ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟ خطبۂ نکاح میں حمد وصلوٰۃ کے بعد قرآن کریم کے جن تین مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے ان تینوں میں حیرت انگیز طور پر نکاح کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ’تقویٰ‘۔ تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا مؤثر عنوان ہے جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔
اللہ ربّ ا لعزت نے خطبۂ نکاح میں تقویٰ و پر ہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی ہے کہ میاں بیوی ایک خوش گوار ازدواجی زندگی اور ایک پُرسکون گھر اس وقت بنا سکیں گے جب دونوں ’تقویٰ و پرہیزگاری‘ کے زیور سے آراستہ ہوں۔ ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جواب دہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے جس سے سچائی اور امانت کا احساس جاگزیں رہتا ہے۔
اگر یہ احساس نہ رہے تو دنیا کی کوئی عدالت، کمیونٹی، انجمن، سربراہی یا خاندان ان دونوں کو جوڑ نہیں سکتے۔ چونکہ یہ ایسا گہرا تعلق ہے جس سے بڑھ کر قریب تر کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کے ہررشتے میں سوتیلے پن کی گنجایش ہے لیکن اس میں نہیں۔ دنیا میں شاید کوئی تعلق مصنوعی پن یا جھوٹ کے سہارے چل سکتا ہو لیکن یہ تعلق بھرپور احساسات وجذبات کے بغیر ایک مُردہ جسم کی مانند بن جاتا ہے۔
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۰ۭ (الروم۳۰:۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔
اللہ رب العزت نے میاں بیوی کے تعلق کو سکون کے خزانے کی چابی قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ سکون کا اصل مرکز انسان کا اپنا گھر ہونا چاہیے جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کا چہرہ دیکھ کر سکون پاسکے لیکن اگر گھر میں سکون کی فضا نہ رہے اور گھر اینٹ پتھر اور فقط نقش ونگار کی آرایش سے مزین ہو تو وہ گھر گھر نہیں بلکہ ’ڈپریشن کا مرکز‘ بن جاتا ہے۔ پھر ہرکوئی ہوٹل ، کلب ، دوست یار، تفریح اور دیگر مصنوعی سرگرمیوں کے نام سے سکون کی تلاش میں فرار ہونے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔ کیونکہ جس کسی کو اپنے گھر میں سکون نہیں مل سکتا تو دنیا کے کسی کونے میں بھی وہ پُرسکون نہیں رہ سکتا۔
گھر کا یہ سکون کس طرح بحال ہوجائے؟ اس حوالے سے چند امور پیش نظر رکھنا لازمی ہے۔ ان میں سے کچھ کا تعلق مرد کی ذمہ داریوں سے ہے اور کچھ کا تعلق عورت کی ذمہ داریوں سے۔
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ط (البقرہ۲:۱۸۷ ) وہ تمھارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔
اللہ ربّ العزت نے اس تعلق کو ایک انتہائی بلیغ تشبیہہ دے کر بات کو سمجھایا ہے کہ میاں بیوی فقط رسمی تعلق کا نام نہیں بلکہ لباس سے تشبیہ دے کر سمجھایا ہے۔ لباس انسانی بدن کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے، مثلاً ستر، عزت، تحفظ، زینت، صحت، تہذیب وغیرہ۔ جس طرح لباس ہماری سترپوشی کا ذریعہ ہے، یہ رشتہ بھی ہمارے عیوب کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس کی زینت عزت بخشتی ہے، ایسے ہی یہ رشتہ عزت افزائی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس ہمیں سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح لباس بھی ہمارے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ ان کی عزت و ذلت، احترام اور مقام و مرتبہ، ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ ان دونوں میں ہر ایک کے ذمّے ہے کہ وہ اپنے رشتے کو حادثات اور آفات سے بچا بچا کر رکھے۔
لباس سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لباس پر اگر راہ چلتے کوئی کیچڑ ،گندگی یا داغ لگ جائے تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پھینکنے، پھاڑنے یا اس حصے کو کاٹنے کی بجائے بہت خیال کے ساتھ فوری طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ میاں بیوی کے تعلق کا ہے کہ انسانی فطرت کے سبب اگر کوئی اَن بن ، جھگڑا، اختلاف یا ناراضگی ہوجائے تو ان کو اپنے گھر کا خیال رکھتے ہوئے اس اختلاف کو فوری سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
درحقیقت یہ رشتہ ذمہ داریوں کی تقسیم کا معاملہ ہے ۔ اس میں کسی ایک کو مکمل قصور وار ٹھیرانا حماقت ہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان کا نام ہی نسیان سے ماخوذ ہے ۔ جس کا مطلب اس کی فطرت میں بھلکڑ پن اور غلطیاں کرنا شامل ہے۔ لہٰذا جس طرح شوہر ایک انسان ہے اسی طرح بیوی بھی ایک انسان ہے اور انسان ہونے کے ناطے دونوں کو اپنی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ اور فقہ اسلامی کے ماہر فقہا نے دونوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
شکایات کا حل: اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر جوڑا شکایات کی ایک طویل فہرست ذہن میں لیے پھرتا ہے اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے شکایات سنانا شروع کردیتا ہے۔ جس میں رشتہ ٹھیک جگہ نہ ہونا، خدمت میں کوتاہی، جھگڑا ، گالم گلوچ، مارپیٹ ، طعنے، رہایش، والدین، گھر والے، غرض ہر طرح کی شکایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان تمام کے بعد ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اتنی خرابیاں سامنے آجانے کے بعد آپ کس صورتِ حال تک پہنچتے ہیں؟ آیا آپ نے ان خرابیوں کی وجہ سے یہ رشتہ ختم کرنا ہے ؟ اگر ہاں تو شریعت نے ہر دو کو یہ موقع دیا ہے تاکہ کوئی انسان فضول میں اپنی مختصر زندگی کا سکون غارت نہ کرے بلکہ خلع یا طلاق کے اختیارات استعمال کرکے علیحدہ ہوجائے اور اپنی نئی زندگی شروع کرے۔
لیکن حیرت انگیز طور پر اکثریت اس اختیار کو استعمال کرنے کا نہیں سوچتی بلکہ ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ اب اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ جب آپ نے ساتھ ہی رہنا ہے تو شکایات و اعتراضات کا بھاری بوجھ اٹھانے کے بجائے معاملات کو حل کرنے والی گفتگو کی طرف آئیں۔ آپ اعتراض نہ کریں بلکہ سوال کریں کہ میرا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں کیسے اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکوںگی؟ میں کیسے اپنی بیوی کے ساتھ پرسکون رہ سکوںگا؟ لہٰذا یہ پہلو واضح ہوا کہ وقت بے وقت، موقع بے موقع شکایتوں سے فقط غیبت ، حسد، بہتان ،گالم گلوچ، اور فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بلکہ قوت ِ فیصلہ کو استعمال میں لاتے ہوئے مسائل کے حل کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے ان امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق بیوی سے ہے:
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بیوی خاتون خانہ بنے شمعِ محفل نہ بنے ، لیکن آج یہ بات سمجھنا ذرا مشکل ہوگیا ہے ۔ کیونکہ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیش پیش ہیں اور ڈاکٹر، انجینئر، افسر لڑکیاں عام نظر آتی ہیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکی سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر پر زیادہ توجہ دیں تو ان کو یہ مشورہ دینے والا تنگ نظر دکھائی دیتا ہے۔
لڑکیاں تعلیم ضرور حاصل کریں اور ایسے شعبوں میں جہاں خواتین ماہرین کی ضرورت ہے وہاں اپنی خدمات پیش کریں لیکن وہ ایک استثنائی صورت ہے۔ عام حالات میں میاں بیوی دونوں اپنی معاشی مصروفیات کے سبب اپنے گھر اور بچوں کا ٹھیک خیال نہیں رکھ پاتے اور ایک ماسی رکھ کر کام چلایا جاتا ہے جس کے اپنے ہاتھ کے کھانوں میں نہ خلوص کا جذبہ ہے نہ اس کی تربیت ہی میں ماں کی ممتا ہے بلکہ وہ تو ایک ملازمہ ہے۔
گھر داری بظاہر ایک معمولی سا عنوان ہے لیکن درحقیقت یہ ایک طویل جدوجہد کا نام ہے جس کے اثرات نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک خاتون نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ جتنے بھی انبیا ؑ آئے ہیں سب مرد ہیں۔ اللہ نے عورتوں کو نبی بناکر کیوں نہیں بھیجا؟ جواب میں عرض کیا کہ عورتیں نبی بن کر نہیں آئیں لیکن انبیا ؑ کو جنم دینے کا سہرا انہی خواتین کے سر ہے۔
المرأۃُ اِذَا صلّٰتِ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَحَفِظَتْ فَرْجَھَا وَاَطَاعَتْ بَعْلَھَا فَلْتَدْخُل مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الجنَّۃِ شَاءَتْ (المعجم الأوسط للطبرانی ، باب العین، حدیث: ۸۹۷۷) ایک بیوی جب پنج وقتہ نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزّت وعصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کو اجازت ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔
اس حدیث میں آپؐ خواتین کی ذمہ داریاں بتارہے ہیں:۱- فرض نماز کی ادائیگی ۲-فرض روزوں کی ادائیگی ۳- عزت وعصمت کی حفاظت کرنا ۴- شوہر کی خدمت کرنا۔
اس حدیث میں آپؐ خواتین کو ایک بہت بڑی بشارت سنارہے ہیں کہ جنت کے تمام دروازے ان کے لیے کھل جائیں گے لیکن بدلے میں مطالبہ کسی لمبی چوڑی عبادت کا نہیں کیا جارہا ہے بلکہ فقط فرائض کی ادائیگی جس میں نماز اور روزے کی فرض عبادتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت جس میں پردہ خاص طور پر شامل ہے اور آخری اہم بات اپنے شوہر کی خدمت ہے۔ شوہر کی خدمت میں وہ تمام کام آجاتے ہیں جو ایک بیوی اپنے گھر میں انجام دیتی ہے جس میں بچوں کی پیدایش، ان کی تربیت ، باورچی خانے کا انتظام، صفائی کا انتظام وغیرہ شامل ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ جن کاموں کو خواتین خالص دنیوی یا رسمی کام سمجھتی ہیں اور ایک معمول یا عادت یا بعض اوقات مجبوری کے تحت کرتی ہیں، اس خالص دنیوی عمل کو ’دینِ اسلام‘ ایک عظیم عبادت قرار دے کر اس کے بدلے میں اتنی بڑی بشارت سنارہا ہے۔ اللہ اکبر!
اس ضمن میں ایک اہم کام خواتین کے ذمے یہ ہے کہ وہ ’شکر‘کا اہتمام کریں۔ اللہ نے ان کو بڑی قربانیاں دینے والی فطرت دی ہے ۔ لہٰذا قربانی دینے کے بعد یا خدمت میں کھپ جانے کے بعد بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ثواب کو بچاتے ہوئے اپنے ذہن اور اپنی زبان کو شکایات پر نہ لگائیں بلکہ اللہ نے جو بھی دیا ہے اسے غنیمت جان کر اپنے گھر کو خوش حال اور پُرسکون رکھیں ورنہ وقت بے وقت کی شکایتی راگنی ایک ایسی چنگاری ہے جو پورے گھر کو آگ لگاسکتی ہے ۔
اب ہم مزید کچھ گزارشات مردوں کے حوالے سے ذکر کریں گے:
بیوی اپنے شوہر سے بھرپور امید اور توقع رکھتی ہے کہ میری اور میرے بچوں کی مکمل ذمہ داری میرا شوہر ادا کرے گا اور وہ رہائش ، خرچ اور ضروریات کی فکر میں لگے بغیر اپنے گھر کو سنبھالتی ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ کھٹکارہتا ہے کہ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں سوائے میرے شوہر کے، تبھی وہ اپنے شوہر سے بے پناہ توقع رکھتی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ سوتن سے ڈرتی ہے کیونکہ اسے یہ خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے تحفظ میں رکاوٹ کا ذریعہ بن جائے گی۔ اسی لیے شوہر اس بات کا خاص خیال رکھے کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو شوق سے کرے اور عدل کا خیال رکھے لیکن دوسری شادی کی مصنوعی دھمکیاں نہ دے۔ اس سے نقصان کا اندیشہ ہے ۔
بیوی عزت چاہتی ہے۔ اپنی، اپنے بچوں کی، اپنے والدین وغیرہ کی اسے عزت نہ ملے تو وہ خود کو ایک ملازمہ تصور کرتی ہے اور اسے عزت مل جائے تو جان کھپا کر بھی فخر کے جذبات رکھتی ہے۔
بیوی کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے بلکہ علما فرماتے ہیں کہ عورت چاہے کسی بھی روپ میں ہو ماں، بہن ، بیٹی، یا بیوی اسے حوصلہ افزائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اس کی فطری چاہت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور اگر اسے جائز طریقے سے حوصلہ افزا جملے سننے کو نہ ملیں تو وہ بعض اوقات ناجائز حوصلہ افزائی کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اس کی سلیقہ شعاری، صفائی، کھانااور خوب صورتی و خوب سیرتی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔
خَــیْرُکُـمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَـا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ، تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔(ترمذی، ابواب المناقب عن رسول اللہ ، باب فی فضل اَزواج النبیؐ، حدیث: ۳۹۱۰)
فرمایا کہ گھر میں تندخو، سخت مزاج یا آمر بن کر نہ رہو بلکہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، اور کوئی اگر باہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن گھر میں برا ہے تو وہ برا ہے۔
گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھیئے اور اس نیت سے رکھیے کہ یہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور مجھے اس حسن سلوک پر نیکیاں مل رہی ہیں۔
وہ اپنے گھر والوں سے کپڑے ، کھانا، صفائی اور آرام کا مطالبہ کرتا ہے لیکن نماز کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ شاپنگ کے لیے لے جاتا ہے لیکن کسی نیکی کی مجلس میں نہیں لے جاتا۔ حالانکہ اگر سب گھر والے روزانہ صرف ۱۰منٹ بھی ایک اجتماعی ماحول قائم کریں، کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرلیں تو اس سے حیرت انگیز فوائد دیکھنے کو ملیں گے، ان شاء اللہ۔
عین ممکن ہے کہ مرد کو اپنی ماں ، بہن کے متعلق بہت سی تلخ باتیں سننے کو ملیں۔ وہ یہ سب یہ سوچ کر سنے کہ اس کے ذمے خدمت، رضاعت ، حمل ، تربیت کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں اور یہ ان سب کے باوجود طعن و تشنیع کے تیر بھی کھاتی رہتی ہے، لہٰذا اس وقت میں اگر اس کے دکھ درد (اگر چہ نہ ہوں) کی نہ سنوں تو اور کون سنے گا۔
لیکن احتیاط لازم ہے کہ فقط سنے اور سنتا جائے، لیکن اس شنوائی پر کوئی بھی رد عمل کا اظہار نہ کرے ورنہ اپنی بیوی بچوں کی فکر میں وہ حدِّاعتدال سے نکل کر والدین اور بہنوں، بھائیوں کے حقوق غصب کرے گا۔ٹھیک اسی طرح اپنی والدہ محترمہ کے پاس جائے تو وہاں بھی اہلیہ کے متعلق فقط سننے پر اکتفاء کرے ، اگر رد عمل کا اظہار کرے گا تو اپنے گھر سمیت خود بھی ٹوٹ جائے گا۔
ایک اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنی بیوی کا مزاج سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے ایک مقام پر ’غافلات‘ کا صیغہ ذکر کیا ہے، جب کہ مردوں میں غفلت کا مطلب لاپروائی یا اپنی ذمہ داریوں کو پورانہ کرنے والے کو ’غافل ‘کہا جاتا ہے۔ لیکن جن معنوں میں ’غافلات‘ عورتوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے اس کا معنی ہے بھولی بھالی یا ایسی عورت جو حد درجہ ہوشیاری نہ جانتی ہو بلکہ سیدھی سادی اور انتہائی مخلص مزاج ہو۔ جسے ہر بات کی فلسفیانہ وجوہات اور تہہ میں جاکر سمجھنا نہ آتا ہو۔ اندازہ لگائیں کہ اس عورت سے جب مرد باربار یہ شکایات کرتا ہے کہ تم بات نہیں سمجھتی ؟ تمھیں عقل نہیں ہے؟ تم ایک ہی بات بار بار کیوں کہتی ہو؟ تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو؟ یہ سارے وہ جملے ہیں جن میں مرد اپنی بیوی سے دانش مندی کی انتہا درجہ توقعات رکھتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس نہج پر نہیں بنایا۔ البتہ کچھ خواتین واقعی علم وعقل اور شعور و دانش کی اعلیٰ سطح پر قائم رہتی ہیں لیکن وہ ایک استثنائی صورتِ حال ہے ۔
آپؐ اپنی ازواج مطہرات کے کس قدر مزاج شناس تھے اس حوالے سے آپؐ حضرت عائشہ ؓ سے ایک مرتبہ فرماتے ہیں کہ ’’عائشہؓ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے۔پوچھا: کیسے؟ ‘‘
آپؐ فرماتے ہیں: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو وربِّ محمد (محمدؐ کے رب کی قسم) اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: وربِّ ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم)‘‘۔
اور جواب میں اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: مَا اَھْجُرُ اِلَّا اِسْمَکَ ، (بخاری، کتاب النکاح، باب غیرۃ النساء، ووجدُھنّ، حدیث: ۴۹۳۴) ناراضی کے عین موقع پر بھی میں فقط آپؐ کا نام چھوڑتی ہوں باقی دل میں برابر آپؐ کی محبت برقرار رہتی ہے ۔
ان گزارشات پر بالخصوص شادی سے پہلے نوجوان جوڑوں کوضرور غوروفکر کرلینا چاہیے۔