہاں صرف این جی اوز کی ہی مثال لے لیجیے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ۷۲ہزار این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ ان غیر سرکاری قومی اور رفاہی تنظیموں میں بلاشبہہ بعض بڑا مثبت کردار ادا کررہی ہیں، لیکن غیرملکی اداروں کے براہِ راست مالی تعاون یا مادر پدر آزاد فکر دانش وروں کے زیراثر چلنے والی سو دو سو این جی اوز ایسی بھی ہیں، جو بظاہر تعلیم و تحقیق، زبان وادب، صحت و ثقافت، انسانی حقوق اور دیگر سہولیات کے مقصد تلے کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن عملاً ان کا کردار مغرب کے اس مخفی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل ہے کہ وہ یہاں کے عوام کی ملّی حمیت اور قومی وحدت کو متزلزل کریں۔ اس طرح انھیں تہذیبی غلامی کے شکنجے میں جکڑ کر بالآخر ملک کے ریاستی کردار کو کمزور کریں۔

تعلیمی اداروں کا انتخاب کیوں؟

چنانچہ گلوبلائزیشن یا عالم گیریت کے اس دور میں اگر ہمیں اپنامنفرد تشخص قائم رکھنا ہے، تو ہمیں لازماً اپنے تمام معاشرتی اداروں بالخصوص تعلیمی اور ابلاغی اداروں کو اسلامی تہذیب کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا… اور پھر اسی کی روشنی میں سائنٹفک ، ٹیکنالوجیکل اور دیگر علوم میں ترقی حاصل کرنا ہوگی۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ لبرل تہذیب نے ثقافتی یلغار کے لیے اپنا پسندیدہ میدان تعلیمی اداروں کا منتخب کیا ہے۔ اس لیے مستقبل میں ثقافتی جنگ کا دائرہ ’تعلیمی ادارہ‘ اور موضوعِ بحث ’لبرل ازم‘ ہی ہوگا، کیونکہ مغرب کے سیاسی ایجنڈے کی اصل فکری اساس لبرل نظریہ ہے ، جسے وہ تعلیمی اور ابلاغی پروگراموں کے ذریعے نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ تعلیمی مقاصد، نصاب، بلکہ طریقہ ہائے تدریس تک کی ایسی تعبیر نو چاہتا ہے، جس کے لیے آزاد محفوظ تعلیمی فضا کا قیام، تزکیہ و تربیت سے مکمل طور پر گریز، بقائے ذات کے حوالے سے صرف جبلی ضروریات کی غلامی سے متعلق علوم اور انگریزی زبان کی مکمل بالادستی ضروری ہو۔ خود اس کے ’گلوبل ویلج‘ کی مخفی غایت بھی یہی ہے کہ ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ ہماری کوئی تاریخ ہے، کوئی تہذیب ہے، کوئی زبان ہے، ہمارا کوئی لباس ہے، کوئی ملک ہے، کوئی نقطۂ نظر ہے؟… یوں ایک ’گم شدہ معلّم‘ تیارہو جو نئی نسل کو اپنے سارے تہذیبی ورثے سے بیگانہ کرکے اسے بے خدا عالمی نظام کا ایک ’مقامی ایجنٹ یا گماشتہ‘ بناکر رکھ دے۔

امریکی سرپرستی میں حاکمیت کے پرچارک اس زعم میں مبتلا ہیں کہ مغربی تہذیب ہی پوری دنیا کے لیے ایک قابلِ تحسین ماڈل ہے۔ لیکن اگر صرف بیسویں صدی کے سارے عالمی دورِ وحشت کا مطالعہ کیا جائے، تو نام نہاد لبرل تعلیم کے پھیلائو کے زیرسایہ انسانیت کی بے حسی اور شیطنت میں  کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تمام دُنیا میں خاندان کی شکست و ریخت، جرائم، ماردھاڑ اور لاشوں کا تناسب ہی دیکھ لیجیے۔ ظالمانہ قومیں پوری ڈھٹائی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ انسانوں سے مختلف نوع کی زیادتیوں کے واقعات کی فراوانی، یہ سب اخلاقی گراوٹ کی نشانیاں ہیں۔

نظریۂ ارتقاء کے دعوے داروں نے تو یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’انسان جوں جوں آگے بڑھےگا، اس کے سماجی ارتقاء میں بھی اضافہ ہوگا‘‘۔ لیکن اخلاقیات کے بحران نے جو تباہ کن صورتِ حال پیدا کردی ہے، درحقیقت یہی نظریۂ ارتقاء کی شکست ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے انسان کے اخلاقی اور اعتقادی وجود کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے حیوانی وجود سے متعلق ضروریات کو ہی اہمیت دی اور اسی پر اپنے نظامِ تعلیم کو استوار کیا۔ چنانچہ اس فلسفے کے زیراثر خود ہمارے ’تعلیمی دانش ور‘ بھی ’افادی اور معیاری تعلیم‘ کے نام پر نصابات میں تاریخ، جغرافیہ، عربی، قومی زبان، تعمیری ادب، مطالعہ پاکستان اور دین اسلام کی اہمیت کو کم کررہے ہیں، تاکہ اپنی تہذیب سے بے خبر ایک ایسی بے مقصد اور بے سمت نوجوان نسل تیار ہو، جو خلیج نژاد (Generation Gap) عارضہ میں مبتلا ہوکر اپنے بزرگوں سے کٹے اور غیروں کی غلامی کا طوق خوشی خوشی اپنے گلے میں ڈالنے کو تیار ہو۔

لمحۂ فکریہ!

یہاں اس نقطۂ نظر کو یاد دلانا ضروری ہے کہ ہم پوری دُنیا کی علمی ترقیات اور جدید عالمی زبانوں بالخصوص انگریزی زبان پر دسترس کے ہرگز خلاف نہیں ہیں۔ ہمیں اگر اختلاف ہے تو لسانی استعماریت سے ہے، جس کے تحت انگریزی زبان کی بالادستی کو جبر سے نافذ کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی تہذیبی زبانوں سے نفرت یا شرمندگی سکھائی جاتی ہے۔ بلاشبہہ ہمیں دُنیا میں  کی گئی علمی تحقیقات سے استفادہ بھی کرنا ہے لیکن غالب، خلّاق اور نقاد ذہن کے ساتھ بلکہ صرف استفادے تک ہی محدود نہیں رہنا، خود آگے بڑھ کر سائنسی اور عمرانی علوم میں قیادت کا منصب سنبھالنا ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خود علمی جمود اور مرعوبیت کا شکار ہوکر اندھے مقلد بن رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب بڑے جارحانہ انداز سے اپنی فکر ہم پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ آخرکار اس کے تیار کردہ افراد اسی پریشان نظری کا شکار ہوکر منتشر شخصیت کیوں بنتے ہیں؟

یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس پر ہمارے سب اساتذہ کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اس صداقت کا بھی کامل ادراک کرنا ہوگا کہ علّامہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒکی محنت شاقہ سے پاکستان اس لیے وجود میں نہیں آیا تھا کہ یہ لبرل ازم کے علَم برداروں کی ثقافت نقل کرنے کا ایک چاک بورڈ بن جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی ادارے ایسے کرائے کا ہال بھی نہیں کہ اس میں لبرل ازم کے نام پر اس کے نام نہاد دانش وَر جب چاہیں، پاکستان کے اساسی نظریہ کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے رہیں۔ اب ان مقامی اور عالمی لبرل دانش وروں کو بھی یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ قانونِ قدرت کے عین مطابق پوری انسانیت کے لیے سوائے اسلامی تہذیب کے کوئی اور متبادل تہذیب نہیں۔

معلّم کا مطلوبہ کردار

ان شاء اللہ نئی نسل میں اس شعور کی بیداری کے لیے اور عالمی ثقافتی جنگ میں اسلامی تہذیب کے احیا کے لیے سالارِ اعظم کا کردار اساتذہ ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ اساتذہ نے ہی صالح فکر اور صالح عمل سے، بے خدا تہذیب کو شکست دینا ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں جمود اور تساہل سے نکل کر علمی اور اخلاقی قیادت کے منصب کو سنبھالنا ہوگا۔ انھیں اپنی بھی اور اپنے طلبہ کی تربیت بھی اس رُخ پر کرنا ہوگی کہ مطالعہ وتحقیق،تنقید و تطبیق اور تحقیق و دریافت ہی زندہ تعلیم کی علامتیں ہیں۔ انھیں اپنے اور اپنے طلبہ کے ذہنوں سے فکری لادینیت کو کُلی طورپر کھرچنا ہوگا اور بالآخر اس نقطۂ نظر کو راسخ کرنا ہوگا کہ اسلام ہی خالق کائنات کا وہ نازل کردہ دین کامل ہے، جو ایک مکمل ضابطۂ زندگی ہے اور جو ہر دور اور ہر علاقے میں انسانی فطرت اور اس کے تقاضوں سے واقف ہے۔

ہمارے طلبہ اور اساتذہ، مغرب کی سائنسی، تکنیکی اور تحقیقی کوششوں سے ضرور مستفید ہوں، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ قیاس اور حواس سے برتر سرچشمۂ علم ’وحی الٰہی‘ ہی ہے، جو قرآن حکیم اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ لہٰذا، علم کی ساری ترقیاں ہمارے نزدیک وہی ہوں گی، جو اسلامی تہذیب و اخلاق کے تابع ہوں۔ ہمیں اس نقطۂ نظر میں بہت واضح اور دلیر ہونا چاہیے۔ اس وجدان سے بے خبر اساتذہ، اسلامی ریاست کے کسی کام کے نہیں۔ ڈرے ڈرے، سہمے سہمے، کاہل، مغرب کے نیازمند اور احساسِ کمتری کے دائمی مریض اساتذہ، لبرل ازم کے چیلنج کا ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے۔

اس کے لیے جری اساتذہ کی ضرورت ہے جو پوری علمی اور پیشہ ورانہ تیاری، کردار کی پاکیزگی،تحقیقی مہارت، حکیمانہ جرأت، اخلاقی قوت، اجتہادی صلاحیت اور بھرپور عزم و ہمت کے ساتھ تعلیم و تدریس کا فریضہ سرانجام دیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ قرآن و سنت کے سائے تلے علم واخلاق کی روشنی ہی اسلامی تہذیب کا سرچشمہ ہے اوراس کے احیا کے لیے حکمت و دانش کے ساتھ ساتھ دین سے گہری وابستگی اور پاکستان سے لازوال محبت ہی حال ومستقبل کے لیے کارگر حکمت عملی ہے۔