سیّد علی گیلانی


  • سوال: مارچ ۲۰۰۷ء میں آپ کو ہنگامی طور پر آپریشن کروانا پڑا،اس کی تفصیل بیان کیجیے، آپریشن کے بعد اب صحت کیسی ہے؟
    • جواب: بیماری کی تشخیص بالکل غیر متوقع طور پر ہوئی۔۲۲فروری۲۰۰۷ء کو ایسکارٹس ہاسپٹل میں معمول کے چیک اَپ کے لیے گیا تھا تو ڈاکٹر سیٹھی اور ڈاکٹر کھوسلا نے سی ٹی سکین کا مشورہ دیا، جس سے دائیں گردے میںMass جمع ہونے کا پتہ چلا۔ ڈاکٹر سمیر کول نے اس کے علاج اور آپریشن کے لیے امریکا جانے کا مشورہ دیا، تاکہ واحد گردے کو بچایاجاسکے۔ وزیراعظم ہند کی ہدایت پر ۲۶سال بعد ایک سال کے لیے پاسپورٹ دیاگیا، لیکن امریکی حکومت نے علاج کے لیے ویزا دینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹروں کے مشورے سے ممبئی میںعلاج کروانے پراتفاق ہوا، جہاں  الحمدللہ،۲۶مارچ کو چھےگھنٹے کاآپریشن کامیاب رہا۔ آپریشن کے بعد تین دن ناقابل برداشت درد رہا، اس دوران پانی کا ایک گھونٹ پینے سے بھی منع کیا گیا۔ بہرحال ۲۴؍اپریل کو علاج معالجے کے بعد سرینگر واپسی ہوئی،تاہم ڈاکٹروں نے کم ازکم تین ماہ تک طویل سفر اور مشقت سے منع کیا۔

متبادل قیادت

  •  اس دوران ایک بڑا اہم موضوع بحث ابھر کر سامنے آیا، جو آپ کے بعد لیڈرشپ یا مرکزی شخصیت کی تلاش سے متعلق ہے،اس کے بارے میں آپ کی رائے؟
    •  اس بارے میں خدشات کئی بار سامنے آئے ہیں۔ چند سال قبل اسلام آباد [اننت ناگ] میںایک جلسے کے دوران میںنے چند نام بھی پیش کیے تھے، لیکن بعد میںمحسوس ہوا کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اس بات کا میںنے ٹیک ون ٹیلی ویژن چینل پر انٹرویو میںاظہار بھی کیا تھا۔ تاہم، اب میری رائے یہ ہے کہ تحریک حریت کا شورائی نظام خود لیڈرشپ کا انتخاب کرے گا، اور کُل جماعتی حریت کانفرنس میںبھی وہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شخصیات کو محور بنانا نظریاتی تحریکوں کے لیے ٹھیک نہیں بلکہ شخصیات کے بجائے اصولوں، اور ان کے اتباع کو محور اورمعیار بنایا جائے۔ اگرایسا کیا گیا تو کسی بحران کاخدشہ نہیں ہے۔
  • آپ نے تحریک کا تذکرہ کیا ہے، تحریک حریت کے کیا اہداف ہیں؟
    •  ہمارے بنیادی اہداف تین ہیں:

 پہلا یہ کہ ہم اسلام کو زندگی کے لیے مکمل رہنمائی مانتے ہیں ،لہٰذا انفرادی واجتماعی زندگی کی تعمیر اسی رہنمائی کی روشنی میںکرنا ہمارا اوّلین ہدف ہے۔

دوسرا یہ کہ ہم سمجھتے ہیںکہ جموں وکشمیر پر بھارت کا قبضہ جبری ہے، غیر قانونی ہے اور عوام کی امنگوں کے برخلاف ہے، لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہے۔

تیسرا یہ کہ امت کا اتحاد ہمارے پیش نظر ہے۔ آج ملت اسلامیہ وطن، زبان، رنگ، نسل، مسلک اور نہ جانے کس کس نام پر تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک تسبیح ہے جس کی ڈورٹوٹ گئی ہے اور دانے بکھر گئے ہیں، یہی اس امت کا حال ہے ۔ امت کی شیرازہ بندی ہماری آرزو اورہمارا ہدف ہے۔

مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادیں

  • مسئلہ کشمیر کے حل کی مناسبت سے اقوام متحدہ کی قرار داد یں، ان بیان کردہ اہداف سے کہاں تک ہم آہنگ ہیں؟
    • یہ قرار دادیں تقسیم ہند کے اصولوں کی بنیاد پر ہمیں خودارادیت کا حق دیتی ہیں، جس کا حصول ہمارا ایک بنیادی ہدف ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ان قرار دادوں پر عمل سے تہذیبی، مذہبی، جغرافیائی اورعوامی اُمنگوں کاپاس ولحاظ ممکن ہوسکے گا۔ حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ پر حملوں کے وقت ہندستان نے یہی دعویٰ پیش کیا اور دلیل بیان کی تھی۔ لیکن کشمیر کے بارے میں اسی اصول کو پامال کیا گیا۔ کانگریس اور برطانیہ نے مل کر ریڈکلف ایوارڈ کی سازش رچائی، جس سے بھارت کو جموں وکشمیر پر فوج کشی کے لیے زمینی راستہ فراہم ہوا۔ پاکستان کمزور تھا، اسی لیے اپنے حق کادفاع نہیں کرسکا۔ تاہم، اخلاقی،سفارتی اور رائے عامہ کے دبائو کے پیش نظر بھارت نے اقوام متحدہ میں رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں بنیادی طورپر اسی عہد وپیمان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایسی دستاویزات وقت گزرنے سے غیر متعلق اور ناقابل عمل نہیںہوجاتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر دنیا کا کوئی بھی معاہدہ مقدس نہیں رہتا۔ انسانوں کے حقوق دریائوں کے پانی میںنہیں بہتے ہیں۔
  •  ایک خیال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں قبائلی حملے سے کشمیر کا معاملہ الجھ گیا، اور بھارت کو براہِ راست فوجی مداخلت کا بہانہ مل گیا؟
    • بفرض محال پاکستان نے غلطی کی بھی تھی، تو اس کی سزاکشمیریوں کو کیوں دی جاتی ہے؟ یہ محض حیلہ سازی ہے۔ اس وقت کس نے غلطی کی، اس سے قطع نظر، کسی بھی بہانے سے کشمیری عوام کو اپنی آزادی کے مطالبے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے میں ہم بنیادی فریق ہیں۔ کسی ایک فریق کے اقدامات سے ہمارے مطالبات ختم نہیںہوسکتے۔

کشمیر میں ہند نواز عنصر

  •  زمینی حقائق اور تلخ حقائق کے زیر اثر کچھ لوگ یہاں پر ہندنواز بن گئے ہیں ، اس سے کیا فرق پڑے گا؟
    •  اس سرزمین پر گذشتہ عشروں سے بھارت کا فوجی تسلط ہے۔ اتنے لمبے عرصے میں مفتوحہ عوام کا تقسیم ہونا، یا دیگر طور پر متاثر ہونا،ناممکن نہیں ہے۔ یہ فطری ہے، اور یہ تحریک آزادی کے لیے بالکل مایوس کن نہیں ہے۔ اقتدار کاچسکا بھی ایک وجہ ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی قیمت پر اقتدار چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے ضمیر بیچناپڑے یا پوری قوم کو دائو پر لگانا پڑے۔لیکن اس سب کے باوجود آزادی کی امنگ ہر جگہ موجود ہے، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔پونچھ راجوری میں سب سے زیادہ فوجی ارتکاز اور دبائو ہے، لیکن وہاں بھی عوام کے سینے جذبۂ آزادی سے خالی نہیں ہیں۔
  • حال ہی میں میرواعظ عمر فاروق نے آپریشن سدبھاونا کے تحت فوج کی طرف سے زیارت گاہوں کی تجدید ومرمت پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے اسے مداخلت فی الدین قرار دیا۔ کیا اس معاملے پر آپ ان سے تعاون کریں گے؟
    • ہم تو پہلے ہی فوج کی اس مہم کی مخالفت کرتے آئے ہیں، اور یہ سب اس کی جانب سے اپنے گھناؤنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ فی الحال اس سے بڑھ کرتعاون کی کوئی صورت نہیں ہے۔البتہ عمرفاروق صاحب کی بھارتی فوج کے خلاف گرم گفتاری ان کے بدلے ہوئے موقف پر عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش باور کی جاتی ہے۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے ۱۹۷۵ء میں اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدے کے بعد چلّا چلّا کر کہا تھا کہ ’’اگر ہندستان نے کشمیریوں کو عزت کا مقام نہ دیا تو ہم دوسرا راستہ اختیار کریں گے‘‘۔اس طرح انھوں نے دلی کے ساتھ اپنے سمجھوتے کے لیے جواز پیدا کرنے اور عوامی جذبات کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ ایک استحصالی طریقۂ کار ہے۔ کانگریس کی تو بات ہی چھوڑیں ،وہ تو ام الخبائث ہے۔ البتہ نیشنل کانفرنس ایک زبردست فریب کار جماعت ہے۔ مجھے ان لوگوں کی عقل اور سوجھ بوجھ پر افسوس ہوتا ہے، جو اس پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فاروق عبداللہ صاحب نے مندر میں جاکرقشقہ بھی کھینچا۔ کشمیر کو غلامی کی لعنت میں مبتلا کروانے میں اس پارٹی کا کلیدی رول ہے۔ اقتدار کے اندر ایک بات کرتے ہیں اور اقتدار سے باہر ہندستان کے خلاف مکے لہرا کر عوامی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔
  • ۱۹۴۷ء میں جموں میںجو قتل عام ہوا، اور چار سے پانچ لاکھ کے قریب افراد شہید کیے گئے ،اس کے بعد رواں تحریک میںمزید ایک لاکھ جانیں قربان کر دی گئیں، تو سوال یہ ہے کہ ان چھے لاکھ افراد کا ووٹ رائے شماری میںکیسے شمار ہوگا؟
    •  موجود لوگ اپنے شہداء اور قربانی کو یاد رکھ کر رائے استعمال کریں، تو ان شاء اللہ اس نقصان کا ازالہ ہوگا۔

امریکا کی جانب سے مخالفت کیوں؟

  •  مختلف معاملات پر امریکا مخالف بیانات دے کر کیا ہم اسے جان بوجھ کراپنا دشمن نہیں بنا رہے ہیں؟
    •  امریکا جو کچھ کر رہا ہے اس کو نظر انداز کیسے کریں؟ عراق پر فوج کشی کے لیے وہاں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروںکی موجودگی کے جھوٹ اور عراقی صدر صدام حسین کی القاعدہ سے وابستگی کے بہانے بنائے گئے۔ اب خود امریکی صدر بش نے ان دعوئوں کے غلط ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ عراق میںاب تک ساڑھے چھے لاکھ مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ اس پر خاموش کیسے رہا جائے؟ ضمیر کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کا واقعہ کھلی دہشت گردی ہے،لیکن افغانستان اور عراق پر حملہ اس سے ہزار گنابڑی دہشت گردی ہے۔ مانا کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں کہیں موجود تھا، لیکن پورے ملک پر فوج کشی کا کیا جواز ہے؟ امریکا عالمی سطح پر انسانیت کا قاتل ہے۔ پاکستان ، ایران، افغانستان اور عراق کو تقسیم کرکے اورکمزور کرکے اسرائیل کے تحفظ اور اپنی بالادستی کو و ہ یقینی بنانا چاہتا ہے۔
  •  مسلمانوں کے اندرونی گروہی فسادات اور خون ریزی کی ذمہ داری امریکا کے سرتھوپنا کیا اپنے جرائم کی پردہ پوشی نہیںہے؟
    •  یہ تصویر کا ایک اورپہلوہے ۔مسلمانوںکی اندرونی کمزوریوں سے انکار نہیں ہے،جب ہی تو ہم ظالم کا ترنوالہ بن رہے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب دشمن تم پر ٹوٹ پڑیںگے جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ کے استفسار پر اس صورتِ حال کاسبب بھی بتادیا گیا، یعنی دنیا کی محبت اورموت سے خوف۔

 اندرونی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن امریکا براہ راست یا اپنے آلۂ کار حکمرانوں اور سیاست دانوں کے ذریعے بیش تر معاملات میںذمہ دار ہے۔ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے فلسطین میںالفتح کو حماس سے لڑنے کے لیے مبینہ طور پر ۲۷ملین ڈالر فراہم کیے ۔یہ صرف ایک مثال ہے، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ میںامریکا کی اسرئیل نوازی کیا ثابت کررہی ہے؟ اور پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے ذریعے جوکچھ کروایا جارہا ہے، کراچی سے لے کر وزیرستان تک، جہاں ایک دینی تعلیمی ادارے پر بمباری کی گئی اور ۸۲حفاظ قرآن شہید کردیے گئے___ یہ صرف چند مثالیں ہیں مسلم ممالک میں امریکی کردارکی۔

  •  صرف امریکا کیوں؟ روس نے بھی تو بوسنیا ، چیچنیا اور تاجکستان میں جو کچھ کیا اور کر رہا ہے، اس پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے؟
    • روس کا ریکارڈ ہرگزصاف نہیں ہے۔ یہ بات کون بھلا سکتا ہے کہ افغانستان اور وسط ایشیا میں روس کا خونیں کردار ہے۔ لیکن آج امریکا زیادہ اثرانداز ہورہا ہے۔
  • فلسطین اور دیگر مسلم ممالک مسائل کے بارے میں آپ بیانات دیتے ہیں۔ کیا وہاں کے لوگ اپنے لیے خودنہیں بول سکتے؟ آپ کا وہاں کے مسائل میں کیا رول بنتا ہے؟
    •  ایک حدیث مبارک میںہے کہ مسلمان جسدواحد کی مانند ہیں،کہیںبھی تکلیف ہوتو درد پورے جسم کو محسوس ہونا چاہیے۔ اگر کچھ لوگ امریکا سے حد سے زیادہ خوف زدہ ہیں اور براہِ راست بول نہیں پاتے تو یہ ان کی کمزوری ہے۔ ان کا یہ کردار ہمارے لیے قابل تقلید نہیں ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا اس بارے میں کردار بنتا ہے۔ لیکن وہ حق ادا نہیں کررہے ہیں۔ حج کے موقع پر ہم نے ان کوبتایا تھا کہ ان کا کیا رول بنتا ہے اور مظلوم مسلمانوں کی ان سے کیا اُمید یں وابستہ ہیں۔

بھارتی سامراج کے خلاف مزاحمت

  •  ۱۹۶۲ء میںآپ پہلی بار گرفتار ہوئے ۔ اس دوران کئی تحریکیں اور رہنماآئے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک آپ ایک ہی سیاسی موقف کو لے کر جدوجہد کررہے ہیں۔ آپ کے جذبے کو توانائی بخشنے کا ذریعہ کیا ہے؟اپنی تحریر اور تقریر میں آپ لفظ استعمار بار بار استعمال کرتے ہیں۔ نیز استعمار سے کیا مراد ہے؟
    •  استعمار یا Imperialism،یعنی جو طاقت کے بل پر کسی قوم پر قابض ہوجائے۔ یہ صحیح ہے کہ ۲۸؍اگست۱۹۶۲ء کو میں پہلی بار گرفتار ہوا۔ میںاس وقت جماعت اسلامی ضلع بارہمولہ کا امیر تھا اور یہ بخشی غلام محمدصاحب کا دور حکومت تھا۔

میںچار سال مولانا محمد سعید مسعودی کے ساتھ سرینگر میںرہا۔ طیب شاہ صدیقی انسپکٹر اسکولز تھے۔ وہ ایک دن مجاہد منزل آئے تو مولانا مسعودی صاحب نے ان سے کہا کہ ’’اس لڑکے کو نوکری پرلگادو، لیکن رکھنا سرینگر ہی میں ہے‘‘۔ اس طرح میںپرائمری سکول میں ٹیچر ہوگیا۔ اس کے بعد میںنے ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحان پاس کیے ،پھر رعناواری ہائی سکول مجھے بھیجا گیا۔ ان دنوں وہاں تاراچند ہیڈماسٹر تھے اور قاری سیف الدین،غلام حسن رضوی اور نبیہہ احمد اندرابی بطور استاد کام کررہے تھے۔ وہ مجھے مجاہد منزل سے آیا ہوا آدمی سمجھ کرمجھ سے کھچے کھچے رہنے لگے۔میری موجودگی میں پاکستان کے متعلق کوئی بھی بات کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ لیکن پاکستان کی محبت ان کے دلوں میںموجود تھی۔ آج آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ بھارت کے فوجی قبضے کا کتنا دبدبہ اور دہشت تھی۔ نجی محفلوں میںپاکستان اور سیاست کے بارے میں گفتگو کی جاتی تھی،لیکن میرے بارے میں ان کو لگتا تھا کہ مجاہد منزل کا آدمی ہے، رپورٹ پہنچائے گا۔

صبح کی اسمبلی میںبچوں کے سامنے تقریر کرنے کے لیے میری ذمہ داری لگادی گئی۔میں ہر روز دس پندرہ منٹ بچوں کو دین واخلاق کی باتیں بتایا کرتا تھا۔دس پندرہ دن کے اندر ہی ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ میں مجاہد منزل کے خیالات کاآدمی نہیں ہوں۔ میں عمر میں سب سے چھوٹا تھا، اور ان لوگوں کا دست شفقت ہمیشہ میرے سرپر رہا۔قاری صاحب نے سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب تفہیمات مجھے پڑھنے کو دی۔میںپوری دلچسپی سے کتابیں پڑھنے لگا۔ پھر ایک دن قاری صاحب نے کہا کہ ’’شاہ محلہ ،نواب بازار میں ہمارا اجتماع ہوتا ہے تم بھی آجایا کرو‘‘۔ اور میں باقاعدگی سے اجتماعات میںجانے لگا۔ وہاںمجھے اجلاس کی کارروائی قلم بند کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ چارسال تک میں نے بڑی محنت سے کارروائی کے نوٹس تیار کیے ۔ اس طرح تحریری طور پر بہت قیمتی مواد جمع ہوگیا تھا، لیکن وہاں آگ لگ گئی، جس میں یہ تمام نوٹس اور ڈائریاں ضائع ہوگئیں۔

اس دوران مسعودی صاحب اپنے والد کی آنکھوں میں تکلیف کے باعث ان کے ساتھ ہی ڈلگیٹ میں رہنے لگے۔ مجاہد منزل میں گاندربل کے غلام محی الدین صوفی کمیونسٹ آئیڈیالوجی سے متاثر تھے۔ انھوں نے مسعودی صاحب سے شکایت کی کہ ’’گیلانی کے پاس پاکستانی خیالات کے لوگ آتے رہتے ہیں اور مجاہد منزل پاکستان کا اڈہ بن گیا ہے‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے کچھ دوست میرے پاس آتے رہتے تھے۔چنانچہ میرا تبادلہ بمئی مڈل سکول،سوپور میں کروایا گیا۔اس سے میرا ذاتی طور پر کافی نقصان ہوا، کیونکہ میں سرینگر کے، ماحول میں کافی دلچسپی سے پڑھنے لگا تھا۔ خیر وہاں پہنچتے ہی اگست۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی کارکن بنادیاگیا۔ ان دنوں جماعت اسلامی کارکن بنناپل صراط عبور کرنے سے کچھ کم نہ تھا۔ میں بمئی (سوپور) میں چار سال رہا۔ پھر سوپور کے انٹرمیڈیٹ کالج میںتبادلہ کردیا گیا اور چھے سال وہاں رہا۔ اس دوران قرآن پاک اور اسلامی لٹریچر سے کافی شغف بڑھ گیا۔ اور یہی اسلامی فکر، جو یہاں سے حاصل ہوئی میرا اصل جذبہ حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے۔

میں سرزمین کشمیر پر بھارتی فوج کے قبضے سے کبھی ذہنی طور پر مطابقت پیدا اور سمجھوتا نہ کرسکا۔ یہ موقف اور اس پر استقامت میں میری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ یہ سب اسلام کی دین ہے۔ میرا پختہ ایمان اور اعتقاد ہے کہ اسلام کامل ضابطۂ حیات ہے ۔اور دوم، یہاں بھارت کا قبضہ جبری اور بلا جواز ہے۔جتنا خدا وند کریم کے وجود پر یقین ہے اتنا ہی ان دو باتوں کی صداقت پر یقین ہے۔

  •  ۱۹۶۲ء میں موئے مقدس کاسانحہ پیش آیا، رائے شماری کی تحریک چل ہی رہی تھی، پھر اور کچھ جماعتیں وجود میںآگئیں۔ کیا ان دنوں بھی کشمیری مزاحمت کا سواداعظم پاکستان نواز ہی تھا؟
    • یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جموں و کشمیر کا سواداعظم پاکستان کے حق میں تھا۔ پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت تھی۔ آپ اسی بات سے اندازہ کرلیجیے کہ کئی بزرگ وصیت کرجاتے تھے کہ ’’جب یہاں پاکستان قائم ہوگا تو ہماری قبور پرآکر کہہ دینا کہ پاکستان بن گیا ہے، تاکہ ہماری روحوں کو سکون مل سکے‘‘۔

دراصل ان دنوں یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ تنازع اس قدر طول پکڑے گا۔ اس وقت تو لگتا تھا کہ معاملہ اقوام متحدہ میںہے، وہاں قرار داد یںپاس ہوچکی ہیں، بس ان پر عمل درآمد کی دیر ہے، اور یہاںپاکستان بن جائے گا۔ یہ اندازہ نہ تھا کہ ہندستان، برطانیہ سے بھی زیادہ ظالم سامراج ثابت ہوگا۔

بعض اوقات پاکستانی حکومتوں کا رویّہ

  •  آپ نے کئی بار کہا ہے کہ پاکستان پیچھے ہٹ رہا ہے۔ آپ کی نظر میںکیا یہ پاکستانی ریاست کی دانستہ پالیسی ہے کہ اب تحریک کشمیر سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے،یا محض حکمرانوں کی وقتی پالیسی یا مصلحت؟
    •  اس رنج دہ صورت حال کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میںجب قیام پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو مسلم لیگ نے ’پاکستان کامطلب کیا لاالٰہ الااللہ‘ کا نعرہ لگایا ،لیکن خود مسلم لیگ میںبھی لوگوں کو اس کام کے لیے تیار نہیںکیاگیا کہ وہ قیام پاکستان کے بعد کلمہ طیبہ کی بنیاد پرنئے ملک کے خدوخال ترتیب دے سکیں۔ میںلاہور میںچار سال رہا ۔ موچی دروازہ میدان میںقائد اعظم کی تقریر سنی، عبدالرب نشتر اور نواب بہادر یار جنگ بھی تھے۔ قائد اعظم کا اپنا تصور پاکستان بڑا واضح تھا کہ ہم ایک الگ قوم ہیں ، ہماری الگ تہذیب ہے اورہم ہندواکثریت کے زیر سایہ اپنی تہذیب وثقافت کے تقاضوں پرعمل نہیں کرپائیں گے۔لیکن انھیں پاکستان بن جانے کے بعد زیادہ موقع نہ مل سکا۔ ان کے بعد جوقیادتیں آئیں، وہ تصور پاکستان کے شعور سے عاری تھیں۔ سید مودودی ؒ کے بارے میں ایک کتاب تذکرہ سیّد مودودی  ہے۔ اس میں تمام تفصیل درج ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کیا ہوا۔مسلم لیگ کے ایک بڑے لیڈر تھے ڈاکٹرعمرحیات ملک صاحب جو پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ پاکستان جب بنا تو قیادت کے بہت سے ارکان پر ہوس زر غالب ہوگئی۔ وہ الاٹمنٹوں کے بکھیڑے میںپھنس گئے۔ انھوں نے پاکستان کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر کے لیے کبھی سوچا ہی نہیں ، بلکہ جو لوگ ان خطوط پر سوچتے تھے، اور پاکستان کو اسلامی بنیادوںپر استوار کرنا چاہتے تھے ان کو وہاں برداشت ہی نہ کیا گیا، جیسے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی۔ تحریک پاکستان کے دوران سید مودودی نے مسئلہ قومیت، مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش اوّل، دوم جیسی کتابیں لکھ کر کُل ہند مسلم لیگ کی تحریک کو نظریاتی بنیاد اور پختہ دلیل فراہم کی تھی۔ چنانچہ مسلم لیگ نے بڑی تعداد میںوہ کتب چھپوائیں اور تقسیم کیں۔ اس کے بعد مولاناؒ نے خود مسلم لیگ کو بھی اس بات کے لیے ہدف تنقید بنایا کہ وہ نام تو اسلام کالے رہی ہے لیکن بنیادی سطح پر لوگوں کو اسلام کے لیے تیار نہیں کررہی ہے۔

متعدد پاکستانی حکمرانوںکی اقتدار پرستی، اسلام سے بے اعتنائی اور اسی طرح کی سازشوںکی وجہ سے اپنے قیام کے ۲۴ برسوں بعد ہی پاکستان دولخت ہوگیا۔پاکستانی معاشرہ اسلامی بنیادوں پرتعمیر نہ ہوسکا،اخوت کے بجائے علاقائی تعصبات نے جڑپکڑی،معاشی اونچ نیچ اور استحصال کو ختم نہ کیا جاسکا۔ وہاں استحصالی جاگیرداری نظام ابھی تک قائم ہے۔ وہاں زبانیں بت بن گئی ہیں، مسلکی عصبیت بھی زور وں پر ہے۔ یہ سب اسلام کو بطور دین اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔

اس وقت کشمیرکے معاملے میںجو موقف پایا جارہا ہے، اس میں نائن الیون کے بعد کے حالات اور امریکی مداخلت کا عمل دخل ہے۔ موجودہ حکمران اقتدار پر ست ہیں۔ وہ شاید کشمیر کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں اورچاہتے ہیں کہ یہ بوجھ ان کے سر سے اترجائے، جس کے بہت سارے محرکات ہیں جن میں سب سے بڑا موجودہ حکمران طبقے کا مرعوب ہونا ہے۔ وہ امریکا سے بھی مرعوب ہیں اور بھارت سے بھی۔ ان کا خیال ہے کہ کشمیری بھی اب تھک چکے ہیں ۔وہاں ایک عنصران لوگوں پر مشتمل ہے جواسلامی اخوت اور ملّی وحدت کے بجائے قوم پرستی اور مادی خوش حالی کوترجیح دیتے ہیں۔ رسول ؐاللہ کے اس فرمان سے کہ مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں، یہ لوگ اس سے کنی کتراتے ہیں۔

  • کیا ایک وجہ یہ تو نہیں ہے کہ تحریک کشمیر نے جو نہج اختیار کی اور اس کی جو بنیادیں یہاں پر استوار ہوئی ہیں، ان کی وجہ سے پاکستان کی اخلاقی برتری کو ضعف پہنچا ہے؟
    • پاکستان اسی صورت میں اپنی برتری قائم رکھ پاتا، جب وہ نظریاتی حیثیت برقرار رکھتا، کیونکہ وہی نظریاتی بنیاد خود پاکستان کی بھی اور تحریک کشمیر کی بھی وجۂ جواز ہے۔یہ بنیاد مضبوط ہوتی تو وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوتے۔لیکن چونکہ وہ اب نظریاتی زاویے سے نہیں سوچتے ، لہٰذا ان کے اہلِ حل و عقد یا میڈیا میں مخصوص طبقوں کو لگتا ہے کہ ’کشمیر خواہ مخواہ ایک معاشی بوجھ بناہوا ہے‘۔ دراصل ان پر بھارت کا خوف بھی طاری ہے۔ جب میںنے دلی میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی، تو انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے تین جنگیں کشمیر کے لیے لڑیں اور آپ بھی ۵۰ سال سے جدوجہد کررہے ہیں لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہوا، لہٰذا ہمیں سمجھوتہ کرلینا چاہیے‘‘۔ میںنے کہا کہ ’’ہماری جدوجہد حق پرمبنی ہے، ہمارے ساتھ وعدے بھی کیے گئے تھے، لہٰذا ہمیں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنی حقانیت وصداقت اور اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بھروسا کرکے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور آپ بھی ہماری اخلاقی ، سفارتی اور سیاسی سطح پر حمایت جاری رکھیں ،تو وہ شخص جواب میں بول پڑا کہ’ میرے ساتھ جارج بش اور ٹونی بلیئر ہیں‘۔ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے کہ وہ کس کے ساتھ ہے، لہٰذاجب وہ اس طرح سوچتے ہیں تواس میں ملّی،دینی اور تہذیبی رشتے کی اہمیت نہیں رہتی۔
  •  پاکستانی حکومت کی ذہنی تبدیلی کے لیے کہیں وہاں کی دینی جماعتیں توذمہ دار نہیں ہیں کہ جو قومی انتخابی سیاست میں کشمیر کی تحریک کا ذکر کرتی ہیں اور اس سے شاید حکومت یہ سمجھتی ہو کہ کشمیر کی تحریک ہمارے لیے سیاسی چیلنج بن رہی ہے؟
    • دینی عناصر اور حکومت کے مابین تضاد ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان کے عوام بھی دین پسند ہیں، اور اگر جنرل مشرف بھی دینی ذہن ہی رکھتے تو یہ صورتِ حال پیدا ہی نہ ہوتی ۔ دین پسندوں اور دین مخالفوں کا نظریاتی ٹکرائو پوری مسلم اُمت میں ایک بنیادی مسئلہ ہے۔
  •  اس ٹکرائو سے قومی اتفاق رائے نہیں ہوپاتا۔ جیسے وہاں کی حزب اختلاف نے آپ کو ۲۳ مارچ کی ایک تقریب میںمدعو کیا تھا۔ شاید اس طرح کے واقعات سے جنرل مشرف سوچنے لگے کہ کشمیر کے نام پر مجھے للکاراجارہا ہے،کیوں نہ اس باب ہی کو بند کریں؟
    • کشمیر پاکستانی سیاست میں ہمیشہ ایک مرکزی ایشو رہا ہے اور ہرکسی نے ہمیشہ برسرِاقتدار بھی نہیں رہنا۔ اگر کوئی جماعت یہ کہتی ہے کہ ہم کشمیر کی تحریک کو جائز جانتے ہیں اور اس کی اخلاقی و سفارتی معاونت کرتے ہیں، تو اس میںکون سی غلط بات ہے۔ بلاشبہہ پانچ ہزار پاکستانی نوجوان یہاں شہید ہوچکے ہیں، اس کو نظرانداز کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس کا تذکرہ کیوں نہیںہوگا؟ اس لیے کہ یہ بات حکمرانوں کے مزاج پر گراںگزرے گی؟ بھلا دینی جماعتیں ہی اپنے ایجنڈے سے کیوںہٹیں؟ جنرل مشرف بھی توصدر کی حیثیت میں ’’انتہا پسندوں‘‘ کے خلاف ووٹ دینے کی اپیلیں کررہے ہیں، اوریہ انتہاپسند کون ہیں ؟ جنرل مشرف، امریکی بولی بول کر اسلام کا نام لینے والوں کوانتہاپسند کہتے ہیں۔
  •  صدر مشرف کے ہاتھوں یوں لگا کہ پاکستان، اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرار دادوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے متعلق آپ کی کیارائے ہے؟
    •  یہ پاکستان کے ایک ڈکٹیٹر کا امریکی دبائو میں فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ امریکا، اسلام دشمنی اورمسلم دشمنی کی قدر مشترک پرہندستان کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ ہندستان،امریکا اوراسرائیل تینوں اسلام اور اُمت مسلمہ کے قوت پکڑنے سے خائف ہیں، لہٰذا یہ سارا معاملہ ناقابلِ فہم نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے پاس جدوجہد کی وجۂ جواز ہمارا اپنا جذبۂ حُریت ہے۔آزادی سے ہماری کمٹ منٹ، کسی پاکستانی حکومت کے بدلتے موقف سے مشروط نہیںہے۔
  •  کیا آپ کے نزدیک اقوام متحدہ اسلام دشمن تنظیم نہیں ہے؟
    •  اقوام متحدہ پر اسلام دشمنوں کاغلبہ ہے، لیکن ہمیں اس ادارے کی قراردادوں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کے ریفرنس کے طور پر اپنے مقدمے کی ایک جائز اور مبنی برحق بنیاد مل رہی ہے، تو پھر کیوں اسے چھوڑیں گے؟
  • سردار عبدالقیوم صاحب،بھیم سنگھ کی دعوت پردلی آئے جہاںوہ غلام نبی آزاد ، فاروق عبداللہ اور مفتی سعید سمیت کئی لیڈروں سے ملے۔ انھوںنے جنرل مشرف کے اقدامات اور فارمولوں کی حمایت کی۔ سردار عبدالقیوم اس نتیجے پرکیوں پہنچے؟
    • سردار عبدالقیوم صاحب کی پارٹی اس وقت وہاں برسراقتدار ہے۔ انتخابات میں پاکستانی حکومت نے مسلم کانفرنس کی حمایت میںزبردست رول ادا کیا۔ اس لیے یہ حکومت مشرف صاحب کی ڈکٹیشن پر چل رہی ہے۔ اس میںحیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
  •  ایک رائے یہ ہے کہ سردار عبدالقیوم اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۴۷ء میں تحریک شروع کی تھی۔ لیکن آج ان کو بزرگ مزاحمتی لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا جارہاہے۔ اس خیال کے مطابق تحریک چلانے والے آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جیسے غلام نبی آزاد، ویسے ہی سردار صاحب کوسمجھا جاتا ہے۔ اور ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا، جس سے یہ ردعمل پیدا ہوا ہے؟
    • ہم نے سردار عبدالقیوم صاحب کی جدوجہد کو ہمیشہ کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیںکہ پاکستان ہمارامحسن ملک ہے، جس نے آج تک ہماری جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ ہم آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کابیس کیمپ مانتے ہیں۔ یہاں سے جو لوگ ہجرت کرکے وہاں جاتے ہیں ، تو آزاد کشمیر ہی کے لوگ ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں اوران کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ہم اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں، لہٰذا یہ تاثر غلط ہے۔ دراصل وجہ یہ ہے کہ وہ (سردارعبدالقیوم) جموں وکشمیر کے حوالے سے اپنے موقف پرقائم نہیں رہے، ان کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ انسان جو دعویٰ کرے،اسے چاہیے کہ پہلے خوب غور وفکر کرے کہ جس راستے کا وہ تعین کررہا ہے، وہ صحیح ہے یا نہیں۔ ایک بار سوچ سمجھ کرفیصلہ کرلیا تو پھر استقامت کا مظاہرہ کرناچاہیے۔چاہے دنیا مخالف ہوجائے اور گردوپیش کتنا ہی بدل جائے،لیکن وہ حق پرڈٹا رہے۔ جنرل مشرف ہی کی طرح انھیں بھی لگا کہ جنگیں بھی لڑیں، قربانیاں بھی دیں لیکن کچھ حاصل نہ ہوا تو وہ مایوسی کاشکار ہوئے۔ اوراگر بالفرض مان بھی لیتے ہیںکہ ہماری کسی بات سے انھیں لگا ہو کہ ان کو جائز مقام نہیں مل رہاہے، تب بھی جس چیز پر ان کا ایمان ہے، اس سے انحراف کے لیے یہ رویہ کس طرح وجۂ جواز بن سکتا ہے؟ ہم سردار عبدالقیوم خاں صاحب کی قربانیوں سے انکار نہیںکرتے، مگر قربانیوں کا تحفظ ان کی بھی تو ذمہ داری ہے۔ آج جو موقف انھوں نے اختیار کیا ہے، اس سے وہ ہمارے ساتھ ساتھ اپنی قربانیوں اور جدوجہد کو بھی بھلارہے ہیں۔
  •  ۲۰۰۵ء میں پاکستانی صحافیوں کاایک گروپ یہاں آیا۔انھوں نے حالات کا جائزہ لیا، ملاقاتیں کیں اوریہ تاثر قائم کیا کہ کشمیری نہ صرف خود پریشان ہیں بلکہ ہمیں بھی پریشان کریںگے۔ اس کے متعلق آپ کیاکہیںگے؟
    • کیا یہ ممکن نہیںکہ موجودہ پاکستانی حکومت ہی کا منصوبہ رہا ہو کہ اپنا نیا موقف مضبوط بنانے کے لیے صحافیوںسے یہ باتیں کہلوائے۔ ورنہ ہماری توان سے ایسی کوئی بات نہ ہوئی تھی کہ جس سے انھیں پریشانی لاحق ہوئی ہو۔ البتہ ان صحافیوں نے جموں میںجو کچھ کیا، گوّیوں، شرابیوں اور رقاصائوں پرڈالر نچھاور کیے،اسے دیکھ کر ہم پوچھتے ہیں کیا اسلامی جمہوریہ سے آنے والوں کے لیے یہ رویہ درست ہے؟
  • مگر اس سارے پس منظر میں اور تحریک آزادی میں،گلگت اور بلتستان کو فراموش کردیا جاتاہے۔ وہ کیا چاہتے ہیں؟ کیا اس کو نظرانداز نہیںکیا جارہا ہے؟
    •  یہ آزاد کشمیر میںبھی کہا جارہا ہے۔ میں نے کچھ روز پہلے آزاد کشمیر کے امیرجماعت اسلامی کا ایک بیان پڑھا۔ وہ بھی آج گلگت اور بلتستان کے حوالے سے کچھ ایسی ہی باتیں کررہے ہیںجیسا کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ کررہے ہیں۔

کراچی معاہدے میں کہا گیا تھا کہ شمالی علاقہ جات میں پاکستان اپنی ذمہ داری ادا کرے گا مگر اس نے یہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔ انھوں نے اس علاقے کے ساتھ ایک کالونی جیسا برتائو کیا۔ ان کو جمہوری حقوق سے محروم رکھا۔ ایسی صورت میںمزاحمت پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے خود پاکستان کا رویہ ذمہ دار ہے۔

  •  شمالی علاقے فوجی اعتبار سے پاکستان کے لیے کافی اہم ہیں؟
    •  جب یہ خطہ پاکستان کے لیے اتنا اہم ہے تو ان کو اپنی کوتاہیوں اور کمیوں کا ازالہ کرنا چاہیے ، نہ کہ اس کے رد عمل میںکشمیر کاز ہی سے ہاتھ کھینچ لیں، یا اسے نقصان پہنچائیں۔
  •  ہر ایک ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفاد کے مطابق اپنی پالیسی میںتبدیلی لائے؟
    • روز مرہ پالیسی میں تبدیلی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی ستون مسمار نہیںکیے جاتے ۔
  •  ستون کیا ہیں؟
    • بنیادی ستون جموں و کشمیر کے بارے میں ۱۹۴۷ء سے چلا آرہا مسلّمہ موقف ہے، جوکشمیریوں کی امنگوں اور حقوق سے ہم آہنگ ہے۔

عالمی ردعمل اور حمایت

  •  یہاں عالمی برادری کو متوجہ کرنے کے لیے ہزاروں ہڑتالیںکی گئیں مگر عالمی برادری کی طرف سے خاطرخواہ حمایت نہیںمل رہی ہے،جیسا کہ حال ہی میںایما نکلسن رپورٹ میں آیا ہے۔ کیا یہ آپ کی ناکامی نہیں ہے؟
    • اوّلاً آپ تسلیم کرلیں کہ عالمی سطح پر لوگوں کے برتائو کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیںہے۔ ۲۰۰۴ء میں یورپی یونین کے وفد نے کہا کہ جموں وکشمیر ایک خوب صورت جیل ہے اور یہاں کا پُرامن اور قابل قبول حل اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عمل درآمد میں ہے۔پھر دوسال میںایسا کیا بدل گیا جس سے یورپی یونین کے خیالات ہی تبدیل گئے،بہر حال ایمانکلسن رپورٹ اور اس جیسی چیزوں سے ہماری تحریک متاثر نہیںہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ گلگت میںجمہوریت نہیں ہے، جب کہ وہ ہندستانی جمہوریت کی مدح خوانی کرتے ہیں۔بہتر ہوگا کہ وہ ہمیں ہندستانی جمہوریت کے بارے میں نہ بتائیں۔ ہم بہتر جانتے ہیں کہ یہاں کون سی جمہوریت ہے۔مغرب کی پالیسیاں اخلاقی بنیاد سے عاری ہیںاورصرف ان کے مادی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔
  • کشمیر کے تنازعے کا ایک حل خود مختار کشمیر کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے؟
    • ہم ایسا حل چاہتے ہیں جس سے مستقل طور پر تنائو ختم ہو، جو پائیدار ہو، اور جس سے مزید خون خرابے کا دروازہ نہ کھلے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ اگر تنازعے کو اس کے تاریخی پس منظر میں، عوامی جدوجہد اور قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان ہی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔
  • جموں میں لوگ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کررہے ہیں، جب کہ لداخ میں ۱۹۸۹ء سے ہی یونین ٹیرٹیری کے لیے تحریک چل رہی ہے، تو کیا ان کی امنگیں قابلِ قدر نہیں؟
    • جموں میں صرف ڈوگرے آباد نہیں ہیں۔ راجوری، پونچھ، ڈوڈہ، کشتواڑ، بھدرواہ، بانہال،گول گلاب گڑھ میں بہت بڑی تعداد میں مسلمان موجود ہیں۔ اسی طرح لداخ میں بھی۔  ان کی اُمنگیں بھی تو ہیں۔ کیا ہم ان کو نریندر مودیوں کے حوالے کریں جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش رچائی۔
  • تو کیا وہ اس وقت محفوظ ہیں؟
    • فی الحال تو جس طرح ہم غیر محفوظ ہیں، اسی طرح وہ بھی غیر محفوظ ہیں، لیکن ہم مستقبل کے انتظام کی بات کرتے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کی امنگیں ہمارے ساتھ ہیں، اس لیے ہم انھیں علیحدہ کردیں تو اللہ کی نظر میں بڑے مجرم ٹھہریں گے۔ ان لوگوں نے سجاد لون فارمولے پر شدید تنقیدی رد عمل ظاہر کیاجو ان کی امنگوں کا اظہار ہے۔
  • سجاد لون کے فارمولے میں خطوں کی بنیاد پر آپشن دینے کی بات کی گئی ہے۔ کیا یہ ایک نئی کوشش نہیں ہے؟
    • اس سے دوبارہ ۱۹۴۷ء جیسی صورتِ حال پیدا ہوجائے گی، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جموں شہرمیں اس وقت بھی کم از کم ۴۰ فی صد مسلمان آباد ہیں۔ کیا ہم ان کو شیوسینا کے حوالے کردیں؟
  •   شیو سینا والے ہندو کیا پاکستان کے ساتھ رہنا قبول کریں گے؟
    • کیا کہیں پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تصفیہ ہونے کے بعد کوئی اقلیت وجود میں نہ آئے۔  مسلم معاشرے میں اقلیتیں بالکل محفوظ ہوتی ہیں۔ تمام دنیا کے مسلم ممالک میں غیر مسلم اقلیتیں آباد ہیں اور اپنے عقائد کے مطابق سکون وچین سے زندگی بسر کررہی ہیں۔ پاکستان میں مسلمان بھلے ہی ایک دوسرے سے لڑبھڑ رہے ہوں، لیکن اقلیتیں محفوظ ہیں۔ آپ دکھائیے کوئی ایک جگہ جہاں اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جاتا ہو جو ہندستان میں مسلمانوں ، سکھوں یا عیسائیوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ خوشونت سنگھ کے مطابق۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد صرف دہلی میں ۳۵۰۰سکھ قتل کیے گئے اور دہلی سے باہر ۱۰ہزار سکھ تہہ تیغ کیے گئے۔ یعنی مجموعی طور پر ساڑھے تیرہ ہزار سکھوں کو چند دن کے اندر اندر موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ جموں وکشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، ہندو اقلیت میں ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے، اور اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ یہاں باعزت زندگی گزار سکتے ہیں۔ میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہتا ہوں کہ یہاں ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوگا، جو ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہماری طرف سے ان کو جان، مال اور عزت کے تحفظ کی مکمل ضمانت ہوگی۔

صحافتی خدمات

  • آپ صحافت سے بھی وابستہ رہے ہیں ،کتابیں بھی لکھی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے ہیں، اتنی مصروفیات کے باوجود مطالعہ اور تصنیف وتالیف کے لیے بھی آپ کیسے وقت نکالتے ہیں؟ کیسے دانش اور قیادت جیسی بالعموم متضاد صفات کو یکجا کردیا ہے؟
    •  وقت اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی عطا ہے۔ اسی لیے وقت کی قسم کھائی گئی ہے۔ والعصر……  میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی لمحہ بے مقصد صرف نہ ہو، لکھنے پڑھنے میں زیاددہ وقت دینا چاہتا ہوں۔ البتہ لکھنے پڑھنے کا زیادہ موقع جیل میں ہی ملا ہے۔ رودادقفس اور مقتل سے واپسی، دونوں کتابوں کی تصنیف بھی جیل ہی میں ہوئی۔ مطالعہ اور تصنیف کا کام اکثر صبح اور شام کے وقت کرتا ہوں۔

۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۳ء تک میں جماعت اسلامی کے اجتماعات کی کارروائی لکھتا رہا۔ یہ بڑی قیمتی روداد تھی جو آگ لگنے کی ایک واردات میں ضائع ہوگئی ، اس کا مجھے آج بھی صدمہ ہے۔ پھر ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۰ء تک میں جماعت کے اخبار اذان کا مدیر رہا۔ میں اکثر اداریے اور دیگر مضامین تحریر کرتا تھا۔ ’دیدوشنید‘ میرا مستقل کالم تھا۔ یہ سارا مواد بھی میرے پاس محفوظ نہیں ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ مطالعہ اور تصنیف کا ذوق پروان چڑھا۔

میرے والد صاحب سیزن قلی تھے، غریب گھرانہ تھا۔ زیری منز پہاڑیوں کی اوٹ میں ہونے کے باعث وہاں ظہر کے بعد ہی غروب آفتاب کا منظر ہوتا ہے۔ میں ننگے پائوں اسکول جاتا تھا، چھٹی کے وقت اکثر گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا۔

۱۹۳۹ء میں محمد دین فوق صاحب، شمس پورہ اپنے کسی رشتہ دار کے پاس آئے تھے۔ وہ ان دنوں لاہور کالج سے وابستہ تھے۔ غلام محمد صادق اور مس محمودہ بھی اس کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ ان دنوں کشمیر کے تاجر اور طالب علم اکثر پنجاب کے شہروں ، راولپنڈی ، لاہور اور امرتسر آتے جاتے تھے، جب کہ سردی کے مہینوں میں مزدوری کی تلاش میں بہت سارے کشمیری پنجاب کے میدانوں کا رخ کرتے تھے۔ ہم بھی فوق صاحب سے ملنے گئے۔

فوق صاحب نے میری تعلیم کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ شوق تو ہے البتہ یہاں سہولت نہیں ہے۔ فوق صاحب نے کہا کہ میرے ساتھ لاہور چلو۔ چنانچہ مجھے فوق صاحب کے ساتھ ہی لاہور بھیج دیا گیا۔ میں چھوٹا تھا، گھر کی بہت یاد آتی تھی، اکثر اقبال کی نظم پرندے کی فریاد گنگناتا تھا اور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے تھے۔ایک سال بعد گھر واپس آیا، اگلے سال اپنے بھائی کے ساتھ جو لاہور کالج برائے خواتین میں کام کرتا تھا، واپس لاہور گیا۔

اس بار مسجد وزیرخان لاہور میں حفظ کے لیے میں نے داخلہ لیا، البتہ حفظ مکمل نہ ہوسکا۔ مزید تعلیم کے لیے اندرون دہلی دروازہ میں شام کے وقت کام کرنے والے نجی اورینٹل کالج میں داخلہ لیا۔ اس کے پرنسپل آقا بیداربخت تھے۔ وہاں پروفیسر عاشق حسین اقبالیات پڑھاتے تھے۔  لاہور میں قیام کے دوران اردو اور پنجابی دونوں زبانیں میں اچھی طرح بولنے لگا۔ پنجاب یونی ورسٹی سے ادیب عالم پاس کرکے ۱۹۴۴ء میں کشمیر لوٹ آیا اور ملازمت کی تلاش شروع ہوئی۔ میرے چچا یوسف گیلانی صاحب لانک ریشی پورہ کی مسجد کے امام تھے۔ انھوں نے کسی شناسا کی وساطت سے مولانا محمد سعید مسعودی سے رابطہ کروایا، جو ان دنوں اخبار خدمت کے نگران تھے۔ انھوں نے مجھے بطور رپورٹر تعینات کیا۔ نند لال واتل ایڈیٹر تھے۔ محمد یوسف قادری بھی ان دنوں خدمت میں تھے۔ اس دوران میں نے ادیب فاضل اور منشی فاضل بھی پاس کیا۔ مسعودی صاحب ایک عالم اور علم دوست انسان تھے۔ حافظہ بلا کا تھا، حوالہ دیتے وقت کتاب کے صفحے اور سطر تک کا حوالہ دیتے تھے۔ غیررسمی تربیت کرتے تھے، غلطیوں کی بروقت تصحیح کرتے تھے۔

۱۴نومبر ۱۹۶۲ء کو میرے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ میں اس وقت جیل میں تھا، جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ملی۔۱۹۶۴ء میں مجھے اذان کا ایڈیٹر بنایا گیا۔ غرض سخت زمانہ دیکھا ہے،کاندھوں پر پتھر بھی ڈھوئے ہیں۔ بلاشبہہ کم عمری میں محنت، آسایش پسندی سے بچاتی ہے۔

انتخابات کے بائیکاٹ کا سبب

  •  اگلے سال جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کا الیکشن ہورہا ہے۔ آپ نے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے، کیوں؟ کیا یہ مفید نہیں کہ نسبتاً بہتر لوگ اسمبلی میں جائیں؟
    •  میں پندرہ سال تک اس اسمبلی میں رہا ہوں۔ الیکشن عوام کا حق ہے۔ یہاں دو چیزیں ہوتی تھیں۔ سیاسی پارٹیاں مراعات، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، ملازمتوں اور ترقیاتی کاموں کے نام پر عوام سے ووٹ لیتی تھیں۔ لیکن اسمبلی میں جاکر شراب، سود، مخلوط تعلیم اور بے معنی معاملات کے متعلق قانون سازی کرتی تھیں۔ یہ عوامی اعتماد سے ان کی خیانت تھی۔ اگر وہ شراب اور غیر اسلامی قوانین کے لیے عوام سے ووٹ مانگتے تو عوام انھیں دھتکار دیتے۔ جماعت اسلامی نے سیاسی پارٹیوں کی اس بدمعاشی کا توڑ کرنے کے لیے الیکشن میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگ بھی الیکشن کے ماحول میں بات سننے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اسلام کو بطور کامل نظام حیات متعارف کرنے کے لیے الیکشن میں بھرپور شرکت کا اقدام اُٹھایا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو اُجاگر کرنا چاہتے تھے۔ عوام میں بھی اور اسمبلی میں بھی، تاکہ عوامی آواز کو منوایا جائے اور اسے مؤثر طور پر پیش کیا جائے۔ ۱۹۸۹ء تک ہم اسمبلی میں رہے۔ ۲۹؍ اگست۱۹۸۹ء کو ہم نے اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دیا۔ تب تک ووٹ ہی ایک ذریعہ تھا مسئلے کو اجاگر کرنے کا، لیکن ووٹ کی حرمت کو بھارتی کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں مسلسل پامال کیا گیا۔ اس طرح جب ووٹ کا سب سے زیادہ جمہوری طریقہ صریح دھاندلی سے ناکام بنایا گیا تو مسلح تحریک نے جنم لیا۔ ہندستان اور اس کی پروردہ سیاسی پارٹیاں ہمیشہ دھاندلی ہی کے بل پر یہاں مسلط ہوتی رہیں۔ ۱۹۸۷ء میں بھی یہی تماشا ہوا۔ حالانکہ مسلمانوں نے مسلم متحدہ محاذ (MUF)کو وسیع پیمانے پرحمایت سے نوازا تھا۔ لیکن ہندستان نے ناکام کو کامیاب اور کامیاب کو ناکام بنادیا۔ لہٰذا ووٹ والا خیال زبردست مایوسی سے دوچار ہوا، اور رجحان بیلٹ سے بلٹ، یعنی صندوق کے بجائے بندوق کی طرف منتقل ہوا۔ خون بہنے کے بعد بیلٹ بے معنی ہوجاتا ہے۔ ایک لاکھ جانیں، عزتیں ، عصمتیں، جایدادیں، اتنی ساری قربانیوں کو الیکشن کے ذریعے دفن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لیے ہم اس کی مخالفت کررہے ہیں۔

 ایک اور بات یاد رکھیں، بڑا مقصد حاصل ہوگا تو چھوٹی چھوٹی چیزیں خود بخود آجاتی ہیں۔ بڑی جدوجہد کے دوران چھوٹے اہداف پر توجہ مرکوز نہیں رہ سکتی۔ بیورو کریسی تو غالب قوت کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہم شاخ تراشی کے بجائے کیکر کے درخت ہی کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ مزاحمتی تحریکوں کا یہی انداز ہوتا ہے اور انھی اہداف پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔

سامراجی غلبہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آبادی کی اکثریت دین اور تہذیب سے نا آشنا بھی ہے اور لاتعلق بھی۔ یہ چیز بھی استعماری قبضے کو مستحکم کرنے میں ایک عنصر ہے۔ لہٰذا وہ ہمارے دین اور تہذیب سے ہمارے رشتے کو ہدف بناتی اور اس کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ ملّی و دینی شعور کی بیداری اور قبضے کی مزاحمت ہماری جدوجہد کے دوبنیادی اہداف ہیں۔

  •  ان انتخابات کے بائیکاٹ سے کیا مدد ملتی ہے؟ بائیکاٹ ہو یا نہ ہو، حکومت تو بن ہی جاتی ہے، جو پھر من پسند قانون نافذکرتی ہے، اس میں بائیکاٹ پر زور کیوں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ اچھے اور اہل تر لوگ اسمبلی میںجائیں؟
    •  ۱۹۷۷ء میں نیشنل کانفرنس دو تہائی اکثریت کے باوجود کچھ نہ کرسکی، حالانکہ شیخ محمد عبداللہ جیسا بلند قامت لیڈر بھی موجود تھا۔ نیشنل کانفرنس کے اٹانومی بل کا حشر تو سب نے دیکھ لیا۔  یہ واضح ہے کہ یہ اسمبلی کشمیر کے مفاد کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ۔ پھر اچھے لوگ وہاں جاکر کیا کریں؟ الیکشن کا بائیکاٹ، ہم ہندستان سے عدم تعاون واضح کرنے اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لیے کر رہے ہیں۔
  •  جموں و کشمیر کے میڈیا سے آپ کتنا مطمئن ہیں؟
    •  میڈیا اداروں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اگر حریت نوازی ظاہر کریں تو ان پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اس لیے ہمدردی کے باوجود ان کے لیے کما حقہٗ تحریک نوازی بر تنا مشکل ہے۔ ہم اس کو سمجھتے ہیں۔ نیت پر شک نہیں کرتے ، چند اخباروں کے استشناء کے ساتھ یہاں کا مقامی پرنٹ میڈیا صورتِ حال کی صحیح عکاسی کی کوشش کرتا ہے۔

پُرامن جدوجہد اور عسکریت

  • عیدگاہ کے جلسے میں (۲۲؍اپریل ۲۰۰۷ء) اور اس کے بعد بھی آپ نے یہ کہا کہ ہماری جدوجہد پُرامن اور سیاسی ہے، جب کہ یہاں سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عسکری جدوجہد بھی چل رہی ہے ۔ اس کی کیا وضاحت ہے؟
    • ہم نے عسکریت کے حوالے سے بات نہیں کی، بلکہ اپنے اور تحریک حریت کے حوالے سے یہ بات کی تھی۔ عسکریت کا ایک الگ میدان ہے، جس کے اپنے ضوابط اور تقاضے ہیں۔ لیکن عوامی جدوجہد کہ جہاںسب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو، سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے۔ سب لوگ عسکری میدان میں نہیں کود سکتے۔ البتہ یہ ساری کوششیں تحریک آزادی کا حصہ ہیں۔عسکری جدوجہد سے متعلق معاملات پر میں نے اپنی کتاب قصہ درد میں کچھ باتیں لکھی ہیں اور اس جدوجہد میں رونما ہوئی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔
  •  عسکری تنظیمیں اکثر آپ کے پروگراموں مثلاً ہڑتال وغیرہ کی حمایت کرتی ہیں۔ عیدگاہ ریلی میں عسکریت پسندوں کی شرکت سے متعلق خبروں کو بھی بعض ٹی وی چینلوں نے نشر کیا۔ کیا پروگرام طے کرنے سے قبل عسکری حلقوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے؟
    • شاید وہ ہماری آواز کو اپنی امنگوں سے ہم آہنگ پاتے ہیں۔ البتہ پروگرام طے کرنے سے قبل کوئی مشاورت نہیں ہوتی اور نہ موجودہ حالات میں ایسا کرنا ممکن ہے۔
  •  جماعت اسلامی سے آپ کا نصف صدی تک تعلق رہا۔ اب تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
    • تحریک حریت، جماعت اسلامی کے ساتھ ایک مفاہمت کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ اس وقت صراحت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ باہمی تعلقات وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠ (المائدہ ۵:۲) کی قرآنی رہنمائی کی روشنی میں استوار ہوں گے ۔ تحریک حریت میں شامل ہونے والوں کی جماعتی حیثیت برقرار رکھنے کی بات بھی طے تھی، لیکن بعد میں ایسا نہ رہ سکا۔ جماعت اسلامی کے تنظیمی اتنخابات سے قبل تحریک حریت سے واپسی کی شرط رکھی گئی۔ محترم محمداشرف صحرائی صاحب اور میں نے ، اپنے طور پر جماعت کے تنظیمی انتخابات میں کسی بھی منصب یا ذمہ داری سے لاتعلق رہنے کا اعلان کیا اور ہمارے حق میں ووٹ نہ دینے کی اپیل کرنے کی پیش کش کی تھی۔ لیکن اس کو بھی قبول نہ کیا گیا ۔ البتہ یہ جماعتی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں تھا بلکہ صرف اپنے حوالے سے ہم نے یہ بات کہی تھی۔

خفیہ مذاکرات

  •  محمد یاسین ملک صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ خفیہ مذاکرات پہلے بھی ہوئے ہیں، جب آپ حریت کانفرنس کے چیئرمین تھے۔ حقیقت کیا ہے؟
    •  میری کتاب دیدو شنید میں اس معاملے کی تفصیل درج ہے۔ جب میں چیئرمین تھا تو حریت ایگزیکٹیو کا اجلاس مرحوم عبدالغنی لون صاحب کی رہایش گاہ پر منعقد ہوا۔ ان دنوں اشارے مل رہے تھے کہ شاید ہندستان کشمیری لیڈر شپ کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگر ہندستان بات چیت کے لیے کوئی پہل کرے، یا اس میں دلچسپی ظاہر کرے تو انھیں بتایا جائے گا کہ حُریت چیئرمین سے رابطہ کریں۔ اس پورے معاملے میں کوئی خفیہ بات نہیں تھی بلکہ حریت ایگزیکٹیو کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ بعد میں وجاہت حبیب اللہ یہاں آئے۔ دوبار اسی کمرے میں ان سے بات ہوئی، دونوں فریقوں نے اپنا اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ میں نے ان کو بتایا کہ ہماری گزارشات کی روشنی میں اگر نئی دلی بات چیت پر آمادہ ہوتی ہے تو ہم بھی تیار ہیں۔ مگر وجاہت صاحب تیسری بار تشریف نہیں لائے، جس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ دلی ہمارے موقف سے متفق نہیں تھی۔

اس کے بعد آر کے مشرا اور ریٹائرڈ میرل نیر دوبار یہاں تشریف لائے۔ مشرا صاحب سے دہلی میں حریت دفتر میں بھی ایک بار ملاقات ہوئی۔ ان کے سامنے بھی ہم نے اپنا موقف رکھا، البتہ وہ بھی جواب لے کر واپس نہیں آئے ۔ اس پر روابط کا یہ سلسلہ منقطع ہوا۔

  • یہاں گذشتہ دو دہائیوں میں کئی لوگوں کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قتل کیا گیا، کیا یہ آپ کے نزدیک صحیح ہے؟
    • ہم اس کے خلاف ہیں۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اپنی کتاب قصۂ درد میں مَیںنے تفصیل سے اس پر بات کی ہے۔
  • کئی بار آپ نے لفظ Indigenousاستعمال کیا۔ اس سے کیا مراد ہے؟
    • Indigenousتحریک سے مراد یہ ہے کہ یہ تحریک جموں وکشمیر کی سرزمین سے برپاہوئی ہے اور یہاں کے لوگ ہی اصل فیصلہ کن قوت ہیں۔ یہ باہر سے کی گئی دراندازی کی وجہ سے برپا نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہاں کے لوگوں نے اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کی ہے۔ جموں وکشمیر سے باہر بہت سے لوگ ہماری حمایت کرتے ہیں، تو وہ اپنا انسانی، اخلاقی اور دینی فریضہ بجالاتے ہیں۔ اس بنا پر کسی تحریک کو بیرونی سازش سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔

برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں سیّد علی شاہ گیلانی (پیدایش: ۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء، بانڈی پورہ، کشمیر) ایک قابلِ رشک مجاہد آزادی اور شان دار زعیمِ ملّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنی ۹۰برس کی زندگی میں انھوں نے ۲۷برس قیدوبند میں گزارے ہیں اور ہرحال میں، بہار ہو کہ خزاں، کلمۂ حق بلند کیا ہے۔ قلم، تقریر، دلیل اور عمل کے ہردائرے میں جہادِ زندگانی اور تحریک ِ آزادی کا مجسم نمونہ ہیں۔ اس اعتبار سے گیلانی صاحب، ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، حق و انصاف، قربانی و استقلال، ایمان و کردار، فکرو دانش اور پیہم رواں کا ایسا استعارہ ہیں کہ جن کے عہد میں ہمیں سانس لینے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔
محترم گیلانی صاحب نے حسب ذیل کھلے خط میں جس دل سوزی سے، جموں و کشمیر کے مظلوموں اور پاکستان کے شہریوں اور مقتدر حلقوں کو مخاطب کیا ہے، اسے ہم ۵فروری کے یومِ یک جہتی کشمیر کی مناسبت سے ترجمان القرآن کے ذریعے پیش کر رہے ہیں، اور اس عزم اور یقین کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی یہ تاریخی جدوجہد اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور ان شاء اللہ کامیابی سے سرفراز ہوگی۔ البتہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مختصراً یہ ہے:
    ۱-      بھارت سرکار کی طرف سے بدترین مخالفت اور ظلم و استبداد کے علی الرغم سرفروشانہ جدوجہد کا تسلسل اور اس میں زیادہ سے زیادہ عوامی شرکت۔
    ۲-     پاکستانی قوم اور حکومت کی پوری یکسوئی اور استقلال کے ساتھ اس جدوجہد کی مکمل تائید، عالمی دباؤ کے حصول کی بھرپور کوشش، اور بھارت کے ہرہتھکنڈے، منفی ابلاغی پروپیگنڈے اور جارحانہ اقدام سے نبٹنے کے لیے مکمل تیاری۔ اور اس میں عوامی شمولیت کا احساس بیدار کرنا۔
    ۳-     بارباراور ہرمحاذ پراس امر کو واضح کرنا کہ مسئلہ کشمیر محض دو ملکوں کے درمیان کوئی زمینی تنازع نہیں ہے، بلکہ تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کا اصل اور جوہری ایشو جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقِ خودارادیت کا حصول ہے، جسے اقوام متحدہ کی ایک درجن سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ انسانی حقوق کی پامالی اور ایک گونہ کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) بھی بڑااہم پہلو ہے، لیکن اس میں اوّلین حیثیت حقِ خودارادیت کو حاصل ہے۔ حقِ خود ارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک مظلوم اور محکوم قوم کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر یہ جدوجہد بھارتی عسکریت کی وجہ سے جوابی عسکریت کی شکل اختیار کرتی ہے، تب بھی اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا اوراس کی حیثیت جنگ ِ آزادی کی ہوگی۔
    ۴-    یہ مسئلہ سیاسی جدوجہد اور عالمی اداروں کے کردار کے ذریعے طے ہونا چاہیے اور صرف وہی حل مسئلے کا یقینی حل ہوگا، جسے جموں و کشمیر کےعوام اپنی آزاد مرضی سے قبول کریں۔ عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ مسئلے کے حل اور علاقے کے امن کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں، اور جس طرح دنیا کے دوسرے علاقوں میں محکوم اقوام کے لیے حقِ خودارادیت کو یقینی بنایا گیا ہے، اسی طرح جموں و کشمیر کے عوام کو یہ حق فراہم کیا جائے۔ یہ مسئلہ کسی ملک یا ادارہ کی ثالثی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کا مسئلہ ہے، جس سے بھارت صرف جبر کی قوت کے سہارے راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ سیّد علی گیلانی پاکستان اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو اسی طرف متوجہ کر رہےہیں۔ (مدیر)
_____________
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائےگی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال ۸:۴۵-۴۶)
 عزیز ہم وطنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
تمام تعریفیں اللہ ربّ العزت کے لیے، جس نے ہمیں غاصب بھارت کے ریاست جموں و کشمیر پر قائم ناجائز قبضے کے خلاف خندہ پیشانی سے مزاحمت کرنے کی ہمت عطا کی، اور اس مکار قابض کے تمام تر ظلم وجور اور مکروفریب کے باوجود حق پر قائم وثابت قدم رہنے کی طاقت بخشی۔  اسی کی طرف رجوع لازم ہے، جس کی نصرت فتح کی نوید ہے اور جس کی رضا ہماری منتہاے نظر ہے۔
عزیز ہم وطنو!
جن حالات سے ریاست جموں و کشمیر گزر رہی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں اور تاریخ کے جس موڑ پرآج ہماری قوم کھڑی ہے، ایسے میں آپ سے مخاطب ہوکر آپ کے سامنے لائحہ عمل پیش کرنا میرافرضِ منصبی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے ہرطرح کی قدغنیں نافذ کررکھی ہیں، لیکن خداے بزرگ و برتر اپنی غیبی تائید سے ہم محکوموں کی نصرت کرتا ہے۔
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک روز ہم بھی غلامی سے نجات پائیں گے اور بھارت بالآخر ہماری مزاحمت کےآگے گھٹنے ٹیک دے گا اور اس کے آخری فوجی کے انخلا تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی،ان شاء اللہ!
۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہماری تحریک ِآزادی کٹھن مراحل سے گزری ہے۔ ہم نے ہر وہ راستہ اختیار کیاہے، جس سے ہم اپنے مبنی بر صداقت مطالبے کو منوا کر حقِ خود ارادیت کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ چاہے وہ جمہوری راستہ ہو یا کوئی اور طریقہ، ہم نے اپنی مزاحمت میں کوئی لچک نہیں آنے دی۔ تحریک ِ آزادی نے، ۱۹۸۷ء میں یہ ثابت کیا کہ بھارت کا جمہوری نقاب ایک ڈھکوسلا ہے اور اس نقاب کے پس پردہ ایک خونخوار درندہ ہے۔ ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ہمارے غیور جوانوں نے میدانِ کارزارکا راستہ اختیار کیا اور تاریخ اسلام  میں مزاحمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ بھارتی استعمار آج تک ششدرہے۔ عوامی تحاریک ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۶ء ، ۲۰۱۹ء کے ذریعے ریاست کے طول وعرض میں عوام نے اپنے مطالبۂ آزادی کو دُہرا کر لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی۔ عوامی جذبے کی شدت سے حواس باختہ ہوکر بھارت نے اپنے آخری حربے کے طور پر ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کا خودساختہ غیرقانونی اعلان کیا۔
ایسے حالات میں، جب کہ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح کشمیر اور کشمیریوں کےخلاف نفرت اور انتقام کی مہم جاری رکھی اور مقامی اخبارات بھی زمینی صورتِ حال پر پردہ پوشی کے مرتکب ہوئے۔ ان کے برعکس بین الاقوامی صحافتی ادارو ں نے کماحقہٗ موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کرکے ہندستانی مظالم اورسفاکیت کی داستان دُنیا تک پہنچانے کی منصبی ذمہ داری نبھائی۔
عزیزانِ ملّت!
پچھلے ۷۰برسوں کےدوران بھارتی حکومتوں کی فریب کارانہ سیاست اور بھارتی فوجی جبرومظالم سے یہاں کے عوام کو اپنے پیدایشی حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دستبردار کرنے میں ناکام ہوکر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ایک نسل پرست فسطائی بھارتی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کاغیراخلاقی، غیرانسانی اور غیرجمہوری فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی متنازعہ ریاست کی جغرافیائی وحدت کو توڑ کراسےدوحصوں میں تقسیم کردیا،حالانکہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت کی حیثیت محض ایک قابض اور جابر کی ہے، جس کا واضح ثبوت اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے بھارتی حکومت پورے خطے میں غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو کانفاذ عمل میں لائی۔ ۱۸ہزارسے زائد لوگوں کو حراست میں لےکر پولیس تھانوں اور جیلوں میں نظربند کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کمسن بچوں، نوجوانوں اوربزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گھروں میں گھس کر پردہ دار خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ احتجاج کرنے کی صورت میں خواتین اور لڑکیوں کی عصمت پامال کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دی گئیں۔ لوگوں کی زمینوں اور گھروں کو ضبط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ صوبہ جموں اور لداخ کی مسلم آبادی پہلے سے ہی بھارتی فوج کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ہرطرح کی مواصلات اور انٹرنیٹ سروس کومعطل کیا گیا۔ پیلٹ گن کا بے تحاشا استعمال کرکے بچوں اور نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ان تمام مظالم اور جبر و زیادتیوں کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام نے بھارتی استعمار کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی ہے، اور دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد اور مطالبۂ آزادی سے کسی بھی صورت میں دست بردار نہیں ہوسکتے۔
عزیز ہم وطنو!
میں نے آپ کو بارہا اس حقیقت سے باخبر کیا ہے کہ بھارت صرف جموں و کشمیر پر قابض ہونے پر ہی نہیں رُکا، بلکہ وہ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ ہمارا عقیدہ، ہماری شناخت اورہماری تہذیب چھیننے کے درپے ہے۔ ۵؍اگست کا فیصلہ اسی فسطائی حقیقت کا ایک عملی اقدام ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت سے غیرمسلم آبادی کو لاکر یہاں جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے گی۔ لاکھوں کنال کی عوامی اراضی ، جس پر بھارتی فوج پہلے ہی قبضہ جمائے ہوئے ہے ، اس کے علاوہ مزید اراضی کو ہڑپ کر لیا جائے گا۔ ان غیرریاستی باشندوں کو بھارتی افواج کی پشت پناہی حاصل ہوگی، جو یہاں کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے بھارت کے ہراول دستے کا کام انجام دیں گے۔
نام نہاد تعمیر و ترقی ، تعلیمی اور طبی اداروں کے قیام کےعلاوہ تجارت کے نام پر مزید اراضی بھارتی اداروں کے حوالے کی جائے گی۔ ہمارےقدرتی وسائل بھی ہم سے چھین لیے جائیں گے۔ میوہ جات، باغات، سدابہار جنگلات اور آبی وسائل تک سے محروم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارے مسلم اکثریتی کردار کو ہرسطح پر نشانہ بنا کر ہم سے بحیثیت مسلمان زندہ رہنے کاحق چھینا جائے گا۔
 اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری مساجد اور ہماری خانقاہوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو تاریخی بابری مسجد کے ساتھ عملاً کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے دینی مدارس بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ بابری مسجد کو شہیدکرکے اسے مندر میں تبدیل کرنے کے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قائداعظم محمدعلی جناح، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، نہ صرف بصیرت افروز تھے بلکہ اپنے خدشات میں قائم بالحق تھے۔
عزیز ہم وطنو!
مَیں یہاں ان ہندنواز سیاست دانوں کاذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو بھارتی فوجی قبضے کو ریاست میںدوام بخشنے کے لیے پچھلے ۷۰برسوں سے بھارت کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیںاور نام نہاد انتخابات کے ذریعے یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے نمایندے ہیں۔ حالانکہ مَیں باربار یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ بھارتی میکاولی سیاست میں ایسے لوگوں کی وقعت فقط قابلِ استعمال    آلہ کاروں کی سی ہے۔ وہ آج تک اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بھارت کے دست ِ راست ہیں اور اس مکروفریب میں وہ بین الاقوامی سطح پر تحریک آزادی اور عوامی جذبات کے خلاف اپنی آوازیں بلند کرکے بھارتی قبضے کو سند ِ جواز بخشتے رہے ہیں۔
لیکن وقت اور تاریخ نے اس نہتی قوم کو یہ دن دکھایا کہ جس میکاولی اور فریب کارانہ سیاست کی چاپلوسی کرتے ہوئے، جس دلّی دربار کی خوش نودی کے لیے یہ ہندنواز ٹولہ اپنے ہی محکوم و مجبور عوام کو تختۂ مشق بناتارہا، اسی دلی دربار نے خود انھیں ایسا نشانۂ عبرت بنا کے چھوڑا ہے کہ وہ منہ چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک باغیرت اور ذی حس انسان کی طرح اپنی فاش غلطیوں اور قومی دغا بازیوں سے توبہ کرکے حق و صداقت کا علَم تھامنا ہی راہِ نجات ہے۔ ذلّت اور رُسوائی سے حاصل شدہ مال و متاع کے بجاے حق و انصاف کے حصول کا خاردار راستہ ہی سرخروئی، عزت اور وقار کی زندگی عطا کرسکتاہے۔
مَیں ایک بار پھر ان ہندنواز سیاست دانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخ نے انھیں ایک اور موقع فراہم کیا ہے، جو شاید آخری ہو کہ عوامی جدوجہد ِ آزادی میں شامل ہوکر قومی جذبۂ حُریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
غیور ہم وطنو!
اس نازک مرحلے پرمَیں اپنی قوم کے مستقبل اور اپنی آنے والی نسلوں کے حوالے سے متفکر ہوں۔ میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ بھارتی عزائم کی ہرسطح پرمزاحمت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری آج کی مزاحمت، کل کی آزادی کی نوید ہوگی۔ یہاںکاہرباشندہ اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرکے تحریک ِ آزادی میں اپنا کردار ادا کرے اور کسی بھی طرح کی غفلت، لاپروائی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتے:
    ٭    آپ کو کسی بھی صورت میں کسی بھی قیمت پر، کسی بھی غیرریاستی باشندے کو اپنی جایداد، بشمول اراضی، املاک، مکانات و دکانات وغیرہ فروخت نہیںکرنی ہے۔ غیرریاستی باشندوں کو کرایہ دار کی حیثیت سے بھی قبول کرنے سے اجتناب برتنا ہے۔
    ٭    تاجروں کو اس بات پر متفق ہوجانا ہے کہ وہ تجارت کے نام پرکسی بھی غیرریاستی باشندے یا حکومت سے کوئی بھی ایسا معاہدہ نہیں کریں گے کہ جس کے عوض انھیں اپنی املاک کو فروخت کرنا پڑے۔
    ٭    یادرکھیے، تعلیم، تجارت، طبی ادارہ جات اور ترقی کے نام پر عوام کو ورغلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیےعوام کسی نعرے کے دامِ فریب میں نہ آئیں اور ایسی کسی پالیسی کے نام پر غیرریاستی اداروں اور افراد کو اپنی املاک فروخت نہ کریں۔
    ٭    اپنی مساجد، خانقاہوں اور دینی مدارس کی حفاظت کے لیے چاک وچوبند رہیں۔
    ٭    بھارت ہم سے ہماری زبان مختلف طریقوں سے چھیننے کی کوشش کرے گا، لیکن نئی نسل اپنی زبان پہچانے اور اس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
    ٭    اُردو جو کہ ہمارے لیے اسلامی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر بھی ڈاکا ڈالنے کی کوشش ہوگی۔ آپ کو اس کی بھی حفاظت کرنا ہے، تاکہ ہماری اسلامی،علمی اور تہذیبی شناخت برقرار رہے۔
    ٭    لداخ، جموں، پیرپنچال، وادیِ چناب کے مسلمانان نے ہمیشہ قلیل وسائل کےباوجود قابض قوتوں کےخلاف سینہ سپر ہوکر جذبۂ آزادی کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر مَیں انھیں ان کی استقامت و جرأت پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ وادیِ کشمیر کے عوام کو چاہیے کہ تحریک ِ مزاحمت کے ہرمرحلے پر ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، انھیں خراجِ تحسین پیش کریں اورانھیں اپنی ہرسعی میں شاملِ حال کریں۔
    ٭    تعلیمی اداروں کے ذریعے سے تاریخ کو ہندوانےاور مسخ کرنے کا قبیح کام کیا جائے گا۔ اس لیے اپنی ملّی تاریخ کو اپنی نسل تک پہنچانے کا انتظام آپ کو خود کرنا ہے۔ گھروں میں ایسی روایات کو جاری کرنا ہے کہ ہماری نئی نسل ریاست جموں و کشمیر کی اصل تاریخ سے باخبر رہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس کوشش کے مدمقابل حقیقی تاریخ کو مرتب اور منضبط کرنا آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
    ٭    نام نہاد انتخابات کی حقیقت آپ پرعیاں ہوچکی ہے۔ اس لیے آپ کو کسی بھی قسم کے بھارتی انتخابی ڈرامے بشمول پنچایت، میونسپل، اسمبلی اور ہندستانی پارلیمان میں کسی بھی سطح یا طریقے سے شامل نہیں ہونا ہے۔ ایسی کوئی بھی حرکت قومی غداری کے مترادف ہے۔
    ٭    تحریک ِ آزادی میں متاثرہ افراد خاص طور پر جوانوں، قیدیوں، بیواؤں، زخمیوں، جسمانی طور پر معذور افراد کی امداد آپ پر لازم ہے۔ میدانِ کارزار میں مصروف جوانوں کو ہردم اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیے اور یہ بھی اَزبر کرلیجیے کہ ہم شہدا کے امین ہیں اور اس امانت کی آپ کو حفاظت کرنی ہے۔
    ٭    جموں و کشمیر پولیس جو کہ ۱۸۷۳ء سےہی ریاستی عوام پر ظلم و جبر ،قتل اوردرندگی کے پہاڑ ڈھانے کی مرتکب ہے ،جن کے ہاتھ کشمیریوں کے قتل عام، عصمت دری، آتش و آہن اور جوانوں کی بینائی چھیننے میں ملوث ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ روزِ اوّل سے ہی جموں و کشمیر کی پولیس نے ریاست پر ہرناجائز قابض کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج، جب کہ بھارت نے حد ِ فصیل کھینچ دی ہے ، ہمارے اور ہماری آزادی کے درمیان بھارتی فوج اورجموں و کشمیر پولیس کی بندوقیں حائل ہیں۔ مَیں جموں و کشمیر پولیس کو تاریخ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر خبردارکرتا ہوں: اس سے پہلے کہ عوامی جذبۂ حُریت انھیں پر ِکاہ کی مانند بہا لے جائے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا حساب کریں اور طے کریں، آیا کہ   وہ مظلومانِ کشمیر کے ہمراہ کھڑے ہوں گے یا بھارتی قاتلوں اورسفاکوں پر مشتمل فورسز کے شانہ بشانہ ان کے خلاف نبردآزما ہوں گے۔
عزیز ہم وطنو!
اس صبرآزما اور کٹھن مرحلے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جس جرأت، بالغ نظری اور حقیقت پسندی سے کام لے کر پوری دنیا میں ہماری جدوجہد ِ آزادی اور ہم پرروا رکھے گئے بھارتی مظالم کو پیش کیا ہے، وہ قابلِ ستایش ہے۔ ایسی توقع ایک مخلص دوست اور شفیق محسن سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ پاکستان ہی کی اَن تھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ۵۲سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر زیربحث آیا۔ ہم حکومت ِ پاکستان اور پاکستانی عوام کی مدد کا    تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ بھارتی استعمار اور اس کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرکے بھارت کو ایک غاصب اور قابض کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بارہا ایسا ہواہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست کے منفی اثرات، مسئلہ کشمیر کو جھیلنا پڑے ہیں۔ اس لیے میں پاکستانی سیاست دانوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ یک زبان کھڑے رہیں۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اور ان کے بعد ہرپاکستانی حکومت نے اس کی تائید کی۔ اب وقت آچکا ہے یہ ثابت کرنے کا کہ یہ محض ایک نعرہ نہیں، اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام تر وسائل بشمول جرأت اور حوصلے کو بروے کار لاکر بھارت کی حالیہ جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا دفاع کرے۔
اس دوران دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیریوں نے جس طرح اپنی تحریک ِ آزادی کے حق میں اور بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری جہاں بھی ہیں وہ تحریک ِ آزادی کے سفیر ہیں۔
غیور ہم وطنو!
آج ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہم بھارت کی غلامی کو کبھی بھی سند ِ جواز نہیں بخشیں گے۔ ہم اتحاد واتفاق، نظم و ضبط، صبرواستقلال ، یکسوئی و یک جہتی اور باہمی ربط و اخوت کے زریں اصولوں پر عمل کرکے اپنی جہد مسلسل کو آزادی کی سحر تک جاری رکھیں گے۔
پیرانہ سالی اور صحت کی ناسازی شاید ہی مجھے آپ سے آیندہ گفتگو کی مہلت دے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِواسعہ سے یہ اُمید ہے کہ وہ میری لغزشوں، کوتاہیوں سے درگزرفرمائے اور مغفرت سے نوازے۔ بہرحال زندگی اور موت کے فیصلے قاضیِ حیات کے دست ِ قدرت میں ہیں۔
میری دیرینہ خواہش رہی ہے کہ میرا مدفن مزارِ بقیع میں ہوتا کہ روزِقیامت مَیں ان عظیم ہستیوں کی معیت میں اپنے ربّ سے ملوں، جن کے نقش ہاے قدم ملّت اسلامیہ کے لیے روشنی کے مینار ہیں اور جن کی پیروی کرتے ہوئے مَیں نے ملّت اسلامیہ کا دفاع اور اقامت دین کی جدوجہد حسب ِ استطاعت کی ہے۔ لیکن پچھلے ۷۰برسوں سے عموماً اور گذشتہ ۳۰،۳۵ برس کے دوران خصوصاً جس طرح اور جس بڑی تعداد میں کشمیر کے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم و جبر کے خاتمے اور آزادی اور اسلام کے غلبے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، اس میں کشمیر کی اس سرزمین اور خاص طور پر اس کے ان حصوں کو جہاں پہ پاک نفوس دفن ہیں، ایک خاص تقدس اور احترام بخشا ہے، اس لیے انھی کے پہلو میں جگہ پانا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔
یاد رکھیں کہ ربِّ کائنات کی رحمت سے نااُمید ہونا مسلمان پر حرام ہے۔ پُراُمید رہیں کہ ظلم کی تاریک رات چاہے کتنی ہی طویل ہو، بالآخر اختتام کو پہنچے گی۔ تاریخ فرعون و قارون اورہامان و چنگیز کا انجام دیکھ چکی ہے___ دوام فقط حق کو ہے۔

علی گیلانی

ستمبر کے شمارے کے لیے مدیرعالمی ترجمان القرآن ، مسئلہ کشمیر پر ’اشارات‘ لکھ رہے تھے، لیکن طبیعت کی ناسازی کے باعث سردست مکمل نہیں کرسکے، ان شاء اللہ آیندہ اشاعت میں پیش کیے جائیں گے۔(ادارہ)

***

ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ صورتِ حال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ پوری ریاست کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ساری حُریت اور سیاسی قیادت اسیر یا نظربند ہے۔ شہروں اور دیہات سے تشویش ناک اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ اس قیدخانے میں اشیاے خوردونوش کی قلّت کے باعث فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔ ادویات اور علاج معالجے کے تعطل سے اموات واقع ہورہی ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس ظلم،درندگی اور وحشت ناکی سے باہر کی دنیا کو بے خبر رکھنے کا پورا پورا انتظام کیا ہے۔ ریاست کے مواصلاتی نظام کو بند کرکے، یہاں ہونے والے ظلم وجبر کو چھپانے کے قاہرانہ حربوں کے ساتھ ہمارے مقامی میڈیا پر بھی غیر علانیہ سینسر عائد کی گئی ہے۔ ریاست میں کہاں کیا ہورہا ہے؟ بھارتی فوج کے ظلم وستم، ہزاروں جوانوں کی گرفتاری اور ہلاکتوں کے بارے میں کوئی بھی خبر شائع نہیں ہورہی۔بھارتی حکمران روزِ اوّل سے جھوٹ اور فریب کے ذریعے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنے کی بزدلانہ کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔ 
اقوام متحدہ نے بھارت کو ان بدنام ملکوں میں شامل کیا ہے، جہاں انسانی حقوق کی پاس داری اور تحفظ کی خاطر کام کرنے والوں کو قتل، تشدد، دھمکی اور خواتین کارکنوں کو جنسی زیادتیوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ ان اہل کاروں کو قدم قدم پر قانونی اور انتظامی مشکلات سے دوچار کیا جاتا ہے۔
بھارتی حکمرانوں کی تمام پابندیوں کے باوجود، اس وقت مسئلہ کشمیر کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ جس کا ایک بڑا ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کے اجلاس میں کشمیر پر بحث اور عالمی ذرائع ابلاغ پر خبروں کی اشاعت ہے۔ اسی سلسلے میں چندباتیں پیش خدمت ہیں:

O

جموں وکشمیر کے میرے عزیز ہم وطنو!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

۵؍اگست [۲۰۱۹ء]سے شروع کیے جانے والےحالیہ اقدامات سے بھارت کا مکروہ اور پُرفریب چہرہ، پہلے سے کہیں زیادہ بھیانک صورت میں دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ جس کے تحت وہ اشاروں کنایوں کے بجاے کھل کر یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے پر اُتر آیا ہے۔ طاقت کے نشے کی بدمستی اور اکثریتی ووٹ کے غرور نے دہلی کے حکمرانوں سے انسانیت، اخلاقیات اور جمہوریت کی ساری قدریں چھین لی ہیں۔ اور وہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ کرکے یہاں کی محکوم آبادی کو یرغمال بناتے ہوئے من مانے فیصلے کرنے چڑھ دوڑے ہیں۔ 
ریاست جموں و کشمیر کے حصے بخرے کرنے اور اسے دہلی کے زیرِ انتظام لانے کے اقدام سے، بھارتی دہشت گرد اور توسیع پسند حاکموں نے جموں و کشمیر کو نوآبادیاتی کالونی بنانے کے لیے اپنی نام نہاد جمہوریت کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔ حددرجہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ وہ اس گھناؤنے اقدام پر ماتم کرنے کے بجاے خوشیاں منا رہے ہیں۔ اس مذموم اقدام سے پہلے پوری ریاست جموں و کشمیر کو ایک پریشان کن اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا کرتے ہوئے، پکڑدھکڑ اور غیرانسانی، غیرقانونی اور غیراخلاقی پابندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پھر ایک جنگی صورت حال پیدا کرکے، یہاں کے عوام کو اپنی مسلح افواج کے حوالے کیا۔ پھر تمام انسانی اور سماجی رابطے منقطع کردینے جیسے بزدلانہ عمل سے اپنی ’بہادری‘ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ 
بھارتی جارحیت پسندوں نے، آزادی پسند قیادت اور حُریت پسند کارکنوں کو ہی نہیں، بلکہ برسوں سے اپنے پالے ہوئے ایجنٹوں اور قومی غیرت کے سوداگروں کو بھی ان کی حیثیت یاد دلا کر  ’حفاظتی حراست‘ میں لے رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر حق وصداقت کی کامیابی اور کیا ہوگی کہ اب اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے علاوہ ان فریب خوردہ عناصر کے پاس بھی کوئی اور موقف نہیں رہا۔ ’بھارتی سسٹم پر بھروسا‘ کرنے کا مسلسل سبق پڑھانے والوں اور ہندستان کو اپنا ملک کہتے ہوئے کبھی نہ تھکنے والوں کو بھی اس بات کا احساس ہوجانا چاہیے کہ بھارت کو یہاں کے عوام کے جینے مرنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ انھیں صرف اور صرف یہاں کی زمین چاہیے۔ اسی کو ہتھیانے کے لیے  انھوں نے اپنے ہی حاشیہ برداروں کو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرکے، کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج ان سب بھارت نواز ہم وطنوں کے لیے یہ ایک آخری اور سنہری موقع ہے کہ وہ اغیار کی خاطر اپنے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کے بجاے، قوم کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔ ایسی جدوجہد کہ جس کا مقصد صرف اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی اور غاصب طاقتوں سے مکمل آزادی ہے۔ اگر یہ لوگ ایسا کریں گے اور بحیثیت قوم یکسو اور یک جان ہوکر دشمن کا مقابلہ کریں گے، تو ان کے ماضی کی تمام غداریاں معاف ہوسکتی ہیں۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ حق وصداقت اور یکسوئی و یک جہتی کے سامنے تیروتفنگ، اسلحے، گولے بارود اور فوجوں کے ٹڈی دَل نے ہمیشہ مات کھائی ہے۔ حوصلہ، صبر، نظم ونسق ایک نہتی قوم کے وہ ہتھیار ہیں، جن سے وہ بڑی بڑی فوجی طاقتوں کو زیر کرسکتی ہے۔
آپ خواتین و حضرات کو یہ دردمندانہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بھارتی عہد شکن حاکموں کے اس شب خون کے دوران ہمیں ہاتھوں پہ ہاتھ دھرکر دشمن کے لیے ترنوالہ نہیں بننا۔ اس عریاں جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونا، قوم کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے، کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق قدمے، درمے، سخنے مزاحمت اور آزادی کے اس کاررواں میں شامل رہے۔ اس جارحیت کے خلاف ایمانی قوت، جواں مردی اور ہمت سے مزاحمت کرے کہ آزادی کے حصول کے لیے مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں باقی بچا۔ پُرامن احتجاج، جلسے اور جلوس معمول ہونا چاہیے۔ تخریب اور تشدد کے نتیجے میں، دشمن کو ہمیں جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا بہانہ مل جاتا ہے اور اسے ایسا کوئی موقع فراہم کرنے کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔
سرکاری ملازمین، خاص کر پولیس کے اہلکاروں سے اپیل ہے کہ وہ غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں۔ انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اپنے ہی لوگوں کو تہہ تیغ کرتے رہنے کے باوجود بھارت ان پر بھروسا نہیں کرتا۔ اسی لیے انھیں غیر مسلح کرکے پوری کمانڈ اپنے فوجیوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اگر اس ذلت سے بھی آپ کی رگِ غیرت نہیں پھڑکتی، تو اپنے ضمیر اور ایمان کا ماتم کرتے ہوئے، ہندنواز سیاست دانوں کی طرح اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہیے۔

ریاست جموں و کشمیر سے باہر رہنے والے کشمیری بہنوں اور بھائیوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ دیارِغیر میں رہ کر اپنے وطن کی صورتِ حال سے خود کو باخبر رکھیں۔ آپ میں سے ہرفرد یہاں کی ستم رسیدہ قوم کے لیے سفیر بن کر اپنے لوگوں کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہاں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کُشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے دنیا کو آگاہ کرنا، آپ کی دینی، قومی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ آپ اپنے بھائیوں کے دُکھ درد کو محسوس کریں اور بھارتی جارحیت کے نشۂ طاقت میں کیے جانے والے ظلم اوردرندگی کے تمام حربوں کو ایک ایک دروازے پر دستک دے کر بے نقاب کریں۔ اس مقصد کے لیے تحریر، تقریر، مکالمے اور دُعا سے کام لیں۔
اسی طرح میں ہندستان کے ایک ارب تیس کروڑ بھائیوں پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری یہ جدوجہد ہندستان یا اُس کے عوام کے خلاف نہیں ہے۔ ہم تو صرف اور صرف اپنے جائز، قانونی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حق کہ جسے برہمن حاکمیت کے پرستار بھارتی حکمرانوں نے غصب کررکھا ہے۔ ہم بھارت میں بسنے والی مظلوم اقلیتوں، دلتوں اور جبر سے دبائی گئی قوموں کے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بھارت کا ہرانصاف پسند شہری ہماری مبنی برا نصاف جدوجہد کی حمایت اور تائید کرتا ہے۔
خاص طور پر پاکستان کے عوام، ان کے حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اپنے نجی اور فروعی معاملات میں الجھنے کے بجاے مصیبت میں گھری اس محکوم، مظلوم اور نہتی قوم کی مدد کے لیے آگے آئیں۔ آپ اس مسئلے کے اہم اور بنیادی فریق ہیں۔ اگر آج آپ غیر سنجیدگی کا شکار ہوکر ذاتی مصلحتوں کے گرداب میں پھنس گئے، تو نہ تاریخ آپ کو معاف کرے گی اور نہ آپ کی آنے والی نسلیں محفوظ رہیں گی۔ اس لیے پورے عزم اور ہمت کے ساتھ دشمن کی فریب کاریوں اور مکاریوں کا آپ نے ہرسطح پر منہ توڑ جواب دینا ہے کہ اسی میں پوری ملت کی بقا اور کامرانی ہے۔
ریاست جموں وکشمیر کے غیور عوام سے مخلصانہ گزارش ہے کہ چاہے آپ ریاست کے کسی بھی کونے میں رہ رہے ہوں، جموں شہر یا وہاں کے پہاڑوں میں سکونت پذیر ہوں، وادی کے  سبزہ زاروں میں رہ رہے ہوں، لداخ اور کرگل کے کوہساروں یا برف زاروں میں بس رہے ہوں، چناب اور پیرپنچال کی چوٹیوں میں زندگی گزار رہے ہوں___ جان لیں کہ بھارت ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے، جسے صرف یہاں کی زمین ہڑپ کرنے سے دل چسپی ہے۔ وہ اسرائیلی غاصبوں کے نقش قدم پر چلتے اور اسی کی مدد سے راستہ بنانا چاہتا ہے۔ وہ اسرائیل کہ جس نے مقبوضہ فلسطین کے ہم وطنوں کو بے دخل کرنے جیسے گھنائونے طرزِ عمل کا ارتکاب کیا۔ اس ظالم ریاست کی مدد سے اب جموں و کشمیر کی شناخت، یہاں کی پہچان اور یہاں کے باہمی بھائی چارے کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن، ان شاء اللہ، ہم اس گھناؤنی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ بھارتی تسلط جتنا تکلیف دہ وادی کے مسلمانوں کے لیے ہے، اسی طرح جموں کی ڈوگرہ برادری اور لداخ کے بودھ بھائیوں کے لیے بھی کسی خوشی کا باعث نہیں ہے۔ اس لیے ہر ایک کو اپنی ڈیموگرافی،     اپنی آبادی، اور اپنا تشخص بچانے کے لیے اس تحریک مزاحمت کا ساتھ دینا ہوگا۔ 
ہمیں اپنی اپنی سطح پر اس تحریک ِ مزاحمت کا حصہ بن کر اس کی رفتار کو تیز کرنا اور اس کے ساتھ دوڑنا ہوگا۔ اگر دوڑنے کی سکت نہیں ہے، تو چلنا ہوگا، اور اگر چلنے کی بھی سکت نہیں تو رینگنا ہوگا، لیکن کاروا ِن مزاحمت میں شامل ہوکر اپنے حصے کی ذمہ داری ہرصورت میں نبھانی ہوگی۔یہی واحد راستہ ہے۔ 
جب قوم پورے عزم، ولولے اور نظم وضبط کے ساتھ اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، تو کوئی طاقت اس کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارتی حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اگر ۱۰ لاکھ کے بجاے اپنی پوری فوج کو بھی یہاں لاکر ڈال دیں گے،تب بھی یہاں کے عوام اپنے حقوق سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ اللہ ہمار حامی و ناصر ہو!

ان سطور میں، مَیں اپنی لخت ِ جگر بیٹیوں اور بیٹوں سے بات کرنے کی ضرورت محسوس کرر ہا ہوں۔

لختِ جگر بیٹیو! آج جس دورِ فتن سے ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے، اُس کے چاروں طرف بدی، بُرائی، بے حیائی، بے شرمی، اختلاط مرد و زن، شراب نوشی، منشیات، رقص و سُرود، خرافات اورفضولیات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے پیدا کرنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ تاہم، ان میں سب سے بڑا عامل (factor) ہمارے گھروں میں اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے۔ ہمارے گھروں میں قرآن کو بھلا کر، اس کے نسخوں کو الماریوں کی زینت بنادیا گیا ہے۔  ایک زمانہ تھا کہ گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے گھروں سے تلاوتِ قرآن کی آوازیں سنی جاتی تھیں۔ آج اس کے بجاے ایسے فلمی گانوں کے بول کانوں سے ٹکراتے ہیں کہ شرم و حیا کے جامے تارتار ہوجاتے ہیں۔

گھروں میں بڑوں، یعنی والدین کی لاپروائی اور بچوں کے حوالے سے بے اعتنائی بھی خرابی اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ بن رہی ہے۔ والدین پر جس طرح اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے، لباس اور علاج و معالجے کی ذمہ داری ہے، بالکل اُسی طرح ، بلکہ اس سے بڑھ کر بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی عزت و آبرو، عفت و عصمت، شرم و حیا اور اخلاق و کردار کی حفاظت کرنا بھی فرض ہے۔ مگر مادہ پرستی کے اس دور میں وہ اس اہم اور بنیادی ضرورت کو پورا کرنے سے   کنی کتراتے ہیں۔ والدین کو سوچ لینا چاہیے کہ جس طرح وہ لڑکیوں کی دنیا بنانے اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں، اُسی طرح لڑکیوں کی آخرت کی زندگی میں جہنم کی آگ سے بھی بچانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ جیساکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کواُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔(التحریم ۶۶:۶)

’’یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اُس پر ڈالا ہے، اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے، جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں، تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔

بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملے میں جواب دہ ہے۔ حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے‘‘۔جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے۔ ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ، مجاہدؒ، امام محمد الباقرؒ، اور سُدِّیؒ کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد ششم، ص۲۹-۳۰)

بچوں کے والدین اور سرپرست اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھیں تو اپنی اولاد کے بارے میں لاپروائی اور بے اعتنائی نہیں برتیں گے اور ان کو کھلی چھوٹ نہیں دیں گے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہیں بے روک ٹوک کریں۔ اپنی عزت اور آبرو کا خیال نہ کریں۔ بے پردہ گھومیں پھریں۔ منشیات کے عادی بن جائیں۔ موبائل فون کا غلط استعمال کریں۔ انٹرنیٹ اور فیس بُک پر غیرمحرم اوراوباش نوجوانوں کے ساتھ روابط قائم کریں۔ ساتر لباس کے بجاے چُست اور نیم عریاں لباس کا استعمال کریں۔ نمازوں کی پابندی نہ کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت نہ کریں۔ قرآن پاک کے معانی سمجھنے کی کوشش نہ کریں ۔ کوئی معتبر اور مستند تفسیر کا سہارا لے کر قرآن پاک کے حیات بخش پیغام سے رہنمائی حاصل نہ کریں۔ سیرتِ پاک کا مطالعہ نہ کریں اور اپنی سیرت اور کردار میں باحیا اور باکردار خواتین کی سیرت کے خدوخال اپنے اندر پیدا نہ کریں۔ دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ سب کچھ والدین اور سرپرستوں کی نگاہوں کے سامنے ہو اور وہ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کے مصداق دیکھتے رہیں اور ٹوکنے اور روکنے کی کوشش نہ کریں تو قرآنِ پاک کی اس تنبیہ کا ان پر ہی اطلاق ہوگا۔

لختِ جگر بیٹیو! ہم اپنے ہی ہاتھوں بھارت کے فوجی قبضے میں جاچکے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں ہمارے لیڈروں نے نہایت کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنجہانی ہری سنگھ کی متنازعہ اور مشکوک دستاویز الحاق کی تائید کرکے بھارت کی فوجوں کی یہاں آنے کی حمایت کی۔ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سے ہم اسی فوجی قبضے میں ہیں۔ بھارت ایک طرف فوج کے بل بوتے پر ہمارے تمام ذرائع    اور وسائل پر قبضہ جما رہا ہے۔ دوسری طرف ہم پر اپنی مشرکانہ تہذیب بزورِ بازو مسلط کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت خاص طور پر ہماری تعلیم گاہوں، یونی ورسٹیوں، کالجوں اور مدارس کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مخلوط تعلیم ہماری اسلامی تہذیب، تمدن اور ثقافت کے خلاف ہے۔ اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم بھی ضروری ہے مگر اس تعلیم میں لڑکیوں کی عزت، عصمت اور شرم و حیا کا بھرپور تحفظ ہونا چاہیے۔ مخلوط نظامِ تعلیم میں ان مقدس اقدار کا تحفظ ممکن نہیں ہوسکتا۔

نظامِ تعلیم بھی انسانی اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔ تعلیم ہماری نئی نسل کو مادہ پرست اور دنیا پرست بناتی اور بُرائیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں کلچراور ثقافت کے نام پر ایسے پروگرام منعقد کروائے جاتے ہیں، جن میں دینی اور اسلامی اقدار سے ہم کو دور لے جایا جارہا ہے۔ بھارت اپنی مخصوص تہذیب اور طرزِ زندگی کوان پروگراموں کے ذریعے ہم پر مسلط کر رہا ہے۔ تعلیم گاہوں میں کردار سازی کی طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ منصوبہ بند طریقے پر جو ان لڑکوں اور لڑکیوں کو شراب اور منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو کھلے عام ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس تہذیبی یلغار کے مقابلے میں ہمارے مقامی افسران اور ذمہ داران مزاحمت کرسکتے تھے، مگر وہ اپنی کرسیوں،اپنے عہدوں اور منصبوں کے غلام بن چکے ہیں اور اُنھی کی معاونت، تابع داری اور غلامانہ ذہنیت کے سہارے یہ سب اخلاق باختہ پروگرام انجام دیے جارہے ہیں۔

ان حالات میں،مَیں اپنی لخت ِ جگر بیٹیوں سے دردمندانہ اپیل کروں گا کہ آپ قرآن پاک پڑھ کر، سمجھ کر اس کی رہنمائی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں، کیونکہ آپ ہی کے ہاتھوں میں ہمارا مستقبل ہے۔ اگر آپ نے اپنے اندر اسلامی کردار اور سیرت پیدا نہیں کی تو ہماری آنے والی نسل مشرکانہ تہذیب کا شکار ہوجائے گی، اور اسلام کے حیات بخش نظام سے محروم ہوکر دُنیوی ذلّت و خواری اور آخرت کے ابدی عذاب سے دوچار ہوجائے گی۔

میں آپ کو علامہ محمد اقبالؒ کی ایک رُباعی کی وساطت سے خاتونِ ملّت کے کردار کی طرف متوجہ کرکے، ایک بار پھر دردمندانہ اور دل سوزی کے ساتھ نصیحت کروں گا کہ اپنی عزت، سیرت اور اسلامی کردار کی ہرحال میں حفاظت کریں اور اپنے آپ کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر اپنی دُنیا اور آخرت آباد و شاداب کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ علامہ اقبال آپ کو نصیحت کرتے ہیں:

زِشامِ مابروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہلِ نظر را
تو میدانی کہ سوزِ قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیرِ عمرؓ را

[قرآن پاک کی تلاوت سے اہلِ نظر کو متاثر کرکے ،ہماری شام کو سحر سے بدل دے۔ تو جانتی ہے کہ تیرے سوزِ قرأت نے عمرؓ کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔]
اے خاتونِ ملّت! تو اپنے کردار اور اسلامی سیرت کے ذریعے ملّت کو اس تاریکی سے نکال کر صبحِ آزادی اور اسلام کے عادلانہ نظام کی طرف لانے کے لیے اپنا منصبی فریضہ انجام دے۔ اس مقصد کے لیے تم قرآن پڑھ کر ، سمجھ کر، عملاً پھیلا کر اور غالب کرنے کی کوشش کرکے اہلِ نظر پیدا کرو، کیوں کہ تو اگر اپنا ماضی یاد کرے گی تو تجھے معلوم ہوجائے گا کہ تیری سوزِ قرأت سے اسی طرح نسلوں کی تقدیر بدل جائے گی، جس طرح عمر بن خطابؓ کی بہن کی تلاوت سے ان کی تقدیر بدل گئی تھی۔

یہ اس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جب عمربن الخطاب برہنہ تلوار لےکر رسولِ رحمت    صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو راستے میں ایک صحابی سے اُن کاسامنا ہوا۔ اُنھوں نے کہا:’’ عمر! یہ چمکتی تلوار لے کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘ عمر نے جواب دیا: ’’اس دین کے بدلنے والے محمد کو قتل کردوں گا‘‘۔

اُس صحابی نے کہا: ’’پہلے اپنے گھر کی خبر لو اور اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب کے گھر جائو‘‘۔ عمر غصّے سے بے تاب ہوکر اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں اُن کی بہن قرآن پاک سے سورئہ طٰہٰ کی تلاوت کر رہی تھیں۔ عمر کے آنے کی خبر سن کر وہ سہم گئیں اور قرآنِ پاک کے اَوراق چھپانے لگیں۔ عمر نے بڑے گرج دار لہجے میں پوچھا: کیا پڑھ رہی تھی؟ فاطمہ نے کہا: ’’قرآن پڑھ رہی تھی‘‘۔  عمر نے اُن کو بے تحاشا پیٹنا شروع کر دیا۔ فاطمہ کے شوہر اُن کو بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ ان کو  بھی عمرنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔ تھک ہار کر عمر نے فاطمہ سے کہا: ’’اچھا، مجھے وہ سنائو جو تم پڑھ رہی تھی‘‘۔فاطمہ نے کہا: ’’میں وہ اوراق تمھارے ہاتھ میں نہیں دوں گی جو مَیں پڑھ رہی تھی۔ جب تک تم نہادھوکر اپنے آپ کو پاک و صاف نہیں کرو گے‘‘۔ عمرؓ نے اپنے آپ کو پاک و صاف کیا۔ پھر فاطمہ نے سورئہ طٰہٰ کی آیات تلاوت کیں۔ اس سے عمرؓ کی دنیا ہی بدل گئی۔

رسولؐ اللہ اپنے پاک باز ساتھیوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ کسی نے پریشان ہوکر آپؐ سے کہا: عمر ہاتھ میں ننگی تلوار لیے آرہے ہیں۔ اس مجلس میں حضرت حمزہؓ بھی تشریف فرما تھے۔ انھوں نے مومنانہ اور مجاہدانہ انداز میں برملا کہا کہ: اگر نیک نیت سے آیا ہے تو مرحبا، اگر بدنیتی سے آیا ہے تو یہ تلوار اس کا فیصلہ کرے گی۔مگر عمر بن خطاب کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا قبول ہوچکی تھی، جو آپؐ نے ربِ کریم کی بارگاہ میں کی تھی کہ دو عمروں میں سے ایک کو اسلام لانے کی توفیق عطا کر۔ ابوجہل کا نام بھی عمر تھا اور دوسرے عمر بن خطاب تھے۔یہ دُعا دوسرے عمر کے حق میں قبول ہوئی اور انھوں نے خدمت ِ اقدس میں اس روز حاضر ہوکر کلمۂ شہادت پڑھ کے اسلام کے حیات بخش پیغام کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

جوانانِ ملّت! آپ ہمارا مستقبل اور اصل سرمایہ ہیں۔ آپ غلامی کی جن زنجیروں میں جکڑے جاچکے ہیں، اُن سے آزادی حاصل کرنا، آپ ہی کی ہمت، حوصلے، عزم اور اخلاص کا مرہونِ منت ہے۔ آپ اپنے اندر وہ سیرت وکردار پیدا کریں ،جو آپ کو بے تیغ لڑنے کا حوصلہ اور ولولہ عطا کرے۔ سامراجی طاقتوں اور استعماری قوتوں نے خاص طور پر آپ کو نشانہ بنانے کے لیے دُور رس نتائج کی حامل ایک پالیسی وضع اور طریق کار اختیار کیا ہے۔ اس سنگین ترین صورتِ حال کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ آپ محسن ملّت اسلامیہ علامہ محمد اقبالؒ کی نصیحت پر پوری یکسوئی اور سلیمِ قلب کے ساتھ پیروی کریں:

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں!

طوفان سے تو ہم دوچارہوچکے ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔  علامہ اقبال مرحوم نے اس طوفان کو سخت ترین موت سے تعبیر کیاہے:

موت ہے اِک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
مکر و فن خواجگی کاش سمجھتا غلام
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

اس سخت ترین موت سے نجات پانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ کتاب خواں ہی نہیں بننا ہے، بلکہ صاحب ِ کتاب بننے کی طرف بڑھنا ہے۔ صاحب ِ کتاب کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت اس بھرپور احساس سے کی جائے کہ یہ کتاب مجھ پر ہی نازل ہورہی ہے ۔ مجھے کہہ رہی ہے کہ تم نے کیا کرنا ہے؟ تمھارے لیے حق کیا ہے اور باطل کیا؟ تمھارے لیے حلال کیا ہے اور حرام کیا؟ تمھارا خالق اور مالک کون ہے؟ تمھارا حاکم اور مقتدرِاعلیٰ کون ہے؟ تمھارا معبود اور پروردگار کون ہے؟ تمھیں کس کی عبادت اور بندگی کرنا ہے؟ تمھیں کس کا خو ف اور ڈر ہونا چاہیے؟ تمھاری قوتیں اور صلاحیتیں کس کے لیے وقف ہونی چاہییں؟ تم نے کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر کس کے ساتھ اپنی جان و مال کا سودا کیا ہے؟ تمھارے لیے عدل و انصاف کا نظام اور ضابطہ کیا ہے؟ تمھیں انسانیت کا احترام کرنا کون سکھاتا ہے؟ تمھارے لیے صلح اور جنگ کے ضوابط کون ترتیب دے رہا ہے؟

جب آپ قرآن یہ جان کر اور مان کر پڑھیں گے کہ یہ مجھ ہی سے مخاطب ہے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ تم کو پانی کے ایک حقیر قطرے سے اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ اُسی نے تمھاری پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت اور شفقت پیدا کی ہے۔ اُسی نے تمھاری زندگی کے لیے ہوا، پانی، زمین پیدا کی ہے۔ تمھارے لیے رزق کا انتظام کیا ہے۔ قرآن آپ کو بتائے گا کہ تمھاری زندگی کے لیے تمھارا جوڑا پیدا کیا ہے، اور اس طرح دونوں صنفوں کے لیے سکون و طمانیت کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا گیا ہے۔ مودت اور محبت کا سامان فراہم کیا ہے۔ تم بیمار ہوتے ہو تو شفا وہی بخشتا ہے۔ قرآن آپ کوبتائے گا کہ جب سب کچھ اللہ ہی تم کو دیتا ہے تو تم دوسروں کی بندگی کیوں کرتے ہو؟ وہی تو تمھارا احکم الحاکمین ہے۔ تم دوسروں کی سرداری اور حاکمیت کیوں تسلیم کرتے ہو؟ یہ توتمھارے اللہ پر ایمان رکھنے کے منافی ہے۔ اس طرح تمھاری زندگی میں دو رنگی اور نفاق پیدا ہوجاتا ہے۔ قرآن اپنے پڑھنے والے کو بتاتا ہے کہ حق کو قبول کرلینے اور سمجھ لینے کے بعد باطل کی پرستش اور اطاعت کرنے کا تمھارے پاس کیا جواز ہے؟

قرآن پاک کو جب آپ اس ایمان و یقین کے ساتھ پڑھیں گے کہ یہ آپ پر ہی نازل ہو رہا ہے تو آپ جان لیں گے کہ قرآن آپ کو بہت بڑی نعمت اور دولت سے سرفراز فرما رہا ہے۔ قرآن کریم ایک بہت بڑی حکمت اور ایمانی قوت ہے۔ قرآن، آپ میں اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت کا یقین، اُس کی قوت و سطوت کا راسخ احساس اور ناقابلِ شکست اعتماد پیدا کرتا ہے کہ اسے پاکر آپ بہت طاقت ور بن جاتے ہیں۔ جہاں ایمانی قوت ہو، وہاں دنیا کی ساری طاقتیں پرکاہ کے برابر لگتی ہیں اور کوئی فرعونیت اور نمرودیت مسلمان کو زیردست اور محکوم نہیں بنا سکتی۔ اگر ایمانی قوت نہ ہو تو اسلحہ اور ایٹم بم بھی آپ میں جرأت اور ہمت پیدا نہیں کرسکتے۔

نائن الیون کے سانحے کےبعد امریکا نے پوری دنیا کو چیلنج دیا کہ: ’’ہمارے ساتھ رہو، ورنہ ہم تم کو پتھر کےزمانے میں پھینک دیں گے‘‘۔ پاکستان میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کے پاس ایٹم بم ، میزائل اور فوج بھی تھی۔ ۱۸کروڑ عوام بھی ساتھ تھے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت، پاکستان کی بہی خواہ اور ہمدرد تھی۔ برادر ملک ایران بھی پشت پر تھا، مگر اُس وقت کے فوجی صدر میں ایمانی قوت و بصیرت نہیں تھی کہ وہ جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کر کے امریکا کی دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دیتے اور عملاً ہتھیار ڈالنے کی سی ذہنیت کا شکار نہ ہوتے۔

اس بات کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ اس وقت ہوا تھا کہ جب ان کے ساتھ دہلی میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھارت سے مرعبویت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں، مگر کچھ حاصل نہیں کرسکے۔ بھارت بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس ایٹم بم ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک اور طاقتیں بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ ہمیں اب اس کے ساتھ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر مسئلہ حل کرلینا چاہیے‘‘۔ جواباً میں نے ان سے کہا کہ: ’’ہمارا موقف مبنی برصداقت ہے۔ ہمیں مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اللہ بزرگ و برتر کی ذاتِ اَقدس پر بھروسا کرکے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ: ’’میرے ساتھ بش اور ٹونی بلیر ہیں‘۔ بش امریکا کا صدر تھا اور ٹونی بلیربرطانیہ کا وزیراعظم تھا۔ صدافسوس کہ انھوں نے اللہ غالب، اور بزرگ و برتر کا نام نہیں لیا۔ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ بُش رہا نہ کوئی بلیر رہا اور نہ مُش رہا: فاعتبروا یااولٰی الابصار!

پھر پاکستان کے صدر مشرف صاحب نے بزدلی اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرکے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو پاکستان کی سرزمین، ہوائی اڈے اور اپنی انٹیلی جنس معلومات فراہم کرکے، افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ اس کے بعد ان خونیں مناظر نے پوری ملت اسلامیہ کے دلوں کو ہلا دینے والا باب رقم کیا ۔ یہ سب کچھ ایمانی قوت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ میں نےجنرل مشرف صاحب سے یہ بھی کہا کہ: ’’اپنوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں‘‘۔ مگر وہ طاقت کے نشے میں چُور یا کم ہمتی کے زیراثر کوئی بات سننے کے روادار نہ تھے۔

جوانانِ عزیز!یہ سب کچھ قرآنِ پاک سے دُوری اور اُس سے ایمانی قوت حاصل کرنے سے وہ محرومی ہے کہ جس کا خمیازہ پوری ملت اور خاص طور پر ہم مظلوموں اور محکوموں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ایمانی قوت کو ’زورِ دُروں‘ سے تعبیر کر کے جوانوں کو ان الفاظ میں مخاطب کیا ہے:

یہ آب جُو کی روانی، یہ ہمکناریِ خاک
مری نگاہ میں ناخُوب ہے یہ نظارہ
اُدھر نہ دیکھ، اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز
بلند زورِ درُوں سے ہُوا ہے فوارہ!

میں چند گزارشات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کروں گا۔پچھلے چھے عشروں پر پھیلے سیاسی سفر کے دوران میں مَیں نے ریاست کے تقریباً ہرشہر و دیہات میں جس بات کی باربار تلقین کی ہے، آج ایک بار پھر اپنی قوم کے ذی حس اور باشعور عوام کے ذہن کے دریچوں پر دستک دینے کے لیے مجبور ہوں۔ شاید سنجیدگی سے غوروخوض کر کے اس میں چھپے اُس دردوکرب کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کر کے مجھ سمیت ہم سب کو محاسبہ کرنے کے لیے آمادہ کرسکیں۔
عالمِ اسلام کی تباہ حالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تفصیلات مجھ سے بہتر آپ حضرات جانتے ہیں کہ اسلام دشمنوں کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ذخائر اور نت نئے مہلک ترین ہتھیاروں کی آزمایش اور ٹیسٹنگ کے لیے اگر کرئہ ارض میں کوئی تجربہ گاہ (testing lab) ہے تو وہ ارضِ مسلم ہی ہے۔ اگر اس تحقیقاتی اور تجرباتی عمل کے لیے کوئی مخلوق چاہیے، تو وہ بھی ملت اسلامیہ ہی ہے جوکٹتی بھی ہے، مرتی بھی ہے، زندہ درگور بھی ہوتی ہے۔ جس کی ہنستی کھیلتی بستیاں پلک جھپکنے میں ہی کھنڈرات میں تبدیل کر دی جاتی ہیں، جن میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ کلمہ گو مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سڑک کنارے اور کھیت کھلیانوں میں ان بے گوروکفن لاشوں پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ 
میانمار (برما)کی وحشت ناک ہلاکتوں کے بعد وہاں کی چھوٹی سی مسلم آبادی کو اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا اور ایغور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ رمضان میں مسلمانوں کو زبردستی دن کے اُجالے میں کھلایا اور پلایا جاتا رہا ہے۔ مردوں کی داڑھی منڈوائی جاتی رہی ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور مساجد کو مسمار کرکے مسلمانوں کو سالہا سال تک قیدخانوں میں رکھا جاتا ہے، لیکن باہر کی دنیا کو اس ظلم اور سفاکیت کی بھنک بھی پڑنے نہیں دی جاتی۔ کوئی خبر رساں ایجنسی ان حالات کو منظرعام پر لانے کے لیے تیار نہیں ۔ صرف اس لیے کہ کہیں مظلوموں کی بات کرکے ظالموں اور جابروں کی دشمنی مول نہ لینی پڑے۔ غیروں سے تو کوئی توقع نہیں، لیکن جسد ِ واحد کا دعویٰ کرنے والی ملّت بھی مصلحتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک باہمی سرپٹھول اور ملکی مفادات میں دشمنوں کا چارا بن کر رہ گئے ہیں۔ عالمی برادری اور مسلم ممالک کے ادارے کاغذی گھوڑے دوڑا کر اعلامیہ جاری کرنے کے علاوہ شاید ہی کوئی ٹھوس اور عملی اقدام اُٹھانے کی ہمت کرتے ہیں، بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ذکر بھی نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔ جس کے نتیجے میں دشمن شہ پاکر اور زیادہ خطرناک منصوبے بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
برادرانِ ملّت! ہم انگریز کی غلامی سے نکلنے کے بعد پھر بھارت کی غلامی میں پچھلے ۷۲برسوں سے غلامی کی آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہرشہر اور گائوں میں تباہی و بربادی اور خون خرابے سے ہماری داستان لہو رنگ ہوچکی ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش سیاسی لیڈر،   بڑے ملک سے رشتے کے لالچ میں ہماری غیرت، ہماری پہچان، ہماری شناخت، ہمارے ایمان اور ہمارے کلچر کو دائو پر لگا کر خود اقتدار اور دولت کے مزے لوٹتے رہے۔ بھارت میں صدیوں سے بسنے والے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہورہی ہے۔ کبھی گائورکھشا کے نام پر، کبھی دیش بھگتی کے نام پر، کبھی لوّجہاد کے نام پر اور کبھی کسی اور نام پر تڑپایا اور ترسایا جارہا ہے۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو ہرلمحے اور ہرموقعے پر اپنی وفاداری ثابت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 
۲۰۱۹ء کے بھارتی انتخابات میں مسلمانوں کے قاتلوں کو پارلیمنٹ میں پہنچاکر بھارت کے ’ہندو توا‘ کے پرچارکوں نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ یہ ملک مستقبل قریب میں خالصتاً ایک ہندو راشٹر بننے جارہا ہے، جس میں جمہوریت کے نام پر اکثریتی راج ہوگا جو اقلیتوں کو اپنی مرضی کے مطابق ہی زندگی گزارنے پر مجبور کر دے گا۔ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو اکثریتی رنگ میں رنگ کر ہی رہنے کی آزادی دی جائے گی۔ اگرچہ سیکولرازم کے پردے میں بھی بھارتی مسلمانوں کو تقسیم ہند کے وقت ہجرت کے بجاے اسی ملک میں رہنے کی سزا اور قیمت اپنے لہو سے چکانی پڑی ہے۔ لیکن پچھلے کئی برسوں سے ملک کی پوری پوری مشینری اور فوجی قوت سے ہر اُس آواز کو اُبھرنے سے پہلے ہی  دبایا جارہا ہے جس سے چہارسُو خوف و دہشت کے ماحول میں اس چھوٹی سی اقلیت کو تڑپنے اور  ترسنے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ اس ذلّت آمیز برتائو کے باوجود کچھ مسلمان تان کر دوقومی نظریے کو ٹھکرا کر اس ملک میں رہنے کو ترجیح دینے پر فخر محسوس کرتے ہیں___ واحسرتًـا۔
برادرانِ ملّت! اسی گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہماری بدنصیب ریاست پر ایک انجانے خوف اور دہشت کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ قابض طاقتوں کے نزدیک ریاست جموں و کشمیر کے رستے ہوئے ناسور کا ایک ہی حل ہے کہ یہاںان خصوصی دفعات کو جو پچھلے ۷۲سال سے صرف کاغذوں پر ہی نظر آرہی ہیں، ان کو مٹاکر یہاں کی آبادی کا اس قدر تناسب تبدیل کیا جائے، کہ یہاں غصب شدہ حقوق کی بازیابی کی کوئی مؤثر آواز جڑپکڑنے سے پہلے ہی اُکھاڑ پھینکی جاسکے۔
ریاست کے سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی مختلف بہانوں سے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ کبھی اٹانومی کے نام پر اور کبھی سیلف رول کا راگ الاپ کر یہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ اب بہت جلد دفعہ اے-۳۵ اور ۳۷۰ کی بیساکھیوں کے سہارے یہ شاطر لوگ اقتدار حاصل کرنے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان خصوصی دفعات کو ان ہی ابن الوقت سیاسی بہروپیوں نے کھوکھلا کرکے بھارت کی غلامی کی زنجیروں کو اس قدر مضبوط اور مستحکم بنانے میں   اپنا گھنائونا کردار ادا کیا، ورنہ بھارتی حکمرانوں کی کیا مجال تھی کہ یہاں کے عوام کو بکائو مال سمجھ کر، ہرایک کی بولی لگا کر، ان کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کو اپنا فرضِ عین اور دیش بھگتی کی سند سمجھ کر    اسی کے بدلے اکثریتی ووٹ اور سپورٹ حاصل کرتے۔
عزیزانِ ملّت ! میں آپ سب سے دردمندانہ درخواست کر رہا ہوں کہ خدارا! اپنا نہ سہی اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے، اپنے لخت جگروں کے لہو سے مزین تحریک کے وارث بن کر پوری یکسوئی اور یک جہتی کے ساتھ اس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا مؤثر اور مثبت کردار ادا کریں۔ مختلف نعروں کے سراب میں بہہ جانے یا ہر ایک کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر، بہت سے افراد تو کسی سے بھی وفا نہ کرنے کے جرمِ عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اس طرح  ٹکڑوں میں بٹ کر شکاری کے لیے تر نوالہ بنتے ہوئے، دشمن کا کام آسان بنا دیتے ہیں۔ 
قرآن پاک میں اللہ اپنے بندوں سے خود کہتا ہے کہ جو بھی عہد کرو اُس کو پورا کرو۔ وہ عہد جو انسان اپنے ربّ سے کرتا ہے یا انسان انسان سے کرے۔ ہم اپنی نمازوں میں دن میں پانچ مرتبہ یہ عہد نبھانے کا اقرار کرتے ہیں۔ کیا ہم ایک بار بھی اس پر عمل کرتے ہیں؟ بندگانِ شکم کی پست سطح سے اُوپر اُٹھ کر اشرف المخلوقات کی بلند سطح پر آکر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ریوڑ کی طرح اپنے پیچھے پیچھے چلانے والوں کو حق و صداقت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا اور میزانِ حق و باطل میں جس کے حق کا پلڑا بھاری ہوگا، قدمے، درمے، سخنے، ہرسطح اور ہرقدم پر، مقدور بھر اور استطاعت کے مطابق اس کا ساتھ دینا ہوگا، اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مربوط اور مضبوط طاقت بن کر دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے روح نمازوں اور بے اثر دُعائوں سے زیادہ کچھ حاصل ہونے کی کوئی اُمید نہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین یارب العالمین!
 

یہاں ہم ایک مؤثر، اہلِ علم اور صائب الراے حضرات کے اجتماع میں بیٹھے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ان میں سارے ہی لوگ جموں وکشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کے حامی ہوں۔ اسی طرح یہاں پر جو بینر لگا ہوا ہے کہ: 'Azadi: The Only Way' ، ضروری نہیں کہ آپ حاضرین میں سب لوگ اس سے اتفاق کرتے ہوں۔ تاہم ایک چیز ہم سب میں ضرور مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم سب انسان ہیں۔ اگر ہم اپنی اس پہلی حیثیت، اپنے مقام اور مرتبے کو تسلیم کر لیں کہ ہم سب انسان ہیں تو: ہمیں انسان کا احترام کرنا چاہیے، ہمیں انسان کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ ہماری بات سے اتفاق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔خیالات اور جذبات میں اختلاف ہو سکتا ہے ،   رنگ اور نسل ، زبان اور وطن کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اس فطری اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت اپنے اندر پیدا کرنا ہی انسان کی بڑی خوبی ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ ( اسرا۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
میں نے آپ کے سامنے قرآن پاک کی جو آیت تلاوت کی ہے، اس میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے۔ انسان کو پید ا کرنے والے  خالق و مالک نے اعلان کیا ہے کہ میں نے انسان کو عزت اور احترام بخشا ہے اور قدر ومنزلت عطا کی ہے۔ اور اگر ہم انسان کی عزت نہ کریں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسے پیدا کرنے والے کا بھی احترام نہیں کرتے۔ حالاں کہ شرفِ انسانی اور احترامِ آدمیت کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے۔
 جموں و کشمیر کے حوالے سے اس اجتماع میں عنوان رکھا گیا ہے: Azadi: the Only Way  ،یعنی ’’ایک ہی راستہ ہے: آزادی‘‘۔ یہاں ہونے والی تقاریر میں میرے لیے دو نکتے اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ: What do you mean by Azadi?، ’آزادی سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟‘ دوسرا Justice یا انصاف۔کیا آپ ایک آزاد ملک ہونے کے بعد انسانی معاشرے کی ایک بڑی بنیادی ضرورت انصاف کو ، maintain [برقرار]رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا آپ لوگوں کو انصاف دے سکتے ہیںـ ـ؟
آج دہلی میں بیٹھ کر یا دلی والوں کی مجلس میں جب ہم یہ بات کریں کہ آزادی کیا ہے؟ تو ان کے لیے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ’آزادی کیا ہے؟‘ اس لیے کہ آپ کے آباواجداد بھی ایک سو سال سے زیادہ عرصے تک انگریزوں کے براہِ راست غلام تھے۔ انگریزوں کے اقتدار و بالا دستی کے خلاف انھوں نے تاریخی جدوجہد شروع کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ہمیں آزادی چاہیے‘‘۔ وہ یہاں پر مسلط برطانوی سامراجی حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔ 
بالکل اسی طرح گذشتہ [۷۲ ] برسوں سے جموں وکشمیر کے لوگوں کی غالب اکثریت، کشمیر میں بھارت کے فوجی طاقت کے بل پر قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیدھی سی بات ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو سمجھ میں نہ آ سکتی ہو۔ 
یہ آزادی کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ آزادی جموں وکشمیر کے ہر فرد کے لیے ہے۔ چاہے وہ کٹھوعہ میں رہتا ہو ، یا آدم پور میں ، چاہے لیہہ میں رہتا ہو یا کرگل میں، چاہے  وادیِ کشمیر میں رہتا ہو یا کشتوار میں، جہاں کہیں بھی رہ رہا ہے، چاہے وہ مسلمان ہے یا ہندو اور سکھ ہے یا عیسائی ، یا بودھ ___ یہ سب بھارت کے غیرمنصفانہ اور جابرانہ فوجی تسلط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ 
اس کے لیے میں آپ کو چند مثالیں دوں گا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں جموں میں ڈوگرہ فوجی تسلط کے دوران ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام تسلیم شدہ تعداد ہے، حالاں کہ وہاں پر موجود افراد کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ ان کی لڑکیوں کو  اغوا کیاگیا، مردوں کو ذبح کیا گیا اور ان کے بچوں کو پائوں تلے روند ڈالا گیا تھا۔ یہ سارے ظلم وستم ہم نے سہے ہیں۔ یہ ۶ نومبر ۱۹۴۷ء کی بات ہے، جب جموں میں اس سانحے کا آغاز ہوا تھا۔ ہم اسی وقت سے اس فوجی تسلط میں پس رہے ہیں، ہم پٹ رہے ہیں، ہماری عزتیں لوٹی جا رہی ہیں، ہماری عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں، ہمارے نوجوانوں کو گولیوں کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے اور ہمارے مکانات بغیر کسی جواز کے جلائے جار ہے ہیں، اور گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ یہ ساری صورت حال ہم کو مجبور کر رہی ہے کہ ہم بھارت کے فوجی تسلط سے جلد از جلد آزادی حاصل کریں۔ 
گذشتہ [۷۲ ] برسوں کے دوران ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں ، وہ آپ سب کو بھی جاننا چاہیے۔ ہم اس مجلس کے ذریعے بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ عوام سے مخاطب ہیں۔ ہم ان تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ آپ کا اور ہمارا ایک انسانی رشتہ ہے۔ اس وقت جب کہ آپ کے بھائیوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے تو بحیثیت انسان آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ اگر آپ آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو آپ اس انسانی رشتے کو کمزور بنا رہے ہیں۔ 
آج جموں وکشمیر کے ایک چھوٹے سے خطے میں آٹھ لاکھ مسلح بھارتی فوج کا مسلط ہونا بجاے خود ایک بہت بڑا جرم اور زیادتی ہے ۔ ان آٹھ لاکھ فوجیوں نے ہمارے خطے کی لاکھوں کنال زمین پر جبری قبضہ جما رکھا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک چھوٹی سی قوم کی اتنی زمینوں پر زبردستی قبضہ  کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مرد و زن کیسے اپنے مستقبل کو شان دار قرار دے سکتے ہیں؟ وہ کیسے اپنی زندگیوں میں امن اور چین حاصل کر سکتے ہیں؟ 
جب ایک مقامی آدمی کو مغربی بنگال یا مہاراشٹر ،بنگال، پنجاب، آسام یا اترپردیش سے آئے ہوئے سپاہی، جموں وکشمیر کے پشت ہا پشت سے آباد باشندے کو، چاہے وہ ہندو ہے یا سکھ،  مسلمان ہے یا عیسائی یا بودھ___ اس سے وادی کے ہرگلی کوچے میں بلکہ اس کے اپنے ہی گھر میں گھس کر تحکمانہ لہجے میں پوچھ رہا ہے کہ ’مجھے شناختی کارڈ دکھائو‘ ___ یہ ایسی زیادتی ہے جس کو جموں و کشمیر کاکوئی شہری برداشت نہیں کر سکتا۔ 
۲۷ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جب بھارتی فوجیں جموں و کشمیر میں آ گئیں، تو اس وقت بھی بھارتی وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو نے کہا تھاکہ: ’’ہماری فوجیں یہاں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ ہم انھیں واپس بلا لیں گے اور آپ کو اپنا حق راے دہی دیا جائے گا‘‘۔ ان کا یہ وعدہ تاریخ میں لکھا جاچکا ہے۔ پھر جنوری ۱۹۴۸ء میں خود ہندستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور وہاں عالمی برادری کے ساتھ بھارت نے ۲۵دسمبر۱۹۴۸ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ:
ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزاد اور غیر جانب دارانہ راے شماری کے جمہوری طریقے سے طے پائے گا۔
اس قرار داد کو ہندستان نے تسلیم کیا ، اس پر دستخط کیے ہیں، اور عالمی برادری اس کی گواہ ہے۔ اس طرح کی منظور ہونے والی ۱۸ قرار دادوں پر بھارت نے دستخط کیے ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہم سے جو وعدے کیے ہیں انھیں وہ پورا کرے۔ 
ہم نے جمہوری طریقہ بھی اختیار کیا ۔ ووٹ کے ذریعے اسمبلی میں جا کر ہم نے آواز اٹھانا چاہی، لیکن ہندستان نے طاقت کے نشے میں ایسی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرا، جو پُر امن طریقے سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اٹھی تھی۔ جب تمام پُرامن راستے مسدود کردیے گئے تو عسکریت نے خود اپنا راستہ بنایا۔ جس کو ’ٹیررازم‘ کا نام دے کر، بھارت اعلیٰ تربیت یافتہ فوجیوں اور جدید ترین اسلحے سے لیس ریاستی ٹیررازم، کو استعمال کر کے اس جدوجہد کو دبا دینے کی ہرممکن کوشش کررہا ہے۔
آنجہانی گاندھی جی نے اپنی کتاب : تلاش حق میں کہا ہے کہ: ’’جس سسٹم میں انسانی،  اخلاقی اور مذہبی قدروں کا احترام نہ ہو تو وہ سسٹم شیطانی کاروبار ہے‘‘۔ آج شیطان کا یہی کا روبار جموں و کشمیر میں چل رہا ہے ۔ بھارت ہو یا کوئی اور ملک، جہاں بھی ان اعلیٰ اخلاقی اور انسانی قدروں کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں کے لوگ شیطانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ 
میں عرض کر رہا ہوں کہ ہندستان سے آزادی حاصل کرنا ہمارا پیدایشی اور بنیادی حق ہے۔ آپ ۸ لاکھ کے بجاے سار ے ہندستان کی فوج کشمیر میں جمع کر دیں، لیکن آپ کبھی جذبۂ آزادی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ! 
جموں وکشمیر کی غالب اکثریت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں، آواز اٹھائیں ۔ بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ جو اپنے آپ کو انسان کہتے ہیں، انسانی سماج کا حصہ سمجھتے ہیں، ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، قلم اٹھائیں اور اس ظلم کے خلاف ان کا جو فرض بنتا ہے اس کو انجام دینے کا حق ادا کریں۔
ہمیں گذشتہ [آٹھ] عشروں سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے جس الحاق کو بھارت بنیاد بناکر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے، وہ بھی عارضی اور مشروط الحاق تھا۔ باوجود اس کے کہ خود اس الحاق کے بارے میں بھی سوالیہ نشان موجود ہے کہ وہ ہو ابھی تھا یا نہیں ہوا تھا۔ آنجہانی ہری سنگھ نے اس پر دستخط کیے بھی تھے یا نہیں، جیسا کہ الیسٹر لیمب نے کتاب  Birth of a Tragedy: Kashmir 1947  [راکسفرڈ بکس،۱۹۹۴ء]  میں ثابت کیا ہے۔ بہرحال، ان چیزوں سے قطع نظر وہ معاہدہ بھی عارضی اور مشروط تھا کہ لوگوں سے پوچھا جائے گا اور مستقبل کے بارے میں ان کی راے لی جائے گی۔ 
۱۹۵۳ء میں، جب کہ شیخ محمد عبداللہ کو معزول کیا گیا تو بقول پنڈت پریم ناتھ بزاز [م:۶جولائی ۱۹۸۴ء] ۱۰ہزار لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا ۔ ۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک شیخ محمدعبداللہ کے دورِ اقتدار میں جس طرح سے لوگوں کو دبا یا جا رہا تھا، میں خود اس کا عینی شاہد ہوں۔ گذشتہ برس ہا برس سے جاری ہماری جدوجہد کے اس مرحلے میں بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج کی جانب سے جو بدترین مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان کی ایک ہلکی سی جھلک بھی انسان کو ہلاکر رکھ دیتی ہے، بشرطیکہ وہ انسان ہو۔
پورے بھارت میں بتایا جاتا ہے کہ کشمیری بچے اور نوجوان، قابض فوجیوں پر کنکر پھینکتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتے کہ آج تک اس سنگ باری سے کوئی بھارتی فوجی یا پولیس والا قتل نہیں ہوا۔ دوسری جانب ہمارے ہزاروں لوگ گولیوں سے بھون دیے گئے ہیں۔ ان مقتولین میں معصوم بچے اور گھریلو خواتین اسکول کی طالبات اور نوعمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ 
یہ ہماری جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے اور عوامی سطح پر یہ پُر امن ہے۔ اس جدوجہد میں ہم بندوق کا سہارا نہیں لے رہے ہیں۔ ہماری تحریک خالصتاً مقامی اور Indigenous تحریک ہے، اور اسی کے ذریعے پوری عالمی برادری میں یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنا پیدایشی حق حاصل کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دے رہے ہیں۔ تاہم، بدترین ریاستی تشدد، ظلم اور قتل و غارت کے جواب میں اگر کچھ نوجوان کسی درجے میں جوابی کارروائی کرتے ہیں، تو وہ تشدد کا اسی طرح ایک فطری ردعمل ہے، جس طرح تحریک آزادیِ ہند کے دوران ہوا تھا۔ تب کانگریس کی قیادت بہ شمول گاندھی جی نے یہی کہا تھا کہ: ’’مجموعی طور پر سیاسی جدوجہد میں ایسے واقعات کو روکنا ممکن نہیں، جب کہ ریاست ظلم کا ہرہتھکنڈا برت رہی ہے‘‘۔آج ہم بھی بھارتی نیتائوں سے یہی کہتے ہیں۔
ہم جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے لیے حصولِ آزادی کا یہ حق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کے دھونس اور دبائو کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ آزادانہ استصواب راے کے ذریعے اکثریت جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ ہمیں قبول ہو گا۔ ہم یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اکثریت اپنے مستقبل کا جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں قبول ہوگا۔ آزادی کا ہمارا مطلب وہی ہے، جو ہندستان کا انگریزوں سے آزادی کے مطالبے کا مطلب تھا۔   ہم بھارتی قبضے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ End to Forcible Occupation یہ ہمارا نعرہ ہے۔ اسی طرح ہمارا نعرہ ہے کہ’ گوانڈیا گو‘۔ انڈیا کا اس سر زمین پر کوئی آئینی، اخلاقی اور قانونی حق نہیں ہے۔ بندوق کی نوک پر آخر وہ کتنے عرصے تک ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔
۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء سے جموں و کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کا عمل چل رہا ہے اور ۱۵۰بار مذاکرات کے دور مکمل ہو چکے ہیں، لیکن ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کون نادان ہو گا جو ۱۵۰ بار مذاکرات کی ناکامی کے بعد پھرایسے بے معنی اور وقت گزاری کے عمل کا حصہ بنے؟ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہندستان ایک سانس میں کہہ رہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسرے ہی سانس میں کہہ رہا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسی غیرمنطقی ہٹ دھرمی کے سبب اب تک کے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ آیندہ بھی کسی مذاکراتی عمل میں اس وقت تک شرکت بے معنی ہے، جب تک کہ بھارت، جموں وکشمیر کی اس متنازع حیثیت کو تسلیم نہ کر لے کہ جوامرواقعہ بھی ہے اور جسے خود بھارتی قیادت نے پوری دنیا کے سامنے تسلیم بھی کیا تھا۔
ہم نے ۳۱ ؍اگست ۲۰۱۰ء کو ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا تھا، جو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں، لیکن  مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔ اس میں پہلا نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کی جو بین الاقوامی متنازع حیثیت ہے، اس کو آپ تسلیم کریں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں، افواج کا انخلا شروع کریں ۔ اس کے بعد کالے قوانین کے نفاذ کو ختم کریں۔ تمام گرفتار لوگوں کو رہا کریں اور ہمارے پُرامن لوگوں کے جو قاتل ہیں، ان کے خلاف آپ مقدمات چلائیں اور سزا دیں۔ 
یہ پانچ نکاتی فار مولا دراصل مذاکرات کے لیے ماحول بنانے کے لیے ہے، جس پر بات چیت ہو سکتی ہے ۔ ہم بات چیت کے منکر نہیں ہیں، مگر یہ بات چیت صرف بنیادی اور مرکزی ایشو پر   ہونی چاہیے۔ یہ بات چیت دو فریقوں میں نہیں بلکہ تین فریقوں کے درمیان ہونی چاہیے۔ اس میں ہندستان ،پاکستان اور جموں وکشمیر کے آزادی پسند شریک ہوں۔ پھر اُس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے۔ ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک جو بے مثال جدوجہد کی گئی ہے اور جو قربانیاں دی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھا جائے اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے، ان مذاکرات کے بعد استصواب راے میں جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا، اسے ہم سب قبول کریں۔ 
بھارت میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ: ’’اگر جموں وکشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو جائے گا اور چوںکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تو وہاں اقلیتوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا‘‘۔ یہ پروپیگنڈا  بے جواز بھی ہے اور بے معنی بھی۔ چوںکہ جموں وکشمیر ،مسلم اکثریتی خطہ ہے، وہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کے بارے میں ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ان کے جان ومال ، عزت وعصمت، ان کے مذہب و عقیدے اور ان کی عبادت گاہوں، سب کا تحفظ ہو گا۔ اس حوالے سے کسی کو کسی بھی قسم کی فکر مندی یا پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندستان جودنیا بھر کے سامنے جمہوریت کا دعویٰ کر رہا ہے، کیا وہ خود اس اصول کو اپنا رہا ہے؟ کیا اس پر عمل کر رہا ہےـ؟ اگرایسا ہوتا تو جموں وکشمیر گذشتہ [۷۲]برسوں سے بھارتی جبر کا شکار نہ ہوتا۔ لیکن بہر حال ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نظام ہے، جس میں انصاف اپنا وجود اور عمل دکھائے گا، ان شا اللہ !
اس عرصے میں ۶ لاکھ قربانیاں لے کر، ہماری عزتیں اور عصمتیں لوٹ کر ، جنگلات کا صفایا کر کے، ہمارے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بعد بھی آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ ہم نے جو پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے، جب تک اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا ہم کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دہلی کی اس باشعور مجلس کے ذریعے میں اعلان کرتا ہوںکہ آپ کے جو صلاح کار ہمارے مظلوم بھائیوں سے ملنا چاہ رہے ہیں ، اُن کے سامنے ہمارے لوگ یہ مطالبہ دہرائیں گے کہ جب تک آپ اصل حقائق کو تسلیم نہیں کریں گے، آپ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ طلبہ،تاجروں ، دیگر آزادی پسند لوگوں کا مطالبہ ہے کہ  اس زمینی صورتِ حال کو تسلیم کیے بغیر کوئی بات چیت نہیں کریں گے، کہ یہ محض وقت گزارنے کا بہانا ہے، اور مسئلہ حل کرنے کے لیے آپ کی نیت صاف نہیں ہے۔ 
کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارا مطالبہ کیا ہے؟ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم خون دے کر اور جانیں دے کر باربار بتا رہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی اور صرف آزادی چاہتے ہیں۔ عزتیں اور عصمتیں لٹا کر، بچیوں کو اُجڑتے دیکھتے اور جوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سٹرتے ہوئے بھی ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کے جبری قبضے کے خلاف ہیں اور ہم اس سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ کہتے ہیں کہ:’’ ہم آپ کے پاس جائیں گے اور پوچھیں گے کہ ’’بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ بہر حال یہ فریب کاری ہے۔ آپ بات کی تہہ تک پہنچ کر دیکھیں اور اس خودفریبی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
میں آپ کو برملا یہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ نہ ہمارے عوام تھکے ہیں، اور نہ ہماری قیادت مایوس ہوئی ہے۔ ہم جدوجہد آزادی میں بھرپور طریقے سے ہم قدم ہیں ۔ اس وقت تک برسرِکار ہیں، جب تک کہ ہم بھارت کے فوجی قبضے سے آزادی حاصل نہ کرلیں۔ بھارتی قبضے سے ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان جیسے دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک ایک رستے ہوئے ناسور سے آزاد ہوجائیں گے۔ کیوں کہ مسئلہ کشمیر ایک ایسا لاوا ہے، جس کو حکمرانوں کی اناپرستی، ہٹ دھرمی اور عدم توجہی کی وجہ سے اگر اسی طرح دبانے کی کوشش کی گئی تو اس میں اتنا خطرہ موجود ہے کہ یہ پورے برصغیر ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانی کے خرمن کو جلاکر راکھ کرسکتا ہے۔اس لیے انسانیت کی بقا کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے امن کی ضمانت کے لیے، اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور یہ جتنا جلد ہوگا، اتنا ہی بہتر ہوگا۔
آخر میں، مَیں انتظامیہ اور آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 


یوم یک جہتی کشمیر 

۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اسی نسبت سے میں آپ حضرات کی خدمت میں معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ ۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کے لیے پاکستانی حکومت، فوج اور عوام کا دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 
جموں وکشمیر کے مظلوم عوام پچھلے ۷۰ سا ل سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے برسرِ جدوجہد ہیں۔ اس جدوجہد میں پاکستان روزِ اول سے سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی سطح پر مدد کرتا آ رہا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور جموں وکشمیر کے محسن اور غم خوار مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جنھوں نے ۱۹۹۰ء میں یوم یک جہتی کشمیر کا آغاز کرکے پاکستان کو تحریک آزادی کے حوالے سے زیادہ فعال اور سرگرم رول ادا کرنے کی ترغیب دی۔ 
کشمیر ی قوم اپنی آزادی کے لیے دنیا کی ایک بڑی ملٹری طاقت سے نبرد آزما ہے۔ اس جدوجہد میں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ہمارے حقِ خود ارادیت کو خود بھی تسلیم کرتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے اس کی وکالت بھی کرتا ہے۔ ہم اس مدد او ر سپورٹ کے لیے پاکستان کے ممنون ہیں، البتہ اس ملک کی طر ف سے کشمیر کے حوالے سے زیادہ Avtive اور اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں او ر سفارتی چینلوں کو زیادہ متحرک کر ے اور انھیں کشمیر یوں کی جدوجہد اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کا ٹاسک سونپ دے۔ 
میں پاکستان کے حکمرانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی کشمیر پالیسی میں تسلسل اور استحکام پیدا کریں اور اس میں کسی بھی مرحلے پر معذرت خواہانہ رویے کو اختیار نہ کیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد مبنی بر حق ہے جس کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ پاکستان مسئلۂ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور اس قبضے کا حتمی حل پاکستان کی شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس ملک کو جرأت اور حوصلے کے ساتھ اپنے موقف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس میں کسی قسم کی کمزوریوں اور لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ 
میں ایک بار پھر موحوم قاضی حسین احمد کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آج یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی تنظیموں جلسوں اور جلسوں کا اہتمام کرتی ہیں ، البتہ اس دن کے آغاز کا سار کریڈٹ مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی ذات کو جاتا ہے جنھوں نے پہلی بار کشمیریوں کے تیئس عملی اور ردیدنی وابستگی ظاہر کرنے کا پیغام دیا۔ مرحوم قاضی صاحب خود بھی کشمیریوں کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار ہونے کے متمنی تھے۔ مرحوم اپنی ہر تقریر میں کشمیر کا تذکرہ کرتے تھے اور انھوں نے کشمیری مہاجرین کے تئیں جس ہمدردی اور شفقت کا مظاہرہ کیا وہ آب وزر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کشمیر ی قوم مسئلہ کشمیر سے ان کی والہانہ وابستگی اور  گراں قدر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ ۵ فروری کو روایتی طور پر منانے سے آگے بڑھ کر اس دن کو زیادہ سے زیادہ جلسے اور جلسوں کا انعقاد کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کریں۔ اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو جتنا ممکن ہوسکے اُجاگر کیا جائے۔ 
میں پاکستان کی حکومت ، پاکستان کی سیاسی قیادت اور پاکستان کے عوام کی دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ جموں وکشمیر کے مظلوم ، محکوم اور غلام قوم کی حمایت دل و جان سے کرتے ہیں اور ایک بہت بڑا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہماری دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ دعائیں ہیں کہ پاکستان سلامت رہے، محفوظ رہے اور ہر حیثیت سے انسانی قدروں کا احترام کرے اور پاکستان میں جتنے بھی لوگ بس رہے ہیں چاہے مسلمان ہوں، ہندو ہوں ، سکھ ہوں، عیسائی ہوں، احمدی ہوں، جو بھی لوگ پاکستان میں سکونت پذیر ہیں ان کو جان مال، عزت وآبرو، مذہب وعقیدہ اور عبادت گاہوں کی پر حیثیت سے حفاظت ہونی چاہیے۔ یہ ہم دل کی عمیق گہرائیوں سے چاہتے ہیں تا کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک ایسا ملک سمجھا جائے کہ وہ انسانی قدروں اور اخلاق قدروں کا سب سے زیادہ پاسداری کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ 
اللہ سے عاجزانہ التماس ہے کہ پاکستان جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کی حفاظت اور ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان کو عالمی سطح پر عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے، اور پاکستان کے عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم بھارت کے جبری فوجی قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شا اللہ ، ان شا اللہ ،ان شا اللہ ! اللہ ہماری مدد اور حفاظت کرے۔   

جموں و کشمیر میں جبری بھارتی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے رواں عوامی تحریک نے بھارت اور اس کے مقامی گماشتوں کو لرزہ براندام کر کے رکھ دیا ہے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے بھارتی فورسز اور پولیس فورس ریکارڈ توڑ مظالم ڈھا رہی ہیں۔ بھارتی سفاک فورسز نہتے لوگوں کو  گلی کوچوں ، سڑکوں ، بازاروں اور گھروں میں گھس کر بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے میں مصروف ہیں۔ بلالحاظ عمر لوگوں کو بے رحم اور انسان کُش قوانین کے تحت گرفتار کر کے پابندِ سلاسل بنانے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔

جموں وکشمیر میں جاری قتل وغارت اور درپردہ خفیہ منصوبہ سازی،بھارتی بوکھلاہٹ کی عکاس ہے۔بھارت اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ یہاں تعینات کی گئی سات لاکھ سے زیادہ فوج کے بل بوتے پر قابض ہے اور یہی ٹڈی دَل فوج ہماری آزادی کی راہ میں سد راہ ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ہم اس مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی منزل صاف دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ اس اَن تھک اور دلیرانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس میں جموں وکشمیر کے لوگوں نے بے باک مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے فوجی قبضے میں وحشت ناک مظالم کا مقابلہ کر کے، اس بات کا ثبوت پیش کیا ہے کہ لوگوں کے عزم واستقامت کے سامنے نہ کوئی قابض فوج مزاحم ہوسکتی ہے اور نہ طاقت کے بل پر دبایا جاسکتا ہے۔

رواں عوامی تحریک کوئی حادثاتی واقعہ نہیں ہے کہ جس کا تعلق محض ایک صدمہ انگیز واقعے سے ہو، بلکہ یہ جموں وکشمیر کے لوگوں کی، بھارت کے جبری قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی طویل جدوجہد کا تسلسل ہے۔ کمانڈر برہان مظفر وانی شہید اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت پر لوگوں نے گھروں سے نکل کر والہانہ عقیدت کا اظہار کیا۔ پابندیوں اور قدغنوں کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں اپنے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ترال کی جانب مارچ کیا اور ان کے مشن کے ساتھ وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔

اس وقت سے لے کر آج تک تحریک آزادی کے ساتھ وادی کے ہر بستی ، ہر قصبے ، ہرشہر ، ہر سڑک اور ہر بازار میں جس جذبے اور وابستگی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ ا س حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے اور بھارت کے درمیا ن اگر کوئی تعلق ہے، تو وہ صرف مظلوم وظالم ، مقہور و قابض اور مجبور وجابر کا ہے۔ بھارت نے متعدد شکلوں میں اپنے جو گماشتے تیار کر رکھے تھے، وہ اس عوامی تحریک کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ہم نے بار بار یہ کہا کہ یہ مفادات و مراعات یافتہ اور ہندنواز طبقہ کلہاڑی کے دستے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قابض بھارت کی کٹھ پتلیاں ہیں، جو جموں وکشمیر میں بھارتی قبضے کو مضبوط بنانے کے علاوہ بھارتی فورسز کی وحشت ناک قتل وغارت گری اور شرم ناک  ظلم وجبر اور لوگوں کو اپاہج اور اندھا بنانے جیسے مظالم کا جواز پیش کرنے اور ان کا دفاع کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں۔

رواں عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر لی ہے، جس سے بھارت حواس باختہ ہو چکا ہے۔ اس کے حکومتی ایوانوں ، پارلیمنٹ اور متعصب میڈیا چینلوں میں ہلچل بپا ہے۔ اس عوامی تحریک نے بھارتی مکروفریب پر مبنی فوجی منصوبوں کو ہلاکے  رکھ دیا ہے۔ حصولِ آزادی کے لیے ہمارے عزم راست کے سامنے ان کے شیطانی منصوبے اور فریب کاری مات کھا رہے ہیں۔

 موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک اور بالخصوص ۱۹۸۹ء کے بعد سے اپنے ان جانباز شہیدوں ،مجاہدوں اور محسنوں کی بیش بہا قربانیاں یاد رکھیں، جو انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کو پروان چڑھانے کے لیے پیش کی ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں پوری دنیا ورطۂ حیرت میں پڑگئی کہ اب جموں و کشمیر کے لوگ بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

یہ پُرزور تحریک آزادی کشمیر عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کامیابی کے جواب میں بھارت نے طویل ظلم وتشدد اور جبرو سفاکیت کا مسلسل بازار گرم کیے رکھا ہے۔ قتل وغارت گری ، لوٹ مار، گھیرائو جلائو، عصمت دری اور کُشت وخون سے پوری ریاست کو لالہ زار بنا دیا گیا ہے۔ بھارتی سفاکوں کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں اہل کشمیر،  تحریک آزادی سے دست بردار ہو جائیں گے اور بھارت کی غلامی پر رضامند ہو جائیں گے ۔ لیکن ہمارے مجاہدین اور بہادر عوام نے عظیم قربانیاں دے کر بھارتی منصوبوں کو ناکام بنا کر، تحریک آزادی کی شمع فروزاں رکھی ہے۔ عام شہریوں اور ہتھیار بند مجاہدین میں کوئی تمیز کیے بغیر بھارتی فورسز  گھپ اندھیروں میں اور دن دہاڑے بے تحاشا قتل عام انجام دیتی رہیں۔ بھارت کے اس ظلم وجبر کے باوصف ہر موقعے پر جذبۂ مزاحمت کے پیکر ہمارے بزرگوں اور نئی نسل نے بھارتی فوجی قبضے کے خلاف ہر ممکن طریقے سے مزاحمت جاری وساری رکھی ہے۔

گذشتہ دو عشروں کے دوران بھارت نے بچوں اور خواتین سمیت ہمارے لاکھوں لوگوں کو شہید کر ڈالا ہے۔ ۱۰ ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کر کے لاپتا کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچوں کو یتیم کر دیا گیا ہے۔ ہماری ہزاروں بہنوں اور بیٹیوں کو بیوائوں اور نیم بیوائوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے جوانوں اور بزرگوں کو ٹارچر سیلوں میں اپاہج اور معذور بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید یا لاپتا کر دیا ہے۔ بھارت کی اس سفاکیت نے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا جذبۂ آزادی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

ہم ان الم ناک واقعات و حوادث کے باوجود آج بھی اپنی آزادی کے مطالبے کو لے کر پوری جاںفشانی کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ہمارے دل جذبۂ آزادی سے سرشار ہیں۔  ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۰ء اور اب۲۰۱۶ء سے اُبھار پانے والی عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی کو نئی زندگی اور نئی قوت بخشی ہے۔ قابض بھارت کے پاس دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے، جس میں سے سات لاکھ سے زیادہ فوجی صرف جموں وکشمیر میں تعینات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس کے مقابلے میں نہ ہمارے پاس کوئی فوجی طاقت ہی ہے، نہ وسائل وذرائع ہیں اور نہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی طاقت ہے۔ اگر ہمارے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ کی رحمت اور ہماراجذبۂ مزاحمت ہے۔ ہماری سب سے بڑی قوت اللہ پر توکل اور تحریک کی صداقت ہے۔ ہماری طاقت ہمارا باہم اتحاد اور اعتماد او ر غلامی کی ذلّت سے آزادی حاصل کرنے کا عزمِ صمیم ہے۔ ہماری فتح ونصرت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی قابض فوج کو کشمیر میں آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے عمر رسیدہ خواتین اور بزرگوں، چار چار سالہ معصوم بچوں پر فائرنگ اور جواں سال کالج اساتذہ کو لاٹھیوں اور بندوق کے بٹوں سے تشدد کرکے اَبدی نیند سلانا پڑتا ہے۔ اگر ۷۰سال کے فوجی قبضے کے بعد بھی بھارتی فوجی اہلکاروں کو ایک نہتی عورت اور ہاتھ میں چھوٹا سا پتھر اٹھانے والے کمسن بچے کو کشمیر کو بھارت کے جبری قبضے میں رکھنے کے لیے گولیوں سے بھون ڈالنا پڑتا ہے، تو آپ خود ہی بتائیے کہ اس سے بڑھ کر ان کی بدترین شکست کی اور کیا مثال پیش کی جا سکتی ہے۔

کوئی بھی تحریک قربانیوں کے بغیر منزل کی طرف رواں نہیں رہ سکتی۔ہماری تحریک قربانیوں سے مزین ہے۔ ہم نے اپنی جانوں کی بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ ہمارے بچے قابض بھارتی ٹارچر سنٹروں میں تختہ مشق بنائے جا رہے ہیں۔ بزدل بھارت ہمارے بچوں کو منصوبہ بند انداز میں اندھا بنا رہا ہے۔ ہم نے اپنی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو معطل کرکے، ظلم کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ہمارا مزدور ، کاشتکار ، ٹرانسپورٹر ، بڑھئی، غرض معاشرے کا ہر طبقہ ہر لحاظ سے قربانیاں پیش کر کے ہماری تحریک کا ہر اول دستہ ہے ۔ یہ تحریک، یہاں کے  ایک ایک فرد کے دل کی آواز ، آرزو اور تمنا کا مظہر ہے۔ چاہے کوئی فرد درس وتدریس ، تجارت ، ڈاکٹری ، نوکری یا کسی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اس کے دل کی اُمنگ آزادی ہے۔ ہماری یہ قربانیاں آزادی کی اس عمارت کے پیوست اور راست ستون ہیں۔

رواں عوامی تحریک کے دوران لوگوں نے جس باہمی اخوت وہمدردی اور اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جینے کا آغاز کیا ہے ۔ ہمارے گلی کوچوں سے لے کر ہمارے قائدین تک، ہم تحریک آزادی کے لیے یک جا اور یک سو ہیں۔ حالاں کہ ہمیں باربار سخت کرفیو میں جکڑا جارہا ہے۔ ہمیں جیلوں میں قید اور گھروں میں نظر بند کیا جارہا ہے۔ ہمیں تعذیب وتشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی ہم سے ہمارا   جذبۂ آزادی چھین نہیں سکتے اور ہمیں غلامی پر رضا مند نہیں کرسکتے۔ ہم ایک ہیں ، ہم متحد ہیں، اور ہمیں متحد ہو کر رہنا ہے۔ ہمارا اتحاد واتفاق ہی ہمارے دشمن کی شیطنت کی موت ہے۔

ہماری تحریک میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاکستان نے ہمارے محسن ، وکیل اور دوست ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ہمارا درد محسوس کیا ، ہمارے حق میں آواز بلند کی اور ہر سطح پر ہماری سفارتی اور اخلاقی مدد کا یقین دلایا۔ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے آزادی کے لیے آج جو زور دار آواز اٹھائی ہے، وہیں پاکستانی حکومت اور عوام بھی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی سطح پر حمایت کرنے کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔    ہم عوامی جمہوریہ چین ، ناروے، سعودی عرب ، نیوزی لینڈ، ایران اور اسلامی تعاون تنظیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے حق میں آواز اٹھائی اور جموں وکشمیر میں جاری بھارتی جارحیت کی مذمت کی۔ ترکی کی جانب سے بھارت کے خلاف اور ہماری تحریکِ آزادی کی غیر مبہم اور برملا سپورٹ کرنے پر ہم دل کی گہرایوں سے ان کے شکر گزار ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہمیں خطوط لکھنے اور انھیں دنیا کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے بھی دوسروں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ہماری آزادی کی اُمنگ اور درد وکرب اور مظالم کی داستانیں، برہمنی قوم پرست صحافیوں اور قلم کاروں کے استحصال کا شکار ہوتی تھیں۔ ہم پر ٹوٹنے والی افتاد کی اصلی صورت حال، بگاڑ کر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی تھی۔ سواے چند حقیقت پسند اور انسانیت دوست افراد کے، بھارت کی تمام میڈیا مشینری جھوٹ کا سہارا لے کر ہماری مبنی برحق وصداقت تحریکِ آزادی کو دہشت گردی سے موسوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی تھی۔ ہندستانی میڈیا دراصل بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا ترجمان ہے اور بھارت کا جموں وکشمیر پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے یہ ادارے حکومتی ڈکٹیشن پر من وعن عمل پیرا ہیں۔

ہمارے لیے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہمارے قلم کار اور مصنّفین، بڑی دلیری اور غیرمبہم طریقے سے بھارتی مظالم اور تحریک آزادی کے ساتھ یہاں کے لوگوں کی وابستگی کی حقیقی صورت حال دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا ہماری سڑکوں ، گلی کوچوں اور ہسپتالوں سے حقیقی صورت حال کی رپورٹنگ کر رہا ہے۔ ہم بین الاقوامی پریس کی طرف سے دیانت دارانہ انداز میں حقیقی صورتِ حال کو دُنیا کے سامنے پیش کرنے پر ان کے شکرگزار ہیں۔

آج، جب کہ ہم بہ حیثیت قوم، اجتماعی طور پر حصول آزادی کی تحریک میں یکسو ہو کر برسرِپیکار ہیں، وہیں ہم غاصب بھارت کے طرف دار گنتی کے ان مقامی مفاد پرست عناصر سے تحریکِ آزادی میں شامل ہونے کی ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں ۔ کیوںکہ اپنی قوم کے ساتھ دغابازی کا مرتکب یہ طبقہ اس بات سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ تاریخ اور تحریک کی سچائی اور حقیقت کے مدمقابل کھڑا ہوکر محض ذاتی مفادات ومراعات کے لیے قابض بھارت کا آلۂ کار ہے۔     اس حیثیت سے وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف بر سرِ جنگ ہو کر اپنی عاقبت کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ فریب خوردہ مقامی لوگ، فاشسٹ برہمن قوتوں سے اقتدار حاصل کرنے کے بہکاوے میں آئے ہیں،جنھوں نے ریاست جموں وکشمیر کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔     یہ ہمارے ملّی اور دینی تشخص کو مٹانے کے در پے ہیں، اور ہم سے ہماری تہذیب اور ثقافت چھیننے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان مقامی فریب خوردہ عناصر کے لیے اب بھی موقع ہے کہ وہ اس طرزِعمل سے باز آ جائیں اور اپنی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ چل کر غداری اور دغا بازی سے کنارہ کش ہوجائیں، اور اس طرح اپنے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے تحریکِ آزادی کشمیر میں شمولیت اختیار کریں۔

ہم خصوصاً ان لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں،جو محض رزق کے چند ٹکڑوں کے لیے قابض بھارتی مشینری کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں، اور اپنے ہی لوگوں پر مظام ڈھانے اور تحریکِ آزادی کو کچلنے کے عمل کو فرض شناسی تصور کرتے ہیں ۔ میں ان بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ظالم اور ظلم سے اجتناب کریں اور حق وصداقت کا ساتھ دیں تو اللہ آپ کے دلوں کو طمانیت اور سکون سے نوازے گا۔ اللہ آپ کے لیے رزق کی فراہمی کے ذرائع واسباب کشادہ کرے گا۔ ظالم وجابر کا مددگار بننے پر اللہ تعالیٰ نے خوف ناک انجام کی وعید سنائی ہے۔ اس لیے آپ قابض بھارتی قوتوں کا مدد گار بننے سے تائب ہوں، اور مظلوم قوم کی اجتماعیت میں شامل ہو کر جاری جدوجہد میں شریک ہوجائیں۔

وقت کا یہ اہم تقاضا ہے کہ ہم مزاحمتی تحریک کے اس دور کو راسخ اور پیوست کریںاور سودے بازی کے بجاے مزاحمت کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں ۔ ترجیحات اور ذمہ داریوں کا ادراک کر کے تحریک آزادی کو مستحکم اور منظم کریں۔ ہماری اس مزاحمت اور قربانیوں نے تحریکِ آزادی کو کسی بھی ابہام اور شک وشبہے سے محفوظ کر دیا ہے ۔ تحریک تسلسل کا نام ہے ۔ ہم واضح اور شفاف تحریک، اور اس کی منزلِ مقصود کو ابہام اور دھندلاہٹ کا شکار نہ ہونے دیں۔ اس مقدس مشن کو  گم کرنے کی کوئی دانستہ یا نادانستہ کوشش نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں اس مرحلے کو اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے ایک مشعل کی حیثیت دینا ہو گی۔ ہمیں فوراً اپنے گردونواح میں رواں تحریک میں متاثرہ افراد، اہل خانہ اور دیگر متاثرین تک پہنچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر بستی میں بیت المال قائم کر کے حاجت مندوں کی حاجت روائی کی جانی چاہیے۔ شہدا ، زخمیوں ، جیلوں میں بند ہم وطنوں اور ان کے لواحقین اور دیگر متاثرین کی جانب خصوصی توجہ کے ساتھ دل جوئی اور معاونت کا خیال رکھا جائے، تا کہ ہند نواز اور تحریک مخالف عناصر کے استحصال سے انھیں محفوظ رکھا جا سکے ۔

ہمارے ایمان، ہماری قوت، اتحاد اور عزمِ صمیم سے حواس باختہ ہو کر بھارت نام نہاد اور لایعنی بات چیت، ٹریک ٹو گفت وشنید اور ڈپلو میسی کا جھانسہ دے کر ہمارے ارادوں کو کمزور اور راے کو منقسم کرنے کی چال بازی کر رہاہے۔ یہ محض دکھاوے کی باتیں اور وقت گزاری کے حربے ہیں، جو اس کا آزمودہ نسخہ رہا ہے۔ یہ انفرادی واجتماعی طور پر ڈراما رچانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟ حالاںکہ وہ اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ہم صرف اور صرف بھارت کے ناجائز قبضے سے آزادی چاہتے ہیں اور ہم دیر سویر اسے حاصل کر کے ہی دم لیں گے۔ ان شا اللہ!

تحریکِ آزادی کشمیر پچھلے سات عشروں سے بہت سے نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے موجودہ دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ہمارے سینے پر کھنچی ہوئی خونی لکیر نے انسانی دردوکرب اور جذبات و احساسات کے جواَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں، وہ ہر دور میں، ہر موسم میں، ہر گام وشہر میں، ہر ذہن اور ہر قلب وجگر میں کچھ اس طرح رچ بس چکے ہیں کہ قابض طاقتوں کی سفاکیت اور درندگی ان کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ مقامی غدار ابن غداروں کی فریب کاری اور ساحری کے کرتب اس جذبے کو سرد نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ مزاحمت کا ہر مرحلہ پہلے سے زیادہ شدید اور حیران کُن ہوتا ہے۔

۲۰۱۶ء میں برہان وانی کی شہادت نے آزادی کی اس تحریک کو اور زیادہ جلا بخشی۔ چھے ماہ تک خاک وخوں میں غلطاں اس لہو لہان وادی کا چپہ چپہ کربلا کی تصویر پیش کرتا رہا۔ معصوموں کی چیخ و پکار سے طول وعرض کی خاموش فضاؤں میں ارتعاش پیدا ہوتا رہا۔ بصارت سے محروم جوانوں کی پوری دنیا ہی اُجڑتی گئی۔ مکانوں کی تباہی اور مکینوں کی خانماں بربادی ، میدانِ جنگ کا سماں پیش کرتی رہی۔ ہرطرف انسانی خون کی ارزانی انسانیت کو دم بخود کرتی رہی ۔ دنیا بھر میں انسانیت کا درد رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے واویلا کیا۔

ہزاروں کلومیٹر دُور انسانیت کے جذبے سے سرشار آوازوں نے ہماری بے کسی اور مجبوری پر احتجاج کیا، لیکن ہماری اپنی قوم میں ہماری ہی ہڈیاں نوچنے والے ’سیاسی گِدھ‘ اس خون سے بھی اپنے سنگھاسن سجانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگ گئے۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے ظلم وسفاکیت کے دل دہلانے والے واقعات ہوتے رہے، لیکن وہ لیلاے اقتدار سے اس طرح بغل گیر رہے کہ اپنی کرسیاں مضبوط کرنے کے لیے ہماری لاشوں کی دلالی کرنے میں بھی فخر محسوس کرنے لگے۔ ’تعمیر وترقی، امن اور خوش حالی‘ کی خوش کُن ڈفلیوں سے عوام کو بہلانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ قاتلوں اور جلادوں کی پیٹھ تھپتھپا کر اپنے لیے بھیک میں ملی کرسی کو ہی بچاتے رہے۔ اُن کی آنکھوں پر حرص ولالچ کے ایسے پردے چڑھے کہ اپنی اَنا اور خود غرضی کے سوا انھیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔

قابض طاقتوں کے ان مقامی گماشتوں نے بھانپ لیا کہ ان کے چہروں سے نقاب سرکنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب عوام اور خاص کر یہاں کا نوجوان ان کی بھیانک صورت اور انسانی کھال میں چھپے مکروہ وجود کو پہچان چکا ہے، تو انھوں نے ضمیروں کی خریدوفروخت کا کاروبار شروع کیا۔   جو جس دام میں بکا اس کو خرید لیا اور جو نہ بکا انھیں بے دریغ کچلتے اور روندتے گئے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ سچائی، دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ، بے ایمانی اور فریب کاری؟ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا ہے؟

یہ بندگانِ شکم کی ایک ایسی فوج ہے جن میں خودداری کی ہلکی سی رمق بھی موجود نہیں ہے۔ یہ دشمنوں کی غلامی پر فخر کرتے ہیں۔ غیروں کے بخشے ہوئے منصبوں اور عہدوں پر فائز ہوکر اُن کی چاکری کرنے میں یہ لوگ عزت محسوس کرتے ہیں۔ ہماری قوم کے ایسے غیرت سے تہی دامن نام نہاد حکمران اغیار کی چاپلوسی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ جب کوئی غیرت مند شخص ان کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے اُٹھتا ہے، تو یہ اس کا سر کاٹ کر دشمنوں کے سامنے پیش کرکے    خراج وصول کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف اور صرف ذاتی مفادات اہمیت رکھتے ہیں، جن کے لیے وہ ہرظالم کا ساتھ دیتے ہیں، ہر جابر کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں، ہر باطل کو قبول کرنے اور ہرصداے حق کو دبانے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔

ہماری قوم کے جوانوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے سنا، محسوس کیا    اور دیکھا۔ ایک حساس اور باشعور ذہن کے لیے مزاحمت میں ہر اول دستہ بننے کے لیے اتنا ہی  کافی ہے اور یہی وہ پسِ منظر ہے جس میں یہاں کے نوخیز جوان، طلبہ و طالبات___ نہتے ہوکر بھی جذبات و احساسات کے تیز دھار ہتھیاروں سے لیس ہوکر آہنی بوٹوں اور بکتر بند فوجی گاڑیوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔

جذبۂ آزادی سے سرشار ہماری محکوم قوم کا نوجوان جب دشمن کو للکارتا ہے، تو اپنے گھروں میں آرام دہ کمروں میں بیٹھے لوگ دم بخود رہ جاتے ہیں۔ بھارت خود اپنی آنکھوں دیکھے ان مناظر پر یقین نہیں کرپارہا ہے کہ ۱۵، ۱۶سال کا ایک نوجوان بندوقوں سے لیس فوجیوں کو بھاگنے پر   کس طرح مجبور کرتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو بصارت ہوتی، عقل وخرد کی تھوڑی سی رمق بھی ہوتی، انسانی جذبات اُن کے دلوں میں جگہ پا چکے ہوتے، تو شاید وہ کب کے ان ہمالیائی حقائق کو تسلیم کرکے اپنی ضد اور جھوٹی اَنا کو خیرباد کہہ چکے ہوتے۔

جوانوں کی اس موجودہ کھیپ نے اسی گولی بارود کی گھن گرج میں شعور کی آنکھ کھولی ہے۔ انھوں نے بچپن ہی سے اپنے بھائیوں کو کٹتے دیکھا ہے۔ اپنے بزرگوں کی تذلیل ہوتے دیکھی ہے۔ اپنی ماؤں بہنوں کی عصمتوں کو تار تار ہوتے دیکھا ہے۔ اپنے آشیانوں کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ ان کی آنکھوں نے وہ خونیں اور ڈراؤنے مناظر بھی دیکھے ہیں، جو شاید اُس عمر میں دیکھنے کی کسی میں تاب نہ ہو۔ یہ وہ سونا ہے جو ظلم وجبر کی بھٹی میں تپ کر کُندن بن چکا ہے اور اس کو زیر کرنے کی حماقت جو بھی کرے گا، ریزہ ریزہ ہوکر زمین بوس ہونے میں اس کو دیر نہیں لگے گی، ان شاء اللہ۔

ہمالیہ کی گود میں ماضی کی جنت نظیر کہلانے والی یہ بدنصیب سرزمین کئی عشروں سے آگ وآہن، تباہی وبربادی، خونِ ناحق، حقوقِ انسانی کی بدترین خلاف ورزیوں، لٹی عصمتوں، اُجڑی بستیوں، خزاں رسیدہ سبزہ زاروں، حسرت ناک کھنڈرات میں تبدیل ہوئی شان دار عمارتوں میں رہنے والے بے یارو مددگار، بے کس اور بے بس عوام کا مسکن بن چکی ہے۔ یہاں کے کئی   بلند چوٹیوں سے دل موہ لینے والے چشمے لہو اُبل رہے ہیں۔ یہاں کی میٹھی میٹھی خوشبومیں گولی بارود کی زہریلی ملاوٹ ہوچکی ہے۔ ہر گھر اور ہر فرد دادوفریاد کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔

لہو لہان وادی کے یہ ہرے زخم اور ان سے ٹپکتے ہوئے لہو کو یہاں کی صحافی برادری دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ حق وصداقت کی بات کرنے والوں کو غاصبوں اور ظالموں نے کب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ہے کہ اب کریں گے۔ معاشرے کے ہرطبقے کی طرح یہاں پر اخبارات اور میڈیا سے وابستہ افراد کو بھی سچ بولنے کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ حکومتی عتاب کا رونا رونے اور اس کی آڑ میں اگرچہ کچھ حضرات نے استبدادی طاقتوں کا آلۂ کار بننے ہی میں عافیت سمجھی، لیکن اس کے باوجود حق وصداقت چھن چھن کر اپنا راستہ بنا ہی لیتی ہے۔

صحافی برادری اس ستم رسیدہ اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کا ایک باشعور اور حساس طبقہ ہے۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اس غیر یقینی پن اور خوف وہراس کے ماحول کا حصہ ہے۔ حقائق کو اس کے صحیح تناظر میں عوام اور باہر کی دنیا تک پہنچانا ان کی منصبی ذمہ داری ہے۔ یہاں کے غیور اور آزادی پسند عوام یہی چاہتے ہیں کہ ان کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ ان کے اصل مرض کی نشان دہی ہو۔ مصائب اور مشکلات کا سامنا ہر فرد کی طرح صحافی حضرات کو بھی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومت اور اس کے مقامی دُم چھلے سوشل میڈیا اور جدید عوامی رابطے سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ آئے دن اپنی درندگی اور وحشت کو چھپانے اور ان خبروں کو باہر کی دنیا تک پہنچنے نہ دینے کے لیے بچگانہ اور بزدلانہ حرکتیں کرکے ان تمام مواصلاتی رابطوں پر پابندی لگاکر اپنی جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے آرہے ہیں۔

زخموں سے چُور اس وادیِ گل پوش کے درد اور کرب میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہوتا ہے جب عالمی ادارے اور اُن کے ذرائع ابلاغ خاموش تماشائی بن کر ظالموں، جابروں اور قاتلوں کی تائید کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عالمی برادری نہ تو خود اپنے اداروں کی پاس کردہ دستاویزات پر عمل درآمد کی کوئی فکر کرتی ہے اور نہ یہاں کے چپے چپے پر بہتا معصوم لہو ان کو نظر آتا ہے۔ کاش! عالمی برادری اقتصادی مفادات اور تجارتی منڈیوں کے خول سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتی تو شاید کراہتی انسانیت کی چیخ و پکار اور اُجڑے دیاروں کی ہیبت ناک تصویر اُن کے ضمیر کو کچھ تو جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوجاتی، لیکن واحسرتًا۔

اس اجتماعی جرم میں ہر ایک برابر کا شریک ہے۔ مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی بے حس ریاستی اور سیاسی قیادت کو بھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ رب العالمین کی طرف سے عطا کیے ہوئے قدرتی خزانوں پر انھوں نے غیروں کو مالک بنادیا۔ خود اس بے انتہا دولت کی بالائی کھا کر شباب وکباب کی دنیا میں بے سدھ پڑے رہنے ہی کو مسلم اُمت پر بطورِ احسان جتایا۔ اُمت مرحومہ کن مشکل ترین اور صبر آزما ادوار سے گزررہی ہے؟ ملت کس طرح زخموں سے چُور ہے؟ آباد شہروں کو کس طرح زمین بوس کیا جاتا ہے؟ معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو کس طرح خون میں نہلایا جارہا ہے؟___ لیکن یہ نام نہاد مسلم حکمران خوابِ غفلت میں بے حس وحرکت اپنے عشرت کدوں میں بیٹھے دادِ عیش دے رہے ہیں۔ حالاںکہ ان کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے قرب وجوار میں لگی آگ کی تپش سے یہ خود بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

ریاست جموں وکشمیر کا مسئلہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے فارمولے کے غیرمنصفانہ نفاذ کی پیداوار ہے۔ جس کے نتیجے میں اس ریاست کے سینے پر ایک خونی لکیر کھینچی گئی ہے اور یہاں کے عوام کے جذبات، اُن کے رشتوں، اُن کی برادری اور ان کے کلچر کو تقسیم کردیا گیا ہے۔

پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔ اس نے ہمیشہ سے اس دیرنہ مسئلے کو حقائق کی روشنی میں حل کرنے کے لیے سفارتی، اخلاقی اور سیاسی سطح پر ہر ممکن مدد فراہم کی ہے، لیکن اپنے اندرونی خلفشار اور ہمسایہ ممالک کی درپردہ سازشوں کی وجہ سے ہمارا یہ مضبوط وکیل بہت سے محاذوں پر کمزور دکھائی دے رہا ہے۔ کشمیر کو اپنی شہ رگ تسلیم کرنے کے بعد کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی فرد یا قوم اپنی شہ رگ کو دشمن کے خونیں جبڑوں میں پچھلے ۷۰برس سے دیکھتی چلی آرہی ہے۔

 اگر واقعی پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کی شاہراہ کشمیر سے ہوکر گزرتی ہے، تو اس اہم اور بنیادی مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر لے کرچلنے کی ٹھوس کوشش قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہونی چاہیے تھی۔ لیکن مصلحتوں، کمزوریوں اور سازشوں کی آلودگیوں نے اس مسئلے کی چمک ہی دھندلی کرکے رکھ دی ہے۔ یہاں کے عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پچھلے ۳۰سال سے دیتے چلے آرہے ہیں، لیکن اس لہو کے نکھار اور آزادی کی اس گونج کو جس حرارت اور گرج سے عالمی ایوانوں تک پہنچانے کی ضرورت تھی، ہمیں آج سات عشرے گزرنے کے بعد بھی اس کی حسرت ہی رہی۔

جنوبی ایشیا میں رستے ہوئے اس ناسور نے انسانی سروں کی کئی فصلیں نگل لی ہیں اور اب یہ خونخوار بھیڑیا ہر گزرتے دن، انسانی لہو سے اپنی پیاس بجھا رہا ہے۔ خون چاہے بھارتی فوجی کا ہو، پاکستانی فوجی کا ہو، کشمیری کا ہو، ہے تو انسانی لہو کہ جس کا احترام بحیثیت انسان ہم سب پر فرض ہے۔ کئی عشروں سے جاری اس کشت وخون میں ایک نہتی اور مظلوم قوم پسی چلی جارہی ہے۔

غاصب اور قابض بھارت نے اپنی جھوٹی، فریب کارانہ اور چانکیائی سیاست کے داؤپیچ سے ہمارے اندرہی غداروں کی ایک اچھی خاصی کھیپ تیار کرلی ہے، جو اس کے ایک اشارے پر پوری کشمیری قوم کو زمین بوس کرنے سے بھی ہچکچائے گی نہیں۔ اس جابر طاقت کی کلہاڑی کے یہ مقامی دستے، جب تک اپنی شکم سیری اور فرضی شان وشوکت اور جاہ وحشمت کے لیے بے غیرت اور بے ضمیر دلالوں کا گھناؤنا کردار ادا کرتے رہیں گے، تب تک سروں کی فصل کٹتی رہے گی۔

پچھلے کئی برسوں سے تو بھارت کا ترنگا یہاں کی عمارتوں پر لہرانے کے بجاے اپنے فوجیوں کی لاشوں کو لپیٹنے ہی کے کام آرہا ہے، مگر اس کے باوجود بھارتی سورماؤں کی آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لے رہیں۔ غریب اور مفلس فوجیوں کو قوم پرستی کا امرت پلا کر یہ عاقبت نااندیش سیاسی جادوگر انھیں اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھاتے رہتے ہیں، ورنہ بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اُن کے عوام کو بھی یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر نہ کبھی بھارت کا حصہ تھی، نہ ہے اور نہ آیندہ کبھی ہوگی۔ بھارت کو یہاں سے ذلت اور خواری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور وہ خود اپنے جرائم کے بوجھ تلے دب کر دُم دباکے یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوگا۔ اس میں اگر وقت لگ رہا ہے تو صرف اور صرف ہماری اپنی کمزوریوں کی وجہ سے۔ ورنہ قانونِ قدرتِ حق کا فیصلہ بالکل صاف ظاہر ہے، اور وہ یہ کہ خطۂ جموں و کشمیر کو بھارتی سامراج سے آزاد ہوکر رہنا ہے، ان شاء اللہ!

_______________

میرے عزیز ہم وطنو اور نوجوانو! اللہ کی رحمتیں آپ پر ہوں جودو جہانوں کامالک ہے۔  وہ خداے ذوالجلال! جس نے نہتے کشمیریوں کو دُنیا کی بہت بڑی فوجی طاقت کے سامنے کھڑا ہونے کاحوصلہ دیا۔ وہ فوجی طاقت،بھارت جس نے ظلم و وحشت اور درندگی کو ہتھیار بنا کر ہماری مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔ یہ خداے مہربان کا فضل وکرم ہے جس نے نہتے، بہادر کشمیر ی عوام کی جرأت اور دلیری کے سامنے دشمن کے ہیبت ناک ہتھیاروں کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے اورآج کشمیری، متکبرہندوبادشاہت کی آہنی زنجیریں توڑ کر حصول آزادی کے حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہماری جدوجہدِ آزادی کا یہ مرحلہ مکمل ہوا ہے ۔اس تاریخی مرحلے پر میں آپ کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے لازوال عزم وہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی ہیبت ناک فوج کو نہتے ،خالی ہاتھوں عظیم شکست سے دوچار کردیا ہے۔ آج بھارت کے چہرے سے تمام نقاب اُترچکے ہیں۔ جمہوریت کا خوش نما نقاب،ترقی اور قانون کی حکمرانی کا نقاب بھارتی فوجیوں کے بوٹوں تلے روندے جارہے ہیں۔

میرے جوانو! آج ہمارے اورآزادی کے درمیان واحد رکاوٹ یہ بندوق بردار بھارتی فوجی ہیں، جواپنے محفوظ بنکروں میں خودکشیاں کررہے ہیں، جب کہ بھارتی ریاست ہمارے عزم وہمت کے سامنے لرز رہی ہے۔ اگرچہ ان کے پاس لاکھوں بندوقیں ہیں لیکن وہ ہمارے سچ کامقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ کبھی بھی بندوقوں سے سچ کو قتل نہیں کیاجا سکا۔

اس دوران میں ہم نے اپنے لہو سے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سچائی کابول بالا ہوتا ہے اور آزادی ہر بنی نوع انسان کا بنیادی حق ہے اورہم بھی آزادی کی منزل پا کر رہیں گے۔ ہرکشمیری مردوزن اورہمارے معصوم بچوں نے پوری دُنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ ہم سے زیادہ آزادی کا مستحق کوئی نہیںکہ آزادی کی منزل کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہوئی۔بھارت فوجی محاذ پر اپنی شکست کوچھپانے کے لیے کٹھ پتلی کشمیریوں کومیدان میں لایا ہے جو یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ تحریک آزادی کے جاری باب کاانجام مایوسی اورشکست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اپنی روح بھارتی شیطانوں کے ہاتھ فروخت کردی ہے، جوہمیں بے حوصلہ اورکم ہمت بنانے کے لیے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ۱۰۰ دنوں سے جاری تازہ ترین جدوجہد میں کچھ حاصل نہیں کرپائے۔

موجودہ مرحلہ کئی عشروں سے جاری لازوال تحریک حریت کا تسلسل ہے ۔ان بھارتی کٹھ پتلیوں کے پاس کہنے کوکچھ بھی نہیں کہ انھوں نے ادنیٰ مالی مفادات کے لیے اپنی روحیں دشمن کے پاس گروی رکھی ہوئیں ہیں۔انھوں نے کشمیر کی خود مختاری کو قسطوں میں ادنیٰ مفادات کے لیے بھارت کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ یہ لوگ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس طرح کا بے بنیاد اور لغو پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ کیوںکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں میں وہ رہی سہی عزت و تکریم اور عوامی حمایت سے بھی بالکل محروم ہوچکے ہیں ۔

اب وہ بھارت کے اشارے پر اقوام عالم کی توجہ کشمیریوں کی تاریخی جدوجہدِ آزادی سے ہٹانے کے لیے علاقے میں جنگی جنون پیدا کررہے ہیں۔ یہ عناصر اپنے آپ کو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن وہ اقوام عالم اورحریت پسند کشمیریوں کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ ملتِ کشمیر پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں اپنی روح کا سوداکرنے والے مختلف ناموں سے حریت پسندوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوکر اب متحد ہورہے ہیں لیکن بھارت کا یہ پتلی تماشا بھی ناکام ونامراد ٹھیرے گا۔

غاصب ہندوفوج نے کشمیر کے صدیوں سے رائج تعلیمی نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے لیکن   ان ہتھکنڈوں سے ہماری نوجوان نسل کو جہالت کے اندھیروں میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ آج کشمیر کا گھر گھر علم کے نوراورحریتِ فکر کے چراغوں سے روشن ہے۔ تعلیم بُرے بھلے ،حق اورباطل میں  تمیز سکھاتی ہے۔تعلیم حق کی راہ پر چلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔تعلیم انصاف اورناانصافی کے درمیان  تمیز سکھاتی ہے اور انصاف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہونے کا سبق دیتی ہے۔تعلیم محض خواندگی نہیں، بے جان حروف کی پہچان اور شناخت نہیں۔ یہ تو ایسا نور ہے جو قلب و ذہن کومنور کرتا ہے، جو سچائی اور برائی میں فرق کرنا سکھاتا ہے، جو انسانی ضمیر کو زندہ وبیدار کرتا ہے، جوغلامی کی زنجیریں توڑنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ علم کا یہ نور اورجذبوں کی یہ شمعیں مایوسی کے اندھیروں کو تار تار کرکے رکھ دیتی ہیں۔ یہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی یادوں کے وہ روشن چراغ ہیں جنھوں نے ہماری راہیں منور کررکھی ہیں۔ یہ وہ روشنی ہے جو نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی تاریک آنکھوں سے پھوٹ رہی ہے،جنھیں چھرّے والی بندوقوں سے نشانہ بناکر اندھا کردیا گیا تھا ۔

یہ ہے وہ روشنی جو ان تاریک عقوبت خانوں سے آرہی ہے جہاں ہمارے کشمیری نوجوان قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ یہ روشنی جنت کے ان باغوں سے آرہی ہے جہاں ہمارے شہدا خداے مہربان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گذشتہ ۱۰۰ دنوں کے دوران ہم نے کئی نئے سبق سیکھے ہیں، جب کہ ہمارے بچوں نے عملاً یہ دیکھا ہے کہ بھارت کے کٹھ پتلی کشمیری کس قدر کھوکھلے ہیں کہ ان پر ان کے اہل خانہ بھی اعتبار کرنے کوتیار نہیں ۔

میرے عزیزو! تعلیم، جارح ہندو فاشسٹ کی غلامی کا نام نہیں اورنہ تعلیم مردہ ضمیری ہی کا سبق دیتی ہے۔ تعلیم تو نوجوانوں کو مصائب والم میں مبتلا کشمیری قوم کے لیے کھڑاہونے کا سبق دے رہی ہے ۔لعنت ہے ان لوگوں پر جو ہمیں تعلیم کے بہانے آداب غلامی سکھانا چاہتے ہیں لیکن ناکامی و نامرادی ان کا مقدر ہے۔ یہ سب کٹھ پتلی ضمیر فروش آج کیوں حریت فکر کے پروانوں، سنگ بدست جوانوں کو سلام عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ کیوںکہ وہ بھی اس حقیقت کو پاگئے ہیں کہ بچوں اورنہتے نوجوانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر ان کا راج سنگھاسن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اب وہ زیادہ دیر معصوم کشمیریوں کے خون سے آلودہ تاج پہن کر سری نگر کے تخت پر بیٹھ کر بھارت کے ناجائز فوجی قبضے کی وکالت نہیں کر سکتے۔ ان کا کھیل تماشا اور ناٹک ختم ہونے کو ہے۔

کشمیر کے طول وعرض میں جاری طالب علموں کے مظاہرے بھارتی کٹھ پتلی سیاست دانوں کے منہ پر طمانچہ ہے ،جو نوجوان نسل کو ہتھیار بناکر جدوجہدِ آزادی کو کچلنے کاخواب دیکھ رہے تھے۔ آزادی کے نعروں پر مشتمل پلے کارڈ اُٹھائے طالب علم بھارتی فوج کو گلی کوچوںمیںکھلے بندوں چیلنج کررہے ہیں جس کے بعد بھارت کے ان یاروں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔  آج کا طالب علم  نعرہ زن ہے کہ ہم آزادی کے لیے اپنا مستقبل قربان کردیں گے۔ اب کوئی بھی نوجوان کشمیریوں کو گمراہ نہیں کرسکتا کہ وہ آزادی کی جدوجہد کو ترک کرکے امتحان دینے کے لیے چلے جائیں۔ملتِ کشمیر کی پیشانی پر یہ عبارت دمک رہی ہے کہ خون شہدااور قلم دوات اکٹھے نہیں چل سکتے۔ملتِ کشمیر  اپنے نہتے اورمعصوم بچوں کو، ان کے دوستوں کو، ان کے اہل خانہ کو بھارتی فوج کا دیوانہ وار مقابلہ کرتے دیکھ رہی ہے۔ انھیں اندھا کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے ،بندی خانوں  میں ڈالا جا رہا ہے لیکن کسی کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔

۲۰۱۶ء کے۱۰۰ دنوں میں ۹۰ سے زیادہ نوجوان شہید، ۱۶ ہزار شدید زخمی اور ۱۰ہزار نوجوانوں کو گرفتارکیاگیا ہے۔ ایک ہزار نوجوانوں کو اندھا کرنے کے لیے چھرّے والی بندوقوں سے نشانہ بنایاگیا ہے، یہ سب طالب علم ہیں۔ کشمیریوں پر بدترین وحشیانہ جنگ مسلط کردی گئی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس ظلم ودرندگی کے کھیل کے عروج پر بھارت کے کٹھ پتلی سیاسست دان امتحانات لینے کا ڈراما رچا رہے ہیں۔ یہ بھی گھروں کو تباہ وبرباد کرنے ،بجلی کے ٹرانسفارموں کو تباہ کرنے، سرسبزوشاداب باغات کو اُجاڑنے کے مکروہ اوروحشیانہ ہتھکنڈوں کا تسلسل ہے۔

تعلیم کے بعد جارح فوج اور اس کے کٹھ پتلی سیاست دان ہماری معیشت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسلسل کرفیو نے کاروبارِزندگی کو معطل کرکے رکھ دیا ہے۔ اب وہ ہمارے شہداکے انمول لہو کاتقابل معاشی نقصانات سے کررہے ہیں لیکن سلام، صد سلام کشمیری تاجروں کو، سوداگروں کو جنھوں نے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں اپنی عظمت اوروقار پر سودے بازی نہیں کی۔ انھوں نے بند دکانیں نہیں کھولیں۔ ہمارے ٹرانسپورٹروں نے جو گاڑیاں، رکشے، بسیں اور ٹیکسیاں چلاکر رزق حلال کماتے ہیں، گلی کوچوں اور سڑکوں پر نہیں آئے۔ وہ محنت کش کشمیری جو سبزیاں اور پھل، گلی کوچوں میں گھر گھر جاکر بیچتے ہیں، بھارتی انتظامیہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود باہر نہیں نکلے۔ وہ لوگ جن کا تمام تر دارومدار سیاحت اور سیاحتی گرمیوں پر تھا___ یہ ہوٹل والے، یہ شکار والے ،یہ خوب صورت آرایشی گھوڑوں کے مالکان، یہ ٹورز اینڈ ٹریولز ___انھوں نے اپنے بند کواڑوں کونہیں کھولا اوراپنے کاروباری مفادات کو جدوجہدِ آزادی پر قربان کردیا ۔

آج ملتِ کشمیر پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ محکوم اقوام کو آزادی حاصل کرنے کے لیے جانی و مالی قربانیاں دینا پڑتی ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی ترقی آزادی کی منزل کا حصول ہے۔کشمیر کی ترقی کا بھارتی ماڈل کشمیریوں کو خوش حال بنانے کی بجاے بھارت کے غاصابہ فوجی قبضے کو مستحکم بنانے کا مکروہ منصوبہ ہے۔ بھارتی قبضہ دراصل ہمارے وجود کو اورحریت فکر کو مٹانے کا کھیل ہے۔

جدوجہدِ آزادی کے تازہ مرحلے نے تمام بھارتی منصوبوں اورچالوں کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ جو اسرائیلی طرز پر انتہا پسند ہندوؤں کی بستیاں بسانے کے خواب دیکھ رہے تھے، جوآبادی کا توازن بگاڑنے کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کی آبادیاں تعمیر کررہے تھے، ان کے سارے خواب پریشان ہوچکے ہیں۔ ان نام نہاد جدید بستیوں میں بسنے کے لیے آج کوئی تیار نہیں۔

میرے عزیزو!موجودہ بغاوت نے بھارتی کٹھ پتلی حکمرانوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے اوراب یہ بے ضمیر لوگ کشمیری قوم کےخلاف اپنے تمام سیاسی اختلافات پس پشت  ڈال کر متحد ہورہے ہیں۔ آج کشمیر کا چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ کشمیریوں کے عوامی اتحاد نے دشمن کو شکستِ فاش دے دی ہے ۔ہمارا اتحاد ہی ہماری فتح ہے۔

بھارتی نیتا ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم آزادی حاصل کرکے کشمیر کا انتظام چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے۔ تمام غاصبوں نے محکوم عوام کو اسی طرح گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کشمیری عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بیت المال، چھوٹے چھوٹے سکول،محلہ جاتی اجتماعی باورچی خانے،امدادی اور طبی مراکز قائم کرکے انھیں کامیابی سے چلانے کا ہدف حاصل کرلیا ہے، اور یہ سب کامیابیاں بدترین ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے حاصل کی گئی ہیں۔ کشمیریوں کا اجتماعی ایثار اور قربانی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ہماری مزاحمت توانا درخت بن کر برگ وبار لارہی ہے۔ تحریک مزاحمت کے دوران تشکیل کردہ یہ عوامی اورسماجی ڈھانچہ اورہمارے ادارے بھارتی فوج اوراس کی کٹھ پتلیوں کے نظام سے کہیں زیادہ مؤثر اورمعتبر ہے۔

جدوجہدِ آزادی کے اس مرحلے نے مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم کے درمیان روشن وتاباں کرکے رکھ دیا ہے ۔آج اقوام عالم بھارت کے مکروفریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی، اقوام متحدہ ہائی کمیشن براے مہاجرین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی یونین اور دیگر اَن گنت عالمی ادارے بھارتی مکروفریب کےخلاف نہتے کشمیری عوام کے لیے کھل کر اپنی حمایت کا اظہارکررہے ہیں۔

جدوجہدِ آزادی کی یہ تمام کامیابیاں ہمیں بھارت نے خیرات میں نہیں دیں۔ یہ ہم نے عظیم قربانیاں دے کر بھارتی استبداد سے چھینی ہیں۔کچھ سادہ لوح بھائی ۱۹۵۳ء سے پہلے کی داخلی خودمختاری، ازخود حکمرانی یاحق راے دہی اور مکمل آزادی بارے استفسار کرتے ہیں۔یاد رکھو! بھارت ہمیں کچھ نہیں دے گا۔اقوامِ عالم کی تاریخ میں غاصبوں نے محکوموں کو قتل عام ،ظلم اور سفاکیت اور تذلیل کے سواکچھ نہیں دیا۔یاد رکھو! بھارت جارح اورغاصب قوت ہے۔بھارت ہمیں روشن ضمیری اورآزادی دینے کے بجاے گمراہ کرتا رہے گا۔فوجی میدان میں اپنی شکست دیکھ کر اپنے کٹھ پتلی کشمیری حکمرانو ں کو متحد کرکے سامنے لا رہاہے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج کوئی سچا کشمیری بھارت کی طرف نہیں دیکھ رہا۔ کشمیری قوم کی تمام اُمیدیں جدوجہدِ آزادی سے جڑ چکی ہیں۔

بھارتی جرنیل ڈی ایس ہوڈا اور بھارتی وزیراعظم کے سابق مشیر قومی سلامتی نارائن اعتراف کررہے ہیں کہ کشمیر میں ہمارے تمام ہتھکنڈے اورجھوٹے دعوے ناکام ہوچکے ہیں۔ نارائن نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ ہم مذاکرات کی میز پر مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔ آج کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوگیا۔ ہم نے کئی دہائیوں کے سفرکے بعد حق اور سچ کی یہ منزل پائی ہے۔ اس سفر میں ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن جدوجہدِ آزادی کے لیے ہمارے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ کشمیری قوم نے کبھی سر نہیں جھکایا۔ یاد رکھو!بھارت نہیں ،آزادی ہماری منزل ہے۔ ہم شانہ بشانہ، بانہوں میں بانہیں ڈال کر آزادی کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صبحِ آزادی طلوع ہونے کو ہے۔ غلامی کی سیاہ رات ختم ہورہی ہے۔

ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ ۲۰۱۶ء کا انتفاضہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور اس کے ذریعے سے پوری دنیا تک پیغام گیا ہے کہ کشمیری اپنے مطالبۂ حقِ خودارادیت سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کا ’دہشت گردی‘ کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، بلکہ یہ خالصتاً ایک عوامی تحریک ہے اور کشمیر کی پوری آبادی مردوزن اور بچے بوڑھے اس کے ساتھ والہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔

اس انتفاضہ سے بھارت کے اس پروپیگنڈے کی بھی پوری طرح سے نفی ہوگئی ہے کہ کشمیر میں حالات کی ابتری کے لیے پاکستان ذمہ دار ہے اور اسی کی شہہ پر یہاں اتھل پتھل اور بے چینی کا ماحول قائم ہے۔ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح سے کشمیر کی پوری آبادی اُبل پڑی اور یہاں کے گلی کوچوں نے جو لاثانی منظر پیش کیا، اس سے یہ حقیقت مبرہن صورت میں سامنے آگئی کہ اس طرح کے عوامی سیلاب کسی کی شہ اور کسی کی ایما پر نہیں آسکتے، بلکہ پرواز کرنے کا یہ ہے ایسا فطری جذبہ ،جو جبری طور پر قید کیے گئے انسان تو انسان پرندے کے دل میں بھی موجزن ہوتا ہے۔

 ۲۰۱۶ء کی عوامی تحریک نے بھارت کے اس منفی پروپیگنڈے کو غلط اور باطل ثابت کردیا، جو وہ کشمیر اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں کرتا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی حکمران اپنی ضد اور ہٹ دھرمی ترک کرکے کشمیر سے متعلق حقائق کو قبول کرتے اور نوشتۂ دیوار پڑھ کر اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرتے، کیونکہ بھارت، دنیا کی بڑی جمہوریہ ہونے کا دعوے دار ہے اور اس ملک کا آئین بھی لوگوں کی راے کا احترام کرنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور دلی والے دل ودماغ سے کام لینے کے بجاے اپنی اکڑ پر اَڑے رہے اور انھوں نے ۲۰۱۶ء کے عوامی ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کیا۔ لوگوں کوخاموش کرانے کے لیے فوج اور نیم فوجی فورسز کی نئی کمک کشمیر روانہ کردی گئی۔ سیکڑوں افراد کالے قوانین کے تحت آج بھی مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور نئی گرفتاریوں کا سلسلہ شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ کریک ڈاؤن اور تلاشیوں کے بہانے عام شہریوں کو ہر روز ہراساں کیا جاتا اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔

الغرض بھارت کے حکمران اپنی ملٹری مائیٹ کے ذریعے سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی اپنی دیرینہ پالیسی پر کاربند ہیں اور وہ ہر اس فرد کو تہہ تیغ کرنا چاہتے ہیں جو سراٹھاکر جینے کی تمنا دل میں رکھتا ہو۔ اس سامراجی پالیسی نے جموں کشمیر کی صورت حال کو دھماکا خیز بنایا ہوا ہے اور حالات روز بروز بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ کشمیر کی نوجوان نسل ’پُرامن سیاسی تحریک‘ سے بددل ہورہی ہے اور وہ اس کو وقت کے زیاں سے تعبیر کرنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لخت ہاے جگر کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو خیرباد کہہ کر سرفروشی کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور سرہتھیلی پر رکھ کر بھارت کے نشۂ قوت کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس نئے رحجان نے لوگوں کے روزمرہ کے معاملات میں بھی ہل چل مچادی ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ہیں۔

بھارتی قابض افواج اور ان کی معاون فورسز عام شہریوں کو سافٹ ٹارگٹ کے طور نشانہ بناتی ہیں اور وہ سرفروشی کے راستے پر گامزن جوانوں کا انتقام نہتے لوگوں سے لینا چاہتی ہیں۔ انھیں انسانی ڈھال کے طور استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں کو مختلف حیلوں بہانوں سے تہس نہس اور مسمار کیا جاتا ہے۔ قیمتی انسانی زندگیوں کا اتلاف ایک معمول بن گیا ہے اور کشمیری قوم کی ایک پوری نسل پکی ہوئی فصل کی طرح کاٹی جارہی ہے۔

میرا یقین، بلکہ ایمان ہے کہ اس خون خرابے کے لیے صرف اور صرف بھارتی حکمرانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی والی پالیسی ذمہ دار ہے اور وہ ہی ریاست کی سیاسی غیر یقینیت اور عدمِ استحکام کی صورتِ حال میں اضافے کے اصل مجرم ہیں۔ وہ ۲۰۱۶ء کے انتفاضہ اور ۱۰۰دنوں کی عوامی تحریک کو سنجیدگی سے لیتے اور لوگوں کی امنگوں اور آرزوؤں کا احترام کرتے تو آج حالات کا یہ رُخ نہ ہوتا۔

یہ ایک آفاقی اور کائناتی (Universal Truth)حقیقت ہے کہ لوگوں کی اُمنگوں اور خواہشات کو زور زبردستی کے ذریعے دبایا جائے تو وہ باہر نکلنے کے لیے دوسرے آپشن اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔جہاں بھی پُرامن اور سیاسی جدوجہد کو تسلیم نہیں کیا جاتا ، وہاں لوگ دوسرے انتہائی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس حقیقت کے اظہار میں بھی مجھے کوئی باک نہیں ہے کہ اس طرح سے تنازعہ کشمیر حل کرانے کے حوالے سے ماضی میں کوئی پیش رفت ممکن ہوسکی ہے اور نہ مستقبل میں اس سے کوئی مثبت نتیجے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ کشمیر ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے اور اس کو ایک بامعنیٰ سیاسی عمل کے ذریعے ہی سے حل کرایا جانا ممکن ہے۔

بھارتی حکمرانوں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر اصرار کرنا ترک کریں، جو ہر سطح پر ناکام ثابت ہوچکی ہے اور جس کی وجہ سے پورے جنوب ایشیائی خطے کے کروڑوں عوام مصائب جھیل رہے ہیں اور ان کی ترقی کا راستہ مسدود ہوگیا ہے۔ تنازعہ کشمیر کا عوامی خواہشات کے مطابق حل نکالا جاتا ہے، تو یہ نہ صرف کشمیریوں کے لیے بلکہ پورے برصغیر کے لوگوں کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا اور وہ ایک پُرامن اور خوش گوار ماحول میں سانس لینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

یہ چند حروف کا کلمہ ، ایک انقلابی مشن اور پروگرام کا عنوان اور دیباچہ ہے۔ لاالٰہ تمام معبودانِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ ہے، یعنی نفس، غلط رسم ورواج، نظامِ طاغوت، جو انسان پر اپنی بندگی اور فرماں برداری کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ انسان میں جو خواہشِ نفس رکھی گئی ہے سب سے پہلے وہ مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کو خوش رکھا جائے۔ اُس کا ہر مطالبہ صحیح ہو یا غلط پورا کیا جائے۔ کسی قید اور پابندی کے بغیر جو کچھ وہ چاہے اُس کو بلا چوں وچرا قبول کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہ نفسِ امّارہ ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے:

اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (یوسف۱۲: ۵۳) نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے، الا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو۔ بے شک میرا رب بڑا غفور ورحیم ہے۔

انسان جب نفس کی تابع داری کرتا ہے تو وہ نفس کو الٰہ تسلیم کرتا ہے۔ چاہے وہ زبان سے ایسا نہ کہے اور لاالٰہ دہراتا رہے۔ لیکن اصل اعتبار عمل کا ہے۔ چنانچہ جن انسانوں نے دُنیا کی زندگی میں خواہشات نفس کی پیروی کی ہو، وہ جب آخرت میں شفیع المذ نبین صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کی درخواست کریں گے تو اﷲ تعالیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے خطاب فرمائے گا:

اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـھَہُ ھَوٰہُ ط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًاo (الفرقان ۲۵: ۴۳) کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنالیا ہو۔ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو۔

خواہشِ نفس کو خدا بنالینے سے مراد اُس کی بندگی کرنا ہے اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بُت کو پوجنا، یا کسی مخلوق کو معبود بنانا۔ حضرتِ ابوامامہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آسمان کے نیچے اﷲ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جارہے ہیں، اُن میں اﷲ کے نزدیک  بدترین معبود خواہشِ نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہو۔ (تفہیم القرآن: ج ۳، ص۴۵۲- ۴۵۳)

اس کے بعد آبا واجداد کی پیروی یہ دیکھے بغیر کہ وہ اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے اور طرزِ عمل کے مطابق ہے کہ نہیں، الٰہ کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ تیسرے مرحلے پر اﷲ کے باغی اور سرکش بندے آتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار، قوت، حکومت، فوج، پولیس، ذرائع تبلیغ، زندگی کی ضرورتیں، تعمیری کام، نظامِ تعلیم، سیاست، معیشت، تہذیب، ثقافت، تمدن سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل اختیار کرتے ہیں کہ لوگ اُن کے احکامات کی اطاعت اور پیروی کریں۔ جو لوگ لاالٰہ تو پڑھتے ہیں مگر زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں ان تینوں معبودانِ باطل کی پیروی کرتے ہیں، اُن کا لاالٰہ پڑھنا محض چند الفاظ کا دہرانا ہے اور کچھ نہیں۔ انھی حقائق کی طرف حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ان اشعار میں اُمت کی توجہ مبذول کی ہے:

نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لَا جلال اِلاَّ جمال
لَا وَ اِلاَّ احتسابِ کائنات
لاَ وَ اِلاَّ فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نون
حرکت از لا زاید از اِلاَّ سکوں
تانہ رمزِ لا اِلٰہ آید بدست
بندِ غیراﷲ را نتواں شکست
درجہاں آغازِ کار از حرفِ لا ست
ایں نخستیں منزلِ مردِ خداست
ملتے کز سوزِ اُو یک دم تپید
از گِل خود خویش را باز آفرید
پیشِ غیراﷲ لا گفتن حیات
تازہ از ہنگامۂ اُو کائنات
از جنونش ہر گریباں چاک نیست
در خورِ ایں شعلہ ہر خاشاک نیست
جذبۂ اُو در دلِ یک زندہ مرد
می کند صد رہ نشیں را رہ نورد
بندہ را با خواجہ خواہی درستیز؟
تخمِ لا درمُشتِ خاکِ او بریز
ہر کرا ایں سوز باشد درجگر
ہولش از ہولِ قیامت بیش تر
لاَ مقامِ ضرب ہاے پے بہ پے
ایں غوِرعد است نے آوازِ نے
ضربِ اُو ہر بُود را سازد نبود
تا بروں آئی ز گرِدابِ وجود

[پس چہ باید کرد] 

میں آپ کو مردانِ حال کے بارے میں کچھ بتاؤں گا [مردانِ حال سے مراد، اﷲ وحدہٗ لاشریک کی معرفت حقیقی کے امانت دار]۔ اُمتوں کے لیے لا کہنا اور اقرار کرنا، شوکت وعظمت کی دلیل اور آغاز ہے۔ پھر اﷲ واحد کو دیکھنے کا اقرار اُن کے لیے سکونِ قلب اور امن وآشتی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ لا اور اِلاَّ دونوں مل کر پوری کائنات کا احتساب ہے۔ لاالٰہ شعور کی بیداری کے ساتھ کہا جائے تو پوری کائنات کو مسخر کرنے کا آغاز ہوتا ہے۔ دونوں لا اور اِلاَّ کاف و نون سے وجود پذیر ہونے والی دُنیا کی تقدیر ہے۔ اشارہ ہے لفظ کُن، فیکون، ہم نے کہا ہوجا اور دُنیا وجود میں آگئی۔ لا کہنے سے انقلاب کی حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور اِلاَّ سے سکون وجود پاتا ہے۔ جب تک انسان کو لا الٰہ کا اصل مفہوم، مدعا، مقصد اور راز معلوم نہ ہوجائے وہ ماسوا اﷲ کی قید،   بندشوں اور غلامی کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔ دُنیا میں انقلاب لانے کا آغاز صرف لا کے اعلان سے ہوتا ہے۔ معبوددانِ باطل کے خلاف اعلانِ جنگ لا ہے۔ اﷲ کے مخلص اور یکسو بندوں کے لیے انقلاب لانے کی یہ پہلی منزل ہے۔

وہ ملت جو لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کے سوز سے تپش محسوس کرتی ہے، وہ آب وگل کے وجود سے اپنے حقیقی وجود کی بازیافت کرتی ہے، یعنی شعور کی بیداری کے ساتھ لا الٰہ کا اعلان اُس کو    اپنے اصل منصب اور مقام کی شناخت پیدا کرتا ہے۔ اﷲ کی بندگی اور حاکمیت کے مقابلے میں معبودانِ باطل کے سامنے لا کا نعرہ اور اعلان اصل زندگی اور حیات ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ہنگامہ اور انقلاب پیدا ہوگا، وہ پوری کائنات کی زندگی اور حیات ہے۔ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا انقلابی نعرہ بلند کرنا ہر ایک کے نصیب کی بات نہیں ہے۔ خس وخاشاک کا ہر ذرہ اور تنکا اس انقلابی شعلے کے اہل نہیں ہوسکتا ہے    ؎

ایں سعادت بزور باز و نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا جذبہ اور جنون اگر ایک زندہ مرد کے دل میں موج زن ہوجائے،     وہ سیکڑوں راہ نشینوں کو سرگرم سفر بناسکتا ہے    ؎

آگ اُس کی پھونک دیتی ہے برنا وپیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں

[ضربِ کلیم]  

کیا تم غلاموں کو جابر اور ظالم حکمرانوں اور آقائوں کے خلاف برسرپیکار بنا دینا چاہتے ہو؟ اُن کی مشتِ خاک میں لا الٰہ کے بیج بو دو [اس کے بغیر اُن میں حقیقی اور پاے دار انقلاب کا ولولہ اور شوق پیدا نہیں ہوسکتا۔ لا الٰہ کی بنیاد کے بغیر جو بھی انقلاب لائیں گے، وہ صرف آقاؤں کے ہاتھ اور چہرے بدلنے کا انقلاب ہوگا۔ بندوں کی غلامی سے نکل کر ایک اﷲ کی بندگی کا قلادہ گردن میں نہیں ہوگا]۔ جس انسان کے جگر اور دل میں لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا سوز اور ولولہ پیدا ہوگا، اس کا ہول، ہنگامہ اور تَہ وبالا قیامت سے بھی زیادہ ہوگا۔ لا، پے بہ پے ضرب لگانے کا مقام ہے۔ یہ نہیں کہ ایک باطل الٰہ کے خلاف، ایک دفعہ آپ نے لا کا نعرہ لگایا اور بس! نہیں، یہ مسلسل اور تواتر کے ساتھ کرنے کا کام ہے۔ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا نعرہ بجلی کا کڑکا ہے۔ یہ بانسری کی آواز نہیں ہے   ؎

ضربتِ پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رُو

[ارمغانِ حجاز]   

غوِّ ر عد پر مولانا الطاف حسین حالی کی مُسدس کے یہ اشعار حسبِ حال ہیں:

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی

پڑا ہر طرف غل یہ پیغامِ حق سے
کہ گونج اُٹھے دشت وجبل نامِ حق سے

لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کی ضرب ہر باطل بود کو نابود بنادیتی ہے اور اسی نعرے کی برکت سے انسان باطل معبودوں کے گرداب سے نجات حاصل کرلیتا ہے:

باتو مے گویم ز ایّامِ عرب
تا بدانی پُختہ و خامِ عرب

ریز ریز از ضربِ اُو لات و منات
در جہات آزاد از بندِ جہات

ہر قبائے کہنہ چاک از دستِ اُو
قیصر وکسریٰ ہلاک از دستِ اُو

گاہ دشت از برق و بارانش بدرد
گاہ بحر از زورِ طوفانش بدرد

عالمے در آتشِ اُو مثلِ خس
ایں ہمہ ہنگامۂ لا بود و بس

اندریں دیرِ کہن پیہم تپید
تاجہانے تازۂ آمد پدید

بانگِ حق از صبح خیز یہائے اوست
ہر چہ ہست از تخم ریز یہائے اوست

اینکہ شمعِ لالہ روشن کردہ اند
از کنارِ جوے اُو آوردہ اند

لَوحِ دل از نقشِ غیر اﷲ شُست
از کفِ خاکش دو صد ہنگامہ رُست

[پس چہ باید کرد] 

میں آپ کو عرب کی تاریخِ بتاؤں گا تاکہ تم عرب کے لوگوں میں سے کچے اور پختہ لوگوں کے کردار کو جان سکو۔ عربوں سے جان پہچان اس لیے ضروری ہے کہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کے وارث تھے جن کو آخری رسولؐ کی وساطت سے اس انقلابی پیغام کا وارث بنایا گیا۔ انھوں نے جس خلوص اور یکسوئی کے ساتھ رسولؐ اﷲ کو یہ انقلابی پیغام پھیلانے، عام کرنے اور غالب کرنے میں مال، جان اولاد، اعزہ و اقربا اور قلب وذہن کی بھرپور آمادگی کے ساتھ تعاون دیا، وہ اسلامی تاریخ کازرّیں اور بے مثال باب ہے۔ ان لوگوں نے کسی بھی آزمایش اور معرکہ آرائی کے مرحلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتیوں کی طرح یہ نہیں کہا:

فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنo (المائدہ ۵:۲۴) آپ اور  آپ کا ربّ جائیں اور ان دشمنوں کے ساتھ لڑیں۔ ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کریں گے۔

جنگ بدر کے موقع پر جب ایک طرف قریش کا تجارتی قافلہ آرہا تھا اور دوسری طرف مکہ سے قریش کا لشکر چلا آرہا تھا، تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے جاننا چاہا کہ قافلہ اور قریش میں سے کس طرف یہ لوگ جانا چاہتے ہیں۔ آپؐ کے پوچھنے پر سب سے پہلے مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن عمروؓ نے اُٹھ کر کہا:

یا رسولؐ اﷲ! جدھر آپؐ کا ربّ آپؐ کو حکم دے رہا ہے اُسی طرف چلیے۔ ہم آپؐکے ساتھ ہیں۔ جس طرف بھی آپؐ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمھارا خدا دونوں لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں، ہم کہتے ہیں کہ چلیے آپؐ اور آپؐ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپؐ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک کہ ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کررہی ہے۔

مہاجرین کا عندیہ دیکھ کر آپؐ نے انصار کی طرف رُخ فرمایا۔ انصار اب تک کسی معرکہ آرائی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ انصاری حضرت سعد بن معاذؓ اُٹھے اور انھوں نے عرض کیا شاید حضوؐر کا روے سخن ہماری طرف ہے؟ فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا:

ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں، آپؐ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپؐ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپؐ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اﷲ کے رسولؐ جو کچھ آپؐ نے ارادہ فرمالیا ہے اُسے کر گزریے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اگر آپؐ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اُس میں اُتر جائیں تو ہم آپؐ کے ساتھ کودیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپؐ کل ہمیں لے کر دشمن سے جابھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے، مقابلے میں سچی جان نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اﷲ آپؐ  کو   ہم سے وہ کچھ دِکھوادے جسے دیکھ کر آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اﷲ کی برکت کے بھروسے پر آپؐ ہمیں لے چلیں۔(تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۲۴، ۱۲۵)

یہ اقتباسات میں نے تفہیم القرآن جلد دوم، سورۂ انفال کے دیباچے سے صرف اس لیے نقل کیے ہیں، تاکہ علامہ مرحوم نے عربوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار اپنے اشعار میں کیا ہے، اُس کے پس منظر سے ہم آگاہ ہوجائیں اور اس حقیقت کا ادراک کریں کہ نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم فداہُ ابّی و اُمّی کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے سرفروشوں کی وہ جماعت عطا کی تھی، جو   اپنے وعدوں اور قول وقرار کی پابند تھی اور جس چیز کو وہ حق سمجھ چکے تھے اُس پر اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ جانِ عزیز تک قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ اِنھی لوگوں کے ایثار، قربانیوں، جان نثاریوں اور سرفروشیوں کی برکت سے اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ حالانکہ وہ تعداد میں زیادہ نہ تھے۔ معرکہ بدر میں ایک اور تین کی نسبت تھی، مگر وہ موت کے خوف سے بالاتر ہوکر نکلے اور اﷲ تعالیٰ نے فی الواقع رسولِؐ رحمت کو وہ کچھ دکھایا، جن سے آپؐ کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوئی۔

آج مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ۶۰ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے، مگر آج کا مسلمان حُبِ دُنیا اور کراہیت الموت کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ پوری دُنیا میں غلامی، ذلت، اِدبار، محکومیت اور مظلومیت کا شکار ہے۔ جب تک آج کے مسلمانوں میں دورِاوّل کے مسلمانوں کی طرح اسلام کے احیا اور غلبے کے لیے سرفروشی کا جذبہ پیدا نہ ہوجائے، وہ اس پستی اور ذلت کی زندگی سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ نہ ملت دنیوی اور اُخروی فلاح سے ہم کنار ہوگی اور نہ  بنی نوع انسان سامراجی قوتوں کے پنجۂ استبداد سے نجات حاصل کرسکے گی    ؎

غیرِ حق چوں ناہی و آمر شود
زور ور بر ناتواں قاہر شود

[جاوید نامہ]   

عربوں نے جب لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا کلمہ شعور کی بیداری کے ساتھ پڑھا، اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ڈھانچا تشکیل دیا تو اُن کی ضربِ پیہم سے لات اور منات کے بُت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ ملک کی حدود میں رہتے ہوئے بھی وہ آفاقی اور ہمہ جہت  بن گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے پرانی قبائیں اور عبائیں چاک ہوگئیں، نیز جاہلانہ رسم و رواج اور سماجی بندھنوں کے تاروپود بکھر کر رہ گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے قیصر وکسریٰ کی سامراجیت اور    ظلم و سفاکیت ختم ہوگئی۔ اُن کی بجلیوں سے کبھی دشت لرز اُٹھے اور کبھی سمندر اُن کے طوفانوں سے تلاطم خیز بن گئے۔ پوری دُنیا اُن کے ایمان ویقین کی آگ میں گھاس کے تنکوں کی طرح بھسم ہوکر رہ گئی۔ یہ سب کچھ کلمہ لا الٰہ کی تاثیر اور پیغام کی وسعت و گہرائی تھی اور کچھ نہیں!

اس پرانی دُنیا میں وہ مسلسل سرگرمِ عمل رہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنے نظریۂ حیات کے مطابق نئی دُنیا تعمیر کی۔ حق وصداقت کی آواز اُن کی سحر خیزیوں کی برکت سے ہے۔ جوکچھ ہم ایمان وعمل کے نظارے اور مناظر دیکھ رہے ہیں، یہ اُنھی کی تخم ریزی کے نتائج اور ثمرات ہیں۔ انھوں نے گلِ لالہ کی شمع روشن کی، یعنی کلمہ توحید کا نعرہ بلند کیا اور گردوپیش کی دُنیا کو اُس کی آبجو کے کنارے پر جمع کردیا۔ انھوں نے دل کی تختیوں سے ماسوا اﷲ کے، دیگر تمام نقش دھوڈالے۔ اُن کی کفِ خاک سے سیکڑوں ہنگامے اور واردات وجود پاگئے:

ہم چناں بینی کہ در دورِ فرنگ
بندگی باخواجگی آمد بجنگ

روس را قلب و جگر گردیدہ خوں
از ضمیرش حرفِ لاَ آمد بروں

آں نظامِ کہنہ را برہم زدست
تیز نیشے بررگِ عالم زِداست

کردہ ام اندر مقاماتش نگہ
لاَ سلاطیں، لاَ کلیسا، لاَ الٰہ

فکرِ اُو در تُند بادِ لاَ بماند
مرکبِ خود را سوئے اِلاَّ نراند

آیدش روزے کہ از زورِ جنوں
خویش را زیں تند باد آرد بروں

درمقامِ لاَ نیاساید حیات
سُوے اِلاََّ می خرامد کائنات

لاَ و اِلاَّ ساز و برگِ اُمتّاں
نفی بے اثبات مرگِ اُمتّاں

در محبت پختہ کے گردد خلیلؑ
تا نگردد لاَ سوئے اِلاَّ دلیل

اے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن
نعرئہ لاَ پیش نمرودے بزن

ایں کہ می بینی نیر زد باد و جَو
از جلالِ لاَ اِلٰہ آگاہ شو

ہرکہ اندر دستِ او شمشیرِ لاَ ست
جملہ موجودات را فرمانرواست

[پس چہ باید کرد] 

ایسا ہی کچھ تم دیکھ رہے ہو کہ انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بندگی نے خواجگی کے ساتھ معرکہ آرائی اور جنگ شروع کردی۔ روس کے لوگوں میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔ دل وجگر خون میں لت پت ہوگئے۔ اُن کے دلوں سے لا کا نعرہ بلند ہُوا۔ لا کا مطلب یہ تھا کہ پرانا  نظامِ زندگی، جو شاہی اور خاندانی راج کی شکل میں تھا، اُس کو درہم برہم کردیا گیا۔ عالمی سطح پر انھوں نے خنجر سے انقلاب لانے کا آغاز کیا۔ ان اشعار میں علامہ محمد اقبال مرحوم نے روس میں ۱۹۱۷ء میں کمیونزم انقلاب کی طرف اشارہ کیا تھا۔ میں نے جب انقلاب کے اندر جھانکنے کی کوشش کی کہ اس کی روح اور بنیادی ستون کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اس نظام میں کوئی بادشاہت یا کوئی مذہب اور کوئی الٰہ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ گویا اس سرخ انقلاب کی بنیاد الحاد ہے۔ اس انقلاب کے فکر اور فلسفے نے نفی کی تیز ہواؤں میں پناہ لی۔ یہ اپنی سواری لا سے اِلاَّ اﷲ کی طرف نہ لے جاسکا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ کوئی دن ضرور آئے گا کہ یہ سرخ انقلاب اپنے زور جنون سے یا خود کو اس تیز ہوا کی گرفت سے باہر نکالے گا۔ اس لیے کہ لا، یعنی نفی الحاد کا فلسفہ اور نظریۂ حیات کائنات کو امن وسکون نہیں    دے سکتا ہے۔

کائنات دھیرے دھیرے اِلاَّ اﷲ کی زندہ حقیقت کی طرف گام زن ہے جو واحد نظام ہے۔ یہ امن وآشتی، عدل وانصاف، انسانی اور اخلاقی اقدار کا محافظ اور امانت دار نظام ہے۔ لا اور اِلاَّ اُمتوں کے لیے سامانِ زیست ہے۔ اِلاَّ اﷲ کے بغیر محض لا پر فلسفۂ زندگی کی بنیاد رکھنا امتوں کے لیے موت کا پیغام ہے، جیسا کہ آج کی دُنیا میں دیکھا جارہا ہے کہ لا دینیت کے نام پر کس طرح قوموں، ملکوں اور عام انسانوں کو طاقت کے بل بوتے پر غلام بناکر اُن کے بنیادی حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔ بم برسائے جارہے ہیں۔ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، میزائل اور ہلاکت آفرین ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور سب کچھ امن، ترقی، جمہوریت اور آزادی کے نام پر کیا جارہا ہے۔ یہ ساری دَین ’لا‘ کے فلسفۂ زندگی کی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اُن کی محبت اور وابستگی کیسے پختہ اور مستحکم ہوسکتی تھی، اگر نفی سے وہ اثبات کی طرف رہنمائی حاصل نہ کرلیتے، یعنی جب انھوں نے تاروں، چاند اور آفتاب کی ربوبیت سے انکار کیا تو لَا کے تقاضے پورے ہوگئے۔ اگر وہ یہاں ہی رُک جاتے تو اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور اُس کی حاکمیت اور معبودیت کا ادراک اور یقین اُن کو کیسے حاصل ہوجاتا۔ چنانچہ انھوں نے مظاہر کائنات کی آقائیت سے انکار کرکے اعلان کیا:

اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (الانعام ۶:۷۹) میں اپنا رُخ اُس ذاتِ اقدس کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین اور آسمان کو وجود بخشا ہے۔ میں یکسو ہوکر اُس کا بندہ ہوں۔ میں اُس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتا ہوں۔

علامہ محمد اقبال مرحوم لا سے اِلاَّ اﷲ  کی طرف ذہناً اور عملاً بڑھنا ہی ملت کی زندگی اور   بقا کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔ اب وہ لاالٰہ کہنے والے مسلمان سے فرماتے ہیں: اے حجروں، مسجدوں اور خانقاہوں میں سخن سازی کرنے والے مسلمان! تیرا فریضہ تو یہ ہے کہ تو وقت کے نمرودوں کے خلاف نعرہ ’لا‘ بلند کر۔ یہ نہیں کہ وقت کے فرعونوں، نمرودوں، ہامانوں اور یزیدوں کے ساتھ تو ساز باز کرکے، خلوت گاہوں میں بیٹھ کر لا الٰہ کی تسبیحات جپتا رہے تاکہ وقت کے طاغوت کے ساتھ تیری معرکہ آرائی نہ ہو۔ جب تک لا الٰہ کہنے والا، وقت کے نظامِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ بلند نہ کرے، وہ لا الٰہ کہنے میں مخلص اور یکسو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال تم کو یہ حقیقت سمجھاتے ہیں کہ جس دُنیا پر تو فریفتہ ہورہا ہے، تیرے دین، ایمان، یقین اور مقصدِ آخرت کے مقابلے میں اس کی قیمت جَو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ کاش! تو.ُ  لا الٰہ کے جلال اور سطوت ودبدبے سے آگاہ ہو جائے۔

جس فرد کے ہاتھ میں ’لا‘ کی شمشیر اور تلوار ہے، وہ ساری کائنات میں فرماں روائی کا مقام حاصل کرسکتا ہے، مگر:

اے لا الٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ ، کردارِ قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل، سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ

[بالِ جبریل]