ترجمان القرآن کے صفحات ہمیشہ خدا اور اس کے رسولؐ کے پیغام کے لیے وقف رہے ہیں اور ان میں کبھی مدیرترجمان یا اُن کے کسی رفیق کے ذاتی حالات کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ [قارئین] بار بار یہ دریافت کرتے ہیں کہ اگر مولانا [مودودی] آج کل تفہیم القرآن نہیں لکھ رہے تو پھر کیا کر رہے ہیں؟ ان استفسارات میں تشویش اور پریشانی نظر آتی ہے۔ سب رفقا کی خدمت میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ مولانا خوداس بات کے شدید آرزومند ہیں کہ وہ اس عظیم الشان کام کو جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچائیں، لیکن بعض ناگزیر مجبوریاں اس راہ میںحائل ہیں۔
ان میں سب سے بڑی مجبوری مولانا کی علالت ہے۔ مولانا ایک عرصۂ دراز سے گُردے کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ آج سے چند سال قبل اس کا آپریشن کردیا گیا، جس سے پتھری کی تکلیف عارضی طور پر رفع ہوگئی، لیکن تھوڑی مدت کے بعد گردے میں پھر ذرّات جمع ہونے شروع ہوگئے اور انھوں نے بہت جلد سنگ ریزوں کی صورت اختیار کرلی۔ دینِ حق کا یہ سپاہی اس تکلیف کے باوجود مختلف کاموں میں منہمک رہا اور اُس نے علالت کے سامنے کبھی ہتھیار ڈالنے گوارا نہ کیے۔ لیکن اب کچھ عرصہ سے یہ تکلیف مزید بڑھ گئی ہے اور اس نے اُن کے دائیں شانے اور گھٹنےکو شدید طور پر متاثر کیا ہے…جس سے ان کے قویٰ اور بھی مضمحل ہوگئے[ہیں]۔
خطوط اور استفسارات کی بھرمار مولانا کا بہت سارا وقت لے جاتی ہے۔لیکن ان سب مجبوریوں کے ہوتے ہوئے بھی مولانا اس کام سے غافل نہیں۔وہ اس کی اہمیت کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کو پورا کرنے کے لیے سخت بے تاب ہیں۔ خود ہم بھی اُن سے بار بار اس کے لیے اصرار کرتے ہیں اور بعض اوقات ہمیں اُن کی صحت کے پیش نظر یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم مولانا سے تقاضا نہیں کررہے بلکہ اُنھیں ستارہے ہیں۔ ہمارے مطالبات کی طویل فہرست سن کر جس میں تفہیم القرآن، ’اشارات‘، ’رسائل و مسائل‘ اور مضامین، الغرض سبھی قسم کے تقاضے شامل ہیں، مولانا اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اچھابھائی دُعا کریں‘‘۔
ہم قارئین کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ وہ خداوند تعالیٰ کے حضور میں مولانا کی صحت ِ کاملہ اور عاجلہ کے لیے دُعا فرمائیں، تاکہ وہ پوری یکسوئی اورانہماک کے ساتھ ان ضروری کاموں کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ (پروفیسر عبدالحمید صدیقی ’اشارات‘، ترجمان القرآن ، جلد۵۲، عدد۱، اپریل ۱۹۵۹ء، ص۲-۳)