اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں فرعون اور اس کی قوم پر دنیا کے اندر لگاتار پانچ عذابوں کا ذکر فرمایا ہے اور ان کا ردعمل بھی بیان کیا ہے، جو ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے۔
اس سلسلے کا آغاز جادوگروں کےمشرف بہ ایمان ہونے کے بعد سے ہوتا ہے جو بالآخر فرعون کے لشکر سمیت غرقابی پرتمام ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’موسٰی نے کہا:’’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہو ں ۔میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں‘‘(اعراف ۷:۱۰۳-۱۰۴)۔
سورئہ طٰہٰ میں حضرت موسٰی کو یہ ہدایت کی گئی تھی: ’’ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔ پھر انھیں یہ حکم بھی دیا گیا تھا: ’’ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے ربّ کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے ربّ کی نشانی لے کر آئے ہیں، اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے ۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے‘‘ ۔ اس تقریر کا اختتام اس انذار پر ہوا کہ ڈراؤ تاکہ اس کا خوف اس کے اندر پیدا ہو۔
حضرت موسٰی کی اس نہایت دل سوز دعوت کے جواب میں کیا جانے والاتمسخر آمیز سوال دیکھیں : ’’ فرعون نے کہا: ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا ربّ کون ہے اے موسٰی ؟‘‘ حضرت موسٰی نے جواب دیا: ’’ہمارا ربّ وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا‘‘ ۔ یہاں ربِّ کائنات نے سرکش مخاطبین کا ردعمل اور ان کے مقابلے میں اپنے برگزیدہ رسول کا اسوہ پیش فرمایا ہے ۔ جہاں ایک طرف نفسِ مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر ’’ فرعون بولا:’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘ تو جواب میں نہایت خندہ پیشانی سے حضرت موسٰی نے کہا:’’اُس کا علم میرے ربّ کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے‘‘۔ گویا دوسروں کے غیر ضروری مسائل میں اپنے مخاطب کو الجھا کر راہِ فرار اختیار کرنے کا کچھ حاصل نہیں ہے ۔ اس کے بجائے انسان کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے ۔
یہ پیغمبرانہ بصیرت ہے کہ وہ اپنے مخاطب کے جال میں اُلجھنے کے بجائے اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’وہی جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمھارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعے سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے‘‘۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی توجہ پاک پروردگار کے احسانات کی جانب مبذول کرائی کہ جن سے وہ اور اس کی قوم بہرہ مند ہورہی تھی، لیکن مسئلہ صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ ربّ کائنات فرماتا ہے:’’ اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے‘‘۔
قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر فرعون کے انکار کا بیان ہے۔ سورۂ قصص میں فرمانِ خداوندی ہے: ’’اور فرعون نے کہا :’’اے اہل دربار، میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسٰی کے خدا کو دیکھ سکوں ‘‘۔ فرعون کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ:’’ ا ُس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے‘‘۔پھرفرمایا:’’ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا ‘‘۔ مزید فرمایا: ’’ ہم نے اِس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے ‘‘۔ قرآن حکیم کی اس آیت میں فرعون اور اس کی قوم پر دنیوی لعنت اور اُخروی قباحت کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت موسٰی نے جب مطالبہ کیا: ’’میں تم لوگوں کے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے‘‘۔ اس پر فرعون نے کہا:’’اگر تو کوئی نشانی لایا اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر‘‘ ۔ ربّ کائنات نے کلیم اللہ کو اس کے جواب سے لیس کرکے مبعوث فرمایا تھا، سو : ’’موسٰی نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا ۔اس نے اپنی بغل سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا ‘‘۔ قبطیوں نے اپنی فطرت کے مطابق سوال کیا اور اس کا قرار واقعی جواب مل گیا ۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ وہ سرِ تسلیم خم کرلیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ: ’’یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے‘‘ ۔
اس بہتان تراشی کے بعد فرعون نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’(یہ) تمھیں تمھاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو؟‘‘ اپنے فرماںروا کی خوش نودی کے لیے پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں، چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مقابلے سے قبل جادوگروں کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ اُنھوں نےپوچھا:’’اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟‘‘ فرعون نے جواب دیا:’’ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہوگے‘‘ ۔ اس طرح گویا فرعون اور جادوگروں کے درمیان کھلے عام عہدو پیمان طے ہوگیا۔
مقابلے سے قبل حضرت موسیٰ ؑ نےجس پُرزور انداز میں جادوگروں اور ان کے توسط سے وہاں موجود فرعون کی قوم کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں :’’ موسٰی نے ان سے فرمایا: تم پر افسوس (خبردار!) اللہ پر جھوٹا بہتان مت باندھنا ورنہ وہ تمھیں عذاب کے ذریعے تباہ و برباد کردے گا اور واقعی وہ شخص نامراد ہوا جس نے (اللہ پر) بہتان باندھا‘‘ ۔ یہ انذار ہے کہ جب حق سامنے آجائے گا تو اس سے رُوگردانی نہ کرنا کیونکہ اس سے قبل جب یہ معجزات فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے آئے تھے تو انھوں نے اسے جادو قرار دے کر جھٹلادیا تھا۔ جادوگروں پر اس تنبیہ کا خاطر خواہ اثر پڑا اور فرعون سے انعام و اکرام کے خواہش مند لوگوں کے اندر اللہ کے عذاب کا جو خوف پیدا ہوا اس کی گواہی اس آیت میں ہے :’’چنانچہ وہ (جادوگر) اپنے معاملہ میں باہم جھگڑ پڑے اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے‘‘۔
جادوگروں کے درمیان اختلاف رائے تو ہوا لیکن پھر بھی مقابلے کا جذبہ غالب رہا اور وہ کہنے لگے: ’’یہ دونوں واقعی جادوگر ہیں۔ یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ تمھیں جادو کے ذریعے تمھاری سرزمین سے نکال باہر کریں اور تمھارے مثالی مذہب و ثقافت کو نابود کردیں‘‘۔ فرعون اور اس کے درباری جہاں بندگی (اطاعت )اور اقتدار کے حوالے سے فکرمند تھے وہیں جادوگروں نے دین حق کو اپنی تہذیب و ثقافت کی عظمت کے لیے بھی خطرہ محسوس کیا: ’’اور: (باہم فیصلہ کیا) پس تم (جادوکی) اپنی ساری تدابیر جمع کر لو پھر قطار باندھ کر (اکٹھے ہی) میدان میں آجاؤ، اور آج کے دن وہی کامیاب رہے گا جو غالب آجائے گا‘‘ ۔ اس اعلان سے قبل اگر وہ اپنی ناکامی کے امکان پر بھی غور کرتے تو اس سے باز رہتے ۔ خیرمقابلے کے آغاز میں جادوگر بولے:’’موسٰی، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟‘‘ موسٰی نے کہا:’’نہیں، تم ہی پھینکو‘‘۔ یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے موسٰی کو دَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور موسٰی اپنے دل میں ڈر گیا‘‘ ۔
جادوگر تو ایمان لے آئے مگر فرعون نے(ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے) کہا :’’ تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اس کی اجازت دیتا؟‘‘۔ فرعون کا جادوگروں سے یہ مطالبہ کہ تم نے میری اجازت کے بغیر دین حق کو قبول کرنے کی جرأت کیسے کی، روئے زمین پر بدترین جبر کی روایت ہے جو جمہوریت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ہنوز جاری و ساری ہے۔
اس کے بعد فرعون نے ایک ناقابلِ یقین الزام لگا دیا :’’یہ تمھارا (جادوگروں کا) گُرو ہے جس نے تمھیں جادوگری سکھائی تھی‘‘۔یہ بہتان اس لیے احمقانہ تھا کہ جادوگروں کو بلانے کی تجویز سے لے کر اہتمام تک کی ساری مشق اس نے خود کی تھی۔ وہ ظالم حکمران یہیں نہیں رکا بلکہ دھونس دھمکی پر اُتر آیا اور بولا:’’ اچھا، اب میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ پھر تمھیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے (یعنی میں تمھیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی ) ‘‘۔ فرعون اس معرفت سے بے بہرہ تھا کہ ایمان کی دولت کیا ہوتی ہے؟ اور ایمان والے کس قدر جری و بہادر ہوتے ہیں؟ اس لیے جادوگروں کے اس جواب نے اس کو حواس باختہ کردیا:’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں، تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے‘‘۔
یہ ایک ایسا موقع ہے کہ پوری قوم ایک میدان میں جمع ہے ۔ ان کے سامنے فرعون کا پول کھل چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان جادوگروں کے ذریعے دین اسلام کی دعوت سب کے سامنے پہنچانے کا انتظام کرواچکا ہے ۔ جادوگر شہادت دیتے ہیں :’’ ہم تو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔ اس نازک ترین گھڑی میں جادوگروں نے جو ایمان افروز دعا کی سورۂ اعراف میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ :’’اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں‘‘۔ یہ عجیب و غریب منظر ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو زیر کرنے کے لیے ساحروں کو جمع کرنے کا منصوبہ فرعون نے بنایا۔ ان کو بصورتِ کامیابی اپنا مقرب بنانے کی پیش کش خود کی لیکن جب داؤ الٹ گیا اور وہ ایمان لے آئے تو ہاتھ پیر مخالف سمتو ں سے کٹواکر سولی چڑھانے کی دھمکی پر اتر آیا ۔ اس کے باوجود جادوگروں کا صبرو ثبات اور عزم و حوصلہ دیکھ کر فرعون کے درباری گھبرا گئے ۔
مارے گھبراہٹ کے فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا:’’کیا تو موسٰی اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟‘‘ ۔یہاں پر مفسدین الٹا حضرت موسیٰ ؑ پر فساد پھیلانے کی تہمت باندھ رہے ہیں ۔ اس سوال کا فرعون نے جواب دیا:’’میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے‘‘۔ اس جواب میں فرعون اپنے حق بجانب ہونے کا جواز اقتدار کی مضبوطی کو قرار دیتا ہے، یعنی چونکہ وہ طاقت ور ہے اس لیے وہ ہر طرح کے ظلم و جبر پر قدرت رکھتا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں اس کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں ۔
حضرت موسٰی نے اپنی قوم سے صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد انھیں امید و حوصلہ دیتے ہوئے کہا :’’زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے‘‘۔ یعنی بظاہر فرعون بہت طاقت ور ہے لیکن ربّ کائنات کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ دنیا مسبب الاسباب کی مرضی سے چل رہی ہے اور وہ کسی کو بھی اس کا وارث بناسکتا ہے اور معزول کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ دنیا کا اقتدار ہی اصل کامیابی نہیں ہے بلکہ ’’ آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اُس (اللہ) سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ یعنی خشیت اللہ اپنے دل میں پروان چڑھائیں ، فرعون سےخوف زدہ نہ ہوں ۔ سورۂ قصص میں یہی یقین ان الفاظ میں درج ہے: ’’ہم تیرے بھائی کے ذریعے سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمھارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمھارا اور تمھارے پیروؤں کا ہی ہو گا‘‘۔
ویسے یہ بشارت تو ہمارے لیے بھی ہے :’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ ۔ لیکن نہ جانے کیوں اس کواکثر فراموش کردیاجاتاہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے حالات امت کی موجودہ حالت سے خاصے مماثل ہیں۔ اس لیے جب حضرت موسٰی ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے تو جواب میں:’’ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا:’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں‘‘۔اس کڑوے کسیلے مایوس کن ردعمل کے باوجود حضرت موسٰی نے نہایت شگفتگی سے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا ربّ تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔
آج بھی پریشان حال امت کو اسی طرح کی حوصلہ مند اور پر امید قیادت درکار ہے جو نہ صرف کامیابی کی نوید سنائے بلکہ اس کے مقصد سے بھی آگاہ کرے ۔ اس کو بتائے کہ تمھیں اقتدار اس لیے نہیں دیا جائے گا کہ تم ان سے انتقام لو یا ان کی طرح ظلم و زیادتی اور عیش و طرب میں پڑجائو بلکہ وہ بھی ایک آزمایش ہی ہوگی ۔اس کائنات میں جہاں انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہی آزمایش ہے، اس کی نوعیت تو بدلتی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔ کبھی اقتدار سے محروم کرکے توکبھی نوازکر اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے بلکہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیسا عمل کرتے ہیں؟ کوئی پہلی آزمایش میں ناکام ہوجاتا ہے تو کوئی دوسری میں۔ ویسے یہ دنیا ایسی سعید روحوں سے بھی خالی نہیں ہوتی کہ جو دونوں مراحل میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں فرعون کی قوم پر دُنیوی عذاب کا سلسلہ دراز کیا گیا۔
اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ حالانکہ در حقیقت ان کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے‘‘۔ وہ اس آسمانی مصیبت کابہتان حضرت موسٰی کے سحر پر منڈھتے ہوئے کہتے تھے:’’تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں‘‘۔ یہ سراسر خود فراموشی اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ سورۂ نمل میں ان کی اندرونی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے :’’مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں اُن لوگوں کے سامنے آئیں تو انھوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نشانیاں ان کے قلب و ذہن کو قائل کرچکی تھیں لیکن انا، رعونت یا دنیوی مفاد جیسی نفسانی کمزوریاں اعترافِ حق کی راہ میں حائل تھیں۔
دوسرے مرحلے میں پانچ قسم کے عذاب الگ الگ وقتوں میں آئے: ’’آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سر کشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے ‘‘۔ طوفان سے مراد آسما ن سے پانی اور اولے برسنا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اَبرآلود آسمان سےسبت کی شب زبردست برسات شروع ہوئی اور طوفان بپا ہوگیا ۔ اس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ کھیت کھلیان اور گھر سب ڈوب گئے، پانی گلے تک آگیا۔ ایک ہفتہ قبطی اس مصیبت میں گرفتار رہے مگر بنی اسرائیل کو محفوظ رکھا گیا۔ اس مصیبت سے عاجز آکر انھوں حضرت موسٰی سے دعا کی درخواست کی۔ اس کاذکر سورۂ اعراف میں ہے: ’’جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے:اے موسٰی، تجھے اپنے ربّ کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر‘‘ ۔
یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ عذاب میں جب شدت آئی تو ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور انھوں نے حضرت موسٰی سے رجوع کیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ ’’ اگر اب کے تُو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے‘‘۔ اس مصیبت کے باوجود وہ لوگ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت پر لبیک کہہ کر فرعون کا انکار اور اللہ کے اقرار پر تیار نہیں تھے بلکہ دوسرے درجے کے کم تر مطالبے، یعنی بنی اسرائیل کی رہائی کے تعلق سے نرم پڑے ۔ ویسے یہ ان کا مستقل رویہ تھا کہ ہر مرتبہ بلا کے ٹل جانے پر وہ عہد شکنی کرتے۔ ’’مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے‘‘۔ لیکن طوفان تھم جانے کے بعد جب کھیت اور باغ سرسبزو شاداب ہوجاتے تو وہ اپنی مصیبت کو بھول کر اُلٹا طوفان کو نعمت قراردینے لگے اور پھر سے ظلم و طغیان کی طرف لوٹ گئے۔
طوفان کے بعد والے مرحلے میں ان کی تیار فصلوں پر ٹڈی دل نے ہلہ بول دیا ۔ اس سے پریشان ہوکر وہ دوبارہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئے ۔ آپ نے پھر سے دعا کی اور وہ عذاب بھی ٹل گیا تو وہ حسبِ سابق بدل گئے ۔ اس کے بعد جو اناج رکھا گیا تھا اس میں گھن لگ گئی اور بالوں میں جوئیں آگئیں۔ اس قہر آسمانی سے بلبلا کر وہ حضرت موسٰی کے حضور حاضر ہو ئےاور دعا کی درخواست کی اور وعدہ کیا مگر پھر وہی پرانی کہانی دُہرائی گئی ۔ اس کے بعد مینڈک کا عذاب نازل ہوگیا۔مینڈک اور قہر نے ان کا چین و سکون چھین لیا ۔ ہر جگہ مینڈک ہی مینڈک۔ نہ سونے دیتے نہ کھانے دیتے۔ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتے تو اُچھل کر اندر چلے جاتے ۔ اس عذاب سے نجات کے لیے وہ روتے گڑگڑاتے حضرت موسیٰ ؑ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی استدعا کے ساتھ حاضر ہوئے۔ آپ نے ان کی بار بار عہد شکنی کے باوجود کبھی منع نہیں کیا اور دعا کرتے رہے ۔ نہ تو رسول کا رویہ بدلہ اور نہ ان کی عہد شکنی میں تبدیلی واقع ہوئی یہاں تک کہ خون کے عذاب میں مبتلا کردیے گئے۔
یہ عذاب کی ایک منفرد شکل تھی کہ قبطی برتن سے پانی نکالتے تو خون بن جاتا اور بنی اسرائیل کے لیے وہ صاف شفاف پانی ہی رہتا۔ اس طرح پانی کے باوجود وہ قطرے قطرے کے محتاج ہوگئے۔ حکایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ گنے وغیرہ کو چوستے تو اس کا رَس بھی خون بن جاتا۔ اس طرح پے درپے عذاب میں مبتلا ہونے اور نجات پانے کے باوجود جب ان لوگوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو تیسرے مرحلے کا حتمی عذاب آیا ۔ اس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے :’’ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے ‘‘۔ یہ دنیا کا آخری عذاب ضرور ہے لیکن اصلی اور دائمی عذاب آخرت کا ہے۔
مال و اسباب سے محرومی کو ابتلا و آزمایش سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اہل ایمان جب اللہ کے باغیوں کو دنیا میں پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں تو انھیں اس پر تعجب ہوتا ہے کہ آخر ان کو کیوں نوازا گیا ہے ؟ علامہ اقبال اپنی شہرۂ آفاق نظم ’شکوہ‘ میں ربِ کائنات سے کبھی تو اس طرح گلہ کرتے ہیں کہ ’ ’رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر ‘‘ اور کبھی برملا سوال کرتے ہیں ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب؟‘‘
یہ نہایت فطری استفسار ہے مگر قرآن حکیم میں اس کا نہایت دل چسپ اور ہمہ پہلو جواب دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ان کا مال ومنال اور اُن کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالے ، یہ تو محض اِس لیے ہےکہ اللہ اس دُنیا کی زندگی میں اُنھیں عذاب میں مبتلا کرے ‘‘(توبہ۹: ۵۵)۔ مال و متاع سے متعلق چونکہ حشر میں حساب کتاب ہوگا، تو اس لیے آخرت میں عذاب و ثواب فطری ہے، لیکن حیات دنیا میں اس کا باعثِ عذاب بن جانا بہ آسانی سمجھ میں نہیں آتا ۔ تاہم، کورونا کی وبا نے اس حقیقت کاپردہ فاش کردیا ہے۔
فی الحال اس عذاب کا سب سے زیادہ شکار دنیا کے مال دار ترین ممالک ہیں ۔ مذکورہ آیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس مصیبت کا شکار وہ بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں جن کو ساری دنیا کے لوگ حیرت و رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔یہ معروف ہستیاں جب کسی تقریب میں رونق افروز ہوتیں، تو عوام کی وہی کیفیت ہوتی جو قارون کو اس کے لاؤ لشکر کے ساتھ دیکھ کر بنی اسرائیل کے بڑے طبقے کی ہوئی تھی۔ قرآن حکیم میں اس کی منظرکشی ملاحظہ فرمائیں: ’’ پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرایش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لیے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بے شک وہ بڑے نصیب والا ہے‘‘(القصص۲۸: ۷۹)۔
آسمان نے ابھی حال میں یہ منظر دیکھا کہ بظاہر خوش بخت نظر آنے والے یہ اہل ثروت دیکھتے دیکھتے کائناتِ ہستی میں عذاب کا شکار ہوگئے اور کوئی طاقت ان کے کام نہیں آسکی ۔ ریزرو بنک یا فیڈرل خزانے کی مداخلت بھی اسٹاک ایکسچینج کی ریت کی دیوار کو تھام نہ سکی۔ یہ تباہی ان مفلس لوگوں کے لیے آزمایش نہیں بنی کہ جن کے پاس پس انداز کرنے کے لیے کچھ نہیں تھایا جن کو آرزومندی انھیں بازارِ حصص کی دہلیز تک لے کر نہیں گئی تھی۔ ایسے سارے لوگ اس کربِ عظیم سے محفوظ و مامون رہے۔ لیکن جن کو خوب نوازا گیا تھا، وہ مبتلاے عذاب ہوگئے ۔
ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھن دولت سے نوازنے کے بعد ربِّ کائنات اپنے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب سورۂ اعراف کی مندرجہ ذیل آیات میں دیکھیں:’’اور اگر (ان) بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ‘‘(الاعراف ۷:۹۶)، یعنی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ان لوگوں نےایمان و تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے بجائے کفر و بداعمالی کا راستہ اپنایا ۔ ہر دو جگہ (محرومی و سرفرازی میں ) پہلی شرط کا تعلق عقیدے سے اور دوسری کا عمل سے ہے۔ یہ آیت اجتماعی سطح پر برکتوں کے حق دار بننے اور ان سے محرومی کا شکار ہو نے کی وجہ بتاتی ہے ۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ ان نامراد لوگوں نے خدائی نعمتوں سے نوازے جانے کے بعد شکر واحسان مندی سے کیوں اعراض برتا؟ استفہامیہ اسلوب بیان میں اس سوال کا انتہائی مؤثر جواب بالکل اگلی ہی آیات کے اندر موجود ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی، جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟‘‘(الاعراف۷:۹۷-۹۸)۔ کورونا وائرس کی آمد سےقبل غفلت کا شکار عالمِ انسانیت بالکل اسی کیفیت میں مبتلا تھا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک امریکا میں تادمِ تحریر[۲۸مئی ] کورونا سے متاثرین کی تعداد تقریباً ۱۸لاکھ ہے اور ایک لاکھ ۵ سو۹۰ لوگ اس سے ہلاک ہوچکے ہیں،جب کہ دُنیا بھر میں ۲۹لاکھ افراد متاثر اور ۳ لاکھ ۷۰ہزار افراد موت کی وادی میں اُتر چکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک پر یہ مصیبت اچانک وارد ہوگئی ؟ جائزہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی غفلت کی قیمت چکا رہے ہیں ۔
امریکی صدر فی الحال چین پر الزامات لگا رہے ہیں، مگر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ۳۱دسمبر۲۰۱۹ء کوچین نے اقوام متحدہ میں عالمی صحت کے ادارے کو خبردار کردیا تھا کہ: وُوہان شہر میں ۱۲ سے ۲۹ دسمبرکے درمیان ایک نئے وائرس کا پتا چلا ہے۔ اس کے بعد ہوانن کا مچھلی بازار بندکردیا گیا۔۵ جنوری کو چین نے انکشاف کیا کہ یہ وائرس سارس یا میرس سے مختلف ہے اور ۷جنوری کو اسے نوول کورونا وائرس کا نام دیا گیا ۔ ۱۱ جنوری کو چین میں اس سے پہلی موت ہوئی اور ۱۲ جنوری کو یہ وائرس ایک چینی باشندے کے ذریعے تھائی لینڈ پہنچ گیا ۔ یہ ساری خبریں اخبارات میں شائع ہورہی تھیں۔ دنیا کے چپے چپے پر نظر رکھنے والا امریکا یقیناً اس سے بے خبر نہ ہوگا۔
امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں کورونا کی آمد کا اشارہ ۲۱ جنوری کو مل گیا تھا۔ ۲۲جنوری کو اس کے انسانوں کے ذریعے پھیلنے کی تصدیق ہوگئی اور اسی دن وُوہان سے باہر جانے والوں کے لیے ہوائی اڈا اور ریل کی سہولت بند کردی گئی۔ اس وقت تک چین میں ۵۴۷ لوگ متاثر اور ۱۷ہلاک ہوچکے تھے۔ ۲۳ جنوری کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اس پر تشویش کا اظہار تو کیا، مگر اسے عالمی وبا تسلیم نہیں کیا۔ ۲۹جنوری کو وائٹ ہاؤس نے ٹاسک فورس بنا کر وائرس کے پھیلاؤ کی نگرانی کا اعلان کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی حکام اس سے خبردار ہوچکے تھے ۔
اتفاق سے ارضِ چین پرکورونا سے ہلاک ہونے والا پہلاغیر ملکی امریکی نژاد باشندہ تھا۔ ان تمام واقعات کے باوجود امریکی صدر کو یہ غلط فہمی تھی کورونا صرف چین سے دیگر ممالک کو بر آمد ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بڑے ٹھاٹ باٹ کے ساتھ ہندستان کے دورے پر آگئے اور کورونا کی عالمی وبا کے دوران احمد آباد میں ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا۔ ہندستان سے پلٹ کر جب ۲۶ فروری کی صبح وہ امریکا پہنچے تو انھیں پتا چلا ہوگاکہ کیلی فورنیا میں ایک ایسا شخص کورونا سے ہلاک ہوگیا ہے، جس نے نہ تو غیر ملکی سفر کیا تھا اور نہ کسی مسافر کے رابطے میں آیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے اندر بیرونی ذرائع کے بغیر بیماری کا پھیلاؤ شروع ہوچکا تھا، جسے کمیونٹی ٹرانسفر( یعنی معاشرتی پھیلاؤ) کہا جاتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس کے بعد اس طرح کی وبا پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔
امریکی حکومت نے بحالتِ مجبوری اس وبا سے نمٹنے کے لیے سرکاری نگرانِ کار مقرر کیا ۔ ۲۹ فروری کو واشنگٹن کا وہ پہلا مریض بھی لقمۂ اجل بن گیا۔ اس کے باوجود وبا کے حوالے سے امریکی حکام کے علاوہ عوام بھی سنجیدہ نہیں تھے ۔یکم مارچ کو فلوریڈا میں عوامی حفظان صحت کی ایمرجنسی نافذ کرکے۵۰ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پابندی لگادی گئی، مگر اس کے۱۸ دن بعد اسی شہر کے ہزاروں لوگ بہار کا جشن منانے کی خاطر ساحلِ سمندر پر جمع ہوگئے۔اسی دن لوئزانا میں ایسٹ بیٹن چرچ کے اندر سیکڑوں لوگ عبادت کے لیے جمع ہوگئے۔
کسی آفت کے بارے میں جانتے بوجھتے اس طرح کی لاپروائی برتنے والی قوموں کے انجام سے متعلق فرمان ربّانی ہے :’’کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘(الاعراف ۷:۹۹)۔ ان کے خسارے کا سبب نفس کی بندگی، مستقبل سے لاپروائی، رب کائنات کے تئیں بے فکری اور اس کی ہدایات سے بے نیازی بنی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس سنت کا اعادہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔ انسانی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، لیکن لوگ ان سے عبرت نہیں پکڑتے۔ انسان اگر پہلے والوں کے انجام سے سبق سیکھ کر اپنے عقائد و معاملات درست کرلے تو اس طرح کی اجتماعی تباہی سے محفوظ و مامون رہ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اگلی آیت میں یہی ہے ، فرمایا: ’’ اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے ‘‘(الاعراف ۷:۱۰۰)۔
جب انسانوں کے دل پر مہر لگ جائے تو وہ اپنے آپ کو قوت سماعت سے محروم کرلیتے ہیں، اور عمدہ نصیحت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تاریخ انسانی میں اس کی ایک مثال قارون ہے۔ سورۃ القصص میں دیکھیں: ’’ یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون، موسٰی کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی‘‘(القصص ۲۸:۷۶)۔ اس سرکشی کے باوجود بنی اسرائیل کے اہل دانش نے اس کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی: ’’ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا:’’پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘(القصص ۲۸:۷۶-۷۷)۔
قارون نے مندرجہ بالا نصیحت کےجواب میں کہا تھا: ’’یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘ (القصص ۲۸:۷۸)۔ قارون کے رعونت آمیز ردعمل پر قرآن حکیم کا تبصرہ یہ ہے کہ: ’’کیا اس کو علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے، جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے‘‘ (القصص ۲۸:۷۸)۔ اس قصے میں قارون کے اُخروی انجام کا نہیں بلکہ دُنیوی تباہی کا ذکر ہے۔
کورونا وائرس نے اس منظر کو ایک نئے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے حصص سمیت زمین میں دھنس چکے ہیں ۔ ان پر مال و منال کا خسارہ عذاب کا کوڑا بن کر برس رہا ہے ۔ اس کی چونکا دینے والی ایک مثال گذشتہ دنوں دبئی میں سامنے آئی، جہاں جوائے اراکل نامی کیرالہ کے ایک نام وَر سرمایہ دار نے ۱۴ویں منزل سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی ۔ وہ مالی معاملات کے باعث ذہنی تناؤ کا شکار تھا۔ معمولی منشی کے عہدے سے اپنا کیرئیر شروع کرکے دولت اور شہرت کی بلندی پر پہنچنے والا یہ فرد جدید ترین ریفائنری کا مالک تھا۔ کورونا کے سبب جوائے کے دو لاکھ ہم وطنوں کو امارات میں اپنا روزگار گنوانا پڑا، لیکن شاید ہی کسی نے جوائے اراکل جیسے امیر کبیر شخص کی مانند خودکشی کے بارے میں سوچا ہو۔ کیا یہ عذابِ عام کی وہ مخصوص شکل نہیں ہے کہ جس کی شدت ان خاص لوگوں تک محدود ہے کہ جن کا ذکر اول الذکر آیت میں کیا گیا ہے:’’ان کا مال ومنال اور اُن کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالے ، یہ تو محض اِس لیے ہےکہ اللہ اس دُنیا کی زندگی میں اُنھیں عذاب میں مبتلا کرے ‘‘ (التوبہ ۹:۵۵)۔
بھارت میں مسلمان، دیگر مذاہب کے ماننے والے اور پسی ہوئی اقوام برہمنی فسطائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ۹دسمبر ۲۰۱۹ء کو بھارتی لوک سبھا اور پھر ۱۱دسمبر کو راجیہ سبھا نے ایک نسل پرستانہ قانون منظور کیا۔ یہاں اسی مناسبت سے چھے مختصر مضامین پیش ہیں، جن سے وہاں موجودہ عوامی اُبھار کے خدوخال کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے رہنے والے، بھارت کے مظلوموں اور مسلمانوں کی مدد اسی صورت میں کرسکتے ہیں کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں مضبوط پاکستان بنائیں، خالق اور خلق سے جو عہد کیا تھا اس کے تقاضے پورے کریں۔(ادارہ)
بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقے مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک پولیس ناکہ پر گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔پولیس جب تک گاڑی کی تلاشی لے رہی تھی، میں سڑک کنارے چائے کے ایک کھوکھے کی طرف چل پڑا۔ چند لمحوں کے بعد پولیس سب انسپکٹر ، جو نیم پلیٹ سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا، اور پوچھا کہ ’’کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہورہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟‘‘ اس سوال پر میں چکّرا گیا، اور پوچھا کہ ’’ایسا آپ کیوں سمجھتے ہیں اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیاکہ ’’میں پاس ہی ملاحوں کے گاؤں میں چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلے میں رہتا ہوں، اور حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گاؤں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دے گا، کیونکہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگا دیا جائے گا‘‘۔ پوچھاکہ ’’آپ کا گاؤں کتنا دُور ہے؟‘‘ مجھے اب ایک بڑی اسٹوری کی بُو آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گاؤں قومی شاہراہ سے ہٹ کر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی معیت میں گاؤ ں کی طرف چل پڑا۔
نمبردار سے ملا تو اس نے بتایا کہ ’’ایک ہفتہ قبل مجھ کو سمستی پور شہر میں بلایا گیا تھا، جہاں پٹنہ سے ایک لیڈر آئے تھے۔ انھوں نے ایک بند کمرے کی میٹنگ میں تمام نمبرداروں کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی صوبے میں اقتدار میں آئے گی، تو مسلمان پاکستان جائیں گے اور ان کی جایدادیں گاؤں والوں میں بانٹی جائیں گی‘‘۔ اس سے یہ گرہ کھلی کہ نمبردار اب اپنے طور پر ان مسلم گھرانوں کے ساتھ احسان کرکے یہ یقینی بنارہا تھا، کہ ان کی جایداد انتخابات سے پہلے فروخت ہو، تاکہ پاکستان جانے سے قبل ان کو ’مناسب دام‘ مل سکیں۔
میں نے اپنا صحافت کا چوغہ اتار کر گاؤ ں والوں کو بھارتی آئین، اور اس میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق، بھائی چارہ وغیرہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، بس کوئی آپ کو ورغلا کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ۱۹۴۷ء میں جن لوگوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانا تھا وہ چلے گئے اور اب جو مسلمان یہاں ہیں، و ہ تو بھارتی شہری ہیں اور ان کو ملک سے باہر نکالنے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوسکتا۔
مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعے کے محض چار سال بعد اتر پردیش کے مظفر نگر قصبے میں ۷۲سالہ حاجی حامد حسین کو پولیس کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ کے وار سہتے ہوئے یہ سنناپڑے گا کہ ’’پاکستان ورنہ قبرستان جاؤ‘‘۔ کلکتہ کے ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق حاجی صاحب قصبے کی ایک معتبر شخصیت ہیں، اور انھی کی وجہ سے علاقے میں ایک روز قبل متنازعہ شہریت قانون کے خلاف ہونے والا مظاہر ہ پُرامن طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ان کے گھر کا فرنیچر، باتھ روم ، کچن اور عنقریب بچوںکی شادی کے لیے خریدا ہو ا سامان توڑ پھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح میرٹھ شہر میں سینیر پولیس آفیسر اکھلیش سنگھ نے مظاہر ہ کرنے والے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘۔
اترپردیش کے متعدد شہروں، قصبوں اور دُور دراز دیہات سے آنے والی خبریں نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ انتہائی متعصبانہ اور ہولناک ہے۔صوبے میں ۲۵ مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں [اور ان اموات کا سبب اس طرح رپورٹ کیا گیا ہے: سینے میں گولی لگنے سے ۶، سر میں لگنے سے ۸، کمر میں لگنے سے ایک، ماتھے پر لگنے سے ایک، گردن پر لگنے سے ۲، اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے ۴؍افراد جان سے گئے]۔ اس کے ساتھ ہی سول انتظامیہ مسلمانوں کو نوٹس جاری کر رہی ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کریں۔ صوبہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم مظاہرین سے بدلہ لیں گے‘‘۔
عہد رفتہ کے نوابوں کے شہر رام پور میں پتنگ بنانے والے محمد عابد دن بھر گھرپر اپنے کام میں مصروف تھے۔ شام کو گھر سے نکلتے ہی گرفتار کر لیے گئے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دن بھر شہر میں کیا ہو رہا تھا۔ اگلے دن ان کے گھر پرنوٹس آیا کہ پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے اور ہلمٹ کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے لیے خزانہ میں ۱۴ہزار روپے جمع کروائیں۔ سو روپے سے بھی کم یومیہ کمانے والے اور وہ بھی جب کمانے والا ہی جیل میں ہو، ۱۴ہزار روپے کہاں سے لائیں گے؟ اسی طرح ۳۶سالہ یومیہ مزدور اسلام الدین ۲۱دسمبر کو اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ہمراہ گھاس پھونس جلا کر آگ تاپ رہا تھا کہ پولیس نے گرفتار کرلیا، اور کہا کہ شہر میں پولیس کی گاڑیوں اور بسوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کا جرمانہ ادا کریں، ورنہ ان کی جایداد ضبط کرکے نیلام کی جائے گی۔
سکرول انڈیا کے مطابق نہٹور کے نیزا سرائے میں ۵۵ سالہ رفیق احمدنے پولیس کے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے عوام سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ پُرامن لوگ واپس گھر جانے لگے تو آنسو گیس کے گولے اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہوگئیں۔ حالانکہ کسی نے کوئی پتھر نہیں پھینکا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کیرانہ سے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں صدیقی کے بیٹے نے بتایا کہ ’’پولیس نے ہماری چارکاریں بلاجواز نذر آتش کر دیں۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ہندی کے سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر میں پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے۔ مگر اس کے باوجود بہت سی ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں نظرآرہا ہے کہ لوگ پُرسکون انداز میں چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں اور پولیس انھیں پکڑ کر زدوکوب کررہی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، اور پولیس کے دو افراد اسے لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔پولیس کی ایسی درندگی کی ویڈیوز واٹس ایپ میں گشت کر رہی ہیں، جنھوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے ۔ لکھنؤ سے گرفتار ہونے والوں میں دیپک کبیر تھیٹر اداکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتا کرنے کے لیے تھانے گئے تو انھیں بھی گرفتار کرکے ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سابق سینیر پولیس افسر ایس آر داراپوری اور ۷۶سالہ انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگرسی رہنما صدف جعفرکو بھی پتھراؤ کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ کے بقول: ’’ہم نے انھیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے ‘‘۔
لکھنؤ میں انگریزی اخبار دی ہندو کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ شمال مشرق کے سبھی صوبے سراپا احتجا ج ہیں۔ وہاں کئی جگہوں پر حکمران بی جے پی کے دفاتر اور لیڈروں کے گھر بھی جلائے گئے، مگر سزا صرف مسلمانوں کو ہی دی گئی ہے۔ چند سال قبل دہلی کے متصل ہریانہ میںنوکریوں میں کوٹہ کے مسئلے پر جاٹوں نے ریلوے اسٹیشن، شاپنگ مال، پولیس اسٹیشن اور ایک وزیر کے گھر تک کو آگ لگاکر راکھ کر دیا۔ مگر کس کی ہمت تھی کہ ان کو گرفتار کرے، یا پیلٹ گن سے ہی ان کے ہجوم کو منشر کرے، یا ان سے معاوضہ طلب کرے ؟ تاہم، مسلمان کے لیے یہ سب تعزیریں موجود ہیں۔
آج بھارت کی شاہین صفت گھریلو اور پڑھی لکھی مسلم خواتین حجاب کی پاس داری کے ساتھ کچلی پسی قوم کا ہراول دستہ ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ، ارریہ ، مدھوبنی، الٰہ آباد کے روشن باغ، سیلم پور، خوریجی، ذاکر نگر، کولکاتہ، کوٹہ، پونے، یعنی پورے بھارت میں مسلم خواتین سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک میں وہ تاریخی کردار اداکررہی ہیں، جس نے حکمران پارٹی کے کیمپ میں کھلبلی مچا دی ۔
یوں تو ان باہمت اور بہادر خواتین میں تمام ہی مذاہب کی خواتین شامل ہیں ، مگر سچی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کا حوالہ اس لیے زبان زدعام ہوا ہے کہ اس تحریک کی ابتدا انھوں نے ہی کی ہے۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیٹا گیا، مظفرنگر، کانپور، فیروز آباد، بجنور میں ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں اور داخلِ زنداں کیاگیا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ ایک ایسے کالے قانون کے خلاف میدان میں ڈٹ گئیں، جو ان سے اور ان کی اولاد سے اس ملک میں، اور جہاں وہ پیدا ہوئے، شہریت چھیننے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ _یہ شاہین صفت مسلم خواتین آج اسی مودی کے خلاف ہیں، جس نے ’طلاق ثلاثہ‘ کے معاملے پر کہا تھا: ’’مسلم خواتین کا استحصال بند ہونا چاہیے اور انھیں انصاف ملنا چاہیے‘‘۔ یہ مسلم خواتین آج مودی سے سوال کررہی ہیں کہ کیا ’استحصال‘ سے ’نجات‘ اور ’انصاف‘ دلانے کا مقصد ان پر اس ملک کے دروازے بند کرنا، انھیں یہاں سے دربدر کرنا تھا؟ اور وہ جواب بھی دے رہی ہیں کہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘۔
شاہین باغ دہلی سے شروع ہونے والی خواتین کی اس تحریک کا تاریخ میں ذکر سنہرے حروف میں کیا جائے گا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک طلبہ نے شروع کی، پھر خواتین سامنے آئیں، اور آج یہ تحریک جسے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی تحریک بھی کہاجاسکتا ہے، سارے ملک میں طلبہ اور خواتین ہی کے دم سے جاری ہے۔ مودی بوکھلائے ہوئے ہیں، اس لیے کہ انھوںنے اس سے پہلے خواتین کی طاقت نہیں دیکھی ہے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے جو تحریک شروع کی ہے، اس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ شاہین باغ کی تحریک نے مودی کے فسطائی ایجنڈے کو اس طرح عیاں کردیا ہے کہ ساری دنیا اس پر نفرت بھیج رہی ہے۔
اب کوشش یہ ہے کہ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کی تحریک کو کسی طرح سے کمزور کیا جائے بلکہ ختم کردیاجائے۔ اس کےلیے مسلمانوں میں جو نفاق پرور ہیں ان کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ میناکشی لیکھی نے کھلے طو رپر دھمکی دی ہے، اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جارہا ہے۔ آج ۱۴جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے کہہ دیا ہے کہ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے طورپر شاہین باغ کی خواتین کو ہٹائے۔ پولیس اس کی تیاری کررہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان بہادر خواتین پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جائیں۔ اب جو بھی ہو، یہ وہ باہمت خواتین ہیں، بقول اسرارالحق مجاز: جنھوں نے ’آنچل کو پرچم‘ بنالیا ہے اور مودی کے ’استحصال‘ اور ’انصاف‘ کے ’جھوٹ‘ کو ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ اگر وہ جبراً ہٹائی گئیں تو بھی ’فاتح‘ وہی رہیں گی اور یہ زعفرانی سرکار ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں ظالم اور جابر کے طو رپر ہی جانی جائے گی۔
ہمارے ہاں کہا جارہا ہے کہ ابتدا میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل رہنے والے محمدعلی جناح پر ہندوؤں سے متعلق ایک بلاجواز خوف غالب ہوا۔ اس لیے ۱۹۲۸ء کے کل جماعتی اجلاس میں انھوں نے چودہ مطالبات پیش کیے۔ لیکن اب [۹۱برس گزرنے کے بعد] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ خوف بڑی حد تک صحیح ثابت ہوا ہے۔ پھر گذشتہ ۷۲برسوں کے دوران بھارت میں ان مسلمانوں پر جو ۱۹۴۷ء سے یہیں پر مقیم ہیں، مسلسل دباؤ ڈالا گیا۔ بجاے اس کے کہ تحریک ِ آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کے وعدے کے مطابق مذہب کو ملک کے نظام سے علیحدہ رکھا جاتا، تاریخ کے اوراق پر بھارت قطعی طورمسلمانوں کے خلاف رہا۔
بھارتی دستور مملکت کی دفعہ ۴۸ میں ’’گائے، بچھڑے یا دودھ دینے والے دیگر جانوروں کے ذبیحے پر پابندی عائدہے‘‘ اور یہ پابندی جو بزعم خود ’جدید سائنس‘ کےمفاد میں قرار دی گئی تھی، لیکن اسے ہندو راشٹر کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس آئینی اختیار کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں گائے کا گوشت (beef) بیچنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح سے بیف کھانے والے لاکھوں بھارتیوں پر ان کے پسند کے کھانے پینے کی آزادی پر قدغن لگادی گئی ہے۔
وزیراعظم نہرو نے ایک اور قدم آگےبڑھایا۔ بجاے اس کےکہ شہریوں کے لیے ایک معیاری قانون لاگو کیا جاتا، انھوں نےہندو ایکٹ قائم کیا۔ مزیدیہ کہ مندروں کو حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جو ان کی دیکھ بھال کرتی اور بعض اوقات انھیں فنڈز بھی فراہم کرتی۔ اسی طرح بابری مسجد کا انہدام ممکن نہیں ہوتا اگر اس کے پس پردہ بالخصوص کانگریسی حکومتوں کی چشم پوشی نہ ہوتی۔ اس انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کوئی شبہہ باقی نہیں رہا کہ ہندو راشٹر کے اہداف کو جواز بخشنے کے لیے املاک کے حقوق کو بدلا بھی جاسکتا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا حقیقت تو بھارتی مسلمانوں کی معاشی ومعاشرتی صورت حال ہے۔ گویا کہ یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ’’ تمام ہوشیار اور ذہین مسلمان تو پاکستان چلے گئے ہیں، اس لیے ہمارے ملک کے تمام اہم عہدوں کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ گویا بھارتی مسلمان غیر معیاری قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ ملک کے بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہیں۔ سچر کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ انڈین افسر شاہی میں محض۲ اعشاریہ ۵ فی صد مسلمان ہیں۔ اسی طرح اگر جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کو الگ رکھا جائے تو دفاعی فورسز میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت محض ۲ فی صد ہے، جب کہ دفاعی فورس میں اعلیٰ مسلم افسران کی شرح تو اس سے بھی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ’اکنامک ٹائمز انٹیلی جنس گروپ‘(ETIG) کے ایک جائزے کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ۵۰۰کمپنیوں میں ڈائریکٹروں اور سینئر ایگزیکٹوز کے عہدوں پر محض ۲ء۶ فی صد مسلمان فائز ہیں۔
اس ضمن میں مجھے وہ چار روزہ نیشنل ریفارم کانفرنس یاد آرہی ہے، جو میں نے بابا رام دیو کے پتن جالی ہیڈ کوارٹرز پر اپریل۲۰۱۳ ء میں منعقد کی تھی۔ اُس وقت ہم ایک نئی سیاسی جماعت (سورنا بھارت پارٹی) بنانے کے لیے مشترکہ طور کام کر رہے تھے۔ اس کانگریس میں ملک بھر کی ۱۰۰ معروف شخصیات بشمول سابق وائس چانسلر اورسابق جرنیل موجود تھے۔ اس کانگریس کے حوالے سے میرا مقصد مجوزہ پارٹی کے منشور کو پیش کرنا اور کچھ نئے تصورات حاصل کرنا تھا۔ اجلاس میں کئی آر ایس ایس اراکین اور حمایتی بھی موجود تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں سے نکال باہر کیا جائے۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمان دغا کریں گے۔
میں نے اس خوف ناک تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ رام دیو اور میں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ مگر یہ صرف آرایس ایس نہیں بلکہ کئی ممتاز بھارتی ہندو اُن مسلمانوں کے حوالے سے جانب دار ہیں، جن کے زندگی میں آگے بڑھنے کے ذرا سے بھی امکانات ہیں۔ ویسے بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی شرح ہمیشہ مسلم آبادیوں کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے نیا ریکارڈ قائم کرلیا کہ اس کے ۳۰۳ ممبران پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلم رکن ہے۔
یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجوزہ ہندو راشٹرمیں مسلمان واقعی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے، لیکن ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ پاس کر کے اس کے لیے قانونی راہ ہموار کرلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ بھارت کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم واقعہ بن گیا ہے اور یہ ایکٹ کئی لحاظ سے پریشان کن ہے۔ اس میں سماجی مہاجرین اور معاشی مہاجرین میں فرق ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں فوری شہریت کے حصول کے لیے مذہب کو اہمیت دی گئی ہے۔ شہریت دینے سے انکار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ’’آپ مسلمان ہیں‘‘۔ بھارت کے قانون میں اسلام کو سرکاری طور پر تنزل یافتہ قرار دیا گیاہے۔ مسلمانوں کو سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان کا مذہب بھارت میں قابل قبول نہیں ہے۔ پولیس انھیں احتجاج کے لیے جمع ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ظاہر ہے کہ دوسرے درجے کے شہری جمہوری حقوق کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اتر پردیش میں جب وہ صداے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان پر گولی چلائی جاتی ہے اور ان کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم مودی تو مظاہرین کے کپڑوں کو دیکھ کر ان کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے یہی طے پایا گیا ہے کہ انھیں پہلے زخم دو اور پھر ان کی تذلیل بھی کرو۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں مودی کا کھیل کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں بی جے پی کے منشور سے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں مسٹرمودی کی مادری تنظیم (آر ایس ایس) اور ان کے گورو گولوالکر سے صاف صاف جوابات ملتے ہیں، اور وہ مسلمانوں کو ملک دشمن تصور کرتے ہیں: ’’انھوں نے نہ صرف ہماری زمین کے دوبڑے ٹکڑے حاصل کیے ہیں جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کر رہے ہیں اور ہمارے باقی ماندہ ملک کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اچھی خاصی تعداد میں بطور چھپے دشمن کے رہ رہے ہیں‘‘۔
یہی گولوالکرجب جوان تھے تو وہ نازی طرزِ عمل کے گرویدہ تھے۔ ان کا کہنا ہے:’’اپنی نسل کی پاکیزگی اور اس کے کلچر کو برقرارکھتے ہوئے ملک کو سامی نسل، یعنی یہودیوں سے پاک کرکے جرمنی نے پوری دنیا کو جھٹکا دیا، تو ہندستان کے لیے اس سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کا ایک اچھا سبق ہے‘‘۔ تاہم، جب انھیں احساس ہوا کہ نسل کشی کرنا آسان نہیں ہوگا، ان کے لیے دوسرے درجے کی شہریت کو قابل عمل سمجھا اور کہا: ’’ہندستان میں غیر ملکی نسل کو یا توہندو مذہب کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، یا ہندو نسل میں ضم ہو جانا ہوگا، یا پھر ملک میں ہندو قوم کا مکمل طور پر تابع دار بن کر رہنا ہوگا۔ وہ کسی چیزکا مطالبہ نہ کریں اور نہ کسی قسم کی مراعات کے مستحق ہوں گے۔ یہاں تک کہ انھیں شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے‘‘۔ مسلمانوں کے لیے گولوالکر کی ہدایات واضح تھیں: ’’واپس آجاؤ پہناوے اور رسومات کے حوالے سے اپنے اجداد کی شناخت اپناؤ‘‘۔ گویا مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔
مودی حکومت کے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو دبانا بند کر دے، ان کے مذہب میں ہر قسم کی مداخلت کو ختم کر دے (بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ، مندر کے مالکانہ حقوق اور حج سبسڈی)، اور تمام بھارتیوں کوقانون کے مطابق یکساں حقوق فراہم کرے۔(ٹائمز آف انڈیا، ۲جنوری ۲۰۲۰ء)
۴۵ برس کے محمد ابراہیم علی کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بار بار اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں یہاں تیج پور سے ایک مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے بطور امام آیا تھا اور یہیں بس گیا۔ میں یہاں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں۔ پچھلے سات، آٹھ برسوں سے مسلسل تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے زمین خریدی اور یہ مکان تعمیر کیا۔ لیکن ۵ دسمبر۲۰۱۹ءکو میرے اس آشیانے کو یہ کہتے ہوئے کہ مسمار کر دیا گیا کہ ’’میں بنگلہ دیشی ہوں‘‘۔
یہ کہانی صرف ابراہیم علی کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش یہی کہانی آسام کے سونت پور ضلع کے ۴۲۶ خاندانوں کی ہے، جن کے مکان یہی کہتے ہوئے زمیں بوس کر دیے گئے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ اب ان خاندانوں کے تقریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد شدید سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے بنے عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سونت پور کے مکوا، سیرووانی اور بیہیا گاؤں کے کیمپ اس بے بسی اور تباہی کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں زیادہ تر لوگ ڈیگولی چپوری، بالی چپوری، لالٹوپ، باٹی ماری بھیروی اور لنگی بازار گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیے گئے شہریوں کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے پاس اپنی اپنی زمینوں اور ہندستانی شہریت کو ثابت کرنے والی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے باوجود مقامی بی جے پی کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نے ہمارے گھروں کو اس لیے منہدم کروا دیا کہ اس بستی کے مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں ڈالے تھے‘‘۔ ڈیگولی چپوری کے محمدابراہیم علی آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان لوگوں نے ہمارے کچّے مکانوں پر ہاتھی چلوا دیا، اور پکے مکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ ساتھ میں پولیس فورس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ہمیں کچھ بھی بولنے یا کاغذ دکھانے کا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔ ابراہیم علی کہتے ہیں: ’’میں اور میرے باپ دادا سب یہیں آسام میں پیدا ہوئے ہیں۔ این آر سی لسٹ میں ہمارا نام تو پہلی مردم شماری۹۵۱ ۱ میں بھی تھا، اور اس بار کے بھی این آرسی میں موجود ہے۔ میرے پاس تمام دستاویز ہیں، پھر بھی نہ جانے کس بنیاد پر مجھے بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں‘‘۔
۶۵ سالہ کسان اکاس علی نے گاؤں میں چھوٹے سے مکان کی تعمیر میں اپنی پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیا۔ وہ اس پیرانہ سالی میں ایک عارضی کیمپ میں اپنے ساتھ ایک لال پوٹلی لیے پریشان پھر رہے ہیں۔ اس پوٹلی میں ان کے ہندستانی شہری ہونے کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم ایک بار چل کر ان کا بھی گھر دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم اپنے دورۂ آسام کے بیچ ان کے ساتھ ان کے باٹی ماری بھیروی گاؤں پہنچے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا تباہ شدہ گھر دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بولے: ’’میرا آبائی گاؤں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ۱۵سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میں آسام کا ایک حقیقی شہری ہوں اور این آر سی میں بھی میرا نام شامل ہے۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں سوتیا اسمبلی حلقہ میں جہاں میرا گاؤں پڑتا ہے وہاں ایک ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوں۔ میرے ووٹ کا اندراج پڑوسی انتخابی حلقے میں ہے۔ ایم ایل اے پدما ہزاریکا نے انتظامیہ کی ملی بھگت سے مجھے اور ہم جیسے ۴۰۰ سے زیادہ خاندانوں کو صرف اس وجہ سے علاقے سے باہر نکال دیا کہ ہم نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔ اس کارروائی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی یہاں ہندو بنگالیوں کو آباد کرنا چاہتی ہے‘‘۔
طہورہ خاتون کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے تباہ کردہ گھر کی طرف نظریں ٹکائے ہوئی ہیں۔ کئی بار سوال کرنے کے بعد وہ آسامی زبان میں بتاتی ہیں کہ ’’میرا ووٹ سونت پور میں درج ہے۔ بی جے پی اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیا تو اس نے میرا گھر اُجاڑ دیا‘‘۔ اسی کیمپ میں ۶۰ سالہ واحد علی نے بتایا کہ ان کا گھر اس سے قبل نوگاؤں میں تھا اور میں ۱۲ سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی اُمیدوار نے میرا مکان گرا دیا ہے کیونکہ میں نے اس کو ووٹ نہیں دیا تھا‘‘۔ کھلے آسمان تلے کیمپ میں مقیم خواتین اور بچوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ریاستی اسمبلی کے لوگ ان کیمپوں میں گھس کر ان کی عزت پر بھی حملہ نہ کردیں‘‘۔
ضیاء الرحمان سے جب پڑھائی کا پوچھا تو اس نوجوان نے سخت غصّے میں کہا: ’’ہم کیمپ میں کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ ہمیں بنگلہ دیشی کا ٹھپہ لگا کر بے گھر اور بے زمین کر دیا گیا ہے، ہم اسکول جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں پتا کہ زندگی کیسے گزرے گی؟ ہم میں زیادہ تر لوگ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ ہمارے گھر ہم سے چھین لیے گئے۔ پہلے قریب کے گاؤں میں کام مل جاتا تھا، لیکن جب سے حکومت این آر سی اور نیا قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) لے کر آئی ہے، ہم سب بیکار پڑے ہیں‘‘۔
آٹھویں میں پڑھتی سمون نشا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن اب اس کے لیے اسکول کی تعلیم ختم ہوگئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اسکول کیمپ سے بہت دور ہے۔ اب کیسے جا سکیں گے؟‘‘ اسی طرح نیہا آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے ، اس نے بتایا کہ: ’’اسکول میں سب مجھے بنگلہ دیشی سمجھتے ہیں‘‘۔ یوں ان بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب ان بچوں کے والدین کو وہاں سے بے گھر کر دیا گیا ہے، اگرچہ ان تمام لوگوں کے پاس اس زمین سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ اس کی طرف متوجہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر منویندر پرتاپ سنگھ کہتے ہیں: ’’اگر ان کے پاس دستاویز ہے تو انھوں نے یہ زمین غیر قانونی قبضہ کار سے خریدی ہے، کیونکہ یہ ایک سرکاری اراضی ہے‘‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وجہ ہے کہ: ’’صرف چند منتخب مکانات کو چُن چُن کر منہدم کیا گیا ہے، جب کہ ان کے بالکل بازو کے مکانات محفوظ ہیں۔ کیا یہ سرکاری اراضی نہیں ہے؟‘‘ اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ سماجی کارکن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ’’پہلے تو یہ بیچارے قدرتی آفات کا شکار ہوئے۔ جیا بھرولی ندی نے ان کی زمین اپنے اندر سمو لی اور اب حکومت کے کارندے ان سے ان کی زمینیں چھین رہے ہیں۔ کسی کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہاں کا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ جیا بھرولی ندی لوگوں کی زمین کس طرح چھینتی ہے‘‘۔ اشفاق حسین نے مزید بتایا کہ ’’اگر یہ لوگ واقعی بنگلہ دیشی ہیں تو حکومت کو فوری طور پر انھیں پکڑ کر بنگلہ دیش بھیجنا چاہیے۔ اور اگر وہ نہیں بھیج رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہندستانی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو ان کے لیے رہایش کا بندوبست کرنا چاہیے۔ جبری پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ کب تک کیمپ میں قیام پذیر رہیں گے؟ ایک بار بارش شروع ہونے کے بعد تو وہ کیمپ میں رہنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ادارے یہاں کے تین کیمپوں میں لوگوں کو ریلیف کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔سماجی کارکن عبدالقادر کہتے ہیں، ’’سونت پور ضلع کا سوتیا اسمبلی حلقہ ایک مثال ہے کہ کس طرح سے آسام میں مسلمانوں کو حکومت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے؟ کس طرح سے مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور کس طرح سے حکومت ہندوتوا ذہنیت کو بڑھاوا دے رہی ہے؟‘‘ ۲۶ برس کے شاہ جمال کہتے ہیں: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔ اس علاقے کے کچھ مسلمان یہاں کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا کے ساتھ بی جے پی میں ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ آج ان کے گھروں کو گرایا گیا ہے، کل ان کا نمبر بھی آئے گا‘‘۔
مسلم بستیوں کو اجاڑنے کی اطلاع ملنے پر ۲۲ دسمبر کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری محمد احمد نے آسام کے ان علاقوں کا دورہ کیا، اور بے دخل کیے گئے سبھی خاندانوں سے ملاقات کی اور متاثرین کو ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جماعت اسلامی ہند اَپر آسام ڈویژن کے اشفاق اللہ حسین اور بذل الباسط چودھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ جماعت کی ٹیم نے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں متاثرہ خاندان کے گھر تھے اور جنھیں منہدم کر دیا گیا ہے۔ ٹیم کی جمع کردہ معلومات سے پتا چلا کہ یہ لوگ آسام ہی کے شہری ہیں اور ان کے نام بھی این آر سی میں شامل ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ’’ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اور ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
یہ غریب مسلمان قدرتی آفات اور نفرت کی مار ایک ساتھ جھیل رہے ہیں۔ یہ مجبور و بے کس کھلے آسمان تلے اپنے دن کاٹ رہے ہیں۔ سرپر منڈلاتے خطرات اور مستقبل کے اندیشے ان کی زندگیوں پر مہیب سایے بن کر چھائے ہوئے ہیں۔
این آر سی کے خلاف اور حمایت میں فی الحال پورے بھارت میں مہمات چل رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) میں دہشت گردی اور اس میں آر ایس ایس کی فسطائی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (ABVP:اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے ملوث ہونے کے ثبوت ذرائع ابلاغ کی زینت بننےلگے ہیں۔ ان دونوں واقعات کے زیر اثر ملک میں سیاسی رجحان ایک خاص انداز میں بدل رہا ہے۔ اس کو وارانسی کی سنسکرت یونی ورسٹی کے انتخابات اور ممبئی میں گیٹ آف انڈیا پر ہونے والے غیر معمولی مظاہرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اترپردیش میں بی جے پی کا جلاد صفت یوگی اقتدار پر قابض ہے۔ جس نے ابھی حال میں مظاہروں کو کچلنے کی نا کام کوشش کی اور ہار گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مودی، یوگی اور امیت شا ایسی قانون سازی سے ہندو عوام کا دل جیتنے میں جٹے ہوئے تھے۔ مہم اپنے شباب پر پہنچی تو وارانسی میںواقع سنسکرت یونی ورسٹی کے اندر طلبہ یونین کا انتخاب ہوا، جس میں اے بی وی پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا نے اے بی وی پی کو چاروںشانے چت کر دیا۔ ان انتخابات میں خود ہندو طلبہ نے سنگھیوں کی چتا جلائی کیونکہ سنسکرت تو شاید ہی کوئی مسلمان پڑھتا ہے۔
بنارس ہندو یونی ورسٹی میں پروفیسر فیروز خان کا تقرر زعفرانی طلبہ کو اس قدر ناگوار گزرا کہ وہ ہنگامے کرنے لگے۔ حالانکہ یونی ورسٹی انتظامیہ نے ضروری ٹیسٹ اور انٹرویو لینے کے بعدہی پروفیسر صاحب کو یہ عہدہ دیا تھا، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔سنگھی طلبہ کا الزام تھا کہ ہماری تہذیب سے بیگانہ شخص ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟ راجستھان کے پروفیسر فیروز خان نے بتایا ’’جب میں نے سنسکرت کی تعلیم لینی شروع کی تو کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ میرے محلے میں ۳۰ فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ خودمسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی میری سنسکرت کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ مسلم سماج نے بھی مجھے کبھی سنسکرت سے دُور رہنے کے لیے کہا‘‘۔ یعنی اپنی رواداری کا ڈھول پیٹنے والے ہندو سماج کے مقابلے میں کہیں زیا دہ مسلمان معاشرہ کشادہ دل، روشن خیال اور روادار ہے۔
سنسکرت یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابی نتائج میں اترپردیش کے اندر ٹھاکروں کی دادا گیری کے خلاف بیزاری کا اظہار ہے۔ اترپردیش کے یوگی راج میں خوف و دہشت کے ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ بات کا فی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد یونی ورسٹی وائس چانسلر نے منتخب طلبہ کو کامیابی کا جلوس نکالنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی کامیابی اگر اے بی وی پی کے حصے میں آتی تو کیا وائس چانسلر یہ مشورہ دینے کی جرأت کرتے؟ اور اگر اعلان ہو بھی جاتا، تو کیا سنگھی طلبہ ان کی بات پر کان دھرتے؟
ہندستان کے اندر برہمنوں کی سب سے بڑی آبادی اترپردیش میں رہتی ہے۔ صوبے کے ۲۰ کروڑ باشندوں میں ۱۰ فی صد یعنی ۲ کروڑ برہمن ہیں۔ ایک عرصے تک یہ لوگ کانگریس میں رہ کر اقتدار میں رہے۔ بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کی پارٹی ہے۔ گذشتہ انتخاب میں اس نے ممبئی، پونے، ناگپور، احمدآباد، سورت، بڑودہ اور دہلی کی ساری سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ ان شہروں کا نوجوان طبقہ ہے جو مودی کے پیچھے ہلکان ہوا جا رہا تھا لیکن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور دہلی کی جے این یو اور جامعہ ملیہ نے نقشہ بدل دیا۔ اس تشدد کے خلاف ملک بھر کے دیگر مقامات کے ساتھ ان شہروں میں بھی احتجاج ہوا ۔ ممبئی میں اگست کرانتی میدان پر ہونے والے مظاہرے کو غیرمعمولی کامیابی ملی۔ اس میں غیر مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس کے بعد آزاد میدان پر بھی نوجوانوں کا احتجاج بہت کامیاب ہوا۔ گیٹ آف انڈیا کا ۴۰گھنٹوں تک گھیراؤ تو ایک ناقابلِ تصور واقعہ تھا، اور اسی طرح باندرہ کے کارٹر روڈ پر ہزاروں لوگوں کا سڑک پر آجانا حیرت انگیز تھا۔ ان تمام مظاہروں کی قیادت نوجوان کر رہے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ طبقہ بی جے پی کے نسل پرستانہ سحر سے نکل رہا ہے اور اس کو سبق بھی سکھانا چاہتا ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف پس ماندہ طبقات میں بڑھتا اضطراب ایک بڑی لہر کا پتا دے رہا ہے۔ بی جے پی والوں نے پہلے مسلمانوں پر ہجومی تشدد کیا اور اس کے بعد یہ معاملہ دلتوں تک جاپہنچا ہے۔ آگے چل کر اشتراکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اب یہ لڑائی پارٹی کے اندر پس ماندہ ذاتوں تک پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر کے دیہات میں یہی طبقات بی جے پی کی قوت کا سرچشمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فسطائی جماعت نے بیک وقت پورے سماج کے خلاف نسلی جنگ چھیڑ دی ہے۔
یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے کہ ایران میں اور پھر ۲۳برس بعد ۲۰۱۱ء میں عرب ملکوں، تیونس، مصر اور لیبیا کے عوام اپنے ہاں جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب کے پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا۔ کہیں یہ انقلاب کامیاب ہوا اور کہیں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش اور خلیجی ملکوں کی پشت پناہی سے یہ انقلاب اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ جو منظر ان عرب ممالک میں چند سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا، وہی منظر اب بھارت میں دیکھنے میں آرہا ہے ، جس کے طول وعرض میں احتجاج کی لہر اُٹھ رہی ہے۔ یونی ورسٹیوں کے طلبہ اور خواتین کا اس میں قائدانہ کردار ہے۔
حدیث نبویؐ کی روشنی میں انسان کو نہ تو ظالم ہونا چاہیے اور نہ مظلوم۔ ظلم کا مقابلہ کرنا ایک دینی قدر ہے۔ جو نوجوان حکومت کے ظلم کو روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ ہرخاص و عام میں یہ احساس پختہ تر ہے کہ اگر اس وقت مزاحمت نہ کی گئی، تو اس ملک میں اقلیتوں کو لوحِ ایام سے مٹا دیا جائے گا ۔ پھر نہ مسجدیں رہیں گی، نہ گرجے اور نہ مدرسوں کا وجود باقی رہے گا۔ ہجومی تشدد، جے شری رام کے نعرے، تین طلاق کا قانون ،دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی منسوخی، بابری مسجد، اور اب شہریت کے قانون میں ترمیم کا ایکٹ، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاجارہا ہے۔ اگر ظلم کی اس سیاہ رات کے خلاف پوری طاقت سے عوام نہیں کھڑے ہوں گے تو اس ملک کو ایک نیا اسپین اور ہندو راشٹر بنانے کا خواب پورا ہو گا ۔
اس منظر نامے کی ایک قابلِ ذکر خاص بات یہ ہے کہ معروف علما یا مذہبی قیادت کا کردار اس میں قائدانہ نہیں ہے۔ جب پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونجنے لگا تو پھر کچھ علما جو پہلے بی جے پی کی بولی بول رہے تھے، وہ بھی نئے قوانین کے خلاف لب کشا ہوئے۔ حالانکہ ظلم اور ناانصافی کی مخالفت میں پہلی آواز تو انھی کی بلند ہونی چاہیے تھی۔ جیساکہ شاہ بانوکیس میں احتجاج منظم کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریک خلافت اور بھارت چھوڑو تحریک میں علما نے بڑے بڑے احتجاج منظم کیے تھے۔ ایران اور پھر بہار عرب کی قیادت دینی شخصیات نے کی تھی۔ بعدازاں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ،جو اپنے ملکوں میںاستبدادی نظام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کو پسند نہیں تھا کہ عرب اور مسلم ملکوں میں جمہوریت آئے ،شریعت کا نفاذ ہو، اور استبدادی نظام کا خاتمہ ہو ۔ دولت مند خلیجی ملک بھی اپنی اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ردِ انقلاب کی کوششوں کے ساتھی بن گئے۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا اور انقلاب کی کوشش ناکام ہوگئی ۔
بھارت کی موجودہ احتجاجی تحریک یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جرأت مندانہ اور سرفروشانہ انداز میں چلارہے ہیں۔ اس سے حکومت کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ بھی حکومت کا ہم نوا نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک آثار موجود ہیں کہ کچھ مؤثر علما اس احتجاج کو بھی محض ایک سیاسی کام سمجھتے ہیں۔یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ طبقۂ علما میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بصیرت اور اندیشۂ فردا سے محروم ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑاہونا ایک دینی قدر ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے: اِنَّ النَّاسَ ا ِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَم یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَوْشَکَ اَن یَّعُمَّہُمُ اللہُ بِعِقَابٍ مِنْہُ [الترمذی، ابواب الفتن، حدیث:۲۱۴۵] ’’ لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، توقریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے‘‘۔
بھارت میں ۷۰ ہزار کروڑخرچ کرکے این آر سی، یعنی رجسٹریشن کا قومی ترمیمی قانون لایا گیاہے۔ جس کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ۵ لاکھ ہندووں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کو نظربند کیمپوں میں رکھا جائے گا یا ان کو ملک بدر کردیا جائے گا ۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے وہ دستاویز طلب کی جائیں گے، جن کا مہیا کرنا تقریباً ۲۵ فی صدی آبادی کے لیے مشکل ہوگا۔ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو ان کو شہریت مل جائے گی، اور مسلمان ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جب قانون کا یہ طبلِ جنگ بجا تو کم نظر مسلم قیادت اپیل کرتی رہی،’’ مسلمان شہریت کا دستاویزی ثبوت تیار رکھیں‘‘۔ایسی تیرہ و تار فضا میں سب سے پہلے جامعہ ملیہ، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ساتھ ہی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) اور دیگر یونی ورسٹیوں کے طلبہ نے بیداری اورزندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ’’ جوانوں کو پیروں کا استادکر‘‘۔ ان شاہین صفت بچوںنے سال خورد عقابوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے، جن کو اپنا اور مسلمانوں کا مستقبل عزیز ہے ۔شاہین باغ کی مسلم خواتین نے بھی فسطائیت کے خلاف اس جنگ میں حصہ لیا ہے ۔
مسلمان نوجوان طلبہ، غیر مسلم قائدین کو بھی ساتھ لے کر میدان میں آگئے کہ اُمید کے چراغ بجھنے لگے تھے۔ انھوں نے نوجوانوںکی شیرازہ بندی کی، اور انصاف پسند ہم وطنوں کو ساتھ لیا۔ ایک طرف نوجوانوں کا عزم جواں ہے، دوسری طرف ظلم وستم کا کوہ گراں ہے۔ اس صورتِ حال میں ایمان، تقویٰ اور صبر، تینوں سے مل کر کامیابی کا راستہ نکلتا ہے۔
قرآن کریم سے اور سیرت نبویؐ کے مطالعے سے دین کا جومزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’صرف مسلمانوں کی اصلاح کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی عاقبت بخیر ہونے کی فکر کی جانی چاہیے‘‘۔ مسلمانوں کو خیر امت اس لیے کہا گیا تھا کہ ان کو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث کیا گیا تھا: اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ۔ لیکن بیش تر علما نے اپنے خطبات میں معنوی اور عملی تحریف کرڈالی اور اسے اُخْرِجَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ کا مترادف سمجھ لیا ۔تمام انبیاے کرامؑ کے بارے میں آیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۰ۭ [ابراہیم ۱۴:۴، ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ قوم کے سامنے حق واضح کریں]۔
آج، جب کہ ہزاروں مدارس سے بڑی تعداد میں علما تیار ہوتے ہیں، اور وہ صرف مسلمانوں کو خطاب کرنے کے لائق ہیں۔ مسلمانوں کی جماعتیں بھی صرف مسلمانوں کے درمیان کام کرتی ہیں اور ملک کے دوسرے لوگوں سے ان کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ۔علما کو بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کی بہت فکر ہے مگر ۱۰۰کروڑ سے زیادہ اللہ کی مخلوق کی کچھ فکر نہیں۔ ایک شخص کے تین بیٹے ہوں: ایک صحت مند ہو (مسلمان کی تمثیل)،دو بیمار ہوں ( کافر اور مشرک)، تو کیا اس کے لیے درست ہوگا کہ وہ بیمار بیٹوں کے علاج کی فکر نہ کرے اور ان سے لاپروا ہوجائے۔ یقین کرنا چاہیے کہ آج جو حالات پیش آرہے ہیں، وہ ہماری صدیوں کی غلطیوں کاشاخسانہ ہیں۔ ہمارا انداز اور طرزِ فکر مزاج نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ علماے دین کی بڑی تعداد اس بنیادی طرزِ فکر سے دُور ہے۔اس وقت عام بھارتیوں تک دین کی دعوت پہنچانے سے پہلے ان کو خدمت خلق یا کسی اور عنوان سے اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے عمومی رابطے اور حُسنِ سلوک کے ذریعے اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ [المؤمنون ۲۳:۹۶] کا تصور جاگزیںکرنا چاہیے کہ مسلمان اچھا شہری ، اچھا پڑوسی، ایک اچھا انسان ہوتا ہے، شریف، خوش اخلاق اور مہذب۔ ہم نے یہ کام صدیوں سے نہیں کیا ہے۔ اس لیے دشمن عناصر کو یہ موقع مل گیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہر لوگوں کے رگ وپے میں اتار دے۔
شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف احتجاج بہت خوش آیند ہے۔ البتہ سب سے اہم کام یہی ہے کہ عام لوگوں کی غلط فہمیاں دُور کی جائیں۔ ہرمسلمان تنظیم کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اپنے یہاں شعبہ قائم کرے۔ اگر یہ طویل مدتی منصوبہ دوسرے مختصر مدتی منصوبوں کے ساتھ اختیار نہیں کیا گیا، تو بھارت میں مسلمان دوسروںکے ظلم وستم ہی کا ماتم کرتے ر ہیں گے۔ جن ملکوں میں مسلمان ۸۰،۹۰ فی صدی اکثریت میں ہوں وہاں اس ناقابلِ فہم غفلت کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، لیکن جہاں چاروں طرف غیر مسلموں کا عددی غلبہ ہو، وہاں غیرمسلموں کو نظرانداز کرنا انبیائی طریقۂ دعوت نہیں ہے ۔اگر یہ ضروری کام نہیں انجام پایا تو منزلِ مقصود حاصل نہ کی جاسکے گی ۔