اپریل ۲۰۱۹

فہرست مضامین

کشمیر :منزل صرف آزادی

سیّد علی گیلانی | اپریل ۲۰۱۹ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

یہاں ہم ایک مؤثر، اہلِ علم اور صائب الراے حضرات کے اجتماع میں بیٹھے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ان میں سارے ہی لوگ جموں وکشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کے حامی ہوں۔ اسی طرح یہاں پر جو بینر لگا ہوا ہے کہ: 'Azadi: The Only Way' ، ضروری نہیں کہ آپ حاضرین میں سب لوگ اس سے اتفاق کرتے ہوں۔ تاہم ایک چیز ہم سب میں ضرور مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم سب انسان ہیں۔ اگر ہم اپنی اس پہلی حیثیت، اپنے مقام اور مرتبے کو تسلیم کر لیں کہ ہم سب انسان ہیں تو: ہمیں انسان کا احترام کرنا چاہیے، ہمیں انسان کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ ہماری بات سے اتفاق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔خیالات اور جذبات میں اختلاف ہو سکتا ہے ،   رنگ اور نسل ، زبان اور وطن کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اس فطری اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت اپنے اندر پیدا کرنا ہی انسان کی بڑی خوبی ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ ( اسرا۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
میں نے آپ کے سامنے قرآن پاک کی جو آیت تلاوت کی ہے، اس میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے۔ انسان کو پید ا کرنے والے  خالق و مالک نے اعلان کیا ہے کہ میں نے انسان کو عزت اور احترام بخشا ہے اور قدر ومنزلت عطا کی ہے۔ اور اگر ہم انسان کی عزت نہ کریں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسے پیدا کرنے والے کا بھی احترام نہیں کرتے۔ حالاں کہ شرفِ انسانی اور احترامِ آدمیت کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے۔
 جموں و کشمیر کے حوالے سے اس اجتماع میں عنوان رکھا گیا ہے: Azadi: the Only Way  ،یعنی ’’ایک ہی راستہ ہے: آزادی‘‘۔ یہاں ہونے والی تقاریر میں میرے لیے دو نکتے اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ: What do you mean by Azadi?، ’آزادی سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟‘ دوسرا Justice یا انصاف۔کیا آپ ایک آزاد ملک ہونے کے بعد انسانی معاشرے کی ایک بڑی بنیادی ضرورت انصاف کو ، maintain [برقرار]رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا آپ لوگوں کو انصاف دے سکتے ہیںـ ـ؟
آج دہلی میں بیٹھ کر یا دلی والوں کی مجلس میں جب ہم یہ بات کریں کہ آزادی کیا ہے؟ تو ان کے لیے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ’آزادی کیا ہے؟‘ اس لیے کہ آپ کے آباواجداد بھی ایک سو سال سے زیادہ عرصے تک انگریزوں کے براہِ راست غلام تھے۔ انگریزوں کے اقتدار و بالا دستی کے خلاف انھوں نے تاریخی جدوجہد شروع کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ہمیں آزادی چاہیے‘‘۔ وہ یہاں پر مسلط برطانوی سامراجی حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔ 
بالکل اسی طرح گذشتہ [۷۲ ] برسوں سے جموں وکشمیر کے لوگوں کی غالب اکثریت، کشمیر میں بھارت کے فوجی طاقت کے بل پر قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیدھی سی بات ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو سمجھ میں نہ آ سکتی ہو۔ 
یہ آزادی کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ آزادی جموں وکشمیر کے ہر فرد کے لیے ہے۔ چاہے وہ کٹھوعہ میں رہتا ہو ، یا آدم پور میں ، چاہے لیہہ میں رہتا ہو یا کرگل میں، چاہے  وادیِ کشمیر میں رہتا ہو یا کشتوار میں، جہاں کہیں بھی رہ رہا ہے، چاہے وہ مسلمان ہے یا ہندو اور سکھ ہے یا عیسائی ، یا بودھ ___ یہ سب بھارت کے غیرمنصفانہ اور جابرانہ فوجی تسلط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ 
اس کے لیے میں آپ کو چند مثالیں دوں گا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں جموں میں ڈوگرہ فوجی تسلط کے دوران ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام تسلیم شدہ تعداد ہے، حالاں کہ وہاں پر موجود افراد کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ ان کی لڑکیوں کو  اغوا کیاگیا، مردوں کو ذبح کیا گیا اور ان کے بچوں کو پائوں تلے روند ڈالا گیا تھا۔ یہ سارے ظلم وستم ہم نے سہے ہیں۔ یہ ۶ نومبر ۱۹۴۷ء کی بات ہے، جب جموں میں اس سانحے کا آغاز ہوا تھا۔ ہم اسی وقت سے اس فوجی تسلط میں پس رہے ہیں، ہم پٹ رہے ہیں، ہماری عزتیں لوٹی جا رہی ہیں، ہماری عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں، ہمارے نوجوانوں کو گولیوں کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے اور ہمارے مکانات بغیر کسی جواز کے جلائے جار ہے ہیں، اور گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ یہ ساری صورت حال ہم کو مجبور کر رہی ہے کہ ہم بھارت کے فوجی تسلط سے جلد از جلد آزادی حاصل کریں۔ 
گذشتہ [۷۲ ] برسوں کے دوران ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں ، وہ آپ سب کو بھی جاننا چاہیے۔ ہم اس مجلس کے ذریعے بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ عوام سے مخاطب ہیں۔ ہم ان تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ آپ کا اور ہمارا ایک انسانی رشتہ ہے۔ اس وقت جب کہ آپ کے بھائیوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے تو بحیثیت انسان آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ اگر آپ آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو آپ اس انسانی رشتے کو کمزور بنا رہے ہیں۔ 
آج جموں وکشمیر کے ایک چھوٹے سے خطے میں آٹھ لاکھ مسلح بھارتی فوج کا مسلط ہونا بجاے خود ایک بہت بڑا جرم اور زیادتی ہے ۔ ان آٹھ لاکھ فوجیوں نے ہمارے خطے کی لاکھوں کنال زمین پر جبری قبضہ جما رکھا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک چھوٹی سی قوم کی اتنی زمینوں پر زبردستی قبضہ  کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مرد و زن کیسے اپنے مستقبل کو شان دار قرار دے سکتے ہیں؟ وہ کیسے اپنی زندگیوں میں امن اور چین حاصل کر سکتے ہیں؟ 
جب ایک مقامی آدمی کو مغربی بنگال یا مہاراشٹر ،بنگال، پنجاب، آسام یا اترپردیش سے آئے ہوئے سپاہی، جموں وکشمیر کے پشت ہا پشت سے آباد باشندے کو، چاہے وہ ہندو ہے یا سکھ،  مسلمان ہے یا عیسائی یا بودھ___ اس سے وادی کے ہرگلی کوچے میں بلکہ اس کے اپنے ہی گھر میں گھس کر تحکمانہ لہجے میں پوچھ رہا ہے کہ ’مجھے شناختی کارڈ دکھائو‘ ___ یہ ایسی زیادتی ہے جس کو جموں و کشمیر کاکوئی شہری برداشت نہیں کر سکتا۔ 
۲۷ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جب بھارتی فوجیں جموں و کشمیر میں آ گئیں، تو اس وقت بھی بھارتی وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو نے کہا تھاکہ: ’’ہماری فوجیں یہاں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ ہم انھیں واپس بلا لیں گے اور آپ کو اپنا حق راے دہی دیا جائے گا‘‘۔ ان کا یہ وعدہ تاریخ میں لکھا جاچکا ہے۔ پھر جنوری ۱۹۴۸ء میں خود ہندستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور وہاں عالمی برادری کے ساتھ بھارت نے ۲۵دسمبر۱۹۴۸ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ:
ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزاد اور غیر جانب دارانہ راے شماری کے جمہوری طریقے سے طے پائے گا۔
اس قرار داد کو ہندستان نے تسلیم کیا ، اس پر دستخط کیے ہیں، اور عالمی برادری اس کی گواہ ہے۔ اس طرح کی منظور ہونے والی ۱۸ قرار دادوں پر بھارت نے دستخط کیے ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہم سے جو وعدے کیے ہیں انھیں وہ پورا کرے۔ 
ہم نے جمہوری طریقہ بھی اختیار کیا ۔ ووٹ کے ذریعے اسمبلی میں جا کر ہم نے آواز اٹھانا چاہی، لیکن ہندستان نے طاقت کے نشے میں ایسی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرا، جو پُر امن طریقے سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اٹھی تھی۔ جب تمام پُرامن راستے مسدود کردیے گئے تو عسکریت نے خود اپنا راستہ بنایا۔ جس کو ’ٹیررازم‘ کا نام دے کر، بھارت اعلیٰ تربیت یافتہ فوجیوں اور جدید ترین اسلحے سے لیس ریاستی ٹیررازم، کو استعمال کر کے اس جدوجہد کو دبا دینے کی ہرممکن کوشش کررہا ہے۔
آنجہانی گاندھی جی نے اپنی کتاب : تلاش حق میں کہا ہے کہ: ’’جس سسٹم میں انسانی،  اخلاقی اور مذہبی قدروں کا احترام نہ ہو تو وہ سسٹم شیطانی کاروبار ہے‘‘۔ آج شیطان کا یہی کا روبار جموں و کشمیر میں چل رہا ہے ۔ بھارت ہو یا کوئی اور ملک، جہاں بھی ان اعلیٰ اخلاقی اور انسانی قدروں کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں کے لوگ شیطانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ 
میں عرض کر رہا ہوں کہ ہندستان سے آزادی حاصل کرنا ہمارا پیدایشی اور بنیادی حق ہے۔ آپ ۸ لاکھ کے بجاے سار ے ہندستان کی فوج کشمیر میں جمع کر دیں، لیکن آپ کبھی جذبۂ آزادی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ! 
جموں وکشمیر کی غالب اکثریت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں، آواز اٹھائیں ۔ بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ جو اپنے آپ کو انسان کہتے ہیں، انسانی سماج کا حصہ سمجھتے ہیں، ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، قلم اٹھائیں اور اس ظلم کے خلاف ان کا جو فرض بنتا ہے اس کو انجام دینے کا حق ادا کریں۔
ہمیں گذشتہ [آٹھ] عشروں سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے جس الحاق کو بھارت بنیاد بناکر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے، وہ بھی عارضی اور مشروط الحاق تھا۔ باوجود اس کے کہ خود اس الحاق کے بارے میں بھی سوالیہ نشان موجود ہے کہ وہ ہو ابھی تھا یا نہیں ہوا تھا۔ آنجہانی ہری سنگھ نے اس پر دستخط کیے بھی تھے یا نہیں، جیسا کہ الیسٹر لیمب نے کتاب  Birth of a Tragedy: Kashmir 1947  [راکسفرڈ بکس،۱۹۹۴ء]  میں ثابت کیا ہے۔ بہرحال، ان چیزوں سے قطع نظر وہ معاہدہ بھی عارضی اور مشروط تھا کہ لوگوں سے پوچھا جائے گا اور مستقبل کے بارے میں ان کی راے لی جائے گی۔ 
۱۹۵۳ء میں، جب کہ شیخ محمد عبداللہ کو معزول کیا گیا تو بقول پنڈت پریم ناتھ بزاز [م:۶جولائی ۱۹۸۴ء] ۱۰ہزار لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا ۔ ۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک شیخ محمدعبداللہ کے دورِ اقتدار میں جس طرح سے لوگوں کو دبا یا جا رہا تھا، میں خود اس کا عینی شاہد ہوں۔ گذشتہ برس ہا برس سے جاری ہماری جدوجہد کے اس مرحلے میں بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج کی جانب سے جو بدترین مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان کی ایک ہلکی سی جھلک بھی انسان کو ہلاکر رکھ دیتی ہے، بشرطیکہ وہ انسان ہو۔
پورے بھارت میں بتایا جاتا ہے کہ کشمیری بچے اور نوجوان، قابض فوجیوں پر کنکر پھینکتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتے کہ آج تک اس سنگ باری سے کوئی بھارتی فوجی یا پولیس والا قتل نہیں ہوا۔ دوسری جانب ہمارے ہزاروں لوگ گولیوں سے بھون دیے گئے ہیں۔ ان مقتولین میں معصوم بچے اور گھریلو خواتین اسکول کی طالبات اور نوعمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ 
یہ ہماری جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے اور عوامی سطح پر یہ پُر امن ہے۔ اس جدوجہد میں ہم بندوق کا سہارا نہیں لے رہے ہیں۔ ہماری تحریک خالصتاً مقامی اور Indigenous تحریک ہے، اور اسی کے ذریعے پوری عالمی برادری میں یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنا پیدایشی حق حاصل کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دے رہے ہیں۔ تاہم، بدترین ریاستی تشدد، ظلم اور قتل و غارت کے جواب میں اگر کچھ نوجوان کسی درجے میں جوابی کارروائی کرتے ہیں، تو وہ تشدد کا اسی طرح ایک فطری ردعمل ہے، جس طرح تحریک آزادیِ ہند کے دوران ہوا تھا۔ تب کانگریس کی قیادت بہ شمول گاندھی جی نے یہی کہا تھا کہ: ’’مجموعی طور پر سیاسی جدوجہد میں ایسے واقعات کو روکنا ممکن نہیں، جب کہ ریاست ظلم کا ہرہتھکنڈا برت رہی ہے‘‘۔آج ہم بھی بھارتی نیتائوں سے یہی کہتے ہیں۔
ہم جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے لیے حصولِ آزادی کا یہ حق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کے دھونس اور دبائو کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ آزادانہ استصواب راے کے ذریعے اکثریت جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ ہمیں قبول ہو گا۔ ہم یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اکثریت اپنے مستقبل کا جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں قبول ہوگا۔ آزادی کا ہمارا مطلب وہی ہے، جو ہندستان کا انگریزوں سے آزادی کے مطالبے کا مطلب تھا۔   ہم بھارتی قبضے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ End to Forcible Occupation یہ ہمارا نعرہ ہے۔ اسی طرح ہمارا نعرہ ہے کہ’ گوانڈیا گو‘۔ انڈیا کا اس سر زمین پر کوئی آئینی، اخلاقی اور قانونی حق نہیں ہے۔ بندوق کی نوک پر آخر وہ کتنے عرصے تک ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔
۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء سے جموں و کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کا عمل چل رہا ہے اور ۱۵۰بار مذاکرات کے دور مکمل ہو چکے ہیں، لیکن ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کون نادان ہو گا جو ۱۵۰ بار مذاکرات کی ناکامی کے بعد پھرایسے بے معنی اور وقت گزاری کے عمل کا حصہ بنے؟ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہندستان ایک سانس میں کہہ رہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسرے ہی سانس میں کہہ رہا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسی غیرمنطقی ہٹ دھرمی کے سبب اب تک کے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ آیندہ بھی کسی مذاکراتی عمل میں اس وقت تک شرکت بے معنی ہے، جب تک کہ بھارت، جموں وکشمیر کی اس متنازع حیثیت کو تسلیم نہ کر لے کہ جوامرواقعہ بھی ہے اور جسے خود بھارتی قیادت نے پوری دنیا کے سامنے تسلیم بھی کیا تھا۔
ہم نے ۳۱ ؍اگست ۲۰۱۰ء کو ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا تھا، جو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں، لیکن  مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔ اس میں پہلا نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کی جو بین الاقوامی متنازع حیثیت ہے، اس کو آپ تسلیم کریں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں، افواج کا انخلا شروع کریں ۔ اس کے بعد کالے قوانین کے نفاذ کو ختم کریں۔ تمام گرفتار لوگوں کو رہا کریں اور ہمارے پُرامن لوگوں کے جو قاتل ہیں، ان کے خلاف آپ مقدمات چلائیں اور سزا دیں۔ 
یہ پانچ نکاتی فار مولا دراصل مذاکرات کے لیے ماحول بنانے کے لیے ہے، جس پر بات چیت ہو سکتی ہے ۔ ہم بات چیت کے منکر نہیں ہیں، مگر یہ بات چیت صرف بنیادی اور مرکزی ایشو پر   ہونی چاہیے۔ یہ بات چیت دو فریقوں میں نہیں بلکہ تین فریقوں کے درمیان ہونی چاہیے۔ اس میں ہندستان ،پاکستان اور جموں وکشمیر کے آزادی پسند شریک ہوں۔ پھر اُس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے۔ ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک جو بے مثال جدوجہد کی گئی ہے اور جو قربانیاں دی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھا جائے اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے، ان مذاکرات کے بعد استصواب راے میں جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا، اسے ہم سب قبول کریں۔ 
بھارت میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ: ’’اگر جموں وکشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو جائے گا اور چوںکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تو وہاں اقلیتوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا‘‘۔ یہ پروپیگنڈا  بے جواز بھی ہے اور بے معنی بھی۔ چوںکہ جموں وکشمیر ،مسلم اکثریتی خطہ ہے، وہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کے بارے میں ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ان کے جان ومال ، عزت وعصمت، ان کے مذہب و عقیدے اور ان کی عبادت گاہوں، سب کا تحفظ ہو گا۔ اس حوالے سے کسی کو کسی بھی قسم کی فکر مندی یا پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندستان جودنیا بھر کے سامنے جمہوریت کا دعویٰ کر رہا ہے، کیا وہ خود اس اصول کو اپنا رہا ہے؟ کیا اس پر عمل کر رہا ہےـ؟ اگرایسا ہوتا تو جموں وکشمیر گذشتہ [۷۲]برسوں سے بھارتی جبر کا شکار نہ ہوتا۔ لیکن بہر حال ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نظام ہے، جس میں انصاف اپنا وجود اور عمل دکھائے گا، ان شا اللہ !
اس عرصے میں ۶ لاکھ قربانیاں لے کر، ہماری عزتیں اور عصمتیں لوٹ کر ، جنگلات کا صفایا کر کے، ہمارے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بعد بھی آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ ہم نے جو پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے، جب تک اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا ہم کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دہلی کی اس باشعور مجلس کے ذریعے میں اعلان کرتا ہوںکہ آپ کے جو صلاح کار ہمارے مظلوم بھائیوں سے ملنا چاہ رہے ہیں ، اُن کے سامنے ہمارے لوگ یہ مطالبہ دہرائیں گے کہ جب تک آپ اصل حقائق کو تسلیم نہیں کریں گے، آپ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ طلبہ،تاجروں ، دیگر آزادی پسند لوگوں کا مطالبہ ہے کہ  اس زمینی صورتِ حال کو تسلیم کیے بغیر کوئی بات چیت نہیں کریں گے، کہ یہ محض وقت گزارنے کا بہانا ہے، اور مسئلہ حل کرنے کے لیے آپ کی نیت صاف نہیں ہے۔ 
کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارا مطالبہ کیا ہے؟ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم خون دے کر اور جانیں دے کر باربار بتا رہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی اور صرف آزادی چاہتے ہیں۔ عزتیں اور عصمتیں لٹا کر، بچیوں کو اُجڑتے دیکھتے اور جوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سٹرتے ہوئے بھی ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کے جبری قبضے کے خلاف ہیں اور ہم اس سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ کہتے ہیں کہ:’’ ہم آپ کے پاس جائیں گے اور پوچھیں گے کہ ’’بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ بہر حال یہ فریب کاری ہے۔ آپ بات کی تہہ تک پہنچ کر دیکھیں اور اس خودفریبی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
میں آپ کو برملا یہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ نہ ہمارے عوام تھکے ہیں، اور نہ ہماری قیادت مایوس ہوئی ہے۔ ہم جدوجہد آزادی میں بھرپور طریقے سے ہم قدم ہیں ۔ اس وقت تک برسرِکار ہیں، جب تک کہ ہم بھارت کے فوجی قبضے سے آزادی حاصل نہ کرلیں۔ بھارتی قبضے سے ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان جیسے دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک ایک رستے ہوئے ناسور سے آزاد ہوجائیں گے۔ کیوں کہ مسئلہ کشمیر ایک ایسا لاوا ہے، جس کو حکمرانوں کی اناپرستی، ہٹ دھرمی اور عدم توجہی کی وجہ سے اگر اسی طرح دبانے کی کوشش کی گئی تو اس میں اتنا خطرہ موجود ہے کہ یہ پورے برصغیر ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانی کے خرمن کو جلاکر راکھ کرسکتا ہے۔اس لیے انسانیت کی بقا کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے امن کی ضمانت کے لیے، اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور یہ جتنا جلد ہوگا، اتنا ہی بہتر ہوگا۔
آخر میں، مَیں انتظامیہ اور آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 


یوم یک جہتی کشمیر 

۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اسی نسبت سے میں آپ حضرات کی خدمت میں معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ ۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کے لیے پاکستانی حکومت، فوج اور عوام کا دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 
جموں وکشمیر کے مظلوم عوام پچھلے ۷۰ سا ل سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے برسرِ جدوجہد ہیں۔ اس جدوجہد میں پاکستان روزِ اول سے سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی سطح پر مدد کرتا آ رہا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور جموں وکشمیر کے محسن اور غم خوار مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جنھوں نے ۱۹۹۰ء میں یوم یک جہتی کشمیر کا آغاز کرکے پاکستان کو تحریک آزادی کے حوالے سے زیادہ فعال اور سرگرم رول ادا کرنے کی ترغیب دی۔ 
کشمیر ی قوم اپنی آزادی کے لیے دنیا کی ایک بڑی ملٹری طاقت سے نبرد آزما ہے۔ اس جدوجہد میں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ہمارے حقِ خود ارادیت کو خود بھی تسلیم کرتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے اس کی وکالت بھی کرتا ہے۔ ہم اس مدد او ر سپورٹ کے لیے پاکستان کے ممنون ہیں، البتہ اس ملک کی طر ف سے کشمیر کے حوالے سے زیادہ Avtive اور اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں او ر سفارتی چینلوں کو زیادہ متحرک کر ے اور انھیں کشمیر یوں کی جدوجہد اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کا ٹاسک سونپ دے۔ 
میں پاکستان کے حکمرانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی کشمیر پالیسی میں تسلسل اور استحکام پیدا کریں اور اس میں کسی بھی مرحلے پر معذرت خواہانہ رویے کو اختیار نہ کیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد مبنی بر حق ہے جس کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ پاکستان مسئلۂ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور اس قبضے کا حتمی حل پاکستان کی شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس ملک کو جرأت اور حوصلے کے ساتھ اپنے موقف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس میں کسی قسم کی کمزوریوں اور لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ 
میں ایک بار پھر موحوم قاضی حسین احمد کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آج یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی تنظیموں جلسوں اور جلسوں کا اہتمام کرتی ہیں ، البتہ اس دن کے آغاز کا سار کریڈٹ مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی ذات کو جاتا ہے جنھوں نے پہلی بار کشمیریوں کے تیئس عملی اور ردیدنی وابستگی ظاہر کرنے کا پیغام دیا۔ مرحوم قاضی صاحب خود بھی کشمیریوں کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار ہونے کے متمنی تھے۔ مرحوم اپنی ہر تقریر میں کشمیر کا تذکرہ کرتے تھے اور انھوں نے کشمیری مہاجرین کے تئیں جس ہمدردی اور شفقت کا مظاہرہ کیا وہ آب وزر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کشمیر ی قوم مسئلہ کشمیر سے ان کی والہانہ وابستگی اور  گراں قدر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ ۵ فروری کو روایتی طور پر منانے سے آگے بڑھ کر اس دن کو زیادہ سے زیادہ جلسے اور جلسوں کا انعقاد کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کریں۔ اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو جتنا ممکن ہوسکے اُجاگر کیا جائے۔ 
میں پاکستان کی حکومت ، پاکستان کی سیاسی قیادت اور پاکستان کے عوام کی دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ جموں وکشمیر کے مظلوم ، محکوم اور غلام قوم کی حمایت دل و جان سے کرتے ہیں اور ایک بہت بڑا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہماری دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ دعائیں ہیں کہ پاکستان سلامت رہے، محفوظ رہے اور ہر حیثیت سے انسانی قدروں کا احترام کرے اور پاکستان میں جتنے بھی لوگ بس رہے ہیں چاہے مسلمان ہوں، ہندو ہوں ، سکھ ہوں، عیسائی ہوں، احمدی ہوں، جو بھی لوگ پاکستان میں سکونت پذیر ہیں ان کو جان مال، عزت وآبرو، مذہب وعقیدہ اور عبادت گاہوں کی پر حیثیت سے حفاظت ہونی چاہیے۔ یہ ہم دل کی عمیق گہرائیوں سے چاہتے ہیں تا کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک ایسا ملک سمجھا جائے کہ وہ انسانی قدروں اور اخلاق قدروں کا سب سے زیادہ پاسداری کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ 
اللہ سے عاجزانہ التماس ہے کہ پاکستان جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کی حفاظت اور ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان کو عالمی سطح پر عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے، اور پاکستان کے عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم بھارت کے جبری فوجی قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شا اللہ ، ان شا اللہ ،ان شا اللہ ! اللہ ہماری مدد اور حفاظت کرے۔