دین اسلام میں مسجد ایک انقلابی ادارہ ہے اور مسلم معاشرے میں اس کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے۔ جب تک قلب متحرک ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب کمزور پڑجاتا ہے تو جسم بھی شل ہوجاتا ہے۔ مسجد نہ تو اتوار کے اتوار سرگرم ہونے والا چرچ ہے، نہ محض یومِ سبت کو گریہ و زاری کرنے والا معبد، اور گنتی کے چند مخصوص اوقات اور دنوں میں پوجا پاٹ کیا جانے والا مندر، بلکہ دن رات کے کسی بھی لمحے نہ صرف فرض نمازوں، سنتوں، نوافل، اعتکاف اور قیام و سجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت، تربیت، دعوت اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مرکز ہے، جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔
مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے اپنے دست ِ مبارک سے مسجد قبا تعمیر کی اور یہاں پہلا جمعہ ادا کیا۔ اس کے بعد اپنے گھر تک کی تعمیر سے پہلے مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی اور اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قراردیا۔
امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں مسجد کے احکام و آداب اور اس کے استعمال کے دائرے کی تفصیل ۵۰ سے زائد ابواب باندھ کر بیان کی ہے، جس سے مسجد کی اہمیت، اس کے استعمال کا وسیع دائرہ اور معاشرے میں اس کے مقام و مرتبے کے علاوہ انسانیت کی خدمت کا پتا چلتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسجد نبویؐ قیامت تک کے لیے اُمت مسلمہ کے لیے ایک مینارئہ نور اور اسوئہ نبویؐ کا عملی نمونہ ہے۔ اس کسوٹی پر ہم اپنے معاشرے میں مساجد میں ہونے والے اُمور کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اسے معاشرے میں عبادت، تربیت اور خدمت کا مرکز اور محور بنانے کے بجاے اسے مصنوعی تقدس دے کر نہ صرف مسلم معاشرے کو بلکہ پوری انسانی سوسائٹی کو اس کے حقیقی فوائد و ثمرات سے محروم کر دیا ہے۔ اس کی ظاہری بناوٹ، سجاوٹ اور صفائی و ستھرائی کی ماشاء اللہ بھرپور کوشش کی جاتی ہے لیکن اسے مسجد نبویؐ کی طرح حرکت و عمل اور مرجعِ خلائق کا ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ بنانے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
اسلام کے دورِ عروج میں مساجد کا یہی حرکی کردار مسجد نبویؐ کی طرح پوری دنیا میں پایا جاتا تھا۔ یہاں صرف مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ اس کسوٹی اور معیار کی روشنی میں ہم اپنی مساجد کی تعمیر، ان میںتعلیم و تربیت اور خاص طور پر اُمت اور انسانیت کی ضروریات اور خدمت ِ خلق کے اہم کاموں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور مسجد کے انقلابی کردار کو بحال کرنے کی سعی و جہد کریں:
مسجد نبویؐ کے اندر ’صفہ‘ نام کا ایک مقام تھا، جو تعلیم کے لیے مخصوص تھا۔ صفہ چبوترے یا پلیٹ فارم کو کہتے ہیں۔ مسجد کے ایک حصے میں ڈائس کے طور پر ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا، جو دن کے وقت تعلیم گاہ کا کام دیتا اور رات کے وقت بے گھر لوگوں کے لیے سونے کی جگہ۔ گویا یہ پہلی اقامتی (residential) یونی ورسٹی تھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی۔
پہلے ہی دن سے شہر کے باشندے بھی وہاں آنے لگے۔ بے خانماں لوگ حصولِ تعلیم کے لیے وہیں رہتے تھے۔مختلف لوگوں کی ضرورتوں کے پیش نظر مختلف قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جو لوگ بالکل ہی اَن پڑھ تھے ان کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ۔ اہلِ مدینہ اپنی انتہائی فیاضی کے باعث یہ کرتے تھے کہ جب کھجوروں کی فصل تیار ہوتی تو ہرشخص کھجوروں کا ایک ایک خوشہ تحفے کے طور پر لاتا اور اسے مسجد نبویؐ کے اندر صفہ میں لٹکا دیتا۔ ان میں سے کھجوریں گرتیں تو صفہ میں رہنے والے غریب مسلمان انھیں کھاتے۔ ان خوشوں کی حفاظت کے لیے بھی ایک شخص مقرر کیا گیا تھا۔
حضرت معاذ بن جبلؓ جب اپنی انتہائی فیاضی کے سبب مقروض ہوگئے تو قرض کی ادایگی کے سلسلے میں انھیں اپنا مکان تک فروخت کر دینا پڑا۔ انھیں بھی رہنے کے لیے صفہ میں جگہ دی گئی اور ان پر یہ ذمہ داری بھی ڈالی گئی کہ وہ ان خوشوں کی نگرانی کریں۔ اصحابِ صفہ کے لیے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرسے اور کبھی مختلف صحابہؓ کی طرف سے کھانے کا انتظام ہوتا ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے ایک دن اہلِ صفہ کے ۸۰ آدمیوں کو کھانے کی دعوت دی۔ (حلیۃ الاولیاء، طبقات الاصفیاء)
ایک دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرئہ مبارک سے نکل کر مسجد کے اندر آئے اور دیکھا کہ دو گروہ ہیں: ایک گروہ تسبیح پڑھنے اور ذکر و اذکار میں مشغول تھا اور دوسر ا گروہ علم حاصل کررہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’اگرچہ دونوں اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ گروہ بہتر ہے جو تعلیم کا کام کر رہا ہے‘‘۔ پھرآپؐ بھی اس دوسرے گروہ میں شامل ہوگئے۔
اصحابِ صفہ کو تعلیم و تربیت کے علاوہ فوجی کام بھی کرنے پڑتے تھے، مثلاً بعض اوقات کسی قبیلے کے خلاف تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی، یعنی دشمن کو سزا دینے یا تعاقب کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا۔ اسی تربیت گاہ سے بڑی بڑی شخصیتیں تیار ہوئیں۔ مشہور فقیہ عبداللہ بن مسعودؓ، مشہور قاری سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ، مشہور محدث عبداللہ بن عمرؓ، مشہور زاہد ابوذر غفاریؓ، صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ، ابودرداؓ، حضرت ابن مکتومؓ ، مؤذنِ رسولؐ حضرت بلالؓ، غسیل الملائکہ حضرت حنظلہؓ، فاتح عراق سعد بن ابی وقاصؓ، فاتح آرمینیا حضرت حذیفہ بن الیمانؓ وغیرہ۔
تعلیم ہی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی جسمانی تربیت کا بھی انتظام فرمایا۔ آپؐ ہمیشہ لوگوں کو ورزش کی ترغیب دیتے۔ نشانہ بازی کی مشق بھی ہوتی تو خود بھی وہاں جاتے اور اپنے سامنے گھڑ دوڑ، اُونٹوں کی دوڑ اور آدمیوں کی دوڑ کراتے، کشتی کے مقابلے کرواتے اور مختلف طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
آج بھی مسجد نبویؐ کے شمالی دروازے کے پاس ایک مسجد ہے ، جس کا نام’مسجد سبق‘ ہے۔ سبق کے معنی مسابقت میں حصہ لینا ہے۔ آپؐ اس جگہ بلندی پر کھڑے ہوتے اور جب گھڑسوار گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرماتے کہ کون سا گھڑسوار پہلے نمبر پر ہے اورکون سا دوسرے نمبر پر۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ پانچ اوّل آنے والے گھڑسواروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انعام دیا کرتے تھے۔ کبھی کھجور کی شکل میں کبھی کسی اور چیز کی صورت میں۔
مسجد نبویؐ کے منبر پر جہاں جمعے کا خطبہ اور مختلف اوقات میں آپؐ کے خطبات و ارشادات کا معمول تھا، وہیں ادب اور شعروشاعری کی محافل بھی منعقد ہوتی تھیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر اصحاب رسولؐ حمدِ خدا، مدحِ رسولؐ ، توصیف ِ اسلام اور جاہلی دور کے واقعات اور ادبی ذوق پر مشتمل اشعار بھی پڑھتے تھے۔ بخاری میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔
مدینہ میں حبشیوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی، جو نیزہ بازی اور دیگر جسمانی ورزشوں اور کھیلوں کا اہتمام خاص موقعوں پر کرتے تھے۔ عید کے دن ایک مرتبہ آپؐ نے مسجد نبویؐ میں حبشیوں کے کرتبوں پر مشتمل کھیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دکھائے جو آپؐ کی اُوٹ میں دیکھتی رہیںاور جب تھک گئیں تو واپس اپنے حجرے میں چلی گئیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی اہم مالی معاملہ پیش آتا اور نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے بعد اور اگر نماز کا وقت نہ ہوتا تو الصلٰوۃ الجامعۃ کا اعلان کر کے لوگوں کو جمع فرماتے اور معاملہ ان کے سامنے رکھتے۔
ایک دوپہر کو قبیلہ مضر کے لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جو تقریباً ننگے بدن، کمبل یا عبا لپیٹے ہوئے اور گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ ان کے فقر اور فاقے کی یہ حالت دیکھ کر آپؐ کا چہرئہ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر باہر نکلے اور حضرت بلالؓ کو اذان دینے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ حضرت بلالؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی، آپؐ نے نماز پڑھائی۔
پھر آپؐ نے حاضرین کو خطاب فرمایا۔ سورئہ نساء کی پہلی آیت اور سورئہ حشر کی اٹھارھویں آیت پڑھی اور اس کے بعد فرمایا: ’’ہرشخص اپنے دینار و درہم، کپڑے، گندم اور جَو کی مقدار میں سے صدقہ و خیرات کرے‘‘۔ پھر فرمایا: (خیرات کرو) چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ لوگ آتے گئے اور کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگ گئے،جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا دیکھا گیا۔ آپؐ نے قبیلہ مضر کے ان افراد کی بھرپور مدد کی۔
اسی طرح ایک انصاری صحابیؓ کا واقعہ ہے جو آپؐ کے پاس سوال کرنے کے لیے آئے۔ آپؐ نے پوچھا: ’تمھارے گھر میں کچھ نہیں ہے‘۔وہ بولے: ’کیوں نہیں، ایک کمبل ہے۔ کچھ اس میں ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’دونوں چیزیں ہمارے پاس لے آئو‘۔ وہ گئے اور دونوں چیزیں لے کر آئے۔ آپؐ نے ان دونوں کو ہاتھوں میں لیا اور فرمایا: ’کون خریدتا ہے ان دونوں چیزوں کو؟‘ ایک شخص بولا: ’میں لیتا ہوں دونوں کو ایک درہم کے بدلے میں‘۔ آپؐ نے پھر دو یاتین بار فرمایا کہ: ’’کون ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟‘ آخر آپؐ نے نیلام کے ذریعے دو درہم میں دونوں چیزوں کو فروخت کر دیا اور اس انصاری صحابیؓ سے فرمایا کہ: ’ایک درہم کا اناج لے کے اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لائو‘۔ پھر اس کلہاڑی میں ایک دستہ اپنے ہاتھ سے ٹھوک کر فرمایا: ’جائو لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن بعد آنا۔ وہ صحابی گئے اور وہی کام کیا۔ پندرہ دن بعد انھوں نے دس درہم کما لیے تھے۔ کچھ درہم کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ۔ آپؐ نے انھیں نصیحت فرمائی کہ یہ کام ان کے لیے سوال کرنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ، ابوداؤد)
اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور کے مائیکروفنانس(Micro Finance) کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ کسی شخص کے پاس جتنی کچھ بچت ہے، اسے کارآمد اور نفع بخش کمائی کا ذریعہ بنانا اور اس کے لیے رہنمائی فراہم کرنا اور اپنی معمولی بچت و حقیر سرمایے سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہی دراصل کامیابی کا راز ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی معمول تھا کہ نمازِ فجر اور عصر میں سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتے اور غیرحاضر اصحاب کے بارے میں دریافت کرتے اور اس کی وجہ جان کر ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش فرماتے۔
مسجد نبویؐ میں مجاہدین کے لیے فوجی ہسپتال قائم تھا، جس میں ان کا علاج کیا جاتا تھا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی ہوتی تھی۔ اس کام کی حضرت رفیدہؓ ذمہ دار تھیں جو زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ مسجد میں اس مقصد کے لیے بنی غفار کا خیمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔ جنگ ِ خندق کے موقعے پر حضرت سعد بن معاذؓ، جب شدید زخمی ہوگئے تو ان کے لیے خیمہ لگایا گیا تاکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیکھ بھال کرسکیں۔ (بخاری)
نجران کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے نہ صرف مسجد میں ان کی مہمان نوازی کی بلکہ عیسائی وفد کو جس کے افراد کی تعداد ساٹھ تھی، انھیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے سے عبادت بھی کریں۔ اسی طرح قبیلہ ثقیف کا وفد آیا تو آپؐ نے نہ صرف ا ن کو مسجد میں بحیثیت مہمان ٹھیرایا بلکہ ان کے لیے مسجد نبویؐ میں ایک خیمہ نصب فرمایا اور ان کی تکریم کے لیے کئی صحابہؓ آگے بڑھے۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے ان کی خدمت کے لیے بارگاہِ نبویؐ میں درخواست دی تو فرمایا کہ ان کی خدمت و تکریم سے تم کو نہیں روک رہا ہوں لیکن انھیں ایسی جگہ ٹھیرائو جہاں سے وہ قرآن سن سکیں۔ اس وفد میں ان کے سردار ابنِ عبدیالیل بھی تھے، جنھوں نے سفرطائف کے موقعے پر آپؐ سے بدسلوکی اور شہر کے لڑکوں اور غلاموں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا کہ وہ آپؐ کی تضحیک و تحقیر کریں۔ انھوں نے آپؐ پر کیچڑ پھینکا اور پتھروں کی بوچھاڑ سے زخمی کر دیا۔ پیشانی مبارک کے خون نے بہہ کر پاے مبارک کو رنگین کر دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں:
آپؐ نے ان سخت بُت پرست اور اسلام کی عداوت میں سنگ دل لوگوں کو مسجد میں ٹھیرایا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جس قبیلہ طائف کو مسلمانوں کی منجنیق ۴۰ دن تک سنگ باری کرکے فتح نہ کرسکی اس کے بسنے والوں کے دلوں کو آں حضرتؐ کے خلق عظیم، اسلام کی مصلحت، مسجد کے قیام اور اسلامی عبادت کے نظارے نے چند گھنٹوں کے اندر فتح کرلیا۔ لوہے کی تلوار کو سر پر روکا جاسکتا ہے لیکن محبت کی تلوار کے لیے کوئی سپر نہیں۔(جامع الشواہد،ص ۱۹)
دورِ نبویؐ میں عورتیں فرض نمازوں کی ادایگی کے لیے مسجد نبویؐ میں آیا کرتی تھیں۔ آج بھی مسجدنبویؐ میں باب النساء موجود ہے ، جہاں سے ان کا داخلہ ہوتا تھا۔ بعض مرتبہ مردوں کو خطاب کرنے کے بعد آپؐ خصوصی طور پر عورتوں کے پاس آتے اور انھیں نصیحت فرماتے۔
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس دور میں عورتیں عام طور پر فجر، مغرب اور عشاء کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپؐ نماز کے بعد عورتوں کی طرف تشریف لائے اور انھیں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی۔ عورتوں نے اپنے گلے اور کانوں کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اپنے زیور اُتار کر حضرت بلالؓ کو دے دیے۔ بچے بھی بالعموم عورتوں کے ساتھ آتے تھے۔ بچوں کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ نماز کو مختصر کر دیتے تھے۔ نواسۂ رسولؐ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا مسجد میں آنا اور اپنے ناناؐ کی گود میں بیٹھنا بھی مشہور ہے۔
جہاد کا سامان مسجد نبویؐ میں جمع ہوتا تھا اور مجاہدین کو دیا جاتا تھا۔ جنگ ِ تبو ک کے موقعے پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے تعاون کی اپیل کی، تو حضرت ابوبکرؓ نے گھر کا پورا اثاثہ لاکر پیش کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے گھر کا آدھا سامان پیش کیا۔ بعض غریب صحابیؓ محنت مزدوری کرکے اور ایک صحابیؓ نے رات بھر کھیت میں کام کرکے مٹھی بھر کھجوریں پیش کیں تو آپؐ نے سامان کے ڈھیر کے اُوپر اس کو بکھیر دیا۔ بعض اوقات مالِ غنیمت، انفال اور ہدیہ کا مال بھی مسجد نبویؐ میں آتا اور حق داروں میں تقسیم کیا جاتا۔ اگر مال ایک دن میں تقسیم نہیں ہوتا تو آپؐ اس رات گھر تشریف نہیں لاتے بلکہ مسجد میں ہی قیام فرماتے تھے۔
مسجد کو قضا اور عدالت کے لیے مرکز بنانے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا۔ آپؐ مسجد میں فیصلے فرماتے، اور متعدد مدعی اور مدعا علیہ، ان کے گواہ اور دوسرے لوگ مسجد میں حاضر ہوتے ، جہاں ان کے بیانات لیے جاتے تھےاور فیصلہ سنایا جاتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ کھلی عدالت تھی، جس میں ہر شخص عدالتی کارروائی سننے اور دیکھنےآسکتا تھا۔
آپؐ نے عدالتی فیصلے مسجد میں کیے۔ جیسے فاطمہ مخزومی کی چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ اور غامدیہ کے رجم کا فیصلہ۔ بنی قریظہ قبیلہ کے قلعے کے محاصرے کے دوران ان کے سرداروں نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ صحابی رسول ابولبابہؓ کو ان کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ مشورہ کر کے کوئی فیصلہ کریں۔ ابولبابہؓ جب اس قبیلے کے پاس پہنچے تو عورتیں اور بچے دھاڑیں مارمار کر رونے لگے اور اس کیفیت کو دیکھ کر ان پر رقّت طاری ہوگئی۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ ہتھیارڈال دیں لیکن ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائے گا، لیکن انھیں فوراً احساس ہوا کہ ان کا اس طرح اشارہ کرنا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت ہے اور اپنے آپؐ کو مسجد نبویؐ کے ایک ستون سے باندھ لیا اور قسم کھائی کہ اب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اپنے دست ِ مبارک سے کھولیں گے۔ ابولبابہؓ چھے رات مسلسل ستون سے بندھے رہے۔ اس کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور آپؐ نے انھیں کھول دیا۔ (تفسیر الرازی، سورئہ انفال ۸:۲۷-۲۸)
ثمامہ بن اثالؓ جو قبیلہ بنوحنیفہ کے ایک سربرآوردہ رئیس اور علاقہ یمامہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے خبری میں اچانک حملہ کر کے کام تمام کرنا چاہتے تھے، لیکن صحابہ کرامؓ کے ایک فوجی دستے نے گرفتار کر کے مدینہ لاکر مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ آں حضوؐرنے جب ثمامہ کو دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ ان کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آنا اور پھر گھروالوں سے کہا کہ جو کچھ کھانا موجود ہے ، جمع کر کے ان کے پاس بھیج دیں اور ہدایت فرمائی کہ آپؐ کی اُونٹنی کا دودھ صبح و شام دوہ کر پیش کریں ، تاکہ ثمامہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ دو دنوں کے بعد آپؐ نے انھیں رہا کر دیا۔ اس کے بعد ثمامہ نے اسلام قبول کرلیا اور مرتے دم تک سچے اور مخلص مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزاری۔(بخاری، حدیث: ۴۳۷۲)
یہاں مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے اس لیے پیش کیا گیا ہے، تاکہ ہم موجودہ دور کی مسجدوں سے ان کا موازنہ کر کے دیکھیں کہ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ آج ہماری مسجدیں صرف خالق کی عبادت کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان میں مخلوقِ خدا کی خدمت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان میں مکاتب و بچوں کے لیے ناظرہ قرآن یابعض جگہ مدرسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ نمازوں کےعلاوہ یا تو بند رہتی ہیں یا ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم مساجد کو جن پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی رقم خرچ کر کے تعمیر کیا جاتا ہے، اس کی ظاہری بناوٹ،ان کے اندر اور باہر کی تعمیر اور سجاوٹ، یہاں تک کہ ان کے میناروں تک پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انھیں خدمت ِ خلق کے مختلف کاموں کا مرجعِ خلائق بنائیں اور مسجد کے اس فعال اور حرکی تصور کو جو دورِ نبویؐ اور دورِ خلفاے راشدینؓ میں عروج پر تھا، دوبارہ زندہ کریں:
مساجد میں ایک عمدہ قسم کی لائبریری اور دارالمطالعہ ضرور بنائیں، تاکہ اس میں اصحابِ صفہ کی طرح طالبانِ علم آئیں اور علم کی پیاس بجھائیں۔ آج کے دور میں آڈیو، ویڈیو، سی ڈی اور کمپیوٹر کے ذریعے مختلف علوم کو حاصل کرنا آسان بھی ہوگیا ہے اور سستا بھی۔مثال کے طور پر شہر بنگلور کی سٹی جامع مسجد میں اس قسم کی عام تعلیم، فنی تعلیم اور تعلیم بالغاں وغیرہ کی فراہمی کا مناسب انتظام ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔
مساجد میں صدقات و زکوٰۃ کے وصول اور اس کی تقسیم کا نظم بھی ہونا چاہیے اور ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہییں جو باقاعدہ محلے کا سروے کرکے ڈیٹابنک تیار کریں، جن میں اس محلے کے بے روزگاروں ، بیوگان اور معذوروں اور صاحب ِ نصاب مرد اور عورتوں کے پورے اعداد و شمار سافٹ ویئر میں جمع ہوں اور باہم اشتراک سے بلاسودی قرضہ جات، روزگار کی فراہمی، صدقات کی وصولی، شادی بیاہ کے لیے سہولیات کا اچھے انداز سے انتظام کریں۔
مساجد میں نکاح اور اس سے متعلقہ معاملات کے لیے سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں اور آسان اور کم خرچ شادیوں کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ شادی شدہ لڑکیوں کے مسائل کے حل کے لیے کونسلنگ سنٹر (Counselling Centres)، دارالقضا اور باہمی تنازعات کے حل کے لیے پنچایت وغیرہ کا قیام بھی بحسن و خوبی ہوسکتا ہے۔
تفریح آج کے دور کی اہم ضرورت ہے اور تفریح کے نام پر صرف فحش اور گندی چیزیں میسر ہیں۔ بھارت میں جیّد علماے دین پر مشتمل اسلامک فقہ اکیڈمی کے بیسویں اجلاس (رام پور) نے اس سلسلے میں توجہ دی ہے اور طے کیا ہے کہ: ’’ایسے کھیل جو انسان کے وسیع تر مفاد میں ہوں، جن سے جسمانی قوت، چستی، نشاط کی بحالی میں مدد ملتی ہو اور جن کھیلوں کے بارے میں احادیث میں ترغیب آئی ہے، ان کے مستحب ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ان سے ملتے جلتے جمناسٹک، مارشل آرٹس، یا کم جگہ پر چھت تلے (indoor) کھیلوں کے لیے مواقع مسجد کے احاطے میں فراہم نہیں کیے جاسکتے ہیں؟ چھوٹے بچوں کے لیے تربیتی مقصد کے لیے خاکے بنانا، ان میں رنگ بھرنے، بچوں کے لیے نفسیاتی، اخلاقی اور لسانی نقطۂ نظر سے مفید اور جائز سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک، مثلاً امریکا، کینیڈا، جرمنی، سکنڈے نیوین ممالک اور برطانیہ میں مساجد اسلامک سنٹر کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں، جہاں انڈرگرائونڈ (تہہ خانے میں) بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور مختلف کھیلوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی احاطے میں حلال اور سستے کھانوں کے ریسٹورنٹس اور چھوٹی چھوٹی دکانیں ہوتی ہیں ، جن میں روز مرہ کی اشیا اور ہاتھ کی بنی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے آرام کرنے کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔
صحت اور حفظانِ صحت کی ضرورت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی تربیت، آفات میں بحالی (Disaster Management)کے کورسس، کلینیکل لیبارٹریاں اور بلڈبنک کا قیام۔ ممکن ہو تو ایکسرے اور اسکیننگ کی سہولیات جہاں مرد اور عورتوں کے لیے علیحدہ اوقات اور الگ اصناف کے ماہرین کی فراہمی ہو تو یہ عمل دورِ نبویؐ کے شفاخانے اور زخمیوں کی تیمارداری کے مترادف ہوسکتے ہیں۔
مسجد کے اطراف کرایے کے لیے دکانوں کی تعمیر اور اس کے ذریعے آمدنی کے ذرائع فراہم کرنے کا رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بجاے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہوسٹلز یا کم از کم کمرے تیار کیے جائیں تو طلبہ و طالبات کو مسجد کے احاطے میں پاکیزہ ماحول مل سکتا ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔ یہ مثال میرے علم میں ہے کہ ایک غریب محلے میں صاحب ِ خیر نے مسجد بنائی ہے، جو دن رات کھلی رہتی ہے اور سیکڑوں طالب علم اپنے گھر میں جگہ کی قلت کی وجہ سے مسجد میں لکھتے پڑھتے ہیں۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس مسجد کی وجہ سے سیکڑوں نوجوان گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بن کر نکلے ہیں اور آج بہتر ملازمت اور اچھے معاش کے حصول کے ذریعے معاشرے میں ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔
جیساکہ یہ واقعہ کافی مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کو اپنا پیالہ اور چادر فروخت کرکے کلہاڑی خریدنے، اس کو دستہ لگا کر لکڑیاں کاٹنے کی رہنمائی کی۔ یہی دراصل آج کے مائیکروفنانس کا تصور ہے جس کی طرف مسلمانوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ اس قسم کی کوشش عین سنت ِ نبویؐ کی پیروی ہے اور یہ کام ہماری مسجد میں بڑی خوبی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں مساجد میں حج اور عمرہ کے فضائل و مسائل پر تو بیانات واجتماعات ہوتے ہیں جو مسلم معاشرے کے صاحب نصاب و اہلِ ثروت سے متعلق ہیں، لیکن غربت کے مارے اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کے لیے زکوٰۃ و صدقات پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ کیا محسن انسانیتؐ کی وارننگ وَالْفَقْرُ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ کُفْراً (عنقریب فقروافلاس لوگوں کو کفر کی طرف لے جائے گا) ہمارے سامنے نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بلاسودی سوسائٹیوں اور بیت الزکوٰ ۃ کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور زیادہ اچھا ہو کہ یہ مسجد کے احاطے ہی میں ہو۔ فقرا و مساکین اپنی ضروریات کے لیے سودی قرضہ جات کے چکّر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بالآخر اپنے مکانات اور زیورات ہی نہیں بلکہ غربت کی انتہا میں خواتین کے لیےزندگی بہت زیادہ پُرخطر ہوجاتی ہے۔
معروف محقق ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے خطبات بہاول پور میں زکوٰۃ کے تالیف ِ قلب کی مد میں غیرمسلموں کی امداد اور حضرت عمرفاروقؓ کے بیت المال سے بلاسودی قرضوں کے اجرا کا ذکر کیا ہے۔ تکثیری (Pluralistic) معاشرے میں تعلقات کی خوش گواری اور خیرسگالی و ہمدردی کے جذبات کو اُجاگر کرنے اور اسلام کے نظامِ رحمت کو عملی طور پر پیش کرنے کے لیے مساجد سے بلاتفریق مذہب و ملّت بلاسودی قرضوں اور زکوٰۃ و صدقات کی رقوم کا ایک حصہ کیا غیرمسلم عوام کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے ؟ بالغ نظر علماے دین اوردانش وران ملّت کو حقیقت پسندانہ انداز میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اُمت مسلم اور خاص طور پر ہمارے ملک میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے مسجد نبویؐ کے نمونے پر مساجد کے استعمال کے بارے میں انقلابی اور حرکی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کی طرف ملّت کے علماے کرام اور عمائدین عظام کو خصوصی اورفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری مساجد معاشرتی ماحول کی بدصورتی اور ظلم کے اتھاہ سمندر میں کنول کے پھول کی طرح نمودار ہوں۔ جہاں نہ صرف خالق کی عبادت و بندوں کی تربیت کا اہتمام ہو بلکہ وہ خلق خدا کی خدمت و مودت کا بھی مرکز ہو۔ معاشرے کے مجبور، معذور اور حاشیہ پر رہنے والے افراد کی داد رسی ہوسکے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر مسجدنبویؐ کے طرز پر ان تمام سرگرمیوں پر مشتمل چند مسجدوں کا قیام عمل میں آجائے تو دنیا اپنے سرکی آنکھوں سے اس کی افادیت و اہمیت کو دیکھ سکےگی۔ سنت نبویؐ کے اجرا کے اس عظیم الشان کام سے نہ صرف اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ ہوسکے گی، بلکہ صدقۂ جاریہ کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہوگا ، جس سے ساری انسانیت مستفید ہوسکے گی اور ربِ جلیل و قدر کے ہاں بے پناہ اجر و ثواب کی مستحق بھی۔ساتھ ہی ہم اسلام کو ایک نظامِ رحمت و مودت کی عملی شہادت کے طور پر بھی پیش کرسکیں گے۔